سوال: ہنسی مذاق اور شرارت میں دی گئی تکلیف کا کیا حکم ہے؟
جواب:دینِ اسلام فطری دین ہے، جس نے انسان کی فطری خواہش کے عین مطابق حدود و قیود کے ساتھ ہنسی مزاح کی اجازت دی ہے۔ مزاح، زندہ دلی و خوش طبعی انسانی زندگی کا ایک خوش کن عنصر ہے، اور جس طرح اس کا حد سے متجاوز ہو جانا نازیبا اور مضر ہے، اسی طرح اس لطیف احساس سے آدمی کا بالکل خالی ہونا بھی ایک نقص ہے۔ جو بسا اوقات انسان کو خشک بنا دیتا ہے۔ بسا اوقات ہمجولیوں اور ہمنشینوں اور ماتحتوں کے ساتھ لطیف ظرافت و مزاح کا برتاؤ ان کے لیے بےپناہ مسرت کے حصول کا ذریعہ اور بعض اوقات عزت افزائی کا باعث بھی ہوتا ہے۔ مزاح انسانی فطرت کا لازمہ ہے اور اس کے جواز پر بےشمار دلائل موجود ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بھی مزاح فرماتے تھے لیکن آپ کا مزاح بھی ایسا ہوتا کہ جس میں نا تو جھوٹ ہوتا تھا اور نا اس سے کسی کی دل آزاری ہوتی۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ مختلف مواقع پر آپ نے خوش طبعی اور مزاح فرمایا ہے، خشک مزاجی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسند نہیں تھی، آپ نہیں چاہتے تھے کہ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے مزاج و طبیعت کو ہمیشہ خشک اور بے لذّت بنائے رکھیں۔ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی کبھار اپنے جاں نثاروں اور نیاز مندوں سے مزاح فرماتے تھے اور یہ ان کے ساتھ آپ کی نہایت لذت بخش شفقت ہوتی تھی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مزاح بھی نہایت لطیف اور حکیمانہ ہوتا تھا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنِّي لَا أَقُولُ إِلَّا حَقًّا، قَالَ بَعْضُ أَصْحَابِهِ: فَإِنَّكَ تُدَاعِبُنَا يَا رَسُولَ اللهِ، فَقَالَ: إِنِّي لَا أَقُولُ إِلَّا حَقًّا.
(أحمد بن حنبل، المسند، 2: 340، الرقم: 8462، مصر: مؤسسة قرطبة)
میں حق کے سوا کچھ نہیں کہتا، بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ہم سے مزاح بھی فرماتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں مزاح میں بھی حق بات ہی کہتا ہوں۔
لیکن سوال مسؤولہ کیونکہ مزاح کے جواز و عدمِ جواز کے بارے میں نہیں بلکہ اس کی حدود کے متعلق ہے اس لیے اسی کا جواب زیرِ بحث لاتے ہیں۔
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَومٌ مِّن قَوْمٍ عَسَى أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَى أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيْمَانِ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ.
(الْحُجُرَات، 49: 11)
اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے وہ لوگ اُن (تمسخر کرنے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے وہی عورتیں اُن (مذاق اڑانے والی عورتوں) سے بہتر ہوں، اور نہ آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھا کرو، کسی کے ایمان (لانے) کے بعد اسے فاسق و بدکردار کہنا بہت ہی برا نام ہے، اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں۔
جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزاح کے آداب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
لَا تُمَارِ أَخَاكَ، وَلَا تُمَازِحْهُ، وَلَا تَعِدْهُ مَوْعِدًا فَتُخْلِفَهُ.
(ترمذي، السنن، كتاب: البر والصلة، باب: ما جاء في المراء، 4: 359، الرقم: 1995، بيروت: دار إحياء التراث العربي)
اپنے بھائی کو ہنسی مذاق کر کے ناراض نہ کرو اور اسے اذیت نہ دو، اور نہ اس سے وعدہ کر کے وعدہ خلافی کرو۔
درج بالا آیت و روایت سے معلوم ہوا کہ ایسی دل لگی اور مزاح جس میں کسی دل شکنی اور ایذاء رسانی کا کوئی پہلو نہ ہو اور نہ اس کی نیت ہو تو شریعت میں تفریح طبع کے طور پر اس کی اجازت ہے۔ اس کے برعکس ایسا مزاح جس میں طنز کرنے، مذاق اڑانے، عزتِ نفس مجروح کرنے، فحش گالیاں دینے، فحش گوئی کرنے وغیرہ کی پہلو شامل ہوں‘ شرعِ اسلامی میں ممانعت ہے اور اس کا مرتکب گناہگار ہے۔ اگر کوئی شخص درج بالا ممنوع امور کا مرتکب ہوا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہیے، اس کے مزاح سے جن لوگوں کی دل آزاری ہوئی ہے اگر وہ زندہ ہیں تو ان سے بھی معافی مانگی جائے اور ان میں سے جو فوت ہو چکے ہیں ان کا معاملہ خدا تعالیٰ پر چھوڑ دے۔ آئندہ ایسے مزاح سے اجتناب کرے۔
سوال: کیا عقدِ ثانی کے لیے پہلی بیوی کی اجازت ضروری ہے؟
جواب:شرعی طور پر دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینا ضروری نہیں ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ.
(النِّسَآء، 4: 3)
’’ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں، دو دو اور تین تین اور چار چار (مگر یہ اجازت بشرطِ عدل ہے)‘‘
یہ آیت کریمہ مطلق ہے، اس میں دوسری، تیسری یا چوتھی شادی کے لیے کسی بیوی کی اجازت کی کوئی قید نہیں ہے، تاہم اگر بیویوں کے درمیان انصاف نہ کرسکنے کا اندیشہ ہو تو ایک سے زائد شادی کی اجازت نہیں ہے۔
اگرچہ شرعی طور پر دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینا لازم نہیں ہے‘ تاہم پاکستانی قوانین ’مسلم فیملی لاء آرڈیننس مجریہ 1961‘ کے تحت یہ قانونی تقاضا ہے۔ ’مسلم فیملی لاء‘ کے مطابق پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی قانوناً جرم ہے جس کی سزا 6 ماہ قید اور 2 لاکھ روپے جرمانہ ہے۔ اس لیے مناسب ہے کہ دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے مشاورت و اجازت لی جائے تاکہ قانونی تقاضا بھی پورا ہو جائے اور مستقبل میں کسی قسم کی بدمزگی کا سامنا بھی نہ کرنا پڑے۔
سوال: شوہر نے بیوی کو پیغام (SMS) لکھا جس میں طلاق تحریر کی، پھر مٹا (delete) دیا۔ کیا اس سے کوئی طلاق واقع ہوئی ہے؟ بیوی کو اس سلسلے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔ راہنمائی فرمائیں۔
جواب: جب شوہر نے بقائمِ ہوش و حواس بیوی کو طلاق دی‘ خواہ بیوی کو اس کا علم ہوا یا نہ ہوا‘ طلاق واقع ہو جائے گی۔ شرعِ متین کا اصول یہ ہے کہ:
فَإِنْ كَانَ كَتَبَ: امْرَأَتُهُ طَالِقٌ فَهِيَ طَالِقٌ سَوَاءٌ بَعَثَ الْكِتَابَ إلَيْهَا، أَوْ لَمْ يَبْعَثْ.
(سرخسي، المبسوط، 6: 143، بيروت: دار المعرفة)
اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو طلاق لکھی تو اُسے طلاق(واقع) ہو جائے گی، خواہ تحریر اُس کی طرف بھیجے یا نہ بھیجے برابر ہے۔
اور فتاویٰ عالمگیری میں بیان کیا گیا ہے:
وَلَوْ كَتَبَ الطَّلَاقَ فِي وَسَطِ الْكِتَابِ وَكَتَبَ قَبْلَهُ وَبَعْدَهُ حَوَائِجَ ثُمَّ مَحَا الطَّلَاقَ وَبَعَثَ بِالْكِتَابِ إلَيْهَا وَقَعَ الطَّلَاقُ كَانَ الَّذِي قَبْلَ الطَّلَاقِ أَقَلَّ أَوْ أَكْثَرَ.
(الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوى الهندية، 1: 378، دار الفكر)
اگر خط کے درمیان طلاق لکھی اور اس سے پہلے یا بعد میں ضرورت کی باتیں لکھیں، پھر درمیان سے لفظ طلاق ہٹا دیا اور خط بیوی کو بھیج دیا تو طلاق ہو جائے گی خواہ طلاق سے پہلے کم لکھا یا زیادہ۔
لہٰذا مذکورہ شخص نے پیغام (SMS) میں جتنی طلاقیں لکھی تھیں اتنی ہی واقع ہوگئی ہیں۔ اگر شوہر نے تین طلاق تحریر کی تھیں تو تینوں واقع ہو گئی ہیں۔ اس صورت میں وہ میاں بیوی کے طور پر اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ اگر اکٹھے رہیں گے تو بےخبر ہونے کی وجہ سے بیوی گنہگار نہیں، البتہ شوہر کے کاندھوں پر دونوں کا گناہ ہوگا۔ اگر تین سے کم طلاق تحریر کی تھیں تو شوہر بیوی کو بتا کر دورانِ عدت بغیر نکاح کے اور عدت پوری ہونے پر تجدیدِ نکاح کے ساتھ رجوع کر سکتا ہے۔ دونوں صورتوں میں معاملہ بیوی کے علم میں لایا جانا ضروری ہے۔
سوال: میں ایک وسواس والا انسان ہوں، نئی نئی شادی ھوئی ہے تو طلاق کے وساوس کثرت سے آتے ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا کوئی ارادہ نہیں۔ میں بہت پریشان ہوں۔ ایک دن صبح کے وقت میں بیدار ہوا تو دل میں خیال آیا کہ ’اگر فوراً اٹھ گیا تو بیوی کو طلاق‘ یہ ایک وسوسہ تھا۔ اس کے بعد بیوی کمرے میں آئی اور مجھے اٹھایا تو میں نے اسے کہا کہ پانچ منٹ تک اٹھتا ہوں، لیکن میں اسی وقت اٹھ کر کمرے سے باھر چلاگیا۔ راہنمائی فرمائیں کہ میں نے جو بیوی کو الفاظ کہے تھے وہ پہلے وسوسے سے بچنے کے لیے کیے تھے‘ کیا اس خیال سے طلاق واقع ھوگئی؟ الفاظ بولے کہ پانچ منٹ بعد اٹھتا ہوں لیکن اٹھ فوراً گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ طلاق سے سخت نفرت کرتا ھوں اور دل میں ارادہ بھی نھیں تھا۔
جواب: عقل و نقل اس بات پر متفق ہیں کہ کسی شخص کا مؤاخذہ اس کے خیالات پر نہیں‘ بلکہ عمل پر ہونا چاہیے۔ یہی اصول طلاق کے بارے میں بھی ہے۔ حضرت قتادہؓ کا قول ہے کہ اگر دل میں طلاق کا خیال آیا یا دل میں طلاق دینے کا ارادہ کیا (اور زبان سے کچھ نہ کہا) تو طلاق نہیں ہوئی۔ کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے:
إِنَّ اللهَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَکَلَّمْ.
(بخاري، الصحیح، كتاب الطلاق، باب إذا قال لامرأته وهو مكره هذه أختي فلا شيء عليه، 5: 2020، رقم: 4968، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامة)
الله تعالیٰ نے میری اُمت کے اُن خیالات کو معاف فرمادیا ہے جو دلوں میں پیدا ہوتے ہیں جب تک ان کے مطابق عمل یا کلام نہ کریں۔
اس لیے جب تک زبان سے بول کر یا لکھ کر طلاق نہ دی جائے یا لکھے ہوئے طلاق نامہ کی شوہر تصدیق نہ کرے تب تک طلاق واقع نہیں ہوتی۔ محض طلاق کے خیالات آنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔
مذکورہ واقعہ سے طلاق نہیں ہوئی، لیکن آپ آئندہ ایسے وساوس سے خود کو بچائیں۔ جب بھی ایسا وسوسہ آئے تو تعوذ پڑھیں۔ اس بارے میں بار بار نہ سوچیں۔