خدا کو کیوں مانیں؟ اورمذہب کو کیوں اپنائیں؟ (لیکچر4، تیسرا حصہ)

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

مرتبہ: نازیہ عبدالستار

اس خطاب میں ان ہستیوں کا تذکرہ ہے جنھوں نے شہادت سے بڑھ کر مشاہدہ کیا قرآن کہتا ہےکہ انتظار کرو ہم تمھیں جلد ہی دکھادیں گے اپنی نشانیاں اس کائنات کے اندر تمھاری جانوں کے اندر بھی۔اللہ کے ایسے لوگ بھی ہوئے۔ جنھوں نے حسن مطلق کا مشاہدہ اپنے وجود کے اندر کیا۔ ہمیں بھی ان سے سیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے اندر کے گردو غبار دُھل جائیں اور ہمیں بھی اس نور سے کچھ نصیب ہوسکے۔ اس نور سے ہمارے قلب و باطن میں بھی کچھ انعکاس ہو۔ حضرت سلطان العارفین بایزید بسطامیؒ کی وفات 234 ہجری میں ہوئی تھی۔ اس ضمن میں ان کا تذکرہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔

بعض سیرت نگاروں کے نزدیک 261 ہجری میں ہوئی۔ تقربیاً 250 ہجری کے لگ بھگ ہوئی تھی۔ حضرت بایزید بسطامیؒ کے بارے میں کچھ غلط فہمیاں دور کرنا بہت ضروری ہیں۔ اجل عارفین کے امام ہیں جنھوں نے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو ایمان کی دولت سے بہرہ یاب کیا اور ولی پیدا کیے ہزارہا لوگوں کو اللہ کا قرب و معرفت دی۔ ان کو تقویٰ کے زیور سے نوازا۔ ان کے پاس حدیث بھی مرفوع آقا علیہ السلام کی سند کے ساتھ موجود ہیں۔ امام سلمی، امام ذہبی نے ذکر فرمایا کہ کچھ اقوال ان کی طرف غلط منسوب کیے گئے ہیں۔ ان کی تاویل کرنا بھی غلط ہے۔ تاویل کرنے کی سند تب ثابت ہوتی ہے جب اس قول کی سند ثابت ہو اگر سند سے کوئی قول ثابت ہی نہیں ہے تو تاویل کرکے موضوع کو کیوں مغالطہ میں ڈالیں۔ شطیات چھوٹے درجے کے لوگ ہیں۔ جو تذکرے ائمہ و محدثین نے کیے ابتدائی دو، تین سو سال تک کوئی شطیات کا ذکر نہیں ہے۔ عبدالرحمن السلمی کی مستند کتاب جس میں آپ کا تذکرہ ملتا ہے وہ ’’طبقات صوفیاء‘‘ ہے۔عبدالرحمن السلمی جو 325 میں پیدا ہوئے۔ 412 میں آپ کی وفات ہے ان کی پیدائش حضرت یزید بسطامیؒ کے وصال کے 75 سال بعد کی ہے۔ ان کے زمانے کے بالکل قریب ترین ان کی کتاب ’’طبقات‘‘ میں جس میں حضرت بایزید بسطامیؒ پر پورا باب ہے ان سے بڑھ کر مستند تذکرہ اولیاء و صوفیاء کا کسی اور کتاب میں نہیں ہے۔ امام سلمی خود نہ صرف صوفی اورولی اللہ ہیں بلکہ آپ محدثین کے امام تھے۔ امام بیہقی کے استاد ہیں امام بیہقی نے السنن الکبریٰ میں جو حدیث کی سب سے بڑی کتاب ہے ہر تیسری و چوتھی حدیث آپؒ سے روایت کی ہے۔ پائے کے لوگ باالواسطہ اور بلاواسطہ آپ کے تلامذہ ہیں۔ ان کا مرتبہ مسلم ہے۔ کوئی امام سلمی کے مقام و مرتبہ پر انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ اس کتاب میں شطیات کا کوئی ذکر نہیں کیا اس کا مطلب ہے۔ حضرت بایزید بسطامی کے 75 سال بعد یا سو سال بعد کوئی ایسے اقوال فضا میں موجود نہیں تھے۔

زمین میں ان سے متعلق شکوک و شبہات کا وجود نہیں تھا۔ ورنہ امام السلمی پہلے شخص ہوتے جو تذکرہ بایزید بسطامیؒ میں لکھتے۔ اس کے بعد امام ابو نعیم ان کی کتاب حلیہ اولیاء امام نعیم کی ولادت 330 ہجری میں ہوئی۔ امام السلمی کے 11 سال بعد پیدا ہوئے۔ ان کا زمانہ بھی حضرت بایزید السلمی کے بعد شروع ہوتا ہے۔ 80، 90 سال بعد ہوئے ہیں بہت بڑے عظیم محدث ہیں۔ انھوں نے بھی ایسی کوئی چیز ذکر نہیں کی۔ اس سے پتہ چلا کہ 150 سال تک ایسے کوئی اقوال آپ کی طرف منسوب نہیں تھے۔ اس کے بعد ایک جلیل القدر امام ابوالقاسم القشیری جو رسالہ القشیریہ کے مصنف ہیں۔یہ حضور داتا گنج بخش ہجویری کے دادا شیخ ہیں۔

امام قشیری بھی مسلم،محدث، فقہی اور عالم تھے یہ وہ ہستیاں ہیں جن پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ انھوں نے رسالہ قشیریہ میں بایزید بسطامیؒ کا ذکر کیا۔ انھوں نے بھی ایسے اقوال کا تذکرہ نہیں کیا اس سے پتہ چلا امام سلمی، امام ابو نعیم، امام قشیری کے دور میں بھی یہ اقوال نہیں پہنچے تھے۔گویا حضرت بایزید بسطامیؒ کے 2، 3 سو سالوں تک ان اقوال کا نام و نشان دنیا میں نہیں تھا۔ اگر بعد میں امام ذہبی نے ذکر کیا تو کہا کہ یہ اقوال آپ کی طرف منسوب ہوئے ہیں۔ اگر حضرت بایزید بسطامیؒ سے 450 سال بعد کوئی ایسا تذکرہ کردے اس کا مطلب ہے کہ یہ باطن ہے۔ اس میں کسی تحقیق کی کوئی ضرورت نہیں کسی تبصرہ کی بھی ضرورت نہیں نہ اس کی تاویل کرکے دفاع کی ضرورت ہے۔

امام ذہبی نے 450 سال بعد لکھا تو لکھ کر اس کے اندر خود کہا یہ چیز ثابت نہیں ہے، غیر مصدقہ ہے جو سمجھتے ہیں یہ اقوال درست ہیں تو ان کے حال سکر کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اس معاملہ پر اسی وقت بحث شروع ہوگئی تھی کہ جو جلیل القدر ہیں ان کے ہاں ان کا ذکر نہیں ملتا۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ من گھڑت ہیں۔ ایک کتاب جس کا حوالہ ہمارے واعظین جوش خطابت میں دیتے ہیں۔ تذکرہ اولیاء شیخ فریدالدین عطار کا وہ پانچ سو سال بعد کی کتاب ہے۔ بغیر سند کے 4، 5 سو سال بعد لکھی جانے والی کتاب کا کوئی قول کسی عظیم ہستی کے ساتھ منسوب کردے اس کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس کو پرکھا جاتا ہے حضرت بایزید بسطامیؒ ہوں یا حضرت جنید بغدادیؒ ہوں یا حضرت سری سقطیؒ ہوں یا حضرت معروف کرخیؒ ہوں یا ذوالنون مصری ہوں یا ابوبکر شبلی یا کوئی اس زمانے کے سلف صالحین کے اولیاء ہوں۔ ان تمام کے احوال کو پرکھا جائے۔

اگر کوئی چیز ان کے احوال سے مطابقت نہیں رکھتی رد کردیا جائے گا۔ میں نے تذکرہ اولیاء شیخ فریدالدین عطار کی 1971ء، 72ء میں پڑھی تھی۔ مجھے ایک ریسرچ کے لیے ضرورت تھی۔ شیخ فریدالدین عطار کی 1927ء کی وفات ہے۔ ان کا زمانہ بایزید بسطامیؒ سے 4 سو سال بعد کا ہے۔تین سو سال کے بعد چیزیں اور مختلف باتیں ان کے ساتھ گھڑی ہیں جو بعد ازاں کتابوں میں آئیں ۔ لہذا ان چیزوں کو رد کردیا جائے۔ جب میں نے 1971ء میں اس کتاب میں امام حسن بصریؒ کا ایک باب پڑھا تو میں نے یہ کتاب رکھ دی تھی کہ یہ کتاب غیر مصدقہ ہے۔غیر معتبر ہے یہ شیخ فریدالدین کی نہیں ہے۔ ان سے غلط طور پر منسوب کی گئی ہے۔ میں نے اپنے والد سے عرض کیا کہ یہ کیا لکھا ہوا ہے؟ انھوں نے کہا بیٹے کیا لکھا ہوا ہے؟ میں نے کہا۔ امام حسن بصری تابعیؒ ہیں۔ ان کو بچپن کے زمانے میں حضور علیہ السلام کے ساتھ ملادیا گیا ہے۔ اس کتاب میں آقا علیہ السلام سے ملاقات دکھا دی ہے۔

حضور علیہ السلام کی دعا لکھ دی ہے جب کہ حضرت حسن بصریؒ کی ولادت ہی حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دور خلاف کے آخری دو سال میں ہوئی۔ ان کی ولادت ہی آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے 20، 21 سال بعد میں ہوئی ہے۔ انھوں نے حضور علیہ السلام کی حیات میں ان کا بچپن دکھادیا ہے۔ میرے والد محترم نے فرمایا یہ کتاب ان کی طرف منسوب ہے یہ ان کی کتاب ہی نہیں ہے۔ اسی طرح یاد رہے کہ شیخ سعدی شیرازی کی طرف ایک ترجمہ قرآن منسوب ہے۔ یہ ترجمہ ان سے ثابت ہی نہیں ہے۔ خدا جانے کس نے لکھا اور ان کے ساتھ منسوب کردیا۔ یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ حضور علیہ السلام کی احادیث میں بھی موضوع چیزیں درج کردی جاتی تھیں۔یہ تواولیاء کا تذکرہ ہے۔ ایسے لوگ بھی ہوئے جنھوں نے جرت کی حدیث نبویﷺ میں حدیثیں گھڑ کر حدیث میں داخل کردیں کہا یہ حضورﷺ کی حدیث ہے محدثین کو جرح و تعدیل کے ذریعے وضاحت کرنا پڑی ہے۔ اولیاء کے تذکروں میں بھی من گھڑت چیزیں شامل ہوگئیں۔ لکھنے والے نے کچھ لکھا تھا۔ بعد میں لوگوں نے دین میں فتنہ پیدا کرنے کے لیے ان کی تعلیمات کو مسخ کرنے اور گمراہی پھیلانے کے لیے من گھڑت کہانیوں کے ساتھ نئی کتاب منسوب کردی۔ حقائق میں ردوبدل کردی جو انھوں نے کتاب لکھی وہ گھر میں رہ گئی۔ اگر کتاب چیک کرنی ہو تو سند اور سن دیکھیں وہ ہستی کب تھی کتاب لکھی کب گئی۔ درمیان کے عرصہ میں کوئی سند ہے۔8 فروری کی ہے یا 9 فروری کی یہ جانچنا چاہیے۔

حضرت بایزید بسطامیؒ سے پوچھا گیا کہ عارف کی پہچان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا جس کا جی اللہ کے ذکر سے نہ بھرے۔ اس کی یاد سے کبھی جی نہ بھرے اللہ کا حق ادا کرتے کرتے کبھی تھکے نہیں۔ اللہ کے سوا کسی اور سے موانست نہ ہو۔ کسی اور کے تعلق سے اسے وہ کیف و سرور نہ ملے جو اسے اللہ کو یاد کرکے ملے۔ اللہ کو یاد کرکے سجدہ ریزی میں جو اس کا حال ہو اسے ذکر الہٰی میں کہیں اور نہ ملے

حدیث کی کتابوں میں جرح و تعدیل کا علم ہے لیکن تذکرہ کی کتابوں میں جرح و تعدیل کا علم نہیں تھا۔ کتابیں پڑھنا عالم کا کام ہے کیونکہ وہ مزاج شناس ہوتا ہے۔ وہ ایک صفحہ پڑھ کر پہچان جاتا ہے۔ یہ کتا ب ان کی ہے یا نہیں ہے۔ جیسا کہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کی طرف بھی کتاب منسوب ہے۔ اس طرح کئی اولیاء اللہ کی طرف منسوب رسائل ہیں۔ اگر بیٹھ کر پڑھیں وہ صفحہ کی عبارت بتادے گی کہ یہ ان کے دور کا کلام ہی نہیں ہے۔ بعض کتابیں گھڑے ہوئے تصورات پر مبنی کسی شخص نے لکھیں اور ان کتابوں کو بزرگوں کے نام منسوب کردیا۔ لہذا یہ علماء کا کام ہے کہ ان میں تفریق کریں کیونکہ ان میں جرح و تعدیل کا علم نہیں ہے۔

یہ چیزیں بغیر سند کے ہوتی ہیں۔ اس اہم تفریق کے لیے مستند عالم و محدث ہوں جن پر اعتماد کریں۔ اگر مستند محدث و محقق نہیں عام آدمی سے تو اس میں بحث وتمحیث نہیں کرنی چاہیے۔ یہ اعلیٰ قدر ہستیاں ہماری بدگمانی اور تصور سے بہت بلند تر ہیں۔ ان کے ذریعے لوگوں کے اعمال و احوال درست ہوتے ہیں۔

ابو موسیٰ ادئبلی وہ بایزید بسطامیؒ کے خدام میں سے ہیں۔ بسطام کے ایک ولی اللہ بھی تھے۔ وہ بایزید بسطامیؒ کی حمایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں میں نے خواب دیکھا کہ اللہ رب العزت مجھے فرمارہے ہیں۔ تم سب مجھ سے طلب کرتے ہو۔ سوائے بایزید بسطامیؒ کے بایزید ایک واحد شخص ہے مجھ سے طلب نہیں کرتا بلکہ مجھ ہی کو طلب کرتا ہے۔ یہ فرق بایزید کے مقام اور عام صالحین کے مقام میں ہے کہ وہ مجھ سے مجھ ہی کو طلب کرتا ہے وہ میرا طالب ہے میں اس کا طالب ہوں۔

ایک معروف قول ہے جس سے آپ کا روحانی مقام و مرتبہ معلوم ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت نے روحانی طور پر آپ سے پوچھا اے بایزید! تو کیا چاہتا ہے؟عرض کیا میں چاہتا ہوں میں کچھ نہ چاہوں سوائے اس کے جوتوں چاہتا ہے۔ میرا ارادہ تیرے ارادے میں فنا ہو۔ میری چاہت تیری چاہت میں فناہوجائے۔ میری طلب تیری طلب میں فنا ہوجائے، میری زندگی کی اپنی کوئی خواہشات نہ رہیں، کوئی ترجیحات نہ رہیں۔ میری زندگی کی ساری چاہتیں تیری ایک چاہت میں فنا ہوجائیں۔ یہ قول اہل علم میں سے کوئی سمجھے کہ تصوف کی کتابوں میں آیا ہے۔ یا نہیں۔ بایزید بسطامیؒ کے درجہ کا جائزہ لیں کہ علامہ ابن تیمیہ نے اس کی تصدیق کی ہے۔بایزید بسطامی کا مقام و مرتبہ کو بیان کرتے ہوئے اپنے مجموع الفتاویٰ میں بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں۔

الشیخ نے جب کہا! اریداللہ ’’میں کچھ نہ چاہوں جو میرا اللہ چاہے‘‘ کہتے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے یہ اللہ کے ارادے میں فنا ہونا چاہتے ہیں۔ ان کی ساری محبتیں اللہ کی محبت میں فنا ہوجائے۔ ان کی رضا اللہ کی رضا میں فنا ہوجائے جب بندہ اس درجے میں چلا جاتا ہے۔ وہ بندہ اللہ کا محب ہی نہیں رہتا بلکہ اللہ کا طالب بن جاتا ہے۔ اللہ کا مطلوب بن جاتا ہے پھر اللہ اس کو چاہتا ہے۔ یہ علامہ ابن تیمیہ نے بیان کیا پھر علامہ ابن قیم نے مدارج السالکین میں اس کی تصدیق کی جو اتنے بڑے محدث اپنے منہج کے اعتبار سے اور طرح کے محدث ہیں۔

حضرت بایزید بسطامیؒ فرماتے ہیں کہ 30 سال تک میں نے مجاہدہ کیا۔ اندازہ کریں ان عظیم ہستیوں نے اللہ کو پانے کے لیے کتنے مجاہدے کیے اللہ کو منانے کے لیے؟ ہم دس راتیں پورے سال کا نکال کر آتے ہیں دنیا میں یہ بھی غنیمت ہے جبکہ اُن عظیم ہستیوں کے لیے ہر روز چند لمحے اعتکاف ہوا کرتے تھے۔ پہلے زمانوں میں جس کا اللہ کے ساتھ کوئی تعلق تھا۔ ان کا ہر رات کچھ نہ کچھ لمحہ اعتکاف ہوا کرتا تھا۔ وہ اللہ کی یاد میں لو لگا کر بیٹھتا تھا۔ اللہ کی یاد میں سر جھکاکر بیٹھتا تھا۔ا س کے عشق و محبت میں جڑا رہتا تھا۔ ہم سال میں چند دونوں کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ لہذا اپنی راتوں اور دنوں کو ایسا بنالیں کہ ایک تسلسل پیدا ہوجائے۔ ہمارا کا تعلق اللہ کے ساتھ جڑ جائے اللہ پاک اس میں خیرات کے چشمے پیدا کردے گا۔ مجاہدہ کے بغیر کچھ نہیں ملتا۔ حضرت بایزید بسطامیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے تیس سال مجاہدہ کیا میں نے کوئی چیز علم حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے سے مشکل نہیں پائی لوگ علم حاصل کرلیتے ہیں جبکہ ہم تو علم کے حصول کی بھی محنت نہیں کرتے۔

اتنی تن آسانی اس دور میں آگئی ہے۔ وہ فرماتے ہیں لوگ علم حاصل کرلیتے ہیں جبکہ علم کے حصول سے بھی مشکل اصل مقام جہاں مرد کی مردانگی کا پتہ چلتا ہے وہ یہ ہے کہ جو علم اس کے پاس ہے اس پر عمل کتنا کرتا ہے؟ جو شخص علم نافع حاصل کرلے، اللہ اور اس کے رسولﷺ، شریعت اور اوامر و نواہی کا علم حاصل کرلے۔ اس پر عمل پیرا ہوجائے علم کی مطابعت کرے جب وہ علم کی مطابعت کرے گا علم اس کے لیے نور بن جائے گا۔ اس کے من کے اندھیرے دور ہوجائیں گے۔ حضرت بایزید بسطامیؒ سے پوچھا گیا کہ عارف کی پہچان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا جس کا جی اللہ کے ذکر سے نہ بھرے۔ اس کی یاد سے کبھی جی نہ بھرے اللہ کا حق ادا کرتے کرتے کبھی تھکے نہیں۔ اللہ کے سوا کسی اور سے موانست نہ ہو۔ کسی اور کے تعلق سے اسے وہ کیف و سرور نہ ملے جو اسے اللہ کو یاد کرکے ملے۔ اللہ کو یاد کرکے سجدہ ریزی میں جو اس کا حال ہو اسے ذکر الہٰی میں کہیں اور نہ ملے۔

حضرت بایزید بسطامیؒ ایک روز کہنے لگے اے میرے مولا! میرے فرحت و سرور کا یہ عالم ہے کہ جب میں تیری بارگاہ میں کھڑا ڈر رہا ہوتا ہوں کہ کہیں تو ناراض نہ ہوجائے کہیں سزا نہ دے دے کہیں عذاب والوں میں میرا نام نہ لکھا جائے۔ تجھ سے ڈرتے ہوئے لذت و سرور کا یہ عالم ہے تو پھر اس لذت کا حال کیا ہوگا جب تو سارے خوف دور کردے گا۔ اپنی بارگاہ سے اپنی امان میں لے لے گا جب تو نور کی کرسی پر جلوہ گر ہوگا۔ جب پردے ہٹادیئے جائیں گے۔ جمعہ کا دن ہوگا اور حکم ہوگا عاشق جمع ہوجائیں آج اللہ کا دیدار ہونے والا ہے۔سارے عاشقوں کو جنت کی کرسیوں پر بٹھایا جائے گا اور حکم ہوگا فرشتو! آج پردہ اٹھا دو ساری زندگی میرے دیدار کے لیے تڑپنے والے آج مجلس میں ہیں۔ آج میرا دیدار کرلیں۔ جب دیدار ہوجائے گا تو خوف دور ہوجائے گا۔ جس وقت اللہ تعالیٰ اپنے آمنے سامنے بٹھا لے گا اس وقت لذت و سرور کا عالم کیا ہوگا؟ آج وہ دیدار پوشیدہ ہے اور ہم ڈرتے ہیں۔ اس ڈرنے کی یہ لذت ہے تیرے ملنے کی لذت کیا ہوگی؟

حضرت بایزید بسطامیؒ فرماتے ہیں جب میں نے اللہ کی معرفت کا سفر شروع کیا تو شروع میں مجھے چار چیزوں کا مغالطہ تھا۔ میں سمجھتا تھا کہ بندہ اللہ کا ذکر کرتا ہے، بندہ اللہ کی معرفت حاصل کرتا ہے، میں سمجھتا تھا کہ بندہ اللہ سے محبت کرتا ہے، بندہ اللہ کی طلب کرتا ہے۔ فرماتے ہیں: جب میں نے سفر مکمل کیا تو مجھے سمجھ آئی کہ بندہ کسی شے میں بھی پہل نہیں کرتا۔ پہلے اللہ بندہ کو طلب کرتا ہے۔ پھر بندہ اللہ کو طلب کرنے لگ جاتا ہے۔ پہلے اللہ بندے سے محبت کرتا ہے پھر بندہ اللہ سے محبت کرنے لگ جاتا ہے۔ اس طرح قدم پہلے اللہ کی طرف سے اٹھتا ہے پھر بندے کی طرف سے اٹھتا ہے۔ یہ تقدم و تاخیر کیسے ہوتا ہے؟ اللہ ہر روز اپنے مومن بندوں کے دلوں میں نگاہ ڈالتا ہے۔ جو اللہ کی محبت کا دعویٰ کرتا ہے۔ ایک دن میں 70 مرتبہ اللہ کی نگاہ ان کے دل پر پڑتی ہے۔ جب اللہ ستر مرتبہ روزانہ دیکھتا ہے کہ میرے اس بندے کے دل میں میرے سوا کسی اور کی طلب نہیں ہے۔ میرے سوا کسی اور کی محبت نہیں میرے سوا کسی اور کا شوق نہیں میرے سوا کسی اور محبت میں فنا نہیں۔ جب اللہ دیکھتا ہے کہ اس بندے کا دل میرے لیے خالی ہے، میری خلوت گاہ ہے۔ اللہ اس کے دل میں اپنی محبت ڈال دیتا ہے، اپنی طلب ڈال دیتا ہے۔ اللہ اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہے۔ خود اس کا طالب بن جاتا ہے۔

حضورﷺ نے حدیث قدسی میں فرمایا اگر بندہ ایک قدم چل کر جاتا ہے تو اللہ بندے کی طرف دوڑ کر آتا ہے۔ حضرت بایزید بسطامیؒ ایک روز کہنے لگے اے میرے مولا! میرے فرحت و سرور کا یہ عالم ہے کہ جب میں تیری بارگاہ میں کھڑا ڈر رہا ہوتا ہوں کہ کہیں تو ناراض نہ ہوجائے کہیں سزا نہ دے دے کہیں عذاب والوں میں میرا نام نہ لکھا جائے۔ تجھ سے ڈرتے ہوئے لذت و سرور کا یہ عالم ہے تو پھر اس لذت کا حال کیا ہوگا جب تو سارے خوف دور کردے گا۔ اپنی بارگاہ سے اپنی امان میں لے لے گا جب تو نور کی کرسی پر جلوہ گر ہوگا۔ جب پردے ہٹادیئے جائیں گے۔ جمعہ کا دن ہوگا اور حکم ہوگا عاشق جمع ہوجائیں آج اللہ کا دیدار ہونے والا ہے۔سارے عاشقوں کو جنت کی کرسیوں پر بٹھایا جائے گا اور حکم ہوگا فرشتو! آج پردہ اٹھا دو ساری زندگی میرے دیدار کے لیے تڑپنے والے آج مجلس میں ہیں۔ آج میرا دیدار کرلیں۔ جب دیدار ہوجائے گا تو خوف دور ہوجائے گا۔

جس وقت اللہ تعالیٰ اپنے آمنے سامنے بٹھا لے گا اس وقت لذت و سرور کا عالم کیا ہوگا؟ آج وہ دیدار پوشیدہ ہے اور ہم ڈرتے ہیں۔ اس ڈرنے کی یہ لذت ہے تیرے ملنے کی لذت کیا ہوگی؟ مگر ان لذتوں کو پانے کے لیے دنیا کی حرص و ہوس کو کھونا پڑتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں صیاد بھی راضی رہے اور باغ کے مالک کی بھی خیر ہو۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ ہم نے تو دل میں دنیا کے بت پالے ہوئے ہیں۔ ہمارا دل بت خانہ ہو دنیا کی خواہش کا، مال، دولت کا،طاقت، سلطنت و عزت کا بت جاہ و منصب کا بت۔ ہم تو ساری زندگی ’’میں‘‘ کو پالتے اور میں کی پوجا کرواتے ہیں۔ اپنی نفس کی راحت کے سوا کسی چیز کے طلب گار نہیں ہیں۔ جن کی شب و روز نفس کی پوجا میں بسر ہو جن کے دل میں سوائے مادی دنیا کے مال، دولت، عزت، طاقت، جاہ و منصب، حرص کے سواکچھ نہ ہو۔ وہ چند لمحوں کے لیے سمجھے کہ اللہ راضی ہوجائے۔ میں اللہ سے مل جاؤں۔

راستے اس طرح سے نہیں ملتے۔ اللہ کو پانے کے لیے کچھ وصل کے لیے کچھ فصل کرنا پڑتا ہے۔ کسی شے سے دل کو کاٹنا پڑتا ہے تب جاکر دل مولا کے ساتھ ملتا ہے وصلین وہ تھے جو ان سے جڑ گئے جڑے تب جب اس کے غیر سے کٹے۔ ایسی کیفیت پیدا کریں کہ دل دنیا کی حرص و ہوس سے کٹ جائے تاکہ اس کے اندر یہ صلاحیت پیدا ہو کہ بارگاہ اقدس اور مولا کی بارگاہ کے ساتھ جڑجائے۔ اللہ پاک نے ہمارے جسموں کے اندر ایک عرش رکھ دیا ہے۔ اس کو عرش بننے کی صلاحیت دی ہے۔ وہ ہمارا قلب ہے ہم نے اس کو فرش بنارکھا ہے جو مادی دنیا سے رنجیدہ ہوجاتا ہے۔ مگر اس میں صلاحیت ہے اگر اس کو ہوا و ہوس سے نکال لیں یہ قلب جو فرش ہے ایک لمحے میں عرش بن جائے گا۔ بس لاء کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ان درس سے ایمان کو مضبوط کرنا اللہ کی معرفت کوسمجھنا۔ اللہ کی چاہت کو مضبوط کرنا اللہ کی محبت کا طریق سیکھنا اس سے شوق و لقاء کی باتیں سننا اُس ذکر کے سننے کی لذت کو لینا، لذت کو من میں اپنانا پھر اس کو زندگی میں جاری کرنا اور اس پر عمل کرنا پھر اسے زندگی کے معاملات میں طور طریقہ میں قائم کرنا تاکہ کوئی لمحہ و لحظہ اللہ کی رضا کے خلاف نہ گزرے، اللہ کی امرو نہی کے خلاف نہ گزرے جوں جوں اس اس راستے کی طرف چلتے چلے جاتے ہیں تو مولا انسان کو قریب کرتا ہے۔ اس فصل کے نتیجے میں وصل سے نوازتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ پاک ہمارے حال پر کرم کرے۔ آمین