سوال :طاغوت سے کیا مراد ہے؟ کیا جمہوریت طاغوتی نظام ہے؟ کیونکہ یہ کتاب و سنت کی بجائے انسانوں پر انسانوں کے بنائے ہوئے قانون نافذ کرتے ہیں۔ وضاحت فرمادیں۔
جواب: طاغوت کے معانی ’’شیطان، گمراہوں کا سردار، بت، دیو، خدا کے سوا کسی اور کی پرستش کرنے والا‘‘ ہیں۔ جو بھی ان معانی پر پورا اترے، وہ طاغوت ہے۔ ہمارے موجودہ نظامِ حکومت میں بھی جو جو کام مذکورہ بالا معانی کے مطابق ہیں، سب طاغوتی ہیں۔ مثلاً: کرپشن، لوٹ مار، دھوکہ فراڈ، غنڈہ گردی، دھاندلی، ملاوٹ، رشوت وغیرہ سب شیطانی فعل ہیں۔ لہذا جو نظام بھی یہ تمام امور سرانجام دے رہا ہے، وہ طاغوتی ہے۔
جمہوریت اصل میں وہ نظامِ حکومت ہے جس میں عوام کے چنے ہوئے نمائندوں کی اکثریت رکھنے والی سیاسی جماعت حکومت چلاتی ہے اور عوام کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے۔ لہذا وہ جمہوری نظام جو کتاب و سنت کے مطابق ہو، وہ طاغوتی نظام نہیں ہے بلکہ اصل میں حقیقی جمہوریت ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی پوری زندگی ہمارے لیے نمونۂ حیات ہے، آپ ﷺ نے کبھی کوئی فیصلہ ایسا نہیں کیا جو جمہوری نہ ہو۔ اسی طرح صحابہ کرامl نے بھی آپ ﷺ کی سنت مبارکہ کو ہی اپنایا اور لوگوں کی رائے کا احترام کیا۔ یہ الگ بات کہ آج کل جمہوریت کے نام پر لوگوں کو سادہ اور جاہل سمجھ کر دھوکہ دیا جا رہا ہے اور دن رات جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے لیکن ایک ذرہ برابر بھی جمہوریت پر عمل نہیں کیا جا رہا ہے۔
جس طرح کتے کو بکرا کہنے سے وہ بکرا نہیں بن جاتا، اسی طرح غنڈہ گردی، دھوکہ دہی، کرپشن اور آمریت کو جمہوریت کہنے سے یہ نظام جمہوری نہیں بن سکتا۔ لہذا جو اصول وضوابط ہمیں کتاب وسنت نے دے دیے ہیں، اب انسانوں ہی کی ذمہ داری ہے کہ ہر دور کے تقاضوں کے مطابق قرآن وحدیث کو سامنے رکھتے ہوئے ان اصول و ضوابط کے مطابق نظام وضع کریں اور عوام کے لیے زیادہ سے زیادہ آسانیاں پیدا کریں اور انہیں ہر طرح کی جائز سہولیات مہیا کریں۔قرآن مجید میں اللہ تعالی نے جمہوریت کو فروغ دیا ہے یعنی مشورے سے معاملات چلانے کا حکم ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَشَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللهِ اِنَّ اللهِ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ.
(آل عمران،3: 159)
’’ اور (اہم) کاموں میں ان سے مشورہ کیا کریں، پھر جب آپ پختہ ارادہ کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کیا کریں، بے شک اللہ توکّل والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
وَ الَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّھِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ.
(الشوری، 42: 38)
’’ اور جو لوگ اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور اُن کا فیصلہ باہمی مشورہ سے ہوتا ہے اور اس مال میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا ہے خرچ کرتے ہیں۔‘‘
المختصر یہ کہ قرآن وحدیث کے اصولوں کے مطابق لوگوں کی رائے سے نظام وضع کیا جائے جس میں حکمران عوام کے سامنے جوابدہ ہوں اور اس نظام میں ہر ایک کی عزت وناموس اور جان ومال کا تحفظ ہو اور تمام تر ضروریات زندگی با آسانی دستیاب ہوں۔
اس موقع پر سورۃ المائدہ کی درج ذیل آیت مبارکہ کے مفہوم کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔
وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللهِ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ.
(المائدۃ،5: 44)
’’ اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و حکومت) نہ کرے، سو وہی لوگ کافر ہیں۔‘‘
مذکورہ بالا آیت مبارکہ کی وضاحت میں جسٹس پیر کرم شاہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں فرمایا کہ جو لوگ اللہ کے نازل کیے ہوئے احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ کافر ہیں۔ اسی سورۃ کی آیت نمبر 45 میں ایسے لوگوں کو ظالم کہا گیا اور آیت نمبر 47 میں ایسے لوگوں کو فاسق کہا گیا۔ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ یہ آیات صرف یہودیوں اور عیسائیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ لیکن یہ درست نہیں کیونکہ کسی خاص شخص کے متعلق کسی آیت کے نازل ہونے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ آیت بس اسی سے مخصوص ہو کر رہ گئی اور اب اس کا حکم کسی دوسرے شخص پر نافذ نہیں ہو گا۔ اس لیے صحیح یہی ہے کہ اسے یہود کے ساتھ مخصوص نہ کیا جائے بلکہ اس کا مفہوم عام رکھا جائے۔ چنانچہ علماء اہل سنت نے اس کا یہ معنیٰ بیان کیا ہے کہ
من لم يحکم بما انزل الله مستهينا به منکر اله.
یعنی جو شخص اللہ کے حکم کی توہین اور تحقیر کرتے ہوئے اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے گا، وہ کافر ہو گا۔ کیونکہ احکامِ شرعیہ کی توہین اور تحقیر کی صرف وہی جرأت کر سکتا ہے جس کا دل ایمان ویقین کے نور سے خالی ہو۔
علامہ بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے شخص کو کافر، ظالم اور فاسق کہنے کی بڑی لطیف وجہ بیان کی ہے۔ فرماتے ہیں :
فکفرهم الانکاره وظلمهم بالحکم بخلافه وفسقهم بالخروج عنه.
(تفسیر بیضاوی)
یعنی اس وجہ سے کہ انہوں نے احکامِ الہیہ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، وہ کافر ٹھہرے۔اس وجہ سے کہ انہوں نے اس قانون کو چھوڑ دیا جو عین عدل وانصاف تھا، وہ ظلم کے مرتکب ہوئے اور اس لیے کہ انہوں نے اللہ تعالی کی حدوں کو توڑا وہ فاسق کہلائے۔
اس کے بعد علامہ بیضاوی فرماتے ہیں کہ یہ بھی جائز ہے کہ یہ تینوں لفظ کفر، ظلم اور فسق احکامِ الہیہ سے سرتابی کرنے والوں کے مختلف حالات کے پیش نظر کہے گئے ہوں۔ یعنی اگر اس نے یہ سرتابی ازراہ تمرد وتحقیر کی تو وہ کافر ہے اور اگر دل میں انکار تو نہیں بلکہ ویسے حکم عدولی ہو گئی تو وہ ظالم وفاسق ہو گا۔
سچ تو یہ ہے کہ ان آیات کے بعد کسی مسلمان کے لیے کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ وہ اپنے لیے، اپنی قوم اور اپنی رعایا کے لیے ایسے قوانین تجویز کرے جو احکامِ خداوندی کے خلاف ہوں۔
(محمد کرم شاہ، ضیاء القرآن، 1: 474، 475)
مذکورہ بالا بحث کے مطابق احکامِ شرعیہ پر عمل نہ کرنے والا فاسق و ظالم ہو گا اور جو احکامِ شرعیہ پر عمل بھی نہ کرے بلکہ ان کو توہین وتحقیر کرے، وہ کافر ہو گا۔ طاغوت اور طاغوتی نظام کے خلاف جہاد ہر مسلمان پر فرض ہے، لیکن جہاد صرف قتال نہیں ہے۔ یعنی اسلحہ اٹھالیا اور جو ملے اس کو قتل کردیا، یہ جہاد نہیں ہے۔ اسی طرح مسلمانوں پر خود کش حملے بھی جہاد نہیں ہیں۔ بلکہ لوگوں میں شعور پیدا کرنا بھی جہاد ہے، جہالت ختم کرنا بھی جہاد ہے اور لوگوں میں تعلیم عام کرنا بھی جہاد ہے۔ لہذا پاکستان میں بھی جو ادارہ، تحریک یا جماعت طاغوتی نظام کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کر رہی ہے، لوگوں میں شعور پیدا کر رہی ہے اور بتا رہی ہے کہ اس نظام میں یہ یہ خرابیاں ہیں اور اس طاغوتی نظام کو ختم کرنے کے لیے پوری جد وجہد کر رہی ہے، وہی تحریک یا جماعت طاغوت کے خلاف جہاد کر رہی ہے۔ جو اس نظام کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ اس جہاد میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔
اس موضوع پر مزید مطالعہ کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی ان کتب’’دہشت گردی اور فتنہ خوارج‘‘، ’’اسلامی ریاست میں غیر مسلم کے جان ومال کا تحفظ‘‘، ’’سیاسی مسئلہ اور اس کا اسلامی حل‘‘ اور ’’میثاق مدینہ‘‘ کا مطالعہ فائدہ مند رہے گا۔
سوال: آج کا مسلمان ایمان کی تاثیر سے محروم کیوں ہے؟
جواب: آج کے دور میں ایمان کی تاثیر سے دوری کی بنیادی وجہ نوجوان نسل کا ایمان کے معنی و مفہوم سے نا واقف ہونا اور بحیثیت مجموعی امتِ مسلمہ کا ایمان کی حفاظت، اس کے تقاضے اور شرائط کو پورا نہ کرنا ہے۔ علاوہ ازیں اسلام دشمن طاقتوں کی نظریاتی، ثقافتی اور جذباتی سہ جہتی یلغار بھی امتِ مسلمہ کی بالعموم اور نوجوان نسل کی بالخصوص ایمان کی تاثیر سے محرومی کا سبب بن رہی ہے۔ کیونکہ نظریہ کسی بھی قوم، مذہب، تحریک یا تنظیم کے لئے اساسی درجہ رکھتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اقوام نظریے کی بنیاد پر بنتی اور قائم رہتی ہیں۔ جونہی نظریاتی اساس کمزور ہوئی، زوال و انتشار اقوام کا مقدر بن جاتا ہے۔
اس کی ایک سادہ اور عام فہم مثال یہ ہے کہ ایک درخت کی نشوونما کا دارومدار اس کی جڑ پر ہوتا ہے اور جڑ ہی درخت کی زندگی اور تروتازگی کا ذریعہ ہے۔ اگر جڑ میں نقص واقع ہو جائے تو درخت مرجھانا شروع ہو جائے گا پھر رفتہ رفتہ اس کے پتے، ٹہنیاں، پھل، پھول بوسیدہ ہو کر زمین پر گر پڑیں گے۔ اگر جڑ مضبوط ہو تو درخت توانا اور پھلدار ہو گا اور یہ خوراک حاصل کرنے اور دوسروں کے لئے حیات بخشی کا سامان بنے گا۔ بات ساری تاثیر کی ہے۔ جس طرح درخت میں ساری تاثیر جڑ اور تنے کی ہوتی ہے، اسی طرح نظریہ بھی اقوام میں جڑ کی حیثیت رکھتا ہے اور قوم کی ثقافتی، تہذیبی، مذہبی اور معاشرتی بقا اور سلامتی کی علامت ہوتا ہے۔
لہٰذا اگر موجودہ دور میں امتِ مسلمہ ایمان کی حلاوت پانا اور بحیثیت مجموعی ترقی کرنا چاہتی ہے تو اسے اپنے بنیادی نظریات اپنا کر اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالنا ہو گا وگرنہ گمراہی و پستی اور ذلت و غلامی اس کا مقدر بن جائے گی۔ اسی بات کی طرف قرآن مجید میں یوں رہنمائی کی گئی ہے:
اِنَّ اللهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ.
(الرعد، 13: 11)
’’ شک اللہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے آپ میں خود تبدیلی پیدا کر ڈالیں۔‘‘
سوال :کیا کلمہ طیبہ پڑھ لینا ہی نجات کے لئے کافی ہے؟
جواب: کلمہ طیبہ پڑھنے سے انسان دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتا ہے اور اسے ایمان کی دولت میسر آ جاتی ہے۔ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، تو آپ ﷺ سفید کپڑا اوڑھے سو رہے تھے۔ میں دوبارہ حاضر ہوا اس وقت بھی آپ ﷺ سو رہے تھے۔ پس میں تیسری بار حاضر ہوا تو آپ ﷺ بیدار ہو چکے تھے، میں آپ ﷺ کے پاس بیٹھ گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : جو شخص لا الٰہ الا اللہ کہے اور اسی اعتقاد پر اس کا خاتمہ ہو جائے تو وہ جنت میں جائے گا۔
(مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، باب من مات لا يشرک باﷲ شيئًا دخل الجنة و من مات مشرکا دخل النار،1 : 95، رقم : 94)
لیکن اس حدیث میں کلمہ طیبہ پڑھنے سے مراد احوال و اعمال کی اصلاح کے ساتھ کلمہ طیبہ پڑھنا ہے۔ کلمہ طیبہ پڑھنے کے بعد احوال و اعمال کی اصلاح کو نظرانداز کرنا اللہ کی گرفت کا باعث بنتا ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓ ءًا یُّجْزَ بِہٖ وَلَا یَجِدْ لَہٗ مِنْ دُوْنِ اللهِ وَلِیًّا وَّلَا نَصِیْرًا.
( النساء،4: 123)
’’ جو کوئی برا عمل کرے گا، اسے اس کی سزا دی جائے گی اورنہ وہ اللہ کے سوا اپنا کوئی حمایتی پائے گا اور نہ مددگار۔‘‘
اگر کسی کلمہ گو شخص نے اپنے گناہوں پر توبہ کی اور اس کی توبہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہوگئی تو وہ کلمہ گو شخص جنت میں جائے گا یا اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے اسے جنت میں داخل کر دے گا۔ اگر یہ دونوں صورتیں نہ ہوں تو پھر وہ کلمہ گو اپنے گناہوں کی سزا پانے کے بعد جنت میں جائے گا۔