ملت اسلامیہ پر جب بھی کوئی کڑا وقت آیا۔ اللہ رب العزت نے دین کی تجدید و اصلاح کا انتظام فرمادیا۔ نبی آخرالزماں محمدمصطفی ﷺ کی رحلت اور خاص طور پر خلافت راشدہ کے بعد دور بنو امیہ میں اسلام کی تعلیمات کے چشمہ صافی پر دنیاداری کی کدورت کی تہہ جمنے لگی، عبادات میں ظاہر داری، نمازوں میں دکھاوا، حج میں نمودونمائش سرایت کرگئی۔ یقین کی جگہ تذبذب سادگی کی جگہ تکلف، سنت کی جگہ بدعت اور ایمان و اعتقاد کی جگہ شکوک و شبہات نے لے لی۔ دور بنو عباس میں عقل پرست معتزلہ کے عقائد، یونانی علوم، فلسفہ و حکمت کی ترویج اور خاص طور پر خلق قرآن کا مسئلہ شجر اسلام پر اکاس بیل کی طرح چھانے لگا۔ نفس پرستوں نے دربار میں جگہ مل جانے کو نعمت عظمیٰ جاننا۔ مفتی فتوی دینے سے پہلے خلفا کے اشارہ ابرو کے منتظر رہنے لگے اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ فتنہ تاتار نے عالم اسلام کی سیاسی بساط ہی الٹ دی۔ ان تمام فتنہ سامانیوں میں ایک طرف علمائے حق نے شریعت کی پاسداری کرتے ہوئے کلمہ حق بلند کیا تو دوسری طرف صوفیائے کرام کے پاکیزہ نفوس نے دین کے باطنی محاذ پر جہاد جاری رکھا۔ اہل تصوف کی جماعت نے جاہ و حشم، سرکاری مصار ف اورخلفا کی صحبت سے دور رہ کر خالص روحانی اور اخلاقی بنیادوں پر عوام الناس سے اپنا رشتہ استوار رکھا۔ وہ بھٹکے ہوئے انسانوں کو راہ حق دکھانے، دلوں کی گرہیں کھولنے،مردہ دلوں کو حرارتِ عشق سے گر جانے،عقلیت پرستوں کو حریتِ فکر، وجدان اور عشق کی دولت سے مالا مال کرنے میں مشغول ہوگئے۔ سخت مجاہدوں، نفس کشی اور صحرا نوردیوں کے باوجود ان کی دعوتِ صدا بصحرا نہیں رہی بلکہ سکون قلب کے متلاشی کشاں کشاں فقرو تصوف کے سکون بخش نخلستانوں کا رخ کرنے لگے۔
ان عظیم روحانی مشاہیر کی طرزِ حیات کا عمیق جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ مادیت کے ماحول میں بھی ان کا زہد و عبادت، نفس کشی اور خشیتِ الہٰی کی طرف واضح میلان دراصل آغوش مادر کے فیضان و برکات کا نتیجہ تھا۔ اہل صوفہ کی فکرو نظر میں یہ گہرائی و گیرائی ماؤں کے وجدان دینی سے منسلک تھی۔ وہ اپنے نخل خوش ثمر کی آبیاری عشق الہٰی اور محبت رسول ﷺ سے لبریز شیر مادر سے کرتیں، استقامت دیں کا سبق پڑھاتیں اور ان کے اعمال خیر کی کثرت کے لیے دعا گو رہتیں۔ یہ خدا رسیدہ مائیں عالم اسلام کی وہ ابتدائی تربیت گاہیں تھیں جن کے درس رشد و ہدایت کے زیر سایہ پالنے والے پاک نفوس کے انوار نے ایک عالم کو مستفید کیا۔ درج ذیل سطور میں چند ایسے ہی بزرگان دین کے احوال کا جائزہ لیا جائے گا جن میں ان کے اعلیٰ مراتب اور روحانی بالیدگی میں والدہ کے کردار پر روشنی پڑتی ہے۔
حضرت اویس قرنیؓ
سرخیل تابعین حضرت اویس بن عامر قرنیؓ یمن کی ایک بستی قرن کے باشندے تھے۔ آپ کو بارگاہ رسالت ﷺ سے غائبانہ خیرالتابعین کا لقب ملا تھا۔ حضرت علی ہجویریؒ کشف المحجوب میں آپ کو آفتاب رحمت، شمع دین و ملت اور مشائخ اہل تصوف کے لقب سے یاد فرماتے ہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ قرن کا اویس نامی ایک شخص ہے۔ جسے روز قیامت قبیلہ ربیع و مضر کی بھیڑوں کے بالوں کی تعداد کے برابر میری امت کے لوگوں کی شفاعت کا حق ہوگا۔ حضرت اویس قرنیؓ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے زمانہ نبوت میں حیات تھے اور آپ نادیدہ جمال نبوی ﷺ کے پروانوں میں سے تھے۔ آپ بعد مسافت کے باوجود آفتاب نبوت کی کرنوں سے مستفید اور قرن میں رہتے ہوئے مدینہ کی نکہت باد بہاری میں مست رہتے۔ خود حضور اکرم ﷺکا فرمان تھا۔ میں یمن کی طرف سے خوشبو (نسیم رحمت) پاتا ہوں۔
حضرت ابوہریرہؓ سے بھی ایک روایت مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں میں سے برگزیدہ بندوں کو دوست رکھتا ہے جو مخلوق کی نظروں سے پوشیدہ رہتے ہیں۔ صحابہ نے عرض کی یارسول اللہ فرمایئے وہ کون ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ اویس قرنی ہے۔
تذکرۃ الاولیاء میں شیخ فریدالدین عطارکے مطابق آپ نے رسول اکرم ﷺ کا زمانہ حیات ظاہر اور عہد مبارک پایا مگر دو چیزوں نے دیدار جمالِ محمد ﷺ سے آپ کو روکے رکھا:
- اول: غلبہ حال
- دوم: والدہ کا حق
آپ کی والدہ محترمہ ضعیف اور نابینا تھیں اور شریعت کے حکم کے مطابق آپ ان کی خدمت میں لگے رہتے تھے۔ آپ نے اپنی عمر کا زیادہ تر حصہ ان کی خدمت اور دیکھ بھال میں گزرا۔ آپ کا ذریعہ معاش شتر بانی تھا۔ آپ اونٹوں کو چرانے کے لیے جنگل میں لے جاتے۔ اس محنت طلب مزدوری سے اپنا اور اپنی بوڑھی ماں کا پیٹ پالتے۔ قرن کی بستی میں آپ جیسا مفلس اور بے نوا کوئی شخص نہ تھا۔ نہ تو آپ اپنی والدہ کو زیادہ دیر کے لیے تنہا چھوڑ سکتے تھے نہ ہی آپ کے احوال ایسے تھے کہ والدہ کے ساتھ مدینہ کا سفر کریں۔ یہی وجہ ہے کہ ماں کی خدمت گزاری کے سبب آپ کو نہ تو شرف صحابیت حاصل ہوا اور نہ ہی زیارتِ حضور پاک ﷺ سے مشرف ہوسکے۔ ان حالات میں آپ حد سے زیادہ گوشہ نشین اور شہرت و اختلاطِ عوام سے دور ہوگئے۔
مجالس المومنین کی ایک روایت کے مطابق حضرت اویس قرنیؓ نے محمد رسول اللہ ﷺ کے درِ اقدس پر حاضری دی تھی مگر زیارت سے مستفید نہ ہوسکے۔ مجالس المومنین میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت اویس قرنیؓ کی والدہ ماجدہ ایک نیک سیرت ولیہ خاتون تھیں مگر ضعیف العمر اور نابینا ہونے کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معزز تھیں۔ ایک مرتبہ آپ نے والدہ ماجدہ سے نبی کریم ﷺ کی زیارت کے لیے اجازت چاہی تو انھوں نے اجازت تو دے دی مگر ساتھ ہی فرمایا کہ محمد مصطفی اگر گھر پر تشریف فرما نہ ہوں تو وہاں نہ رکنا اور فوراً واپس چلے آنا۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت کہ جب آپ پہنچے تو حضور اکرم ﷺ کاشانہ مبارک پر تشریف فرما نہ تھے اور کسی مہم کے سلسلے میں باہر تشریف لے گئے تھے۔ حضرت اویس قرنیؓ ماں کے حکم کے مطابق زیادہ دیر رک نہیں سکتے تھے۔ آپ یمن کی جانب لوٹ گئے۔ حضور اکرم ﷺ گھر تشریف لائے تو ایک ایسا نور دیکھا جو پہلے کبھی نہ دیکھا تھا حضرت عائشہ صدیقہؓ سے دریافت فرمایا یہاں کون آیا تھا۔ انھوں نے فرمایا ایک شتر بان تھا سلام کہہ کر واپس چلا گیا۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا یہ نور تو اویس قرنیؓ کا تھا۔
مشکوٰۃ شریف میں روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت عمر فاروقؓ سے ارشاد فرمایا کہ شہر یمن کا ایک مرد مومن تم سے ملے گا جس کا نام اویس ہوگا اور سوائے اس کی والدہ کے شہر یمن میں اس کا کوئی اہل و عیال نہ ہوگا۔ نیز ان کا حلیہ بھی بتایا۔ تقریباً تمام تذکرہ نویسوں نے یہ روایت نقل کی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے فرمان کے مطابق حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت علی المرتضیٰؓ نے آپ سے ملاقات کی۔ حضرت اویس قرنیؓ ایک ویرانے میں نماز پڑھ رہے تھے۔ ان صحابہ کبار نے حضور نبی کریم ﷺ کا سلام اور امت کے لیے دعا کی وصیت پہنچائی۔ آپ نے دعا فرماتے ہوئے کہا کہ آپ نے بڑی تکلیف و زحمت فرمائی اور فرمایا کہ اب جایئے قیامت نزدیک ہے۔ وہاں ہمیں ایسا دیدار نصیب ہوگا جو کبھی منقطع نہ ہوگا۔
جب تک آپ کی والدہ حیات رہیں آپ قرن میں رہے بعد ازاں کوفہ چلے گئے۔ حضرت علیؓ کے عہد میں معرکہ صفین میں حضرت علیؓ کی جماعت کی طرف سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ حضرت اویس قرنیؓ عاشق رسول ﷺ اور مقبول بارگاہ تھے مگر ساتھ ہی ساتھ والدہ کے فرماں بردار اور خدمت گزار بیٹے بھی تھے۔ شریعت اسلام نے بڑھاپے میں والدین کے حقوق کی بجا آوری کو جو فوقیت دی ہے آپ نے اس حق کو بخیرو خوبی ادا کیا۔ والدہ کی اطاعت گزاری سے آپ نبی کریم ﷺ سے بظاہر ملاقات سے محروم رہے نہ تو آپ کو شرف صحابیت حاصل ہوا اور نہ ہی زیارتِ حضور پاکؑ سے مشرف ہوسکے مگر والدہ کی خدمت و اطاعت سے عشق کی اس معراج کو پالیا جہاں اس دنیائے آب و گل کے قوانین اور قرب و بعد کی سب منزلیں ہیچ ہیں۔ والدہ کی خدمت و دعا سے آپ کی چشم باطن ایسی وا ہوئی کہ لاکھ حجابوں میں بھی محروم تماشا نہیں رہی۔ آپ نے اصلاح نفس تزکیہ روح اور مجاہدات و ریاضات سے روحانیت میں وہ رتبہ عظیم حاصل کیا کہ آپ کی ذات تصوف کا مرجع کہلائی اور صوفیائے کرام کے بہت سے سلاسل آپ کی ذات تک منتہیٰ ہوتے ہیں۔
حضرت بایزید بسطامیؒ
حضرت بایزید بسطامیؒ (188ھ۔261ھ) ایران کے شہر بسطام میں زہد و تقویٰ میں مشہور گھرانے میں پیدا ہوئے اور پاکیزہ ماحول کی روح پرور فضاؤں میں پروان چڑھے۔ آپؒ سایہ پدری سے ولادت کے چند ماہ بعد ہی محروم ہوگئے تھے مگر حالت یتیمی میں نیک سیرت والدہ کے زیر سایہ پرورش پائی یہاں تک کہ روحانیت کی انتہائی بلندیوں کو چھوکر سلطان العارفین کہلائے۔
والدہ نے آپؒ کو علوم دینیہ کی تحصیل کے لیے شہر کی مسجد میں بھیج دیا۔ شیخ فریدالدین عطار تذکرۃ الاولیا میں تحریر کرتے ہیں کہ آپ استاد سے مدرسے میں قرآن مجید پڑھ رہے تھے کہ سورہ لقمان کی اس آیت پر پہنچے
اَنِ اشْکُرْلِیْ وَلِوَالِدَیْکَ.
(لقمان،31: 14)
حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا۔
جس میں اللہ تعالیٰ اور والدین دونوں کا شکر ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس آیت کریمہ کے معانی جان کر آپؒ اپنی والدہ کے پاس پہنچے اور کہا کہ میں دو آقاؤں کی خدمت کی ہمت نہیں رکھتا۔ ماں یا تو مجھے اللہ تعالیٰ سے مانگ لے کہ فقط تمھاری خدمت میں لگ جاؤں یا مجھے اللہ کے لیے چھوڑدو تاکہ صرف اس کی بندگی کا حق ادا کروں۔ ماں نے کہا جاؤ بیٹا میں اپنا حق چھوڑتی ہوں تم صرف اللہ کے بن کے رہو۔ ماں نے بیٹے کو دعاؤں کے سائے میں رخصت کیا کہ ماں کی تمنا تھی بیٹا اللہ کا ولی بن کر رہے۔
الغرض ماں اولاد کی پہلی درسگاہ ہے۔ وہ مائیں جو اپنی اولاد کی بہترین تعلیم و تربیت کرتی ہیں، انہیں استقامت دین کا درس دیتی ہیں۔ ان کی اخلاقی و روحانی قدروں کو یقینی بناتی ہیں۔ انہیں اہل صوفہ، بزرگ و برتر ہستیوں اور پاک نفوس کے پاک دلسوز کلام اور حکمت و اسرار و رموز کی باتیں سکھاتی ہیں۔ انہیں محبتِ رسول ﷺ اور عشق الہٰی کے لیے تیار کرتی ہیں اور خود کو ان کے سامنے اعلیٰ اخلاق و نیک اطوار کی مثال بناکر پیش کرتی ہیں۔ وہ دراصل قوم کو علم و عرفان کے مینار تراش کردیتی ہیں۔ وہ نسلوں کی شخصیت سازی کے ساتھ ساتھ قوم کی تشکیل نو کا فریضہ بھی سرانجام دیتی ہیں۔ ایسی ہی مائیں امت مسلمہ کو حضرت اویس قرنی، حضرت بایزید بسطامی، غوث اعظم عبدالقادر جیلانی اور حضرت نظام الدین اولیا جیسے سپوت عطا کرتی ہیں۔
حضرت علی بن عثمان ہجویریؒ کشف المحجوب میں بیان کرتے ہیں کہ آپؒ نے کم عمری میں ہی مجاہدے اور علم طریقت کی تحصیل کا آغاز کردیا۔ حضرت بایزید بسطامیؒ وطن سے نکل کر ملک شام میں قریہ قریہ اور شہر بہ شہر پھرتے رہے۔ سفرو سیاحت سے علم وآگہی، بصیرت اندوری اور عبرت پذیری کا درس ملا۔ صاحب تذکرۃ الاولیاء کے مطابق آپ نے تقریباً 113 اساتذہ و شیوخ سے استفادہ کیا اور حضرت امام جعفر صادق سے غائبانہ روحانی فیض حاصل کیا۔ آپ نے قرآن کو علم و عمل کے ساتھ سیکھااور خود اس کے عملی پیکر بن گئے۔ لیکن سخت مجاہدوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کا وہ قرب حاصل نہ کرسکے جس کی تمنا دل میں لے کر جنگلوں اور بیابانوں میں پھرتے رہے تھے۔
ایک روایت کے مطابق 12 سال بعد، ایک روایت کے مطابق 30سال بعد عازم بسطام ہوئے۔ گھر کے دروازے پر پہنچے تو رات آدھی ڈھل چکی تھی تہجد کا وقت تھا۔ ماں مناجات میں مشغول تھیں۔ اے رب العزت میرے پردیس گئے بیٹے کو نیک بنا اور اسے خیرو عافیت کے ساتھ رکھ۔ اے پالنے والے! بزرگوں کے دل اس سے خوش کردے اور اپنی مہربانی سے اس کے حالات خوب سے خوب تر بنادے۔
حضرت بایزیدؒ نے ماں کے یہ دعائیہ الفاظ سنے تو آبدیدہ ہوگئے۔ دروازے پر دستک دی ماں نے پوچھا کون؟ جواب دیا: تمھارا پردیسی بیٹا۔ ماں بوڑھی اور ضعیف ہوچکی تھی۔ گریہ زاری سے بینائی بھی متاثر ہوچکی تھی۔ آپ نے ماں کا چہرہ دیکھا تو ایسا نور نظر آیا جس کی تلاش میں اب تک سرگرداں رہے تھے۔ آپ ماں کی خدمت گزاری میں مشغول ہوگئے۔ آپ کا ارشاد ہے:
جس رب کو میں اپنی تمام ریاضوں، مجاہدوں، جنگلوں اور بیابانوں میں تلاش کرتا رہا وہ رب تعالیٰ تو مجھے ماں کی خدمت اور رضا جوئی میں مل گیا۔ ایک رات ماں نے پانی طلب کیا مگر صراحی میں پانی نہ تھا۔ آپ ندی سے پانی لائے اس وقت ماں دوبارہ سوچکی تھی۔ سرد اندھیری رات میں شب بھر آپ پانی کا پیالہ ہاتھ میں لے کر ماں کے سرہانے کھڑے رہے۔ اسی طرح فرماتے ہیں کہ ماں نے حکم دیا کہ دروازہ آدھا کھول دو۔ میں صبح تک جاگتا رہا کہ کہیں دروازہ آدھے کی بجائے سارا بند یا کھل نہ جائے اور ان کے حکم کی خلاف ورزی نہ ہوجائے۔ ساری رات کھلی آنکھوں میں کاٹ دی اور سحر کے وقت وہ سب کچھ پالیا جو کچھ میں مدتوں سے تلاش کرتا پھررہا تھا۔ بایزید بسطامی کا کہنا تھا کہ مجھے جو کچھ ملا وہ ماں کی خدمت اور دعا سے ملا۔
ماں کی خدمت کا اعجاز تھا کہ قیامِ بسطام کے دوران آپ کی زبان کی گرہ کھل گئی اور علم و معرفت، جذو یقین اور عشق و مستی کی باتیں آپ کی زبان پر جاری ہوگئیں۔ اس وقت ملت اسلامیہ بڑی آزمائش سے دوچار تھی۔ معتزلہ عقائد کے زیر اثر ہر طرف عقلیت، وفعیت اور رسم پرستی عام تھی۔ ایسے میں آپ نے لوگوں عشقِ الہٰی، وجدان، سوز و گداز اور حریت فکر کی راہ دکھائی۔ انسان دوستی اور خدا ترسی کا سبق دیا۔ پروفیسر خلیق احمد نظامی تحریر کرتے ہیں کہ حضرت بایزید بسطامی نے وجدان اور عشق پر زور دیا کیونکہ عقلیت اور وضعیت کے مسموم اثرات کو عشق ہی دور کرسکتا ہے۔ حضرت بایزید بسطامی کا قول ہے:
میں نے ولایت عشق سے ایک تازہ فوج تیار کی ہے کیونکہ حرم پاک کو عقل کی بغاوت کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔
آپ نے تیسری صدی ہجری میں امت کے جملہ مسائل کا حل عشق کے نسخہ شفا میں تلاش کیا۔ آپ کے بعد پانچویں صدی ہجری میں امام غزالی، ساتویں صدی ہجری میں مولانا روم اور چودھویں صدی میں علامہ محمد اقبال نے حضرت بایزید بسطامی کی دعوت عشق کے احیا و تجدید کی کوشش کی کیونکہ آپ سب اسی نتیجہ پر پہنچے کہ جذبہ عشق ہی انسانیت میں ارتقائے روحانیت اور عمل صالح کا محرک ہے۔
حضرت غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؒ
حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؒ (470ھ۔ 561ھ) کی ولادت باسعادت علاقہ گیلان کے قصبہ فیف میں ہوئی۔ آپؒ والد ماجد کی طرف سے حسنی اور والدہ ماجدہ کی طرف سے حسینی سید تھے۔ ولادت کے تھوڑے عرصے بعد آپ کے والد بزرگوار اس دار فانی سے انتقال فرماگئے۔ آپؒ کے نانا سید عبداللہ صومعی نے آپ کے سر پر دست شفقت رکھا، وہ خود اللہ کے ولی تھے۔ اس طرح آپ نے تصوف کے گہوارے میں پرورش پائی۔ آپؒ کی و الدہ ماجدہ انتہائی پاک سیرت خاتون تھیں۔ ان کا نام فاطمہ اور کنیت ام الخیر تھی۔ آپؒ کی نیک بختی تھی کہ آپ کو متقی اور پارسا والدہ کی آغوش رحمت میں پرورش پانے کا موقع ملا۔ چنانچہ کم سنی سے ہی آپ کے عادات و اطوار میں روحانیت اور طریقت کے آثار نمایاں تھے۔
ان دنوں علوم دینیہ کا مرکز بغداد تھا۔ آپ والدہ کی صالح تربیت کے سائے میں جوان ہوئے تھے۔ اٹھارہ برس کی عمر میں تکمیل علم دین کے لیے آپؒ نے والدہ سے بغداد جانے کی اجازت طلب کی۔ ماں کے لیے ہونہار اطاعت گزار فرزند کو اپنے سے جدا کرنا کوئی آسان کام نہ تھا مگر دین کی پرستار خاتون نے دین کی فلاح و بہبود کی خاطر اپنی نیک دعاؤں کے ساتھ بیٹے کو سفر کی اجازت دے دی۔ زادِ راہ کے طور پر چالیس دینار آپؒ کی عبا میں بغل کے نیچے استر میں سی دیئے اور نصیحت کی کہ کسی حال میں جھوٹ نہیں بولنا۔ ماں نے بیٹے کو رخصت کرتے ہوئے کہا بیٹا جاؤ میں نے تمھیں اپنا حق بخش دیا۔ یہ وہ چہرہ ہے جو قیامت تک مجھے نظر نہ آئے گا۔ آپؒ بغداد جانے والے قافلے کے ساتھ چل پڑے۔ راستے میں ڈاکوؤں کا مشہور واقعہ پیش آیا۔ ڈاکوؤں کے پوچھنے پر آپؒ نے بتادیا کہ میرے پاس چالیس دینار میں جو بغل کے نیچے سلے ہوئے ہیں۔ ڈاکوؤں کے سردار نے آپ سے پوچھا کہ تم نے اعتراف کیوں کیا حالانکہ تم آسانی سے دینار چھپا سکتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ میری ماں نے مجھ سے سچ بولنے کا عہد لیا تھا اور میں اس عہد کو نہیں توڑ سکتا۔ یہ سن کر قزاقوں کا سردار رو پڑا کہ تم نے اپنی ماں کا عہد نہیں توڑا اور میں سالوں سے اپنے رب کا عہد توڑ رہا ہوں۔ ڈاکوؤں نے آپ کے ہاتھ پر توبہ کرلی اور رہزنی کے پیشے کو خیر باد کہہ دیا۔ حضرت غوث اعظمؓ کی زندگی کا یہ واقعہ آپ کی متقی اور خدا رسیدہ ماں کی اعلیٰ تعلیم و تربیت کا خماز ہے۔
488ھ میں بغداد پہنچ کر آپ نے تمام مروجہ علوم و فنون کے حصول کے بعد احسان و سلوک کی تربیت حاصل کی۔ آپ کو اپنے استاد شیخ ابو سعید فخری کے مدرسے سے مسند صدارت حاسل ہوئی۔ بعد ازاں آپ نے زندگی کے 40 سال دعوتی و اصلاحی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ آپ دعوتی اجتماعات سے خطاب کرتے جن میں سامعین کی تعداد ستر ہزار تک پہنچ جاتی۔ انسائیکلوپیڈیا آف اسلام کے مطابق آپؒ کی تصنیفات کی تعداد 23 کے قریب ہے۔ احیاء دین کی تڑپ کی وجہ سے آپ کی ذات گرامی کو محی الدین کا لقب دیا جاتا ہے۔ آپ کا زمانہ بنو عباس کا دور زوال اور ابتلا کا زمانہ تھا۔ امت پر گمراہی کی شب تاریک کی چادر بسیط تھی۔ آپ نے امت کی دست گیری فرماتے ہوئے اخلاق و کردار کی درستگی اور ایمان کی پختگی کے لیے انتہائی سعی کی اور تاحیات فریضہ تبلیغ و ہدایت کا حق ادا کیا۔ حق و صداقت کے لیے کئی گئی آپ کی بلیغ کوششیں دراصل اس روحانی بالیدگی کا نتیجہ تھیں جس کی بنیادیں آپ کی متقی اور پرہیزگار ماں نے رکھی تھیں۔
حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ
برصغیر پاک و ہند میں دین اسلام کی ترویج و اشاعت اولیائے کرام کی کاوشوں کا ثمر ہے۔ سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ المعروف محبوب الہٰی (636ھ۔ 725ھ) کا شمار بھی انہی اولیائے عظام میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی زندگی کو دین اسلام کی خدمت کے لیے وقف کردیا تھا۔ آپ بدایوں میں پیدا ہوئے آپ کا تعلق سادات گھرانے سے تھا۔ والد ماجد خواجہ سید احمد بہت دیندار تھے مگر آپ بچپن میں ہی سایہ پدری سے محروم ہوگئے۔ آپ کی پرورش آپ کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی زلیخاؒ نے بڑی کسمپرسی کے عالم میں کی اور آپ کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ آپ کی شخصیت کی دینی و روحانی تعمیر میں آپ کی والدہ کا بہت ہاتھ تھا۔
آپ کے لقب ’’محبوبِ الہٰی‘‘ کی وجہ تسمیہ سیر کی کتب میں بیان کی گئی ہے کہ شدید سردیوں کی رات تھی۔ آپ کتاب پڑھنے میں مصروف تھے۔ والدہ قریب ہی آرام فرمارہی تھیں کہ انھوں نے رات کے دوسرے پہر پانی طلب کیا۔ گھر میں پانی نہ تھا۔ آپ باہر سے پانی لائے واپس آئے تو ماں دوبارہ سوچکی تھیں۔ آپ فجر تک پانی کا گلاس ہاتھ میں پکڑے سرہانے کھڑے رہے۔ فجر کے وقت والدہ اٹھیں تو بیٹے کو اس حالت میں دیکھ کر ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ایسے میں ماں نے اللہ عزوجل کے حضور دعا کی کہ اے باری تعالیٰ جس طرح میرے بیٹے نے مجھے محبوب رکھا ہے۔ اسی طرح تو بھی اس کو اپنا محبوب بنالے۔ چنانچہ والدہ کے فرمان کے مطابق آپ محبوب الہٰی کے لقب سے مشہور ہوئے۔
سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین الاولیاءؒ کی والدہ ماجدہ نے باوجود نامساعد حالات اورمعاشی دشواریوں کے آپ کو مکتب بھیجا۔ ا ٓپ نے قرآن کریم کے علاوہ تمام مروجہ درسی کتب کا مطالعہ کیا۔ سیرالاولیا کے مصنف کے مطابق آپ کتب قدوری ختم کی تو دستور کے مطابق شہر کے علما و مشائخ نے آپ کو دستار فضیلت باندھی۔ آپ کی والدہ ماجدہ نے اپنے ہاتھ سے سوت کات کر کپڑا بنوایا اور دستار تیار کی۔ تقریب کے لیے کھانا تیار کرکے بزرگوں اور علما کو دعوت دی۔
والدہ کی خواہش تھی کہ آپ علوم ظاہری و باطنی میں مکمل دسترس حاصل کریں۔ چنانچہ اسی خواہش کے پیش نظر آپ اپنی والدہ اور بہن کے ہمراہ عازمِ دہلی ہوئے۔ ماں کی دعاؤں کا ثمر تھا کہ دہلی میں اس یتیم و مفلس بچے کو دہلی کے قابل ترین علما ومشائخ سے استفادہ کرنے کا موقع ملا۔ آپؒ نے تمام علوم ظاہری فقہ، حدیث، تفسیر،کلام، معانی، منطق وحکمت، فلسفہ و ہیبت، ہندسہ و لغت، ادب و قرات اور قرآن مجید کو اس وقت کی رائج ساتوں قراتوں میں حفظ کیا۔ حضرت مولانا کمال الدین محدثؒ سے کتاب مشارق الانوار حفظ کرنے کے بعد مسند درس و تدریس حاصل کی اور والدہ کی خواہش کے مطابق عالم دین کے درجے پر پہنچے۔
والد ماجد کی وفات کے بعد آپ نے اپنی والدہ کے ہمراہ نہایت تنگدستی فقر و فاقہ میں زندگی گزاری۔ والدہ کا دستور تھا کہ جب گھر میں کھانے کو کچھ نہ ہوتا تو فرماتی آج ہم اللہ کے مہمان ہیں۔ آپ کا کہنا تھا کہ ماں کی اس بات سے مجھے ایک خاص ذوق حاصل ہوتا۔ ایک مرتبہ ایک شخص بہت سا غلہ ہمارے گھر ڈال گیا جو ختم ہونے میں نہیں آتا تھا۔
سیرالاولیا میں منقول ہے کہ آپ کی والدہ کو جب کوئی حاجت ہوتی تو رب تعالیٰ کے حضور جھولی پھیلا کر پانچ سو مرتبہ درود شریف پڑھتیں اور وہ حاجت پوری ہوجاتی۔ آپ فرماتے ہیں کہ جب والدہ کا وصال کا وقت قریب آیا تو میں نے زارو قطار روتے ہوئے پوچھا کہ ماں تم مجھے کس کے سپرد کرکے جاؤ گی والدہ نے مرنے سے پہلے میرا دایاں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرتے ہوئے فرمایا۔ اے باری تعالیٰ میں اپنے بیٹے کو تیرے سپرد کرتی ہوں۔ پھر کلمہ پڑھا اور اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کردی۔
سلطان المشائخ والدہ کی وفات کے بعد حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکرؒ کے دست حق پر بیعت ہوئے اور ان کے پاس اجودھن (پاک پتن) میں رہ کر منازل سلوک طے کیں اور خرقہ خلافت سے سرفراز ہوئے آپؒ کو دہلی کی خلافت عطا ہوئی۔ آپؒ نے دہلی غیاث پور میں رہتے ہوئے انسانیت کی خدمت کو مقصد اولین بنایا۔ آپؒ کے دروازے ہر وقت ہر کسی کے لیے کھلے رہتے۔ آپ کی خانقاہ پر ہمہ وقت ہر مذہب اور فرقے کے لوگوں کاہجوم رہتا۔ آپ دلوں کی تشنگی مٹانے اور مسائل حل کرنے میں ہر وقت مصروف رہتے۔ آپ کی خانقاہ زندگی کی خار زار میں تھک جانے والوں کے لیے سرائے کی مانند تھی۔ آج بھی سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کا مزار پاک دہلی میں مرجع گاہ خلائق و خاص و عام ہے۔
حاصل کلام
الغرض ماں اولاد کی پہلی درسگاہ ہے۔ وہ مائیں جو اپنی اولاد کی بہترین تعلیم و تربیت کرتی ہیں، انہیں استقامت دین کا درس دیتی ہیں۔ ان کی اخلاقی و روحانی قدروں کو یقینی بناتی ہیں۔ انہیں اہل صوفہ، بزرگ و برتر ہستیوں اور پاک نفوس کے پاک دلسوز کلام اور حکمت و اسرار و رموز کی باتیں سکھاتی ہیں۔ انہیں محبتِ رسول ﷺ اور عشق الہٰی کے لیے تیار کرتی ہیں اور خود کو ان کے سامنے اعلیٰ اخلاق و نیک اطوار کی مثال بناکر پیش کرتی ہیں۔ وہ دراصل قوم کو علم و عرفان کے مینار تراش کردیتی ہیں۔ وہ نسلوں کی شخصیت سازی کے ساتھ ساتھ قوم کی تشکیل نو کا فریضہ بھی سرانجام دیتی ہیں۔ ایسی ہی مائیں امت مسلمہ کو حضرت اویس قرنی، حضرت بایزید بسطامی، غوث اعظم عبدالقادر جیلانی اور حضرت نظام الدین اولیا جیسے سپوت عطا کرتی ہیں۔
آج اس قحط الرجال کے دور میں قوم کو ایسے باہمت، نیک اور صالح نوجوانوں کی ضرورت جو ظاہری اور باطنی دونوں محاذوں پر جہاد کرسکیں۔ یہ معاشرتی برائیاں، آنکھوں کو خیرہ کرنے والی مال و دولت، نمودو نمائش، جھوٹی شان و شوکت، تکلف و بناوٹ، فیشن پرستی، شہوت پرستی، دنیاداری کے جملہ عناصر اور سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے تباہ کن اثرات میں ماؤں کو چاہیے کہ وہ خود کو ان فکری اور دنیاوی لغزش سے نکال کر قرآن و نماز سے اپنا رشتہ منسلک کرلیں ان کی دعائیں عرش معلیٰ تک جائیں گی۔ وہ سراپا خیرو برکت بن جائیں گی۔ اگر وہ یقین و ایمان کی دولت سے مستفید ہوگئیں تو قوم کو ایسے نوجوان دے سکتی ہیں جو فضل و کمال کی ضیا پاشیوں سے اس سرزمین کو مہرو ماہ کی طرح درخشندہ و تابندہ بنادیں۔