محمد فاروق رانا

انسان کیا حیوان بھی جس سر زمین میں پیدا ہوتا ہے، اُس سے محبت و اُنس اس کی فطرت میں ہوتی ہے۔ چرند، پرند، درند حتیٰ کہ چیونٹی جیسی چھوٹی بڑی کسی چیز کو لے لیجئے، ہر ایک کے دل میں اپنے مسکن اور وطن سے بے پناہ اُنس ہوتا ہے۔ ہر جاندار صبح سویرے اٹھ کر روزی پانی کی تلاش میں زمین میں گھوم پھر کر شام ڈھلتے ہی اپنے ٹھکانے پر واپس آجاتا ہے۔ ان بے عقل حیوانات کو کس نے بتایا کہ ان کا ایک گھر ہے، ماں باپ اور اولاد ہے، کوئی خاندان ہے؟ اپنے گھر کے در و دیوار، زمین اور ماحول سے صرف حضرتِ انسان کو ہی نہیں بلکہ حیوانات کو بھی اُلفت و محبت ہوجاتی ہے۔

قرآن کریم اور سنّتِ مقدسہ میں اس حقیقت کو شرح و بسط سے بیان کیا گیا ہے۔ ذیل میں ہم اِس حوالے سے چند نظائر پیش کرتے ہیں تاکہ نفسِ مسئلہ بخوبی واضح ہوسکے۔

محبتِ وطن: قرآن کی روشنی میں:

1۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم بنی اسرائیل کو اپنی مقبوضہ سرزمین میں داخل ہونے اور قابض ظالموں سے اپنا وطن آزاد کروانے کا حکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’اے میری قوم! (ملک شام یا بیت المقدس کی) اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے اور اپنی پشت پر (پیچھے) نہ پلٹنا ورنہ تم نقصان اٹھانے والے بن کر پلٹو گے۔‘‘

(المائدة، 5: 21)

2۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا شہر مکہ کو امن کا گہوارہ بنانے کی دعا کرنا درحقیقت اس حرمت والے شہر سے محبت کی علامت ہے۔ قرآن فرماتا ہے:

’’اور (یاد کیجیے) جب ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا: اے میرے رب! اس شہر (مکہ) کو جائے امن بنا دے اور مجھے اور میرے بچوں کو اس (بات) سے بچا لے کہ ہم بتوں کی پرستش کریں۔‘‘

(إبراهيم، 14: 35)

3۔ اپنی اولاد کو مکہ مکرمہ میں چھوڑنے کا مقصد بھی اپنے محبوب شہر کی آبادکاری تھا۔ انہوں نے بارگاهِ اِلٰہ میں عرض کیا:

’’اے ہمارے رب! بے شک میں نے اپنی اولاد (اسماعیل علیہ السلام) کو (مکہ کی) بے آب و گیاہ وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسا دیا ہے، اے ہمارے رب! تاکہ وہ نماز قائم رکھیں پس تو لوگوں کے دلوں کو ایسا کر دے کہ وہ شوق و محبت کے ساتھ ان کی طرف مائل رہیں اور انہیں (ہر طرح کے) پھلوں کا رزق عطا فرما، تاکہ وہ شکر بجا لاتے رہیں۔‘‘

(إبراهيم، 14: 37)

4۔ سورہ توبہ کی درج ذیل آیت میں مَسٰکِن سے مراد مکانات بھی ہیں اور وطن بھی ہے:

’’(اے نبی مکرم!) آپ فرما دیں: اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا۔‘‘

(التوبة، 9: 24)

اللہ تعالیٰ نے یہاں محبتِ وطن کی نفی نہیں فرمائی صرف وطن کی محبت کو اللہ اور رسول  ﷺ  اور جہاد پر ترجیح دینے سے منع فرمایا ہے۔ لہٰذا اِس آیت سے بھی وطن سے محبت کا شرعی جواز ملتا ہے۔

5۔ اسی طرح درج ذیل آیت مبارکہ میں وطن سے ناحق نکالے جانے والوں کو دفاعی جنگ لڑنے کی اجازت مرحمت فرمائی گئی ہے:

’’ان لوگوں کو (فتنہ و فساد اور اِستحصال کے خلاف دفاعی جنگ کی) اجازت دے دی گئی ہے جن سے (ناحق) جنگ کی جارہی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور بے شک اللہ ان (مظلوموں) کی مدد پر بڑا قادر ہے۔ (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اللہ ہے (یعنی انہوں نے باطل کی فرمانروائی تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا)۔‘‘

(الحج، 22: 39-40)

6۔ اِسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل جب اپنی کرتوتوں کے باعث ذلت و غلامی کے طوق پہنے بے وطن ہوئے تو ٹھوکریں کھانے کے بعد اپنے نبی یوشع یا شمعون یا سموئیل علیہ السلام سے کہنے لگے کہ ہمارے لئے کوئی حاکم یا کمانڈر مقرر کر دیں جس کے ماتحت ہو کے ہم اپنے دشمنوں سے جہاد کریں اور اپنا وطن آزاد کروائیں۔ نبی علیہ السلام نے فرمایا: ایسا تو نہیں ہوگا کہ تم پر جہاد فرض کردیا جائے اور تم نہ لڑو؟ اِس پر وہ کہنے لگے:

’’ہمیں کیا ہوا ہے کہ ہم اللہ کی راہ میں جنگ نہ کریں حالاں کہ ہمیں اپنے وطن اور اولاد سے جدا کر دیا گیا ہے، سو جب ان پر (ظلم و جارحیت کے خلاف) قتال فرض کر دیا گیا تو ان میں سے چند ایک کے سوا سب پھر گئے، اور اللہ ظالموں کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘

(البقرة، 2: 246)

مذکورہ بالا آیت میں وطن اور اولاد کی جدائی کروانے والوں کے خلاف جہاد کا حکم دیا گیا ہے۔

7۔ اسی طرح درج ذیل آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے دیگر نعمتوں کے ساتھ مسلمانوں کو آزاد وطن ملنے پر شکر بجا لانے کی ترغیب دلائی ہے:

’’اور (وہ وقت یاد کرو) جب تم (مکی زندگی میں عدداً) تھوڑے (یعنی اقلیّت میں) تھے ملک میں دبے ہوئے تھے (یعنی معاشی طور پر کمزور اور استحصال زدہ تھے) تم اس بات سے (بھی) خوفزدہ رہتے تھے کہ (طاقتور) لوگ تمہیں اچک لیں گے (یعنی سماجی طور پر بھی تمہیں آزادی اور تحفظ حاصل نہ تھا) پس (ہجرت مدینہ کے بعد) اس (اللہ) نے تمہیں (آزاد اور محفوظ) ٹھکانا (وطن) عطا فرما دیا اور (اسلامی حکومت و اقتدار کی صورت میں) تمہیں اپنی مدد سے قوت بخش دی اور (مواخات، اموالِ غنیمت اور آزاد معیشت کے ذریعے) تمہیں پاکیزہ چیزوں سے روزی عطا فرما دی تاکہ تم (اللہ کی بھرپور بندگی کے ذریعے اس کا) شکر بجا لا سکو۔‘‘

(الأنفال، 8: 26)

درج بالا میں مذکور سات آیاتِ قرآنیہ سے وطن کے ساتھ محبت کرنے، وطن کی خاطر ہجرت کرنے اور وطن کی خاطر قربان ہونے کا شرعی جواز ثابت ہوتا ہے۔

محبتِ وطن: احادیث مبارکہ کی روشنی میں:

احادیث مبارکہ میں بھی اپنے وطن سے محبت کی واضح نظائر ملتی ہیں، جن سے محبتِ وطن کی مشروعیت اور جواز کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔

1۔ حدیث، تفسیر، سیرت اور تاریخ کی تقریبا ہر کتاب میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ جب حضور نبی اکرم  ﷺ  پر نزولِ وحی کا سلسلہ شروع ہوا تو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ  ﷺ  کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ ورقہ بن نوفل نے حضور نبی اکرم  ﷺ  سے نزولِ وحی کی تفصیلات سن کر تین باتیں عرض کیں:

  • آپ کی تکذیب کی جائے گی یعنی آپ کی قوم آپ کو جھٹلائے گی
  • آپ کو اذیت دی جائے گی اور
  • آپ کو اپنے وطن سے نکال دیا جائے گا

اِس طرح ورقہ بن نوفل نے بتایا کہ اعلانِ نبوت کے بعد حضور نبی اکرم  ﷺ  کو اپنی قوم کی طرف سے کن کن مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

امام سہیلی نے الروض الأنف میں باقاعدہ یہ عنوان باندھا ہے: حُبُّ الرَّسُوْلِ صلی الله عليه وآله وسلم وَطْنَهُ  (رسول  ﷺ  کی اپنے وطن کے لیے محبت)۔ اس عنوان کے تحت امام سہیلی لکھتے ہیں کہ جب ورقہ بن نوفل نے آپ  ﷺ  کو بتایا کہ آپ کی قوم آپ کی تکذیب کرے گی تو آپ  ﷺ  نے خاموشی فرمائی۔ ثانیاً جب اس نے بتایا کہ آپ  ﷺ  کی قوم آپ  ﷺ  کو تکلیف و اذیت میں مبتلا کرے گی تب بھی آپ  ﷺ  نے کچھ نہ کہا۔ تیسری بات جب اس نے عرض کی کہ آپ  ﷺ  کو اپنے وطن سے نکال دیا جائے گا تو آپ  ﷺ  نے فورا فرمایا:

أَوَ مُخْرِجِيَّ

کیا وہ مجھے میرے وطن سے نکال دیں گے؟

یہ بیان کرنے کے بعد امام سہیلی لکھتے ہیں:

اِس میں آپ  ﷺ  کی اپنے وطن سے شدید محبت پر دلیل ہے اور یہ کہ اپنے وطن سے جدائی آپ  ﷺ  پر کتنی شاق تھی۔

(الروض الأنف للسهيلی، 1: 413-414، طرح التثريب فی شرح التقريب للعراقی، 4: 185)

اور وطن بھی وہ متبرک مقام کہ اللہ تعالیٰ کا حرم اور اس کا گھر پڑوس ہے جو آپ  ﷺ  کے محترم والد حضرت اسماعیل علیہ السلام کا شہر ہے۔ آپ  ﷺ  نے پہلی دونوں باتوں پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں فرمایا لیکن جب وطن سے نکالے جانے کا تذکرہ آیا تو فورا فرمایا کہ کیا میرے دشمن مجھے یہاں سے نکال دیں گے؟ حضور نبی اکرم  ﷺ  کا سوال بھی بہت بلیغ ہے۔ آپ  ﷺ  نے الف اِستفہامیہ کے بعد واؤؔ کو ذکر فرمایا اور پھر نکالے جانے کو مختص فرمایا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ واؤؔ سابقہ کلام کو ردّ کرنے کے لیے آتی ہے اور مخاطب کو یہ شعور دلاتی ہے کہ یہ اِستفہام اِنکار کی جہت سے ہے یا اِس وجہ سے ہے کہ اُسے دکھ اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ گویا اپنے وطن سے نکالے جانے کی خبر حضور نبی اکرم  ﷺ  پر سب سے زیادہ شاق گزری تھی۔

امام زین الدین العراقی نے بھی یہ سارا واقعہ اپنی کتاب ’طرح التثریب فی شرح التقریب (4: 185)‘ میں بیان کرتے ہوئے وطن سے محبت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔

2۔ یہی وجہ ہے کہ ہجرت کرتے وقت رسول اللہ  ﷺ  نے مکہ مکرمہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا:

’’تُو کتنا پاکیزہ شہر ہے اور مجھے کتنا محبوب ہے! اگر میری قوم تجھ سے نکلنے پر مجھے مجبور نہ کرتی تو میں تیرے سوا کہیں اور سکونت اختیار نہ کرتا۔‘‘

(سنن الترمذی، صحيح ابن حبان، المعجم الکبير للطبرانی)

یہاں حضور نبی اکرم  ﷺ  نے صراحتاً اپنے آبائی وطن مکہ مکرمہ سے محبت کا ذکر فرمایا ہے۔

3۔ اِسی طرح سفر سے واپسی پر حضور نبی اکرم  ﷺ  کا اپنے وطن میں داخل ہونے کے لئے سواری کو تیز کرنا بھی وطن سے محبت کی ایک عمدہ مثال ہے۔ گویا حضور نبی اکرم  ﷺ  وطن کی محبت میں اتنے سرشار ہوتے کہ اس میں داخل ہونے کے لیے جلدی فرماتے، جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

’’حضور نبی اکرم  ﷺ  جب سفر سے واپس تشریف لاتے ہوئے مدینہ منورہ کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی اونٹنی کی رفتار تیز کر دیتے، اور اگر دوسرے جانور پر سوار ہوتے تو مدینہ منورہ کی محبت میں اُسے ایڑی مار کر تیز بھگاتے تھے۔‘‘

(صحيح البخاري، مسند أحمد بن حنبل، سنن الترمذي)

اِس حدیث مبارک میں صراحتاً مذکور ہے کہ اپنے وطن مدینہ منورہ کی محبت میں حضور نبی اکرم  ﷺ  اپنے سواری کی رفتار تیز کردیتے تھے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’یہ حدیث مبارک مدینہ منورہ کی فضیلت، وطن سے محبت کی مشروعیت و جواز اور اس کے لیے مشتاق ہونے پر دلالت کرتی ہے۔‘‘

(فتح الباری، 3: 621)

ایک اور روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں رسول اللہ  ﷺ  کے ہمراہ خیبر کی طرف نکلا تاکہ آپ  ﷺ  کی خدمت کرتا رہوں۔ جب حضور نبی اکرم  ﷺ  خیبر سے واپس لوٹے اور آپ  ﷺ  کو اُحد پہاڑ نظر آیا تو آپ  ﷺ  نے فرمایا:

’’یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم بھی اس سے محبت رکھتے ہیں۔‘‘

اس کے بعد اپنے دستِ مبارک سے مدینہ منورہ کی جانب اشارہ کر کے فرمایا:

’’اے اللہ! میں اس کی دونوں پہاڑیوں کے درمیان والی جگہ کو حرم بناتا ہوں جیسے ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو حرم بنایا تھا۔ اے اللہ! ہمیں ہمارے صاع اور ہمارے مُدّ میں برکت عطا فرما۔‘‘

(صحيح البخاري، صحيح مسلم)

یہ اور اس جیسی متعدد احادیث مبارکہ میں حضور نبی اکرم  ﷺ  اپنے وطن مدینہ منورہ کی خیرو برکت کے لیے دعا کرتے جو اپنے وطن سے محبت کی واضح دلیل ہے۔

5۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب لوگ پہلا پھل دیکھتے تو حضور نبی اکرم  ﷺ  کی خدمت میں لے کر حاضر ہوتے۔ حضور نبی اکرم  ﷺ  اسے قبول کرنے کے بعد دعا کرتے: اے اللہ! ہمارے پھلوں میں برکت عطا فرما۔ ہمارے (وطن) مدینہ میں برکت عطا فرما۔ ہمارے صاع میں اور ہمارے مد میں برکت عطا فرما۔ اور مزید عرض کرتے:

’’اے اللہ! ابراہیم علیہ السلام تیرے بندے، تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے اور میں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں۔ انہوں نے مکہ مکرمہ کے لیے دعا کی تھی۔ میں ان کی دعاؤں کے برابر اور اس سے ایک مثل زائد مدینہ کے لیے دعا کرتا ہوں (یعنی مدینہ میں مکہ سے دوگنا برکتیں نازل فرما)۔‘‘

(صحيح مسلم)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد آپ  ﷺ  کسی چھوٹے بچے کو بلا کر وہ پھل دے دیتے۔

6۔ وطن سے محبت کا ایک اور انداز یہ بھی ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ وطن کی مٹی بزرگوں کے لعاب اور رب تعالیٰ کے حکم سے بیماروں کو شفا دیتی ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں:

’’حضور نبی اکرم  ﷺ  مریض سے فرمایا کرتے تھے: اللہ کے نام سے شروع، ہماری زمین (وطن) کی مٹی ہم میں سے بعض کے لعاب سے ہمارے بیمار کو، ہمارے رب کے حکم سے شفا دیتی ہے۔‘‘

(صحيح البخاري، صحيح مسلم)

7۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ کوئی شخص مکہ مکرمہ سے آیا اور بارگاہِ رسالت مآب  ﷺ  میں حاضر ہوا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس سے پوچھا کہ مکہ کے حالات کیسے ہیں؟ جواب میں اُس شخص نے مکہ مکرمہ کے فضائل بیان کرنا شروع کیے تو رسول اللہ  ﷺ  کی چشمانِ مقدسہ آنسؤوں سے تر ہوگئیں۔ آپ  ﷺ  نے فرمایا:

’’اے فلاں! ہمارا اِشتیاق نہ بڑھا۔‘‘

جب کہ ایک روایت میں ہے کہ آپ  ﷺ  نے اُسے فرمایا:

’’دلوں کو اِستقرار پکڑنے دو (یعنی اِنہیں دوبارہ مکہ کی یاد دلا کر مضطرب نہ کرو)۔‘‘

(شرح الزرقانی علی الموطا، 4: 288، السيرة الحلبية، 2: 283)

خلاصہ کلام

قرآن و حدیث کے درج بالا صریح دلائل سے معلوم ہوا کہ وطن سے محبت ایک مشروع اور جائز عمل ہے کیونکہ یہ ایک فطری اور لازم امر ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری سورۃ التوبۃ کی آیت نمبر 24 کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اس آیت مبارکہ میں چھ طرح کی دنیاوی محبتوں کا بیان ہے: (1) اولاد کی والدین سے محبت (2) والدین کی اولاد سے محبت (3) بیوی کی محبت (4) رشتہ داروں کی محبت (5) نوکری، کاروبار اور تجارت کی محبت (6) گھروں اور وطن کی محبت۔ اگر یہ ساری محبتیں مل کر یعنی ان محبتوں کا total aggregate اور سب شدتیں مل کر اللہ اور اس کے رسول  ﷺ  اور جہاد کی محبت سے بڑھ جائیں، اللہ کے دین کی محبت سے بڑھ جائیں تو پھر اپنے انجام کا انتظار کرنا چاہیے۔ یہ ایک categorical declaration ہے۔ لیکن اگر یہ تمام دنیاوی محبتیں اپنی limit میں ہیں اور غالب محبت اللہ اور اس کے رسول  ﷺ  کی ہی ہے تو یہ ساری محبتیں بھی اُسی لافانی محبت کے تابع ہوجاتی ہیں۔ [محبت کے حوالے سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا تفصیلی مضمون اگست 2017ء کے ’دخترانِ اِسلام‘ میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔]

لہٰذا ہمیں جان لینا چاہیے کہ وطن سے محبت کے بغیر کوئی قوم آزادانہ طور پر عزت و وقار کی زندگی گزار سکتی ہے نہ اپنے وطن کو دشمن قوتوں سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ جس قوم کے دل میں وطن کی محبت نہیں رہتی پھر اُس کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے اور وہ قوم اور ملک پارہ پارہ ہوجاتی ہے۔ وطن سے محبت ہرگز خلافِ اِسلام نہیں ہے اور نہ ہی یہ ملتِ واحدہ کے تصور کے منافی ہے، کیونکہ ملتِ واحدہ کا تصور سرحدوں کا پابند نہیں ہے بلکہ یہ اَفکار و خیالات کی یک جہتی اور اِتحاد کا تقاضا کرتا ہے۔ مصورِ پاکستان نے کیا خوب فرمایا ہے:

جہانِ تازہ کی اَفکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا

ہمیں اپنے وطنِ عزیز سے ٹوٹ کر محبت کرنی چاہیے اور اس کی تعمیر و ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ وطن سے محبت صرف جذبات اور نعروں کی حد تک ہی نہیں ہونی چاہیے بلکہ ہمارے گفتار اور کردار میں بھی اس کی جھلک نظر آنی چاہیے۔ وطن کا وقار، تحفظ، سلامتی اور بقا اِسی میں ہے کہ لوگوں کے جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ ہوں۔ وطن کی ترقی اور خوش حالی اسی میں ہے کہ ہمیشہ ملکی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دی جائے اور ہر سطح پر ہر طرح کی کرپشن اور بدعنوانی کا قلع قمع کیا جائے۔ معاشرے میں امن و امان کا راج ہو۔ ہر طرح کی ظلم و زیادتی سے خود کو بچائیں اور دوسروں کو بھی محفوظ رکھیں۔ آج ہمیں خود اِحتسابی کی اَشد ضرورت ہے کہ ہم اپنا جائزہ لیں کہ ہم نے اب تک اپنے وطنِ عزیز کے لیے کیا کیا ہے؟ اس کی ترقی میں کتنا حصہ لیا ہے؟ قوم کے لیے کیا کیا ہے؟ عوامی بہبود اور خدمتِ اِنسانیت کے لیے کیا کیا ہے؟ وطنِ عزیز کے غیر مسلم شہریوں کی خاطر کیا کام کیا ہے؟ ان کے تحفظ اور ترقی کے لیے کون سے اِقدامات اٹھائے گئے ہیں؟ عوامی بیداری کی مہم میں کس حد تک حصہ لیا ہے؟ قوم کا شعور بیدار کرنے کی خاطر کیا قربانیاں دی ہیں؟ کہاں کہاں اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفادات کی خاطر قربان کیا ہے؟

خدا کرے کہ مری اَرضِ پاک پر اُترے
وہ فصلِ گل جسے اَندیشۂ زوال نہ ہو