غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؓ ابتدا ہے اسماعیل
تاریخِ اسلام میں اطاعت و رضا اور جرات و استقامت کے دوہی استعارے ہیں اور دو ہی عظیم قربانیاں ہیں جنھوں نے حیاتِ انسانی کو ایک نئی جہد عطا کی اور فکری و عملی انقلاب سے روشناس کیا۔ اسلام کی حقانیت و ہدایت کے تحفظ میں قربانی کی سنت کا آغاز حضرت اسماعیلؑ سے ہوا۔ اپنے سعادت مند بیٹے سے حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے حکم ربی کا ذکر کیا کہ خواب میں انھیں اپنی عزیز ترین متاع راہِ خدا میں قربان کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
عزیمت و استقامت کے پیکر اس عظیم سپوت نے فوراً سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے خود کو عظیم قربانی کے لیے پیش کردیا اور والد سے فرمایا کہ آپ اللہ تعالیٰ کا حکم بجا لایئے، آپ مجھے صابروں میں پائیں گے۔ تحفظِ دین کی خاطر خود کو پیش کردینے کی جس سنت کا آغاز حضرت اسماعیلؑ نے کیا اس کی انتہا شہادتِ امام حسینؓ پر منتج ہوئی۔ حق و باطل کی معرکہ آرائی میں حق کی سربلندی، عظمتِ دین کی بقا کی جدوجہد اور اعلیٰ انسانی قدروں کی پاسداری اپنی انتہائی سورت میں امام عالی مقام کی ذاتِ گرامی سے وابستہ ہے۔ شہیدِ کربلا نے اپنی اور اپنے اعزا و اقارب کی عظیم قربانی پیش کرکے پرچمِ توحید کو قیامت تک کے لیے سربلند کردیا اور اسلام کو حیاتِ نو بخش دی۔ امام عالی مقام نے اپنے جدِ امجد حضرت ابراہیم و اسماعیل اور اپنے نانا سیدالانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کی اتباع کرتے ہوئے دین مبین کی روح کو زندہ و جاوید کردیا۔
تاریخِ اسلام کے محققین نے ان دو اصحاب کی قربانیوں اور تعبیرِ خواب کو ان الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے کہ
’’حضرت ابراہیمؑ کے خواب کی تعبیر دس ذی الحجہ کو پوری ہوئی اور حضرت امام حسینؓ کا خواب دس محرم 61ھ کو تعبیر سے ہمکنار ہوا۔‘‘
جگر گوشہ علی و بتول، شہید کربلا حضرت امام حسینؓ کی پرورش آغوشِ رسول ﷺ میں ہوئی۔ نبوت و امامت سب آپ کی تعلیم و تربیت میں شامل تھے۔ آپ نے انقلابی پیغام کو اپنے گھر سے جاری ہوتے دیکھا۔ خلفا راشدین کے عہد بابرکت کے اختتام کے بعد جب اسلامی قوانین و حدود کو تبدیل کیا جانے لگا تو اس ظلم و جبر اور فسق و فجور کے خلاف کلمہ حق بلند کرنا آپ کا فرضِ اولین تھا۔ حکومتی صفوں میں ایسی بہت سی اقدار و روایات کو متعارف کروایا جارہا تھا جو کسی طور پر اسلام کے اولین دور سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں۔ احکام خداوندی کو پسِ پشت ڈال کر شریعتِ اسلام کا سارا نظام تہہ و بالا کیا جارہا تھا۔ محمد رسول اللہ ﷺ کا فرمان تھا کہ ’’ظالم و جابر حکمران کے خلاف کلمہ حق بلند کرنا سب سے بڑا جہاد ہے۔‘‘ (سنن نسائی و ترمذی) چنانچہ نواسہ رسول ﷺ نے ظالمانہ قوانین کی پیروی کرنے سے انکار کرتے ہوئے اعلان فرمایا:
’’لوگو! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس نے ظالم، محرماتِ الہٰی کو حلال کرنے والے، اللہ کے عہد کو توڑنے والے، اللہ کے بندوں پر گناہ اور ظلم و زیادتی کے ساتھ حکومت کرنے والے بادشاہ کو دیکھا اور قولاً و عملاً اسے بدلنے کی کوشش نہ کی تو اللہ تعالیٰ کو یہ حق ہے کہ اس شخص کو اس ظالم بادشاہ کی جگہ دوزخ میں داخل کردے۔ آگاہ ہوجاؤ ان لوگوں نے شیطان کی حکومت قبول کرلی ہے اور رحمٰن کی اطاعت چھوڑ دی ہے۔ ملک میں فساد پھیلایا اور حدود اللہ کو معطل کردیا ہے۔ یہ مال غنیمت سے اپنا حصہ زیادہ لیتے ہیں۔ انھوں نے اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کردیا ہے اور حلال کردہ چیزوں کو حرام کردیا ہے۔ اس لیے مجھے اس کو بدلنے کا حق ہے۔‘‘
شہیدِ کربلا نے اپنی اور اپنے اعزا و اقارب کی عظیم قربانی پیش کرکے پرچمِ توحید کو قیامت تک کے لیے سربلند کردیا اور اسلام کو حیاتِ نو بخش دی۔ امام عالی مقام نے اپنے جدِ امجد حضرت ابراہیم و اسماعیل اور اپنے نانا سیدالانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کی اتباع کرتے ہوئے دین مبین کی روح کو زندہ و جاوید کردیا
خلافتِ راشدہ کی جمہوری اقدار کے برعکس بنو امیہ کی استبدادی اور شخصی نظمِ حکومت کا قیام ایک ایسا چیلنج تھا جس نے امام عالی مقام کو اعلائے کلمۃ اللہ اور شریعتِ اسلامی کی بقا کے لیے سینۂ سپر ہونے پر مجبور کردیا۔ اسلام میں موروثی حکومت کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ امیر معاویہؓ نے اپنے بیٹے یزید کو اپنا جانشین مقرر کرکے خلافت کو بنو امیہ کا موروثی حق قرار دے دیا۔ یزید کی بے اعتدالیوں کے باعث اسے عوام میں پذیرائی حاصل نہ تھی۔ اسلام ایک شورائی خلافت کا تقاضا کرتا ہے جس میں رنگ و نسل اور خاندانی درجات کو کوئی اہمیت حاصل نہیں۔ خود محمد رسول اللہ ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع میں اعلان فرمایا تھا:
’’اگر کوئی بینی بریدہ حبشی بھی تمہارا امیر بنادیا جائے اور وہ تمہیں کتاب اللہ کے راستے پر چلائے تو اس کی اطاعت تم پر فرض ہے۔‘‘
خلفائے راشدین کے انتخابی طریقہ کار نے ثابت کردیا کہ خلافت نہ موروثی ہے اور نہ اس کے حصول کے لیے طاقت کا استعمال جائز ہے۔ اس کے برعکس امیر معاویہؓ نے اپنی زندگی میں ہی اپنے بیٹے یزید بن معاویہ جس میں تقویٰ کے اعلیٰ اوصاف موجود نہ تھے خلیفہ نامزد کردیا اور اس کے لیے جبراً، طاقت و لالچ سے اپنی زندگی میں بیعت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے امیر معاویہؓ کے روبرو کہا کہ خلیفہ منتخب کرنے کے صرف تین طریقے ہمارے لیے قابل قبول ہیں جو خلفائے راشدین کے دور میں استعمال ہوئے اور جانشینی کا طریقہ کسی طور پر قابل قبول نہیں۔ امیر معاویہ اور اس کے بعد یزید بن معاویہ نے بالجبر بیعت لینے کا جو طریقہ اختیار کیا وہ بالکل غیر اسلامی تھا۔ اس کا اندازہ اس وصیت کے متن سے ہوتا ہے جو امیر معاویہؓ نے 60 ہجری میں بیماری کی حالت میں اپنے ولی عہد بیٹے یزید کے لیے لکھوائی۔
’’جان پدر! میں نے تمہاری راہ کے تمام کانٹے ہٹا کر تمہارے لیے راستہ ہموار کردیا ہے۔ دشمنوں کو زیر کرکے سارے عرب کی گردنیں تمہارے سامنے جھکادی ہیں اور تمہارے لیے ایک بڑا خزانہ جمع کردیا ہے۔ خلافت میں حسین بن علیؓ، عبداللہ بن عمرؓ، عبدالرحمن بن ابی بکرؓ، عبداللہ بن زبیرؓ کے علاوہ کوئی حریف نہیں۔ عبداللہ بن عمرؓ سے کوئی خطرہ نہیں انہیں زہد و عبادت کے علاوہ اور کسی چیز سے کوئی واسطہ نہیں۔ عام مسلمانوں کی بیعت کے بعد انھیں کوئی عذر نہ ہوگا۔ عبدالرحمٰن بن ابی بکرؓ میں کوئی ذاتی حوصلہ و ہمت ہیں۔ البتہ حسین بن علیؓ کی جانب سے خطرہ ہے۔ اہل عراق انہیں تمہارے مقابلے میں لاکر چھوڑیں گے۔ وہ جب تمہارے مقابلے میں آئیں اور تم کو ان پر قابو ہوجائے تو درگزر سے کام لینا کہ وہ قرابت دار بڑے حقدار اور رسول اللہ ﷺ کے عزیز ہیں۔ البتہ جو شخص لومڑی کی طرح دکھائی دے گا اور شیر کی طرح حملہ کرے گا وہ عبداللہ بن زبیرؓ ہے۔ اگر وہ صلح کرلے تو خیر ہے ورنہ قابو پانے کے بعد اس کو ہرگز نہ چھوڑنا اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے اڑادینا۔‘‘
خلفائے راشدین کے دور میں مجلس شوریٰ نہ صرف خلیفہ کو مشورہ دیتی بلکہ احتساب کے فرائض بھی انجام دیتی۔ خلیفہ کی باز پرس بھی کرسکتی اور اسے سیدھے راستے پر بھی چلا سکتی تھی لیکن امیر معاویہؓ نے مجلس شوریٰ کو ختم کرکے اس کی جگہ درباری مشیروں کو دے دی۔ یزید کے دور میں خلافت کے جملہ امور دربار کے یہی مشیر وزیر چلارہے تھے۔ اعلیٰ عہدوں اور مناصب پر تقرری کے لیے تقویٰ اور اہلیت کی بجائے خوشامد اور خاندانی تعلقات کو اہمیت دی جاتی۔
اسی طرح بیت المال کو ذاتی خزانے میں تبدیل کردیا گیا۔ انعام و اکرام کا لالچ دے کر عوامی حمایت خریدی جاتی تو دوسری طرف سادہ طرزِ حیات کو خیر باد کہہ کر شاہانہ طرز زندگی کو اپنایا جانے لگا۔ قیصر و کسریٰ کے نمونے پر دفاتر اور محلات تعمیر ہونے لگے۔ دروازوں پر دربان رکھے جانے لگے تو مسجد میں عوام سے الگ خلیفہ کے لیے مقصورے بنادیئے گئے۔ یہاں تک کہ پہلی مرتبہ دین کو سیاست سے الگ کردیا گیا۔
خود محمد رسول اللہ ﷺ اور ان کے بعد خلفائے راشدین نے سیاست کو عبادت کی طرح ہر قسم کی آلودگی سے پاک رکھا اور بلند اخلاقی اقدار کو انفرادی و اجتماعی ، معاشرتی و معاشی زندگی کا حصہ بنایا۔ مگر عہد یزید میں شہر اقتدار کا حصول اور طاقت و قوت کا غلبہ تمام تر دینی، روحانی اور اخلاقی قدروں سے بالاتر تصور کیے جانے لگا۔
حضرت امام حسینؓ خلافتِ راشدہ کا تسلسل چاہتے تھے۔ جب آپ کو بالجہر بیعت و اطاعت پر مجبور کیا گیا اور حجاز مقدس کی سرزمین نواسہ رسول ﷺ کے لیے تنگ کی جانے لگی تو آپ نے اپنے عزا و اقارب کے ہمراہ سفر کوفہ اختیار کیا۔ آپ نے کربلا کے ریگ زاروں کو اپنے کنبہ کے 72 پاک نفوس کے خون سے گلزار کرنا تو قبول کرلیا مگر شہر مدینہ و مکہ میں خون ریزی برپا نہ ہونے دی۔ آپ نے نانا کے لائے ہوئے دین میں تحریف گوارا نہ کی یہاں تک آپ کا جسم اطہر زخموں سے چور چور ہوگیا آپ نے اہل حق کو یہ راز سمجھایا کہ باطل قوتوں کے خلاف گردن تو کٹائی جاسکتی ہے مگر جھکائی نہیں جاسکتی۔ ظالم کے ہاتھ میں ہاتھ دینے اور بیعت کرنے سے بہتر رتبہ شہادت اور حیاتِ جاودانی ہے۔ اخلاقِ عالیہ کا درس آپ نے بارگاہ رسالت سے حاصل کیا۔ اس اسوہ حسنہ کو آپ نے اس طرح حرزِ جاں بنایا کہ اپنے جاں نثاروں کے ہمراہ شہادتِ عظمیٰ پر فائز ہوئے اور دنیائے انسانیت کو عظمتِ انسانیت کا اسلوب سکھایا۔ آپ اپنے نانا کے بتلائے ہوئے اعلیٰ و ارفع اصولوں کی عملی تصویر بنے۔
جگر گوشہ علی و بتول، شہید کربلا حضرت امام حسینؓ کی پرورش آغوشِ رسول ﷺ میں ہوئی۔ نبوت و امامت سب آپ کی تعلیم و تربیت میں شامل تھے۔ آپ نے انقلابی پیغام کو اپنے گھر سے جاری ہوتے دیکھا۔ خلفا راشدین کے عہد بابرکت کے اختتام کے بعد جب اسلامی قوانین و حدود کو تبدیل کیا جانے لگا تو اس ظلم و جبر اور فسق و فجور کے خلاف کلمہ حق بلند کرنا آپ کا فرضِ اولین تھا
الغرض سانحہ کربلا ایک ایسا دل خراش حادثہ تھا جس سے پورا عالم اسلام لرز گیا۔ اس واقعہ نے اسلام کی دینی، سیاسی اور اجتماعی تاریخ پر دور رس اثرات مرتب کیے۔ جگر گوشہ رسول اللہ ﷺ کے اس بیدردانہ قتل نے حق و باطل کی جنگ کو ایک نئی جہد اور سمت عطا کی۔ آپ کی شہادت عظمیٰ اس حقیقت کی روشن دلیل ہے کہ ریاست اسلامیہ کے حکمران اگر قرآن و سنت کے احکامات کو چھوڑ کر فسق و فجور کے دلدادہ بن چکے ہوں تو ان کی سیادت قبول کرنا گناہ عظیم ہے اور ان کے خلاف تلوار اٹھانا ثوابِ عظیم ہے۔ اس طرح آپ نے عظیم قربانی دے کر طاغوتی طاقتوں کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے کی قابلِ تقلید روایت قائم کی اور مسلمانوں کو باطل قوتوں کے خلاف سینہ سپر ہوجانے کا سبق دیا اور ثابت کردیا کہ آپ کی شہادت درحقیقت اسلام کی سربلندی اور کتاب و سنت کے احیاء اور اعلائے کلمۃ الحق کی آئینہ دار ہے۔