اداریہ: اسلام میں محبت اور عدمِ تشدد

چیف ایڈیٹر: ماہنامہ منہاج القرآن

پاکستان انتہا پسندی اور دہشت گردی کا زخم خوردہ ملک ہے۔ پاکستان کے عوام نے دنیا کے کسی بھی ملک کے عوام سے زیادہ دہشت گردی کے خلاف لڑتے ہوئے جانی و مالی قربانیاں دیں۔ یہ بات لائقِ ستائش ہے کہ تمام تر دہشت گردانہ کارروائیوں کے باوجود پاکستان کے عوام کے دلوں میں انتہا پسندی، یا دہشت گردی کے بیانیہ سے متعلق نرم گوشہ پیدا نہیں کیا جاسکا۔ ہزار ہا قربانیوں کے باوجود آج بھی پاکستان کے عوام امن سے محبت اور دہشت گردی سے نفرت کرتے ہیں۔ دوسری بڑی حقیقت یہ ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ اسلام پاکستان کی وہ بڑی شخصیت ہیں جنہوں نے فتنہ خوارج، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف نہ صرف آواز اٹھائی بلکہ قرآن و سنت کی روشنی میں دہشت گردی کے فتنے کے فکری رد کے لئے ہزار ہا صفحات پر مشتمل تحریری مواد مہیا کیا اور قرآن و سنت کے دلائل و براہین کی روشنی میں پوری دنیا پر واضح کیا کہ اسلام انسانیت کے لیے فروغِ علم و امن کا ضابطہ حیات عطا کرتا ہے۔ یہ بات بھی تکلیف دہ ہے کہ تمام تر جانی مالی قربانیوں کے باوجود آج بھی پاکستان دہشت گردی اور فتنہ خوارج کی زد پر ہے۔ آج بھی پاکستان کے عوام بالخصوص افواج پاکستان کے جوان دہشتگردانہ کارروائیوں کے سامنے سینہ سپر ہیں اور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں۔ آئے روز دہشت گردی کے واقعات کی خبریں میڈیا اور سوشل میڈیا پر نمایاں ہوتی ہیں یہ سب دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پچھلی دو دہائیوں کی بے مثال قربانیوں اور جدوجہد کے باوجود انتہا پسندی اور دہشت گردی کے فتنے کو رد کیوں نہیں کیا جا سکا؟ یہ سوال پاکستان کے ہر شہری کا بھی ہے، یہ سوال تمام آئینی، دستوری اور ادارہ جاتی فورمز پر بھی سنجیدگی کے ساتھ زیر بحث آنا چاہیے کیونکہ اسلام ایک بے گناہ انسان کی موت کو پوری انسانیت کی موت سے تعبیر کرتا ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’اسلام میں محبت اور عدمِ تشدد ‘‘ میں اس کا نہایت قابل عمل حل پیش کیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ:

’’اسلام انسانیت کے خیال اور انسانی جذبات کے احساس میں اپنی تعلیمات کو جتنی بلندیوں تک لے گیا ہے، دنیا کا کوئی مذہب اور فلسفہ اُس کی گرد کو بھی نہیں پا سکتا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے اسلام کو صحیح طور پر نہیں جانا۔ لادینی میلانات و رجحانات رکھنے والے اس کی عظمتوں کو نہ جاننے کے سبب اس سے انکار کرتے ہیں اور اسلام کے دعوے دار بسبب جہالت اور فقدان عمیق مطالعہ کے زیادہ افسوس ناک منظر پیش کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس مذہب رحمت کو ناحق بدنام کیا جا رہا ہے۔

جو اسلام بچے کے رونے کے باعث ماں کی مامتا پر بیتنے والے احساس کے نتیجے میں نماز جیسی عظیم عبادت کو مختصر کر دینے کا اہتمام کرتا ہے، وہ اسلام کیسے گوارا کر سکتا ہے کہ کسی بچے کی گردن کٹ جائے، کسی کے کلیجے پر خنجر چل جائے، کسی کے سینے میں بندوق کی گولی داغ دی جائے، کسی کا گھر جلا دیا جائے اور خود کش حملے کے ذریعے انسانی آبادیوں اور ان میں رہنے والے معصوم بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور مریضوں کو ہلاک و برباد کر دیا جائے۔ جو بد بخت ایسے کام کر کے بھی خود کو مسلمان سمجھتے ہیں، وہ بتلائیں کہ ان کا رشتہ کس اسلام اور کس قرآن کے ساتھ ہے؟ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے من گھڑت تصورات کو مذہب کا نام دے کر اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔ حقیقت میں یہی دشمنانِ اسلام ہیں جنہیں اسلام کی لطافتوں، رحمتوں ، شفقتوں، برکتوں اور اس کی عظمتوں کی خبر ہی نہیں۔ پیغمبر اسلام ﷺ ہمیشہ صحابہ کرام کو اعتدال و توازن، آسانی اور سہولت کی تعلیم دیتے اور ہمیشہ مبالغہ آرائی، انتہاپسندی اور ہر طرح کی شدت پسندی سے منع فرماتے۔‘‘

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ’’دہشت گردی اور فتنہ خوارج‘‘ کے عنوان سے دیئے گئے اپنے مبسوط تاریخی فتویٰ میں فرماتے ہیں کہ:

’’اسلام امن و سلامتی اور محبت و مروت کا دین ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق مسلمان وہی شخص ہے جس کے ہاتھوں مسلم و غیر مسلم سب بے گناہ انسانوں کے جان و مال محفوظ رہیں۔ انسانی جان کا تقدس و تحفظ شریعتِ اسلامی میں بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔ کسی بھی انسان کی ناحق جان لینا اور اُسے قتل کرنا فعل حرام ہے بلکہ بعض صورتوں میں یہ عمل موجبِ کفر بن جاتا ہے۔ دہشت گرد اپنے عقائد و نظریات مسلط کرنے اور اپنے مخالفین کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کی ناکام کاوش میں جس بے دردی سے خود کش حملوں اور بم دھماکوں سے گھروں، بازاروں، عوامی اور حکومتی دفاتر اور مساجد میں بے گناہ مسلمانوں کی جانیں لیتے ہیں وہ صریحاً کفر کے مرتکب ہورہے ہیں۔ دنیا اور آخرت میں ان کے لیے ذلت ناک عذاب کی وعید ہے۔ دہشت گردی فی نفسہٖ کا فرانہ فعل ہے اور جب اس میں خود کشی کا حرام عنصر بھی شامل ہوجائے تو اس کی سنگینی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے کہ مسلمانوں کا قتلِ عام اور دہشت گردی اسلام میں قطعی حرام بلکہ کفریہ افعال ہیں۔ کبار ائمہ تفسیر و حدیث اور فقہاء و متکلمین کی تصریحات سمیت چودہ سو سالہ تاریخِ اسلام میں جملہ اہلِ علم کا فتویٰ یہی رہا ہے۔ اپنی بات منوانے اور دوسروں کے موقف کو غلط قرار دینے کے لیے اسلام نے ہتھیار اٹھانے کی بجائے گفت و شنید اور دلائل سے اپنا عقیدہ و موقف ثابت کرنے کا راستہ کھلا رکھا ہے۔ ہتھیار وہی لوگ اٹھاتے ہیں جن کی علمی و فکری اساس کمزور ہوتی ہے اور وہ جہالت و عصبیت کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں، ایسے لوگوں کو اسلام نے باغی قرار دیا ہے جن کا ٹھکانہ جہنم ہے۔‘‘

مسلمان اور مومن ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات امن و محبت کو نہ صرف نظریاتی طور پر تسلیم کریں بلکہ اپنے معاشرے میں ان کا عملی اظہار بھی پیش کریں۔ دہشت گردی و انتہا پسندی کے عفریت سے نجات حاصل کرنے کے لیے نہ صرف ہماری مسلح افواج بلکہ ہر ہر شہری کو اسلام کے بارے میں موجود منفی ابہام اور انتشار کو دور کر لینا چاہیے۔ بحیثیت مسلمان ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ کون ساعمل عین اسلام ہے اور کون سا فعل خارج از اسلام ہے۔ اسی صورت ہم یکسو ہو کر مملکت خدادادپاکستان کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے تسلط سے آزاد کروا سکتے ہیں۔

حکومت اور مقتدر اداروں کو چاہیے کہ وہ ملکی اور عالمی سطح پر ایسے تمام محرکات اور اسباب کا تدارک کریں جن سے عوام الناس تشکیک کا شکار ہوتے ہیں اور دہشت گردی کے سرغنے کئی مضطرب اور جذباتی نوجوانوں کو آسانی سے اکسانے، ورغلانے اور گمراہ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں بلکہ انہیں دہشت گردی کے لیے تیار کرنے کا موقع میسر آتا ہے۔ دہشت گرد عناصر جن واقعات و حالات کو اپنے ناپاک ایجنڈے کےلیے بطورِ ایندھن استعمال کرتے ہیں ان پالیسیوں میں واضح اور مثبت تبدیلیوں کی ضرورت ہے تاکہ ان اسباب و محرکات کا بھی قلع قمع کیا جاسکے۔ اسی طرح اگر عالمی طاقتیں اور پاکستانی ایجنسیاں عوام کے حقیقی مسائل، مشکلات اور شکایات کی طرف توجہ نہیں دیں گی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دورُخی پالیسی نہیں چھوڑیں گی، اُس وقت تک امن کی حقیقی بحالی محض خواب ہی رہے گی۔

یہ وقت پوری قوم، سیاسی جماعتوں، پارلیمنٹ اور خاص طور پر افواج پاکستان کے لیے امتحان کا وقت ہے۔ تمام ادارے اور سیاسی جماعتیں اور پارلیمنٹ فیصلہ کریں کہ وہ اس ملک کو امن اور عدم تشدد کا معاشرہ دینا چاہتے ہیں یا اس ملک کو ہمیشہ کے لیے انتہا پسندو متشدد معاشرہ بنا کر دہشت گردوں کے سپرد کرنا چاہتے ہیں۔۔۔؟ وہ فیصلہ کریں کہ امن وسکون چاہتے ہیں یا دہشت گردی اور قتل و غارت گری؟ وہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ کی راہِ پر چلنا چاہتے ہیں یا رسول معظم ﷺ کی تعلیمات سے بغاوت چاہتے ہیں۔۔۔؟جب تک یکسو ہو کر تمام سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے مرتکب افراد، ان کے معاونین اور فکری گماشتوں کا قلع قمع نہیں کیا جاتا،امن ہمارا خواب ہی رہے گا اور اس کی عملی تعبیر کبھی ممکن نہ ہو سکے گی ۔ اس معاشرے کو محبت اور عدمِ تشدد کا نیا سلوگن دینا ہوگا جس کی بنیاد حضور نبی اکرم ﷺ کی تعلیماتِ آمن ورحمت اور محبت و شفقت ہیں۔