تنگ دستی سے نکلنے کا حل اور طریقہ

سعدیہ کریم

تنگ دستی کیا ہے؟

تنگ دستی سے مراد ہے مفلسی، محتاجی، غریبی، افلاس، ہلاکت، تنگ دستی فارسی زبان کالفظ ہے۔ اکثر اوقات تنگ دستی کو فقر کے معنوں میں بھی لیا جاتا ہے۔ تنگدستی انسان کا ذہنی اطمینان اور سکون ختم کردیتی ہے جبکہ فقر انسان خود اختیار کرتا ہے۔ فقر اختیار کرنے والا بہت پرسکون رہتا ہے وہ ہر بات میں اللہ پر بھروسہ کرتا ہے۔ جیسے ہمارے نبی کریم ﷺ نے فقر اختیار کیا۔ اولیاء اللہ نے فقر اختیارکیا۔

اَلْقَابِضُ اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ہے۔ اس کا مطلب ہے تنگدستی دینے والا، قبض کرنے والا۔

یعنی وہ ذات جو موت کےو قت جسموں سے روحوں کو قبض کرنے والی ہے۔ امام احمد بن حنبل روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

’’بے شک اللہ تعالیٰ خالق بھی ہیں، القابض بھی ہیں اور الباسط بھی ہیں۔‘‘

ایک اور روایت میں ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ مخلوق کی موت کے وقت ان کی ارواح قبض کرلیتا ہے اور مخلوق میں سے جس کا رزق تنگ کرنا چاہے تنگ کردیتا ہے اور مشرکین و کفار کے دلوں کو بند کردیتا ہے اور قیامت کے دن زمین و آسمان کو لپیٹ دے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے جس بندے کا رزق چاہے کشادہ کردے اور جس بندے کے دل پر چاہے اپنی رحمت کو وسیع کردے اور جسے چاہے علمی وسعت کردے۔‘‘

ان روایات سے پتہ چلتا ہے کہ تنگدستی اور غربت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے اور یہ اللہ ہی کی شان ہے کہ وہ کچھ کو تنگدست کردیتا ہے اور کچھ کو غنی کردیتا ہے۔

تنگ دستی کے عوامل

تنگ دستی کے بہت سے عوامل ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کی تقدیر میں وسعت یا تنگی کا فیصلہ کردیا گیا ہے۔ اس کے باوجود بہت سے خارجی اور داخلی عوامل انسان کی تنگدستی کا باعث بنتے ہیں۔ خارجی عوامل میں حاسدین، معاندین اور دشمنوں کے عزائم و جارحانہ اقدامات وغیرہ شامل ہوتے ہیں جبکہ داخلی عوامل میں انسان کے اپنے اعمال و افعال تنگدستی کا باعث بنتے ہیں۔ بسا اوقات انسان اپنی لامحدود خواہشات کی تکمیل کی وجہ سے تنگدستی اور مفلسی کا شکار ہوجاتا ہے۔

ملک و قومی سطح پر بھی تنگدستی کے یہی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ آپس کی ناچاقیوں اور ریشہ دوانیوں کی وجہ سے ملکی سطح پر تنگ دستی اور مفلسی غالب آجاتی ہے۔ دشمنوں اور حاسدوں کو موقع ملتا ہے اور وہ قومی انتشار کا فائدہ اٹھاکر تمام مال و اسباب پر قبضہ کرلیتے ہیں۔ اگر امت مسلمہ کے حوالے سے دیکھا جائے تو مسلمانوں کی تفرقہ بازی، فرقہ واریت اوردین سے دوری نے مسلم ممالک کو مفلسی اختیار کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ ان تمام عوامل کا سدباب کرنا ضروری ہے اور اس کے لیے اخوت اسلامی اور اتحاد ملی کی سخت ضرورت ہے۔ انسان کی انفرادی اور ذاتی زندگی کے لیے دین اسلام میں جو احکامات دیئے گئے ہیں۔ وہ ہر مشکل اور پریشانی سے نکالنے کے لیے ہیں لیکن مسلمان جب ان احکامات کو اپنی زندگی میں نافذ نہیں کرتا تو وہ ہر سطح پر تنگدستی اور مفلسی کا شکار ہوجاتا ہے۔ تنگدستی و مفلسی لانے والے چند اسباب درج ذیل ہیں:

تنگ دستی کے اسباب

محتاجی اور تنگ دستی صرف مال کی کمی کا نام نہیں ہے بلکہ مال کی کثرت کے باوجود بخل اختیار کرنا اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق عمل نہ کرنا بھی تنگدستی لانے کا سبب بنتا ہے۔ تنگدستی کے اسباب درج ذیل ہیں:

1۔ بغیر ہاتھ دھوئے کھانا کھانا

2۔ ننگے سر کھانا کھانا

3۔ اندھیرے میں کھانا کھانا

4۔ دروازے پر بیٹھ کر کھانا کھانا

5۔ میت کے قریب بیٹھ کر کھانا کھانا

6۔ حالتِ جنابت میں کھانا

7۔ چارپائی پر بغیر دستر خوان بچھائے کھانا

8۔ نکلے ہوئے کھانے میں دیر کرنا

9۔ دانتوں سے روٹی کترنا

10۔ چینی یا مٹی کے ٹوٹے ہوئے برتنوں میں کھانا یا پانی پینا

11۔ کھائے ہوئے برتن صاف نہ کرنا

12۔ جس برتن میں کھانا کھایا ہوا اسی میں ہاتھ دھونا

13۔ خلال کرتے وقت جو ریشے و ذرات وغیرہ دانتوں سے نکلیں انھیں دوبارہ منہ میں ڈال لینا

14۔ کھانے پینے کے برتن کھلے چھوڑ دینا

15۔ روٹی کی بے ادبی کرنا ہوا میں بکھرے یا پاؤں کے نیچے آئے

16۔ زیادہ سونا بھی تنگدستی اور غربت لانے کا باعث ہوتا ہے

17۔ ننگے ہوکر سونا

18۔ کھلے راستوں پر بے حیائی سے بول و بزار کرنا

19۔ کوڑا کرکٹ گھر سے نہ نکالنا

20۔ بڑوں (بزرگوں، والدین، اساتذہ و مشائخ) سے بے ادبی سے پیش آنا

21۔ ہاتھوں کو گارے یا مٹی سے دھونا

22۔ چہرہ لباس سے خشک کرنا

23۔ گھر میں مکڑی کے جالے لگے رہنے دینا

24۔ نماز میں سستی کرنا

26۔ نماز فجر قصداً چھوڑ دینا

25۔ اولاد کو بددعائیں دینا

28۔ جھوٹ کثرت سے بولنا

26۔ ٹوٹی ہوئی کنگھی استعمال کرنا

27۔ ماں باپ کے لیے دعائے خیر نہ کرنا

28۔ نیک اعمال میں ٹال مٹول کرنا

ان تمام افعال سے حتی المقدور بچنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ ہمارے لاپرواہی سے کیے ہوئے چھوٹے چھوٹے کام بھی تنگدستی اور غربت لانے کا باعث ہوتے ہیں۔

تنگدستی سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ ان تمام اسباب کی بے برکتی اور مکروہیت کا احساس کیا جائے اور کثرت گناہ سے بچنے کی کوشش کی جائے کیونکہ اس کی وجہ سے رزق کی خیرو برکت ختم ہوجاتی ہے اور آفات و بلیات انسان کو گھیر لیتی ہیں۔

اگر کوئی انسان یہ چاہے کہ وہ ہمیشہ خوش و خرم زندگی گزارے اس کے تمام معاملات احسن طریقے سے انجام پائیں وہ ذہنی طو ر پر مطمئن اور دلی طور پر پرسکون رہے تو اسے ان تمام احسن اعمال کو زندگی میں شامل کرنا ہوگا خود اعتمادی کے ساتھ تمام مسائل کی وجوہات جان کر ان کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ اپنے اخلاق و کردار کو اعلیٰ اوصاف و صفات سے مزین کرنا ہوگا۔ اپنے حقوق و فرائض سے آگاہ ہونا ہوگا اور اپنے فرائض کو احسن انداز سے ادا کرنے کا جذبہ اپنے اندر پیدا کرنا ہوگا تاکہ معاشرتی اور معاشی طور پر اس کے انفرادی اور اجتماعی مسائل ختم ہوسکیں۔

تنگدستی سے نکلنے کا نبوی منہج و اسلوب

زندگی میں خیرو برکت اور رزق حلال وسیع کے لیے کوشش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کو وہ تمام طریقے سکھائے ہیں جو خیرو برکت کا باعث ہوتے ہیں اور تنگدستی و غربت سے بچانے والے ہیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’کھانے سے پہلے اور اس کے بعد وضو کرنا محتاجی کو دور کرتا ہے۔‘‘

(المعجم الاوسط، حدیث7166)

کھانا کھانے سے پہلے اور بعد میں دونوں ہاتھوں کو پہنچوں تک دھونا سنت نبوی ہے۔ امام غزالی فرماتے ہیں کہ روٹی کے ٹکڑوں اور ذرات کو چن لیں کیونکہ حدیث پاک میں ہے کہ جو شخص ایسا کرتا ہے اس کی تنگدستی دور ہوجاتی ہے، عیش و عشرت میں وسعت ہوتی ہے اور اس کے بچے (اولاد) صحیح و سلامت اور بے عیب ہوں گے۔

(کیمیائے سعادت، آداب الطعام)

اسی طرح مل کر کھانا کھانے سے برکت حاصل ہوتی ہے۔ حدیث پاک میں ہے حضرت عمر فاروقؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اکٹھے کھانا کھاؤ، الگ الگ نہ کھاؤ کیونکہ برکت جماعت کے ساتھ ہے۔

عبادات سے تنگدستی کا حل اور علاج

اولیاء اللہ فرماتے ہیں کہ دو چیزیں کبھی جمع نہیں ہوسکتیں۔ ایک مفلسی اور دوسرا چاشت کی نماز۔ یعنی جو کوئی چاشت کی نماز پابندی سے ادا کرے گا وہ کبھی تنگدست اور مفلس نہیں ہوگا۔

حضرت شفیق بلخیؒ فرماتے ہیں کہ ہم نے پانچ چیزوں کی خواہش کی جن میں سے ایک روزی میں برکت کی طلب تھی جو ہمیں نماز چاشت کی ادائیگی سے حاصل ہوئی یعنی اس کے ذریعے ہمیں روزی میں برکت نصیب ہوئی اور تنگدستی ختم ہوگئی۔

فتوح الاوراد میں منقول ہے کہ سلف صالحین سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ جو کوئی ایام بیض کے روزے رکھتا ہے اس کی تنگدستی دور ہوجاتی ہے اور اسے رزق میں برکت عطا کی جاتی ہے۔ دنیاوی آفتوں اور بلاؤں سے اس کی حفاظت کی جاتی ہے اور دونوں جہاں کی برکتیں عطا ہوتی ہیں۔

ہر روز بعد از نماز مغرب سورۃ الواقعہ کی تلاوت کرنا بھی غربت اور تنگدستی سے نجات دلاتا ہے۔

دین سیکھنے اور سکھانے کے عمل میں مصروف رہنا بھی غربت اور تنگدستی سے نجات دلاتا ہے۔

نماز تہجد پڑھتے رہنے سے بھی تنگدستی دور ہوجاتی ہے۔

ہر وقت استغفار کی کثرت کرنا اور اپنے گناہوں پر شرمندگی اور ندامت سے بھی غربت اور تنگدستی دور ہوجاتی ہے۔

ہر نماز کے بعد تسبیح فاطمہ پڑھنا غربت اور تنگدستی سے نجات دلاتا ہے۔ والدین کی خدمت کرنا اور تمام بزرگوں اور بچوں کے ساتھ احسن سلوک کرنا بھی خیرو برکت کا باعث ہوتا ہے۔

عشاء کے بعد سورہ ملک کی تلاوت کا معمول اور بروز جمعہ سورہ کہف کی تلاوت کا معمول بھی غربت و تنگدستی کو دور کرتا ہے۔

روایات میں آتا ہے کہ دس محرم الحرام کو مسکینوں، محتاجوں اور غریبوں کو کھانا کھلانے سے پورا سال رزق میں برکت رہتی ہے۔

مفلسی اور تنگدستی سے نکلنے کے لے درود پاک کی کثرت کرنا چاہیے۔

گھر میں داخل ہوتے وقت اہل خانہ کو سلام کرنے سے بھی تنگدستی اور مفلسی دور ہوجاتی ہے۔

حضرت سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ:

ایک شخص حضور اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور اپنی مفلسی کی شکایت کی آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم گھر میں داخل ہوتو گھروالوں کو سلام کیا کرو اور اگر گھر میں کوئی موجود نہ ہو تو مجھ پر سلام بھیجو اور ایک مرتبہ سورۃ الاخلاص پڑھا کرو۔ اس شخص نے ایسے ہی کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے غنی کردیا۔

یہ وہ تمام دینی اور اسلامی طریقے ہیں جو انسان کی تنگ دستی، غربت افلاس اور محتاجی کو دور کردیئے ہیں اور ان تمام طریقوں کے مطابق زندگی گزارنے والے لوگ ہی کامیاب ہوتے ہیں۔

حاصل کلام

تنگ دستی سے نکلنے کے لیے انسان کو خود پر اعتماد کرنا چاہیے۔ خود اعتمادی انسان کی وہ خوبی ہے جو اسے بہت سی کامیابیاں دلاتی ہے۔ خود اعتمادی کی بنیاد اللہ تعالیٰ پر توکل اور بھروسہ کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انسان کو اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے ادا کرنا چاہیے۔ زندگی کے تمام تر معاملات و اعمال و افعال دین اسلام کے بتائے گئے طریقوں کے مطابق انجام دینے چاہیے۔ اپنی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لیے خود وسائل پیدا کرنا چاہیے ان وسائل کو خوداعتمادی کے ساتھ بروئے کار لانا چاہیے۔ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے۔ بطور مسلمان اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے احکامات کو اپنی عملی زندگی میں نافذ کرنا ہی اصل کامیابی ہے اور تنگدستی سے نکلنے کا واحد حل اور علاج ہے۔ ملکی و قومی اور انفرادی سطح پر اتحاد اور مشاورت وقت کی اہم ضرورت ہے۔