’’نئی نسل کی صلاحیتوں کو کیسے نکھارا جائے‘‘ بجا طور پر یہ ہماری عقل و دانش کا امتحان ہے۔ کیونکہ جس دور میں ہم جی رہے ہیں وہ سائنسی تحقیق کے ان گنت اور بیش بہا کرشمات سے یوں مزین ہے کہ ہمارے علاوہ ہماری نسلِ نو بھی ان سے از حد فیض یاب ہورہی ہے اور تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ نسلِ نو ان سائنسی کرشمات سے استفادہ کے ساتھ کسی حد تک منفی اثرات کا شکار بھی ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ نسلِ نو کی صلاحیتیں نکھر سکیں تو لازم ہے کہ ان کے لیے معیاری ادب کی فراہمی کے ساتھ کتب تک رسائی بھی ممکن بنائی جائے۔ ایسا نہ ہو کہ اپنے تعلیمی اخراجات سے پریشان حال نوجوان مہنگی کتب کو محض حسرت سے دیکھتا ہی رہ جائے۔ متوازن شخصی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں کو جدید تقاضوں کے مطابق ترتیب دیا جائے
حضرت علی کا فرمانِ عالی شان ہے کہ ’’ہر نئی نسل پہلوں سے بہتر ہوا کرتی ہے‘‘۔ اِس امر کے اعتراف میں کوئی قباحت نہیں کہ عصرِ حاضر کی نسلِ نو بے حد ذہین ہے اور فطانت کی وہ اوجِ سلیم جو ہمارے گمان میں نہ تھی وہ ان ہونہاروں کو میسر ہے۔ اسی لیے ان کی شخصیت کی تربیت و پرداخت اور ان کی تفریح طبع کو کسی معیار کے تابع کر پانا ایسا آسان نہیں جیسا کہ کبھی ہمارے آباء کو میسر تھا۔ حضرت اقبال فرماتے ہیں:
آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اڑنا
منزلِ کٹھن یہی ہے قوموں کی زندگی میں
امرِ یقینی ہے کہ اگر ہم نسلِ نو کی صلاحیتوں کو نکھارنا چاہتے ہیں تو اس خلیج کو کم کرنا ہوگا جو دانستہ یا نادانستہ طور پر ہمارے اور نسل نو کے درمیان حائل ہے۔ مشاہدہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس خلیج کے اسباب میں سب سے نمایاں سبب جدید آلات کے استعمال سے وہ ناآشنائی ہے جو ہمیں نسل نو کے جدید رجحانات سے دور رکھتی ہے۔ ایک جانب انٹرنیٹ کے بڑھتے ہوئے استعمال نے ہمارے ہونہاروں کو ہر قسم کے علم تک ایسی رسائی فراہم کردی ہے کہ جو خیر و شر کی تمام سرحدوں کو عبور کرتی محسوس ہوتی ہے۔ قابل غور امر یہ ہے کہ اگر ہم اس بگاڑ کو دیکھتے ہوئے بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر جدید آلات کے استعمال پر پابندی لگانے کی کوشش کریں گے تو سوائے ناکامی کے کوئی نتیجہ اخذ نہ ہوگا۔ لیکن دوسری جانب اگر ہم عصر حاضر کے نوجوانوں میں ایسا ذوق پیدا کردیں کہ وہ خود خیر اور شر کے پیمانوں میں اپنے لیے مثبت فیصلے کرسکیں اور جدید سہولیات اور انٹرنیٹ کے استعمال کو انفرادی اور قومی ترقی کا ضامن بنالیں تو خاطر خواہ نتائج مرتب ہوں گے۔
مذکورہ نتائج کے حصول کے لیے اگر لائحہ عمل بنایا جائے تو سرِ فہرست ’’مطالعہ‘‘ کی عادت کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی سطح پر دیکھا جاتا ہے کہ ترقی یافتہ اقوام کے مثبت رجحانات میں نمایاں ترین رجحان کثرتِ مطالعہ ہوتا ہے۔ یوں ہم جیسے ترقی پذیر ممالک میں اگر نسل نو کی صلاحیتوںکو ابھارنے کا سوال سامنے آئے تو مطالعہ کی مفید عادت کا فروغ اس کی پہلی کڑی ہونی چاہئے اور اگلا مرحلہ مفید کتب کی اشاعت ہے۔ یہاں یہ امر قابل توجہ ہے کہ عصر حاضر کے جدید رجحانات کے مطابق نسلِ نو کی شخصی تعمیر کے لیے پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی دسترس حاصل کرنا ضروری ہے۔
اگر ہم عصر حاضر کے نوجوانوں میں ایسا ذوق پیدا کردیں کہ وہ خود خیر اور شر کے پیمانوں میں اپنے لیے مثبت فیصلے کرسکیں اور جدید سہولیات اور انٹرنیٹ کے استعمال کو انفرادی اور قومی ترقی کا ضامن بنالیں تو خاطر خواہ نتائج مرتب ہوں گے
گفتگو کا وہ ہنر جو کبھی ادنیٰ و اعلیٰ کی پہچان ہوا کرتا تھا اب ’’گلوبل ویلج‘‘ کے نعرہ مستانہ میں اس طرح ضم ہوتا جارہا ہے کہ زبان و ادب کی وہ شیرینی، نفاست اور سحر انگیزی جو ماضی کا خاصہ تھی، اب خال ہی نظر آتی ہے۔
ادب کا فروغ نسلِ نو کی صلاحیتوں کو ابھارنے کا موثر ذریعہ ہے۔ بلاشبہ ادب نئی نسل کی سوچ کو مثبت زاویے عطا کرنے اور ان کے مزاج کو پرامن اور صلح جُو بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
علاوہ ازیں فنونِ لطیفہ کے دیگر شعبہ جات سے منسلک ہنرمندوں کی تعمیری سوچ بھی نئی نسل کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے اور ان فنی صلاحیتوں کو اگر تعلیمی نصاب کی صورت میں پیش کرکے فرزندانِ شوق کو اپنے ہنر کو تابش کرنے کا موقع دیا جائے تو بہتری کی امید ہے۔
بغور مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ دورِ حاضر کا نوجوان تفریحِ طبع کے لیے سب سے زیادہ سوشل میڈیا کو استعمال کرتا ہے۔ آج کے سوشل میڈیا پر غائرانہ نگاہ ڈالیں تو یہ تین ادوار میں تقسیم معلوم ہوتا ہے۔
2012ء کے بعد انقلابی قدم کے طور پر تھری جی کے آنے سے انٹرنیٹ میں آنے والی تیزی نے ہمارے نوجوانوں کو معلومات کے ایک سیلاب کے سامنے لاکھڑا کیا اور پھرجب فور جی اور فائیو جی متعارف ہوگیا تو یہ سیلِ رواں اس بات کا تقاضا کرنے لگا ہے کہ سوشل میڈیا کے اس طاقت ور ذریعہ کو نسلِ نو کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔
لہذا شائع ہونے والی کتب ہی کی مانند، ویب سائٹس پر متعارف ہوتے ہوئے ’’بلاگ‘‘ اور ان کے لکھاری اس میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں اور یوں مہینوں، دنوں اور گھنٹوں کی بجائے چند منٹوں میں ہم نوجوانوں کی راہنمائی اور اصلاح کا فریضہ سرانجام دے سکتے ہیں۔ انسٹا گرام، ٹوئٹر، یوٹیوب ان سب ذرائع کے استعمال کو مثبت بنانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہمارا آج کا نوجوان کسی ایسی سوچ کو اختیار نہ کرے جو اس کی پوشیدہ صلاحیتوں کے مثبت اظہار میں رکاوٹ بن جائے۔
حالیہ دور سے ہی ایک مثال پیشِ خدمت ہے۔ ایک نوجوان مزاح پر مبنی ایک یوٹیوب چینل چلارہا ہے۔ مزاح کے مذکورہ انداز کو عرفِ عام میں ’’پربینک‘‘ کہا جارہا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق اس کم عمر جوان کے چینل کے سبکرائبرز ملینز ہیں اور ان میں زیادہ تر افراد کی عمریں 16 سے 19 سال ہیں۔ اگر یہی ذریعہ کسی تربیتی و اخلاقی معیار کے مطابق نوجوانوں کی صلاحیتوں کو مثبت نکھار دے اور اُن کی فنی صلاحیتوں کے فروغ میں مددگار معلومات فراہم کرے تو کس قدر سرعت کے ساتھ معاشرتی اصلاح اور معاشی مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اگر اس جانب توجہ نہ کی گئی تو مذاق کی وہ صورتیں جو قیمتی جانوں کے نقصان کا باعث بنتی ہیں موجود رہیں گی۔
کیوں نہ اس نسل نو کو ہم ولوگس دیں۔ بک ریویوز کی طرف لے کر جائیں، باہمی مذاکراتی نشستوں کے ذریعے ان کو تکنیکی صلاحیتوں کے فروغ کی جانب لے کر جائیں۔ اکبر الہ آبادی نے کہا:
وہ باتیں جن سے قومیں ہورہی ہیں نامور سیکھو
اٹھو تہذیب سیکھو، صنعتیں سیکھو، ہنر سیکھو
بڑھاؤ تجربے اطرافِ دنیا میں، سفر سیکھو
خواصِ خشک و تر سیکھو، علومِ بحر و بَر سیکھو
عصر حاضر کا ایک المیہ یہ ہے کہ اس عہد کے نوجوان کو امتحانی نتائج میں نمبروں کی دوڑ نے ایسا الجھا دیا ہے کہ اچھا خاصہ ڈگری یافتہ جوان مخصوص شعبہ کے علاوہ دیگر شعبہ ہائے زندگی کی کوئی مہارت نہیں رکھتا۔ اخلاقیات کے وہ درس جو ہم نصابی سرگرمیوں کا خاصہ ہوا کرتے تھے اب ہمارے تعلیمی نظام میں مفقود ہوتے جارہے ہیں۔
ادب کا فروغ نسلِ نو کی صلاحیتوں کو ابھارنے کا موثر ذریعہ ہے۔ بلاشبہ ادب نئی نسل کی سوچ کو مثبت زاویے عطا کرنے اور ان کے مزاج کو پرامن اور صلح جُو بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے
ہنسنے اور رونے کی وہ تمیز جو انسان کو اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کرتی ہے، اقبال کہ وہ نِگہ بلند جو مردِ مومن کی شان اور میرِ کارواں کا رختِ سفر ہے، اب سائنٹفک نوٹس اور رٹا سسٹم کی بھینٹ چڑھ رہی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ نسلِ نو کی صلاحیتیں نکھر سکیں تو لازم ہے کہ ان کے لیے معیاری ادب کی فراہمی کے ساتھ کتب تک رسائی بھی ممکن بنائی جائے۔ ایسا نہ ہو کہ اپنے تعلیمی اخراجات سے پریشان حال نوجوان مہنگی کتب کو محض حسرت سے دیکھتا ہی رہ جائے۔ متوازن شخصی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں کو جدید تقاضوں کے مطابق ترتیب دیا جائے اور ہم نسل نو کی ذہانت و فطانت کو محض میڈیکل یا انجینئرنگ کے شعبہ جات تک محدود کرکے ان پر ظلم کرنے کے مرتکب نہ ہوں۔ کہ حضرتِ اقبال کیا خوب کہہ گئے:
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اُن کو اپنی منزل آسمانوں میں
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں