اسلامی نظام سیاست میں حاکمیتِ اعلیٰ کا حقدار اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ حکمران روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کا خلیفہ (نائب) قرار پائے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور وہی ہے جس نے تم کو زمین میں نائب بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض پر درجات میں بلند کیا تاکہ وہ ان (چیزوں) میں تمہیں آزمائے جو اس نے تمہیں (امانتاً) عطا کر رکھی ہیں۔‘‘
الأنعام، 6: 165)
سیاسی اعتبار سے دیکھا جائے تو اسلام کے سیاسی نظام کی بنیاد ہی وجودِ باری تعالیٰ ہے۔ یہی وہ اساسی دستور ہے جِس پر اسلامی ریاست قائم ہوتی ہے۔ وجودِ الہٰی پر ایمان اور مذہب کے اصل و حقیقی تصورات میں غلط نظریات کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف ممالک، شہروں اور مقامات پر انبیاء کرام تشریف لاتے رہے۔
قرآن میں ذات حق کی جانب سے بنی نوعِ انسان کو انبیاء و رسل علیہم السلام کے ذریعے ہدایت کے بارے ارشاد فرمایا :
’’پھر اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت پہنچے تو جو بھی میری ہدایت کی پیروی کرے گا، نہ اُن پر کوئی خوف (طاری) ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔‘‘ (البقرة، 2: 38)
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان صراط مستقیم سے بھٹکتا رہا مگر اُس کی اصلاح اور ہدایت کے لیے ذاتِ باری تعالیٰ کی جانب سے انبیاء کرام کے مبعوث کیے جانے کا سلسلہ جاری رہا۔ چنانچہ سارے انبیاء و رسل دینِ اسلام کا پرچار کرتے رہے۔
یاد رکھیں! ’’سیاست‘‘ کی اَساس انسانوں کے اجتماعی نظم و نسق کی بہتری اور کمزوروں کی فلاح وبہبود ہے۔ انسانی زندگی کی بنیاد بھی اسی تصور پر ہے۔ اسلامی نظامِ سیاست و خلافت کے نظریے کا حاصل و مستفاد یہ ہے کہ مسلمان حکمران اور سیاست میں شامل دیگر کار پردازان خود کو اللہ تبارک و تعالیٰ کا نائب اور اس کے نتیجے میں خود کو اس کے سامنے جواب دہ سمجھیں۔ لہذا حکمران کا فریضہ ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں قوانین الٰہیہ کا نفاذ یقینی بنائے۔اللہ تعالیٰ کے احکامات اور عدل و احسان کو نافذ کرے تاکہ لوگ عدل کی برکت سے ظلم وجور سے نجات پائیں۔ریاست اسلامی کے سربراہ کے بارے میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
إِنَّ السُّلْطَانَ ظِلُّ اللهِ فِي الْأَرْضِ.
(بيهقي، شعب الإىمان، 6: 16، الرقم: 7369)
’’حکمران روئے زمین میں اللہ کا سایہ ہوتا ہے۔‘‘
لفظ ظل اللہ سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ حکمران کا سایہ عام سایوں کی طرح نہیں ہے بلکہ وہ اللہ کے تعلق سے اپنی الگ شان اور خصوصیت و برتری رکھتا ہے۔ موجودہ دور میں اسلام کے سیاسی نظام کی صحيح spirit اور عادلانہ توازن کی صحيح ترین بنیاد ہمیں شیخ الاسلام کے اعتکاف 2024ء کے خطابات سے ملتی ہے۔ خدا کے وجود کو جانے بغیر اسلامی سیاست کے اصولوں کو سمجھنا مشکل ہے۔ اگر وجودِ باری تعالیٰ پر ایمان اور مرنے کے بعد جی اٹھنے اور جزا و سزا کا نظریہ پیش نظر نہ ہو، تو اس دنیا میں عدل و انصاف سے محروم رہنے والا نیکی کے بجائے بدی اور برائی کو اختیار کرنے پر ترجیح دے گا۔ یوں سارا معاشرہ جوابدہی کے تصور کے بغیر حیوانی معاشرہ میں تبدیل ہو جائے گا۔ آئین پاکستان میں حلف نامہ کا متن واضح طور پر خدا اور مذہب کی بالادستی کو قبول کرتا ہے۔ اس کے ابتدائی کلمات اس طرح ہیں:
’’میں صدق دل سے حلف اٹھاتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں اور وحدت و توحید قادر مطلق اللہ تبارک وتعالی، کتب الہیہ، جن میں قرآن خاتم الکتب ہے، نبوت بحیثیت خاتم النبیین جن کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا، روز قیامت اور قرآن پاک وسنت کے جملہ مقتضیات و تعلیمات پر ایمان رکھتا ہوں‘‘۔ (آئین پاکستان، آرٹیکل، 91 (5))
اسلامی تعلیمات کے مطابق خدا ئے واحد لاشریک ہی اس دنیا وما فیہا کا خالق اور مالک ہے۔حکومت و فرمانروائی اسی کی ہے۔ وہی حکم دینے اور منع کرنے کا حق رکھتا ہے۔ اور بندگی و اطاعت بھی اسی کیلئے ہے۔ موجودہ دور میں ہمارے سیاسی نظام میں الحاد کی ایک صورت خداتعالیٰ کے وجود کو صحيح طور پر تسلیم نہ کرنا ہے یا پھر نظر انداز کردینا ہے۔
دنیا میں مسلم اور غیر مسلم حکمران کا فرق یہ ہے کہ مسلمان نظریاتی اور عقیدہ توحید ورسالت کو ماننے والا ہوتا ہے۔ حضور علیہ السلام داعی ہیں۔ آپ ﷺ کی امت نظریاتی امت ہے۔ کسی سیاست دان کا حکم الہٰی اور قرآنی نظریہ و فکر کے خلاف اپنی پارٹی اور لیڈر کے احکامات کو اس قدر ترجیح دینا جو احکام قرآنی سے متصادم و متضاد ہوں سراسر الحاد ہے۔
البتہ ایسی دینی و مذہبی قیادت کا مل جانا جس کا کوئی حکم اللہ اور رسول ﷺ کے خلاف نہ ہو یہ الگ بات ہے ایسی صور ت میں سمع و طاعت کا حکم لاگو ہوگا۔ بہت سے سیاسی کارکن اپنے لیڈر کے بارے اس قدر متشدد ہوتے ہیں کہ وہ ان کے خلاف کوئی حق بات بھی سننے کو تیار نہیں ہوتے۔ وہ اللہ سے زیادہ اپنے امیر سے ڈرتے ہیں۔ اگر کوئی سیاسی کارکن اللہ کے حکم پر لیڈر کے حکم کو ترجیح دے تو یہ الحاد ہے۔ ایسے لوگوں سے کنارہ کشی کرنی لازم ہے۔
حضور شیخ الاسلام نے ’’خدا کو کیوں مانیں‘‘ کے موضوع پر اپنے خطابات میں جہاں بہت سے فتنوں کا رد کیا ہے وہیں اسلام سے قبل مذہب اور ریاست کے گٹھ جوڑ کے بارے میں حقائق کو بیان کرکے سیاسی الحاد کے بارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کے لیے بھی اہم رہنما اصول عطا کیے ہیں:
پہلا رہنما اصول: امانت داری کا احساس
ایک بڑا رہنما اصول یہ کہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے۔ میں جہاں بھی ہوں جوبھی کر رہا ہوں وہ سب ایک Devine Channel میں ریکارڈ ہو رہا ہے۔ یہ اصول حکمرانوں کے اندر امانت داری کا احساس جگا دیتا ہے وہ بطور خلیفہ کبھی نا انصافی اور ظلم نہیں کرتا اور نہ ہی وہ اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتا ہے۔ اُسے معلوم ہے کہ میں اگر یہاں نا انصافی کروں تو میرا مالک مجھے دیکھ رہا ہے وہ روزِ قیامت مجھ سے حساب لے گا۔
ربِ کریم میرے ہر ظلم کا حساب لے گا مجھے اسکے حضور حاضر ہونا ہے۔ لہٰذا اللہ اور اسکے رسول ﷺ کے ماننے والے حکمران منصف مزاج بن جاتے ہیں وہ کبھی ناانصافیاں نہیں کرتےکیونکہ عدل اسلامی نظام کی روح ہے۔ بلاشبہ اجتماعی زندگی کے تمام اصولوں کی بنیاد عدل اجتماعی پر منحصر ہے۔
حکمران اور عوام کے درمیان عادلانہ نظام صِرف اس صورت میں قائم ہوسکتا ہے۔ جب سیاسی حکمران خود کو اللہ تعالیٰ کا نائب اور خلیفہ سمجھے اور اللہ کے وجود کو مان کر اسکی حاکمیت کو تسلیم کرے اور اسکی قائم کردہ حدود وقیود میں رہیں۔یہ تبھی ممکن ہے جب کہ حکمران صرف حکم الہی کی پابندی کریں اور اپنے ذاتی مفادات سے بے نیاز ہو جائیں:
مذہبی رہنما اور چرچ کے سربراہان دنیا کے سامنے خود کو خدا کے نمائندگان کے طور پر پیش کرتے تھے کہ وہ جو لفظ بول دیں وہ Jesus Christ حضرت مسیح یعنی خدا کا حکم ہے۔(اقتباس از خطاب شیخ الاسلام، خطاب نمبر: Ca-17، 6 اپریل 2024ء)
دورِ قدیم میں بھی مذہب انفرادی سے زیادہ معاشرتی حوالے سے اہم تھا اس لئے حکمران اپنے قانون کے احترام کو معاشرے میں قائم کرنے کے لیے خدا کی طرف منسوب کرتے تھے وہ بخوبی جانتے تھے کہ رعایا میرے حکم پر نہیں، بلکہ خدا کے حکم پر عمل کرنا چاہتی ہے لہٰذا یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ حاکم اپنے حکم کو خدا کے حکم کی طرف منسوب کر دیتے تاکہ رعایا بلا چون وچرا ان کی تابع ہوجائے۔ حکمران یہ سب کچھ استحصال کرنے کے لیے ہی کرتے تھے۔ چونکہ معاشرہ خدا کا فرماں بردار تھا لہٰذا ہر حکمران اپنے بنائے ہوئے قانون کو لاگو کرنے کے لیے اعلان کرتا کہ یہ ضابطۂ اخلاق اُس نے خدا سے لیا ہے، لہٰذا اب اِس قانون کی خلاف ورزی احکامِ الٰہی کی خلاف ورزی تصور ہوگی۔ پھر یوں اس نافذ العمل قانون کو لوگوں کے مذہب کا حصہ بنا دیتے۔
“Lawgivers received their codes from a god; thus a breach of the law became an impiety.” (Bertrand Russel, A History of Western Philosophy, P. 17)
درحقیقت یہ سب عوام الناس کے استحصال کا ایک ذریعہ و قاعدہ تھا جسے حاکم مذہب کی آڑ میں استعمال میں لاتے اور یہ استحصال تب سے اسی طرح چلا آتا رہا ہے اور حاکمین وقت اپنے اپنے مفادات کے حصول کی خاطر ایسے حربے و طریقے استعمال کرتے رہے۔ کوئی قانون کے نام پر استحصال کرتا تو کوئی جمہوریت کے نام پر، کوئی انسانی حقوق کے نام پر کرتا ہے تو کوئی ریاستی اقتدارِ اعلیٰ کے نام پر، کوئی معاشی خوش حالی کے نام پر کرتا ہے کوئی مفروضوں کی بنا پر۔شیخ الاسلام نے کہا:
’’یاد رکھیں! رہ و رسمِ وفا سے سیاست کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔سیاست کسی کی وفادار نہیں ہوتی! نہ آج ہے نہ فرعون کے زمانے میں تھی نہ نمرود کے زمانے میں۔ سیاست صرف اورصرف اپنے مفادات کے گرد گھوتی ہے۔ ہر سیاستدان ہوا کا رُخ دیکھ کر اپنی سیاسی مفاد کے مطابق پینترا بدلتا ہے۔ اگر کسی کی سیاست کا مفاد رحمان کا نام لینے سے پورا ہو تو وہ رحمان رحمان جپتا ہے۔ اگر کسی کی سیاست کا مفاد شیطان کے ساتھ alliance میں پورا ہورہا ہو تو وہ شیطان کو سر پر بٹھا نا بھی معیوب نہیں گردانتا۔ سیاست نے اپنے مفاد کوبہر حال پورا کرنا ہوتاہے۔ اس کے لیے سیاست کا بڑا دائرہ شیطان سے لے کر رحمان تک کھلا ہے جس کو چاہے ساتھ ملائے۔‘‘(اقتباس از خطاب شیخ الاسلام، خطاب نمبر: Ca-17، 6 اپریل 2024ء)
دنیا میں ایسے ایسے حکمران پیدا ہوئے جنہوں نے ظلم وجبر اور قتل وغارت گری کا بازار گرم کیا، لیکن آج ان کا نام ونشان بھی نہیں ہے۔ یہ شرم ناک مظاہرے دورِ حاضر کے اکثر حکمرانوں کی عملی سیاست میں بھی نظر آتے ہیں۔
دوسرا رہنما اصول:علم تحقیق کا فروغ
ہمارے سیاست دانوں کے لئے ان خطابات میں دوسرا اہم رہنما اصول یہ ہے کہ وہ علم و تحقیق کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیں اسی میں ان کی بقا ہے ورنہ اندھیرا ہی اندھیرا ہے جیسا کہ یورپ کے dark ages پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے بیان کیا:
’’یورپ میں طویل زمانے تک ریاست کا یعنی سٹیٹ کا اور چرچ کا گٹھ جوڑ تھا حالانکہ سٹیٹ چرچ کو اتنا مانتی نہیں تھی مگر چونکہ سٹیٹ کے جوسربراہ اور بادشاہ ہوتے تھے ان کو اپنی ریاست کو محفوظ کرنے اور ریاست کو فتوحات کے ذریعے وسعت دینے کے لئے کلیساسے طاقت اور مدد کی ضرورت ہوتی تھی اس لئے صدیوں تک یہ گٹھ جوڑ برقرار رہا۔ ‘‘(اقتباس از خطاب شیخ الاسلام، خطاب نمبر: Ca-17، 6 اپریل 2024ء)
شیخ الاسلام نے کہا:
’’ یہ مسلمہ حقیقت ہر طالب علم جانتا ہے کہ مغرب اور یورپ میں ان ہزار سال کو dark ages کہتے ہیں۔یعنی یورپ میں سائنس کا سفر ایک ہزار سال رکا رہا، سائنس اور تحقیقات کو آگے نہیں بڑھنے دیا گیا۔ اگر تحقیق کو آگے بڑھایا جاتا تو علم و شعور میں ہی اضافہ ہوتا اور جب علم و شعور آتا تو جو ماحول ان طبقات نے اپنے مفادات کے لیے اور اپنے خدائی نمائندگان کی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے بنا رکھا تھا اس کو چیلنج threat (خطرہ) ہوتا لہذا وہ علم و شعور کو دباتے رہے۔ چونکہ سٹیٹ کو طاقت کی ضرورت تھی اور یہ طاقت سائنسدان نہیں بلکہ کلیسا دیتا تھا اس لئے اس زمانے میں کلیسا اور سٹیٹ کا گٹھ جوڑ تھا۔ ‘‘(اقتباس از خطاب شیخ الاسلام، خطاب نمبر: Ca-17، 6 اپریل 2024ء)
انہوں نے مزید کہا:
’’موجودہ دور میں یورپ اور Western World ترقی کرکے غالب آگئی ہے اور مسلم دنیا سیاسی اور ریاستی طور پہ شکست کھا کر کمزور ہو گئی ہے۔ دنیا کی ریت ہے کہ جب کوئی سلطنت کمزور ہوجاتی ہے تو ان کا کلچر civilization، نالج سب کچھ زوال پذیر ہو جاتا ہے۔ یورپ کے ہزار سال اس لئے dark ages ہیں کہ ان میں حکمرانوں نے مذہب کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے سائنسی علوم کو منجمد کردیا تھا۔ اس کے مقابلہ میں اسلام سائنس کو سپورٹ کرتا تھا، حضور ﷺ پر غار حرا میں جبرائیل امین جو پہلی وحی لے کر اترے وہ سائنس اور علم کے موضوع پر تھی۔
’’(اے حبیب!) پڑھئے اپنے رب کے نام سے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا۔ اس نے انسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کی طرح معلّق وجود سے پیدا کیا۔‘‘ (العلق، 96: 1-2)
پہلی وحی ہی Science of Embryology کو بیان کر رہی ہے۔ جس مذہب کی پہلی وحی علم اور سائنس پر مبنی ہو وہ سائنس کو کس طرح روک سکتا تھا؟ یعنی پہلی صدیوں میں جب یورپ بالکل اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا تو اس وقت مسلمان پوری دنیا میں سائنس کے چراغ جلا رہے تھے۔ یوں مسلمانوں کے سائنسی کام نے صدیوں تک یورپ کو روشنیوں سے منور کیا۔‘‘(اقتباس از خطاب شیخ الاسلام، خطاب نمبر: Ca-17، 6 اپریل 2024ء)
ہماری یہ ہستی جس کی بدولت ہم موجود ہیں، ہمارے جسمانی آلات کی طاقت جن سے ہم کام لیتے ہیں اور ہمارے وہ اختیارات جو ہمیں دنیا کی موجودات پر حاصل ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی چیز نہ ہماری پیدا کردہ ہے نہ حاصل کردہ۔ اس لیے اپنی ہستی کا مقصد اور اپنی قوتوں کا مصرف اور اپنے اختیارات کی حدود متعین کرنا نہ تو ہمارا اپنا کام ہے نہ کسی دوسرے کو اس معاملہ میں دخل دینے کاحق ہے۔یہ صرف اس خدائے بزرگ و برتر کا کام ہے جس نے ہمیں ان قوتوں اور مصرف کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ خدا کو حاکم مطلق اور خالق و مالک ماننے کا اصول انسانی حاکمیت کی سِرے سے نفی کر دیتا ہے۔ ایک انسان ہو یاخاندان، ایک طبقہ ہو یا گروہ مجموعی طور پر دنیا پر حاکمیت کا حق صرف خدا ئے لا شریک کا ہے۔ لہذا حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ عوام پر اپنی برتری اور حاکمیت کا سکہ جمانے کے لئے مذہب کو بطور ہتھیار استعمال نہ کریں، یہ بڑا قبیح فعل ہے جس کی کوئی معافی نہیں۔
عوام الناس کے لئے ضروری ہے کہ اگر انہیں مخلص و ایمان دار قیادت مل جائے اس کا ایسا حلقہ ہو جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کی ترویج کرنے والا ہو تو پھر اس کے ساتھ ایمان داری اور وفاداری کے ساتھ جڑ جائیں۔ کبھی اس کے ساتھ بے ایمانی، دھوکہ اور دغا بازی کرکے اس کے حلقے کو کمزور نہ کریں۔