’فلسفہ شہادت امام حسین علیہ السلام ‘شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ایک معرکۃ الآراء تصنیف ہے جو کہ 273 صفحات پر مشتمل ہے یہ جون 1993ء میں پہلی مرتبہ منہاج القرآن پبلی کیشنز سے شائع ہوئی۔ اب تک کئی مرتبہ شائع ہوچکی ہے اور خواص و عوام میں مقبول ہے۔ یہ 7 ابواب پر مشتمل ہے۔
باب اول:
اس کتاب میں شہادت امام حسین علیہ السلام کے فلسفہ اور واقعات کے ذکر سے پہلے باب اول میں شہید کے مختلف معانی اور تصور شہادت کی وضاحت کی گئی ہے جس میں شہادت کے مقام اور مرتبہ کو مختلف انداز سے بیان کیا گیا ہے۔ مختلف معنوں کے ثبوت اور وضاحت کے طور پر قرآن مجید سے آیات ذکر کی گئی ہیں۔ شہید کے معنوں میں ’’حاضر ہونا‘‘ کی وضاحت میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ’’حاضری کی دو جہتیں ہیں:
1۔ پہلی جہت یہ ہے کہ انسان کی روح نکلنے کے ساتھ ہی براہ راست اللہ کی بارگاہ میں حاضر کی جاتی ہے۔‘‘ اس کی وضاحت حدیث پاک سے کی گئی جس میں حضرت جابرؓ کے شہید باپ کی روح کے ساتھ اللہ پاک کی گفتگو کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس معنی کے ذریعے شہادت کے مقام و مرتبہ کی وضاحت کی گئی ہے اور بتایا گیا کہ ’’شہادت وہ موت ہے جو بلاحجاب بندے کو بارگاہ خداوندی میں حاضر کردے۔‘‘
2۔ دوسری جہت یہ ہے کہ شہید کی موت کے وقت ہزارہا ملائکہ کو اس کے سامنے حاضر کردیا جاتا ہے اور ان فرشتوں کے جھرمٹ میں شہید کی روح کو اعزاز کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس کی وضاحت کے لیے بھی بخاری شریف کی حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اس جہت کی رو سے ’’شہید کی موت مشہود بالملائکہ ہوتی ہے یعنی اس کی موت پر فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔‘‘
نبی اکرم ﷺ کے لیے لفظ شہید کا استعمال
قرآن مجید میں نبی کریم ﷺ کو شہید بھی کہا گیا ے یعنی حضور ﷺ کی بارگاہ الہٰی میں حاضری، ان کے لیے حجابات کا نہ ہونا اور شرف دیدار الہٰی کی خصوصیت ہے یعنی جو مرتبہ شہید کو مرنے کے بعد ملتا ہے ہمارے آقا ﷺ کو زندگی میں ہی حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح شہید دوسرے معنوں میں گواہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے تو سورہ البقرہ کی آیت نمبر143 کے حوالے سے یہ ذکر کیا گیا ہے کہ
اور ہمارا رسول تمہارا گواہ (نگران) ہے۔
بعد از موت شہید کی زندگی کی خبر قرآن سے ملتی ہے اس کی وضاحت میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ
’’شہید کی روح جب اللہ کے حضور پیش ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر ایسی تجلی نور ڈالتا ہے جو اس کی روح کو چمک، تاثیر اور قوت عطا کرتی ہے اور اس روح کی طاقت و قوت کی وجہ سے اس کا جسم بھی قبر میں صحیح و سلامت رہتا ہے۔‘‘
اسی بات کی مزید وضاحت کے لیے قرآن کریم سے حضرت عزیر علیہ السلام کی موت کا واقعہ پیش کیا گیا ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام اور اصحاب کہف کی مثالیں بیان کی گئی ہیں تاکہ یہ بات سمجھی جاسکے کہ روح کی طاقت و قوت کی وجہ سے انسانی جسم قبر میں تغیر و تبدل سے محفوظ رہتا ہے۔
اسی طرح شہادت کا دوسرا معنی کسی چیز کو پالینا ذکر کیا گیا اس کی وضاحت و صراحت سے بھی قرآن مجید سے مختلف مثالیں پیش کی گئی ہیں۔
شہادت کا تیسرا معنی مشاہدہ کرنے والا بیان کرکے اس کی وضاحت کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ شہید کی موت کی تکلیف چیونٹی کے کانٹے کے برابر ہوتی ہے اس سلسلے میں قرآن مجید سے دلائل ذکر کیے گئے ہیں۔
شہید کا چوتھا معنی مدد کرنے والا بیان کیا گیا اور اس کی تشریح کے لیے سورہ البقرہ کی آیت نمبر 63 کا حوالہ ذکر کرکے شہید کے مددگار ہونے کی وضاحت کی گئی ہے۔
شہید کا پانچواں معنی گواہی دینے والا ہے۔ اس معنی کی وضاحت کے لیے بھی سورہ البقرہ کی آیت نمبر 282 کا حوالہ دیا گیا ہے اور صحیح مسلم کی حدیث بھی اس کی دلیل کے طور پر نقل کی گئی جس میں ’’شہید بطور گواہی دینےو الا‘‘ کی وضاحت موجود ہے۔
اس پورے باب میں انتہائی خوبصورتی اور مدلل انداز میں شہید کے مختلف معنوں کو آیات قرآنی سے استنباط و استدلال سے پیش کیا گیا ہے جو ڈاکٹر صاحب کی قوت و استنباط و استدلال کا اعلیٰ نمونہ ہے لفظ شہید کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے کہ عام ذہنی سطح کا حامل شخص بھی اسے بہتر انداز میں سمجھ سکتا ہے۔
باب دوم: شہادت امام حسین علیہ السلام کی انفرادیت
ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شہادت کو اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت قرار دیا ہے کیونکہ شہید کا مقام و مرتبہ سب سے بلند اور یگانہ ہے اور شہید اللہ تعالیٰ کے انعام یافتہ بندوں میں شامل ہوتا ہے۔ اس بات کی تائید میں آیات قرآنی اور احادیث مبارکہ کو ذکر کیا گیا ہے۔ اور نبی کریم ﷺ کے شوق شہادت کا ذکر حدیث کے ذریعے کیا گیا ہے۔ آپ ﷺ اپنے لیے شہادت کی دعا فرماتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی دعا اور خواہش کو یوں پورا فرمایا کہ آپ ﷺ کے بیٹے حضرت امام حسین علیہ السلام کو آپ کے جوہر شہادت کے ظہور تام کے لیے منتخب فرمایا جس کی وجہ سے شہادت امام حسین علیہ السلام سیرت النبی ﷺ کا باب بھی بن گئی۔
اس کے علاوہ شہادت امام حسین علیہ السلام کی اہمیت و انفرادیت کو شہرت کے اعتبار سے، راہ عزیمت اختیار کرنے کے اعتبار سے، تمام آزمائشیں ایک جگہ مجتمع ہونے کے اعتبار سے، شہادت کے بعد کی گواہی (جس میں کٹے ہوئے سر سے اذان اور گواہی) روایت کیے جانے کے اعتبار سے پورے گھرانے کی اجتماعی قربانی دینے کے اعتبار سے، بیان کیا گیا ہے۔
شہرت کے اعتبار سے انفرادیت کی حامل ہونے کے ثبوت میں وہ احادیث مبارکہ نقل کی گئی ہیں جن میں حضرت محمد ﷺ نے حضرت ام سلمہؓ کو مقام کربلا کی مٹی عطا فرمانے کا ذکر ہے،امام حسین علیہ السلام کے مقام شہادت کی نشاندہی کی گئی ہے، سن شہادت کی نشاندہی کی گئی ہے جس کی وجہ سے حضرت ابوہریرہg ساٹھ ہجری سے پناہ مانگا کرتے تھے۔
راہ عزیمت اختیار کرنے کے حواے سے بھی اس شہادت کو منفرد مقام حاصل ہوا ہے۔ اس سلسلے میں مدینہ سے لے کر مکہ اور مکہ سے ارض کربلا تک پیش آنے والے تمام واقعات کو قلمبند کرتے ہوئے راہ عزیمت کی وضاحت اور اس کو اختیار کرنے کی حکمت عملی بیان کی گئی ہے۔
تمام آزمائشیں شہادت امام حسین علیہ السلام میں مجتمع ہونے کے اعتبار سے بھی اس شہادت کو انفرادیت حاصل ہے۔ اس کی وضاحت میں قرآن مجید میں ذکر تمام آزمائشوں کو بیان کیا گیا ہے جن سے انسان کو گزارنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کررکھا ہے۔ ہر انسان کو کسی نہ کسی آزمائش سے گزارا جائے گا مگر نبی ﷺ کے نواسے کی شہادت میں تما م آزمائشیں مجتمع نظر آتی ہیں۔
تمام شہادتیں مشہود بالملائکہ ہوتی ہیں جو کہ ’’قرآن و حدیث سے ثابت ہے لیکن شہادت امام حسین علیہ السلام کی ایک انفرادیت مشہود بالبنیؐ ہونا بھی ہے کیونکہ آپ علیہ السلام کی شہادت کے وقت فرشتوں کے ساتھ نبی ﷺ بھی موجود تھے۔ اس کی وضاحت کے لیے ام المومنین حضرت ام سلمیؓ کے خواب کو بیان کیا گیا ہے جو کتب احادیث کی زینت ہے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ دنیا والوں نے بھی ان کی شہادت کے بعد شہید کی زندہ ہونے کا مشاہدہ کیا۔ ان کے کٹے ہوئے سر سے تلاوت قرآن کی آواز آنا بھی ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ اس واقعہ کے ذریعے بھی ان کی شہادت کے منفرد ہونے کو بیان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ روایت کرنے کے اعتبار سے بھی اس شہادت کی انفرادیت مسلم ہے کیونکہ جتنی تفصیل سے اس شہادت کاذکر کیا گیا ہے کسی اور شہادت کا ذکر موجود نہیں۔ آپؑ کی شہادت کا ذکر آپ کی شہادت سے 50 برس پہلے سے جاری تھا۔ اس شہادت کے راوی حضور اکرم ﷺ ازواج مطہراتؓ اور صحابہ کرامؓ تھے۔ آپ علیہ السلام خود چل کر مقام شہادت تک پہنچے تھے جو اس شہادت کی سب سے بڑی انفرادیت ہے۔
ان تمام حوالوں سے شہادت امام حسینؓ کی انفرادیت کو اس انداز سے بیان کیا گیا ہے کہ مقام نواسہ رسول ﷺ لوگوں کے دلوں میں بلند ہوگیا ہے اور ایسا کام صرف وہی کرسکتا ہے جس کے دل میں نبی اور آل نبی ﷺ کی محبت و عقیدت موجود ہو اور اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لیے بطور خاص شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو منتخب فرمایا ہے۔
قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہرکربلا کے بعد
باب سوم: شہادت امام حسینؑ سیرت النبیؐ کا ایک باب
شہادت امام حسین علیہ السلام انتہائی منفرد حیثیت کی حامل ہے جس طرح سیرت مصطفی ﷺ دنیا میں لکھی جانے والی کتب میں انتہائی منفرد ہے۔ اسی طرح یہ شہادت بھی اپنا منفرد مقام اور درجہ رکھتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ
’’تاریخ اسلام لاتعداد عظیم شہادتوں سے لبریز ہے لیکن جس قدر شہرت، قبول عام اور ہمہ گیر تذکرہ شہادت اما م حسینؑ کو نصیب ہوا اس کی مثال نہیں ملتی۔ ساڑھے تیرہ سو سال گزرجانے کے باوجود شہادت امام حسینؑ کا ذکر زندہ و تابندہ ہے یہاں تک کہ حسینیت ہر طبقے میں حق اور یزیدیت ہر طبقہ میں فتنہ و فساد کی علامت بن گیا ہے۔‘‘
مزید لکھتے ہیں کہ ’’درحقیقت شہادت امام حسین علیہ السلام کا دائمی تذکرہ اور شہرت اسی وجہ سے ہے کہ یہ شہادت سیرت النبی ﷺ کی کتاب کا ایک باب ہے۔ حضور ﷺ کی سوانح کے مختلف گوشوں میں سے ایک گوشہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شرف و قبولیت کا جو رنگ ہمیں سیرت النبیؐ میں نظر آتا ہے۔ اسی کی جھلک سیرت کے طفیل شہادت امام حسینؑ میں بھی ہے۔‘‘
اس باب میں شہادت امام حسینؑ کی انفرادیت کے اس انوکھے پہلو کی وضاحت کی گئی ہے۔ آیات قرآنی سے استدلال کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے انعام یافتہ بندوں کے مقام کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ سورہ فاتحہ کی آیت نمبر5 اور 6 کو عنوان بناکر شہدا کے مقام ومرتبہ کا تعین کیا گیا ہے۔ بعثت انبیاء علیہما السلام کے مقصد کے ذریعے سیرت مصطفی ﷺ کی وضاحت کی گئی ہے۔ انسانوں کے حوالے سے ہدایت اور گمراہی کے راستوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
انعام یافتہ بندوں کی نشانیوں کو بیان کیا گیا ہے جن میں انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین شامل ہیں۔ یہ بتایا گیا ہے کہ انبیاء کرام علیہما السلام کے بعد ہدایت دینے والوں کا سلسلہ اولیاء و صالحین کے ذریعے جاری کیا گیا ہے۔ نبوت کے خاتمے کے ساتھ ہدایت کا سلسلہ منقطع نہیں ہوتا اور انسانیت کی رہنمائی کے لیے اولیاء و صالحین روشن چراغوں کی مانند موجود ہیں جو انسانیت کو اندھیروں میں روشنی فراہم کرنے پر مامور ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی چار عظیم نعمتوں نبوت، صدیقیت، شہادت اور صالحیت کا ذکر کیا گیا ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات والا صفات اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے اور باقی تمام نعمتیں آپؐ کے وسیلے سے عطا کی جاتی ہیں اور آپ ﷺ خود ان کو تقسیم فرماتے ہیں۔ اس حوالے سے قصیدہ بردہ کا یہ شعر نقل کیا گیا ہے جس میں حضور ﷺ کی شان قاسمیت کا تذکرہ ہے کہ
اس کے بعد شہادت کو نبی کریم ﷺ کی دعا اور شوق کے طور پر بیان کیا گیا ہے لکھتے ہیں کہ آپ ﷺ کی ذات کی جامع صفات کو اس طرح واضح کیا گیا کہ تمام نعمتیں آپ ﷺ کی ذات میں جمع کردی گئیں تو یہ ممکن نہیں ہوسکتا کہ شہادت جیسی نعمت آپ کے لیے نہ ہو اور باقی انسان اس نعمت کی وجہ سے آپ پر سبقت حاصل کرسکیں۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے شہادت کا جوہر اور اس کی روح آپ ﷺ کی ذات مبارکہ میں موجود تھی نیت اور عمل کے حوالے دیئے گئے ہیں اور یہ بتایا گیا ہے کہ شہادت کی ہئیت اصلیہ یعنی اللہ کے راستے میں جان قربان کرنے کی آرزو آپ ﷺ کی ذات میں موجود تھی اس کے دلائل کے طور پر احادیث صحیحہ کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ شہادت کی دو اقسام خاص طور پر واضح کی گئی ہیں۔
1۔ شہادت سری
2۔ شہادت جہری
شہادت سری کو مخفی یا چھوٹی شہادت بھی کہتے ہیں اس میں بیماری سے مرنا، کسی کے زہر دینے سے مرنا یا ڈوب کر مرنا شامل ہے جبکہ شہادت جہری میں میدان جنگ میں مرنا ہوتا ہے۔ اسے ظاہری اور بڑی شہادت بھی کہا جاتا ہے۔ ان دونوں شہادتوں کا وجود آپ ﷺ کی سیرت مبارکہ کے حوالے سے بیان کیا گیا ہےا ور واقعات نقل کیے گئے ہیں۔
یہ باب اپنی تمام تر جزئیات سمیت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب کے علم و ثقاہت اور اسلامی تاریخ پر مکمل عبور رکھنے کی اعلیٰ مثال ہے کتنی باریکی اور نفاست سے شہادت امام حسینؑ کے تمام جزئیات و محرکات کو ان کے اعلیٰ کردار کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے
1۔ آپ ﷺ کو زہر آلود گوشت دیا گیا مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اس شہادت سے محفوظ رکھا جس کے پیچھے بے شمار حکمتیں تھیں انھیں تفصیلاً بیان کیا گیا ہے۔
2۔ شہادت جہری کا نقطہ آغاز بھی آپ ﷺ کی حیات مبارکہ سے ثابت ہے جس میں غزوہ احد میں آپؐ کا زخمی ہونا دانت مبارکہ کا شہید ہونا، خون کا بہنا بتایا گیا اور اس میں بھی آپؐ کو شہادت جہری سے بچالینے کی حکمت بیان کی گئی ہے۔ اس کے بعد آپؐ کی ذات میں دونوں شہادتوں کے ظہور تام کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ہے اور سیرت طیبہ میں شہادت کا باب مکمل کرنے کے لیے حضور اکرم ﷺ کے دونوں بیٹوں امام حسن اور امام حسینd کے منتخب کیے جانے کا ذکر کیا گیا اور بتایا گیا کہ ایک کو شہادت سری نصیب ہوئی اور دوسرے بیٹے کو شہادت جہری عطا کی گئی۔
حسین کریمین علیہما السلام کے شہادت کے لیے منتخب کیے جانے کی وجہ ذکر کی گئی۔ ان دونوں کو حضور ﷺ سے ظاہری اور باطنی مشابہت حاصل تھی۔ حضور ﷺ نے انھیں اپنے جسم کا حصہ قرار دیا تھا اور اپنے بیٹے کہہ کر مخاطب فرماتے تھے۔ اس کے ثبوت کے طور پر سورہ آل عمران سے آیات مباہلہ کو ذکر کیا گیا ہے اور احادیث مبارکہ سے اس کی تاید و توثیق کرتے ہوئے مختلف واقعات ذکر کرکے شہادت امام حسن و حسین علیہما السلام کو نبی ﷺ کی شہادت سے موصوف کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ شہادت حسنین کریمین نبی کریم ﷺ کے جوہر شہادت کا ظہور تام ہے اور اسی حوالے سے سیرت النبی ﷺ کا اہم باب ہے اور آپ ﷺ کے فضائل و کمالات میں سے ایک کمال بن کر ہمیشہ کے لیے شرف قبولیت و دوام حاصل کرچکی ہے۔
باب چہارم: شہادت امام حسینؑ حقائق و واقعات کی روشنی میں
باب چہارم میں شہادت امام حسین علیہ السلام کو حقائق و واقعات کی روشنی میں تفصیلاً بیان کیا گیا ہے اور اس کا آغاز خلافت راشدہ کے اختتامی واقعات سے کیا گیا ہے تاکہ اس شہادت کے تمام پہلو ملحوظ رہیں اور اس کی انفرادیت اور عظمت دلوں میں راسخ ہوجائے۔
ریاستی عوامل کے پیش نظر حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت اور امام حسین علیہ السلام کے سفر کوفہ کے تفصیلی حالات بیان کیے گئے ہیں۔ تمام محرکات کو ترتیب وار بیان کیا گیا ہے تاکہ آنے والی نسلیں شہادت امام حسینؑ کے اصل محرکات سے آگاہ ہوسکیں اور شہادت کی عظمت و مرتبہ نیز شوق شہادت ان کے دلوں میں جاگزیں ہوجائے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کے تمام خطبات کو من و عن نقل کیا گیا ہے اور 10 محرم کو ہونے والی 72 شہاتوں کو تفصیلاً بیان کیا گیا ہے۔ شہادت کے بعد ہونے والے دلخراش واقعات کو اہل بیت اطہار کی عظمت کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ قاتلین امام حسینؑ کی بے ادبیوں کا ذکر اور ان کے لیے حضور ﷺ کے اہل بیت اطہار کو تکلیف پہنچانے والوں کے لیے وعیدیں بھی ذکر کی گئی ہیں۔ ان کے لیے حضرت حمزہؓ کے قاتلوں کو کی جانے والی تنبیہات کو ذکر کیا گیا ہے۔ آپ ﷺ کے شہادت امام حسینؑ کے وقت میدان کربلا میں روحانی طور پر موجود ہونے کے واقعات کو نقل کیا گیا ہے جو کہ کتب احادیث میں موجود ہیں۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کے سر انور کے کٹ جانے کے بعد اس میں سے آنے والی تلاوت قرآن کے واقعات مختلف لوگوں کی روایات کے ساتھ ذکر کیے گئے ہیں جو کہ سر حسینؑ کی اعجازی شان کو واضح کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ان تمام ام المومنین، صحابہ کرام اور صحابیات کے نام ذکر کیے گئے ہیں جنھوں نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت، مقام شہادت اور زمانہ شہادت کے متعلق روایات بیان کی ہیں۔ یہ کل دس اصحاب ہیں جن میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ اور ام المومنین حضرت ام سلمہؓ بھی شامل ہیں۔
باب پنجم: شہادت امام حسینؑ اور مقام رضا
اس باب میں سب سے پہلے قربت خداوندی حاصل کرنے کے تین مرحلوں کا ذکر ہے جن میں مرحلہ صبر، مرحلہ توکل اور مرحلہ رضا شامل ہیں۔ ان تمام مراحل کی ترتیب وار وضاحت تفصیلاً بیان کی گئی ہے۔ صابرین، متوکلین اور خدا کی رضا میں راضی رہنے والوں کے اجرو ثواب کو تفصیلاً بیان کیا گیا ہے۔ ہر مرحلے کے الگ الگ درجے ذکر کیے گئے ہیں اور ان مدارج کے حصول کے طریقے بھی بتائے گئے ہیں۔ سلف صالحین کی مثالیں دی گئی ہیں اور بتایا گیا ہے کہ سب مراحل میں مشکل ترین مرحلہ رضا ہے۔ حضرت امام حسینؑ کے حوالے سے مقام رضا کو واضح کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ تمام اہل اللہ جو مقام رضا پر فائز ہوئے وہ ایک طرف اور امام حسینؑ کا مقام رضا ایک طرف۔ سب مل کر بھی ان کے مقام کی گرد کو نہیں پاسکتے انھوں نے مقام رضا کے تمام مدارج پر کامیابی حاصل کی اور ان کی اپنے اصحاب کے ساتھ شہادت اس کی بہترین اور اعلیٰ مثال ہے۔ ان کے اعلیٰ کردار کی عظمت کو عظمت رسول ﷺ کے ضمن میں بیان کیا گیا ہے اور اسی کردار کو بعد میں آنے والے ائمہ اہل بیت کے کردار کی جھلک کے طور پر واضح کیا گیا ہے۔
یہ باب اپنی تمام تر جزئیات سمیت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب کے علم و ثقاہت اور اسلامی تاریخ پر مکمل عبور رکھنے کی اعلیٰ مثال ہے کتنی باریکی اور نفاست سے شہادت امام حسینؑ کے تمام جزئیات و محرکات کو ان کے اعلیٰ کردار کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔
باب ششم: واقعہ کربلا کی دینی اہمیت
اس باب میں واقعہ کربلا کی دینی اہمیت اجاگر کی گئی ہے اور اس کا آغاز اس بات سے کیا گیا ہے کہ اسلامی سال کا پہلا مہینہ محرم الحرام بھی قربانی کا مہینہ ہے اور آخری مہینہ ذوالحجہ بھی قربانی کا مہینہ ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمان کی تمام تر زندگی قربانی سے عبارت ہے۔ حضرت اسماعیلؑ اور حضرت امام حسینؑ کی قربانیوں میں مطابقت کو بیان کیا گیا ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ شہادت امام حسینؑ حضرت اسماعیلؑ کی قربانی کا نقطہ کمال ہے۔ قرآن مجید میں موجود 5 علوم ہیں جن میں
1۔ علم العقائد
2۔ علم الاحکام
3۔ علم التذکیر بالموت وبعد الموت
4۔ علم التذکیر بالآء اللہ
5۔ علم التذکیر بایام اللہ سے شامل ہیں۔
ان علوم کی وضاحت کی گئی ہے ان کے فوائد و اسلوب کو بیان کیا گیا ہے اور انسانی کردار کی تشکیل اور اس کے سنوارنے میں ان پانچوں علوم کی اہمیت و ضرورت کو بیان کیا گیا ہے۔
اس کے بعد یہ بیان کیا گیا ہے کہ واقعہ کربلا قرآنی مضامین کی طرح ایک اہم مضمون ہے اور اس کا ذکر قرآن میں موجود ہے اس کی دلیل کے طور پر انبیاء کرامؑ کے تمام قرآنی قصص و واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے۔ صالحین کے واقعات کا ذکر کیا گیا ہے جو قرآن مجید کی شان ہیں جن میں اصحاب کہف کے واقعے کو بطور دلیل بیان کیا گیا ہے اور قرآن مجید کے انداز و اسلوب تکلم کی وضاحت کرتے ہوئے واقعہ کربلا کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ قرآن مجید کے مطالعہ کی تحریک پیدا کی گئی ہے تاکہ اللہ پاک کے عطا کردہ علم سے فائدہ اٹھا کر انسان شہادت امام حسینؑ کے فلسفہ کو سمجھ سکے اور اس کی انفرادیت سے آشنا ہوسکے اور جان لے کہ واقعہ کربلا واقعہ اصحاب کہف سے کہیں عجیب تر ہے اور یہ بات حضرت امام حسینؑ کی شہادت کے بعد اس وقت سننے کو ملی جب سرِ حسینؑ کو نیزے پر چڑھا کر دمشق لے کر جایا جارہا تھا تو ایک شخص سورہ کہف کی تلاوت کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچا جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ غار والے اور کتبہ والے ہماری قدرت کی نشانیوں میں سے عجیب تر تھے۔ وہاں پر سر حسین سے آواز آئی کہ ’’میرا قتل اور میرا سر نیزے پر اٹھایا جانا اصحاب کہف کے واقعہ سے بھی عجیب تر ہے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ واقعی اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نواسہ رسول ﷺ کا قتل کیا جانا اور اُن کے سر اقدس کو نیزے پر چڑھا کر دمشق کے بازاروں میں پھرایا جانا یقیناً اصحاب کہف کے واقعہ کی نسبت عجیب تر ہے۔ اس کے بعد مختلف قرآنی حوالوں سے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ واقعہ کربلا ایمان میں پختگی کا سبب بنتا ہے اور اللہ تعالیٰ جسے مقام رضا پر فائز کرتا ہے اسے سب کچھ عطا کرنے کے بعد ہدایت کا آخری درجہ دیتے ہوئے بازو سے پکڑ کر منزل مراد پر کھڑا کردیتا ہے جو امام حسینؑ کے ساتھ ہوا۔
اس باب میں واقعہ کربلا کی دینی و مذہبی اہمیت کو قرآن کریم کی مختلف آیات و قصص کی روشنی میں ثابت کیا گیا ہے جو صرف کوئی متقی اور اہل ایمان شخص ہی کرسکتا ہے۔ اس کام کے لیے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا انتخاب کیا گیا ہے کیونکہ استنباط و استدلال ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا اہم پہلو ہے اور وہ اس میں ملکہ رکھتے ہیں اسی خداداد صلاحیت کا استعمال کرتے ہوئے واقعہ کربلا کی دینی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے۔ ورنہ واقعہ کربلا تو حضور ﷺ کی حیات ظاہری کے بعد پیش آیا تھا اور قرآن کا نزول آپ ﷺ کی ظاہری حیات مبارکہ میں ہوچکا تھا۔
باب ہفتم: شہادت امام حسینؑ امت مسلمہ کے نام ایک اہم پیغام
یہ باب اس کتاب کا آخری باب ہے جس میں امت مسلمہ بلکہ تمام انسانوں کی توجہ اس اہم بات کی طرف مبذول کروائی گئی ہے کہ سیاست و اقتدار ختم ہوجانے والی چیزیں ہیں اور جس اقدار کے لیے انسان اپنی تمام تر دولت، دہن اور زندگی داؤ پر لگادیتا ہے اور اسے ہی اپنی حقیقی کامیابی سمجھنے لگتا ہے وہ اس سے چھن جاتاہے اور اول دن سے اس کائنات میں یہی سلسلہ چل رہا ہے۔
شہادت امام حسینؑ کے واقعات کی روشنی میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ دنیوی کامیابی اصل کامیابی نہیں ہے۔ اس بات کی وضاحت کے لیے مختلف قرآنی آیات کے حوالے دیئے گئے ہیں اور مختلف لوگوں کی مثالیں دے کر سمجھایا گیا ہے کہ سلطنت، دولت، جوانی اور اقتدار ہمیشہ نہیں رہتا۔ ظالم و فاسق لوگ کچھ وقت کے لیے جب اقتدار میں آتے ہیں تو ہمیشہ وہ اقتدار ان کا نہیں رہتا بلکہ اللہ تعالیٰ مقررہ وقت کے بعد ان کی گرفت فرماتا ہے نہ صرف دنیا میں ان کے لیے ذلت کا وعدہ ہے اور آخرت میں بھی وہ شدید ترین رسوائی سے دوچار ہوں گے۔
اس کتاب میں شہادت ار شہادت امام حسینؑ کے فلسفہ کو انتہائی مدلل انداز میں بیان کیا گیا جو کہ یقیناً امت مسلمہ کے لیے ایک نادر و نایاب تحفہ ہے۔ تمام تاریخی واقعات کو تسلسل کے ساتھ مربوط انداز میں بیان کیا گیا ہے
انسان کو یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ ایک ایسا وقت بھی آتا ہے جب دنیا سے اس کا نام و نشان مٹادیا جاتا ہے اس کی وضاحت کے لیے قاتل حسین یزید کی مثال ذکر کی گئی ہے جس نے انتہائی بے دردی سے اہل بیت اطہار کو شہید کرواکر یہ سمجھ لیا تھا کہ اس کی حکومت ہمیشہ باقی رہے گی۔ اس نے دنیاوی اقتدار کے لیے اپنا ایمان ضائع کردیا پھر اس پر وہ وقت آیا کہ اس کے اپنے لوگ اس کے دشمن ہوگئے۔ اس کی قبر پر اونٹ اور گھوڑے باندھے گئے جہاں وہ گندگی پھیلاتے تھے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام شہید ہوکر بھی زندہ رہیں اور یزید زندہ ہوکر بھی مردہ رہا۔ حضرت امام حسینؑ کی شہادت دین کی خاطر تھی ایمان کے استحکام کی خاطر تھی۔ انھوں نے شہید ہوکر اسلام کو زندہ کیا اور امت کو جینے کا ڈھنگ سکھاگئے۔ دین کی عظمت اور پاسداری کا سبق دے گئے۔ اس باب میں شہادت امام حسینؑ کے پیغام کو بیان کیا گیا ہے۔ ان کی شہادت دو طرح کے پیغام دیتی ہے جس میں ایک عملی جدوجہد اور دوسرا امن کا پیغام ہے۔
1۔ عملی جدوجہد کا پیغام یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی میں حسینی کردار کو اپنائے۔ حق کی خاطر زندہ رہے اور حق کی خاطر مرجائے اسلام سے دھوکا دہی کا معاملہ نہ کیا جائے جیسا کہ یزید نے کیا۔ خود کو مسلمان کہلوانے کے باوجود مسلمان جیسی عادات و خصائل سے محروم رہا۔ دین سے منافقت کی انسان کی زندگی کا ہر کام اور ہر عمل دین اور محبت مصطفی ﷺ کے تابع ہونا چاہیے۔
2۔ اہل ایمان کے لیے شہادت امام حسینؑ امن کا پیغام دیتی ہے یعنی فرقوں میں بٹ جانے اور فرقہ وارانہ تشدد سے باز رہنے کا پیغام کیونکہ جب تک مسلمان باہم متحد نہیں ہوں گے کسی طور بھی دنیا پر غلبہ حاصل نہیں کرسکیں گے۔
اپنے پیارے نبی محمد مصطفی ﷺ کی ذات مبارکہ کو ایمان کا مرکز و محور مان لینا اور ان کی سنت کے مطابق عمل کرنا ہی اصل اسلام ہے۔ اسی کا حکم قرآن مجید دیتا ہےا ور اسی عقیدے کے حامل لوگ مسلمان کہلوانے کے حق دار ہیں۔ اہل بیت پاکؑ اور صحابہ کرامؓ کی پہچان بھی حضور اکرم ﷺ کی نسبت سے ہے۔ ان کی صحبت سے ہی صحابیت وجود میں آئی ہے اور ان کی صحبت پانے والوں کے لیے ہی قرآن مجید کامیابی کی خوشخبری دیتا ہے۔
اس کے بعد امت کی مختلف طبقات میں تقسیم کی کیفیت کو بیان کرکے اس کے مضمرات کا ذکر کیا گیا ہے۔ اہل بیت اطہار کی اصطلاح جن نفوس قدسیہ کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ ان کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ تعصب سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ راہ اعتدال کو اپنانے کا حکم دیا گیا ہے۔ بغض اہل بیت اور بغض صحابہ کی علامتیں بیان کرکے ان سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ صحابہ کرامؓ اہل بیت رسول ﷺ کا کس طرح ادب کرتے تھے۔ اس کے متعلق واقعات نقل کیے گئے ہیں تاکہ امت کے دل میں اہل بیت رسول سے محبت و عقیدت کا جذبہ بیدار ہو۔ حضرت علیؓ کی شان کے بیان میں مختلف احادیث مبارکہ نقل کی گئی ہیں اور عہد نبویؐ و عہد صحابہؓ میں اہل بیت رسول ﷺ سے محبت و عقیدت کے واقعات بیان کرکے مسلمانوں کو آپس میں اخوت، اتحاد، پیار اور رواداری کی تلقین کی گئی ہے تاکہ مسلمان متحد ہوسکیں اور دین کی خاطر مرمٹنے کا جذبہ ان کے دلوں میں بیدار ہوجائے۔
حاصل کلام
زیر تبصرہ کتاب ’’فلسفہ شہادت امام حسینؑ‘‘ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی بہت اعلیٰ تصنیف ہے جس میں شہادت عظمیٰ کے تمام مراحل کو ترتیب وار احسن انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ شہادت اور شہید کے معنی و مفہوم سے استدلال کرتے ہوئے اس شہادت عظمیٰ کے مدارج کو بیان کیا گیا اور اس کی انفرادیت کی وضاحت کی گئی ہے۔ یہ کتاب ڈاکٹر صاحب کے علمی ثقاہت کا اعلیٰ ثبوت ہے۔ اس سے پہلے شہادت امام حسینؑ، حقائق و واقعات کی روشنی میں تحریر ہوچکی تھی۔ جس میں صرف شہادت سے قبل اور بعد میں ہونے والے واقعات قلمبند کیے گئے تھے لیکن اس کتاب میں شہادت ار شہادت امام حسینؑ کے فلسفہ کو انتہائی مدلل انداز میں بیان کیا گیا جو کہ یقیناً امت مسلمہ کے لیے ایک نادر و نایاب تحفہ ہے۔ تمام تاریخی واقعات کو تسلسل کے ساتھ مربوط انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ دونوں کتابیں ڈاکٹر قادری کے خطبات پر مشتمل ہیں جو انھوں نے شہادت امام حسینؑ کے بارے میں مختلف موقعوں پر دیئے تھے۔ ان تمام خطبات کو امت مسلمہ کے لیے ترتیب وار کتاب کی صورت میں یکجا کیا گیا ہے جو یقیناً امت پر ایک عظیم احسان ہے۔