ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ.
(الاحزاب، 33: 21)
’’فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اللہ ( ﷺ کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ کو جب علماء نے اپنے سامنے رکھا تو انہوں نے نثر کی صورت میں رسول اللہ ﷺ کی سیرت کے حوالے سے سیرت نگاری کی اور کتب سیرت میں آپ کی سیرت کے تذکرے کیے اور جب اس آیت کریمہ کو شعراء نے اپنے سامنے رکھا تو انہوں نے نظم کی صورت میں رسول اللہ ﷺ کی سیرت کے تذکروں کو منظوم کیا۔ یوں سیرت کا بیان نثر کی صورت میں ہوا اور سیرت کا بیان نظم کی صورت میں بھی ہوا۔ ہرکوئی اپنی اپنی استعداد اور اپنے اپنے طبعی ذوق اور اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق رسول اللہ ﷺ کی سیرت کو بیان کرتا رہا۔ شعراء میں سے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی سیرت کو منظوم کیا ان میں سے سر فہرست نام شاعر دربار رسالت حضرت حسان بن ثابتؓ کا آتا ہے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں اپنا کلام رسول اللہ ﷺ کو سنایا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی سیرت میں سے فضائل سیرت کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت حسان بن ثابتؓ کہتے ہیں:
واحسن منک لم ترقط عینی
واجمل منک لم تلد النساء
خلقت مبراء من کل عیب
کانک قد خلقت کما تشاء
حضرت حسان بن ثابتؓ نے یہ اشعار کہے تو پھر ان کی اتباع میں بے شمار اور لاتعداد شعراء نے اپنے اپنے زمانے میں سیرت رسول ﷺ کو منظوم انداز میں بیان کرنا شروع کردیا۔ آج سیرت کو منظوم اندازمیں بیان کرنے والا ہر شاعر حضرت حسان بن ثابتؓ سے راہنمائی لے رہا ہے اور ان کے کلام کو اپنے لیے ایک منہج اور اسلوب بنارہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے حسن اورجمال کے تذکروں کو ہر کسی نے اپنے انداز میں بیان کیا مگر ان سب اشعار اور ان سب کلاموں کا مفہوم اور مرکزی نکتہ مااجملک تیری صورت ہے اور ما احسنک تیری سیرت ہے۔ اسی تصور کو اپنے ذہن و دل میں رکھتے ہوئے خالد محمود خالد کہتا ہے:
اب میری نگاہوں میں جچتا نہیں کوئی
جیسے میرے سرکار ہیں ایسا نہیں کوئی
میرے آقا کو اللہ نے بے مثال اور بے نظیر بنایا ہے، میری نگاہوں میں اب آپ کے سوا کوئی جچتا ہی نہیں۔ اس لیے میرے سرکار جیسا کوئی ہے ہی نہیں۔ اعظم چشتی اس تصور کو یوں بیان کرتے ہیں:
ایسا کوئی محبوب نہ ہوگا نہ کہیں ہے
بیٹھا ہے چٹائی پر مگر عرش نشیں ہے
اللہ نے اپنے رسول کو خاتم النبیین بناکر قیامت تک سارے زمانہ نبوت و رسالت کے لیے بے مثل بنایا ہے اور یہ اعزاز و شرف صرف آپ ہی کو دیا ہے کہ آپ ہی کو اس نے اپنا محبوب بنایا ہے۔
مزید برآں آپ کی سیرت کے پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
ملتا نہیں کیا کیا دو جہاں کو تیرے در سے
اک لفظ ’’نہیں‘‘ ہے کہ تیرے لب پہ نہیں ہے
ہر اک کو میسر کہاں اس در کی غلامی
اس در کا تو دربان بھی جبرئیل امیں ہے
حضرت حسان بن ثابتؓ ہی کے منظوم تصور کو آگے بڑھاتے ہوئے صائم چشتی کہتے ہیں:
تو شاہ خوباں تو جانِ جاناں ہے چہرہ ام الکتاب
نہ بن سکی ہے نہ بن سکے گی مثال تیری جواب تیر
اللہ نے آپ کو وہ حسن ذات عطا کیا ہے آپ اس دنیا کے حسین لوگوں کے بھی سردار ہیں۔ حتی کہ ان شاہ خوباں کی جان ہیں۔ آپ کے چہرہ اقدس کو باری تعالیٰ نے والضحیٰ بنایا ہے اور ام الکتاب بنایا ہے۔ ایسا شاہ خوباں اس کائنات نے نہ پہلے کبھی دیکھا ہے اور نہ آئندہ کبھی دیکھے گی۔ اس لیے کہ آپ ہی اللہ کی ربوبیت کا شاہکار ہیں۔
اسی تصور کو ’’یکتا‘‘ اپنے انداز میں یوں بیان کرتے ہیں:
اے میرے سرور دین آپ سا کوئی نہیں
دونوں عالم میں نہیں حسن یوسف کی قسم
اس کائنات میں رسول اللہ ﷺ کی آمد سے قبل حسن یوسف حسن کے باب میں ایک تلمیح رہا ہے جب آپ ﷺ کی ولادت اور بعثت ہوگئی دنیا نے حسن یوسف سے بھی بڑھ کر حسین محمدی ﷺ کو دیکھا۔ اب حسن و جمال کے باب میں بھی مثال حسن یوسفی نہ ٹھہرا بلکہ حسن محمدی ﷺ ایک مثال بن گیا اور ایک نظیر بن گیا۔ اب حسن وجمال کا تصور سمجھانے کے لیے مثال حسن یوسفی نہ رہا بلکہ حسن محمدی ﷺ بن گیا۔
حفیظ تائب بھی حضرت حسان بن ثابتؓ کے تصور سیرت کو ان اشعار میں یوں منظوم کرتے ہیں:
خوشبو ہے دو عالم میں تیری اے گل چیدہ
کس منہ سے بیاں ہوں تیرے اوصاف حمیدہ
تجھ سا کوئی آیا ہے نہ آئے گا جہاں میں
دیتا ہے گواہی یہی عالم کا جریدہ
یہ انتہائی خوبصورت انداز میں منظوم بیان سیرت ہے۔ یارسول اللہ ﷺ آپ جیسا کوئی آیا ہے نہ کوئی آئے گا۔ اس جہاں میں آپ جیسے کی مثال خود آپ ہی ذات ہے جو 1438 چودہ سو سال سے یہ کائنات یہی خبر دے رہی ہے۔آپ جیسا کوئی اور نہیں ہے۔ یہی جریدہ عالم پکار پکار کر کہہ رہا ہے۔ آپ کی کوئی نظیر نہیں آپ کی کوئی مثال نہیں۔ آپ بے مثل محبوب خدا ہیں۔ آپ کے اوصاف و کمالات ایک خوشبو بن کر سارے عالم میں پھیلے ہوئے ہیں۔
اس لیے تنویر نقوی بھی کہتے ہیں:
تجھ سا جہاں میں کوئی نہیں
اب اس بے مثل کے آنے پر، خوشی کا اظہار ایک فطرتی بات ہے۔ آپ کی آمد پر فرحت و مسرت ہونا تقاضا فطرتِ بشر ہے۔ بے مثل و بے مثال اور بے نظیر و لاجواب کے ظہور پر جشن مسرت انسان کی روح اور دل کی آواز ہے اور اس کائنات کا ذرہ ذرہ بھی انسان کےہمنوا بن جاتا ہے۔ اس لیے وہ تو پہلے ہی فطرت میں انسان فطرت کے قریب ہوتا ہے آواز فطرت کو سنتا ہے تو پھر محمد علی ظہوری قصوری کی زبان میں یوں پکارتا ہے:
فلک کے نظارو، زمین کی بہارو سب عیدیں مناؤ حضور آگئے ہیں
اٹھو بے سہارو چلو غم کے مارو خبر یہ سناؤ حضور آگئے ہیں
ہوا چار سو رحمتوں کا بسیرا اجالا اجالا سویرا سویر
حلیمہ کو پہنچی خبر آمنہ کی میرے گھر میں آؤ حضور آگئے ہیں
کہاں میں ظہوری کہاں ان کی باتیں کرم ہی کرم ہے یہ دن اور راتیں
جہاں پر بھی جاؤ یہی کہتے جاؤ حضور آگئے ہیں حضور آگئے ہیں
رسول اللہ ﷺ کی آمد پر اظہار فرحت انسان کے اندر محبت رسول کے داعیے کو مضبوط و مستحکم کرتا ہے جیسے کسی پیارے کی ہمارے گھر میں آمد ہمیں فرحت و مسرت کے جذبات دیتی ہے۔ اسی طرح اسی کائنات میں رسول اللہ ﷺ کی آمد اہل ایمان کے جذبات محبت کو فروزاں کرتی ہے۔ اس لیے ایک امتی کا رسول اللہ ﷺ سے تعلق ہے ہی محبت کا ہے۔ یہی محبت رسول جب راسخ ہوتی ہے تو ایمان بنتی ہے اور یہی محبت جب دل و دماغ میں جاگزیں ہوجاتی ہے تو اطاعت رسول ﷺ اور سیرت رسول ﷺ بنتی ہے۔
اس لیے محبت رسول ﷺ سے فرار اور محبت رسو ﷺ کے داعیات سے انکار سیرت رسول ﷺ کے مظاہر سےفرار ہے۔ اس لیے مسلمان تو اس وجود کا نام ہے جس میں سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کی محبت موجود ہو۔ مسلمان تو اسلام لانے کے ظاہر کا نام ہے وہی مسلمان جب دل سے رسول اللہ ﷺ کی محبت میں مستغرق ہوتا ہے تو وہ مومن بنتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی محبت ایک مسلمان کو سچا مسلمان اور ایک پکا مومن بناتی ہے۔ اس لیے اقبال کہتے ہیں کہ اگر مجھ سے دین کی حقیت پوچھنا چاہو اور دین کی ساری تعلیمات کا نچوڑ اور خلاصہ جاننا چاہو تو وہ محبت رسول ﷺ ہے اور ایمان کی حقیقت اور ایمان کی روح محبت رسول ﷺ ہے اور سارے قرآن کا حاصل سارے قرآن کا مغز محبت رسول ﷺ ہے۔
اس لیے وہ امت کو دین، ایمان اور قرآن کی حقیقت سمجھاتے فرماتے ہیں:
مغز قرآں روح ایماں جانِ دین
ہست حُب رحمۃ للعالمین
شعراء اسلام نے رسول اللہ ﷺ کی اس محبت کو بڑھانے اور اہل ایمان کے دلوں میں اس محبت کے بھانبڑ مچانے کے لیے اپنے شعروں اور اپنے کلاموں میں اس روح ایمان، اس جان دین اور اس مغز قرآن کا اہتمام کیا ہے۔
شیخ سعدی شیرازی اس محبت رسول ﷺ کو اجاگر کرنے کے لیے بارگاہ رسالتمآب ﷺ میں ایک ہدیہ عقیدت اپنا اظہار محبت یوں کرتے ہیں:
بلغ العلی بکمالہ کشف الدجی بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ صلوا علیہ وآلہ
اس کائنات میں انسانی شرف کی ساری بلندیاں آپ کی سیرت میں تاباں ہیں، آپ کی سیرت اقدس نے ہی اس جہاں سے انسانی کرداروں میں ظلمتوں اور اندھیروں کا خاتمہ کیا ہے۔ آپ ہی کی سیرت تمام زمانوں میں حسنت سب سے اچھی سیرت ہے۔ سب سے اعلیٰ سیرت ہے اور سب سے بہترین سیرت ہے اور اعلیٰ خصائل کی بنا پر قیامت تک ہر انسان کی ضرورت آپ ﷺ ہی کی سیرت ہے۔
امام شرف الدین بوصیری پر جب سیرۃ الرسول کے مختلف گوشے اور مختلف پہلو وا ہوتے ہیں اور سیرت النبی ﷺ کی عظمتوں، رفعتوں اور بلندیوں سے سرشار ہوتے ہیں تو بے ساختہ یوں پکار اٹھتے ہیں:
مولای صل وسلم دائماً ابداً علی حبیبک خیرالخلق کلہم
محمد سیدالکونین والثقلین والفریقین من عرب و عجم
یارب بالمصطفٰی بلغ مقاصد نا
واغفرلنا ما معنی یا باری النیم
میرے مولا میں اس حبیب مکرم پر درود و سلام بھیجتا ہوں جس کو تو نے اپنی خلق میں سے سب سے بہترین مخلوق کا اعزاز و اکرام بخشا ہے۔ جس کو ارضی و سماوی کائنات کا سردار بنایا ہے جس کو تو نے انسانوں اور جنات کا امام بنایا ہے جس کو تو نے سارے انسانوں کا مقتدا اور رہبر بنایا ہے۔ مولا مجھے ان کے دامن سے وابستہ کر مجھے بھی اپنی سیرت میں ان کی سیرت کی پیروی کی توفیق دے۔ میری بے خبری اور لاعلمی کی زندگی اب ختم ہوئی۔ میری زندگی میں ان کی زندگی کا رنگ چڑھا دے ان کو میرا اور مجھ کو ان کا کردے، اس لیے کہ خیرالخلق کلہم آپ ہی ہیں۔ سیدالکونین آپ ہی ہیں، سیدالثقلین آپ ہی ہیں، سیدالعرب والعجم آپ ہی ہیں، بلغ مجھے اس ذات تک پہنچا، ان کے قدموں تک میری رسائی کرا، مجھے ان کا سچا اور سُچا پیروکار بنا۔ میرے کردار میں ان کے کردار کی خوشبو آئے۔
اس لیے یہ نبی ہماری حیات میں آیا ہے اور تو ہماری سیرت میں بھی آئے۔ اس نبی کی آمد کے لیے سارے زمانوں کے لوگ منتظر رہے۔ خود انبیاء علیہم السلام اپنے اپنے زمانے میں منتظر رہے۔ ہزاروں، لاکھوں دعا کرتے رہے۔ جن کی نمائندگی قس بن ساعدہ آپ کی ولادت سے قبل تورات و انجیل میں آپ کی آمد اور آپ کی نشانیوں کو جان کر یوں کرتا ہے:
ارسل فینا احمد خیر نبی قد بعث
ہمارے اندر اس نبی کو مبعوث فرما جس کا وجود سراپا خیر ہی خیر ہے اس نبی کے قدم سے ہم کو بھی زمانے کی خبر مل جائے۔ اس خبر کے ظہور پر اور مدینہ منورہ میں آپ کی آمد کے موقع پر اہل مدینہ آپ کی تشریف آوری پر شکر واجب کا اظہار کرتے ہیں۔ آپ کی آمد کے باعث انسان کو رفعت ملی اور طبقہ نسواں کو عظمت ملی، اس لیے وہ رسول اللہ ﷺ کا سارے اہل مدینہ کے ساتھ فرحت و انبساط کے ساتھ استقبال کرتے ہوئے مدینہ کی بچیاں ان اشعار کو اپنی زبان پر لاتی ہیں:
طلع البدر علینا من ثنیات الوداع
واجب الشکر علینا ماداع للہ داع
ایھا المبعوث فینا جنت بالامر المطاع
اے اہل مدینہ، دیکھو وہ چاند سا چہرہ تمہارے سامنے ہے جس کے استقبال کے لیے تم ہر روز آتے تھے وہ آج آگیا ہے ایک بدر منیر بن کر تمہارے اوپر طلوع ہوا ہے۔ اس نعمت پر آؤ سب اللہ کا شکر بجا لائیں، اللہ نے یہ رسول ﷺ ہمیں عطا کیا ہے۔ اب اس رسول کی قدر دانی یہ ہے کہ ہم اس رسول ﷺ کی اطاعت کریں اور اس کی پیروی کریں اور اس کی سیرت کو اپنائیں۔ یہ رسول ہماری طرف آیا نہیں بلکہ بھیجا گیا ہے۔ یہ داعی الی اللہ ہے اس کا امر ہمارے لیے واجب اطاعت ہے۔ آؤ اس رسول ﷺ سےوابستہ ہوجاؤ۔
اب ایک مسلمان وہ ہے جس کی سیرت رسول اللہ ﷺ کی سیرت ہو اب ایک مومن وہ ہے جس کی سیرت کی جھت رسول اللہ ﷺ ہو اور وہ اپنی ہر عادت اور خصلت اور اپنی سیرت کی ہر حرکت کو رسول اللہ ﷺ کی سیرت سے استوار کرے اور اپنی سیرت کے اعمال روزانہ رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں پیش کررہا ہو۔
اس لیے مولانا عبدالرحمن جامی کہتے ہیں:
نسیما! جانب بطحا گذر کن
ز احوالم محمد را خبر کن
اے ھوا تو مدینے کی طرف سفر کر اور میری سیرت اور میرے احوال سے رسول اللہ ﷺ کو آگاہ کر اور میرے لیے رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ سے توجہ کا فیضان مانگ اور میری سیرت پر آپ کا کرم معنی مزید برآں کہتے ہیں:
رساں رساں بدر روضہ رسول کریم
بصد تفرع زمن بے نوا سلام علیک
اے صبا تو رسول اللہ ﷺ کے روضہ انور کی طرف اپنا سفر کر اور مجھ جیسے بے کس و بے نوا کا اور گنہگار و بے سہارا کا سلام آپ کی بارگاہ میں بڑے ہی ادب و احترام کے ساتھ پیش کر اور میرے لیے آپ کی نگاہ التفات کا سوال کر۔
اے صبا جب تو میری طرف سے اس بارگاہ میں حاضر ہوجائے تو میرا مدعا پیش کرنے سے پہلے یوں رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں سب سے پہلے سلام پیش کرنا اور اس سلام کا یہ انداز اختیار کرنا۔
یاشفیع الوریٰ سلام علیک
یا نبی الھدی سلام علیک
یا مھبط الوحی منزل القرآن
انت نور الھدی سلام علیک
اے وہ ذات جس کو اللہ نے تمام مومنوں کے لیے شفیع بنایا ہے جسے قیامت کے روز اللہ کی بارگاہ میں تمام انسانوں کا شفیع ہونے کا اعزاز عطا کیا ہے۔ آپ کی ذات پر میری طرف سے سلام عاجزانہ پیش ہو اور اے وہ ذات جس کو اللہ نے سارے انسانوں کے لیے باعث ہدایت بنایا ہے اور جس کو ھادی انس و جاں کا اعزاز بخشا ہے۔ اس ذات پر میری طرف سے سلام ہو۔ اے وہ ذات جس پر وحی کا نزول ہوا ہے اورجس پر قرآن نازل ہوا ہے جس کو اللہ نے سراپا نور بنایا ہے۔ اس ذات پر میرا سلام ہو۔
یوں ہر دور میں شعراء رسول اللہ ﷺ کی سیرت اور آپ کی محبت اور آپ سے اپنی بے پناہ عقیدت کا اظہار اپنے اپنے شعروں اور سلاموں میں کرتے رہے ہیں۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے اور قیامت تک جاری و ساری رہے گا۔ کوئی کلام شاعر اس باب میں حرف آخر نہ بن سکا ہے اور نہ بن سکے گا۔ ایسا کیوں نہ ہوگا اس کی وجہ تمام شعراء کے جذبات عقیدت و محبت کی نمائندگی کرتے ہوئے حافظ شیرازی اپنے ان اشعار میں یوں کرتے ہیں:
یا صاحب الجمال ویا سیدالبشر
من وجھک المنیر لقد نوّر القمر
لا یمکن ثنا کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
بیان سیرت میں ایک پہلو اس کا عصری اطلاق کا بھی ہے۔ شعراء میں یہ اسلوب اور منہج بھی دکھائی دیتا ہے اور امت پر گذرنے والے احوال اور مصائب و آلام اور امت کی اجتماعی حالت زار اور مسلمانوں کے اجتماعی کردار کی پستی اور دین سے دوری اور دنیا پرستی اور اللہ سے دوری اور اس زندگی کی دنیا داری اور ہوس پرستی، زر پرستی اور خواہش پرستی، قرآن سے بے غبتی اور سنت و سیرت رسول ﷺ سے بے نیازی اور مومنانہ کردار کی رسوائی اور مسلم کردار کی جگ ہنسائی کا تذکرہ بھی استغاثے کے اسلوب بارگاہ رسالتمآب میں یوں کرتے ہیں۔ اس حوالے سے الطاف حسین حالی کہتے ہیں:
اے خاصہ، خاصانِ رسل وقتِ دعا ہے
امت پہ تیری آکے عجب وقت پڑا ہے
وہ دین، ہوئی بزم جہاں جس سے چراغاں
اب اس کی مجالس میں نہ بتی نہ دیا ہے
جو تفرقے اقوام کے آیا تھا مٹانے
اس دین میں خود تفرقہ اب آکے پڑا ہے
جس دین نے دل آکے تھے غیروں کے ملائے
اس دین میں خود بھائی سے اب بھائی جدا ہے
’’یکتا‘‘ اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ ہماری حالت یہ کیوں ہوئی ہے، وہ کہتے ہیں۔
بن گئے سیم و زر کے بندے تن کے اجلے من کے گندے
چھن گئی ہم سے فقر کی دولت، آقا ہم سے بھول ہوئی
علم و عمل کا رشتہ ٹوٹا جب سے تیرا دامن چھوٹا
فرقہ فرقہ ہوگئی وحدت آقا ہم سے بھول ہوئی
طفیل ہوشیار پوری امت کی موجودہ حالت زار پر بارگاہ رسالتمآب میں استغاثہ یوں پیش کرتے ہیں:
ظہوری قصوری کہتے ہیں:
فلک کے نظارو زمین کی بہارو سب عیدیں مناؤ حضور آگئے ہیں
اٹھو بے سہارو چلو غم کے مارو خبر یہ سناؤ حضور آگئے ہیں
ہوا چار سو رحمتوں کا بسیرا اجالا اجالا سویرا سویر
حلیمہ کو پہنچی خبر آمنہؓ کی میرے گھرمیں آؤ حضور آگئے ہیں
کہاں میں ظہوری کہاں ان کی باتیں کرم ہی کرم ہے یہ دن اور راتیں
جہاں پر بھی جاؤ یہی کہتے جاؤ حضور آگئے ہیں حضور آگئے ہیں
خالد محمود خالد کہتے ہیں:
کوئی سلیقہ ہے آرزو کا نہ بندگی میری بندگی ہے
یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے
کیوں چاند میں کھوئے ہو الجھے ہو ستاروں میں
آقا کو میرے ڈھونڈو قرآن کے پاروں میں
طفیل ہوشیار پوری لکھتے ہیں:
ہادی محترم ہادی محترم چل سکے تیرے نقش قدم پر نہ ہم
کون سے منہ سے آقا کریں عرضِ غم ہم خطا وار ہیں ہم گناہ گار ہیں
پڑ گئی ماند ایمان کی تابندگی زندگی بن گئی وجہ شرمندگی
باہمی رنجشیں رنگ لاکر رہیں پھیل کر نفرتیں وجہ شر بن گئیں
آج اپنی نگاہوں میں بھی خوار ہیں ہادی محترم ہم خطاوار ہیں
بندہ حق تھے ہم بندہ زر بنے طالب خیر تھے موجب شر بنے
زر کی خاطر ضمیروں کے سودے کیے کنکریں لے کر ہیروں کے سودے کیے
دام حرص و ہوا میں گرفتار ہیں ہادی محترم ہم خطاوار ہیں
ایک دھبہ ہیں ہم نامِ اسلام پر طنز ہیں ایک قرآں کے پیغام پر
ولولے سرد ہیں غیرتیں مرچکیں اپنے کردار پر پھر بھی نادم نہیں
زندگی کے لیے وجہ آزار ہیں ہادی محترم ہم خطاوار ہیں
شاہ لوک ہیں تو ترے امتی تجھ سے نسبت تو ہے نام ہی کو سہی
حق ہمیں جذبِ فاروق و صدیق دے ظلم کو ختم کرنے کی توفیق دے
تیری رحمت کے آقا طلبگار ہیں ہادی محترم ہم خطاوار ہیں
ہادی محترم ہادی محترم چل سکے تیرے نقش قدم پر نہ ہم
کون سے منہ سے آقا کریں عرض غم ہم خطاوار ہیں ہم گناہ گار ہیں
اس پر مزید کسی نے کیا خوب کہا:
ہوگئے بزم جہاں میں خوار ہم
چاہتے ہیں اک نظر سرکار ہم