تصوف کے دو قدم
اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚۖ
’’ خبردار! بے شک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے۔ ‘‘(يُوْنـُس, 10 : 62)
حضور غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے فتوح الغیب میں سلوک کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ تصوف میں سلوک الی اللہ صرف دو قدم ہیں۔ پہلا قدم مخلوق سے تعلق میں نفس کو نکال دینے سے عبارت ہے جبکہ دوسرا قدم خالق کے تعلق میں خلق کو نکال دینا ہے۔ یہ دو قدم اٹھا کر اللہ تک پہنچ جانا تصوف، اولیاء اور صوفیاء کی تعلیمات کا خلاصہ ہے۔ ہر انسان دو طرح کے تعلق رکھتا ہے جن میں سے ایک خالق کے ساتھ اور دوسرا مخلوق کے ساتھ تعلق ہے۔ تصوف ان دونوں تعلقات کو میل کچیل سے پاک کرنے کا نام ہے۔ شرعی طریق کے مطابق اللہ کی رضا کے لیے اسی کے امر پر جو کام بھی کیا جائے وہ عبادت بن جاتا ہے۔ اس عبادت میں دور دور تک مخلوق نظر نہ آئے یعنی اس تعلق میں بندے کے سامنے صرف اللہ کی ذات ہو اور مخلوق درمیان سے نکل جائے۔ اسی طرح جب مخلوق سے معامہ ہو تو اس میں نفس حائل نہ ہو۔ اگر اللہ کے تعلق میں مخلوق نظر آئے گی تو اللہ سے تعلق بگڑے گا اور مخلوق کے تعلق میں اگر نفس یعنی ’میں‘ نظر آئے تو مخلوق سے تعلق بگڑے گا جبکہ تصوف تمام تعلقات کو سنوارنے کا نام ہے۔ پہلے قدم یعنی مخلوق کے تعلق میں اپنے نفس کو نکال دینے کو فتوت کہتے ہیں اور دوسرے قدم یعنی اللہ سے تعلق قائم کرتے ہوئے مخلوق کو درمیان سے نکال دینے کو عبودیت کہتے ہیں۔
مخلوق کے ساتھ تعلق میں الجھنوں کی وجہ
مخلوق کے تعلق میں الجھنوں کی بنیاد یہ ہے کہ مجھے وہ اچھا نہیں لگتا، اس نے مجھے برا بھلا کہا، اس نے میری تائید نہیں کی، اس نے میری عزت نہیں کی، میں نے اس کے ساتھ بھلائی کی مگر اس نے بھلائی کا جواب بھلائی سے نہیں دیا وغیرہ۔ الغرض تمام جھگڑوں کی بنیاد ’میں‘ ہے۔ اگر مخلوق کے تعلق سے نفس کو نکال دیں تو کوئی شکوہ شکایت باقی نہ رہے گی۔
نفس کیا ہے؟
آپ کی سوچ، چاہت، خواہش، اچھا لگنا، برا لگنا، رنج محسوس کرنا، یہ سب نفس ہے۔
صوفیاء کا طریق
صوفیاء مخلوق کے ساتھ معاملات میں اپنے نفس کو نکال دیتے ہیں۔ اسی لیے وہ کسی سے رنجیدہ نہیں ہوتے۔ کسی کا شر انہیں Upset نہیں کرتا۔ کسی کے برے اخلاق سے Frustrate ہونے والا نفس ہی ہے۔ جب نفس کو ہی درمیان سے نکال دیا جائے تو بندہ پرسکون ہوجاتا ہے۔
صوفی کا اللہ سے تعلق
اسی طرح صوفی جب اللہ سے تعلق میں کیے جانے والا کام کرتا ہے۔ یعنی نماز پڑھتا ہے، حج کرتا ہے، لوگوں کو دعوت و ارشاد کا کام کرتا ہے تو درمیان سے مخلوق کو نکال دیتا ہے یعنی اس کے دل میں دیکھے جانے اور سراہے جانے کا خیال بوقت عبادت نہیں آتا۔ اگر مخلوق کے دیکھنے سے عمل بدل جائے تو گویا مخلوق نے عمل کا تعین کیا اور اگر مخلوق، اللہ اور بندے کے تعلق سے نکل جائے تو عبودیت نصیب ہوتی ہے۔
روح کی چیخ و پکار
آج ہماری زندگی کا Focus جسم پر ہے، جسم کے درد اور تکالیف تو محسوس ہوتے ہیں لیکن ہم روح کا رونا اور چیخنا نہیں سنتے۔ روح، کسی سے ظلم و زیادتی کرتے وقت، حق تلفی کے وقت، خیانت، جھوٹ بولنے، نفرت کرنے اور ایک دوسرے کا ٹھٹھہ مذاق کرنے پر چیختی ہے۔ صوفیاء جسم سےFocus ہٹاکر روح پر قائم کرنا چاہتے ہیں۔ جسم پر Focus کی وجہ سے ہمارے اعمال و افعال میں ہماری توجہ حقیقت کی بجائے رسم پر ہوتی ہے۔ اسی لیے ہم حقیقت پسندہونے کی بجائے رسم پرست ہوگئے جبکہ حقیقت پر Focus کرنے والے ہی کامیاب رہتے ہیں۔ ظاہر پر Focus کرنے کی وجہ سے ہماری عبادت بھی عادت بن چکی ہے جبکہ صوفیاء کی عادت بھی عبادت بن جاتی ہے کیونکہ وہ حقیقت پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔
حضوری اور دوری
ہمارا تعلق اللہ سے یوں ہوگیا کہ نماز کے لیے کھڑے ہوکر بھی ہمیں خبر نہیں ہوتی کہ کیا کہہ رہے ہیں، کس کے سامنے موجود ہیں، کس کے دربار میں سجدہ ریز ہیں وغیرہ۔ اسی طرح تسبیح کرتے وقت بھی ہمارا تعلق الفاظ دہرانے تک محدود رہتا ہے۔ ہمارے ذہن و دل اس بات سے بے خبر رہتے ہیں کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں، اس کے معانی و معارف کیا ہیں۔ یعنی حضوری کے وقت بھی ہم غیر حاضر رہتے ہیں تو غیر حاضری کے وقت غائب رہنے کا عالم کیا ہوگا۔ تصوف کا مقصد اسی دوری کو حضوری میں بدلنا ہے۔ جس کے متعلق قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے:
رِجَالٌ ۙ لَّا تُلْهِیْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ
’’ (اللہ کے اس نور کے حامل) وہی مردانِ (خدا) ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے۔ ‘‘(النور, 24 : 37)
جو لوگ تجارت، کاروبار کرتے، Offices وغیرہ جاتے ہیں، یہ سب دوری کے کام ہیں لیکن اللہ کے بندوں کی زندگی کی ہر دوری، حضوری میں بدل جاتی ہے۔ پھر اہل اللہ کا، مذکورہ دو قدم اٹھا لینے کے بعد، چلنا، پھرنا، اٹھنا، بیٹھنا، لوگوں سے ملنا الغرض ہر لمحہ عبادت بن جاتا ہے۔
دو انتہائیں
آج تصوف کو ماننے والوں نے سوشل میڈیا کے بلا تمیز خیرو شر استعمال اور مطالعے سے دوری کے باعث نقلی چیزوں کو اپناکر، اصل سے دوری اختیار کرلی ہے جبکہ منکرین تصوف اسی نقل کو دیکھ کر اس پر پے درپے حملے کرتے ہیں۔ حتی کہ نوجوان نسل کا نقلی چیزوں پر حملے دیکھ اور سن کر، اصل پر سے بھی اعتقاد اٹھ جاتا ہے۔ ایسے گدی نشین لوگ جن کے عمل میں نقص ہو، اخلاق اچھے نہ ہوں، علم نہ ہو اور نگاہ مال بٹورنے پر ہو، ان سے نوجوان نسل یوں بدظن ہوتی ہے کہ اصل کا بھی انکار کرنے لگتی ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے آج کوئی مسلمانوں کے عمل، اخلاق اور کردار کے حالات دیکھے اور اس کا اعتقاد اسلام سے اٹھ جائے۔ آج خطیب پیسے کو مطمع نظر بناتے ہوئے بے اصل کرامتیں سناتےہیں۔ ایسی مضحکہ خیز باتوں کو کبار اولیاء سے منسوب کرنے سے لوگوں کا اصل کرامت سے بھی اعتبار اٹھ جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ غلط کو رد کرنا تو درست ہے لیکن اس سے اصل کا رد نہیں کیا جاسکتا۔
قرآن مجید سے اولیاء کرام کی کرامات کا ثبوت
اولیاء کی کرامت کا مطلقاً یوں کہہ کر انکار کرنا کہ کرامت ہوتی ہی نہیں ہے، یہ کفر ہے۔ اس لیے کہ اولیاء کرام کی کرامات کا ذکر قرآن حکیم کی نصوص میں ہے۔ گویا اولیاء کی کرامات کا کلیتاً انکار، نصوصِ قرآنیہ کا انکار ہے۔ حضرت سیدہ مریم علیہ السلام نبی نہیں تھیں بلکہ ولیہ تھیں۔ قرآن مجید میں ذکر آیا ہے:
وَ هُزِّیْۤ اِلَیْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسٰقِطْ عَلَیْكِ رُطَبًا جَنِیًّاؗ
’’ اور کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلاؤ وہ تم پر تازہ پکی ہوئی کھجوریں گرا دے گا۔ ‘‘ (مریم، 25:19)
صوفیاء جسم سےFocus ہٹاکر روح پر قائم کرنا چاہتے ہیں۔ جسم پر Focus کی وجہ سے ہمارے اعمال و افعال میں ہماری توجہ حقیقت کی بجائے رسم پر ہوتی ہے۔ اسی لیے ہم حقیقت پسندہونے کی بجائے رسم پرست ہوگئے جبکہ حقیقت پر Focus کرنے والے ہی کامیاب رہتے ہیں۔ ظاہر پر Focus کرنے کی وجہ سے ہماری عبادت بھی عادت بن چکی ہے جبکہ صوفیاء کی عادت بھی عبادت بن جاتی ہے کیونکہ وہ حقیقت پر توجہ مرکوز کرتے ہیں
حضرت مریم علیہا السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے وقت کھجور کے خشک تنے کوکھینچا تو ترو تازہ کھجوریں گرنے لگیں۔ یہ کرامت، ولی اللہ کی ہے جو کہ قرآن حکیم نے بیان کی۔ اسی طرح حضرت زکریا علیہ السلام کی زیر پرورش حضرت مریم علیہا السلام تھیں۔ جب بھی حضرت زکریا علیہ السلام ، آپ علیہا السلام کے حجرے میں جاتے تو بے موسم پھل پاتے۔ وہ حضرت مریم علیہا السلام سے سوال کرتے کہ بے موسم پھل کہاں سے آگئے؟ آپ علیہا السلام فرماتیں: اللہ کی طرف سے۔ ارشاد ربانی ہے:
كُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْهَا زَكَرِیَّا الْمِحْرَابَ ۙ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًا ۚ قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰی لَكِ هٰذَا ؕ قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ ؕ
’’ جب بھی زکریا (علیہ السلام) اس کے پاس عبادت گاہ میں داخل ہوتے تو وہ اس کے پاس (نئی سے نئی) کھانے کی چیزیں موجود پاتے، انہوں نے پوچھا: اے مریم! یہ چیزیں تمہارے لیے کہاں سے آتی ہیں؟ اس نے کہا: یہ (رزق) اﷲ کے پاس سے آتا ہے۔ ‘‘(آل عمران، 38:3)
بچپن میں ولیہ کے اس بے موسم پھلوں کا آنا، یہ کرامت ہے۔ انہی کرامات کی ایک اور مثال قرآن حکیم میں یوں بیان ہوئی کہ سلیمان علیہ السلام نے اپنے درباریوں سے پوچھا کہ ملکہ بلقیس کا سینکڑوں میل دور تخت، کون لاسکتا ہے تو جن نے خودکو پیش کیا لیکن آپ علیہ السلام نے اسے اجازت نہ دی۔ پھر ایک ولی اللہ آصف بن برخیا اٹھے اور کہا:
اَنَا اٰتِیْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْكَ طَرْفُكَ ؕ فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٗ قَالَ هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ
’’ میں اسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے (یعنی پلک جھپکنے سے بھی پہلے)، پھر جب (سلیمان e نے) اس (تخت) کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا (تو) کہا: یہ میرے رب کا فضل ہے۔ ‘‘(النمل، 40:37)
آنکھ جھپکنے کی دیر میں تخت لے آنا بھی ولی کی کرامت ہے، نبی کا معجزہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یوں ہی جابجا اولیاء کی کرامات کا ذکر فرمایا اسی لیے کرامت کامطلقاً انکار کفر ہے۔ اگر کسی نے کرامت من گھڑت بیان کی تو اس کا رد کیا جائے لیکن اس کے پردے میں اصل کا انکار نہ کیا جائے۔ اسی طرح ان کے واقع میں عدد بیان کرتے ہوئے قرآن مجید نے بار بار ان کی سنگت میں رہنے والے کتے کا ذکر کیا:
وَ تَرَی الشَّمْسَ اِذَا طَلَعَتْ تَّزٰوَرُ عَنْ كَهْفِهِمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَ اِذَا غَرَبَتْ تَّقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَ هُمْ فِیْ فَجْوَةٍ مِّنْهُ
اور آپ دیکھتے ہیں جب سورج طلوع ہوتا ہے تو ان کے غار سے دائیں جانب ہٹ جاتا ہے اور جب غروب ہونے لگتا ہے تو ان سے بائیں جانب کترا جاتا ہے اور وہ اس غار کے کشادہ میدان میں (لیٹے) ہیں، یہ (سورج کا اپنے راستے کو بدل لینا)۔ ‘‘(الکہف، 17:18)
تین سو سال تک ان اولیاء اللہ کے لیے سورج اپنا راستہ بدل کے طلوع ہوتا اور بدل کے غروب ہوتا تھا یا وہ اپنے راستے سے ہی طلوع و غروب ہوتا لیکن دھوپ ان کے جسموں تک پہنچنے سے رک جاتی تھی۔ اسی طرح ان کے واقع میں عدد بیان کرتے ہوئے قرآن مجید نے بار بار ان کی سنگت میں رہنے والے کتے کا ذکر کیا۔ ارشاد فرمایا:
سَیَقُوْلُوْنَ ثَلٰثَةٌ رَّابِعُهُمْ كَلْبُهُمْ ۚ وَ یَقُوْلُوْنَ خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ رَجْمًۢا بِالْغَیْبِ ۚ وَ یَقُوْلُوْنَ سَبْعَةٌ وَّ ثَامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ
’’ (اب) کچھ لوگ کہیں گے: (اصحابِ کہف) تین تھے ان میں سے چوتھا ان کا کتا تھا، اور بعض کہیں گے: پانچ تھے ان میں سے چھٹا ان کا کتا تھا، یہ بِن دیکھے اندازے ہیں، اور بعض کہیں گے: (وہ) سات تھے اور ان میں سے آٹھواں ان کا کتا تھا۔ ۔ ‘‘(الکہف، 22:18)
کبھی یوں ہواکہ انسانوں کے عدد کی بات ہورہی ہو اور کوئی کتے کو بھی اس میں گن لے؟ نہیں۔ انسان اپنے کلام میں کتے کے عدد کو شامل نہیں کرتا تو اللہ اپنے کلام میں کیسے شامل فرمارہا ہے؟ کیونکہ یہ اولیاء کی کرامت ہے کہ جو ان کی مجلس میں آیا اسے تین صدیاں زندہ رہنے کا دوام بھی دیا کہ بن کھائے پیے وہ جیتا رہا۔ اسی طرح کئی جگہوں پر قرآن حکیم نے اولیاء کی کرامات کا ذکر فرمایا ہے۔
اولیاء کرام کی تعلیمات نہ ماننا: ایک فتنہ اور گمراہی
ایک طبقہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہم قرآن و حدیث کے علاوہ کسی بھی امام یا ولی اللہ کی بات نہیں مانتے۔ ایسا کہنا سراسر گمراہی ہے کیونکہ قرآن و حدیث کے Text کو اس وقت تک سمجھا نہیں جاسکتا جب تک ہم ان لوگوں کو پڑھ یا سن نہ لیں جو ہم سے زیادہ قرآن و حدیث کو سمجھتے تھے۔ اس لیے کہ استاد کا ہونا لازمی امر ہے۔ جس طرح کوئی شخص میڈیکل کالج جائے بغیر اور ہاؤس جاب وغیرہ کیے بغیر خود میڈیسن کی کتابیں پڑھ کر ڈاکٹر نہیں بن سکتا۔ اسی طرح اساتذہ سے پڑھے بغیر دین کا عالم و عارف بننا ممکن نہیں ہے۔ علم اساتذہ سے پڑھے بغیر کبھی مستند نہیں ہوتا۔ جو شخص پھر بھی یہ کہے کہ وہ صرف قرآن و حدیث کا مانتا ہے تو حدیث مبارکہ بھی مذکورہ امر پر ہی رہنمائی کرتی ہے۔ صحیح بخاری کی کتاب العلم میں ہے ’’العلماء ورثۃ الانبیاء‘‘ علماء، انبیاء کے وارث ہوتے ہیں۔ پھر اگر ہر ایک نے قرآن و حدیث کا Text بن کر حجت بن جانا ہے تو یہ کون سے علماء ہیں جو انبیاء کے وارث ہیں؟ پھر صحیح بخاری کے ترجمۃ الباب میں یہ الفاظ بیان ہوئے من یرداللہ بہ خیرا یفھمۃ۔
اولیاء کی کرامت کا مطلقاً یوں کہہ کر انکار کرنا کہ کرامت ہوتی ہی نہیں ہے، یہ کفر ہے۔ اس لیے کہ اولیاء کرام کی کرامات کا ذکر قرآن حکیم کی نصوص میں ہے۔ گویا اولیاء کی کرامات کا کلیتاً انکار، نصوصِ قرآنیہ کا انکار ہے
’’اللہ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کا فہم عطا کردیتا ہے۔ ‘‘ اسی طرح آقاؐ کی حدیث مبارکہ بھی نقل کی: ’’من یرداللہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین‘‘ اللہ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتا ہے اسی دین کی سمجھ بوجھ عطا فرماتا ہے۔ اسی طرح اگر خود Text پڑھ کر عالم ہوا جاتا اور علماء و اولیاء کی ضرورت نہ ہوتی تو قرآن مجید کے بیان کردہ قصے کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام سمندر پار کرکے حضرت خضر علیہ السلام کے پاس علم کی تلاش میں کیوں جاتے۔ موسیٰ علیہ السلام جن پر اللہ کی وحی آتی ہے اور جو خود صاحب کتاب ہیں، ان کے متعلق قرآن مجید میں ارشاد ہے:
قَالَ لَهٗ مُوْسٰی هَلْ اَتَّبِعُكَ عَلٰۤی اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا
’’ کیا میں آپ کے ساتھ اس (شرط) پر رہ سکتا ہوں کہ آپ مجھے (بھی) اس علم میں سے کچھ سکھائیں گے جو آپ کو بغرضِ ارشاد سکھایا گیا ہے۔ ‘‘ (الکہف، 66:18)
موسیٰ علیہ السلام چل کے حضرت خضر علیہ السلام کے پاس جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں آپ علیہ السلام کے ساتھ چلتا ہوں اس شرط پر کہ آپ علیہ السلام مجھے علم دین، اس علم میں سے جو اللہ نے بطور خاص آپ علیہ السلام کو عطا کیا۔ اس سے یہ Protocol سمجھانا مقصود تھا کہ جسے اللہ نے علم عطا کیا ہو، اس سے علم لینے جانا چاہیے۔ اگر صاحبانِ علم سے علم لینا جائز نہ سمجھا جائے تو پھر موسیٰ علیہ السلام کا عمل کیا ہے؟ قرآن نے کیا بتایا ہے؟ حدیث مبارکہ میں کیا بیان ہوا؟ گویاعلماء اور ائمہ سے تعلم کے انکار سے ہم خود قرآن و حدیث سے انکاری ہیں۔ لہذا اولیاء و ائمہ کے مرتبے کو تسلیم کرنا اور ان سے اکتساب فیض کرنا خود قرآن و حدیث کی تعلیمات ہیں۔