ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَقَدْ مَکَّنّٰـکُمْ فِی الْاَرْضِ وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیْھَا مَعَایِشَ.
الاعراف، 7: 10
’’اور بے شک ہم نے تم کو زمین میں تمکّن و تصرّف عطا کیا اور ہم نے اس میں تمہارے لیے اسبابِ معیشت پیدا کیے۔‘‘
اسبابِ معیشت
یہ آیت کریمہ ہر انسان کو اس زمین سے اپنی معیشت کو مضبوط و مستحکم کرنے کے لیے تگ و دو اورمسلسل سعی و جدوجہد کی طرف راغب کرتی ہے۔ ہر انسان کی ذمہ داری اپنے گھر اور اپنے ملک کی معیشت کو سنوارنے کی ہے، اسباب معیشت باری تعالیٰ نے ہر انسان کو عطاکردیئے ہیں۔ حتی کہ دنیا کے ہر خطے میں بسنے والے انسان کو رزق و معیشت اللہ ہی عطا کرتا ہے۔
معیشت اور ضروریاتِ انسانی
اس حوالے سے جدید معاشیات ہمیں یہ کہتی ہے کہ ہر شخص کو اپنی استعداد و صلاحیت کے مطابق کوئی نہ کوئی معاشی سرگرمی لازمی اختیار کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ ہماری نفسانی خواہشات لامحدود ہیں جبکہ ہمارے معاشی وسائل لامحدود ہیں۔ کسی بھی فرد اور کسی بھی ملک کے باشندوں کے لیے مضبوط معیشت وہ ہے جس میں آمدن اور مصارف کے درمیان توازن ہو۔ حتی کہ ان کی آمدن زیادہ ہو اور مصارف کم ہوں۔ آج کی گلوبل ویلج میں صارف خریدنے والے افراد بھی ہیں اور ممالک بھی ہیں اور اسی طرح بیچنے والے افراد بھی ہیں اور ممالک بھی ہیں۔ کوئی صارف ہے تو کوئی دوسرا تاجر ہے۔ اب صارف نے فیصلہ کرنا ہے کہ اپنے وسائل معیشت کو دیکھتے ہوئے کیا وہ خریدے اور کیا نہ خریدے، خود اور اپنے ملک کو ممکن حد تک مقروض نہ کرے اور اگر قرض لینا ناگزیر ہو تو ان آسان شرائط پر لے جن کے مطابق اُس کا اداکرنا اس کے لیے آسان ہو۔
گھر کا حاکم ہو یا ملک کا سربراہ ہو، اپنی دولت کی پیداوار اتنی بڑھادے کہ اس کی تمام تر ضروریات کی تکمیل ہونے لگے، جس چیز کو بیرون ملک سے درآمد کرنا پڑے اس کو اپنے ملک میں پیدا کرنے کے لیے اقدامات کرکے، معاشی منصوبہ بندی کرے، اپنے زرمبادلہ کو زیادہ سے زیادہ بچائے اور اس کو صرف اور صرف ناگزیر چیزوں پر ہی صرف کرے۔ زرمبادلہ کا استعمال ہرگز ہرگز تعیشات پر نہ ہو۔ غرضیکہ ملک کے ہر شعبے کی پیداوار Production کے عمل کو بہت زیادہ بڑھا دینا ضروری ہے۔ جس سے ملک کی نہ صرف اپنی ضروریات پوری ہوں بلکہ اس پیداوار کو دوسرے ملکوں کو برآمد بھی کیا جاسکے۔ یہ عمل ہی کسی حاکم وقت کی اعلیٰ حکومتی کارکردگی ہے۔
آج کی دنیا میں جس بھی قوم کو اعلیٰ ترین حاکم وقت میسر ہوگا وہی قوم ترقی کرے گی اور وہ حاکم وقت ایسا ہو جو اپنے ذہن، صلاحیت، قابلیت اور قائدانہ صفات میں نہ صرف اپنی قوم میں فائق برتر ہو بلکہ کل دنیا کی قیادتوں میں بھی منفرد، بے مثال اور ممتاز ہو تو ایسی قوم ہی اقوام عالم کی صف میں عزت کے ساتھ جی سکے گی اور جس ملک کے حکمرانوں میں اقوام عالم کے حکمرانوں کے مقابل صلاحیتیں اور قابلیتیں پست ہوں گی اس کی سزا پوری قوم کو بھگتنا پڑے گی۔
اسلامی معیشت کا فاروقی منہج
جب ہم تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو عہدِ رسالتمآب ﷺ کے بعد عہد فاروقی میں ہمیں حکومت کے ہر شعبے میں بے مثال ترقی نظر آتی ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے عہد حکومت میں ملک کے ہر ہر باشندے کو معاشی جدوجہد کرنے کا پابند کردیا تھا۔ کسی بھی شخص کو آپ کے عہد میں بے روزگار رہنے اور دوسروں سے بلاعذر مانگنے کی اجازت نہ تھی۔ آپ نماز جیسے مقدس عمل کے بعد بھی کسی کو دیر تک مسجد میں بیٹھنے کی اجازت نہ دیتے تھے بلکہ اس کو پابند کرتے تھے کہ اٹھو اللہ کی زمین میں نکل جاؤ اور اس کی نعمت رزق کو تلاش کرو۔ اس لیے وہ رب ہمیشہ اپنے ماننے والوں کو یہی حکم دیتا ہے:
وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللهِ.
(الجمعۃ، 62: 10)
’’ اور (پھر) اللہ کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرنے لگو۔‘‘
اللہ کا رزق تلاش کرو، تلاش رزق کا عمل ہی انسان کو حصول رزق کی منزل پر پہنچادیتا ہے۔ تلاش رزق کی حضرت عمر فاروقؓ کی یہ نصیحت ہر دور کے مسلمانوں کے لیے ہے اور بطور خاص عصر حاضر کے تمام مسلمانوں کے لیے بھی انتہائی کار آمد ہے اور ان کی نجی معیشت اورملکی معیشت کے استحکام کی بنیاد ہے۔ آپ اس نصیحت کو یوں ارشاد فرماتے ہیں:
’’تم میں سے کوئی بھی شخص طلب رزق کے ذرائع کو چھوڑ کر نہ بیٹھ جائے اور یوں کہتا رہے کہ اے اللہ مجھے رزق عطافرما باوجود اس کے کہ وہ یہ جانتا ہے کہ اللہ آسمان سے سونا اور چاندی نہیں برساتا ہے۔ بلاشبہ اللہ لوگوں میں سے بعض کو بعض کے ذریعے رزق فراہم کرتا ہے۔‘‘
معزز قارئین! حضرت عمر فاروقؓ کا یہ فرمان در حقیقت رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کی تشریح و توضیح ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کے ہر نادار اورمفلس کو ترغیب دی ہے کہ وہ رزق حلال کی تلاش میں محنت کرے اور رزق حلال طلب کرنا اور اس کے لیے سعی و جدوجہد کرنا اور اس کے نتیجے میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہونا اور معاشرے کے کسی بھی فرد کے لیے بوجھ نہ بننا۔ یہ ایک اچھے انسان کی سب سے بڑی نیکی ہے اور اس نیکی کی طرف اور اس رزق کے حصول کی ترغیب دیتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کے فقراء کو یوں خطاب کیا:
’’اے گروہ فقراء اپنے سروں کو اٹھاؤ اور (خوب جدوجہد کرو) بے شک تمہارے سامنے ایک واضح راستہ ہے اور نیکیوں کی طرف سبقت لے جاؤ اور (رزق کے باب میں) دوسروں پر اعتماد کرکے نہ بیٹھ جاؤ اور دوسروں کے دستِ نگرنہ ہوجاؤ۔‘‘
(بیهقی، شعب الایمان، 2: 81، رقم الحدیث: 1216)
معزز قارئین! اسلام عام حالات میں بھی معاشرے کے صاحب ثروت اور دولت مند طبقات کو وجوبی حکم انفاق دیتا ہے کہ اپنے مالوں سے غریبوں اور ناداروں کا حق زکوٰۃ کی صورت میں نکالو ’واتوا الزکوۃ‘ یعنی اور زکوٰۃ ادا کرو۔ قرآن اہل ایمان کو باور کراتاہے کہ ان کے مالوں میں معاشرے کے ضرورت مند اور حاجت مند لوگوں کا بھی حق ہے۔ اس لیے فرمایا:
وفی اموالهم حق للسائل والمحروم.
اب اگر وہ اپنے اس ایمانی فرض کی تکمیل خود کردیں تو بہت ہی اچھا فعل ہے اور اگر وہ اس فرض کو نبھانے میں کسی قسم کی غفلت اور کوتاہی کا مظاہرہ کریں تو پھر ریاست کی ذمہ داری ہے کہ:
خذ من اموالهم صدقۃ.
حضرت عمر فاروقؓ نے اسی حقیقت کا ادراک کرتےہوئے ایک موقع پر ارشاد فرمایا:
حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا جس بات کا مجھے آج اندازہ ہورہا ہے اگر اس کا پہلے اندازہ ہوجاتا تو میں اس میں تاخیر نہ کرتا کہ صاحب ثروت لوگوں کی فاضل دولت کو اپنے تصرف میں لے لیتا اور معاشرے کے فقراء مساکین میں اسے تقسیم کردیتا۔
اسلام ہر شہری کی معیشت کے استحکام کی بات کرتا ہے وہ کسی کو بھی لاوارث اور بے یارو مددگار نہیں چھوڑتا ہے اور اس مسئلے میں وہ مذہب و عقیدے کا فرق بھی روا نہیں رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے ایک مرتبہ حضرت عمر فاروقؓ کا گذر ایک بوڑھے یہودی کے پاس سے ہوا وہ لوگوں سے بھیک مانگ رہا تھا۔ آپ نے اس سے پوچھا:
فما الجاک الی مارای.
اس عمر میں کس چیز نے تمھیں بھیک مانگنے پر مجبور کیا ہے؟
’’اس بوڑھے یہودی شخص نے جواب دیا میں جزیہ کی ادائیگی روزمرہ کی حاجات کی تکمیل اور عمر رسیدگی و بے سہارگی کی وجہ سے لوگوں سے سوال کر رہا ہوں۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے ساتھ اپنے گھر لے آئے اور اسے اپنے گھر میں سے جو کچھ مال تھا اسے دے دیا اور پھر بیت المال کے خازن کو طلب کیا اور فرمایا اس شخص کو اور اس کے ہم عمر اسی طرح کے دوسرے لوگوں کی ریاست کی طرف سے دیکھ بھال کرو اور بیت المال کے افسر سے فرمایا بخدا ہم نے اس بوڑھے شخص کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ اس کی جوانی سے تو ہم نے خوب فائدہ اٹھایا ہے، اب اس کے بڑھاپے میں ہم نے اسے رسوا کردیا ہے۔‘‘
(ابو یوسف، کتاب الخراج، 136)
اس کے بعد آپ نے اس آیت کریمہ سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا: انما الصدقات للفقراء والمسکین۔
فرمایا:
الفقراء ھم المسلمون
فقراء خود مسلمان ہیں
و ھٰذا من المساکین من اهل الکتاب
اور یہ اہل کتاب مساکین میں سے ہے
و وضع عنہ الجزیۃ وعن ضربائہ
آپ نے اسی وقت اس سے اور اس جیسے ہم عمر بوڑھوں اور ضعیفوں کے سارے جزیہ کو یعنی ملکی ٹیکس کو معاف کردیا۔
حکومت و ریاست کی دولت اور وسائل کے لیے حاکم وقت کا عقیدہ و خیال اور اس کی سوچ و فکر اور اس کا طرز عمل و کردار یہ ہونا چاہیے کہ وہ حکومت و ریاست کی دولت کو قومی دولت سمجھے اور اس دولت کو قوم کی امانت جانے اور قوم کے ایک ایک رویے کے استعمال پر اپنے آپ کو قوم کے سامنے جواب وہ سمجھے اس قومی دولت کے استعمال میں اپنی من مانیاں نہ کرے اور اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال نہ کرے اس قومی دولت کو عیش پرستیوں میں خرچ نہ کرے۔ وزارت عظمیٰ اورکسی بھی حکومتی منصب پر متمکن ہوتے ہوئے خود کو سمجھائے۔ یہ قومی دولت اس کے باپ کی اور اس کی ماں کی کمائی کی ہرگز نہیں ہے اور نہ ہی یہ قومی دولت اس کی اپنی کمائی کا صلہ ہے بلکہ یہ پوری قوم کی امانت ہے جو اس کے سپرد کی گئی ہے۔
فرائضِ ریاست از تعلیماتِ فاروقی
حکومت کے سب سے بڑے منصب وزارت عظمیٰ سے لے کر ہر وزیر و مشیر تک اور ہر حکومتی محکمے کے افسر بالا سے ایک ادنیٰ اہلکار اور نائب قاصد تک حضرت عمر فاروقؓ اپنے کردار و عمل کی یہ دائمی نصیحت اصلاح احوال کے لیے ان سنہری الفاظ کے ساتھ کررہے ہیں:
’’حضرت ابو عثمانؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروقؓ نے ہمیں آذربائیجان میں اپنا سرکاری حکم بھیجا۔ جس میں آپ نے سب عمال حکومت کو میرے سمیت یوں مخاطب کیا اے عتبہ بن قرقد یہ قومی دولت نہ تیری کمائی ہے نہ تیرے باپ کی کمائی ہے اور نہ ہی تیری ماں کی کمائی ہے۔ اس لیے اس قومی دولت کے ذریعے ہر مسلمان گھرانے کو صاحب روزگار بناؤ جس طرح تم اپنے اہل خانہ کو صاحب روزگار و خوشحال دیکھنا چاہتے ہو۔‘‘
حضرت عمر فاروقؓ کے اس طرز حکومت کو اسلامی ریاست کے تمام حکمران بعد کے زمانوں میں اپنی اپنی بساط فکر کے مطابق اپنانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے ہارون الرشید کا جب عہد حکومت آیا تو اس نے اسلامی معیشت کی معروف زمانہ کتاب الخراج، عالم اسلام کی عظیم القدر شخصیت امام یوسف سے مرتب کرائی جس کا مقصد خود امام ابو یوسف بیان کرتے ہیں:
’’امیرالمومنین نے مجھے ایک ایسی جامع کتاب لکھنے کا حکم دیا ہے جس میں خراج، عشور، صدقات اور اہل ذمہ کے احکام ہوں اور اس کے ساتھ جن معاشی احکام میں غورو فکر کرنا اور عمل کرنا ضروری ہے ان کا ذکر ہو اور اس کتاب کی تالیف کا مقصد یہ ہے رعایا پر کسی قسم کا حکومتی ظلم نہ ہو۔ رعایا اور حکومت کے باہمی معاملات خوش اسلوبی سے چلتے رہیں۔‘‘
انسانی حیات اور انسانی معیشت یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ آج جو انسان بھی حیات ہے اس کو ایک اچھی اور اعلیٰ معیشت کی اشد ضرورت ہے۔ انسان کو بہترین حیات اور مثالی معیشت فراہم کرنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ معیشت کے لیے سب سے بڑا ذریعہ مال ہے اور اس مال سے انسانی حیات کا قیام ہے۔ اس لیے قرآن نے دو ٹوک انداز میں اعلان کیا ہے:
اَمْوَالَکُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللهُ لَکُمْ قِیٰمًا.
(النساء، 4: 5)
’’اور تمہارے مال جن پر اللہ نے تمہارا نظام زندگی قائم کیا ہے۔‘‘
مال پر نہ صرف ہر انسان کی زندگی کا قیام ہے بلکہ حکومت کی ساری معیشت کا قیام و انصرام بھی مال و دولت پر ہے۔ اس لیے حضرت عمر فاروقؓ کے عہد حکومت 16 ہجری میں سارا عرب اسلام کی سلطنت میں آگیا اور یرموک کی فتح کی صورت میں رومیوں کی قوت کا بھی خاتمہ ہوا تو حضرت عمر فاروقؓ نے حکومت و سلطنت کے مالی و معاشی معاملات اور ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے کچھ اقدامات کیے۔ آپ نے رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ادوار حکومت کی جاری مالیاتی پالیسیوں میں مزید اضافہ کیا ہے اور ان کو مزید منظم کیا ہے۔
آپ نے خراج کے نظم و نسق پر خصوصی توجہ دی ہے آپ کی معاشی پالیسی کی وجہ سے ملک کی آمدن میں بے پناہ اضافہ ہوا، آپ نے مفتوحہ زمینوں کو فاتحین کے سپرد بالکل نہیں کیا بلکہ اصلی باشندوں اور ان کے آباد کاروں کے پاس ہی ان کو رہنے دیا جس کی وجہ سے زمینوں کی پیداوار بہت زیادہ بڑھ گئی۔ حضرت عمر فاروقؓ کا طرز حکومت یہ تھا آپ جو بھی معاشی پالیسی لے کر آتے اس پر پہلے خوب بحث و مباحثہ کرتے اور خود ماہرین سے بھی تبادلہ خیال کرتے اور اس پالیسی کے تمام ممکنہ پہلوؤں کا خوب جائزہ لیتے تھے۔
کئی صوبوں میں آپ نے خراج اور مال گزاری کی شرح اور طریقہ وہی رہنے دیا جو اسلام میں پہلے سے مروج تھا، ہاں اگر اس میں عوام پر کوئی ظلم کا پہلو تھا تو اس کو فوری ختم کردیا یا اس کی اصلاح کرلی۔ آپ نے افتادہ زمینیں کاشتکاروں اور زمینداروں میں تقسیم کردیں۔ اس تقسیم کی شرط یہ تھی کہ ان زمینوں کو ہر حال میں آباد کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص زمین لینے کے بعد تین سال تک اس زمین کو آباد نہیں کرتا تھا تو اس سے وہ زمین واپس لے لی جاتی تھی، اس پالیسی کے نتیجے میں سب کی سب افتادہ زمینیں آباد ہوگئیں۔ ملک کی آمدن بھی بڑھ گئی خراج اور عشر کی مقدار میں بھی بے پناہ اضافہ ہوگیا۔ (کتاب الخراج، 65، الفاروق شبلی نعمانی،مکتبہ اسلامیہ لاہور، ص: 196)
جو لوگ جنگ کے نتیجے میں اپنے علاقے چھوڑ گئے تھے جنگ کے بعد آپ نے اعلان کرایا اور حکومتی سطح پر مشتہر کیا کہ زمینوں کے اصل مالک واپس آجائیں اور اپنی زمینوں پر قابض ہوجائیں اس عمل سے جہاں ان کو معاشرتی تحفظ ملا وہاں وہ اپنی زمینوں سے دوسروں کی نسبت بہتر پیداوار لے سکتے تھے۔ حضرت عمر فاروقؓ کو زرعی صنعت کو ترقی دینے کا خیال اس قدر تھا کہ آپ کسی کسان کا نقصان برداشت نہیں کرتے تھے۔ ایک موقع پر کسی زمیندار نے شکایت کی کہ شام کے علاقے میں آپ کی فوج کی وجہ سے میری زرعی زمین کو نقصان پہنچا ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اسی وقت دس ہزار درہم نقصان و خسارے کے معاوضے کے طور پر اس کو دلوادیئے۔ (کتاب الخراج، ص 68)
محکمہ ٹیکس و انہار اسلامی تعلیمات کی روشنی میں
آپ نے زراعت کو ترقی دینے کے لیے تمام ممالک مفتوحہ میں نہروں کا اجراء کرایا اور دریاؤں اورنہروں کے لیے بند باندھے تالاب تیار کرائے اور پانی کی تقسیم کے دہانے بنائے۔ بڑی نہروں سے ذیلی نہریں نکلوائیں، ان سارے امور کی دیکھ بھال کےلیے محکمہ انہار قائم کیا جس میں ایک لاکھ بیس ہزار مزدور روزانہ کام کرتے تھے۔ ان کے تمام مصارف بیت المال سے ادا کیے جاتے تھے۔ نہروں کی کھدوائی سے افتادہ زمینیں بڑی تعداد میں آباد ہوگئیں۔ ہر جگہ پانی پہنچ گیا اور زمینیں سر سبز وشاداب ہوگئیں۔
حضرت عمر فاروقؓ نے ملکی معیشت کو مضبوط اور مستحکم کرنے کے لیے زکوٰۃ، عشر، خراج کے علاوہ بھی مالی اقدامات کیے ہوئے تھے۔ جس میں لوگوں کے تجارتی مال پر عشور یعنی مالی ٹیکس لیا جاتا تھا اور غیر مسلموں کی جان و مال کی حفاظت کے لیے جزیہ لیا جاتا تھا اور دشمنوں کے ساتھ جنگ اور فتح کے نتیجے میں حکومت مال غنیمت اور مال فئی لیتی تھی۔ سب مسلمانوں سے بڑی سطح پر زکوٰۃ وصول کی جاتی تھی۔ زکوٰۃ مسلمانوں کے کل مال سے وصول کی جاتی تھی۔ جس میں ان کی جائیداد اور ان کی مجموعی آمدنی اور ان کے مویشی بھیڑ، بکری اور اونٹ تک شامل تھے۔
حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں سب سے زیادہ ملکی محصولات اور ٹیکسوں کی آمدن حکومت
کو حاصل ہوئی تھی۔ صرف آپ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں عراق کے صوبے سے صرف خراج سے حاصل ہونے والی آمدن دس کروڑ بیس ہزار درہم تک پہنچ گئی تھی۔ (الفاروق، 189، کتاب الخراج: 31)
جبکہ مصر کے صوبے سے پانچ کروڑ چھ لاکھ روپے خراج بیت المال میں جمع ہوا تھا جبکہ شام سے جو خراج وصول ہوا اس کی کل رقم پانچ کروڑ اسی لاکھ روپے تھے۔ (الفاروق: 193)
حضرت عمر فاروقؓ جب بھی خراج، مال گزاری بیت المال میں جمع کرتے تو اپنے عمال و گورنرز سے یہ عہد اور حلف چار دفعہ لیتے تھے کہ یہ خراج، مال گذاری اور یہ ٹیکس کسی ذمی یعنی غیر مسلم کسی اور مسلمان پر ظلم کرکے ہرگز ہرگز نہیں لیا گیا اور اس سلسلے میں انتہائی تعجب انگیز بات یہ ہے کہ بہت نرمی کے باوجود اتنا زیادہ خراج اور مال گزاری حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں جمع ہوتا تھا۔ جس کی مثال بعد کے زمانوں میں میسر نہیں آتی ہے۔ (کتاب الخراج، 65، الفاروق: 189)
تعلیماتِ اسلامی و سودی بینکاری
اب ہم اپنے موضوع کے عصری پہلو کی طرف آتے ہیں۔ آج ملکوں کی معیشت چلانے کے لیے ہم بدقسمتی سے اپنی ناقص معاشی پالیسیوں کی وجہ سے بین الاقوامی مالیاتی اداروں پر بہت زیادہ انحصار کرنے لگ پڑے ہیں۔ جس کے وقتی فوائد ملتے ہیں اور مستقل میں بے شمار نقصانات میسر آتے ہیں، ان اداروں کے مرہون منت ہونے پر ہمیں اپنے فکرو عمل سے بھی تہی دامن ہونا پڑتا ہے۔ ان اداروں کی پالیسیاں ہی ہماری فکر اور ہمارے عمل کی رفتہ رفتہ پہچان بن جاتی ہیں۔ ہم اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف عالمی مالیاتی اداروں سے سودی قرضے لیتے ہیں اور یہ سودی قرضے بڑھتے بڑھتے اس قدر زیادہ ہوجاتے ہیں کہ آج کی موجودہ دنیا میں ہمارے سود اور ہمارے اصل زر کی مقدار ایک سو روپے کی مثال سے اتنی ہے کہ 70 روپے ہم سود کے ادا کررہے ہیں اور صرف 30 روپے اصل زر کے قرض کے ادا کررہے ہیں۔
ہم جتناقرض ہر سال عالمی مالیاتی اداروں سے لیتے ہیں اس کا زیادہ حصہ سود پر ادا ہوجاتا ہے۔ ہمارا اصل زر اور اصل قرضہ وہیں کا وہیں اور توں کا توں برقرار رہتا ہے۔ ہمیں اچھی طرح دیکھنا ہے اور اچھی طرح سمجھنا ہے۔ یہ عالمی مالیاتی ادارے کیسے کام کرتے ہیں، ان کی Working کو جان کر ہی اور ان کی پالیسیوں سے اچھی طرح آگاہ ہوکر ہی ہم اپنی معیشت کو خود انحصاری اور آزاد معیشت کے طور پر قائم کرسکتے ہیں۔ ان عالمی مالیاتی اداروں کی کچھ باتیں بڑی اچھی ہیں جبکہ زیادہ تر انتہائی نقصان دہ ہیں۔ مگر ہم اپنی معاشی مجبوریوں کی وجہ سے ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان کی ہر اچھی بات اور پالیسی بھی سب سے پہلے خود کو فائدہ پہنچانے پر منحصر ہے۔ جب ہم ان عالمی مالیاتی اداروں کی کارکردگی کو دیکھتے ہیں تو کچھ حقائق اس طرح ہمارے سامنے آتے ہیں۔
یہ عالمی مالیاتی ادارے یہ کہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کماؤ اور کم ازکم خرچ کرو اور اپنی کرنسی کی قیمت کم کرو سرکاری اخراجات بھی کم کرو مگر وہ اس پر زور نہیں دیتے اور وہ کہتے ہیں کہ ملک میں قیمتوں پر کنٹرول ختم کرو اور تنخواہوں میں تخفیف کرو اور ان میں اضافہ نہ کرو۔ باہر کی سرمایہ کاری اور درآمدات کے لیے اپنے دروازے کھولو، کارخانوں اور کھیتوں میں وہ چیزیں پیدا کرو جو برآمد کرسکو، سرکاری صنعتوں اورکارخانوں کی نجکاری کرو اگر بڑے پیمانے پر بے روزگاری پھیلے تو اس کی ذرا بھی پرواہ نہ کرو۔
تعلیم، صحت اور سماجی بہبود پر کم بجٹ خرچ کرو۔ یہ پیکج ترقی پذیر ملکوں کو دیئے جاتے ہیں اور ان پیکجز کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ملک جو کچھ کماتا ہے وہ سارا اور سب کچھ زر مبادلہ بن جاتا ہے اور یہ زرمبادلہ ملکی قرض کو قسطوں کی ادائیگی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور عالمی مالیاتی اداروں کی پابندی کی وجہ سے عوام کو کمر توڑ مہنگائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عوام کی بہبود کی ساری تدبیریں الٹ ہوجاتی ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے عوامی احتجاج پر پرکشش پیکجز دیئے ہیں۔ غربت میں کمی کا پروگرام اور تدابیر دیتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ غربت کے سب سے بڑے ذمہ دار یہ خود ہوتے ہیں۔ دنیا کے مقروض ملک اب تک اصل رقم سے کہیں زیادہ ان عالمی مالیاتی اداروں کو سود اداکرچکے ہیں مگر قرض پھر بھی ختم ہونے کو نہیں آتا۔ اگر کوئی ملک نادہندہ ہوجائے تو اس کو کوئی بھی عالمی مالیاتی ادارہ قرض نہیں دیتا ہے۔ مقروض ملک جب بڑی تعداد میں زر مبادلہ کما نہیں سکتے تو اپنا قرض زر مبادلہ کی صورت میں ادا کرنے کے قابل نہیں رہتے جس کی وجہ سے وہ بنک نادہندہ ہوجاتے ہیں۔
ان مالیاتی اداروں کے قرض بہت معمولی شرح سے شروع ہوتے ہیں۔ بعد ازاں شرائط معاہدہ کے مطابق قرض خواہ ملک امریکی ڈالر کی شرح سود سے ایک فیصد زیادہ کی ادائیگی پر قرض لینے کا مستحق ہوتا ہے۔ جب امریکی ڈالر کی شرح سود میں بہت زیادہ اتار چڑھاؤ آتا ہے تو یہ مقروض ممالک سخت مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جس کی بنا پر ان کا قرض ناقابل برداشت ہوجاتا ہے۔
دنیا کے غریب ملک دنیا کے امیر ملکوں کو کئی سو ملین ڈالرز کی صورت میں قرض ادا کرتے ہیں۔ جس میں تھوڑا سا اصل زر ہوتا ہے اور اس قرض کا زیادہ تر حصہ سود کا ہوتا ہے۔ اس وقت دنیا کے غریب ملک امیر ملکوں کے بہت زیادہ مقروض ہیں۔ ان عالمی مالیاتی اداروں کے اہلکار ترقی پذیر ممالک کے راہنماؤں کو سیاسی اور معاشی ترقی کے نام پر جھانسہ دے کر ترقیاتی کاموں کے لیے عالمی مالیاتی اداروں سے قرض حاصل کرنے کی شروع میں ترغیب دیتے ہیں اور وہ اس قرض کے حصول کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کرتے ہیں اور جب یہ ترقی پذیر ممالک قرض اداکرنے کے قابل نہیں رہتے تو پھر عالمی قوتیں ان کے ملکی معاملات میں مداخلت کرتی ہیں اور اپنے مالیاتی دباؤ کے ذریعے بہت سے معاشی اور سیاسی غریب ممالک کے حکمرانوں سے فیصلے کراتے ہیں۔ جس سے ان کی اقتصادیات اپاہج اور معیشت و سیاست مفلوج ہوجاتی ہیں۔
عالمی مالیاتی اداروں کا وجود دوسری جنگ عظیم کے بعد 1945ء کے بعد منظم انداز میں نظر آتا ہے۔ جن کا مقصد ملکی معیشتوں اور ان کے باہمی معاملات میں زرمبادلہ اور بیرونی قرضہ جات پر نظر رکھنا ٹھہرا تھا۔ عالمی مالیاتی اداروں پر بڑی طاقتوں کا مکمل کنٹرول ہے۔ آج دنیا کا مالیاتی نظام ڈالر اور Special Drawing Rights (SDR) پر استوار ہے یہ کسی ملک کی کرنسی نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے کھاتوں کی جمع و تفریق کا نظام ہے SDR کا انحصار ڈالر پر نہیں بلکہ ملکوں کے زر مبادلہ پر ہے۔ SDR کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ تخلیق کرتا ہے۔ جیسے ملکی سنٹرل بینک کاغذی کرنسی کو تخلیق کرتے ہیں۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اپنی تخلیق کردہ SDR پر اپنے رکن ممالک کو مجبور کرتا ہے۔ وہ اسے بطور کرنسی قبول کریں۔ اب تک جن ممالک نے بھی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے قرضے لیے ہیں وہ معاشی اعتبار سے تباہ و برباد ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارہ غریب ملکوں میں بجلی اور ذرائع رسل و رسائل اور مواصلات کی قیمتوں کو مسلسل بڑھاتا ہے اور پٹرول کی قیمتوں میں بھی مستقل اضافے کا مطالبہ کرتا رہتا ہے اورہر اس چیز کی قیمت میں لازمی اضافہ کرتاہے۔ جس کو عام آدمی استعمال کرتا ہے اور یوں قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے غریب لوگوں پر اثر پڑتا ہے اور غریب آدمی مزید غریب تر ہوتا جاتا ہے۔
حاضرین گرامی قدر! بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا مالیاتی نظام ڈالر پر Base کرتاہے مگر دنیا کے مختلف ممالک یہ دیکھ چکے ہیں کہ یہ نظام دنیا میں کامیابی کے ساتھ نہیں چل سکا ہے۔ اس لیے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے منصوبے ملک میں افراط زر پیدا کرتے ہیں اور یہ افراط زر ترقی پذیر ممالک کی معیشت کے لیے انتہائی زہر قاتل ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے متاثرین ممالک میں ارجنٹائن، نائجیریا، صومالیہ اور نائجر اور دیگر ممالک ہیں جو نشان عبرت بن چکے ہیں۔
حاضرین گرامی قدر! آئی ایم ایف کا کردار ایک پولیس کے ادارے جیسا ہے یہ سود کی شرح میں مسلسل اضافہ کرتارہتاہے جس سے غربت بڑھ جاتی ہے۔ ٹیکسوں کو مزید بڑھانا پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے بیروزگاری میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا رہتا ہے اور یہ قومی اداروں کی نج کاری کی پالیسی دیتا ہے۔ جس سے ملکی اثاثے غیر ملکی لوگوں کے پاس چلے جاتے ہیں اور اس کی شرائط کے مطابق بین الاقوامی سرمائے کی آمد و رفت کے لیے تمام پابندیاں اٹھائی جاتی ہیں جس سے اسٹاک مارکیٹ عدم استحکام کا شکار ہوتی ہے اور یہ عالمی مالیاتی ادارہ بین الاقوامی بینکوں اور کارپوریشنوں کو زیادہ سے زیادہ آزادی دیتا ہے جس سے ملکی صنعت مفلوج ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد غریب ملکوں کے پاس بہت کم زر مبادلہ رہ جاتا ہے۔ جس کے ذریعے وہ بمشکل بین الاقوامی قرضے ادا کرسکتے ہیں۔
آئے روز ملک میں مالیاتی اصلاحات کے نتیجے میں ساری ملکی دولت بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے پاس چلی جاتی ہے اورIMF کے اس سارے مالیاتی نظام کو ساری دنیا میں تحفظ دینے والے سیاسی نظام کو جمہوریت کہتے ہیں۔ پاکستان نے اپنے قیام 1947ء سے 1958ء تک آئی ایم ایف سے کوئی قرضہ نہیں لیا۔ 1958ء سے جنرل ایوب خان کے دور سے قرضہ شروع ہوا جو اب تک اربوں ڈالر تک تجاوز کرگیا ہے۔ 2012ء میں آئی ایم ایف کے سربراہ Christine Lagarde نے کہا جب آئی ایم ایف کی اطراف کی دنیا میں زوال آتا ہے تو IMF ترقی کرتا ہے اور اس وقت آئی ایم ایف فعال اور متحرک ہوجاتا ہے اور اس وقت آئی ایم ایف زیادہ سے زیادہ قرض دیتا ہے۔ جس کی بنا پر اسے سود،مزید فیس اور بہت سے دیگر مالی فوائد ملتے ہیں اور یوں پورے ادارے کو بہت زیادہ نفع حاصل ہوتا ہے اورجب دنیا مالی بہتری کی جانب گامزن ہوتی ہے اور خوب مالی ترقی کرتی ہے تو عالمی مالیاتی ادارے کی کارکردگی گر جاتی ہے۔
خلاصہ کلام
آخری کلمات کی طرف آتا ہوں۔ وطن عزیز کا ایک غریب و مفلس ملک میں جاری ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کے ذریعے بجلی، پٹرول اور گیس کی ہر پندرہ دن کے بعد مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتوں کے ذریعے اس ملک کے بڑے بڑے عیش پرستوں کو پال رہا ہے ان کی ساری مراعات کا بوجھ بھی اپنے تنِ مردہ پر اٹھارہا ہے۔
اہل دردکے لیے اور اہل نظر و فکر کے لیے اس قوم اور اس وطن سے پیار کرنے والوں کے لیے یہ حالات انتہائی تشویشناک ہیں، آؤ پاکستان اور بیرون ملک، پاکستان کے معاشی اور اقتصادی ذہن اور دماغ کو ایک جگہ جمع کرو، ان کو قومی اقتصادی کونسلوں اور صوبائی اکنامک کونسلوں کے ذریعے اکٹھا کرو ان سب ذہنوں کے سامنے قوم کے اس بہت بڑے معاشی مسئلے کو حل کے لیے رکھو۔ یہ معاشی مسئلہ اتنا بڑا اہم ہے جتنا اس ملک کے دفاع کے لیے ایٹم بم بنانا اہم تھا۔ الحمدللہ اس مقصد کو اس قوم نے 80 اور 90 کی دہائی میں حاصل کرلیا تھا اور اب اس ملک کی معیشت کو بچانا اور اس ملک کو معاشی اعتبار سے بہت زیادہ مضبوط و مستحکم کرنا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس ملک کے غریب کو ہم نے ہر سیاسی دور میں بڑے سہانے خواب دکھائے مگر وہ غریب ہر بار ہمارے قومی راہنماؤں سے مایوس ہوا ہے۔ اس غریب الحال پاکستانی نے اپنے جسم میں پڑنے والے نوالے کو بھی وطن عزیز کے لیے قربان کردیا ہے۔ اب اس کے جسم پر صرف اور صرف لباس باقی رہ گیا ہے اور اس کی بھی اس سے قربانی مانگی جارہی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے کبھی اسے ایثار کا مذہبی ترانہ سنایا جاتا ہے اور کبھی اسے وطن کی ناموس پر قربان ہونے کا سیاسی راگ سنایا جاتا ہے۔ مذہبی ترانہ سنانے والوں کو اس غریب اور مفلس کا حال ظاہر یہ صدا سنتا ہے:
دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں جن کو
کب تک وہ عقیدے کی غذا کھا کے جئیں گے
اور جب کسی سیاسی لیڈر کا اس مفلس و غریب الحال سے حصول ووٹ کے لیے پہلی اور آخری مرتبہ رابط ہوتا ہے وہ اس کی ووٹ کے ذریعے وہ سیاسی لیڈر معاشرتی عزت و عظمت اور قومی دولت کو پانا اور لوٹنا چاہتا ہے۔ تو یہ غریب شخص اپنے شہر اور اپنے علاقے کے ان امیروں اور لیڈروں کو دیکھتا ہے اور خود کو دیکھتا ہے تو وہ ان کی امارت کا اور اپنی غربت کا موازنہ شروع کردیتا ہے اور یہ اپنی زندگی میں ایک ایک نوالے کو ترستا ہے جبکہ امیرِ شہر کے کتے بھی اس پر راج کرتے ہیں تو وہ اپنی زبان حال سے اپنی غربت، اپنی مفلسی اور اپنی بے توقیری اور اپنی ذلت پر تعجب انگیز نظروں سے اپنا نغمہ غربت ان سیاسی لیڈروں کو یوں سناتا ہے:
عجب رسم ہے چارہ گروں کی بستی میں
لگا کے زخم نمک سے مساج کرتے ہیں
غریبِ شہر ترستا ہے اک اک نوالے کو
امیرِ شہر کے کتے بھی راج کرتے ہیں
باری تعالیٰ اس وطن کو ہمیشہ سلامت رکھے اس کو معاشی اور سیاسی استحکام دے اور اقوامِ عالم میں اس کو عزت اور رفعت دے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ