واقعہ کربلا کے بارے میں ایسے شک و شبہات پیدا کردیئے گئے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ سچائی دھندلاگئی ہے۔ لوگوں کے ذہن منتشر کیے جارہے ہیں تاکہ لوگ اہل بیت اطہارؓ کی مودت و محبت کے رشتے سے کٹتے چلے جائیں۔ اس طرح جو لوگ اہل بیت اطہار سے اپنا رشتہ کمزور کر بیٹھے ہیں وہ حضور علیہ السلام کی بارگاہ سے بھی کٹ جائیں۔ ان کی رگوں میں تعظیم رسول ﷺ میں بھی کمی واقع ہوجائے۔ ساری برکات جو امت کو ان کے واسطوں سے نصیب ہوتی ہے امت ان سے محروم ہوجائے۔
اس آرٹیکل کا مقصد ان شک و شبہات کا ازالہ کرنا ہے تاکہ لوگوں کے ایمان کی حفاظت ہو۔ اب سوشل میڈیا کا زمانہ ہے وہ لوگ جن کی باتیں دس لوگ بھی نہیں سکتے تھے۔ وہ بے ہودہ باتیں بیان کرکے اپ لوڈ کردیتے ہیں۔ اس سے جو خرافات پھیلتی ہیں وہ ذہنوں کو خراب کرتی ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اہل بیت اطہار کے نفوس کے بارے میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ اہل بیت اطہار کے نفس قدسیہ کا قتل نفس انسانی کے قتل کا امر ہے۔ یہ امر حرام تو ضرور ہے لیکن اس کو کفر قرار نہیں دیا جاسکتا۔
یہ علت پیدا کرکے یزید کو تحفظ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اب یہ دیکھا جائے کہ شہادت امام حسین علیہ السلام کا حکم نفس انسانی کے قتل جیسا ہے یا اس کا حکم ان سے جدا اور بالاتر ہے۔ اس طرح یہ شبہ بھی کیا جاتا ہے کہ اہل بیت اطہار کی بے حرمتی کے واقعات میں کچھ من گھڑت ہیں۔ اصل حقیقت پتہ نہیں چلتی۔ لہذا اس پر شدت کے ساتھ کوئی حکم قائم نہیں ہونا چاہیے۔ اب دیکھنا ہے کہ یہ قصہ کہانیاں ہیں یا یہ مسلمہ حقائق ہیں جن کی بنیاد حدیث صحیحہ ہیں جو آپ ﷺ نے غیبی خبروں کے ذریعے امت تک پہنچائی ہیں اور معتمد روایات پر قائم ہیں۔
یہ بھی ذہن میں وارد کیا جاتا ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو ابن زیاد نے شہید کروایا۔ یزید نے آپؑ کو براہ راست شہید کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ اس پر ذمہ داری نہیں بنتی۔ اس امر کا جائزہ لینا ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی ذمہ داری ابن زیاد اور اس کی کوفی فوج پر ہے یا براہ راست یزید ذمہ دار ہے۔
جب شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کا معاملہ آئے اور قاتلین حسینؑ کا معاملہ آئے یزید کا معاملہ ہم اس طرح سوچیں کہ آپ کو شہید کرنے سے کوئی شخص کافر نہیں ہوجاتا۔ انسانی جان کا قتل حرام فعل ضرور ہے مگر باعث کفر نہیں ہے۔ یہ باتیں اپ لوڈ کی جارہی ہیں نوجوان نسل کے ذہنوں کو برباد کیا جارہا ہے۔ 14 سال سے جو محبت و عقیدت کا رشتہ ہمیشہ سے چلا آرہا ہے۔ اس کو کاٹا جارہا ہے تاکہ امام عالی مقام کو عام نفس انسانی کے قتل کے مقام پر کھڑا کردیا جائے۔ عترت اطہار بیت کے قتل کو عام نفوس کے قتل کے برابر ٹھہرادیا جائے اور کہا جائے کہ قتل سے بندہ کافر نہیں ہوتا۔
اس کا جائزہ سب سے پہلے قرآن سے لیا جائے گا۔ نفس انسانی کے قتل کا حکم کیا ہے؟ رسول ﷺ کو اذیت پہنچانا کفر ہے؟ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کے لخت جگر کو اذیت پہنچانا حضور ﷺ کو اذیت پہنچانا کفر ہے یا نہیں۔اگر یہ حضور ﷺ کو اذیت پہنچانا ہے تو اس کا حکم کیا ہے۔
قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے فرمایا:
یا ایھا الذین امنوا لاتدخلون بیتون النبی الا.
ایمان والو! جب تک تمہیں رسول پاک ﷺ اپنے گھر میں کھانے کی دعوت نہ دیں تو آپ ان کے گھروں میں داخل نہ ہوا کریں۔ جب دعوت دے دیں تو گھروں میں داخل ہوسکتے ہو جب کھانا کھا چکو تو فوراً واپس چلے جاؤ۔ بیٹھے نہ رہو کہ آقا علیہ السلام تمہارے چلے جانے کا انتظار کرتے رہیں۔ تمہارا کھانے سے فارغ ہوکر بیٹھے رہنا یہ عمل میرے نبی کو اذیت دیتا ہے۔ انہیں حیا آتی ہے کہ وہ خود فرمائیں کہ چلے جاؤ۔ مگر اللہ کو کوئی شرم نہیں کہ تمہیں حق بات سمجھائے۔ اس لیے اللہ حکم دے رہا ہے کہ کھانے کے بعد چلے جایا کرو۔ وہاں بیٹھے ہوئے ازواج مطہرات سے کھانے کے دوران کسی چیز کی حاجت ہو تو پردے کے پیچھے سے سوال کرو۔
اگر سامنے سے سوال کردو گے تو وہ بھی میرے نبی کو اذیت دے گا۔ تو پردے کے پیچھے سے سوال کرنا تمہارے دلوں کے لیے طہارت کا باعث ہے۔ تمہارے لیے حلال نہیں کہ تم میرے رسول ﷺ کو اذیت دو۔ جب میرے محبوب ﷺ کا وصال ہوجائے گا۔ ان کی زوجہ محترمہ سے شادی کرنا بھی انہیں اذیت دے گا۔
سورہ الاحزاب کی آیت نمبر53 سے یہ تصور قائم کرنا چاہتا ہوں کلہ قرآن نے ایک معیار قائم کردیا ہے کہ اتنی بات بھی میرے رسول ﷺ کو اذیت دیتی ہے۔ اگر محبت کسی سے شدید ہوتی ہے تو اس کے لطیف جذبات کو ٹھیس پہچانے سے بھی اذیت ہوتی ہے۔ چہ جائیکہ ان کو جسمانی اذیت دینا ان کو قتل کرنا، ان کے سروں کو کاٹنا، نیزوں پر چڑھانا یہ وہ اعمال ہیں جو اذیت کی آخری حد سے بھی آگے ہیں۔ کسی کو بھوکا پیاسا رکھنا، خیمے کو آگ لگانا، شہید کرنا، ان کا پانی بند کرنا، ان کو بے حرمت کرنا، انہیں قیدی بنانا، پوری دنیا کے سامنے ان کی عزت و حرمت کو پامال کرنا۔
یہ افعال اس اذیت کا باعث ہیں جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ادھر قرآن میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں اگر ام المومنین سے بغیر پردے کے کوئی چیز طلب کرلی تو میرے رسول ﷺ کو اذیت دی۔ مسئلہ نفس انسانی کا قتل کیا ہے؟ حرام فعل ہے یا کفر مسئلہ یہ نہیں ہے۔ مسئلہ رسول ﷺ کی اذیت کا ہے۔ کس کس فعل سے رسول ﷺ کو اذیت پہنچتی ہے اس کا حکم کیا ہے۔
سورہ الاحزاب کی آیت نمبر57 اور 58 میں فرمایا:
’’ بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کو اذیت دیتے ہیں اللہ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت بھیجتا ہے اور اُس نے ان کے لیے ذِلّت انگیز عذاب تیار کر رکھا ہے اور جو لوگ مومِن مَردوں اور مومِن عورتوں کو اذیتّ دیتے ہیں بغیر اِس کے کہ انہوں نے کچھ (خطا) کی ہو تو بے شک انہوں نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ (اپنے سَر) لے لیا۔‘‘
اگر کسی نے رسول ﷺ کو اذیت پہنچائی۔ اللہ رب العزت نے اس اذیت کو اپنے ساتھ منسوب کردیا۔ اس نے مجھے اذیت پہنچائی۔ جیسے اللہ کے رسول ﷺ کی حرمت اللہ کی حرمت ہے اللہ کے رسول ﷺ کی نافرمانی اللہ کی نافرمانی ہے۔ ایسے میرے رسول کو اذیت پہنچانا اللہ کو اذیت پہنچانا ہے۔ جو کوئی چھوٹے درجہ کی بھی اذیت رسول ﷺ کی پہنچاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر دنیا و آخرت میں لعنت کی ہے۔ اس کے لیے انتہائی ذلت والا عذاب مقرر کردیا۔
عذاب المھین یہ لفظ توجہ طلب ہے جس کے لیے انسان جہنم کا مستحق بنے گا جبکہ عذاب عظیم عام لفظ ہے۔ جو کافر اور بغیر کافر دونوں کے لیے آتا ہے۔ گناہوں، فاسقوں، چوروں، جھوٹوں ہر قسم کے مجرم کے لیے اگر اللہ تعالیٰ عذاب شدید تر کرنا چاہے تو عذاب الیم کا ذکر آتا ہے۔ عذاب الیم کا معنی درد ناک عذاب، درد ناک عذاب عام طور پر غیر کافر کے لیے نہیں ہوتا۔ اس میں عذاب کی شدت بڑھ جاتی ہے۔ اگر اس سے بھی آگے شدت بڑھانا مقصود ہو تو عذاب مھین آتا ہے۔ ذلت ناک عذاب، کافروں کے علاوہ عذاب مھین کسی کے لیے نہیں کہا جاتا۔ جس کے لیے عذاب مھین کا لفظ آجائے۔ اس کے لیے قرآن مجید نے صراحتاً کفر کا حکم صادر کردیا۔ اگر عذاب الیم بھی آجائے تو بھی کفار کے لیے خاص ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے عذاب مھین تیار کیا ہے۔ رسول ﷺ کو اذیت پہنچانے والا اس اذیت کے فعل سے براہ راست کافر ہوگیا۔ اس پر مزید علتوں کو تلاش کرنے کا راستہ بند ہوجاتا ہے۔ شہادت امام حسینؓ کو نفس انسانی کے قتل کے دائرے میں نہیں دیکھا جائے گا۔ اس کو رسول پاک ﷺ کو اذیت پہنچانے کے دائرے میں دیکھا جائے گا۔ حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنھا اور عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جب میدان کربلا میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہورہی تھی رسول ﷺ بانفس نفیس روحانی طور پر وہاں موجود تھے اور شہداء کربلا کا خون ایک شیشی میں معجزتاً جمع کررہے تھے۔ آپ ﷺ نے وہ مٹی حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنھا کو دی اور کہا اس مٹی کو دیکھتے رہیے جب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو سمجھ لینا کہ اس دن میرا حسین رضی اللہ عنہ کربلا کی زمین پر شہید ہوگیا ہے۔ دس محرم الحرام کا دن تھا، دوپہر کا وقت حضرت عبداللہ بن عباسؓ مکہ معظمہ میں ان کی خواب میں رسول ﷺ آئے۔ سر انور کے بال مبارک گرد آلود ہیں۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ میں اپنے حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا منظر دیکھ کر آرہا ہوں۔ سارا دن رسول ﷺ مشہد حسین رضی اللہ عنہ پر رہتے ہیں اور روحانی دنیا میں حسین رضی اللہ عنہ کے خون کا قطرہ زمین پر نہیں گرنے دیتے سنبھال کر لاتے ہیں۔
حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں آپ کے ہاتھ میں شیشی ہے میں نے پوچھا: یارسول اللہ ﷺ یہ کیا ہے فرمایا: میں حسین رضی اللہ عنہ اور تمام شہداء کربلا کا خون جمع کرکے لایا ہوں۔ اٹھ کر دیکھتی ہیں کہ وہ مٹی جو آقا علیہ السلام نے انہیں دی تھی وہ مٹی خون میں بدل چکی تھی۔ حضور علیہ السلام کا حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کا عالم یہ ہے کہ فرمایا جو حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرتا ہے وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔ جو مجھ سے محبت کرتا ہے وہ خدا سے محبت کرتا ہے۔
آپ ﷺ نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو پشت سے اتارنے سے روکا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کسی اور غرض سے نہیں اتار رہے تھے کہ حضور ﷺ سجدے میں ہیں چلو آہستہ سے اتار لیں مگر آقا علیہ السلام نے محبت کے رشتہ کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے جوڑا اور امت کو دکھایا کہ جو محبت مجھے حسین رضی اللہ عنہ سے ہے وہ کیفیت سجدے سے بھی زیادہ عزیز ہے۔
میں سجدہ کے دوران بھی یہ نہیں چاہتا کہ میرے حسینؓ کو اتنی تکلیف بھی ہوکہ وہ میری پشت پر جائے تم اس کو اتارو اس کو ناگوار گزرے۔ مجھے وہ بوجھ بھی گوارا نہیں۔ حضرت امام حسینؑ کی محبت کو یہ درجہ دیا ہے۔ حضور ﷺ کو ان کے احساس کی اتنی اذیت بھی گوارا نہیں۔ علماء پورا واقعہ پڑھ کر اس کو نفس انسانی کا قتل کہہ کر کہ کفر نہیں ہوتا۔ یہ قرآن کی نفی ہوگی جو حضور ﷺ کو اذیت دیتے ہیں۔ ان پر دنیا و آخرت میں لعنت ہے۔ ان کے لیے عذاب مھین تیار ہے مگر جو مومن مرد اور عورتوں کو تکلیف پہنچاتے ہیں۔ انھوں نے بہت بڑا بہتان لگایا اور کھلے گناہ کا بوجھ اپنے سر لے لیا۔
اب فعل ایک ہے اذیت دینا جو رسول ﷺ کو اذیت دیتے ہیں ان کو کافر بنادیا۔ ان کے لیے عذاب الیم ہے مومنوں کو اذیت دینا گناہ ہے۔ رسول ﷺ کو براہ راست اذیت دینا خواہ رسول ﷺ کی نسبت سے ہو۔ حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنھا کی نسبت سے ہو خواہ وہ حضور ﷺ کے شہزادے حسین رضی اللہ عنہ کی نسبت سے ہو خواہ پوری عترت جو میدان کربلا میں تھی اس کی نسبت سے ہو۔ جن کے بارے میں حضور ﷺ نے فرمایا جو ان کو اذیت دیتا ہے وہ مجھے اذیت دیتا ہے۔ یہ فرق عقیدہ اور شریعت کے باب میں قطعی فیصلہ ہے۔
حضور ﷺ کو اذیت دی گئی اس کا حکم قرآن مجید میں اور انداز میں آیا ہے۔ سورۃ النور 23 جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا پر تہمت لگی۔ قرآن مجید میں الفاظ ہے ان پر دنیا و آخرت میں لعنت کردی گئی چونکہ حضور ﷺ کی ازواج مطہرات ہیں۔ سو رۃ الاحزاب اور سورۃ النور کو سامنے رکھ کر مطالعہ کیا جائے تو جو ان کے گناہ کے بغیر ان پر بہتان لگاتا ہے ان کے لیے فرمایا کھلے گناہ کا بوجھ اس نے اپنے سروں پر اٹھایا۔ ان کو لعنت نہیں بھیجی اس کو بڑا گناہ کہا گیا۔ وہ فعل ایسی ہستی کے ساتھ جڑ گیا ہے جو امہات المومنین میں سے ہے۔ جن کی اذیت آقا علیہ السلام تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کو فرمایا دنیا و آخرت میں ان پر لعنت کی۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کسی نفس انسانی کو اذیت دینا کیا ہے؟
کسی مومن کو اذیت دینا کیا ہے آقا علیہ السلام کی ازواج و امہات المومنین کے لیے کیا ہے؟ نفس رسول ﷺ اور ذات رسول ﷺ و عترت کے لیے کیا ہے؟ جب آقاؑ کو اذیت پہنچے اس کے لیے عذاب مھین کا ذکر کیا۔ عذاب مھین کا لفظ کفار و مشرکین کے لیے آتا ہے۔ سورۃ النساء آیت نمبر37 وعدن کافرین عذاب سورہ بقرہ 90 آل عمران 178 سورہ الحج 57، الجاثیہ9 ہے۔ اس کا شمار کفار و مشرکین میں ہے۔
قرآن کے صریح حکم آجانے کے بعد ان کے لیے توبہ کے احتمال ڈھونڈنا فعل حرام اور کفر کے فرق ڈھونڈنا اس کے لیے ہمدردی کرنا، یزید کے لیے تحفظ فراہم کرنا، حضور ﷺ کا اتنا حیا بھی نہیں رہا۔ کیا وہ سارے فرمودات بھول گئے جو حضور ﷺ نے اتنے حسین کریم رضی اللہ عنہ کے لیے دیئے تھے۔ آقا علیہ السلام نے اپنا منہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے منہ پر رکھ دیا۔ اپنے لب حسین رضی اللہ عنہ کے لبوں پر رکھ دیئے اور چوما اور کہا حسین رضی اللہ عنہ مجھ سے اور میں حسین رضی اللہ عنہ سے ہوں۔ اللہ اس سے محبت کرے گا جو حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرے گا۔ (جامع ترمذی)
جس نے حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔ شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کو نفس انسانی کے قتل کے تناظر میں نہیں دیکھا جائے گا بلکہ شہاددت امام حسین رضی اللہ عنہ کو اس تناظر میں دیکھا جائے گا جو آقا علیہ السلام نے فرمایا جو حسین رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتا ہے وہ مجھ سے بغض رکھتا ہے، جو حسین رضی اللہ عنہ کو اذیت دیتا ہے وہ مجھے اذیت دیتا ہے۔ جو حسن رضی اللہ عنہ کو اذیت دیتا ہے وہ مجھے اذیت دیتا ہے۔
یہ اسی طرح کا حکم ہے جو قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا من یطع الرسول فقد اطاع اللہ۔ جو رسول ﷺ کی اطاعت کرتا ہے وہ اللہ کی اطاعت کرتا ہے۔ جس نے حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی۔ جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔
پھر آپ ﷺ نے دعا کی: اے اللہ میں ان دونوں حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان دونوں سے محبت کر جو ان سے بغض رکھے تو ان سے بغض رکھ۔
یزید نے جو عترت رسول ﷺ سے معاملہ کیا محبت کا معاملہ یا بغض و عداوت کا معاملہ کیا؟ جب آپ رضی اللہ عنہ کا سر انور کاٹ کر یزید نے آگے رکھا گیا۔ وہ بدبخت چھڑی لے کر آپ کا چہرہ انور پر ماررہا تھا اور فخرسے یہ شعر پڑھ رہا تھا جو بدر میں ہمارے بڑے مارے گئے تھے ان کا بدلہ لے لیا ہے۔
حضور ﷺ نے حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے ہاتھ پکڑ لیے جو ان دونوں سے محبت کرے جو ان کے باپ سے محبت کرے جو ان کی ماں فاطمہ رضی اللہ عنھا سے محبت کرے وہ قیامت کے دن جس درجہ میں ہوں گا۔ وہ میرے خادموں کی طرح میرے درجے میں ٹھہرایا جائے گا۔ اسے میرا خادم بنایا جائے گا۔ (امام احمد بن حنبل)
فرمایا باری تعالیٰ میں حسن و حسین رضی اللہ عنہما دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر جو کوئی ان دونوں سے محبت کرے تو بھی ان سے محبت کر یعنی ان سے محبت کر اور ان سے محبت کرنے والوں سے بھی محبت کر۔ (یہ حدیث بھی حسن ہے)۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہیں:
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ راوی ہیں حضور ﷺ سجدے میں گئے حضرت حسنؓ و حسینؓ آپ ﷺ کی پشت مبارک پر آگئے۔ صحابہ کرامؓ نے انہیں ہاتھ سے روکنا چاہا آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے سجدے کے دوران اشارہ کردیا کہ نہ روکو جب نماز سے فارغ ہوئے تو انہیں اپنی گود میں لے لیا فرمایا: جو مجھ سے محبت کرتا ہے ان پر واجب ہے ان دونوں سے محبت کرے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کے لطیف احساسات اور جذبات کا بھی خیال رکھیں۔ یہ بہت بلند محبت تھی جس کی شریعی حیثیت تھی۔ ان کی محبت ایسی ہے کہ میں ان کو اٹھا کے مدینہ کی گلیوں میں نکل آیا ہوں۔ حضرت سلمان فارسیؓ کی حدیث آقاؑ نے دونوں شہزادوں سے خطاب کرکے فرمایا۔ جو ان دونوں سے محبت کرے میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں جس سے میں محبت کروں گا اللہ اس سے محبت کرے گا۔ اللہ جس سے محبت کرے گا اس کو جنت نعیم میں داخل کردے گا جو ان سے بغض رکھے یا ان سے زیادتی کرے آقاؑ نے فرمایا میں ان سے بغض رکھتا ہوں۔ جن سے نبی اکرم ﷺ بغض رکھیں ان کے توبہ کے احتمال سوچنا جائز نہیں۔ جس سے اللہ ناراض ہوجائے اس کو دائمی عذاب میں داخل کردیتا ہے۔
دوسرا شبہ یہ خیال کرنا یہ تاریخی واقعات ہیں اور ان میں کمی بیشی ہے۔ یہ بھی درست نہیں ہے بعض جزوی روایات ہیں جن کو ذاکر لوگ بیان کرتے ہیں جن کی سند نہیں ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ واقعہ کربلا اور اس کی بہت ساری ثابت شدہ تفصیلات کا ایک بہانہ بناکر انکار کردیا جائے۔ واقعہ کربلا ان امور میں ہے جس کی وضاحت حضور ﷺ نے خود فرمادی تھی۔ صحیح احادیث میں موجود ہے۔ قرآن کے کئی نوعمر لونڈوں سے میری امت ہلاک ہوگئی۔ (بخاری، الصحیح)
اب اس کا اشارہ واقعہ کربلا کی طرف تھا۔ دوسری حدیث حضرت ا بوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے مروان سے کہا اگر تو چاہے تو میں ان کے باپ دادا کا نام بھی بتا سکتا ہوں۔ (بخاری، الصحیح) وہ پہلا نافرمان لونڈا جس کے ہاتھوں میری امت ہلاک ہوگئی وہ شخص یزید ہے جس کا اشارہ حضور ﷺ نے کیا۔
بعض لوگوں نے گمان کیا کہ یزید ذمہ دار تھا بھی کہ نہیں۔ بدقسمتی کی انتہا ہے۔ یزید کا نام لے کر آقا ﷺ نے بیان کردیا کہ یہ ذمہ دار ہے۔ آج اس کی برات دینے آگئے ہیں۔ حضور ﷺ کے ارشاد کی نفی کررہے ہیں۔ ام سلمیٰ رضی اللہ عنھا راوی ہیں ہجرت کے ساٹھویں سال میرا شہزادہ حسین ابن علی رضی اللہ عنہ شہید کیا جائے گا۔ (امام طبرانی)
شہادت امام حسینؓ کی خبر حضور ﷺ نے خود دی تھی۔ یہ آپ ﷺ کے معجزات میں سے ہے۔ آپؓ کی شہادت کا سن اور جگہ بھی بتادی تھی وہاں کی سرخ مٹی دے دی تھی، شہید کرنے والے کا نام یزید بھی بتادیا تھا۔ یزید کا درد رکھنے والے اور توبہ کے ذریعے اسے جہنم سے بچانے والے کاش وہ آقاؑ کی محبت اور راحت جان کا فکر کرلیں۔ وہ حدیث نبوی ﷺ کو پڑھیں رجوع کریں اور توبہ کریں۔
ایک اور حدیث میں آقا ﷺ نے فرمایا جو میرے دین کی قدروں کو بدل دے گا وہ بنو امیہ کا ایک شخص ہوگا اس کا نام یزید ہوگا۔حضور ﷺ نے فرمایا: ابو سفیان کی اولاد میں سے ایک شخص ایسا ہوگا جو اسلام کے اندر ایسا شگاف ڈالے گا اس کو قیامت تک کوئی چیز بند نہیں کرسکے گی۔ صحابہ کرامؓ فرماتے ہیں کہ ہم حسینؓ کے بچپن سے ان کے گھر سے سنتے تھے کہ ان کی شہادت کربلا میں ہوگی۔ ان احادیث کو تاریخ کے واقعات کہہ کر اور قصہ کہانی کہہ کر اپنے ایمان کی جڑوں کو کاٹنا ہے۔ یہ کسی مسلمان کے اندر جرات کیسے آجاتی ہے کہ وہ بہانے بناکر یزید کو تحفظ دے۔
اب تاریخ کی کتب میں ہے کہ یزید نے خط لکھا ابن زیاد کو کہ حضرت حسینؓ کو شہید کردیا جائے۔ بعض علماء ٹی وی پر بیٹھ کر کہتے ہیں کہ یہ ثابت نہیں ہے کہ اس نے کیا ۔ معجم الکبیرمیں ہے یزید نے ابن زیاد کو خط لکھا اور کوڈ ورڈ میں اے ابن زیاد مجھے خبر پہنچی ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کوفہ پہنچنے والے ہیں تمام زمانوں میں اب یہ ذمہ داری تمہارے زمانے میں آپڑی ہے۔ تمام شہروں میں یہ ذمہ داری تمہارے شہر پر آپڑی ہے۔ جیسے گونر ہیں میرے عمال، تمہارے کندھوں پہ ذمہ داری آپڑی ہے، دیکھتا ہوں تو کس طرح عہدہ برآ ہوتا ہے اگر تو کامیاب ہوگا تو آزاد کردیا جائے گا یعنی تیری عزت میں اضافہ ہوگا۔ اگر تو ناکام ہوگیا تو ذلت کے ساتھ غلاموں میں پلٹا دیا جائے گا۔ تمہیں غلامی کی زندگی بسر کرنی ہوگی۔
اس خط کے بعد زیاد نے حسین علیہ السلام کو قتل کروادیا اور پورے قافلہ کے ساتھ آپؓ کا سر یزید کو بھیج دیا جب بہتر شہیدوں کے سر یزید کے دربار میں پہنچے اس نے دربار لگاکر سارے سر رکھ لیے اور امام حسینؓ کا سر اپنے سامنے رکھا۔ دمشق کے معتبر لوگوں کو ارد گرد بٹھالیا۔ حضرت امام عالی مقام کے سر انور پر چھڑی مار کر یہ شعر پڑھا بے شک وہ ہمارے ہاں کتنے ہی معزز ہی کیوں نہ تھے۔ جب انھوں نے ہماری مخالفت کی تو ہماری تلواروں نے ان کی کھوپڑیوں کو ان کے تنوں سے جدا کردیا۔
اس کے بعد بھی کہنا کہ یزید راضی نہیں تھا۔ یزید نے حکم نہیں دیا تھا۔ اس کو معلوم نہیں تھا ابن زیاد نے قتل کردیا۔ کیسے وہ خط لکھا رہا ہے۔ تم اگر ناکام ہوگئے تو گورنری سے ہٹادوں گا۔ ذلت کی زندگی بسر کرنی پڑے گی۔ (طبری) امام جلال الدین سیوطی نے لکھی ہے یزید نے خط لکھا کہ ان کے ساتھ قتال کرو۔ اس نے یزید کا خط پہنچنے کے بعد چار ہزار کا لشکر بھیجا۔ بعد ازاں پھر اور اضافہ کرتا گیا۔ امام جلال الدین سیوطیؒ لکھتے ہیں۔ اللہ لعنت کرے ان کے قاتل پر ابن زیاد پر اور یزید پر جس نے قتل کروایا۔ اگر ابن زیاد کا یہ عمل نہ ہوتا تو یزید نے ابن زیاد کو برطرف کردیا ہوتا۔ کسی قاتل کو سزا نہیں دی بلکہ اس کو بلایا اور امام عالی مقام کے سر انور پر شعر پڑھے۔
امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں۔ یزید اپنی چھڑی امام عالی مقام کے چہرہ انور پر مار رہا تھا۔ شعر یہ پڑھتا تھا میرے وہ بزرگ جو غزوہ بدر اور احد میں مارے گئے کاش وہ دیکھتے کہ میں نے ان کا بدلہ کیسے بنی ہاشم اور آل رسول ﷺ سے لے لیا ہے۔ اس کے بعد یزید پر ایمان کا امکان ثابت کرنا۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ بیان کرتے ہیں یزید تو دین کا منکر تھا۔
یزید نے خود کہا اگر میں آل نبی ﷺ سے اس طرح کا انتقام نہ لیتا تو مشائخ عرب کی اولاد میں سے نہیں ہوں۔
جب یزید کی بیعت اہل مدینہ نے توڑ دی تو 27 ہزار فوجیوں کا لشکر مدینہ رسول ﷺ کو پامال کرنے کے لیے بھیجا واقعہ حر پیش 63 ہجری میں اور بھیجتے ہوئے یزید نے حکم دیا مسلم بن عقبہ میں تمہارے فوجیوں کے لیے حلال کررہا ہوں کہ جو چاہے کریں۔ جس بدبخت نے مدینہ کو مباح کیا جس کو حرام بنایا تھا، اس کی توبہ کی باتیں کرتے ہیں۔ مورخین و محدثین کہتے ہیں کہ تین دن تک یزید کی فوج نے درندگی کی 10 ہزار مسلمانوں کو شہید کیا۔ (امام زہری) 700 جلیل القدر مہاجرین و انصار کی ہستیاں تھیں۔ 1000 مدینہ کی عزت والی عورتیں کو لونڈیاں سمجھا۔ یزیدی فوج نے مسجد نبوی کی اذان معطل کردی۔ اقامت ونماز معطل کردی اور روضہ رسول ﷺ کی قبر انور سے لے کر منبر تک ریاض الجنہ خون سے بھر گیا۔
کوئی نماز پڑھنے والا نہیں تھا۔ صحابہ کرامؓ کو پکڑ کر قتل کرتے تھے۔ گھوڑے باندھے گئے کتے داخل کیے گئے۔ تو کیا ابھی تک یزید کا ایمان باقی رہ گیا۔ بغض اہل بیت کی کوئی حد ہوتی ہے اگر آل نبوی ﷺ سے بغض تھا تو مسجد نبوی ﷺ کا تو خیال تو ہوتا۔ (ابن کثیر)
اہل مدینہ کے بارے میں آقا ﷺ نے فرمایا: جو اہل مدینہ کو خوف زدہ کرے اس پر اللہ کی لعنت فرشتوں کی لعنت اور پوری انسانیت کی لعنت۔ قیامت کے دن اس کا کوئی فرض ونفل قبول نہیں ہوگا۔ (بخاری) جو شخص اہل مدینہ کے ساتھ دھوکا کرے اللہ تعالیٰ اس کو اس طرح دوزخ میں پگھلادے گا جس طرح نمک پانی میں پگھل جاتا ہے۔
تین سال یزید کی حکومت رہی ہے۔ پہلے سال اہل بیت اور آقا علیہ السلام کی عترت کو شہید کیا۔ دوسرے سال مدینہ پاک کو تخت و تاراج کیا۔ 10 ہزار قتل کئے گئے پھر مکہ پر حملہ کیا۔
حضرت عبداللہ ابن زبیرؓ کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے 64 ہجری میں کعبۃ اللہ اور مکہ کا محاصرہ کیا۔ محرم و صفر کے مہینے میں جنگ کرتے رہے پھر توپیں فکس کیں اور توپوں کے ذریعے کعبۃ اللہ پر گولہ باری کی۔ آگ برسائی گئی، گولے برسائے گئے، کعبۃ اللہ جل گیا غلاف کعبہ کی دیواریں جل گئیں۔ یہ سارا ظلم کعبۃ اللہ پر جاری تھا کہ اس بدبخت کی موت واقعہ ہوگئی۔ حضرت عبداللہ ابن زبیرؓ نے آواز دی بدبختو! تمہارا طاغوت شیطان تو مرگیا ہے۔ اب کس کا تخت بچانے کے لیے لڑرہے ہو۔ وہ لشکر وہاں سے چھوڑ کر واپس چلا گیا۔ ان کی اپنے طور پر کوئی لڑائی نہیں تھی۔ وہ یزید کے حکم کے طور پر لڑ رہا تھا جیسے ہی خبر پہنچائی کہ یزید مرگیا انھوں نے کعبہ فتح نہیں کیا لشکر واپس چلا گیا۔ کونسی توبہ کا امکان اور احتمال اور کونسی مہلت ایسے لوگ جو عترت رسول ﷺ کو قتل کردیں۔ آقا ﷺ کی روح پاک کو تڑپائیں۔