تراجم بخاری سے تراجم شیخ الاسلام تک

ڈاکٹر نعیم انور نعمانی

اسلامی تعلیمات کا دوسرا بڑا مآخذ احادیث و سنن رسول ﷺ ہیں۔ علم حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے قول فعل اور تقریر کو حدیث کا نام دیا گیا ہے۔ قرآن کریم کی متعدد آیات حدیث و سنت کی اہمیت اور حجیت کو بیان کرتی ہیں۔

حدیث کی اہمیت اور حجیت پر یہ آیات کریمہ بڑی دلیل ہیں۔

’’جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ کا حکم مانا۔‘‘

(القرآن، 70: 4)

اطاعت رسول ہی اطاعت خدا ہے۔ اور نطق رسول ہی نطق خدا ہے۔

’’اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتےوہ تو نہیں مگر وحی جو اُنہیں کی جاتی ہے۔‘‘

(القرآن، 3: 53)

تراجم بخاری کا مفہوم:

امام بخاری اپنی جامع الصحیح میں احادیث رسول کو بیان کرتے ہیں۔ بعد ازاں ان احادیث سے اپنے استنباط و استدلال کے ذریعے عنوانات اخذ کرتے ہیں۔ امام بخاری اپنی فقاہت و بصیرت و بصارت و فراست کے مطابق جو ابواب کے عنوانات قائم کرتے ہیں انہی کو فقہہ البخاری سے تعبیر کرتے ہیں اور انہیں کو تراجم بخاری کہا جاتا ہے۔ امام بخاری نے تراجم ابواب کے اخذ و استنباط کا سلسلہ روضہ رسول ﷺ کے سامنے بیٹھ کر مکمل کیا۔ ہر ترجمہ لکھنے کے لیے دو رکعت اللہ کی بارگاہ سے اپنی قلم کی استعانت اور ثقاہت کے لیے پڑھتے تھے۔

(عسقلانی، شہاب الدین، ھدی الساری مقدمہ فتح الباری، دار المعارفہ، بیروت ج 1: ص 479)

امام بخاری احادیث کے مدون ہی نہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ احادیث کے مستخرج، مستدلل اور مستنبط بھی تھے۔اس لیے امام بخاری کی عظمت تعلیف اور بلندی استدلال کا اعتراف کرتے ہوئے اما م نووی بیان کرتے ہیں:

’’امام بخاری نےصرف احادیث کا اکٹھا کرنے کا ہی قصد نہیں کیا، بلکہ ا س کے ساتھ ساتھ اپنے ابواب کے تراجم کے لئے احادیث سے استنباط و استدلال بھی کیا ہے۔‘‘ (ایضاً)

تراجم بخاری سے فقاہت بخاری:

جب ہم امام بخاری کے تراجم ابواب کو پڑھتے ہیں توان میں ہمیں امام بخاری کے فہم اور نکتہ رسی کا علم بھی ہوتا ہے۔ امام بخاری کے اکثر دقیق استدلال اور عمدہ ترین استنباطات کی وجہ سے شارحین احادیث یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ فقہہ البخاری فی تراجمہ۔

(ھدی الساری مقدمہ فتح الباری، ج 1 ص113)

برصغیر پاک و ہند میں مولانا انوار شاہ کشمیری نے جب امام بخاری کے تراجم ابواب میں یہ بے مثال خوبی دیکھی تو یہ کہتے ہوئے نظر آئے۔

’’بے شک تراجم ابواب کو وضع کرنے کے حوالے سے امام بخاری سب پر فائق ہوئے ہیں۔ اور سب کے مابین صاحب کمال ہوتےہیں۔نہ متقدمین میں سے آپ کے آگے کوئی بڑھا اور نہ ہی متاخرین میں سے کوئی آپکی نقل کرسکا ہے۔ وہی علم حدیث کی اس صنف کے دروازے کھولنے اور وہی بند کرنے والے ہیں۔‘‘

(کشمیری، محمد انور، فیض الباری علیٰ صحیح البخاری، دار الکتب العلمیہ، بیروت، 2005ء، ج 1: ص35)

تراجم بخاری کی جامعیت:

امام بخاری نے اپنے تراجم ابواب میں جامعیت کو اختیار کیا ہے۔ جس طرح ان کی کتاب علم حدیث میں جامع ہے کہ وہ ایمانیات، الٰہیات، اعمال، عبادات،معاملات، تفسیر اورتاریخ کے علم کو اپنے اندر سمو ئے ہوئے ہے۔اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی کتاب فرقہ باطلہ کی تردید بھی کرتی ہے۔ اسی طرح صحیح بخاری کے اس اسلوب کی بناء پر امام بخاری نے اپنے تراجم ابواب میں جامعیت کے اسلو ب کو اختیار کیا ہے۔ امام بخاری احادیث سے دلالت کی مختلف انواع کے تحت کسی نہ کسی نوع کے ذریعے اخذ و استنباط کرتے ہیں۔ اس بناء پر ان کے تراجم کے اخذ میں طریق استدلال کی بڑی جامعیت اور ہمہ گیریت پائی جاتی ہے۔

امام بخاری جب ترجمۃ الباب کرتےہیں تو ان میں جو الفاظ لیکر آتے ہیں وہ خود احادیث مبارکہ کے الفاظ سے مستنبط کرتے ہیں۔ اور وہ الفاظ ان کے نزدیک کبھی سنداًموصول ہوتے ہیں اور کبھی ان کی شرط کے عدم مطابق کسی دوسرے امام محدث کے نزدیک موصول ہوتے ہیں۔

کبھی ترجمۃ الباب میں بھی وہ ہی الفاظ ہوتے ہیں جو احادیث مبارکہ کے متن میں ہوتے ہیں۔ مثلاً

قول النبی ﷺ بنی الاسلام علی خمس.

(بخاری، محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح،(مترجم محمد داؤد دراز) کتاب الایمان باب قول النبی: بنی الاسلام علی خمس، ج1: ص 173)

اسی طرح کتاب العلم میں یہ باب ہے

’’باب قول النبی ﷺ رب مبلغ اودعی من مسامع‘‘

(الجامع الصحیح،(مترجم محمد داؤد دراز) کتاب الایمان باب قول النبی: بنی الاسلام علی خمس، ج1: ص 249)

اسی طرح کتاب الوضو میں یہ ترجمۃ الباب قائم کیا ہے کہ

’’باب قول النبی ﷺ جعلت لی الارض مسجدا وطهورا‘‘

(بخاری، محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح، (مترجم محمد داؤد دراز) کتاب الصوم، باب لا یمنعکم من سحورکم اٰذان بلال، ج 1: ص257)

کبھی کبھی یوں ہوتا ہے ترجمۃ الباب میں جو الفاظ آتے ہیں وہ امام بخاری کے ہاں سنداً موصول نہیں ہوتے۔مگروہ کسی امام حدیث سے سنداً موصول ہوتے ہیں۔ جیسے کتاب الایمان میں یہ باب قائم کیا گیا ہے ’’الدین النصیحہ‘‘ اب یہ ترجمۃ الباب کے الفاظ امام مسلم کی حضرت عمیم سے روایت کردہ حدیث میں ذکر کیے گئے ہیں۔ اسی طرح امام بخاری نے کتاب الصوم میں ہی یہ باب قائم کیا ہے۔

’’باب لا یمنعکم من سحورکم آذان بلال‘‘

( الجامع الصحیح، کتاب العلم، رقم 71)

امام ترمذی نے اس روایت کو حضرت سمرہ بن جندب سے ان الفاظ میں نقل کیا ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری تراجم ابواب میں ان الفاظ کو بھی لے کر آتے ہیں جو ان کے نزدیک موصول تو ہیں مگر ان کے مسلمان ہونے کی صرحت نہیں کرتے، جیسا کہ الجامع الصحیح میں کتاب العلم ہے۔ اور اس کا باب ہے،

من یرد اللہ بہ خیرا یفقہ فی الدین

(الجامع الصحیح، کتاب الصلوٰۃ، 59: 1)

اس طرح کتا ب الصلٰوۃ میں ابواب المسجد ہے۔ جس میں یہ باب

’’لیصق عن یسارہ وتحت قدمہ الیسریٰ‘‘

(الجامع الصحیح، کتاب الایمان، باب کفر ان العشیر، 9: 1)

تراجم الابواب کے لیے کلمات کا انتخاب:

اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ کبھی تراجم الابواب وہ الفاظ حدیث لے کر آتے ہیں جو ان کے علاوہ دیگر محدثین کے ہاں الفاظ احادیث کے طور پر مسلم ہوتے ہیں۔ لیکن خود امام بخاری ان کے حدیث ہونے کا اظہار نہیں کرتے۔ ایسے متعدد اور بے شمار تراجم ہیں۔ امام بخاری یہ اسلوب حدیث مشہور کے باب میں اختیار کرتے ہیں۔ جیسا کہ کتاب الایمان میں یہ باب قائم کیا گیا ہے۔

باب کفران العشیر و کفر دون کفر

(الجامع الصحیح، کتاب الایمان، باب ظلم دون ظلم، 9: 1)

اسی طرح اس میں ایک اور باب ہے

’’باب ظلم دون ظلم‘‘

(عسقلانی، شهاب الدین، ھدی الساری مقدمہ فتح الباری، دار المعارفة، بیروت ج 1: ص73)

ان دونوں ابواب میں الفاظ اس حدیث اور اثر کاجزو ہیں۔جن کو علامہ جلال الدین السیوطیؒ نے الدر المنثور میں ایک جماعت کی طرف منسوب کیا ہے۔انہوں نے حضرت عبداللہ ابن عباس سے روایت کیا ہے۔جبلہ امام احمد بن حنبل اور اما م محمد بن نصر نے کتاب الایمان میں عطا بن ابی رباح سے ان کے قول کی حیثیت سے ان الفاظ کو نقل کیا ہے۔

(الجامع الصحیح، کتاب الزکوٰۃ، باب لا تقبل الصلوٰۃ بغیر طهور، 25: 1)

اسی طرح صحیح بخاری کے کتاب الوضو میں باب ’’لا تقبل الصلٰوۃ‘‘ بغیر طہور اور کتاب الزکٰوۃ میں ’’لا تقبل صدقۃ من علول‘‘ کے کلمات امام مسلم اور اصحاب سنن کی ایک مروی حدیث کے ہیں۔

(الجامع الصحیح، کتاب الوضو، 25: 1)

(الجامع الصحیح، کتاب العلم، 16: 1)

تراجم الابواب کی ہمہ جہتی حیثیت:

تراجم ابواب کے ضمن میں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ امام بخاری کبھی حدیث کے الفاظ میں تعریف کر کے ترجمہ کرتے ہیں۔ جبکہ تراجم بخاری میں یہ اسلوب امام بخاری کے ہاں کثرت سے پایا جاتا ہے۔کہ آپ اپنے الفاظ میں ترجمۃالباب کو قائم کرتے ہیں۔ جیسے باب

’’الفهم فی العلم‘‘

(الجامع الصحیح، کتاب العلم، 16: 1)

اس طرح ایک اور باب قائم کرتے ہیں:

باب من جعل لاھل العلم ایاماً معلومۃً

(الجامع الصحیح، کتاب الجنائز، 172: 1)

اسی طرح کی متعدد صورتیں پائی جاتی ہیں اس قسم کو مبھم ترجمہ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔اور مبھم ترجمہ اس وقت ہوتا ہےجب اما م بخاری کو کسی چیز میں توقف کرنا ہوتا ہے۔ یا ان کے نزدیک کوئی احتمال ہوتا ہے۔جیسے کتاب الجنائز میں باب

’’ما جاءفی قاتل النفس‘‘

(الجامع الصحیح، کتاب الاذان، 103: 1)

اس کا ترجمہ کیا ہے۔ کبھی کسی بات میں جزء کے بغیر ترجمہ لاتے ہیں کبھی تراجم باب سے مقصود کسی چیز میں مزید توسع کو ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے۔جیسے ’’ما یقول بعد التکبیر‘‘ اس عنوان کے بعد ثنا ء کہنے کے متعلق حضرت ابو ہریرہ یہ حدیث لیکر آتے ہیں۔ اور اسی کبیر کے بعد ’’الحمد للہ رب العٰلمین‘‘سے نماز شروع کرنے سے متعلق حضرت انس کی مروی حدیث لےکر آتے ہیں۔

(الجامع الصحیح، کتاب الوضو، 36: 1)

کبھی کسی مسئلہ میں اختلاف ہوتا ہے اس کو یوں ظاہر کرتے ہیں باب

’’ابوال الابل‘‘

(الجامع الصحیح، کتاب الطلاق، 796: 2)

کبھی کسی دلیل میں احتمال کی بناء پر باب یوں قائم کرتے ہیں۔ باب

’’اذا اسلمت المشترکه والنصرانیة تحت الذی و الحریق‘‘

(الجامع الصحیح، کتاب التیمم، 470: 1)

کبھی کسی مسئلہ اختلافی ہونے کے باوجود مگر دلیل قوی ہونے کی وجہ سے پورے جزء کے ساتھ باب کا عنوان قائم کرتے ہیں۔ باب ’’وجوب الصلٰوۃ والجماعۃ‘‘ کبھی باب میں استفہامیہ انداز اپناتے ہیں۔ باب

’’ھل ینفع فیھا‘‘

(الجامع الصحیح، کتاب الحیض، 45: 1)

کبھی کسی مسئلہ کی تفصیل کو بیان کرنے کے لیے باب کا اسلوب اپناتے ہیں۔ باب

’’ھل تصلی المراَۃ فی ثوب حافت فیہ‘‘

(الجامع الصحیح، کتاب الوضو، 34: 1)

روایات میں اختلاف کی بناء پر یوں باب قائم کرتے ہیں باب ’’ھل یستخرج السحر‘‘ کبھی امام بخاری کے نزدیک قول مختار کی طرف اشارہ کرنے کے لیے یوں باب قائم کرتے ہیں باب

’’من لم یتوضا الّا من الغشی الثقل‘‘

(الجامع الصحیح، کتاب الوضو، 29: 1)

کبھی حکم کی طرف اشارہ کرنے کے لیے ایسا باب لے کر آتے ہیں۔ باب ’’من رفع صوتہ بالعلم‘‘ کبھی تراجم ابواب میں تاریخی اسلوب کی طرف اشارہ کر نے کے لیے باب ’’قصۃ زمزم‘‘ کے ساتھ ذکر کرتے ہیں۔

(الجامع الصحیح، کتاب الوضو، 35: 1)

کبھی کسی مسئلہ پر ترجمہ الباب قائم کرتے ہیں اور پھر اس میں فائدے کی طرف اشارہ کرنے کے لیے مزید عبارات لاتے ہیں جو باب دو باب کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اس کی مثالیں کتاب بدءالخلق اور اس کے ابواب میں دیکھی جا سکتی ہیں۔کبھی کسی مشکل پر رد کے لیے باب قائم کرتے ہیں۔جیسے باب

’’ترک الحائض الصوم‘‘

(الجامع الصحیح، کتاب العلم، 31: 1)

کبھی کبھی مختلف روایات میں تطبیق کے لیے باب لے کر آتے ہیں مثلاً باب

’’لا تستقبل القبلۃ بغائط او بول‘‘

(الجامع الصحیح، کتاب المناقب، 497: 1)

اس ترجمۃ الباب میں دو حدیثوں کو بیان کیا ہے ایک حضرت ابو ایوب انصاری سے مروی حدیث ہے جس میں ممانعت ہے اور دوسری حضرت عبداللہ بن عمر کی اباحت پر ہے۔ پہلی روایت کو صحرا ور بیابان پر محمول کیا ہے اور دوسری روایت کو کسی حائل پر محمو ل کیا ہے۔ کبھی شرط اور مشروط کے ساتھ ترجمہ الباب قائم کرتے ہے جیسے ’اذا کان کذا ‘ اور پھر اس جیسے الفاظ کے ساتھ اس شرط کے ساتھ مشروط کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ کبھی آثار صحابہؓ سے ترجمہ الباب میں کسی سوال کا جواب لے کر آتے ہیں۔ باب ’’اذا اقرضہ الّا اجل مسمی‘‘ اب اس سوال کا جواب یوں لکھتے ہیں ’’وقال ابن عمر فی قرض لا اجل لا بئس بہ‘‘

(ا لجامع الصحیح، کتاب الحیض، 44: 1)

کبھی ترجمہ البا ب میں سوال و جواب کو صراحتاً لاتے ہیں۔ ’’اذا وقف ارض ولم یبین الحدود فھو جائز‘‘ اور اسی طرح باب

’’اذا وکل المسلم حربیاً فی دار الحرب اوفی دار السلام جاز‘‘

(الجامع الصحیح، کتاب الوضو، 26: 1)

تراجم الابواب کے ذریعے فہم حدیث میں کاملیت:

غرض یہ کہ اما م بخاری نے الجامع الصحیح میں جہاں احادیث صحیحہ کو روایت کرنے کا التزام و اہتما م کیا ووہاں سے ان احادیث سے استفادہ کرنے کا طریقہ بھی امت کو سکھایا ہے تمھیں اپنے اپنے زمانے میں جو بھی مسائل پیش آئیں ان کو قرآن و احادیث پر پیش کرو۔ قرآن کے ذریعے ان مسائل کو پیش کرنے کا طریقہ مفسرین ہمیں بتاتے ہیں جبکہ احادیث پر ان مسائل کو کیسے پیش کیا جائے یہ طریقہ امام بخاری نے اپنے زمانے میں امت کو سکھایا ہے اور اپنے اس عمل ترجمۃ البا ب کے ذریعے امت کو ترغیب دی ہے کہ اپنے اپنے زمانے میں علم حدیث سے صحیح معنوں میں استفادہ کرنے کے لیے ترجمۃالباب کی نہج پر اپنے مسائل کو احدیث و سنن پر پیش کریں اور ان میں گہرا تفکر اور تدبر کریں اور عوام و خواص کو اپنے علم سے مستفیض کرنے کے لیے ترجمۃ الباب کا اسلوب اختیار کریں۔ تاکہ اس ندرت کے حامل اسلوب کے ذریعے تھوڑے وقت میں وہ زیادہ مصدقہ،ثقہ اور قابل اعتماد بات کو جان سکیں۔

تراجم الابواب میں اجتہادی ارتقاء کی ضرورت:

انسانی زندگی تحرک، تبدل اور تغیرات کے مسائل لیکر مسلسل آگے بڑھتی رہتی ہے۔ ارتقا و تسلسل کی ضرورت ہر زمانے میں محسوس ہوتی رہتی ہے اور اگر ارتقا کا مسئلہ دھیرے دھیرے اپنی منزل کی طرف جاری و ساری رہے تو علمی و اجتہادی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں اور اگر یہ عمل کسی جدت کی بنا پر رکاوٹ کے باعث رک جائے، یا یہ تصور کر لیا جائے جیسے کوئی نئی عمارت اس کے مکینوں کے لیے چالیس سے پچاس سال کی ضروریات پوری کر دیتی ہے اس کے بعد اس عمارت کی تعمیر نو کی حاجت پیش آتی ہے۔ اسی طرح کسی عصری اور علمی کام کے لیے نیا کام رکا رہے تو 40 سے 50 سالوں کے لیے اس میں جدت اور ارتقا کی شاید ضرورت پیش آتی ہے۔ پھر اگر اس پر زمانے اور صدیاں بیت جائیں تو اس کی احتیاج کی شدت کا اندازہ با آسانی نہیں لگایا جا سکتا۔ اگر چہ صاحبان حال اور مجتہدین ہر زمانے میں گزرتے ریتے ہیں اور ان کا اجتہادی کام بھی جاری رہتا ہے۔ مگر وہ کام کبھی کبھار روایتی اور غیر روایتی دونوں کا شکار ہوکر پس پردہ چلا جاتا ہے جس کی وجہ سے افادیت کے باوجود نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔

بہر حال عصر حاضر نے جو اب تک حدیث و سنت رسول ﷺ کی حجیت و قطعیت کے سوال اٹھائے ہیں اور اس کے مصدر اصلی ہونے پر تشکیک کا اظہار کیا ہے اور اس نے حدیث کے تدریسی عمل پر بے بنیاد اعتراضات بلند کیے اور علم حدیث کے باب میں طرح طرح کے طعنوں و گمانات اور تحفظات کو فروغ دیا ہے علم حدیث کی صحت و ثقاہت کے مختلف معیارات پر شکوک و شبہات پیدا کیے گئے ہیں ان سب کا کافی و شافی جواب یہ ہے کہ ہم بحیثیت اہل ایمان زیادہ سے زیادہ تمسک بالسنہ پر عمل اور اپنی علمی اور عملی زندگی کے جملہ مسائل کا حل ہم قرآن کے بعد احادیث رسول ﷺ سے تلاش کریں۔ احادیث و سنن رسول ﷺ سے زیادہ استفادے کے لیے ہم امام بخاری کے اسلوب تراجم الابواب کے نہج کو اپنائیں تاکہ احادیث و سنن کے ذریعے حاصل ہونے والا علم رسالت ہمیں روشنی و نور کی خیرات دے۔

اما م بخاری کے احادیث رسول ﷺ سے استدلال و استنباط کے منہج و اسلوب کو بڑی قوت اور محفوظ دلیل کے ساتھ عصر حاضر میں شیخ الاسلام نے زندہ کیا ہے۔ آپ نے امام بخاری کے تراجم الابواب کے جامع ترین اسلوب کو اختیار کیا ہے اور اس سے اخذ کرتے ہوئے تراجم الابواب کو علم عصر کی ضروریات کے ساتھ جوڑا ہے احادیث کے اطلاقی اور علمی پہلوؤں کو اپنے اعلیٰ طریق استنباط و استدلال کے ذریعے خوب نمایاں کیا ہے۔ اس حوالے سے ہم ان کی متعدد کتب میں صرف المنہاج السوی و دیگر پر ترجیح دیتے ہیں۔

منہاج السوی کا تاریخی تعلق و ربط:

منہاج السوی کا تعلق کتب منتخبات الحدیث سے ہے۔ چوتھی اور پانچویں صدی ہجری میں جب تحقیق سند کا کام اپنے عروج کمال کو پہنچ گیا۔ تو اب اس کے بعد ائمہ حدیث نے مختلف موضوعات پر احادیث کے مجموعے مرتب کرنا شروع کر دیئے۔ جن میں احادیث کی ترتیب اور تبویب کو مرکزی حیثیت دی گئی۔مثلاً صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی احادیث پر مشتمل احادیث کے مجموعے مرتب ہوئے۔ جنکو مرتب کرنے والے بڑے بڑے آئمہ اکرام ہیں۔ جن کے نام درج ذیل ہیں:

ابو نصر فتوح بن حمید الحمیدی - 477ھ

ابو الحسن زرین - 532ھ

عبد الحق الشبیلی - 572ھ

محمد بن حسین انصاری - 572ھ

امام ابن اثیر - 606ھ

رضی الدین حسن محمد الصنعانی - 455ھ

ابن کثیر - 774ھ

صحیح بخاری اور مسلم کے علاوہ صحاح ستہ اور دیگر کتب احادیث سے مجموعہ ہائے احادیث منتخب کیئے گئے۔ ان مجموعہ جاتِ احادیث میں سے بعض نے بہت شہرت پائی۔

جیسے امام منذری کی الترغیب والترہیب ہے۔ اور امام یحیٰ بن شرف النووی کی ریاض الصالحین ہے۔

منہاج السوی بھی ان ہی منتخبات الحدیث کے سلسلے کا ایک منفرد اسلوب، ایک جامع منہج او ر ایک مصدقہ تخریج کے قالب میں اپنی نوعیت کا ایک بے مثال، ایک معتبر اور ایک مستند کام کی حیثیت رکھتی ہے۔

منہاج القرآن کی فکری بنیاد قرآن و سنت:

شیخ الاسلام نے منہاج القرآن کی فکر کی بنیاد قرآن و سنت رسول ﷺ کو ٹھہرایا ہے۔ تمسک بالقرآن کے لیے شیخ الاسلام نے دروس قرآن کا جال نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں خوب پھیلا دیا۔ اس مقصد کے حصول اور تکمیل کے لیے اس امت کو عرفان القرآن اور تفسیر منہاج القرآن کا عظیم تحفہ دیا ہے۔ جبکہ دوسرے امر تمسک بالسنہ کے لیے آپ نے احادیث کی تعلیم کو عوامی سطح پر اور اہل علم کی سطح پر بہت زیادہ ترویج دی ہے۔ شیخ الاسلام نے علم حدیث کو لوگوں میں عام کرنے کے لیے پہلے بے شمار موضوعات پر سینکڑوں اربعینات کی تدوین اور اشاعت کی ہے۔ شیخ الاسلام نے اسلام کے فکری واعتقادی عملی اور معاشرتی مسائل اور ان کے حل کے لیئے متعدد احادیث کے مجموعہ جا ت تیار کئے ہیں۔

علم الحدیث میں شیخ الاسلام کی خدمات کا تفرد:

ان سب کتب کی ایک طویل فہرست ہے۔ مضمون کی طوالت کے پیش نظر اس کو ترک کر رہے ہیں البتہ ان سب کتب احا دیث میں شیخ الاسلام نے تین چیزوں کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔

  • احادیث صحیحہ کا انتخاب
  • تراجم الحدیث کے ذریعے امت کے ہمہ جہتی مسائل کا حل
  • تحقیق، تخریج احادیث کا مستند اور معتبر اسلوب

ان کی تمام کتب احادیث اس منہج ثلاثہ سے آراستہ ہیں۔اور اسی منہج و اسلوب کی عصر حاضر میں ایک طالب حدیث کی بہت بڑی ضرورت تھی۔اور اس ضرورت کی کافی و شافی اور بہت ہی کثرت اور تنوع کے ساتھ تکمیل شیخ الاسلام کی مرتب کردہ کتب احادیث سے میسر آتی ہے۔

شیخ الاسلام کے تراجم الابواب کی خصوصیات:

ہم جب شیخ الاسلام کی کتب احادیث کے تراجم الابواب کو پڑھتے ہیں تو ان کا قائم کردہ ایک ایک باب ہمیں عصر حاضر میں بڑی مضبوطی اور دبستگی کے ساتھ علم حدیث سے جوڑتا ہے۔شریعت اسلامی کے عقائد و اعمال بڑی عمدگی اور بڑی واضحیت کے ساتھ نکھر کر ہمارے سامنے آجاتے ہیں۔ مؤرخین اور محققین کی اپنی آراءو تجربے کا علم رسالت کے سامنے ان کی استنادی حیثیت کا تعین کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کے بہت سے مذہبی مسائل شیخ الاسلام کے مجموعہ ہائے احادیث کے ذریعے حل ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

ہم صرف منہاج السوی کے چیدہ چیدہ تراجم الابواب کا یہاں جائزہ لیتے ہیں۔

دہشت گردی کے فتنے کا انسداد تراجم الابواب کے ذریعے:

اس دور میں جب عالمی دہشتگردی نے بری طرح مسلمانوں اور مسلمان ملکوں کو نقصان پہنچایا اور ساری دنیا میں مسلم و مومن کا تعارف، کردار دیکھےبغیردہشتگردی کو اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ زبردستی منسلک کیا اور ساری دنیا نے اسلام اور مسلمانوں کو حقارت اور عداوت کی نگاہ سے دیکھنا شروع کردیا۔ تو آپ نے احادیث کے تراجم الابواب کے ذریعے مضبوط استدلال اور استنباط کے ذریعے ثابت کیا کہ اسلام تو امن عالم کا داعی اور محافظ ہے۔ مسلمان و مومن تو اپنے کرادار میں سراپا خیر ہی خیر ہیں۔ شیخ الاسلام نے احادیث کے تراجم الابواب قائم کر کے اسلا م اور مسلمان کو بہت بڑا دفاع ساری دنیا میں میں کیا، انہوں نے دین کو تین چیزوں میں منحصر کیا اور اس لیے یہ باب قائم کیا۔ الایمان، والاسلام، و الاحسان پھر ایمان کو مختلف حصوں کے ذریعے واضح کیا ہے۔ فصل فی الایمان ایمان کی فصل قائم کی فصل فی حقیقہ الایمان اور آج کے معاشرے میں ایک حقیقی مومن اور اس کی پہچان کی علامات بیان کی فصل فی علامات المومن و اوصافہ ان تراجم الابواب اور احادیث الابواب نے سرے سے ایک مومن پر دہشتگردی کا تصور ختم کر کے رکھ دیا اور اسی طرح اسلام کے چہر ےکو بہت زیادہ دہشتگردی کے تصور سے داغدار کیا گیا تھا اس کا بھی دفاع کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے اسلام کی حقیقت کو واضح کیا۔ فصل فی الاسلام اور آج کے دور میں ایک مسلمان کو ن ہے؟ اور اس کی نشانیاں کیا ہیں ؟۔ فصل فی اعلامات المسلم و اوصافہ جب ایک مسلمان نے دوسرے مسلمان کے خون کو بہانے کی ذمہ داری کسی غلط فکر و سوچ کی بنا پر اپنے ذمے لے لی تو شیخ الاسلام نے ہر مسلمان کو بتایا کہ اس کے وجود پر دوسرے مسلمان کے کیا کیا حقوق ہیں، فصل فی حق المسلم علی المسلم۔

دہشتگردی کے تصور کو اسلام کی مجموعی تعلیمات کے منافی قرار دیتے ہوئے مومن اور مسلم کے لیے کہا گیا کہ وہ صرف اور صرف محسن ہوتا ہے، وہ تو اللہ کی ساری مخلو ق اور سب انسانوں کے لیے محسن ہے۔ محسن سے دہشتگردی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، اس لیے فصل قائم کی فصل فی الاحسان اور محسن کی صفات و علامات کو یوں عیاں کیا، فصل فی علامات المحسن و اوصافہ۔

تراجم الابواب کے ذریعے فتنہ خوارج:

اسی طرح اس دور کا ایک بہت بڑا مسئلہ اور بڑا فتنہ خوارج کا زیادہ ظہور تھا جنہوں نے معصوم مسلمانوں کو خودکش دھماکوں کے زریعے قتل کرنا شروع کردیا اور اپنے تصور مذہب کے مطابق خود کو جنتی ہونا ثابت کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس فکری و اعتقادی بے راہ روی کا مقابلہ کرنا اور اس فتنے کے سامنے کھڑا ہونا اتنا آسان نہ تھا، یہ کوئی اپنی جان کی امان میں راہ رخصت پر چل پڑا مگر عالم اسلام کو پھر اس فتنے سے پاک کرنے اور اس کا عملی انسداد کرنے کے لیے شیخ الاسلام محافظ اسلام بن کر امت کے سامنے آئے ایک تاریخی فتوی ’’ دہشت گردی اور فتنہ خوارج ‘‘ جاری کیا اور احادیث رسول کے ذریعے اس فتنے کی ساری حقیقت کو بے نقاب کیا او ر با ب حکم الخوارج کے تحت بے شمار احادیث کی روایت کر کے امت کے امن علم کو اس پر قائل کیا جس کے نتیجے میں فتنہ بہت جلدی اپنی موت آپ مر گیا۔

تراجم الابواب کےذریعے عقیدہ رسالت کی توضیح و توثیق:

اس طرح اس دور کا ایک بہت بڑا مسئلہ عقیدہ رسالت کو ذیلی ابحاث کے ذریعے متنازع بنانے کا تھا۔ انگریز استعمار و سامراج نے اپنے دو سالہ اقتدار کو طوالت دینے کے لیے مسلمانوں کو عملی بنیادوں پر کمزور کرنے کے لیے ان کے عقیدہ رسالت کو تشکیک کے تیروں سے چھلنی کرنا شروع کردیا۔ رسول اللہ ﷺ کی ذات کے حوالے سے طرح طرح کی ابحاث کو امت کے درمیان فروغ دیا گیا اوران متنازع ابحاث کو خوب چھیڑا گیا۔ وہ ابحاث جن پر امت نے 12 سو سال تک کبھی بھی جھگڑے و فساد اور مناظر نہ کیے تھے۔وہ انگریز کی گہر ی سازش کے تحت مسجدوں اور مدرسوں اور عالموں اور واعظوں کے اہم موضوعات دین بن گئے۔اور سارے دین کی تعلیمات کو عقیدہ رسالت کے ان ہی اعتقادی اور فکری مسائل میں بڑی تیزی سے الجھا دیا گیا۔ اور عقیدہ رسالت کی من پسند اور فرقہ وارانہ تشریحات نے امت کے درمیان فرقہ واریت اور انتشار کو خوب فروغ دیا۔ باہمی محبتوں کی جگہ نفرتوں اور کدورتوں نے لے لی۔ ہر طرف مسلمان ہی کے لیئے کفر و شرک کے فتوے لگنے لگے۔چنانچہ شیخ الاسلام نے اس فتنے کے تمام سوالات کے جوابات دیئے، اور مستند اور معتبر احادیث کے متون اور ان کے تراجم الابواب کے ذریعے امت کو راہ اعتدال اور راہ صواب دکھائی۔

شیخ الاسلام نے تراجم الابواب کے ذریعے امت پر واضح کیا ہے کہ انبیاءؑ اپنی قبور میں برزخی حیات کے مطابق زندہ ہیں۔

ان الانبیاء احیاء فی قبورھم باجسامھم.

اور باری تعالیٰ اپنے نبیوں اور رسولوں کو خاص علم عطا فرماتا ہے۔

فصل فی منزلۃ علم النبی و معرفتہ

اور اسی طرح امت اپنی قبور میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت کرےگی

’’ان الامۃ تسئل عن مکان النبی فی القبور‘‘

اور رسول اللہ ﷺ آخرت میں اپنی امت کی شفاعت کریں گے

’’فصل فی الشفاعۃ یوم القیامۃ‘‘

اور رسول اللہ ﷺ کی محبت باعث اجر عظیم ہے

’’فصل فی اجر حب النبی‘‘

اور رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس اور آپ کے آثار سے تبرک حاصل کرنا جائز ہے

’’فصل فی التبرک باالنبی وآثارہ‘‘

اور رسول اللہ ﷺ کی ذات کو اللہ کی بارگاہ میں بطور توسل پیش کیا جا سکتا ہے

’’فصل فی التوسل بالنبی‘‘

اور اس جہاں میں اور کل کائنات انسانیت میں رسول ﷺ کی مثل کوئی فرد ِ بشر نہیں ہے

’’فصل فی عدم النظیر فی الکون‘‘

اور رسول اللہ ﷺ کی ذات ہر مکتبہ فکر کے مسلمانوں اور ہر طبقہ انساں کے لیئے تعظیمِ واجبہ اور تکریم لازمہ کی حامل ہے۔ آپ کی ہر شان میں تعظیم، تکریم، اور احترام کا عمل ہی ایک مسلمان اور مؤمن کے ایمان کا حصہ ہے:

’’فصل فی تعظیم النبی‘‘

علم حدیث کے سب سے بڑے مبلغ شیخ ا لاسلام:

المختصر اگر صرف اور صرف المنہاج السوی کے تراجم الابواب کے اوصاف و خصائص پر ہی لکھتے رہیں تو صفحوں کے صفحے درکار ہیں اور ایک پوری کتاب ان تراجم الابواب کی خصوصیات پر تیار ہو سکتی ہے یقیناً زمانےکا مؤرخ شیخ الاسلام کی ان خدمات جلیلہ کا کھلے دل کے ساتھ ایک حقیقت مسلمہ کی صورت میں اعتراف کر ے گا کہ جب بر صغیر پاک وہند 20 صدی میں بڑے بڑے نامور اہل علم نے خود کو صرف اور صرف تفسیر قرآن تک وقف کر دیا اور انہوں نے اس با ب میں بڑی نادر و نایاب تفاسیر لکھیں جو زمانے سے خود منو اچکی ہیں تو اسی وقت شیخ الاسلام نے تفسیر منہاج القرآن اور عرفان القرآن کے ساتھ ساتھ بہت بڑا تفرداتی کام علم حدیث کا عوامی سطح پر اور بہت بڑے پیمانے پر ابلاغ اور فروغ کیا تھا۔ آ پ نے علم حدیث کو دورہ حدیث کے محدود دائرے سے اٹھا کر عامۃ الناس کے بھی اس علم کا بہت بڑی تعداد میں حامل بنا دیا ہے۔ شیخ الاسلام نے آج امت مسلمہ کے لیے احادیث رسول ﷺ کا ایک انسائیکلوپیڈیا تیار کردیا جو ہر طالب حدیث کو حدیث کے ہر موضوع پر بہت زیادہ اور وافر مواد فراہم کرتا ہے او ر ہر شخص براہ راست ان کی مرتب کردہ احادیث اور ان کے تراجم الابواب سے مستفید ہو سکتا ہے۔ شیخ الاسلام کی یہ ساری خدمات حدیث ان کو اس حدیث مبارکہ کا مصداق اتم عصر حاضر میں ثابت کرتی ہیں جس میں رسول ﷺ نے فرمایا:

نضراللہ امر اسمع مقالتی فوعاھا و اداھا.

(سنن ابی داؤد، کتاب العلم، باب فضل نشر العلم، رقم: 3660)

باری تعالیٰ ہمارے اس امتی کو خوش و خرم رکھے، جس نے ہماری احادیث کو سنا پھر ان کو محفوظ رکھا اور پھر ان کا آگے لوگوں میں ابلاغ کیا۔

یقیناً یہ بہت بڑا شرف ہے اور بہت بڑی عزت ہے اور بہت بڑی عظمت ہے۔ یہ اس شخصیت کو بے پایاں ملی ہے جس کو دنیا آج شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری دامت برکاتہم العالیہ کہتی ہے جو میرے اور آپ سب کے ممدوح ہیں جن کے لیے ہمارے احساسات اور جذبات بصورت سلام سید الطاف حسین گیلانی یہ ہیں۔

عصر حاضر کو مربوط قرآن کیا
سنت مصطفٰے ﷺ تیرا ملبوس ہے
وراثت میں علم و قلم لے کے آئے
رموز شریعت سے پردے اٹھائے