خوراک کا عالمی دن ہر سال سولہ اکتوبر کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ یہ دن خوراک اور زراعت کی عالمی تنظیم کے قیام کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ Food and Agriculture Organization اقوام متحدہ کا ایک اہم ادارہ ہے جو دنیا میں خوراک اور زراعت کو فروغ دینے کے لیے کام کرتا ہے۔ یہ ادارہ 1945 میں قائم ہوا۔ اس دن کو دنیا بھر میں اقوام متحدہ کے تمام ممبر ممالک مناتے ہیں۔ خوراک کا عالمی دن پاکستان میں بھی ہر سال جوش و خروش سے قومی سطح پر منایا جاتا ہے۔ جس کا مقصد عوام میں شعور اور آگہی بیدار کرنا ہے۔ اس دن تمام طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے ذمہ دار افراد اور حکومت دنیا سے اور بالخصوص پاکستان سے بھوک اور افلاس کو ختم کرنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں۔ اس لیے اس دن کو دنیا بھر میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی ہوئی آبادی اور روز افزوں مہنگائی میں پاکستان میں غذائیت کی کمی کا شکار افراد کی تعداد روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی جا رہی ہے۔ خوراک کے عالمی پیمانے کے حساب سے پاکستان 119 ممالک کی فہرست میں سے 106 نمبر پر ہے۔ بھوک کا یہ پیمانہ بہت خطرناک ہے۔ کیوں کہ پاکستان خطے میں موجود پسماندہ ملک افغانستان کے برابر ہے۔ جبکہ کہ پڑوسی ممالک میں بنگلہ دیش88 ویں نمبر پر اور بھارت 100نمبر پر ہے۔ اقوام متحدہ کی تنظیم برائے خوراک اور زراعت یا ایف اے او (FAO) کے مطابق 2020 میں دنیا میں تین میں سے ایک فرد یعنی دو ارب 37 کروڑ لوگوں کو خوراک تک مناسب رسائی نہیں تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹھیک سال بھر میں ایسے لوگوں کی تعداد میں تقریبا بتیس کروڑ کا اضافہ ہوا۔
خوراک کے عالمی دن کی اہمیت
بیداری شعور میں معاون:
غذائیت کی کمی لاکھوں لوگوں کی صحت پر منفی اثر ڈالتی ہے، جس سے نمو اور ترقی کو نقصان پہنچتا ہے۔ اسی لیے اس مسئلے کی طرف توجہ دلانا بہت ضروری ہے تاکہ کرہ ارض پر ہر ایک کے لیے غذائی تحفظ اور غذائیت سے بھرپور خوراک کی دستیابی کو یقینی بنایا جا سکے۔
یہ ایک یاد دہانی ہے کہ بھوک کو ختم کیا جا سکتا ہے:
فی الحال، ہماری زمین ہر ایک کو کھانا کھلانے کے لئے کافی خوراک پیدا کرتی ہے۔ تاہم، ہر سال 1.3 بلین کلوگرام خوراک ضائع ہو جاتی ہے (تقریباً 20%خوراک کی کل پیداوار کا)۔ خوراک کا عالمی دن لوگوں کو اس میں شامل ہونے، کھانے کے ضیاع کو کم کرنے اور لاکھوں لوگوں کو کھانا کھلانے میں مدد کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
یہ ذہنی طور پر کھانے پر توجہ دیتا ہے:
کھانا لذت اور لطف اندوزی کا ایک بہترین ذریعہ ہے، پھر بھی ہم کبھی کبھار ضرورت سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ہم کھانے کے ضیاع کو کم کر سکتے ہیں اور ایسے افراد کی تعداد کو کم کر سکتے ہیں جو بھوکے سوتے ہیں۔ خوراک کا عالمی دن ایک یاد دہانی ہے کہ ضرورت سے زیادہ کھانے سے بچیں اور ماحولیاتی طور پر پائیدار فیصلوں کو اپنائیں۔
اپنی کھانے کی عادات کو صحت مند اور پائیدار بنانے کے 4 طریقے
یہاں کچھ طریقے ہیں جو آپ کی کھانے کی عادت کو صحت مند اور پائیدار بنا سکتے ہیں:
موسمی کھانا:
صحت مند کھانا ضروری ہے۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ سرخ گاجر اور نارنجی سردیوں میں بہترین ذائقہ دار ہوتے ہیں؟ یا شاید گرمیاں رسیلے آم چبائے بغیر بے معنی ہیں؟ خوراک کے معیار میں تغیرات کی وجہ سے، مختلف موسموں کے دوران متنوع پھلوں اور سبزیوں کے وٹامن اور غذائی مواد میں نمایاں تبدیلی آتی ہے۔ صحت مند غذا حاصل کرنے کے لیے صحت مند چیزیں کھائیں اور موسم سے لطف اندوز ہوں۔
نامیاتی کا انتخاب کریں:
آپ نے اسے پہلے بھی سنا ہے، اور آپ اسے اب اور پھر سنیں گے۔ نامیاتی جاننے کا واحد راستہ ہے۔ مارکیٹ میں موجود زیادہ تر کھانے میں کیمیکلز اور کیڑے مار ادویات شامل ہیں، جن کا استعمال وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے جسم پر مختلف منفی اثرات مرتب کر سکتا ہے، بشمول کینسر۔ صحت مند اور لمبی زندگی کے لیے نامیاتی خوراک تجویز کی جاتی ہے۔
اپنا کھانا خود بنائیں:
ایک اور عادت جو آپ کو صحت مند اور پائیدار رہنے میں مدد دے گی وہ ہے اپنا کھانا خود بنانا شروع کریں۔ پیکڈ، پروسیس شدہ اور فاسٹ فوڈ کو الوداع کہیں اور دوبارہ کھانا پکانا شروع کریں۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ آپ جو کھانا بنائیں گے وہ زیادہ صحت بخش ہوگا، آپ کو بہت زیادہ نمک اور تیل کا استعمال کرنے سے روکے گا اور آپ کو فٹ رکھنے میں مدد ملے گی۔
کھانے کے ضیاع کو روکیں:
کھانے کا انتخاب صحت اور ماحول دونوں کو متاثر کرتا ہے۔ ہر سال، 30%اور 40%کے درمیان کھانا ضائع ہوتا ہے۔ جب کہ پسماندہ آبادی بھوکی ہے، ہم میں سے کچھ ان مختلف اختیارات سے غافل ہیں جن کا ہمیں استحقاق حاصل ہے۔ بہت سے لوگ رات کو خالی پیٹ سوتے ہیں۔ عاجزانہ گزارش ہے کہ کھانا ضائع نہ کریں اور مہربان رہیں!
آج خوراک کے عالمی دن کے موقع پر ہمیں اپنے اپنے حصے کا چراغ روشن کرنا ہوگا اپنے دائرہ استطاعت میں ہم خوراک کے ضائع ہونے کو جس حد تک کم کر سکتے ہیں کرنا ہوگا۔ اور جس قدر ممکن ہو سکے اپنے ارد گرد ایسے سفید پوش لوگوں کا خیال رکھنا ہوگا کہ کوئی بھوکا نہ سوسکےاور ہمارا شمار نبی مکرمﷺ کے فرمان کے مطابق مومنین کی صف میں ہوسکے۔
پانچ سال سے کم عمر کے تین کروڑ سے زیادہ بچے جنگوں، موسمیاتی آفات، کووڈ۔ 19 وباء کے موجودہ اثرات اور رہن سہن کے بڑھتے ہوئے اخراجات کے باعث شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ایسے بچوں کی قوت مدافعت کمزور پڑ جاتی ہے اور ان کے لیے بچپن کی عام بیماریوں سے اموات کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ 80 لاکھ بچے شدید غذائی قلت کا بری طرح شکار ہیں جو کم خوراک کی مہلک ترین قسم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں مناسب مقدار میں خوراک لینے والے بچے کے مقابلے میں موت کا خطرہ 12 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔
'بحران مزید بڑھ سکتا ہے'
یہ اپیل اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او)FAO، اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) UNHCP، عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے جاری کی ہے۔ انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ بچوں میں شدید غذائی قلت سے نمٹنے کے عالمگیر عملی منصوبے پر پیش رفت میں تیزی لائیں تاکہ بڑھتے ہوئے بحران کو المیے میں تبدیل ہونے سے روکا جا سکے۔ 'ایف اے او' کے ڈائریکٹر جنرل کوا ڈونگ یو نے خبردار کیا ہے کہ اس سال یہ صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ''چھوٹے بچوں، لڑکیوں، حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کے لیے صحت مند غذا کی دستیابی، اس کے حصول کی استطاعت اور اس تک رسائی یقینی بنانا ہو گی۔ ہمیں تمام شعبوں میں اکٹھے کام کرتے ہوئے زندگیوں کو تحفظ دینے اور شدید غذائی قلت کی بنیادی وجوہات سے نمٹنے کے لیے اِسی وقت ہنگامی قدم اٹھانا ہو گا۔''
پانچ ترجیحی شعبے:
اس حوالے سے عالمگیر عملی منصوبے کا مقصد متواتر بحرانوں سے بری طرح متاثرہ ممالک کے بچوں میں شدید غذائی قلت کی روک تھام، اس کی نشاندہی اور علاج ممکن بنانا ہے۔ ان ممالک میں افغانستان، برکینا فاسو، چاڈ، جمہوریہ کانگو، ایتھوپیا، ہیٹی، کینیا، مڈغاسکر، مالی، نائیجر، نائیجیریا، صومالیہ، جنوبی سوڈان، سوڈان اور یمن شامل ہیں۔
یہ منصوبہ خوراک، صحت، پانی، نکاسی آب اور سماجی تحفظ کے پروگراموں میں ماں اور بچے کو غذائیت کی فراہمی سے متعلق پالیسی میں تبدیلیوں کے ذریعے کثیرشعبہ جاتی طریقہ کار کی ضرورت پوری کرتا اور ترجیحی اقدمات کو واضح کرتا ہے۔ ضروریات بڑھنے کے ساتھ اقوام متحدہ کے اداروں نے پانچ مخصوص اقدامات کا خاکہ پیش کیا ہے جو جنگوں اور قدرتی آفات سے متاثرہ ممالک میں اور ہنگامی حالات میں شدید غذائی قلت پر قابو پانے میں موثر کردار ادا کریں گے۔
ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریاسس نے کہا ہے کہ ''غذائی قلت کا عالمگیر بحران دراصل صحت کا بحران اور ایک موذی چکر بھی ہے۔ غذائی قلت بیماری کو جنم دیتی ہے اور بیماری سے غذائی قلت جنم لیتی ہے۔ ''انہوں نے کہا کہ ''غذائی قلت سے بری طرح متاثرہ ممالک میں خاص طور پر خواتین اور بچوں کے لیے صحت بخش خوراک اور غذائیت سے متعلق خدمات تک رسائی یقینی بنانے سمیت بچوں کی زندگیوں کو تحفظ دینے کے لیے فوری مدد درکار ہے۔ ''
ایک اور عادت جو آپ کو صحت مند اور پائیدار رہنے میں مدد دے گی وہ ہے اپنا کھانا خود بنانا شروع کریں۔ پیکڈ، پروسیس شدہ اور فاسٹ فوڈ کو الوداع کہیں اور دوبارہ کھانا پکانا شروع کریں۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ آپ جو کھانا بنائیں گے وہ زیادہ صحت بخش ہوگا، آپ کو بہت زیادہ نمک اور تیل کا استعمال کرنے سے روکے گا اور آپ کو فٹ رکھنے میں مدد ملے گی
ہم خوراک کے ایک ایسے عالمگیر بحران کا سامنا کر رہے ہیں جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی اور اس کی تمام علامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابھی اس بحران کا بدترین مرحلہ آنا باقی ہے۔ 2022 کے آغاز سے اب تک دنیا بھر میں بھوک کا شکار لوگوں کی تعداد 282 ملین سے بڑھ کر 345 ملین تک پہنچ گئی ہے اور سال کے وسط تک ڈبلیو ایف پی کو 111 ملین سے کچھ ہی زیادہ ضرورت مند لوگوں تک رسائی ہو سکی ہے جبکہ اسے سال کے آخر تک 153 ملین ضرورت مند آبادی کی غذائی مدد کرنا ہے۔ گزشتہ تین سال میں بھوک کا شکار لوگوں کی تعداد نے تواتر سے نئی بلندیوں کو چھوا ہے۔ اگر اس بحران کی بنیادی وجوہات سے نمٹنے کے لیے بڑے پیمانے پر اور مربوط کوشش نہ ہوئی تو حالات مزید بدتر ہو جائیں گے۔ ہم بے مثال بھوک کا ایک اور سال دیکھنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
قحط کی روک تھام:
ہنگامی غذائی امداد مہیا کرنے والے ادارے نے واضح کیا ہے کہ وہ فی الوقت پانچ ممالک میں ''قحط کو روکے ہوئے'' ہے جن میں افغانستان، ایتھوپیا، صومالیہ، جنوبی سوڈان اور یمن شامل ہیں۔ جنگوں کے باعث مواصلات میں رکاوٹیں آنے، امدادی رسائی محدود ہو جانے اور لوگوں کے بے گھر ہونے سے انتہائی غیرمحفوظ اور کمزور آبادیاں تباہ کن بھوک کا شکار ہو رہی ہیں۔ مثال کے طور پر یوکرین میں جاری جنگ کے باعث عالمگیر تجارت میں خلل آیا ہے، نقل و حمل کے اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے اور غذائی پیداواری عمل کا دورانیہ بڑھ گیا ہے جبکہ کسانوں کو ضرورت کے مطابق خوراک پیدا کرنے کے لیے درکار کھادوں اور دیگر زرعی اشیا کی کمی کا سامنا ہے۔ ڈبلیو ایف پی نے خبردار کیا ہے کہ ''فصلوں کی آئندہ کٹائی پر اس صورتحال کے اثرات دنیا بھر میں ظاہر ہوں گے۔ ''
معیشت اور موسم:
اسی دوران شدید موسمی حالات کے نتیجے میں تباہ کن آفات کی رفتار اور شدت میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے متاثرین کو مختلف قدرتی آفات کے درمیان خود کو بحال کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ شاخِ افریقہ میں بے مثال قحط مزید لوگوں کو تشویشناک حد تک شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار کر رہا ہے، اب صومالیہ میں بھی قحط آنے کا امکان ہے جبکہ بہت سے ممالک خاص طور پر پاکستان میں سیلاب نے گھروں اور کھیتوں کو تباہ کر دیا ہے۔ ڈبلیو ایف پی نے وضاحت کی ہے کہ حکومتوں کی ایسے حالات سے نمٹنے کی صلاحیت ان کے اپنے معاشی مسائل کے باعث محدود ہے جن میں کرنسی کی قدر میں کمی، افراط زر اور قرض کے مسائل نمایاں ہیں جبکہ عالمگیر معاشی گراوٹ کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔ ادارے نے خبردار کیا ہے کہ ''اس صورتحال میں بڑی تعداد میں لوگ خوراک کے حصول کے قابل نہیں رہیں گے اور انہیں اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے انسانی امداد کی ضرورت پڑے گی۔ ''
بھوک کا شکار ان مجبور افراد کی ترجمانی اخلاق ساغری کچھ اس طرح سے کرتے ہیں کہ
بھوک میں کوئی کیا بتلائے کیسا لگتا ہے
سوکھی روٹی کا ٹکڑا بھی تحفہ لگتا ہے
یارو اس کی قبر میں دو روٹی بھی رکھ دینا
مرنے والا جانے کب کا بھوکا لگتا ہے
اسی طرح بیدل حیدری لکھتے ہیں:
بھوک چہروں پہ لیے چاند سے پیارے بچے
بیچتے پھرتے ہیں گلیوں میں غبارے بچے
ہم خوراک کے ایک ایسے عالمگیر بحران کا سامنا کر رہے ہیں جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی اور اس کی تمام علامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابھی اس بحران کا بدترین مرحلہ آنا باقی ہے۔ 2022 کے آغاز سے اب تک دنیا بھر میں بھوک کا شکار لوگوں کی تعداد 282 ملین سے بڑھ کر 345 ملین تک پہنچ گئی ہے اور سال کے وسط تک ڈبلیو ایف پی کو 111 ملین سے کچھ ہی زیادہ ضرورت مند لوگوں تک رسائی ہو سکی ہے جبکہ اسے سال کے آخر تک 153 ملین ضرورت مند آبادی کی غذائی مدد کرنا ہے۔ گزشتہ تین سال میں بھوک کا شکار لوگوں کی تعداد نے تواتر سے نئی بلندیوں کو چھوا ہے
آج خوراک کے عالمی دن کے موقع پر ہمیں اپنے اپنے حصے کا چراغ روشن کرنا ہوگا اپنے دائرہ استطاعت میں ہم خوراک کے ضائع ہونے کو جس حد تک کم کر سکتے ہیں کرنا ہوگا۔ اور جس قدر ممکن ہو سکے اپنے ارد گرد ایسے سفید پوش لوگوں کا خیال رکھنا ہوگا کہ کوئی بھوکا نہ سوسکےاور ہمارا شمار نبی مکرمﷺ کے فرمان کے مطابق مومنین کی صف میں ہوسکے۔
نبی اکرمؐ کا ارشاد گرامی ہے ’’وہ آدمی مومن نہیں ہے جو خود تو پیٹ بھر کر سویا ہے مگر اس کا پڑوسی بھوکا سویا ہے اور اس کے علم میں ہے کہ پڑوسی کو رات کھانے کو کچھ نہیں ملا۔ ‘‘