سیدنا غوث الاعظم سیدنا عبدالقادر جیلانیؒ

سعدیہ کریم

حضور سیدنا غوث الاعظم حضرت سیدنا عبدالقادر جیلانیؒ حسنی حسینی سید ہیں اور آپ کا شجرہ نسب چند واسطوں کے بعد حضرت علی المرتضیٰؓ سے جاملتا ہے۔ آپؓ امام الاولیاء ہیں اور تصوف کے سب سے بڑے سلسلے ’’قادریہ‘‘ کے بانی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت کمال اور بزرگی عطا فرمائی ہے۔ آپ جامع العلوم تھے آپ کے چہرہ مبارک پر رعب و جلال اور بزرگی اس قدر نمایاں تھی کہ ظالم اور جابر لوگ بھی آپ کے چہرے کو دیکھتے تو ا ن پر خشوع و خضوع طاری ہوجاتا۔ آپ کے والد ابوصالح سید موسیٰ جنگی دوستؒ بھی اولیاء اللہ میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ کی والدہ ماجدہ سیدہ ام الخیر امتہ الجبارؒ بڑی نیک خاتون تھیں۔ آپ کا پورا خاندان ہی ولایت کے مرتبے پر فائز تھا۔ آپ کے نانا، دادا، والد، والدہ، پھوپھی اور آپ کے صاحبزادگان سب اولیاء اللہ ہوئے اور یہ پورا خاندان کشف و کرامات کا حامل تھا۔

حضور سیدنا غوث الاعظمؓ کے القابات:

آپ کے علمی و روحانی اوصاف بہت بلند ہیں۔ آپ کے بہت سے القابات ہیں جن میں ذوالبسیانین، صاحب البرہانین والسلطانین، کریم الجدین والطرفین، ذوالسراجین والمنہاجین، غوث الثقلین غوث الاعظم اور محی الدین مشہور و معروف ہیں۔

حضور سیدنا غوث الاعظمؓ کی پیدائش سے پہلے حضور اکرم ﷺ  کی بشارت:

حضور سیدنا غوث الاعظم جس رات پیدا ہوئے اس رات ان کے والد کو خواب میں حضور نبی کریم ﷺ  کی زیارت نصیب ہوئی۔ آپ ﷺ  نے ان کے والد کو بشارت دی کہ اے ابو صالح اللہ عزوجل نے تمھیں ایسا فرزند عطا فرمایا ہے جو ولی اللہ ہے، وہ میرا بیٹا ہے وہ میرا اور اللہ کا محبوب ہے اور عنقریب اولیاء اللہ میں اس کی وہ شان ہوگی جو انبیاء کرام میں میری شان ہے۔

غوث الاعظمؒ درمیان اولیاء
چوں محمد ﷺ  درمیان انبیاء

حضور ﷺ  کے اس بیٹے نے اپنی پیدائش کے پہلے دن روزہ رکھا اور سحری سے افطاری تک ماں کا دودھ نہ پیا۔ پورے رمضان المبارک میں اس نومولود بچے کی یہی عادت رہی۔

حضور سیدنا غوث الاعظمؓ کا سفر طریقت اور مجاہدات:

حضور سیدنا غوث الاعظمؓ حضرت سیدنا عبدالقادر جیلانی نے نو سال تک بغداد میں علم حاصل کیا۔ اس دوران سخت مجاہدے بھی کیے۔ والدہ نے جو چالیس دینار دیئے تھے وہ جلد ہی ختم ہوگئے۔ آپؒ کو گزر بسر کے لیے بہت سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود آپ کی استقامت میں کوئی فرق نہ پڑا۔ حضرت شیخ طلحہ بن مظفرؒ لکھتے ہیں کہ سیدنا غوث الاعظم نے مجھے بتایا تھا کہ بغداد میں قیام کے دوران میں اکثر فاقہ سے ہوتا۔ ایک مرتبہ مجھے بیس دن تک کھانے کو کچھ نہ ملا تو میں ایوان کسریٰ کی جانب چل پڑا وہاں پہنچ کر دیکھا کہ چالیس اولیاء اللہ مجھ سے پہلے وہاں موجود تھے مجھے یہ دیکھ کر بہت شرمندگی ہوئی اور میں واپس آگیا اس دوران میری ملاقات ایک ہم وطن سے ہوئی۔ اس نے مجھے کچھ رقم دی اور بتایا کہ یہ آپ کی والدہ نے آپ کے لیے بھیجی ہے۔ میں وہ رقم لے کر واپس 40 اولیاء کے پاس گیا اور ان کی امداد کے بعد کچھ رقم اپنے لیے رکھی۔ ان اولیاء نے پوچھا کہ یہ رقم کہاں سے آئی تو میں نے بتایا کہ یہ میری والدہ نے بھیجی ہے تو مجھے مناسب نہیں لگا کہ میں اس سے کھانا کھالوں اور آپ سب بھوکے رہیں۔

اسی طرح ایک اور واقعہ حضرت شیخ عبداللہ سلمیؒ سے منقول ہے کہ مجھے حضور سیدنا غوث الاعظمؓ حضرت سید عبدالقادر جیلانی کی صحبت میں رہنے کا موقع ملا۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ایک مرتبہ میں بہت دن تک فاقے سے رہا۔ جب بھوک کی شدت نے بے چین کردیا تو میں محلہ قطیعہ شرقیہ میں جا نکلا جہاں ایک شخص نے مجھے کاغذ کی بندھی ہوئی ایک پڑیا دی اور چلا گیا میں نے اس پڑیا میں موجود رقم سے حلوہ خریدا اور مسجد میں جاکر بیٹھا میں قبلہ رو بیٹھ کر یہ سوچ رہا تھا کہ مجھے یہ حلوہ کھانا چاہیے یا نہیں۔ اس دوران میری نظر ایک کاغذ پر پڑی میں نے اس کاغذ کو کھول کر دیکھا تو اس پر لکھا تھا کہ ہم نے کمزور مومنین کے لیے رزق کی خواہش پیدا کی تاکہ وہ بندگی کے تقاضے پورے کرنے کے لیے اس سے قوت حاصل کریں۔ میں یہ عبارت پڑھ کر لرز اٹھا۔ خوف الہٰی سے میرے رونگٹے کھڑئے ہوگئے میں حلوہ وہیں چھوڑ کر اٹھا اور دو رکعت نماز نفل ادا کرکے واپس آگیا۔

ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں:

شیخ ابو سعید عبداللہ محمد سے منقول ہے کہ میں، ابن السقاء اور حضور سیدنا غوث الاعظم سید عبدالقادر جیلانیؓ جامعہ نظامیہ بغدادیہ میں زیر تعلیم تھے اس زمانے میں بغداد میں ایک شخص بہت مشہور تھا اور سب اس کو غوث کہتے تھے۔ وہ جب چاہتا ظاہر ہوجاتا اور جب چاہتا غائب ہوجاتا تھا۔ ایک روز ہم تینوں دوستوں نے اس بات کا ارادہ کیا کہ ان سے ملا جائے جب ہم روانہ ہوئے تو ابن السقا نے کہا کہ میں اس غوث سے ایسا مسئلہ پوچھوں گا کہ وہ لاجواب ہوجائے گا۔ میں نے کہا کہ میں بھی ایک سوال کروں گا۔ دیکھتا ہوں کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں؟ حضور سیدنا عبدالقادر جیلانی نے فرمایا کہ میں کوئی سوال نہیں کروں گا میں تو صرف ان کی زیارت کی سعادت حاصل کروں گا۔

حضور سیدنا غوث الاعظم حضرت سیدنا عبدالقادر جیلانیؒ حسنی حسینی سید ہیں اور آپ کا شجرہ نسب چند واسطوں کے بعد حضرت علی المرتضیٰؓ سے جاملتا ہے۔ آپؓ امام الاولیاء ہیں اور تصوف کے سب سے بڑے سلسلے ’’قادریہ‘‘ کے بانی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت کمال اور بزرگی عطا فرمائی ہے۔ آپ جامع العلوم تھے آپ کے چہرہ مبارک پر رعب و جلال اور بزرگی اس قدر نمایاں تھی کہ ظالم اور جابر لوگ بھی آپ کے چہرے کو دیکھتے تو ا ن پر خشوع و خضوع طاری ہو جاتا۔

چنانچہ ہم تینوں چلے گئے جب ان کے مقام پر پہنچے تو وہ موجود نہیں تھے۔ تھوڑی دیر بعد وہ ظاہر ہوئے تو ابن السقا سے کہنے لگے: اے ابن السقاتجھ پر صد افسوس ہے تو مجھ سے ایسا سوال پوچھنا چاہتا تھا جس سے تو مجھے لاجواب کردے۔ تمھارا سوال یہ تھا اور اس کا جواب یہ ہے اور انھوں نے ابن السقا کے پوچھنے سے پہلے ہی اس کے سوال کا جواب دے دیا اور فرمایا مجھے تیرے اندر کفر نظر آتا ہے پھر انھوں نے میری جانب نگاہ کی اور فرمایا کہ تمھارا سوال اور اس کا جواب یہ ہے اور تمھاری بے ادبی کی وجہ سے دنیا تمھارے کانوں تک چھا جائے گی پھر وہ حضور سیدنا غوث الاعظم سیدنا عبدالقادر جیلانیؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور ان کو اپنے پاس بلاکر بٹھایا اور ان کی عزت افزائی فرمائی اور فرمایا اے عبدالقادر! تو نے اپنے ادب کی وجہ سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ  کو راضی کرلیا تم عنقریب ایک منبر پر بیٹھو گے اور سارا بغداد تمھاری بات سنے گا۔ تم اعلان کرو گے کہ ہر ولی کی گردن پر میرا قدم ہے اور مجھے نظر آرہا ہے کہ تمام ولی تمھاری اس بات پر اپنا سر جھکا دیں گے۔ اس کے بعد وہ غوث غائب ہوگئے اور ہماری ان سے پھر کبھی کوئی ملاقات نہ ہوئی۔

حضور سیدنا غوث الاعظمؓ حضرت سیدنا عبدالقادر جیلانی نے نو سال تک بغداد میں علم حاصل کیا۔ اس دوران سخت مجاہدے بھی کیے۔ والدہ نے جو چالیس دینار دیئے تھے وہ جلد ہی ختم ہوگئے۔ آپؒ کو گزر بسر کے لیے بہت سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود آپ کی استقامت میں کوئی فرق نہ پڑا۔

جب حضور سیدنا عبدالقادر جیلانیؓ منبر ولایت پر بیٹھے اور آپ نے اعلان کیا کہ تمام اولیاء کی گردنوں پر میرا پاؤں ہے تو ابن السقا کا یہ حال تھا کہ اس نے بظاہر تو شرعی علوم پر دسترس حاصل کرلی تھی اور ہر ایک کو اپنے علم سے مات دے دی لیکن جب خلیفہ نے اسے اپنا مقرب خاص بناکر شاہ روم کی جانب بھیجا تو اس نے شاہ روم کے تمام عیسائی پادریوں کو مات دے دی۔ شاہ روم نے اس کی بہت عزت افزائی کی اور اسے اپنا مقرب خاص بھی بنالیا۔ وہاں ابن السقا ایک عیسائی لڑکی پر فریفتہ ہوگیا اور اس کا رشتہ مانگ لیا۔ شاہ روم نے کہا کہ پہلے عیسائی مذہب اختیار کرو پھر رشتہ ملے گا۔ ابن السقا نے اس لڑکی کی خاطر عیسائیت اختیارکرلی۔ مجھے جب ابن السقا کی اس بات کا پتہ چلا تو ان غوث صاحب کی بات یاد آگئی اور میری اپنی یہ حالت ہوئی کہ میں بغداد سے دمشق پہنچا تو سلطان نورالدین زندگی ملک شہید نے مجھے محکمہ اوقات کا ناظم اعلیٰ مقرر کیا میں حاکم بن گیا اور دنیا چاروں طرف سے مجھ پر ٹوٹ پڑی۔ اس غوث کی کہی ہوئی تینوں باتیں سچ ثابت ہوگئیں۔

سیدنا غوث الاعظم کی عبادت و ریاضت:

حضور سیدنا غوث الاعظم سیدنا عبدالقادر جیلانیؓ حصول علم کے بعد طریقت کی جانب متوجہ ہوئے آپ کے دل میں مجاہدہ کا شوق پیدا ہوا۔ آپ پہلے ہی شیخ حماد بن مسلم دباسؒ کی صحبت حاصل کرکے ان سے طریقت کے اسرار و رموز سیکھ چکے تھے۔ آپؒ روشن ضمیر اور اہل نظر تھے۔ آپ نے قرب الہٰی کو پانے کے لیے مجاہدات شروع کردیئے کیونکہ یہ مجاہدات ہی راہ طریقت کا پہلا درجہ ہے۔آپ اپنے مجاہدات کے متعلق لکھتے ہیں کہ مجھ پر جو مصیبتیں اور سختیاں آئیں اگر وہ پہاڑوں پر نازل ہوتیں تو وہ بھی پھٹ جاتے۔ آپ نے بغداد شہر چھوڑ دیا جنگلوں اور ویرانوں کو اپنا مسکن بنایا۔ حضرت شیخ ابوالسعود احمد بن ابی بکر حریمیؒ روایت کرتے ہیں کہ حضور سیدنا غوث الاعظم نے فرمایا کہ میں پچیس سال تک تنہا عراق کے بیابانوں میں پھرتا رہا میں لوگوں کو نہیں جانتا تھا اور نہ ہی کوئی مجھے جانتا تھا۔ اس دوران میرے پاس رجال الغیب اور جنات آتے تھے جنہیں میں طریقت اور سلوک کی تعلیم دیتا تھا۔ شروع میں جب میں عراق میں داخل ہوا تو حضرت خضر علیہ السلام میرے ہمسفر بنے اور میں انھیں اس وقت نہیں پہچانتا تھا میں نے ان کی ہر بات ماننے کا وعدہ کیا تھا ایک دفعہ انھوں نے مجھے ایک چلہ بیٹھنے کا حکم دیا اور میں اس جگہ تین سال بیٹھا رہا۔ سال میں ایک مرتبہ حضرت خضر علیہ السلام اس مقام پر میرے پاس آتے اور فرماتے کہ یہی تیرا مقام ہے جہاں تجھے پہنچایا گیا ہے۔ اس عرصہ کے دوران تمام نفسانی خواہشات مجھ پر انسانی شکل میں وارد ہوئیں لیکن اللہ عزوجل نے مجھے ہر موقع پر استقامت عطا فرمائی اور مجھے ان خرافات سے محفوظ رکھا۔

میرا نفس مجاہدہ کا کوئی طریقہ اختیار کرتا تو میں اس پر قائم ہوجاتا اور کسی چیز کو قبول نہ کرتا تھا۔ ایک طویل مدت تک میں مدائن کے جنگلوں میں نفس کشی کرتا رہا میں نے اپنے نفس کو مختلف مجاہدوں، ریاضتوں اورمشقتوں میں ڈالے رکھا۔ ایک سال تک میں گری ہوئی چیزیں اٹھا کر کھاتا رہا۔ دوسرے سال میں صرف پانی پیتا تھا۔ تیسرے سال نہ میں نے کچھ کھایا اور نہ ہی پیا اور نہ ہی سویا۔ ایک مرتبہ شدید شردی کی وجہ سے میں ایوان کسریٰ کے کھنڈرات میں سویا تو رات بھر میں چالیس مرتبہ احتلام ہوا ہر مرتبہ دریائے دجلہ پر جاکر غسل کیا پھر نیند سے بچنے کے لیے محل کے اوپر ایک ویران جگہ پر چڑھ گیا اور وہاں دو سال تک قیام کیا وہاں پر سردی کے علاوہ کوئی ایسی چیز میسر نہ تھی جسے میں کھاسکتا۔ ہر سال ایک بزرگ وہاں آتے اور مجھے ایک اونی جبہ دے کر چلے جاتے۔ اس طرح میں نے بے شمار طریقوں سے نفس سے چھٹکارا پانے کی کوشش کی۔ لوگ مجھے دیوانہ سجھتے تھے۔

حضرت شیخ ابوالقاسم بن مسعودؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور سیدنا غوث الاعظمؓ سے سنا کہ آپ نے فرمایا کہ سیاحت اور طریقت کے ابتدائی دور میں مجھ پر بہت سی کیفیات طاری ہوئیں میں ان میں اپنے وجود سے غائب ہوجاتا تھا اور اکثر و بیشتر بے ہوشی کے عالم میں دوڑا کرتا تھا۔ جب مجھے ہوش آتا تو میں کسی ویرانے میں پڑا ہوتا تھا۔

حضور سیدنا عبدالقادر جیلانیؓ کی شخصیت تمام انسانیت کے لیے مینارہ نور کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ اعلیٰ اخلاق و کردارکے حامل تھے۔ ساری زندگی اپنے رب کی رضا کی تلاش میں سرگرداں رہے اور آخر کار غوثیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے۔ آج بھی دنیا ان کے باطنی فیض سے مستفید ہورہی ہے۔

حضرت شیخ ابواللعباس احمد بن یحییٰ بغدادیؒ فرماتے ہیں کہ حضور سیدنا غوث الاعظم نے بتایا کہ میں نے چالیس سال تک عشاء کے وضو سے فجر کی نماز اداکی ا ور پندرہ سال تک ایک پاؤں پر کھڑے ہوکر صبح تک قرآن مجید ختم کیا۔ ایک رات میں ایک سیڑھی پر چڑھ رہا تھا کہ میرے نفس نے مجھ سے کہا کاش تو ایک گھڑی سوجائے اور پھر اٹھ کر عبادت کرلے جیسے ہی یہ خیال میرے دل میں آیا میں وہیں ایک پاؤں پر کھڑا ہوگیا اور قرآن مجید کی تلاوت شروع کردی اور اسی حالت میں پورا قرآن ختم کیا۔

حضور سیدنا غوث الاعظم سید عبدالقادر جیلانیؒ کے صاحبزادے سے مروی ہے کہ میں نے اپنے والد ماجد سے سنا کہ دوران سیاحت وہ ایک لق و دق صحرا میں جانکلے جہاں پانی کا کوئی نشان تک نہ تھا وہ کئی روز تک وہاں بھوکے پیاسے پڑے رہے۔ ایک دن بادل آئے اور بارش کی کچھ بوندیں ان پر گریں تو انھیں ہوش آیا۔ پھر انھوں نے ایک نور دیکھا جس سے آسمان کا کنارا روشن تھا۔ اس نور سے ایک شکل ظاہر ہوئی اور اس نے آپ کو پکارا: اے عبدالقادر میں تیرا رب ہوں اور تیرے اوپر حرام تمام چیزوں کو حلال کرتاہوں۔ آپ نے یہ سنتے ہی اعوذ باللہ پڑھنی شروع کردی۔ جس سے وہ نور غائب ہوگیا۔ اور اس نے دھوئیں کی شکل اختیار کرلی۔ اور کہنے لگا اے عبدالقادر تم نے اللہ عزوجل کے حکم سے اور اپنے علم کے ذریعے میرے دھوکے سے نجات پائی ہے ورنہ میں اپنے اس دھوکے سے ستر اہل طریقت کو گمراہ کرچکا ہوں۔ سیدنا عبدالقادر جیلانی نے فرمایا کہ یہ میرے رب تعالیٰ کا مجھ پر خاص فضل و کرم ہے لوگوں نے آپ سے پوچھاکہ آپ کو کیسے پتہ چلا کہ وہ شیطان ہے؟ تو آپ نے بتایا کہ اس کی بات سے کہ میں حرام اشیاء کو حلال کرتاہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ اللہ عزوجل کبھی بھی بری چیزوں کا حکم نہیں دیتا اور جو چیز شریعت محمدی ﷺ  میں حرام ہے وہ میرے لیے حلال کیسے ہوسکتی ہے؟

حضرت شیخ صیرفی سے منقول ہے کہ حضور سیدنا غوث الاعظم حضرت سید عبدالقادر جیلانیؓ نے فرمایا کہ جب میں نے بغداد کو چھوڑ کر ویرانوں میں رہنا شروع کیا تو شیاطین انسانی شکلوں میں میرے سامنے آتے وہ ہر قسم کے اسلحہ سے لیس ہوتے وہ مجھ سے جنگ کرتے اور مجھ پر آگ کے شعلے برساتے میں نے اپنے دل میں ان سے لڑنے کے لیے حوصلہ، ہمت اور جرات جمع کی اور ہر میدان میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔ ہاتف غیبی سے آواز آتی کہ اے عبدالقادر اٹھو اور ان کا مقابلہ کرو ہم تمھاری مدد کریں گے۔ جب میں ان کا مقابلہ کرتا تو وہ فرار ہوجاتے تھے۔ ایک شیطان نے مجھ سے کہا کہ یہ جگہ چھوڑ کر چلے جاؤ میں تمھارا برا حال کردوں گا۔ میں نے اس کے منہ پر طمانچہ رسید کیا جس کی وجہ سے وہ الٹے پاؤں بھاگ گیا۔ میں شیطانوں کو دیکھ کر لاحول ولا قوۃ پڑھتا تو وہ جل کر راکھ ہوجاتے۔

ایک دن ایک نہایت بدصورت شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں ابلیس ہوں آپؒ نے مجھے اور میرے گروہ کو تنگ کردیا ہے میں نے اسے کہا کہ یہاں سے دور ہوجا۔ اچانک ایک غیبی ہاتھ نمودار ہوا اور شیطان کے سر پر ضربیں لگانے لگا جس سے وہ زمین میں دھنس گیا۔ تھوڑی دیر بعد ابلیس ہاتھ میں بھڑکتے ہوئے شعلے لے کر دوبارہ نمودار ہوا اورمجھ پر حملہ کرنے لگا اچانک ایک نقاب پوش گھڑ سوار آیا اور میرے ہاتھ میں ایک تلوار دی کہ ابلیس سے جنگ کرو۔ ابلیس وہ تلوار دیکھتے ہی الٹے قدموں بھاگ گیا۔

حضور سیدنا عبدالقادر جیلانیؓ فرماتے ہیں کہ شیطان نے میرے گرد بے شمار جال بچھائے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ یہ تو کیا کرتا ہے تو وہ کہنے لگا کہ یہ دنیاوی وساوس ہیں اور میں ان کے ذریعے ہی جال بچھا کر تم جیسے لوگوں کا شکار کرتا ہوں۔ میں نے ایک سال تک اس شیطان کا مقابلہ کیا اور ا سکے بچھائے ہوئے تمام جالوں کو ختم کردیا۔ اس کے بعد میرے سینے کو کھول دیا گیا اور مجھ پر بے شمار علائق ظاہر ہوگئے۔ میں نے ان علائق کے متعلق پوچھا تو پتہ چلا کہ یہ خلق کے اسباب ہیں جو تم سے ملے ہوئے ہیں۔ میں سال بھر ان کی طرف متوجہ رہا پھر وہ مجھ سے جداہوگئے۔ جب مجھ پر میرا باطن ظاہر ہوا تو میں نے اپنے قلب کو بہت سے علائق سے ملوث پایا میں نے دریافت کیا کہ یہ کیا ہیں تو پتہ چلا کہ یہ تمھارے ارادے اور اختیارات ہیں۔ ایک سال بعد وہ مجھ سے دور ہوگئے اورمیرا قلب تمام غلاظتوں سے نجات پاگیا۔ پھر میرا نفس مجھ پر ظاہر ہوا اس میں بھی کچھ امراض تھے ایک سال تک میں اس کی طرف متوجہ رہا تو نفس کے تمام امراض بھی ختم ہوگئے اور نفس کا شیطان بھی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا اس کے بعد میرے تمام امور اللہ کے لیے ہوگئے اور میں اپنی ذات سے باہر نکل آیا۔ پھر میں توکل کے دروازے کی طرف بڑھا وہاں بہت ہجوم تھا میں اس ہجوم کو چیرتا ہوا شکر کے دروازے پر پہنچا وہاں بھی ہجوم ملا میں اس میں سے نکل کر مشاہدہ اور پھر مشاہدہ سے فقر کے دروازے تک پہنچا۔ فقر کا دروازہ خالی تھا میں اس دروازے سے اندر داخل ہوگیا یہاں پر مجھے ایک بہت بڑے روحانی خزانے کی فتوحات سے نوازا گیا اور دنیا کے تمام خزانے میرے لیے کھول دیئے گئے۔ مجھے روحانی عزت، دائمی تمنا اور خالص آزادی عطاکی گئی۔ میری ہستی اور میری صفات سب ختم ہوگئیں اور میری ہستی کی جگہ کسی اور نے لے لی۔

سیدنا غوث الاعظمؒ فرماتے ہیں کہ ازل سے اللہ تعالیٰ نے روحانی تربیت کا ایک سلسلہ جاری کیا ہے ایک فیض دیتا ہے اور دوسر افیض حاصل کرتا ہے۔ آپ نے پچیس سال تک سخت مجاہدات کیے اور واپس بغداد تشریف لے آئے وہاں حضرت حماد بن مسلم دباسؒ سے روحانی فیوض و برکات حاصل کیے۔حضرت شیخ ابوسعید مخزومیؒ نے آپ کو خرقہ خلافت عطا فرمایا اور فرمایا کہ اے عبدالقادر یہ وہ خرقہ ہے جو حضور اکرم ﷺ  نے سیدنا علی المرتضیٰؓ کو عطافرمایا انھوں نے یہ خرقہ خواجہ حسن بصریؒ کو عطا فرمایا تھا جن سے ہوتاہوا یہ مجھ تک پہنچا ہے۔ جب حضور سیدنا غوث الاعظمؓ نے وہ خرقہ زیب تن کیا تو آپ پر بے شمار انوار وتجلیات کی بارش ہونا شروع ہوگئی۔

حضرت شیخ قائد الاوانیؒ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضور سیدنا غوث الاعظمؓ سے پوچھا گیا کہ آپ کی بزرگی اور عظمت کا کیا راز ہے تو آپؒ نے فرمایا کہ میں کبھی جھوٹ نہیں بولتا اور کبھی کسی سے کذب بیانی نہیں کرتا۔

حاصل کلام:

حضور سیدنا عبدالقادر جیلانیؓ کی شخصیت تمام انسانیت کے لیے مینارہ نور کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ اعلیٰ اخلاق و کردارکے حامل تھے۔ ساری زندگی اپنے رب کی رضا کی تلاش میں سرگرداں رہے اور آخر کار غوثیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے۔ آج بھی دنیا ان کے باطنی فیض سے مستفید ہورہی ہے کیونکہ اولیاء اللہ اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد عالم بقا میں اپنی شان و شوکت کے ساتھ جلوہ نما ہوتے ہیں اور لوگ ان سے نور وفیض حاصل کرتے ہیں۔

حوالہ جات:

  • فتوح الغیب از حضور سیدنا غوث الاعظم سیدنا عبدالقادر جیلانیؒ
  • غنیۃ الطالبین از حضور سیدنا غوث الاعظم سیدنا عبدالقادر جیلانیؒ
  • قلائد الجواہر از شیخ محمد یحییٰ التاوفی الحنبلیؒ
  • بہجۃ الاسرار معدن از حضرت نورالدین ابوالحسن علی بن یوسفؒ
  • اقوال اولیاء از علامہ فقیر محمد جاوید قادریؒ