والدین کے ساتھ احسان کا رویہ سب سے بڑی عبادت ہے وہ معاشرے پر اثرات ڈالتے ہیں ان کی ذمہ داری اگلی نسلوں کی تربیت کرنا، برائیوں سے بچانا اور اچھائیوں کی طرف راغب کرنا ہے،و الدین ان تمام طبقات کے سب سے بڑے نمائندے ہوتے ہیں۔ ہر حالت میں والدین نے اولاد کی کفالت کرنی ہے۔ بچپن سے لے کر جوانی تک والدین کا اپنی اولاد کے ساتھ گزارا ہوا ہر لمحہ احسان ہوتا ہے ۔ یہ سلسلہ بالا اطلاق شادی سے پہلے جاری رہتا ہے لیکن بچوں کی شادی کے بعد پریشانی ہوجاتی ہے۔ ماں کے احسان میں بھی کمی آجاتی ہے۔ نتیجتاً اولاد کے رویے میں بھی خرابی جنم لیتی ہے۔ اس لیے اس بیان میں ماں کی بھی تربیت کا بھی ذکر ہے۔
ماں کی جو بچے سے محبت ہے اس میں وہ کسی کو شریک ہونا گوارا نہیں کرتی۔ یہ سوچ رویہ احسان کو متاثر کرتی ہے۔ اولاد کو حکم دیا گیا ہے کہ والدین کے ساتھ احسان کرنے کا اس لیے کہ احسان کا بدلہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق سوائے احسان کے اور کچھ بھی نہیں۔ روئے زمین پر والدین سے بڑھ کر احسان کرنے والا کوئی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اولاد پر ذمہ داری عائد کی کہ میری عبادت کے بعد سب سے بڑھ کر والدین کے ساتھ احسان کا رویہ اپناؤ لیکن ہماری سوسائٹی میں اخلاقیات کا پورا تانا بانا نہ صرف کمزور ہوگیا بلکہ ٹوٹ گیا ہے اور اقدار مٹ گئی ہیں۔
معاشرہ بداخلاق لوگوں کا ہجوم بنتا جارہا ہے۔ والدین کے ساتھ بھلائی کے ساتھ پیش آنا خدمت گزاری کے ساتھ پیش آنا۔ جس سے احسان خدمت گزاری کا کلچر جنم لیتا ہے جو اولاد والدین کے ساتھ احسان، خدمت گزاری اور ادب و احترام کا رویہ نہیں رکھتی وہ اولاد معاشرے میں کسی کی بھی عزت و تکریم نہیں کرسکتی۔ جس معاشرے میں والدین کا احترام ختم ہوجاتا ہے ان معاشروں میں سب بڑوں کا احترام ختم ہوجاتا ہے۔ حیا اور لحاظ کا کلچر ختم ہوجاتا ہے ۔ چھوٹے پر شفقت اور بڑے کی تعظیم کا کلچر ختم ہوجاتا ہے ۔ لہذا سارے معاشرے میں ادب و احترام، احسان اور خدمت گزاری کے کلچر کی بنیاد والدین کے ساتھ حسن سلوک پر قائم ہے۔اگر یہ تعلق ٹوٹ گیا تو ساری سوسائٹی بے راہ روی کا شکار ہوجائے گی۔
والدین اپنی اولاد کی پہلی درسگاہ ہوتے ہیں۔ اولاد جب والدین کا لمحہ بہ لمحہ ادب و تکریم کرے گی، اپنے والدین سے آواز بلند نہیں کرے گی، آگے ہوکر نہیں بیٹھے گی، پشت کرکے نہیں چلے گی، اونچی آواز سے بات نہیں کرے گی تو ان کی اپنی اولادیں بھی ان کا اسی طرح ادب کریں گی اس عمل کا فیض سوسائٹی کے تمام بڑوں، اساتذہ کرام اور علماء اور مشائخ کو بھی ملے گا۔ اس کے برعکس اگر جس نےوالدین کا ادب نہیں کیا وہ کسی کے ساتھ بھی ادب تمیز نہیں رہے گا۔ اس کا رویہ تبدیل ہوجائے گا اس میں رعونت اور فرعونیت آجائے گی۔ کسی کا ادب و احترام کرنا اس کی سرشت میں نہیں رہے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ اے یحییٰ! (ہماری) کتاب (تورات) کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور ہم نے انہیں بچپن ہی سے حکمت و بصیرت (نبوت) عطا فرما دی تھی۔ اور اپنے لطفِ خاص سے (انہیں) درد و گداز اور پاکیزگی و طہارت (سے بھی نوازا تھا)، اور وہ بڑے پرہیزگار تھے۔ اور اپنے ماں باپ کے ساتھ بڑی نیکی (اور خدمت) سے پیش آنے والے (تھے) اور (عام لڑکوں کی طرح) ہرگز سرکش و نافرمان نہ تھے۔ اور یحییٰ پر سلام ہو ان کے میلاد کے دن اور ان کی وفات کے دن اور جس دن وہ زندہ اٹھائے جائیں گے۔‘‘
(مریم، 19: 12۔15)
جس معاشرے میں والدین کا احترام ختم ہوجاتا ہے ان معاشروں میں سب بڑوں کا احترام ختم ہوجاتا ہے۔ حیا اور لحاظ کا کلچر ختم ہوجاتا ہے ۔ چھوٹے پر شفقت اور بڑے کی تعظیم کا کلچر ختم ہوجاتا ہے ۔ لہذا سارے معاشرے میں ادب و احترام، احسان اور خدمت گزاری کے کلچر کی بنیاد والدین کے ساتھ حسن سلوک پرقائم ہے۔اگر یہ تعلق ٹوٹ گیا تو ساری سوسائٹی بے راہ روی کا شکار ہوجاتی ہے
اس آیت مبارکہ میں حضرت یحیٰ کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔ حضرت یحیٰ اپنے والدین کے ساتھ بڑی نیکی اور خدمت کے ساتھ پیش آنے والے تھے۔ کوئی تو ایسی خوبی ہے جو اللہ رب العزت سرفہرست بیان فرمارہا ہے کہ وہ والدین کے ساتھ بڑی سعادت مندی اور خدمت گزاری کے ساتھ پیش آنے والے تھے۔ سورہ مریم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر آتا ہے۔ جب عیسیٰ علیہ السلام پنگھوڑے میں بولتے ہیں۔ پاک دامنی پر گواہی دیتے ہیں۔ ’’ میں اللہ کا بندہ ہوں اللہ نے مجھے نبی بنایا ہے۔‘‘ پہلا امر جس کا تعلق انسانی رشتوں کے ساتھ ہے۔ بشریت کے ساتھ ہے مجھے اپنی والدین کا خدمت گزاری والا بچہ بنایا۔
’’اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو۔‘‘
(الاسراء، 17: 23)
اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے ساتھ احسان کو جوڑ دیا۔ اس کی اتنی اہمیت ہے کہ اپنی عبادت کے ساتھ توحید کو جوڑ دیا۔ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ والدین کے ساتھ احسان کیا کرو مگر اللہ تعالیٰ نے تعبدوا کی طرح بطور فعل صیغہ وارد نہیں کیا۔ اس کو وارد کرنے سے پہلے فعل آتا ہے اور والدین کا ذکر بعد میں آتا ہے۔ الا ایاہ میں اللہ کے سوا۔ ہٗ میں ضمیر کا مرجع اللہ رب العزت کی ذات ہے۔ میری عبادت اور والدین کے ساتھ احسان کرنے میں ایک لفظ کا فاصلہ بھی نہیں ہونے دیا۔ فرمایا ایاہ وبالوالدین احسان۔ والدین کے حق کو اس لیے جوڑا ہے تاکہ حق والدین حق ربوبیت کے ساتھ جڑ جائے۔ اللہ رب العزت خالق ہے والدین کا ہونا اللہ تعالیٰ کے ظہور کے مرتبے میں ایک تسلسل ہے۔ پیدا کرنے والا اللہ ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں پید اکرنے کا ارادہ فرمایا تو اپنے فعل تخلیق کے ظہور کے لیے والدین کو پیدا فرمایا۔ ہم پیدا والدین کے ذریعے ہوتے ہیں اور پیدا اللہ تعالیٰ کرتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے حق ربوبیت کے ساتھ والدین کا حق والدیت جوڑ دیا۔
تیسرا نکتہ جو میری سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ فرماتا ہے کہ والدین کے ساتھ جو احسان ہے وہ میری عبادت کا تسلسل ہے جو والدین کی نافرمانی کرتا ہے وہ میری عبادت کر ہی نہیں سکتا۔ میں اس کی عبادت قبول ہی نہیں کروں گا۔ جو والدین کی عزت و تکریم نہیں کرتا وہ سمجھ لے اس نے میری عبادت نہیں کی خواہ وہ لیل القدر میں جاگتا رہے۔ ہر سال حج کرے عمرے کرے میلاد پاک کرے بزرگوں و اولیاء کی صحبتوں میں جائے جو والدین کا نافرمان ہے اللہ کا فرمانبردار نہیں ہوسکتا۔
ایک پہلو اور بھی جو میری سمجھ میں آتا ہے۔ تمہیں اچھی صورت و اخلاق دیا تمہیں عزت دی جاہ و منصب دیا۔ اللہ تعالیٰ تمہارا رب تھا۔ جس طرح رب ہونے میں اس کا کوئی مساوی نہیں اس طرح پرورش اور کفالت میں جو احسان تمہارے والدین نے تم پر کیا ہے اس کا بھی کائنات میں کوئی مساوی نہیں جب اس کی ربوبیت میں اس کا کوئی مساوی نہیں اسی طرح والدین کے والدیت میں کوئی برابر نہیں اللہ تعالیٰ نے والدین کے رشتہ کو رشتہ احسان کے ساتھ جوڑا ہے۔
جب فرمایا وبالوالدین احسانا۔ یہ نہیں فرمایا: احسن وبالوالدین کہ والدین کے ساتھ احسان کرو۔ اللہ کے کلام میں جو معنویت ہے اردو زبان میں اس کا اظہار ہی نہیں کیا جاسکتا۔ یعنی والدین کے ساتھ اس طرح ہوجاؤ کہ تم خود سراپا احسان بن جاؤ۔ والدین کے ساتھ شفقت و احسان میں اتنے ڈھل جاؤ کہ خود احسان ہوجاؤ۔ احسان کا پیکر بن جاؤ۔ان سےا ٓگے ہوکر نہ چلو۔
ان کانام کبھی نہ لو۔ دو اشخاص نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے تو آپﷺ نے پوچھا:
تمہارا ان سے کیا رشتہ ہے؟ کہا یہ والد ہیں فرمایا: ان سے اونچی آواز میں کبھی بات نہ کرنا۔ ان کے آگے کبھی نہ چلنا ان کو نام لے کر نہ بلانا۔آج نئی ٹیکنالوجی نے ترقی تو دی مگر کلچر تبدیل کردیا ہے۔ قدروں کا خاتمہ کردیا ہے۔ شرم و حیا سب ختم کردیا ہے۔
احسان دونوں طرح سے آسکتا ’’و‘‘ کے ساتھ اور ’’الی‘‘ کے ساتھ احسن کما احسن اللہ الیک تو احسان کر جس طرح اللہ نے تیری طرف احسان کیا۔ الی الوالدین احسانا نہیں فرمایا وبالوالدین احسانا۔ الی والدین اور بالوالدین میں کیا فرق ہے۔ الی لگ جائے تو جس پر احسان کررہا ہے ان دونوں میں ایک فاصلہ قائم ہوجاتا ہے۔ ’’ب‘‘ اتصال کے لیے آتا ہے اگر ’’ب‘‘ لگ جائے تو جو فاصلہ ’الی‘ کہنے سے پید اہونا تھا ’’ب‘‘ کہنے سے فاصلہ ختم ہوجاتا ہے۔ فصل، وصل میں بدل جاتا ہے۔فرمایا اپنے والدین سے اس طرح احسان کر، رات دن چوبیس گھنٹے اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے۔ کھاتے پیتے بولتے، خاموش ہوتے باہر اندر آتے جاتے ہمہ وقت تیرا احسان والدین کے ساتھ جڑا رہے۔ تیرے احسان اور والدین میں فاصلہ نہ رہے۔
ایسا نہ ہو کہ کبھی کرلیا کبھی چھوڑ دیا ’’با‘‘ والدین کے ساتھ ہر لمحہ ہر لحظہ جوڑے رہنے کے لیے ہے۔ تیرا احسان اپنے والدین کے ساتھ ایسا ہو جیسا اپنے محبوب پیغمبر یوسف علیہ السلام کے ساتھ کیا تھا۔ قارون سے کہا تو لوگوں پر احسان کر جس طرح اللہ نے تجھ پر احسان کیا۔ غیر سے اس طرح کہتا ہے۔ جب یوسف علیہ السلام کے والدین ان کے پاس آئے تو انھوں نے فرمایا۔
وَقَدْ اَحْسَنَ بِیْٓ اِذْ اَخْرَجَنِیْ مِنَ السِّجْنِ.
(یوسف، 12: 100)
’’اور بے شک اس نے مجھ پر (بڑا) احسان فرمایا جب مجھے جیل سے نکالا۔‘‘
یہ بات الی سے بھی ہوسکتی ہے اور با کے ساتھ بھی لیکن اللہ تعالیٰ نے باکے ساتھ بیان کی۔ جب مجھ پر تہمت لگی تھی۔ جب میں گناہ سے بچا رہا۔ جیل میں رہا کتنی دیر جیل میں سزا دی۔ اللہ نے مجھ پر احسان کیا کہ اس جیل سے مجھے نکال لیا کہنے کا مطلب یہ تھا جتنا عرصہ میں نے جیل میں گزارا اللہ کا احسان میرے ساتھ چپکا رہا۔ اللہ کا احسان ایک لحظہ کے لیے بھی مجھ سے جدا نہیں ہوا۔ اس وقت ’’ب‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں جب فاصلہ آجائے تو الی کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے کہ تمہارا والدین کے ساتھ عزت و تکریم کا رویہ جڑا رہے۔آج جو بچے ہیں کل جوان ہوجاؤ گے لیکن یہ جو جذبہ ہے والدین کے ساتھ احسان کا یہ ان کے ساتھ جڑا رہنا چاہیے۔ آپ کی عمر جتنی بھی ہوجائے والدین کی شفقت ومحبت کبھی کم نہیں ہوتی۔ایک لمحہ کے لیے بھی ان کی محبت کا آپ کے ساتھ فاصلہ نہیں ہوتا۔
پاکستان کا کلچر کچھ ایسا ہے جس میں والدین کی تعلیم و تربیت پر کوئی توجہ نہیں جب شادی ہوجاتی ہے ہم نہیں چاہتے کہ محبت شیئر ہوجائے جب بیٹا بیوی کے ساتھ بیٹھا ہو اور ماں بوڑھی ہوجائے تو وہ اس کو گھور کر دیکھتی ہے کہ یہ کانوں میں کیا بات کررہاہے۔ شوہر بیوی کو سیر پر باہر لے جائے تو ماں پریشان ہوجاتی ہے مجھے کیوں نہیں ساتھ لے کر گیا۔ یہ بشری کمزوریاں ہیں ان کمزوریوں کا ظہور شروع ہوجاتا ہے۔ پھر بیٹے کی زندگی میں مداخلت کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ اس سبجیکٹ کے پیچھے پورا معاشرہ ہے۔ والدین بھی کبھی بچے تھے کسی نے انہیں حقوق و واجبات نہیں سکھائے۔ عدل و اعتدال نہیں سکھایا کہ حقوق و فرائض کیا ہوتے ہیں اور اعتدال کیسے رکھنا ہے؟ ہم بھول جاتے ہیں کہ یہ میرے بیٹے کی آنے والی بیوی کا حق ہے اور حق میں توازن رکھنا ہے۔ یہ نہیں سوچتے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرا حق ادا کرتے کرتے کہیں بیوی کا حق تلف کردے۔ مگر یہ حکم قائم رہتا ہے کہ والدین کا دل نہ دکھائیں۔اگر ان کے حکم میں اللہ اور رسولﷺ کی نافرمانی ہو اس کو نہیں ماننا وہ بے ادبی نہیں ہوگی مگر جواب سختی سے نہیں دینا۔ شادی ہوجاتی ہے۔ بیوی الگ رہنا چاہتی ہے تو یہ اس کا حق ہے۔ بیوی کو الگ گھر دینا شریعت کے عین مطابق ہے۔ جس امر میں اللہ کی نافرمانی ہو اس امر میں اللہ کی اطاعت نہیں ہوتی۔
قرآن حکیم میں بڑھاپے کا ذکر اس لیے کیا کہ بڑھاپے میں طبیعت بدل جاتی ہے تو بچپن کی طرف لوٹ جاتاہے۔ جب آپ بچے تھے تو ایک چیز سو سو بار مانگتے تھے آپ بھی روتے تھے، شور کرتے تھے، بڑوں کی بات سنتے نہیں تھے۔ آج ان پر بڑھاپا ہے۔ وہ بھی کہیں گے اچھا کھانا نہیں دیا۔ مزاج میں تلخیاں بھی آئیں گی۔ بیماریاں بھی تلخیاں پید اکریں گی۔ ممکن ہے مالی حالات بھی خراب ہوچکے ہوں گے تو بڑھاپا ان سب باتوں پر مشتمل ایک پیکج ہے اور ہر ایک پر آنا ہے۔ وہ بڑھاپے کتنے حسین ہیں جو لڑکپن میں اپنا تعلق اللہ سے لگالیں۔ دنیا سے امیدیں ہٹالیں جو کریں اللہ کے لیے کریں۔ اس کا بدلہ نہ لیں اور دل کے غنی ہوجائیں پھر ان کا بڑھاپا بھی سلامت رہے گا تو وہ بڑھاپے میں اور دھیمے ہوجاتے ہیں۔ ایسے بھی ہوتے ہیں وہ کہتے ہیں اللہ کا شکر ہے بڑھاپے میں اس کا اثر ہوتاہے کہ آپ نے زندگی کیسے گزاری ہے۔ عبادت سے شغف کیسا رکھا۔
دیکھنا یہ ہے کہ اللہ کی رضا کو اپنے ہر عمل میں کتنا پختہ کیا اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کی نشوونما کیسی ہوئی؟ معزز قارئین آپ کبھی مت بھولیں کہ آپ جہاں بھی ہوں کبھی بھی ماں باپ کی نگاہ سے اوجھل نہیں ہوتے۔ ان کی دعاؤں اورمحبتوں اور شفقتوں سے اوجھل نہیں ہوتے ۔
اے پروردگار تو میرے دونوں والدین پر خواہ وہ زندہ ہیں یا وفات پاگئے ہیں، میں چھوٹا تھا جس طرح مجھ پر رحمت کرکے انھوں نے مجھے پالا اسی طرح ان پر رحمت فرما۔ یہ دعا کا عمل ساری زندگی والدین کے لیے جاری رہنا چاہیے اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اگر ان کے اعمال میں کمی رہ جائے اور اولاد نیک چھوڑ کر جائیں تو اپنی آخرت سنوارکر جائیں گے۔
ماں باپ آپ کی طرف دیکھتے تھے آپ کا سوچتے رہتے۔ خود بھوکے رہتے آپ کو کھلاتے۔ تکلیف اٹھاتے حتی کہ اپنی زندگی کو ہلاکت میں ڈال دیتے ہیں۔ اگر تکلیف ہوتی تو ماں سو نہیں سکتی تھی۔ اسی طرح جب وہ بڑھاپے میں پہنچیں تو آپ کے جذبات میں رہنے چاہیے جس طرح وہ تمہیں ٹھنڈی ہوا نہیں لگنے دیتے تھے۔ اگر دور ہیں تو ان کی خبر رکھیں۔ موبائل فون کے ذریعے خبر رکھیں۔ مگر آپ کے جذبات اورمحبتوں سے دور نہ ہوں۔ ان کی طرف آپ کی توجہ رہے ان کومحبت اور شفقت کی گودمیں رکھیں۔ مالی ضروریات پوری کریں۔ اگر ان کے حالات اچھے نہیں جس طرح وہ تمہیں اپنی محبت کے حصار میں رکھتے تھے۔ اس طرح تم بھی اپنی محبت کے حصار میں رکھو۔
یہ ہے عندک الکبر کا معنی۔ سامنے سے مراد یہ ہے آپ کے دھیان کے سامنے سے ادھر ادھر نہ ہوں۔ اف کے معنی ہیں جیسے کپڑوں پر گرد ہو اس کا جاڑ دیں۔ اردو میں اف کے لیے او کہتے ہیں فارسی میں آہ کہتے ہیں۔ آواز کے بغیر ہلکی سی حرکت۔ ایسا کچھ نہیں کہہ سکتے جس میں آواز بھی ہو۔ والدین کو اندازہ ہوجائے کہ میرا بیٹا/ بیٹی مجھ سے نالاں ہیں وہ کہیں گے میں نے کچھ نہیں کہا۔ قرآن بیان کررہا ہے۔ اف ایک ایسا لفظ ہے جس میں بندہ کہتا ہی کچھ نہیں مگر دیکھنے والے کو محسوس ہوجاتا ہے۔ وہ بھی حرام ہے اف لفظی ہے اف فعلی اور اف نظری بھی ہے۔ اف کی تین اقسام ہیں لفظی اف ہوگیا اُہ، اتنا کہنے سے والدین کو خیال آئے گا شاید ہم کچھ غلط کر بیٹھے ہیں کہ میرے بیٹے نے اف کہا ہے۔ اللہ پاک نے فرمایا اتنی رنجیدگی بھی ان کے دل کو نہ پہنچاؤ۔ کوئی ایسی حرکت جس میں گستاخی کا پیغام چلا جائے۔ وہ بھی نہیں کرسکتے۔ اف نظری بھی ہوسکتا ہے کہ اس طرح کہ اٹھ کر چلے گئے کہ کہا کچھ نہیں مگر جس سے بے ادبی ظاہر ہوجائے۔ ایسا کرنا منع ہے آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ کے جسم سے نکلنے والی گندگی کو تمہاری ماں صاف کرتی تھی۔ اس کو بھی اپنی نفاست کا خیال ہوگا۔ وہ بھی اف کرسکتی تھی۔ ماں نے تو کبھی ایسا نہیں کہا تھا۔ اے انسان کاش! تمہیں اپنا بچپن یاد ہو جب تمھارے والدین تمھارا ناک صاف کرتے تھے۔ رات کو تجھے صاف ستھرا رکھتی۔ یاد رکھو! ان کے ساتھ روٹھا پن جائز نہیں۔ بغیر آواز کے بھی گستاخی نہیں کرسکتے اور آوازکے ساتھ گستاخی سب سے بڑا حرام فعل ہے۔ سخت آواز کے ساتھ بھی بات نہیں کرسکتے۔ والدین صرف جسم کو پالتے ہیں اور روح کو نہیں پالتے اچھی تربیت نہیں کرتے تو اچھے اخلاق کی بڑھاپے میں توقع کیسے رکھیں گے۔ روح نے انھیں ادب و اخلاق دینے تھے۔ تواضع، خدمت گاری سکھانی تھی۔ ایمان سے ہی تو احسان آتا ہے والدین نے اسی پر محنت نہیں کی۔
والدین کو اف کہنا حرام کردیا جھڑکنا حرام کردیا ان کے ساتھ جب بھی بات کرو بڑے ادب و احترام سے بات کرو۔ اپنی آواز حضور علیہ السلام کی آواز سے بلند نہ کرو۔ آج مسجد نبویﷺمیں آواز بلند نہیں کرسکتے۔ علماء کا یہ کردار ہوتا ہے کہ وہ نوجوانوں کو ادب و اخلاق سکھاتے ہیں۔ ہر ولی اللہ اپنے اندازمیں سیرت و اخلاق سکھاتا ہے۔ والدین کے ساتھ عاجزی و انکساری پر جھکاؤ۔ اس میں پروں کا ذکر کیا ان کا ترجمہ و الدین کے ساتھ عاجزی و انکساری کے پر بچھائے رکھنے کا حکم ہے پرندے کا پر علامت ہے اڑنے کی۔ جس پرندے کے پر کٹے ہوئے ہوں وہ اڑ نہیں سکتا۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک سے تمہیں پر نصیب ہوں گے جس سے تو اُڑتا پھرے گا۔ والدین کی جتنی خدمت کرو گے اللہ پاک آپ کو اتنی پرواز عطاکرے گا۔ تواضع و انکساری کے ساتھ بس بچھ جائیں۔آپ ان کی خدمت کریں ان کے پاؤں زمین پر نہ لگیں وہ آپ کے پروں پر رہیں۔ جو اپنے والدین کو پروں پر رکھتا ہے اللہ اس کو پرواز عطاکرتا ہے۔
اے بندے والدین کے لیے تو سارا کا سارا پر بن جا۔ سراپا ادب بن جا کیونکہ آپ کو علم نہیں وہ آپ کے سکون و پرورش کے لیے کیا کیا کرتے تھے۔پھر ساری زندگی ان کے لیے دعا بھی کرو۔ اے پروردگار تو میرے دونوں والدین پر خواہ وہ زندہ ہیں یا وفات پاگئے ہیں، میں چھوٹا تھا جس طرح مجھ پر رحمت کرکے انھوں نے مجھے پالا اسی طرح ان پر رحمت فرما۔ یہ دعا کا عمل ساری زندگی والدین کے لیے جاری رہنا چاہیے اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اگر ان کے اعمال میں کمی رہ جائے اور اولاد نیک چھوڑ کر جائیں تو اپنی آخرت سنوارکر جائیں گے۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندے کا درجہ جنت میں بلندکردیں گے۔بندہ کو سمجھ نہیں آئے گی کہ میں اس درجہ تک کیسے پہنچ گیا بندہ کہے گا میرے مولا میرے پاس تو ایسا کوئی عمل نہیں تھا جو مجھے اس درجے تک پہنچادے ۔ اسے بتایا جائے گا کہ تمہاری اولاد نے مرنے کے بعد دعاکی ہے۔ اس کی وجہ سے یہ اونچا درجہ مل گیا۔