زندہ وفا کا نام ہے زینب سلام اللہ علیہا کے نام سے

عائشہ شبیر دیو

آپ کا نام سیدہ زینب بنت علیؓ ہے۔ آپ کی پیدائش جمادی الاول 5 ہجری کو ہوئی۔ آپ کی کنیت ام الحسن یا برروایت دیگر ام کلثوم تھی۔ واقعہ کربلا کے بعد آپ کی کنیت ام المصائب مشہور ہوگئی۔ آپ کے القابات درج ذیل ہیں:

نائبۃ الزہرا، شریکۃ الحسین، ناموس الکبریٰ، صدیقۃ الصغریٰ، فصیحہ، بلیغہ، زاہدہ، فاضلہ، عالمہ، عابدہ، عاقلہ، کاملہ، قرۃ عین المرتضیٰ، خاتون کربلا، ثانی زہرہ، سفیرہ کربلا، خاتون انقلاب۔

نسب، سیدہ زینبؑ کا گھرانہ رشک ملائک عظمت و رفعت میں بے مثال اور روئے زمین کا بہترین گھرانہ تھا۔ آپ کے نانا سیدالانبیاء، تاجدار ختم نبوت، فخر موجودات، رحمت عالم حضرت محمد مصطفیﷺ ہیں۔

راہِ عزیمت

اللہ رب العزت دین اسلام کے احیاء اور غلبہ حق کے لیے ایسے افراد کو منتخب فرماتا ہے جو اپنی زندگیوں کو اللہ کی منشا کے مطابق گزارنے کا عزم صمیم کرلیتے ہیں۔ جن کے ارادے اتنے مضبوط ہوتے ہیں کہ باطل سے ٹکرا جاتے ہیں۔ کردار مردو عورت کی تخصیص سے پاک ہوتے ہیں۔ انقلاب اول ہو تو مال قربان کرتی ہوئی پہلی اسلامی نظریاتی خاتون حضرت خدیجۃ الکبریٰ کا کردار نظر آتا ہے۔ انقلاب کی بنیاد مستحکم کرتے ہوئے حضرت سمعیہ کی قربانی دکھائی دیتی ہے۔

کہیں جرنیل کے روپ میں حضرت صفیہ نظر آتی ہیں تو کہیں حضرت اسماء پیغام رسانی کا کردار نبھاتی ہیں۔ معاشرے کو بدلنے کے لیے حق کا علم بلند کرنے کے لیے غلبہ اسلام کے لیے صنف نازک کے ایسے مضبوط کردار نظر آتے ہیں جو راہ رخصت نہیں بلکہ راہ عزیمت اختیار کرکے حق کی پاسبانی کرتی رہی۔ راہ عزیمت کا عظیم کردار سیدہ زینب سفیرہ انقلاب، خاتون انقلاب سیدہ زینب کے عظیم انقلابی کردار نے گرتے ہوئے حسینی علم کو اٹھایا اور رہتی دنیا تک حسینیت کو زندہ کردیا۔

اسلام کا سرمایۂ تسکین ہے زینب
ایمان کا سلجھا ہوا آئین ہے زینب
حیدر کے خدوخال کی تزئین ہے زینب
شبیر ہے قرآن تو یاسین ہے زینب
یہ گلشنِ عصمت کی وہ معصوم کلی ہے
تطہیر میں زہرا ہے تو تیور میں علی ہے

حق و باطل کی تفریق

ولا تلبسوا الحق بالباطل وتکتموالحق وانتم تعلمون.

سیدہ زینب نے قرآن حکیم کی اس آیت کریمہ کے حکم کو اپنے کردار میں ڈھالتے ہوئے باطل کردار کو حق کے سامنے زیر کردیا۔ حق کو واضح کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ سیدہ زینب کی صدائے انقلاب نے جاء الحق وزھق الباطل کا نعرہ بلند کیا۔

بندگی کا کمال

قل ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العلمین.

انقلابی کردار کے حامل افراد کا اپنے رب سے تعلق بندگی کمال کا ہوتا ہے اور اہل بیت اطہار کا ہر فرد کمال بندگی کا تاج سر پر سجائے نظر آتا ہے۔ سیدہ زینبؓ کمال بندگی کا پیکر نظر آتی ہیں۔ اپنی عبادات، قربانیاں زندگی اور موت اللہ کے نام کردی صرف دعویٰ بندگی نہیں کیا بلکہ بندگی کا حق ادا کرکے امت کی تمام خواتین کے لیے مثال قائم کردی۔

سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کے اوصاف صبرو استقامت، جرات و بہادری، شرم و حیا، وفا و ایثار، پاکیزگی و طہارت، تحمل و وقار، زہد وتقویٰ، عبادت و ریاضت، بلندی کردار و عظمت کردار کو بیان کرنے سے الفاظ قاصر ہیں۔ ان سب الفاظ کو رفعت و بلندی آپ کے کردار سے ہی ملی ہے۔

انقلابی تدبیر

باوجود اس کے کہ بظاہر تمام حالات بنی امیہ اور ان کے حکمراں یزید فاسق و فاجر کے حق میں تھے جناب زینب نے اپنے خطبوں کے ذریعے اموی حکام کی ظالمانہ ماہیت برملا کر کے ابتدائی مراحل میں ہی نواسہ رسول کے قاتلوں کی مہم کو ناکام و نامراد کردیا۔

ولا تلبوا الحق باالباطل وتکتموالحق وانتم تعلمون.

سیدہ زینبؑ نے حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط نہیں ہونے دیا۔ بغاوت کے لبادے میں حق کو چھپانے نہیں دیا کیونکہ حق سے رضا کا نزول ہورہا تھا جو سیدہ کو جرات دے رہا تھا۔ بے باکی و بے خوفی مل رہی تھی۔ حق کی قربت کی لذت، تکلیف، مصائب و اذیت غم کو دبا کر حق کی پرچار کروارہی تھی۔ حق کی اشاعت ہورہی تھی، سیدہ زینبؓ اوج کمال پر بندگی کا حق ادا کرتے ہوئے اس منظر میں کہ جب سب رشتوں و محبتوں کے سرکٹ کر نیزوں پر ہیں۔ تب بھی صنف نازک کا مضبوط کردار اور حق کی للکار بن رہی ہیں۔ آقا حسین علیہ السلام کے لازوال عشق کی بے مثال وفاداری نبھارہی ہیں۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ نبھارہی ہیں۔

دربار زیاد، بازار شام، کوفہ دمشق درودیوار کوفہ، دربار یزید میں صدائے زینب صدائے انقلاب گونج رہی ہے۔ اس صدائے انقلاب نے حق غالب کرنے اور باطل کو مٹانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ دین کی فکری و نظریاتی اساس کو بچانے میں صدائے انقلاب مستحکم بنیاد فراہم کی۔

خطبات زینب سلام اللہ علیہا ثابت کرتے ہیں قربانیوں کی عظیم داستان رقم کرنے والے اپنے رب کی رضا پر راضی رہنے والے توکل اللہ کی کامل تصویر نظر آنے والے عمل کے ساتھ ساتھ لفظ بھی خودی کی سربلندی کا جامہ پہنے ہوئے ہیں کہ کہیں کوئی شکوہ نہیں شکایت نہیں بلکہ آزمائش پر منتخب ہونے پر اور پھر سرخرو ہونے پر مطمئن ہیں۔

سالارِ حقانیت

جناب زینب نے اپنے وقت کے ظالم و سفاک ترین افراد کے سامنے پوری دلیری کے ساتھ اسیری کی پروا کئے بغیر مظلوموں کے حقوق کا دفاع کیاہے اور اسلام و قرآن کی حقانیت کا پرچم بلند کیا۔ جن لوگوں نے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ایک ویران و غیر آباد صحرا میں قتل کرکے، حقائق کو پلٹنے اور اپنے حق میں الٹا کر کے پیش کرنے کی جرات کی تھی سردربار ان بہیمانہ جرائم کو برملا کرکے کوفہ و شام کے بے حس عوام کی آنکھوں پر پڑے ہوئے غفلت و بے شرمی کے پردے چاک کئے ہیں۔

خطبہ سیدہ زینب اعلائے کلمۃ الحق دربار یزید میں

لفظ لفظ حق کے موتی الفاظ فیض نبوت، لہجہ حیدر کرار، انداز سیدہ کائنات۔

سب خوبیاں اس اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے اور درود و سلام ہو نبیﷺ پر آپ کی اہل بیت پر۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد برحق ہے ان لوگوں کا برا انجام جو برابر برے کام کرتے رہے اور اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو جھٹلایا اور ان کے ساتھ تمسخر کیا۔ تو نے اے یزید! ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے تنگ کردیئے اور ہمیں قیدیوں کی طرح لایا گیا اور یہ گمان کرتا ہے کہ ہم ذلیل اور تو جلیل ہے اور تو دیکھتا ہے کہ دنیا تجھ کو حاصل ہے اور تیرے پاس تمام اسباب ہیں اور ہماری سلطنت تیرے قبضہ و اقتدار میں ہے۔ اس لیے تو ناک چڑھا کر اترا رہا ہے اور اس کام سے بڑا خوش ہے۔ ٹھہر جا! جلدی نہ کر کیا تو خدا کا یہ فرمان نہیں جانتا کہ کافر لوگ یہ گمان نہ کریں کہ ہم نے جو ان کو ڈھیل دے رکھی ہے یہ ان کے لیے بہتر ہے ہم تو محض اس لیے ان کو مہلت دیتے ہیں کہ وہ دل کھول کر گناہ زیادہ کرلیں ان کے لیے رسوا کرنے والا عذاب موجود ہے۔ تو نے ہمارے زخم کو گہرا کردیا اور ذریت رسولﷺ اور عبدالمطلب کی اولاد میں سے شارہائے زمین کے خون مقدس اور انہی کے موڑ میں وارد ہوگا۔ اس وقت تو اپنے رویہ کی بنا پر پسند کرے گا کہ کاش تیرے ہاتھ شل ہوجاتے اور جو کچھ کہا اور کیا ہے نہ کہتا نہ کرتا۔ میری دعا ہے اے باری تعالیٰ ہمارا حق ہم کو دے اور ہم پر ظلم کرنے والوں سے انتقام لے اور جن لوگوں نے ہمارا خون بہایا ہے اور ہمارا ساتھ دینے والوں کو شہید کیا ہے ان پر اپنا قہرو غضب نازل فرما۔

یزید اگرچہ حادثات زمانہ نے ہمیں اس موڑ پر لاکھڑا کیا ہے اور خاندان نبوت کو قیدی بنایا گیا ہے لیکن جان لے میرے نزدیک تیری طاقت کچھ بھی نہیں ہے۔ اللہ کی قسم اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتی اس کے سوا کسی اور سے گلہ و شکوہ بھی نہیں کروں گی۔ اے یزید مکرو حیلے کے ذریعے تو ہم لوگوں سے جتنی دشمنی کرسکتا ہے کر لے۔ ہم اہل بیت پیغمبرﷺ سے دشمنی کے لیے تو جتنی بھی سازشیں کرسکتا ہے کرلے لیکن اللہ کی قسم تو ہمارے نام کو لوگوں کے دل و ذہن اور تاریخ سے نہیں مٹا سکتا اور تو ہماری حیات اور ہمارے افتخارات کو نہیں مٹاسکتا اور اسی طرح تو اپنے دامن پر لگے ننگ و عار کے بدنما داغ کو بھی نہیں دھوسکتا اللہ کی لعنت ہو ظالموں اور ستمگروں پر۔

ان مظالم کو بیان کرکے جو یزید نے میدان کربلا میں اہل بیت پر روا رکھے تھے سیدہ نے لوگوں کو سچائی سے آگاہ کیا۔

حیدر کبھی بنی کبھی شبیر زینبؑ
قرآن اگر حسینؑ تو تفسیر ہے زینبؑ
حفظ اماں کی دین یہ زنجیر ہے زینبؑ
بعد حسینؑ نانا کی سفیر ہے زینبؑ
بے تیغ لڑیں تو علمدار بن گئی
خطبہ دیا تو حیدر کرار بن گئی
چادر سے اپنی دین کا پردہ بنادیا
زندہ حسینؑ ہے یہ زمانے کو بتادیا
نبیؐ کا مان، علیؑ کا وقار ہے زینبؑ
جلال رب کی آئینہ دار ہے زینبؑ
کلام کرتی ہوئی ذوالفقار ہے زینبؑ

سفیرہ کربلا کی ضرب سے ضمیروں میں بیداری

شام والے رفتہ رفتہ عراق میں گزرجانے والی قیامت کی حقیقت سے آگاہ ہوگئے اور انہیں یہ معلوم ہوگیا کہ کربلا والے یزید کے حکم اور کوفہ کی فوج کے ہاتھوں شہید ہوئے ہیں رسولﷺ خدا کے نواسے حسین بن علیؑ اور یہ خواتین بچے جنہیں قیدی بناکر دمشق لایا گیا ہے یہ پیغمبر اسلامﷺ کے اہلبیتؑ یہ اس کاخاندان ہے جس کی جانشینی کے نام پر یزید ان پر دوسرے مسلمانوں پر حکومت کررہا ہے۔

بازار حمیدیہ جہاں شہدائے کربلا کی عورتوں اور بچوں کو اونٹوں پر لایا گیا۔ خطبہ ذینب کبری کے سوختہ جگر اور تقوی سے سرشار دل سے نکلے ہوئے کلمات کا رد عمل یہ ھوا کہ پتھر دل والا بھی جب ایمان و تقوی سے سرشار اور خود کو ناتوان اور مدمقابل کو طاقتور سمجھے لگا۔ چند لحظوں کے بعد ھی قصریزید میں موت کا سناٹا چھاگیا۔

یزید نے حاضرین کی پیشانیوں سے ناراضی اور نفرت کے آثار دیکھے تو کہنے لگا خدا ابن مرجانہ کو غارت کرے، میں حسینؑ کے قتل کو پسند نہیں کرتا تھا، اس کے بعد اس بات کی طرف متوجہ ہوا کہ اسیروں کو اسی حالت میں رکھنا مصلحت کے خلاف ہے، حکم دیا کہ انہیں دوسری جگہ منتقل کردو۔ قریش کی خواتین میں سے جو بھی ان سے ملنا چاہتی ہے مل سکتی ہے عظمت زینب سلام اللہ علیہا کی عظمت اور قوت قلب اس وقت اور اچھی طرح آشکار ہوجاتی ہے کہ جب یزید کی مجلس میں آپ کی روحانی حیثیت اور رخطبہ اپنا اثر قائم کرتا ہے۔

جس زینبؑ نے مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ اور مکہ معظمہ سے کربلا اور کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام کے سفر کے دوران بڑی بڑی مصیبتیں اٹھائی ہیں اور سفر میں ذرہ برابر آرام میسر نہیں آیا اور کسی ایک شخص یا جماعت کی حمایت کے بغیر قافلہ سالاری کو سنبھالے رہیں اور منزل بہ منزل ان کی حفاظت کرتی رہیں۔

اس ماحول میں لب کشائی کے لیے شیر کا کلیجہ اور جرأت درکار ہے، زینبﷺ کی رگوں میں علیؑ و فاطمہؑ کا خون دوڑ رہا ہے۔ آپ اپنے زمانہ کے بڑے بت کے سامنے اس شجاعت و شہامت سے ایسے سخن ریز ہوتی ہیں اور اہلبیتؑ کی عظیم قربانیوں کا حقیقی پیغام پھیلادیتی ہیں اور خوابیدہ ضمیروں کو بیدار کردیتی ہیں۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری احسان سیدہؑ کا اعتراف کرتے ہوئے ان کے مشن کی تکمیل کے لیے پیغام زینب کو اس دور میں عملی تصویر دینے کے لیے منہاج القرآن ویمن لیگ کا قیام عمل میں لائے ہیں۔ منہاج القرآن ویمن لیگ کی جرات وہمت سیدہ اور سفیرہ صدائے حق و انقلاب کی امین ہے۔

دعوت حق اور انکار باطل کی جرات اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضہ کی انجام دہی کے لیے آج کی عورت چادر ثانی زہرہ کے سایہ میں اعلائے کلمۃ الحق بلند کرنے کا عزم منہاج القرآن ویمن لیگ کا مقصد اولین ہے۔