مملکتِ خدادادِ پاکستان اس وقت بہت سے معاشرتی، معاشی، سیاسی اور اخلاقی مسائل کا شکار ہے۔ ان مسائل کو اگر الگ الگ بیان کیا جائے تو یہ ایک طویل فہرست ہے لیکن اگر ہم پاکستان کے درج ذیل صرف تین اہم بڑے مسائل کو حل کرلیں تو ہم اپنے مسائل پر کافی حد تک قابو پاسکتے ہیں:
1۔ پاکستان کے اہم ترین مسائل میں سے سرِ فہرست مسئلہ گورننس (طرزِ حکمرانی) کا ہے۔ بنیادی طور پر ہر چیز اس سے وابستہ ہے۔
2۔ دوسرا اہم ترین مسئلہ معیشت کی زبوں حالی ہے۔
3۔ تیسرا اہم ترین مسئلہ اخلاق و نظریہ کا فقدان ہے۔
اسی ترتیب سے اگر ان تینوں امور کے حل کی طرف متوجہ ہوا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی قوم میں اتنی قابلیت ہے کہ وہ ان تمام حالات سے نبرد آزما ہوکر از سرِ نو اپنے آپ کو مستحکم کر سکتی ہے، پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرسکتی ہے اور جس مملکت کا خواب علامہ اقبال اور قائد اعظم نے دیکھا تھا، اسے شرمندۂ تعبیر کرسکتی ہے۔
1۔ گورننس (طرزِ حکمرانی) کی اصلاح
ملکِ پاکستان کی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ اچھی گورننس (طرزِ حکمرانی) کا نہ ہونا ہے۔ اگر اسے بہتر کرلیا جائے تو تمام مسائل کا حل ممکن ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلا قدم Consistency of policies (پالیسیز کا تسلسل) ہے۔ یہ ایک ایسی کلید ہے جو اقوام اور ممالک کو بناتی بھی ہے اور تباہ بھی کرتی ہے۔ پاکستان کا سب سے زیادہ نقصان consistency of policy کے نہ ہونے نے کیا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے اس مثال میں غور کریں کہ اگر کسی ادارے کے سربراہ کو ہر سال بدلیں گے تو وہ ادارہ ترقی نہیں کرسکتا۔ اس کے برعکس اگر کوئی اہلیت والا سربراہ طویل عرصہ اس ادارے کی بہتری اور ترقی کے لیے میسر آجائے تو لامحالہ اپنی پالیسیز میں تسلسل کے ساتھ اس ادارے کو معیاری ادارہ بنا دیتا ہے ۔ یہی صورتحال ممالک کی بھی ہوا کرتی ہے۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے ہر اڑھائی تین سال بعد حکومت تبدیل ہوجاتی ہے۔ ہر نئی آنے والی حکومت پچھلی حکومت کے اقدامات کو کالعدم قرار دے دیتی ہے اور نئے فیصلے اور اعلانات کرتی ہے۔ ڈیڑھ دو سال میں ان پالیسیز کی قوم کو پوری طرح سمجھ نہیں آئی ہوتی کہ نئی حکومت آجاتی ہے اور پچھلی پالیسیز کو ختم کرتے ہوئے نئے اقدامات اٹھاتی ہے۔ اس طرح یہ سلسلہ ہمارے ہاں برسوں سے چلا آرہا ہے۔
بہت سارے ممالک مثلاً ساؤتھ کوریا، چین، ملائیشیا وغیرہ نے ہمارے ساتھ اپنی ترقی کا سفر شروع کیا، ان ممالک کا بغور جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے کم از کم تیس سے پینتیس سال کی اکنامک ڈویلپمنٹ پالیسیز بنائیں اور ایسے فورمز کی بنیاد رکھی کہ سیاسی سرگرمیاں اورتبدیلیاں ان پالیسیز کے تسلسل کو متاثر نہیں کرتیں۔ ان ممالک میں سیکیورٹی کونسل، نیشنل پالیسی کونسل، اکنامک کونسل اور اس طرح کے مختلف ناموں سے فورمز موجود ہیں۔ انڈیا نے اپنی آزادی کا سفر ہمارے ساتھ شروع کیا۔ 1947ء سے 1992ء تک تسلسل کے ساتھ انہوں نے ایک پالیسی قائم رکھی اور اس عرصہ کے دوران انہوں نے اپنی انڈسٹریز کو ترقی دی۔
جبکہ ہمارے ہاں پالیسیز کی تبدیلی اس کثرت سے ہوئی ہے کہ اس طرزِ عمل نے ہمیں ترقی کے راستے پر گامزن ہی نہیں ہونے دیا۔ اس لیے ضروری ہے کہ سیاسی عدمِ استحکام کو ختم کیا جائے۔ انتخابات اور دیگر سیاسی و انتخابی معاملات جمہوری انداز سے بے شک چلتے رہیں لیکن کچھ ایریاز ایسے ضرور ہونے چاہئیں کہ جنھیں پاکستان کے تمام سٹیک ہولڈرز مل کر ایسا تحفظ مہیا کردیں کہ اگلے بیس تیس سال ان پالیسیز کو کوئی بھی حکومت تبدیل نہ کرسکے۔ یہ تسلسل بذات خود ملک کو مضبوط کرتا رہے گا۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی بنیادی وجہ سیاسی ناپختگی (Political Immaturity) ہے کہ ایک سیاسی جماعت دوسری جماعت کو اپنا دورانیہ پورا نہیں کرنے دیتی اور پھر جب اس کا دورِ حکومت آتا ہے تو پہلی جماعت اپوزیشن میں نہیں بیٹھنا چاہتی۔ پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر ساز باز اور گٹھ جوڑ کے ذریعے حکومتوں کو گرایا جاتا ہے۔ یہ دراصل اقتدار کی لالچ کا شاخسانہ ہے۔ جب تک پاکستان کی سیاسی جماعتیں اپنے اندر سیاسی پختگی اور شعور پیدا نہیں کرتیں اور ان بہت سارے بحرانوں کے نتیجے میں ملک کے نقصانات کو نہیں سمجھتیں، اس وقت تک استحکام نہیں آسکتا۔
سیاسی جماعتوں کو اپنی غلطیوں سے سیکھنے اور سیاسی پختگی اور شعور حاصل کرنے میں ایک وقت لگے گا، تب تک ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز، سپریم کورٹ آف پاکستان، وفاقی اور صوبائی حکومتیں، سیاسی جماعتیں، ٹیکنوکریٹس، ماہرین ، دانشور، صنعت کار، چیمبرز آف کامرس یہ سارے مل کر اتفاق سے اسی طرح کوئی کونسل قائم کریں جس طرح اتفاق رائے سے نیشنل سیکیورٹی کونسل قائم کی گئی ہے یا نیشنل سیکیورٹی کونسل ہی کے دائرہ کار کو وسیع کرلیں اور اس کے اندر انرجی، آئی ٹی، ایگریکلچر، ٹیکسٹائل اور اس طرح کے دیگر بڑے سیکٹرز کو شامل کرلیں اور ان تمام میادین میں ملکی مفادات کے مطابق پالیسیز بناکر 20/10 سال کے لیے انھیں اس کونسل کے تحت کردیا جائے۔ اس کونسل میں عہدوں کی تبدیلیاں بےشک ہوتی رہیں لیکن پالیسی کے تسلسل کو کوئی حکومت روک نہ سکے۔ اس طرح ایک طرف سیاسی جماعتیں اپنی غلطیوں سے سیکھتے سیکھتے خود سیاسی لحاظ سے باشعور ہو جائیں اور دوسری طرف حکومت اور دیگر سٹیک ہولڈرز ملکی مفادات پر مبنی پالیسیز کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھیں تو پالیسیز میں یہ تسلسل پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
2۔ معاشی زوال کی بنیادی وجہ بیرونی قرضے ہیں
ہمارا دوسرا اہم مسئلہ معیشت کی زبوں حالی ہے۔ معیشت کی ترقی کےلیے بیرونی قرضوں سے نجات ضروری ہے۔ بنیادی طور پر ممالک کے اوپر قرضے ہواکرتے ہیں۔ جب کسی ملک کی بنیادیں رکھی جاتی ہیں تو وہ ملک پہلے دن سے ہی معاشی طور پر مستحکم نہیں ہوتالیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ پاکستان مسلسل بیرونی قرضوں کے نیچے دبتا چلا جارہا ہے اور پھر اس میں نہ صرف تسلسل سے اضافہ ہورہا ہے بلکہ سود بھی دینا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں جن اداروں سے قرض حاصل کرتے ہیں، ان کی سخت پالیسیز اور پابندیوں کو بھی ماننا پڑتا ہے۔ یہ عمل بھی ہماری آزادی اور معاشی ترقی کو متاثر کرتا ہے۔
آئی ایم ایف، پیرس کلب اور دیگر ادارہ جات پر اپنی معیشت کے حوالے سے اعتراض ، غصہ اور بھڑاس نکالنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اس لیے کہ یہ ان اداروں کا بزنس اور کاروبار ہے۔ یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ کیا ہمیں ان سے وہ سروسز لینی ہیں یا نہیں لینی؟
(1)قرض سے نجات کا ماڈل
ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے اور بیرونی قرضوں سے نجات کے لیے میں نے مسلم کامن وقف کا ماڈل پیش کیا ہے اور اسے مختلف نیشنل اور انٹرنیشنل پلیٹ فارمز پر بیان بھی کرچکا ہوں۔ کئی ممالک بشمول ملائیشیا اور انڈونیشیا میں اس ماڈل کو پذیرائی بھی حاصل ہوئی۔ پاکستان کے لئے میں نے نیشنل کامن وقف پول کا نام تجویز کیا ہے۔ وقف (endowment) در حقیقت اسلامک سوشل فنانس کا ایک ٹول ہے۔ یہ اسلامی تاریخ کے اندر ایک مؤثر چیز اور لائحہ عمل ہے جو مسلم ممالک کو معاشی طور پر مستحکم کرتا رہا ہے۔ آج بھی ملائیشیا اور کئی وسطی ایشیائی ممالک کے اندر اسے استعمال کرکے بڑے بڑے اقدامات کیے گئے۔ جامعہ الازہر جیسے ادارے وقف سے قائم ہیں۔ ترکی میں بڑی بڑی جامعات، ہسپتال وقف سے بنائے گئے ہیں۔ ملائیشیا کے اندر پل، روڈ انفراسٹرکچر، ہسپتال، جامعات اور بہت کچھ وقف سے بنایا جاتا ہے۔
بنیادی طور پر اس ماڈل کے تحت ایک فنڈ قائم کیاجاتاہے اور پھر اس فنڈ کو قوم و ملک کی بہتری کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے۔ جبکہ ہم عوامی فلاحی منصوبوں کے لیے یہ کرتے ہیں ہم سود پر دیگر ممالک سے پیسہ لیتے ہیں، ان کی سرمایہ کاری کرواتے ہیں اور پھر بھاری سود کی قسطوں کے ساتھ مسلسل واپس کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح ہم کبھی قرضوں سے نجات پاسکیں گے اور نہ ہی ترقی کی طرف سفر کرسکیں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم وقف فنڈ قائم کریں۔
ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس فنڈ کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام نے ہمیں جتنے بھی صدقہ و خیرات کے طریقے بیان کیےہیں، مثلاً: زکوٰۃ، صدقہ و خیرات، وہ جائیداد اور مال جو لوگ وقف کردیتے ہیں ، بہت ساری انڈسٹریز ہیں جو کسی نیک مقصد پر خرچ کرنا چاہتی ہیں، انھیں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے اندر بہت پیسہ ہے، اوورسیز پاکستانیوں کے پاس بہت پیسہ ہے۔ ان کو ضرورت صرف اعتماد کی ہے کہ ان کا بھیجا ہوا پیسہ صحیح استعمال میں آئے۔
یہ ایک آزادانہ وقف ہو جس کے احتساب کا بھی ایک مؤثر نظام ہو اورلوگوں کو بھی اس پر اعتماد ہو۔ اس ادارہ کی آزادانہ شناخت ہو، یہ براہ راست حکومت کا ادارہ نہ ہو۔ اس فنڈ کی گورننگ باڈی غیر متنازع ، صاف ستھرے اور اہل لوگوں پر مشتمل ہو جو اس کے انتظام و انصرام کو چلائے تو اس ماڈل کے ذریعے ہم اپنے معاشی مسئلہ کو حل کرتے ہوئے ترقی کی جانب گامزن ہوسکتے ہیں اور بیرونی قرضوں سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔
اس وقف فنڈ سے انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ ہو، سڑکیں، ہائی وے، ہسپتال اور جامعات اس فنڈ سے قائم ہوں۔ اس فنڈ کے ذریعے حکومت کے سالانہ بجٹ کے خسارے کو پورے کرنے کے لیے حکومت کو بلاسود قرض دیا جائے، اس کے ذریعے حکومت سرمایہ کاری کرے اور اسی وقف فنڈ کے ذریعے قرض کی ادائیگی کے سلسلے میں بھی حکومت کی مدد کی جائے۔ اگر حکومت پاکستان ان لوگوں کو جمع کرکے ان کی گورننس میں اس ادارے کو قائم کرنے میں کامیاب ہوجائے تو پاکستان کے اندر موجود ہر صنعت کار ، کاروباری شخصیت ، پیسہ رکھنے والا طبقہ معاونت کے لیے آگے آجائے گا اور پاکستان کے اندر باضابطہ ایک بہت بڑا فنڈ قائم ہوجائے گا۔ اس طرح ہمیں اپنی معیشت کا پہیہ چلانے اور ملکی ترقی کے لیے دیگر ممالک کی طرف نہیں دیکھنا پڑے گا اور ہمارے قرض کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔
اس کے علاوہ ایک حل یہ بھی ہے کہ وہ ادارے اور ممالک جنھوں نے ہمیں قرض دے رکھا ہے، ان سے ڈائیلاگ کرکے قرض کو اور سرمایہ کو equity میں تبدیل کریں۔ ان کو شیئرز دیں تاکہ سود کے سلسلہ میں کی جانے والی ادائیگیاں کسی حد تک کم ہوں اور بالآخر اس سے خلاصی ممکن ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم اس فنڈکو بھی قائم رکھیں تاکہ ہمیں آئندہ قرض کی طرف نہ جانا پڑے۔
ہمارے ہاں ideas بہت اچھے بنتے ہیں لیکن عملدرآمد نہیں ہوتا۔ ہم اچھے Ideas کو بھی عمل میں ڈھالنے میں اس لیے ناکام ہوجاتے ہیں کہ جنھوں نے رائے دی ہوتی ہے، انھیں اس پراجیکٹ سے باہر کردیا جاتا ہے اور نئے لوگوں سے عملدرآمد کروایا جاتا ہے۔ وہ Idea کی ایسی شکل بنا دیتے ہیں کہ جس سے وہ idea بھی پٹ جاتا ہے اور اس سے نتائج بھی پیدا نہیں ہوتے۔
ان تمام کاموں کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کے اندر ڈائیلاگ کے باضابطہ فورم موجود ہوں۔ عموماً پاکستان کے اندر ایسے فورم موجود نہیں جہاں پر کار آمد مکالمے ہوں۔ اگر حکومت چاہے تو وہ کسی سے کسی خاص موضوع پر خاص احباب سے رابطہ کرتی ہے اور وہ لوگ تحریری طور پر حکومت کو اس موضوع پر کوئی پالیسی اور آئیڈیا دے دیتے ہیں۔ یہ بھی تب ممکن ہوتا ہے جب حکومت کو سیاسی معاملات سے کچھ فرصت ہو۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں حکومت کو سیاسی معاملات سے فرصت نہیں کہ اس طرح کے ادارہ جات یا افراد سے رابطہ کرکے پالیسی میکنگ کرسکیں۔
اسی طرح ہماری حکومتیں دوسرے ممالک کے برعکس یونیورسٹیز اور ریسرچ سنٹرز کے ساتھ کام بھی نہیں کرتیں۔ اس صورت حال میں اپنا کردار ادا کرنے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ مختلف فورمز اور کانفرنسز کی شکل میں پاکستان کے اندر اور پاکستان سے باہر جہاں ہمارے حکومتی نمائندے بھی بیٹھے ہوتے ہیں، اس قسم کی پالیسیز تحریر اور خطابات کی شکل میں پیش کی جائیں۔ میں نے جس جگہ پر یہ ماڈل پیش کیا، وہاں پر پاکستان کے ذمہ دار حکومتی نمائندے اور دیگر ممالک کے نمائندے بھی موجود تھے۔ پاکستان کے احباب یہ سب سن کر چلے گئےلیکن انڈونیشیا، ملائیشیا اور کچھ دیگر ممالک کے نمائندوں نےاس کانفرنس کے بعد مجھ سے رابطہ کیا۔ میں نے انھیں یقین دہانی کروائی کہ ان کے ملک کے تناظر میں کام کرکے انھیں مہیا کردوں گا۔ اس حوالے سے ابھی ہماری گفتگو جاری ہے ۔ پاکستانی حکومت کی طرف سے اس حوالے سے کچھ رابطہ نہیں ہوا۔ کچھ عرصہ قبل ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے کچھ احباب تشریف لائے اور انھوں نے اس ماڈل اور آئیڈیا کے اندر دلچسپی ظاہر کی۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ دوسرے لوگ تو اس ماڈل سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں مگر ہمارے صاحبانِ اقتدار جاننے کے باوجود اسے فراموش کررہے ہیں۔
(2) بے روزگاری کے تدارک کے ماڈل
ہمارے تعلیمی ادارہ جات بے روزگار پیدا کرنے کے ادارے بن چکے ہیں۔ ملک سے بے روزگاری ختم کرنے کے لیے درج زیل دو اقدامات کی اشد ضرورت ہے:
1۔ Capacity bulding کی ضرورت۔ ہماری انڈسٹریز میں تعلیمی ادارہ جات سے نکلنے والے طلبہ کو Accomodate کرنے کی گنجائش موجود نہیں ہے۔ اس حوالے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اس سلسلہ میں اہم سوال یہ ہے کہ تعلیمی ادارے اس حوالے سے کیا کرسکتے ہیں؟ میرے خیال میں تعلیمی اداروں اور صنعتی اداروں کا ایک سمت میں پر ہونا صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ امریکہ، یورپ، آسٹریلیا اور دیگر ممالک کے تعلیمی ادارے بھی انڈسٹریز کے مطابق 100 فیصد افرادی قوت پیدا نہیں کررہے۔ اس لیے اس مسئلہ کو بین الاقوامی سطح پر زیرِ بحث آنا چاہیے۔ پاکستان میں یونیورسٹیز باقاعدہ ایک حکومتی ادارہ کے تحت چلتی ہیں۔ وہ بہت کچھ چاہنے کے باوجود بھی بہت ساری تخلیقی سرگرمیاں نہیں کرسکتی جو اس طرح کے خلا کو پر کرسکیں۔ دوسرے ممالک میں حکومتیں تعلیمی اداروں کو آزادی دیتی ہیں کہ وہ مارکیٹ اور انڈسٹریز کی ضرورت کے مطابق نئے نئے پروگرامز کو متعارف کروا ئیں اور انڈسٹری کی ضرورت کو پورا کریں۔ لہذا جونہی کوئی طالب علم گریجوایٹ ہو تو انڈسٹری اس کو فوراً کسی ذمہ داری پر فائز کردیتی ہے۔ پاکستان میں کوئی بھی نیا پروگرام لے آئیں تو عموماً اس کو منظور کروانے کے لیے ڈیڑھ دو سال لگ جاتے ہیں اور اس پروگرام کو اتنا عرصہ اختیار نہ کرنے کے سبب ہم دنیا میں اس حوالے سے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔
اس صورت حال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں انڈسٹریز تعلیمی اداروں کے ساتھ تعاون کریں اور اپنی عملی ضروریات کے مطابق تعلیمی اداروں کے ساتھ نصاب سازی کے مرحلہ سے ساتھ شریک ہوں اور تعلیم دورانیہ میں ہی طلبہ کو اِن کا پریکٹیکل کروایا جائےتاکہ بعد ازاں بچوں کو ٹریننگ کی ضرورت نہ پڑے اور یونیورسٹی سے فارغ ہوتے ہی انہیں روزگار مل جائے۔
2۔ بے روزگاری ختم کرنے کےلیے دوسرا قدم entrepreneurship ہے یعنی چھوٹے کاروبار کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ نوجوان خود اپنے پیروں پر کھڑے ہوجائیں اور انھیں کسی پر انحصار نہ کرنا پڑے۔ پاکستان میں کم و بیش 85 لاکھ بے روزگار ہیں اور تقریباً نو کروڑ سے زائد افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ ان تمام افراد کو روزگار فراہم کے لیے اس سسٹم میں گنجائش نہیں ہے۔ یہ مسئلہ مکمل طو رپر تب حل ہوگا جب اپنا روزگار ہوگا۔ عوام کچھ نہ کچھ خود کرے اور دیگر ادارے بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اس کام میں اپنا حصہ شامل کریں۔
اس کے لیے میں نے زکوٰۃ اور مائیکرو فنانس کے نام سے چند سال قبل ایک ماڈل پیش کیا تھا۔ اس ماڈل کا خلاصہ یہ ہے کہ 2020ء کے مطابق پاکستانی عوام سے حکومت تقریباً ساڑھے سات ارب روپے زکوٰۃ جمع کرتی ہے۔ اگر کارکردگی کو تھوڑی سا بہتر کیا جائے تو تقریباً دس ارب روپے حاصل ہوسکتے ہیں۔ حکومت اس زکوٰۃ کو اس طرح تقسیم کرتی ہے کہ وہ کچھ حصہ مستحق افراد میں تین تین ہزار روپے کرکے کمیٹیوں کے ذریعے تقسیم کردیتی ہے، کچھ حصہ یتیم بچیوں کی شادیوں یا اس طرح کی دیگر مدات میں خرچ کردیا جاتا ہے لیکن بہت سارا پیسہ کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے۔ میں نے تجویز کیا ہے کہ پبلک اور پرائیویٹ پارٹنرشپ (سمیڈا، این جی اوز، نجی اداروں) کو ملاکر دس ارب روپے کا ایک فنڈ قائم کیا جائے۔ یعنی ایک زکوٰۃ پول ہو اور اس سارے فنڈکو زکوٰہ پول کی مِلک(ملکیت) میں دے دیا جائے۔ یہ زکوٰۃ فنڈ کسی اور مصرف میں استعمال نہیں ہو گا۔ اس کے مصارف وہی رہیں گے جو اللہ اور اس کے رسولﷺ نے بیان فرمائے ہیں۔ لیکن اس کا طریقہ کار مختلف ہوگا۔
اس فنڈ کی Re-financing کی جائے اور سالانہ بنیادوں پر اڑھائی لاکھ روپے فی حصہ کی شکل میں چالیس ہزار افراد میں چھوٹے چھوٹے کاروبار کے آغاز کے لیے بلاسود قرض کے طور پر تقسیم کردیا جائے۔ ان دو اڑھائی لاکھ روپے سے وہ طلبہ جو فری لانسنگ سے وابستہ ہیں، وہ لیپ ٹاپ لے سکتے ہیں، دیگر آلات لے سکتے ہیں یا چھوٹا بزنس، سٹال، رکشہ، فوڈ ڈیلوری وغیرہ شروع کرسکتے ہیں، علاوہ ازیں بھی بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح ایک سال میں چالیس ہزار غریب بے روزگاروں کو برسرِ روزگار کردیا جائے۔
پانچ سال کی مدت کے لیے دیے گئے اس قرضِ حسنہ کی واپسی کا طریقہ کار یہ ہوگا کہ ہر ماہ تقریباً 4166 روپے واپس کیے جائیں گے۔ اتنی ماہانہ قسط کسی پر بوجھ بھی نہ ہوگی۔ اگلے پانچ سال میں یہ رقم اس زکوٰۃ پول میں واپس آجائے گی۔ اگلے سال کے آخر میں اس فنڈ میں دو ارب بصورتِ واپسی قرضہ موجود ہوگی اور دوبارہ سے دس ارب یا اس سے زائد رقم حکومت زکوٰۃ کی مد میں جمع کرکے اس پول میں رکھے گی۔ اس طرح اب اس پول میں 12 ارب روپے کی خطیر رقم موجود ہوگی۔ پچھلے سال اگر اس فنڈ سے چالیس ہزار لوگوں کی مدد کی تھی تو اگلے سال اس سے زائد لوگوں کی مدد ممکن ہوسکے گی۔ اس طرح پانچ سال میں تقربیاً تین لاکھ لوگوں کو روزگار مہیا کردیا جائے گا اور دوسری طرف یہ لوگ زکوٰۃ لینے والوں کی فہرست سے بھی نکل جائیں گے۔
ó اس کے علاوہ ایک اور صورت یہ ہے کہ پورے ملک میں NGO’s اور انفرادی طور پر عوام بھی رمضان المبارک میں زکوٰۃ تقسیم کرتی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق یہ رقم ایک ہزار ارب روپے بنتی ہے جو پاکستان سے ہی پیدا ہوکر پاکستان میں ہی تقسیم ہوتی ہے۔ ہر کوئی اپنی مرضی سے کچھ نہ کچھ کرتا ہے لیکن منظم انداز میں نہ ہونے کے سبب یہ سب کسی ایک بڑے مقصد کے لیے استعمال نہیں ہورہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت پر لوگوں کو اعتماد نہیں ہے۔ اگر سب لوگ اپنے اپنے طور پر زکوٰۃ کی رقم تقسیم کرنے کے بجائے اس زکوٰۃ پول کے ذریعے منظم ہوں تو اس صورت میں پانچ سال میں تین کروڑ ملازمتیں پیدا ہوتی ہیں۔ ملک میں نو کروڑ افراد خطِ غربت سے نیچے ہیں، پچاسی لاکھ بے روزگار ہیں تو اب اس طریقے سے تین کروڑ لوگوں کی مالی طور پر معاونت ہورہی ہے۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ کہ Brain Drain کا عمل رک جائے گا۔ 2023ء میں 16 لاکھ سے زائد لوگ پاکستان چھوڑ گئے، اس اقدام سے یہ شرح بھی کم ہوگی۔ جب لوگوں کے پاس خرچ کرنے کے لیے وسائل ہوں گے تو ملک کی معاشی حالت دن بہ دن بہتر ہوتی چلی جائے گی۔
3۔ تعمیرِ اخلاق اور تعلیمی نظام کی اصلاح
پاکستان کے اہم ترین مسائل میں سے تیسرا اہم مسئلہ اخلاق و نظریات کا ہے۔ اخلاقیات کو بہتر کرنے اور سنوارنے کا آغاز تعلیم سے ہوتا ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام ایک انقلابی تبدیلی کا متقاضی ہے۔ پاکستان کے اندر تعلیم مہیا کرنے والے دوبنیادی طبقات ہیں:
1۔ سیکولر، ماڈرن ادارہ جات جن میں سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز
2۔ مذہبی ادار ے اور علماء کرام
ان دونوں اداروں میں اصلاحات اور ریفارمز کی اشد ضرورت ہے۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے یونیورسٹیز اور کالجز کے طلبہ میں بے مقصدیت پیدا ہوگئی ہے اور کسی بھی قوم کو تباہ کرنے کے لئے یہ ایک بہت بڑا زہر قاتل ہے۔ جب بھی زندگی میں بے مقصدیت آجائے تو اس خلاء کو مادیت پرستی اور مادی افکار جکڑ لیتے ہیں۔ نتیجتاً نظریہ، مذہب اور اخلاق پیچھے رہ جاتے ہیں کیونکہ ان مادی خواہشات اور مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے کوئی حدود و قیود نہیں ہیں۔ بنیادی طور پر اخلاق اور اقدار ہی وہ حدود و قیود ہوا کرتی ہیں جو انسان کو بے مقصدیت اور بے جا خواہشات سے روکتی ہیں اور مذہب ان حدود یعنی اخلاق اور اقدار کو مقرر کرتا ہے اور انسان کو محدود کرتا ہے۔ بدقسمتی سے اس بے مقصدیت نے نوجوانوں کے اخلاقی معیار کو نیچے لانے میں کردار ادا کیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان ادارہ جات کے اندر تعلیمی اسناد کے ساتھ ساتھ اخلاقی معیار کو بہتر کرنے پر بھی توجہ مبذول کی جائے۔
فروغِ تعلیم میں مصروف دوسرا طبقہ مذہبی طبقہ ہے۔ بدقسمتی سے حالات سے مایوس اور بے مقصدیت کا شکار طلبہ و طالبات جب مذہبی طبقے کی طرف دیکھتے ہیں تو یہ طبقہ انھیں فرقہ وارانہ مباحث میں مبتلا نظر آتا ہے۔ نوجوان نسل جب مذہبی طبقہ کو اس حال میں دیکھتی ہے کہ وہ امت بالخصوص نوجوان نسل کو عمل کی طرف راغب کرنے، ان کے ڈپریشن کو ختم کرنے اور انھیں روحانی طور پر بلند کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر فتوے لگانے، طعن زنی کرنے اور ایک دوسرے کے مسلک کی کمزوریوں کو اجاگر کرنے میں مصروف ہیں تو وہ ان کی طرف جانے کا خیال بھی دل سے نکال دیتے ہیں۔ اب ان کے پاس ڈپریشن میں جانے، مایوسی یا بغاوت کرنے کے سوا کوئی اور چارا نہیں ہوتا۔ اس ساری صورتِ حال میں دونوں طبقات کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہیے۔ اگر گورننس مضبوط ہو تو ان دونوں طبقات کو بھی اچھے اور منظم طریقے سے چلایا جاسکتا ہے۔ جیسے ملائیشیا اور کئی دیگر ممالک کے اندر ہوتا ہے لیکن چونکہ ہمارے پاس گورننس کا شعبہ کمزور ہے، اس وجہ سے یہ دونوں طبقات آزاد نظر آتے ہیں اور معاشرے کے اندر غیر ارادی طور پر خرابی کے ذمہ دار قرار پاتے ہیں۔
یاد رکھیں! معاشرتی تربیت کا آغاز تعلیمی اداروں سے ہوتا ہے۔ معاشرتی تربیت کو کلیتاً مذہبی رہنماؤں اور علماء کی ذمہ داری قرار دے کر بری الذمہ بھی نہیں ہوا جاسکتا۔ ہم نماز جمعہ کے لیے آدھے گھنٹے کے لیے جاتے ہیں اور خطیب کی گفتگو کو یا تو نظر انداز کردیتے ہیں یا کچھ دیر کے لیے یاد رکھتے ہیں۔ اس لیے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے متنازع امور پھیلنے کے سبب لوگ مذہب سے دوری اختیار کررہے ہیں۔ تعلیمی ادارے، میڈیا اور ہمارے گھر ہماری تربیت گاہیں ہیں۔ یہاں سے اقوام کی تربیت ہوتی ہے۔ عمل قوم کے اندر کتب کے ذریعے نہیں بلکہ تربیت کے راستے سے داخل ہوتا ہے۔ کتب سے صرف مذہبی رسومات کی اہمیت کو اجاگر کرسکتے ہیں اور لوگوں کے لیے اسے سمجھنا آسان ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی مذہبی رسوم کو کس طرح ادا کریں۔ لیکن مذہب کو ایک طرزِ حیات (لائف سٹائل) کے طور پر اپنانا، مذہب کی بتائی ہوئی اخلاقیات کو اختیار کرنا اور اخلاقی حدود و قیود کے مطابق زندگی گزارنا مشکل ہوتا ہے۔ یہ سب تربیت سے ہی ممکن ہے۔ افسوس کہ ہم نے تربیت کے عمل کو کلیتاً ختم کردیا ہے۔
آج تعلیمی ادارے تربیت کرتے ہیں اور نہ حکومت اس قابل ہے۔ سنگاپور جیسی حکومت کے سربراہان ہفتہ وار نیشنل ٹی وی پر جب لیکچر دیتے تھے تو وہ قوم کے ساتھ کھانے، پینے، لباس اور باہمی ادب و احترام کے موضوعات پر بھی گفتگو کرتے تھے۔ جب یہ طرزِ عمل ہو تو قومیں بنتی ہیں۔ آقا علیہ السلام نے بطورِ سربراہ مملکت اٹھنے، بیٹھنے یہاں تک کہ کپڑے کے رنگ کے انتخاب پر بھی صحابہ کرامl کی تربیت فرمائی۔ ان چیزوں سے قومیں بنتی ہیں۔ ہمارے ہاں اس چیز کا فقدان ہے۔ ہمارے ہاں نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج و عمرہ کی صورت میں عبادات بھی جاری ہیں لیکن روزمرہ امور کے اندر دھوکہ دہی اور فریب بھی ہے۔ ہم اپنے لائف سٹائل کو مذہب سے لاتعلق کردیتے ہیں۔ معاشرتی تربیت نہ ہونے کے سبب ہمارے ذہنوں میں یہ تصور پیدا ہوگیا ہے کہ شاید صرف نماز، روزہ ہی مذہب ہے اور لائف سٹائل کا تعلق مذہب سے نہیں ہے۔ اس تصور کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر لمحہ لامذہبیت کا فتنہ سوشل میڈیا کے ذریعے بڑھ رہا ہے۔ ہم بطور پاکستانی تشکیک کا شکار (Confused) قوم ہیں۔ ایک طرف ہم مذہب پر طعن کے تیر برساتے ہیں کہ مذہب ایسا ہے، دقیانوس ہے اور یہ ہمیں دنیاوی حوالے سے ترقی نہیں کرنے دیتا اور پھر اسی بناء پر ہم مذہبی تعلیمات پر عمل بھی ترک کردیتے ہیں۔ دوسری طرف سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس مذہب نے ہمیں اخلاقیات دینی ہیں، حدود مقرر کرنی ہیں، ہم اسے ہی ترک کردیتے ہیں اور پھر اس کے بعد روتے بھی رہتے ہیں کہ ہماری اخلاقیات تباہ ہوچکی ہیں۔ ملک کے اندر ترقی یا تو اخلاقیات کے راستے آتی ہے یا روایات اور ثقافت سے یا مذہب سے آتی ہے۔ جیسے جاپان، وہاں مذہب نہیں لیکن وہاں اخلاقیات اور روایات کے ذریعے ترقی آئی۔ ہم نے روایات کو بھی چھوڑ دیا، ثقافت بھی مخصوص نہیں ہے اور مذہب سے بھی پیچھا چھڑانے پر تلے ہیں۔ اس صورتِ حال میں ترقی کیونکر ممکن ہے۔
(جاری ہے)