سوال: کیا ’نہی عن المنکر، علماء کی ذمہ داری ہے؟

جواب: حضرت طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عید کے دن نماز سے پہلے جس شخص نے سب سے پہلے خطبہ دینا شروع کیا وہ مروان تھا، ایک شخص نے مروان کو ٹوکا اور کہا کہ نماز خطبہ سے پہلے ہوتی ہے، مروان نے جواب دیا کہ وہ دستور اب متروک ہو چکا ہے۔ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا اس شخص پر شریعت کا جو حق تھا وہ اس نے ادا کر دیا۔ اس نے خود رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد سنا ہے:

’’تم میں سے جو شخص خلاف شریعت کام دیکھے تو اپنے ہاتھوں سے اس کی اصلاح کرے اور اگر طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان سے اس کا رد کرے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو دل سے اس کو برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔‘‘

(مسلم، الصحيح)

مذکورہ بالا حدیث مبارکہ میں برائی کی ہاتھوں کے ساتھ اصلاح کرنے اور طاقت نہ رکھنے کی صورت میں زبان سے اس کا رد کرنے کا فرمایا گیا ہے۔ یہ بات برحق ہے کہ ہر برائی کو ہاتھ سے روکنے کے لیے طاقت اور اختیار کا ہونا ضروری ہے، لہٰذا جہاں تک کوئی برائی علماء کے ہاتھوں قابل اصلاح ہو تو علماء کا فرض بنتا ہے کہ اس کی اصلاح کریں۔ اس کے علاوہ جن برائیوں کی روک تھام کرنا حکومت اور اداروں کا کام ہے، اُن کے لئے آواز بلند کرنا، عوام کو آگاہ کرنا اور اُن تک پہنچانا ہی علماء کا فرض ہو گا کیونکہ ہاتھ سے روکنے کی طاقت اور اختیار علماء کے پاس نہیں ہے۔ ہر ایک اپنی ذمہ داری کا جوابدہ ہو گا۔ حدیث مبارکہ میں ہے:

’’حضرت عبد الله ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: خبردار ہو جاؤ کہ تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک سے اس کے ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ لہٰذا امام لوگوں کی طرف سے نگران ہے اور اس سے اُن لوگوں کے بارے میں پوچھا جائے گا جو اُس کے ماتحت تھے اور ہر آدمی اپنے گھر والوں کا نگران ہے اور اُس سے اُس کے ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا اور عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولاد کے لیے نگران ہے اور اُس سے اُن کے بارے میں پوچھا جائے گا اور آدمی کا غلام اپنے آقا کے مال کا نگران ہے اور اُس سے اُس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ آگاہ ہو جاؤ کہ تم میں سے ہر ایک نگران ہے او رہر ایک سے اس کے ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘

(بخاري، الصحيح، 6: 2611، رقم: 6719، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة)

(اس حدیث مبارکہ کو محدثین کی کثیر تعداد نے نقل کیا ہے)

لہٰذا علماء کا برائی کے خلاف آواز بلند کرنا اور عوام کا علماء کو طاقت میں لانا اخلاقی فرض ہے تا کہ برائیوں کا خاتمہ ہو سکے اور معاشرے کی اصلاح بہترین انداز میں ہو۔ اگر عوام ووٹ دیتے وقت گلی محلہ، بجلی وگیس کے میٹر اور برادری ازم کو ترجیح دیں اور علماء سے برائی ہاتھ سے روکنے کی خواہش رکھیں تو یہ محض ایک خواب ہو سکتا ہے۔

سوال: عصرِ حاضر میں تصوف میں درآنے والی خرابیاں کون سی ہیں؟

جواب:تصوف و سلوک جو ایک روحانی نظام تربیت کا نام ہے بدقسمتی سے آج اس میں بہت سے تضادات و اختلافات کی وجہ سے خرافات کی صورتیں پیدا ہو گئی ہیں۔ تصوف محض چند رسومات کی حد تک ہی رہ گیا ہے۔ تصوف کی بنیاد جس اخلاص پر تھی آج نام نہاد صوفیاء نے اسے ریاکاری اور دکھاوے کی بھینٹ چڑھا دیا ہے، جعلی پیروں نے تعویذ گنڈوں دم درود اور عرس منانے تک ہی ساری طریقت کو محدود کر دیا ہے۔ طریقت اور تصوف صرف اس بات سے عبارت ہو کر رہ گئے ہیں کہ بیعتِ شیخ کی جائے۔ اس عمل کے بعد نہ شیخ کو خبر کہ میرا مرید کس حال میں ہے اور نہ ہی مرید کو شیخ کے حال کی خبر بس تصوف اور بیعت محض رسمی سی چیز بن کر رہ گئے ہیں۔ سال بعد جملہ مریدین ایک جگہ جمع ہوں، سب عرس کی تقریب میں شریک ہوں اور پیر صاحب سالانہ دو چار دورے فرمائیں، نذر نیاز وصول کر کے واپس چلے جائیں اس طرح تصوف جو حب جاہ اور حب دنیا ترک کرنے کی تعلیم دیتا تھا کاروبار بن کر رہ گیا۔ تصوف و طریقت میں جانشینی اور وراثت کا تصور پیدا ہو گیا ہے اس طرح خانقاہی نظام میں بے پناہ قباحتیں اور خلاف شریعت امور در آئے ہیں سجادہ نشینی کا نسل در نسل نظام زوال پذیر ہوتے ہوئے عملاً یہ صورت اختیار کر گیا ہے :

میراث میں آئی ہے انہیں مسند ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن

تصوف پر ایک ظلم یہ ہوا کہ علمائے دین تعلیم و تربیت کے پہلو سے بے توجہی برتنے لگے ہیں، تصوف کے لئے کوئی مقام دینی و شرعی علوم میں رہا نہ کسی خانقاہ میں۔ تصوف میں دوسرا بڑا فتنہ جو نام نہاد پیروں اور جھوٹے مفاد پرست دنیا دار صوفیوں نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے اٹھایا ہے، شریعت کو مولویت کا نام دے کر بدنام کرنے کی تعلیم دی ہے۔ ان کے نزدیک قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم مولویوں کا کام ہے اولیاء و صوفیاء کا نہیں۔ علوم شرعیہ کی اس طرح نفی کی جا رہی ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ شاید طریقت، روحانیت، معرفت، ولایت اور حقیقت کا شریعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔

سوال: کسی کی مدد کرنے کی نیت سے بینک سے سود لینا کیسا ہے؟

جواب:آپ یہ رقم کسی اسلامی بینک میں رکھ کر اس سے حاصل ہونے والا منافع وصول کر سکتے ہیں۔ اس منافع کو آپ خود بھی استعمال کر سکتے ہیں اور اپنی ہمشیرہ کو بھی دے سکتے ہیں۔ مشکلات کے باوجود اسلامی بینکوں میں ممکنہ حد تک شرعی اصول وضوابط کا اہتمام کیا جا رہا ہے اور مزید بہتری کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ لیکن سودی بینک میں رقم پر منافع وصول کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ وہ اصل میں منافع نہیں بلکہ متعین اضافہ ہوتا ہے جو رقم جمع کراتے وقت ہی طے کر دیا جاتا ہے، یہی سود ہے جس کے حرام ہونے میں تمام مسلمان علماء کا اتفاق ہے۔ سود کے حرام ہونے پر قرآن وحدیث کی صریح نصوص وارد ہوئی ہیں۔ اصولاً بھی اسلامی بینکوں کی سہولت کے ہوتے ہوئے سودی بینکوں سے منافع حاصل کرنے کا جواز نہیں بنتا، اس لیے آپ کسی بھی اسلامی بینک میں رقم جمع کروا کر اس پر منافع حاصل کر سکتے ہیں۔

سوال: مقروض اپنی رضامندی سے اضافے کی پیشکش کرے تو کیا حکم ہے؟

جواب:وزن کی جانے والی یا پیمانے سے ناپے جانے والی اجناس اور ثمن (روپیہ، پیسہ/ کرنسی) میں دو آدمیوں کا اس طرح معاملہ کرنا کہ ایک کو زائد دینا پڑتا ہو‘ سود کہلاتا ہے۔ جیسے زید نے بکر کو ایک ماہ کے لیے دو کلو گندم یا چار میٹر کپڑا یا 100 روپے بطور قرض دیئے اور طے کرلیا کہ وہ مقررہ وقت پر تین کلو گندم یا پانچ میٹر کپڑا یا 110 روپے واپس کرے گا‘ تو معاملہ یہ سود ہے اور اسے اسلام میں حرام اور گناہِ کبیرہ قرار دیا گیا ہے۔ البتہ اگر بکر قرض کی ادائیگی کے وقت اپنی خوشی سے اصل قرض سے کچھ زائد دینا چاہے تو یہ جائز ہے اور ایسا کرنا نبیِ اکرم ﷺ کے عمل سے بھی ثابت ہے۔ لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ فریقین کے درمیان اس زائد کے معاملے میں پہلے کوئی بات طے نہ کی گئی ہو۔

آپ کے سوال میں مذکور لین دین کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ مقروض اگرچہ اپنی مرضی سے زائد رقم دینے کی پیشکش کر رہا ہے مگر کیونکہ یہ زیادتی پہلے سے طے کی جارہی ہے اس لیے جائز نہیں ہے۔ اگر اس سلسلے میں پہلے کچھ طے نہ کیا جائے اور مقروض اصل رقم کی ادائیگی کرتے ہوئے اپنی مرضی سے تھوڑا یا زیادہ اضافہ کر لے تو ایسا اضافہ لینے میں کوئی حرج نہیں‘ تاہم پہلے سے طے کی گئی زیادتی حرام ہے۔

سوال: کیا کوئی جائز کام کرنے پر ہدیہ لینا جائز ہے؟

جواب:آپ نے سوال میں سیپڈ منی کے لیے ٹپ اور جگا ٹیکس کی اصطلاحات استعمال کی ہیں حالانکہ ٹپ اور جگا ٹیکس دو مختلف اصطلاحات ہیں۔ ٹپ ایسی رقم کو کہتے ہیں جو کسی خدمت کے عوض کوئی شخص اپنی مرضی سے دیتا ہے، اگر نہ دے تو زبردستی نہیں کی جاتی جبکہ جگا ٹیکس کی اصطلاح سے مراد عام طور پر وہ رقم ہوتی ہے جو کسی سے زبردستی وصول کی جائے۔ اس لیے یہ ’سپیڈ منی‘ اگر تو ٹپ کی طرح ہے کہ دینے والا کسی جائز خدمت کے عوض اپنی مرضی سے دیتا ہے تو اس کا وصول کرنا جائز ہے لیکن اس کے برعکس اگر بھتہ کی طرح زبردستی وصول کی جاتی ہے تو یہ لینا جائز نہیں۔ تنخواہ کے علاوہ عہدہ یا جاہ و منصب کی بنیاد پر وصول کی جانے والی مشروط اضافی رقوم رشوت، بھتہ اور جگا ٹیکس کے زمرے میں آتی ہیں‘ اور یہ سب ناجائز ہیں۔

رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ طیبہ کا ایک واقعہ حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے قبیلہ بنو اسد کے ایک شخص ابن التيبہ کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے عامل بنایا، جب وہ (زکوٰۃ وصول کر کے) آئے تو انہوں نے کہا یہ آپ کا مال ہے اور یہ مجھے ہدیہ کیا گیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا: ان عاملوں کا کیا حال ہے کہ میں ان کو (زکوٰۃ وصول کرنے) بھیجتا ہوں اور یہ آ کر کہتے ہیں:

یہ تمہارا مال ہے اور یہ مجھے ہدیہ (تحفہ) کیا گیا ہے۔ یہ اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر میں بیٹھا ہوتا پھر ہم دیکھتے کہ اس کو کوئی چیز ہدیہ کی جاتی ہے یا نہیں..! قسم اس ذات کی جس کے قبضہ و قدرت میں محمد ( ﷺ ) کی جان ہے! تم میں سے جو شخص بھی ان اموال میں سے کوئی چیز لے گا قیامت کے دن وہ مال اس کی گردن پر سوار ہو گا (کسی شخص کی گردن پر) اونٹ بڑبڑا رہا ہو گا، یا گائے ڈکرا رہی ہو گی یا بکری منمنا رہی ہو گی، پھر آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ اتنے بلند کیے کہ ہم نے آپ ﷺ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی، اس کے بعد آپ ﷺ نے دو مرتبہ فرمایا: اے اللہ میں نے تبلیغ کر دی ہے۔

(بخاري، الصحيح، مسلم، الصحيح)

اس حدیثِ پاک سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عہدے پر فائض ہونے کی وجہ سے تحائف وصول کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کی ہے کیونکہ کسی عہدہ پر متمکن شخص کو تحائف کی صورت میں رشوت دے کر لوگ غلط کام کرواتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے عُمال و افسران کو دورانِ خدمات ہدیہ وصول کرنے پر تنبیہ فرمائی ہے۔

کسی چیز کو کہیں جائز سمجھا جاتا ہے یا نہیں‘ اس سے اس شے کا جواز یا عدم جواز طے نہیں ہوسکتا۔ سپید منی کے بھی جواز یا عدم جواز کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ اس کا حصول کیسے ہوتا ہے؟ اگر یہ لوگوں سے زور زبردستی ہتھیائی جاتی ہے تو لینا ممنوع ہے۔ اگر ٹپ کی طرح لوگ اپنی مرضی سے بغیر کسی بدلے کے حصول کے دے کر جاتے ہیں تو جائز ہے۔