ڈاکٹر طاہرالقادری کی شخصیت اور مصطفوی طالبعلم

سعدیہ محمود

کسی شے کے حصول کا پہلا مرحلہ طلب ہے جو طالب میں مطلوب کے حصول کے لئے جدوجہدکی تحریک پیدا کرتا ہے۔ طلب سچی اور مقصد راست ہو تو یہ خوبیاں ایک انسان کو رشک ملائک بنا سکتی ہیں۔تمام مخلوقات میں سےانسان کو اللہ نے اپنا نائب ایک خوبی کی بنا پر منتخب کیا اور وہ ہے علم۔’’طالب علم‘‘ عنی علم کی طلب، جستجو اور لگن رکھنے والا نہ صرف مخلوق میں افضل ہے بلکہ بارگاہ خداوندی میں بھی مقربین میں شامل ہو جاتا ہے۔ اس اعتبار سے ایک طالب علم کا درجہ اور مقام غیر معمولی حیثیت کا حامل ہے۔زندگی کے اس مرحلے میں انسان جس قدر محنت کرتا ہے ساری زندگی اس کا ثمر کھاتا ہے۔ گویا زمانہ طالب علمی بیج کی بوئی کا زمانہ ہے جس پر ساری زندگی کی فلاح اور ترقی منحصر ہے۔ اس اعتبار سے کسی بھی انسان کا زمانہ طالب علمی اس کی شخصیت، کردار سازی اور فکری ارتقاء و استداء میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔یہ وہ مرحلہ ہے جو کسی انسان کے بننے اور بگڑنے کا تعین کرتا ہے۔ باقی تمام عمر انسان اسی عمر کا بویا کاٹتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کا قیام عمل میں لایا تاکہ طلبہ و طالبات کو فکری اور روحانی راہنمائی فراہم کی جاسکے اور ان میں مثبت رجحانات کو فروغ دے کر اقبال کا ’’مرد مومن‘‘ بنایا جائے جو اس دنیا میں بھی اپنی کامیابی کا لوہا منواتا ہے اور آخرت میں اپنے رب اور نبی مکرم ﷺ کی بارگاہ میں بھی سرخرو ہوتا ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایک دانائے دہر شخصیت ہیں جو علم کا بحر بیکراں ہیں۔آپ کو دنیا ہزاروں القابات سے پکارتی اور مانتی ہے مگر آپ نے اپنے لئے آج تک صرف ایک خطاب قبول کیا اور وہ ہے طالب علم۔ آپ ہزاروں کتب تصنیف کرنے اور ہزاروں خطبات ارشاد کر نے کے بعد بھی اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’میں ایک ادنی سا طالب علم ہوں۔‘‘ یہ جملہ طالب علموں اور بالخصوص مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کے وابستگان کے لئے دعوت فکر و عمل ہے۔ مگر قابل غور امر یہ ہے کہ آخر طالب علم کی وہ کون سی خوبیاں ہیں جنھوں نے جھنگ کے ایک نوجوان کو شیخ الاسلام بنا دیا اور شیخ الاسلام کا تصورِ طالب علم کیسا ہے؟ وہ مصطفوی سٹوڈنٹس مووومنٹ کے طلبہ و طالبات کو کس کردار و عمل کا متحمل دیکھنا چاہتے ہیں۔

زندگی میں مقصد کا تعین گاڑی میں نصب اس نیویگیشن سسٹم کی طرح ہے جو سیدھا متعین منزل تک لے جاتا ہے اور مسافر کو غلط راستے پر جانے سے بچائے رکھتا ہے

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے تصورِ طالب علم کو سمجھنے کے لئے آپ کی ذات اور سفر حیات سے بہتر کوئی راہنمائی کا ذریعہ نہیں ہو سکتا۔آپ کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر دہرائی جائے تو کچھ ایسے اوصاف ہیں جو آپ کی ذات اور زندگی کا مستقل حصہ نظر آتے ہیں۔ چونکہ ایک مبلغ و مصلح کی ذات اس کی فکر و دعوت کی حقانیت کا عکس ہوتی ہے چنانچہ جن صفات کو یہاں زیر بحث لایا جا رہا ہے وہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی ذات اور معمولات زندگی سے براہ راست ماخوذ ہیں اور آپ کی ذات سے معمولی واقفیت رکھنے والا انسان بھی ان کا با آسانی مشاہدہ کر سکتا ہے۔شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی پیہم جدوجہد جن پانچ اوصاف سے عبارت ہے وہ درج ذیل ہیں:

1. علم سے محبت

2. جہدمسلسل

3. مقصدیت

4. مضبوط کردار

5. وسعت نظری

1۔ علم سے محبت:

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ذات کا نمایاں اور ممتاز ترین پہلو آپ کی کتاب دوستی ہے۔ علم سے شغف آپ کی پہچان ہے۔ اور یہ علم دوستی اور لگن آپ کے زمانہ طالب علمی سے نظر آتی ہے جب آپ سکول کا کام ختم کرنے کے بعد اپنے والد گرامی کی لائبریری میں چلے جاتے اور مختلف موضوعات کی کتب کو پڑھتے رہتے۔ ایک سکول کے طالب علم ہونے کے باوجود آپ کی جستجو اور علم کی پیاس نے آپ کو کم عمری میں وسیع مطالعے کا عادی بنا دیا جس سے آپ کا ذہنی و فکری ارتقاء اور ترقی اس عمر میں شروع ہو گئ جب عام بچہ محض نصاب کی کتب سمجھنے میں دقّت محسوس کر رہا ہوتا ہے۔ آپ نے میٹرک کا امتحان پاس نہیں کیا تھا جب آپ تقابل ادیان جیسے دقیق المنطق موضوعات کی کتب بینی کر چکے تھے۔ علم کی فطرت لا متناہی ہے جس میں زمانہ، عمر، فرد، جنس یا ذات جیسی کسی چیز کی حدود و قیود نہیں۔اسی لئے شیخ الاسلام نے علم کے حصول میں کسی بھی شعبہ زندگی کے علم کو نظر انداز نہیں کیا بلکہ یہ آپ کا طرۂ امتیاز ہے کہ آپ کے کتاب و خطاب مذہب سے لے کر اقتصادیات، معاشیات، معاشرت، سیاست، تجارت، قانون اور سائنس اور ٹیکنالوجی تک ہر موضوع کا احاطہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ دراصل علم کا وہ ذخیرہ ہے جس کا حصول ابتدائی عمر سے شروع ہو گیا تھا۔ اور اسی علم سے محبت کا انعام ہے کہ آپ ساری دنیا میں علم کا ایسا مستند ترین حوالہ بن چکے ہیں جس حوالے کے بعد مزید کسی حوالے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ آپ نے علم سے دوستی کی، اللہ نے علم کو آپ کی پہچان بنا دیا۔

آج فتنہ پروری کے اس دور میں ہمیں سب سے زیادہ اپنے کردار کو بچانے کی ضرورت ہے تا کہ اس میں غلام مصطفی ﷺ اور عشق مصطفی ﷺ کی جھلک نظر آ سکے

2۔ جہدِ مسلسل:

ایک فرد سے ایک تحریک کا سفر پیہم جدوجہد سے عبارت ہے۔ یہ ہفتوں مہینوں یا سالوں کا نہیں دہائیوں کا سفر ہے جو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے طے کیا۔ شیخ الاسلام نے جب بھی جس کام کا ارادہ کیا اسے کبھی ادھورا نہیں چھوڑا چاہے اس کی تکمیل میں دہائیوں کی محنت درکار ہو۔ آپ کی زندگی میں نا ممکن کا تصور نہیں ہے۔ مثلاً آپ نے علم کے فروغ کے لئے جدوجہد کی یہاں تک کہ منہاج یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا،فرقہ واریت کے تدارک کی ایسی جدوجہد کہ آج منہاج القرآن کے سٹیج پر ہر مسلک فکر بخوشی آتا ہے، دہشت گردی کا داغ اسلام سے مٹایا اور دنیا کو یہ بات ماننے پر مجبور کر دیا کہ اسلام دین امن و سلامتی ہے۔یہ سب کوششیں اور کامیابیاں ایک امر کی نشاندہی کرتی ہیں اور وہ ہے مسلسل اور انتھک محنت۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے جس عزم و استقلال سے یہ سب سنگ میل عبور کئے ہیں وہ آج کے نوجوان کے لئے راہ عمل متعین کرتے ہیں۔

3۔ مقصدیت:

زندگی میں مقصد کا تعین گاڑی میں نصب اس نیویگیشن سسٹم کی طرح ہے جو سیدھا متعین منزل تک لے جاتا ہے اور مسافر کو غلط راستے پر جانے سے بچائے رکھتا ہے۔ مقصدیت زندگی کی جدوجہد کی سمت متعین کرنے کا نام ہے۔ آج کا ہر نوجوان اس کشمکش میں گم دکھائی دیتا ہے کہ آخر اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے یا اس زندگی کو کس طرح گزارنا چاہیے۔ اس کشمکش نے کہیں تو نسل نو کو بے راہ روی میں مبتلا کر دیا ہے اور کہیں ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ مگر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی زندگی کو دیکھیں تو آپ اپنے سکول کی تقریروں میں نظام کی اصلاح اور امت کی فلاح کی بات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے نہ صرف اپنے مقصد کو پہچانا بلکہ اس کا تعین کر کے اپنی ہر محنت کا رخ اس مقصد کے حصول کی جانب موڑ دیا۔ آپ نے چار دہائیاں اس قوم اور نئی نسل کی اصلاح کی جدوجہد کو بلا تعطل جاری رکھا، مخالفتیں آپ کو ڈرا سکیں نہ راستے آپ کو تھکا سکے۔ اسی جہد مسلسل اور استقلال کا ثمر ہے کہ آج آپ کی محنت کا ہر پودا ثمر آور درخت بن کر نسلیں سنوار رہا ہے اور آپ کی فکر نئی نسل میں منتقل ہو چکی ہے۔ آج کا طالبعلم یہ زندہ و درخشاں مثال سامنے رکھے اور محنت کو شعار بنائے تو کوئی شک نہیں کہ ہر طالبعلم اس قوم و ملت کا مقدر بدلنے کی صلاحیت کا حامل ہو جائے۔

4۔ مضبوط کردار:

باوقارشخصیت مضبوط اور شفاف کردار کی مرہون منت ہے، کردار کی یہی پختگی ایسی خوداعتمادی کو جنم دیتی ہے جو انسان کو بڑے سے بڑے دشمن اور خطرے کا مقابلہ کرنے کی ہمت ودیعت کر دیتی ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے بارے میں ان کے مخالفین بھی معترف ہیں کہ آج تک نہ کوئی ان کو خرید سکا نہ جھکا سکا۔ شخصیت کا یہ اجلا اورکھرا پن آپ کے شفاف کردار، خود شناسی اور ایمانی قوت کا نتیجہ ہے جو آپ کے قدم لڑکھڑانے نہیں دیتا۔ مگر قابل غور امر یہ ہے کہ آپ کی شخصیت سازی اور کردار سازی کا یہ عمل آپ کے زمانہ طالب علمی سے شروع ہوا جب آپ اپنے دوستوں اور محلے کے نوجوانوں کو ساتھ لیے نہر کے کنارے تہجد کی نماز ادا کرنے چلے جاتے اور حلقہ ذکر و فکر قائم کرتے تاآنکہ فجر کا وقت ہو جاتا۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایک دانائے دہر شخصیت ہیں جو علم کا بحر بیکراں ہیں۔آپ کو دنیا ہزاروں القابات سے پکارتی اور مانتی ہے مگر آپ نے اپنے لئے آج تک صرف ایک خطاب قبول کیا اور وہ ہے طالب علم۔ آپ ہزاروں کتب تصنیف کرنے اور ہزاروں خطبات ارشاد کر نے کے بعد بھی اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’میں ایک ادنی سا طالب علم ہوں۔‘‘

اسی طرح عیاش اور اوباش نوجوانوں کی صحبت سے گریزاں رہتے اور بزرگوں کی صحبت و سنگت کو ترجیح دیتے۔ شغل اور تفریح کے لئے مغلظات کی بجائے ایسی کھیلوں میں حصہ لیتے جو جسمانی اور ذہنی صحت میں اضافہ کریں۔ یہ اوصاف آپ کے زمانہ طالب علمی سے پختہ ہوتے ہوئے آپ کی فطری شخصیت کا حصہ بن گئے۔ اس کے برعکس آج کا نوجوان کردار سازی کے عمل سے کلیتاً غافل ہے،اس کی اپنی کوئی شخصیت ہے نہ کوئی سوچ ۔ وہ جدید زمانے کے رجحانات کی رو میں بہتا چلا جارہا ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ اسے یہ احساس بھی نہیں کہ یہ رجحانات کیسے اس کی سوچ کے عمل کو تباہ کرتے چلے جا رہے ہیں اور اس سے اس ایمانی غیرت و حمیت چھین رہے ہیں جو امت مصطفی ﷺ کے نوجوانوں کی پہچان تھی۔

5۔ وسعت نظری:

وسعت فکر و نظر صاحب ایمان کا خاصہ ہے۔ آقا کریمﷺ کا قرآنی لقب رحمتہ اللعالمین ہے جو اس وصف ایمانی پر دلیل کرتا ہے۔ گویا مومن کبھی تنگ نظر نہیں ہو سکتااور نہ ہی اس کی سوچ انفرادی منفعت تک محدود ہو سکتی ہے۔ مگر وسعت نظری سے مراد ہر ضابطہ اخلاق اور معیار فکر و عمل سے آزاد ہونا نہیں بلکہ یہ دور اندیشی، معاملہ فہمی اور قلبی فیاضی و بردباری ہے جو عاقبت اندیشی کو مومن کا شعار بنا دیتی ہے اور وقتی و معمولی منفعتوں سے میلان ختم کر کے اس کی نگاہ دور رس فوائد پر مرکوز کر دیتی ہے۔ یہ اوصاف حمیدہ ہمارے اسلاف کا خاصہ ہیں اور آج کے دور میں ان کا عکس بدرجہ اتم شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی شخصیت میں نظر آتا ہے۔

تمام مخلوقات میں سےانسان کو اللہ نے اپنا نائب ایک خوبی کی بنا پر منتخب کیا اور وہ ہے علم۔’’طالب علم‘‘ عنی علم کی طلب، جستجو اور لگن رکھنے والا نہ صرف مخلوق میں افضل ہے بلکہ بارگاہ خداوندی میں بھی مقربین میں شامل ہو جاتا ہے۔ اس اعتبار سے ایک طالب علم کا درجہ اور مقام غیر معمولی حیثیت کا حامل ہے

آپ کا پیغام ہمیشہ انتہا پسندی، تنگ نظری،تعصب اور فرقہ واریت سے پاک رہا ہے اور آپ نے اپنے کارکنان کو بھی ہمیشہ اسی فکر و عمل پر کار بند رہنے کی تلقین کی۔ یہی وجہ ہے کہ فکری و علمی اختلاف رائے کے باوجود ہر طبقہ فکر کے لوگ آپ کی ذات اور تحریک سے وابستہ ہوتے ہیں اور آپ سے استفادہ حاصل کرتے ہیں۔ نہ صرف مسلمان بلکہ مغربی دنیا کے مبصرین بھی آپ کی اس فکر کے معترف و قدردان ہیں اور دنیا کی بڑی یونیورسٹیاں آپ کو لیکچر کے لئے مدعو کرتی ہیں۔ اجتماعی فلاح کی سوچ آج ہمارا معاشرتی بحران ہے۔ہماری سوچ ذات، برادری اور قبیلے سے لے کر مسلک تک ہزاروں تفرقات میں تقسیم ہو چکی ہے جس نے ہماری فکر کو محدود اور ذہن کو تنگ کر دیا ہے۔ جبکہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی زندگی کو دیکھیں تو آپ ہمیشہ سب کو ساتھ لے کر اجتماعی جدوجہد اور فلاح کی سوچ پر کاربند دکھائی دیتے ہیں۔ آپ نوجوانی میں جب سب دوستوں کو ساتھ لے کر حلقات ذکر و فکر قائم کرتے تھے یہ کام آپ تنہائی میں بھی کر سکتے تھے مگر آپ کی سوچ ذاتی یا انفرادی نہیں بلکہ عالمگیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ساری دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کی اصلاح اور تربیت کے لئے اپنی زندگی وقف کئے ہوئے ہیں۔

مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کے یوم تاسیس (Foundation Day) کے موقع پر ہمیں اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مصطفوی نوجوان کو کس مقام پر دیکھنا چاہتے ہیں اور کس کردار کو اس کی شخصیت کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ آج فتنہ پروری کے اس دور میں ہمیں سب سے زیادہ اپنے کردار کو بچانے کی ضرورت ہے تا کہ اس میں غلام مصطفی ﷺ اور عشق مصطفی ﷺ کی جھلک نظر آ سکے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم عنصر سوشل میڈیا کی اندھا دھند تقلید ہے جس نے ہم سے ہماری شخصیت اور پہچان چھین لی ہے۔ آج ضرورت ہے کہ ہم ایسے مضبوط کردار کے حامل ہوں کہ نہ صرف صحیح اور غلط بلکہ مفید اور بیکار میں فرق کر سکیں اور زمانے کی روش کے ساتھ بہنے کی بجائے اس مضبوط چٹان کی طرح اپنے طریق پر قائم رہیں جو طوفانی موجوں کے درمیان بھی اپنی جگہ پر قائم و دائم رہتی ہے اور پانی کو مجبوراً اپنا راستہ اس چٹان کے گرد موڑنا پڑتا ہے۔