مصباح عثمان

تین عشروں سے زائد عرصہ سے عالمی سطح پرہر سال یکم اکتوبر کو بزرگوں کا دن منایا جاتا ہے جس کی بنیادی وجہ بزرگ افراد کے حقوق کے حوالے سے لوگوں میں شعور اُجاگر کرنا ہے۔ تاکہ نسلِ نو کو معمر اور ضعیف افراد کے مقام و مرتبہ اور ان کے مسائل سے آگاہ کرتے ہوئے ان کا ممکنہ حل پیش کیا جا سکے ۔ بلاشبہ ضعیف العمری کسی بھی امتحان سے کم نہیں۔ یہ نظامِ قدرت ہے جس کے تحت انسان شیرخوارگی، طفولیت، بچپن، لڑکپن اور جوانی کی تمام سیڑھیاں پار کرتے ہوئے بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے اور اس عمر میں وہ اپنی عادات و اطوار میں بچپن کی طرف لوٹ جاتا ہے جسے قرآن مجید میں اس انداز سے پیش کیا گیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’اور ہم جسے طویل عمر دیتے ہیں اسے قوت و طبیعت میں واپس (بچپن یا کمزوری کی طرف) پلٹا دیتے ہیں، پھر کیا وہ عقل نہیں رکھتے۔‘‘

(یٰس، 36: 68)

یعنی عمر رسیدہ افراد اپنی کمزوری، ناتوانی اور ضعیف العمری کی وجہ سے ذہنی و جسمانی لحاظ سے بچے کی مانند ہو جاتے ہیں، جو کل تک دوسروں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھایا کرتے تھے آج وہ خود عمر کی اس منزل پر دوسروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں اور ان کی خدمت و محبت کے محتاج ہو جاتے ہیں۔ اسی کیفیت کا ذکر مشہور انگریزی مصنف شیکسپیئر نے ’’انسان کی سات عمروں‘‘ کی نظم میں کیا جس میں وہ آخری دو مراحل کو بڑھاپے اور اس کی آخری عمر سے ذکر کرتا ہے جس میں انسان

“With spectacles on nose and pouch on side,
۔۔۔۔۔and his big manly voice,
Turning again toward childish treble, pipes
And whistles in his sound
Last scene of all,
That ends this strange eventful history,
Is second childishness and mere oblivion,
Sans teeth, sans eyes, sans taste, sans everything.’

اپنی زندگی کے آخری مراحل کو طے کرتا ہے۔ ان ایام میں اسے مکمل توجہ اور دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہاں موقع کی مناسبت سے اور امتِ مسلمہ کا ایک فرد ہونے کے ناطے ہمارے اوپر اس فرض کی ادائیگی کی ذمہ داری کئی گنا بڑھ جاتی ہے کہ عمر کے اس آخری مرحلے پر بزرگوں اور عمر رسیدہ افراد کی دیکھ بھال میں کسی قسم کی کمی نہ برتیں اور اگر بزرگ افراد والدین کی صورت میں ہمارے درمیان موجود ہیں تو ان کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں۔ اور اگر معاشرے میں کسی بھی حیثیت سے وہ موجود ہیں تو ہر لحاظ سے ان کے حقوق کو ادا کرنے کی کوشش کی جائے۔ بزرگوں کے حقوق سے متعلق قرآن مجید اور سیرتِِ مصطفیٰ ﷺ  کی روشنی میں آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل سنہری اُصول امت کو عطا کر دئیے گئے تھے جن کی روشنی میں اسلامی معاشرے میں عمر رسیدہ افراد خصوصی مقام کے حامل ہیں۔

عصرِ حاضر کا المیہ:

یورپی ممالک اور مغربی معاشروں میں خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے یہی وجہ ہے کہ وہاں عمر رسیدہ افراد کی دیکھ بھال پر خصوصی توجہ دینے کے لیے 60 سال کی عمر کے بعد علاج معالجہ اور سفری سہولیات مفت مہیا کی جاتی ہیں۔ ان کے لیے کثیر تعداد میں نجی اور سرکاری ’’دار الکفالہ‘‘ (Old Age Homes) موجود ہیں، جہاں وہ اپنی زندگی کے آخری ایام آرام سے گزار سکتے ہیں۔ اولاد اپنے بوڑھے ماں باپ کی خدمت کو بوجھ سمجھتی ہے اور ان کی دیکھ بھال کی ذمہ داریاں قبول نہیں کرتی۔ کبھی کبھار’’کرسمس ڈے ‘‘، ’’فادرز ڈے‘‘ یا’’مادرز ڈے‘‘ پر رابطہ کر کے انہیں کچھ تحائف دے کر اولاد اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ ہو جاتی ہے۔ بد قسمتی سے مسلم معاشرے بھی آج کسی نہ کسی طرح اس زد میں آچکے ہیں۔

عصرِ حاضر کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ مغرب کی اندھا دھند تقلید کے سبب مسلم معاشرے بھی بزرگ افراد اور والدین کے حوالے سےالّا ما شاء اللہ صرف عالمی ایام منانے تک محدود ہوگئے اور سال میں ایک دن ’’مدرزڈے‘‘ ’’فادرز ڈے‘‘ جیسے دن منا کر یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ہم ان کے خیر خواہ ہیں ۔ جب کہ یہ حقیقت انتہائی تکلیف دہ ہے۔ وہ والدین جنہوں نے زندگی بھر محنت و مشقت اور تکالیف برداشت کر کے اولاد کی پرورش کی ہے۔آج جوان اولاد ان محسنوں کے حوالے سے لا تعلقی کا اظہار کر رہی ہے اور انہیں اولڈ ایج ہوم کی دلدل میں دھکیل رہی ہے؛ جس ماں کے قدموں تلے رب نے جنت رکھی تھی اور باپ کی رضا کو اپنی رضا کے حصول کا ذریعہ قراردیا تھا اولاد خود کو ان نعمتوں سے محروم کر رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ قرآن و سنت سے دوری اور بے رغبتی ہے۔

رسیدہ افراد کے عمومی مسائل:

عمر رسیدہ افراد کو عمومی طور پر جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

  • ان کی عزت و توقیر نہیں کی جاتی۔
  • ان کی عمر رسیدگی کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔
  • انہیں دقیانوس کہہ کر ان کی نصیحتوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔
  • ان سے اکتاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں جھڑکا جاتا ہے۔
  • ان سے تلخ کلامی اور سخت لہجے میں بات کی جاتی ہے۔
  • انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
  • ان کی عزتِ نفس مجروح کی جاتی ہے۔
  • ان کی نافرمانی کی جاتی ہے۔
  • انہیں باعثِ زحمت سمجھتے ہوئے ان سے غیر ہمدردانہ بلکہ غیر منصفانہ سلوک کیا جاتا ہے۔

عمر رسیدہ افراد سے چھٹکارا پانے کے لیے انہیں اولڈ ہومز میں منتقل کروا دیا جاتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اولڈہومز کا آغاز بے سہارا، بیمار، محتاج اور نادارعمر رسیدہ فراد کی دیکھ بھال اور حفاظت جیسے مقاصد کو مدِنظر رکھ کر کیا گیا تھا تاکہ ایسے افراد کو گھر جیسا ماحول فراہم کیا جائے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے کی بھلائی اور مثبت پہلوؤں کو مد نظر رکھ کر اولڈ ہوم کے قیام کے نیک مقصد کو انسانی خود غرضی کے شکار افراد نے ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے قابلِ نفرت عمل میں بدل دیا ہے اور آج یہاں بیشتر تعداد ایسے عمر رسیدہ افراد کی رہائش پذیر ہے جن کی اولاد جوان اور برسرِ روزگار ہے۔لیکن اپنی بے حسی اور بےجا مصروفیات کی وجہ سے وہ انہیں اولڈ ہومز کی نذر کر دیتے ہیں۔ یہ افراد اپنی زندگی کے آخری شب و روز انتہائی کسمپرسی، اذیت ناک لمحات اور انتہائی بے بسی میں اپنی جوان اولاد، پوتے پوتیوں کے چہرے دیکھنے کی آس میں گزار دیتے ہیں۔

عمر رسیدہ افراد کے ساتھ ناروا سلوک: معاشرتی تباہی کا سبب

عمر رسیدہ افراد کی عزت و احترام کا رخصت ہونا معاشرے کی تباہی کا سبب بنتا ہے۔ جس سماج میں افرادِ معاشرہ کی عمر رسیدہ افراد سے بےرُخی اور بے اعتنائی عام ہو جائے، ان کی عزت و احترام مفقود ہو جائے اور ان کے حقوق سے صرفِ نظر کیا جائے، تو یہیں سے معاشرے کی تہذیب وتمدن کے اضمحلال اور زوال کا آغاز ہوتا ہے۔ کیونکہ خاندان معاشرے کی اکائی ہے اور بہت سے خاندان مل کر معاشرے کی صورت اختیار کرتے ہیں۔ گویا معاشرہ خاندانوں کا اجتماع ہے۔ اگر خاندان کی سطح پر بزرگوں کی عزت ہو گی تو اس کا نظام مستحکم اور مضبوط ہو گا۔ جس سے پورا معاشرہ بھی مستحکم اور مضبوط ہو گا۔ لیکن اگر خاندان کی سطح پر بزرگوں کے احترام کا کلچر ختم ہو جائے، تو خاندان بھی کمزور پڑ جائیں گے جس سے پورے معاشرے میں فساد اور تباہی رونما ہو گی۔ کیونکہ بزرگوں کی عزت و احترام ہی صحت مند روایات اور توانا تہذیب کی اساس ہے۔

اسلام میں اولڈ ہوم کا تصور:

اسلام میں عمر رسیدہ افراد کو بوجھ سمجھ کر اولڈہوم میں داخل کروانے کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ بلکہ دینِ اسلام تو ان کے حقوق کا بھرپور دفاع کرتا اور ان کا بہت زیادہ خیال رکھنے کی تلقین کرتا ہے۔ ان کی موجودگی کو باعثِ خیر و برکت قرار دیتا ہے۔ ان کے ساتھ عزت و توقیر اور ادب و احترام سے پیش آنے کی تلقین کرتا ہے۔ ان کی عمر رسیدگی کی قدر دانی اور خبر گیری پر اخروی اجر عطا کرتا ہے۔ ان کے اخراجات کی کفالت سے آمدنی میں برکت عطا کرتا ہے۔ اپنے بڑھاپے میں عزت و احترام اور آرام و سکون کے حصول کے لیے ان کی عمر رسیدگی میں خیال رکھنے سے مشروط کرتا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیثِ مبارک میں ہے:

حضرت انس بن مالكؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’جو جوان کسی بوڑھے کی عمر رسیدگی کے باعث اس کی عزت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس جوان کے لیے کسی کو مقرر فرما دیتا ہے جو اس کے بڑھاپے میں اس کی عزت کرے۔‘‘

(أخرجه الترمذي في السنن، کتاب البر والصلة، باب ما جاء في إجلال الکبير، والطبراني في المعجم الأوسط، والبيهقي في شعب الإيمان)

حضور نبی اکرم ﷺ نے بزرگوں کی عزت و تکریم کی تلقین فرمائی اور بزرگوں کا یہ حق قرار دیا کہ کم عمر اپنے سے بڑی عمر کے لوگوں کا احترام کریں اور ان کے مرتبے کا خیال رکھیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے۔‘‘

(ترمذي، السنن، کتاب البر والصلة، باب ما جاء في رحمة الصبيان، ابويعلي، المسند، ربيع، المسند)

حضرت ابو موسیٰ أشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا:

’’بوڑھے مسلمانوں کی تعظیم کرنا اللہ تعالیٰ کی تعظیم کا حصہ ہے۔‘‘

(أبو داؤد، السنن، کتاب الأدب، باب فی تنزیل الناس منازلهم)

حضور نبی اکرم  ﷺ  کی عمر رسیدہ افراد کے ساتھ احساس ہمدردی کی اس سے بڑی مثال کیا ہو سکتی ہے کہ باجماعت نماز میں عمر رسیدہ افراد کی موجودگی کی وجہ سے قرأت میں تخفیف فرمانے کی تاکید فرماتے جیسا کہ حدیث مبارک سے ثابت ہے۔ حضرت ابو مسعود انصاریؓ فرماتے ہیں:

’’ایک شخص عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! خدا کی قسم، میں صبح کی نماز سے فلاں کی وجہ سے رہ جاتا ہوں جو ہمیں لمبی نماز پڑھاتے ہیں۔ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نصیحت کرنے میں اُس روز سے زیادہ ناراض نہیں دیکھا۔ فرمایا تم میں سے کچھ لوگ نفرت دلانے والے ہیں۔ پس جو تم میں سے لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی پڑھانی چاہیے کیونکہ ان میں کمزور، بوڑھے اور ضرورت مندبھی ہوتے ہیں۔‘‘

(بخاری، الصحیح، کتاب الجماعۃ والإمامۃ)

لہذا ضروری ہے کہ اس حوالے سے اسلام کی عطا کردہ ان آفاقی تعلیمات کو مشعلِ راہ بنایا جائے جن میں عمر رسیدہ اَفراد کو باعثِ برکت و رحمت اور قابلِ عزت و تکریم قرار دیا گیا ہے۔

نوٹ: مذکورہ بالا موضوع سے متعلق تفصیلی رہنمائی کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی تصنیف ’’عمر رسیدہ افراد (مسائل اور ان کا حل)‘‘ سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔