ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
قرآن مجید میں 38 آیات ایسی ہیں جن میں اطاعتِ الٰہی اور اطاعتِ رسول ﷺ کا ذکر آیا ہے۔ ان 38 میں سے 20 آیات ایسی ہیں جن میں اطاعتِ الٰہی اور اطاعت رسول کا ذکر اکٹھا آیا ہے اور 18 آیات ایسی ہیں جن میں صرف اطاعتِ رسول ﷺ کا حکم ہے اور لفظاً اطاعتِ الٰہی کا حکم نہیں ہے یعنی فقط اطاعتِ رسول کے حکم پر اکتفا کیا گیا۔ اس کے برعکس پورے قرآن مجید میں ایک آیتِ کریمہ بھی ایسی موجود نہیں جس میں فقط اطاعتِ الٰہی کا ذکر ہو۔ اس سے یہ بات صراحتاً واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا راستہ اطاعتِ رسول ہے۔۔۔ ایمان باللہ کا راستہ ایمان بالرسول ہے۔۔۔ عقیدۂ توحید کا صحیح راستہ عقیدۂ رسالت ہے۔۔۔ قرآن مجید کو حجت ماننے کا راستہ حضور نبی اکرم ﷺ کی حدیث و سنت کی حجیت کو ماننا ہے۔
اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے حکم پر مبنی آیات
وہ آیات جن میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کا اکٹھا ذکر آیا ہے، ان میں سےچند آیات ملاحظہ ہوں:
1۔ قُلْ اَطِیْعُوا اللهَ وَالرَّسُوْلَ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللهَ لاَ یُحِبُّ الْکٰـفِرِیْنَ.
(آل عمران،3: 32)
’’ آپ فرما دیں کہ اللہ اور رسول (ﷺ) کی اطاعت کرو پھر اگر وہ روگردانی کریں تو اللہ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔ ‘‘
اس آیت کریمہ میں یہ بات قابلِ غور ہے کہ کس چیز سے پھرنے پر کفر کا حکم لگایا جارہا ہے؟ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ دونوں کی اطاعت سے پھرنے پر یہ حکم ہے یا دونوں میں سے کسی ایک کی اطاعت سے پھرنے پر یہ حکم ہے؟ فَاِنْ تَوَلَّوْا (پھرنے) میں اشا رہ اس طرف ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت میں سے کسی بھی ایک اطاعت کا منکر ہوجائے اور اس کی حجیت کا انکاری ہو جائے تو وہ کافروں میں سے ہوگا۔ یہ کسی عالم کا فتویٰ نہیں ہے کہ اس میں پس و پیش کریں کہ مانیں یا نہ مانیں بلکہ یہ قرآن مجید کا صریح حکم ہے۔ ہر وہ شخص جس کا قرآن مجید پر ایمان ہے، وہ اس بات سے رو گردانی نہیں کر سکتا۔ حجیتِ حدیث و سنت کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوسکتی ہے کہ قرآن مجید نے اطاعتِ رسول کی مطلق حجیت سے پھرنے والوں کو کافر قرار دیا۔ اگر کوئی اس بات کو نہیں ماننا چاہتا تو اس کے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں سوائے اس کے کہ وہ واضح طور پر قرآن مجید کا انکار کردے کہ میں قرآن کو ہی نہیں مانتا۔
2۔ وَ اَطِیْعُوا اللهَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ.
(آل عمران،3: 132)
’’ اور اللہ کی اور رسول (ﷺ) کی فرمانبرداری کرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ ‘‘
اس آیت میں واضح بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش و مففرت کے سزا وار فقط وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کی رسول ﷺ کی اطاعت کوجمع کرتے ہیں۔ یعنی قرآن و سنت دونوں کو یکجا کر کے مانتے ہیں اور قرآن مجید اور سنت رسول s دونوں کی حجیت اور وجوب کے قائل ہیں۔
3۔ تِلْکَ حُدُوْدُ اللهِ وَمَنْ یُّطِعِ اللهَ وَرَسُوْلَہٗ یُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا وَذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ.
(النساء،4: 13)
’’ یہ اللہ کی (مقرر کردہ) حدیں ہیں، اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی فرمانبرداری کرے اسے وہ بہشتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں رواں ہیں ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ بڑی کامیابی ہے۔ ‘‘
اس آیتِ کریمہ میں حدود اللہ کے ذکر کے ساتھ اطاعتِ الٰہی اور اطاعتِ رسول کو اکٹھا بیان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ حدود اللہ حکمِ رسول سے قائم ہوتی ہیں اور آپ ﷺ سے قائم ہونے والی حد کو بھی قرآن مجید نے اللہ تعالیٰ کی حدود قرار دیا کیونکہ حکمِ رسول اصل میں حکمِ الہٰی ہے۔
4۔ یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ.
(النساء،4: 59)
’’ اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (ﷺ) کی اطاعت کرو۔ ‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے لیے لفظ اَطِیْعُوْا الگ ذکر ہے اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی اطاعت کے لیے لفظ اَطِیْعُوْا الگ ذکر کیا گیا ہے۔ اس اسلوب سے بھی اطاعتِ رسول کی اپنی ایک الگ حیثیت اور اتھارٹی واضح ہوتی ہے۔
ایمان والوں کا مقام تو فقط یہ ہوتا ہے کہ جب انہیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ فرمائے تو وہ رسول کے کیے گئے فیصلہ کو تسلیم کرتے اور اس کی اطاعت کرتے ہیں
5۔ وَاَطِیْعُوا اللهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاحْذَرُوْا فَاِنْ تَوَ لَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْآ اَنَّمَا عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ.
(المائدۃ،5: 92)
’’ اور تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (ﷺ) کی اطاعت کرو اور (خدا اور رسول ﷺ کی مخالفت سے) بچتے رہو، پھر اگر تم نے روگردانی کی تو جان لو کہ ہمارے رسول (ﷺ) پر صرف (اَحکام کا) واضح طور پر پہنچا دینا ہی ہے (اور وہ یہ فریضہ ادا فرما چکے ہیں)۔ ‘‘
اسی طرح قرآن مجید کے درج ذیل مقامات پر بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کا اکٹھا ذکر کیا گیا ہے:
(النساء:59)،(الانفال:1)،(الانفال:20)،(الانفال:46)(التوبہ:71)، (النور:47)، (النور:52)، (الاحزاب:33)، (الاحزاب: 64)، (الاحزاب:66)، (محمد:33)، (الفتح:18)، (الحجرات:14)، (المجادلہ:13)، (التغابن:12)
فقط رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے حکم پر مبنی آیات
مذکورہ بالا 20 آیات کریمہ (جن میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کا ذکر اکٹھا آیا ہے) کے بعد اب آیئے ان 18 آیاتِ کریمہ کا مطالعہ کرتے ہیں جن میں فقط رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے حکم پر اکتفا کیا ہے:
1۔ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللهَ وَمَنْ تَوَلّٰی فَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ عَلَیْھِمْ حَفِیْظًا.
(النساء،4: 80)
’’ جس نے رسول (ﷺ) کا حکم مانا بے شک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا اور جس نے روگردانی کی تو ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔ ‘‘
اس آیت میں اس طرح نہیں فرمایا کہ جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرلے، وہ یہ سمجھے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کا حکم مان لیا بلکہ فرمایا: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللهَ کہ جس نے فقط رسول کی اطاعت کر لی اور ان کے ہر فعل، فرمان، قول اور تقریر کو حجت اور اَتھارٹی جان کر اپنا لیا، اُ س نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کر لی۔ آیت مبارکہ میں رسول اللہ ﷺ کی اطاعت نہ کرنے والوں کے حوالے سے فرمایا کہ جس نے رسول کی اطاعت سے منہ پھیر لیا یعنی آپ ﷺ کے ارشاد کو واجب نہیں مانتا اور آپ ﷺ کی بات کو حجت نہیں جانتا تو آپ ﷺ نے اپنی ذمہ داری نبھادی اور پوری بات سچائی کے ساتھ ان تک پہنچادی ہے، اب ہم اس کے ساتھ معاملہ کرلیں گے اور اس کا مواخذہ کریں گے۔
2۔ وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللهِ.
(النساء،4: 64)
’’ اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔ ‘‘
اس آیت کریمہ سے بھی صراحتاً ثابت ہورہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ رسول ﷺ کی اطاعت کی جائے، اسی لیے وہ رسولوں کو اُمم میں مبعوث کرتا ہے تاکہ اُن کی اطاعت کی جائے۔ کئی لوگ آیت میں مذکور ’’بِاِذْنِ اللهِ‘‘ کے الفاظ کو بھی اپنی مرضی کا مفہوم دیتے ہیں۔ یاد رکھیں! باذن اللہ کا انکار کوئی نہیں کرتا۔ اس لیے کہ رسول اذنِ الہٰی کے بغیر رسول نہیں بن سکتا۔ چونکہ رسول کو اللہ تعالیٰ نے رسول بناکر مبعوث کیا ہے، اس لیے جب رسول کی اطاعت کر لی تو رسول کی اطاعت میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت از خود شامل ہو گئی۔
3۔ مِنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ وَیَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا وَاسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ وَّرَاعِنَا لَیًّا بِاَلْسِنَتِهِمْ وَطَعْنًا فِی الدِّیْنِ وَلَوْ اَنَّهُمْ قَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانْظُرْنَا لَکَانَ خَیْرًا لَّهُمْ وَاَقْوَمَ وَلٰـکِنْ لَّعَنَهُمُ اللهُ بِکُفْرِهِمْ فَـلَا یُؤْمِنُوْنَ اِلاَّ قَلِیْلاً.
(النساء،4: 46)
’’ اور کچھ یہودی (تورات کے) کلمات کو اپنے (اصل) مقامات سے پھیر دیتے ہیں اور کہتے ہیں ہم نے سن لیا اور نہیں مانا اور (یہ بھی کہتے ہیں) سنیئے! (معاذ اللہ) آپ سنوائے نہ جائیں اور اپنی زبانیں مروڑ کر دین میں طعنہ زنی کرتے ہوئے ’رَاعِنَا‘ کہتے ہیں، اور اگر وہ لوگ (اس کی جگہ) یہ کہتے کہ ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی اور (حضور! ہماری گزارش) سنئے اور ہماری طرف نظرِ (کرم) فرمائیے تو یہ اُن کے لیے بہتر ہوتا اور (یہ قول بھی) درست اور مناسب ہوتا، لیکن اللہ نے ان کے کفر کے باعث ان پر لعنت کی سو تھوڑے لوگوں کے سوا وہ ایمان نہیں لاتے۔ ‘‘
اس آیت مبارکہ کے پہلے حصے میں قرآن مجید بیان کررہا ہے کہ کچھ یہود تورات کے کلمات کو اصل ہدف سے ہٹادیتے ہیں۔ یعنی انھوں نے تورات میں تحریف کر دی ہے اور جب وہ آپ ﷺ کی بارگاہ میں آتے ہیں اور آپ ﷺ انہیں اُن کی شریعت یعنی تورات کے احکام اور تعلیمات بتاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں ہم سن چکے ہیں مگر ہم آپ کا کہنا نہیں مانتے۔ پھر وہ کہتے ہیں (معاذ اللہ) آپ سنوائے نہ جائیں۔ پھر وہ اپنی زبانوں کو مروڑ کر دین پر طعنہ زنی کرتے ہوئے رَاعِنَا کو رَاعِیْنَا کر کے پڑھتے ہیں جس سے معنی بگڑ جاتا ہے۔
اطاعت پر مبنی قرآن مجید کی 38 آیات میں سے 20 آیات میں اطاعتِ الہٰی اور اطاعتِ رسول ﷺ کا اکٹھا ذکر ہے جبکہ 18 آیات میں فقط اطاعتِ رسول کا ذکر ہے۔ ایک آیتِ قرآنی بھی ایسی نہیں جس میں فقط اطاعتِ الہٰی کا ذکر کیا گیا ہو۔ اس اسلوب میں اطاعتِ رسول اور حجیتِ حدیث و سنت کا واضح پیغام موجود ہے
اس آیت کے دوسرے حصے میں قرآن مجید بیان کررہا ہے کہ وہ لوگ جنھوں نے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کا انکار کردیا اور اُن کی بات نہیں سنی ، کتنا اچھا ہوتا کہ وہ اس طرح کے بے ادبی کے کلمات کہنے کی بجائے یوں گویا ہوتے کہ ہم نے آپ ﷺ کی باتیں سنیں، ہم نے آپ ﷺ کی اطاعت کی، یارسول اللہ ﷺ! ہماری درخواست سنئے اور ہماری طرف نظرِ کرم فرمائیے۔ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاسْمَعْ وانظرنا یہ ساری درخواستیں حضور نبی اکرم ﷺ کے لیے ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمکلامی کا کہیں بیان نہیں آیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں اس طرزِ عمل کے اظہار اور اس طرح کے کلام کو قرآن مجید نہ صرف اُن کے لئے بہتر بلکہ ان کے لیے مضبوط ایمان کا سبب قرار دے رہا ہے لیکن انھوں نے اس طرزِ عمل کو اختیار نہ کیا۔ نتیجتاً قرآن مجید نے ان کے اس طرزِ عمل کو کفر قرار دیا اور فرمایا کہ اللہ نے ان کے کفر کے باعث ان پر لعنت کی، انہیں رحمت، حق اور ہدایت سے محروم کر دیا۔ وہ اس قابل نہیں کہ اللہ کی رحمت کو پاسکیں۔ پس اس آیت میں بھی اطاعتِ رسول ہی کا حکم دیا گیا ہے۔
4۔ وَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰۃِ وَلِاُحِلَّ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْکُمْ وَجِئْتُکُمْ بِاٰ یَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ فَاتَّقُوا اللهَ وَاَطِیْعُوْنِ.
(آل عمران،3: 50)
’’ اور میں اپنے سے پہلے اتری ہوئی (کتاب) تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور یہ اس لیے کہ تمہاری خاطر بعض ایسی چیزیں حلال کر دوں جو تم پر حرام کر دی گئی تھیں اور تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں، سو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت اختیار کر لو۔ ‘‘
حضور نبی اکرم ﷺ کی اطاعت اور آپ ﷺ کی بارگاہ میں عقیدت و ادب کے اظہار کو اللہ رب العزت نے نہ صرف خیر کا باعث کہا بلکہ اسے مضبوط ایمان کی علامت بھی قرار دیا جبکہ اس کے برعکس طرزِ عمل کو کفر کہتے ہوئے ایسے لوگوں کو اپنی رحمت اور ہدایت سے محروم کردیا
یہ آیت مبارکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے ہے۔ کئی چیزیں تورات میں حرام کر دی گئی تھیں، حضرت عیسی علیہ السلام نے اُن میں سے کئی چیزیں حلال کر دیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہاں یہ نہیں فرمارہے کہ اللہ تعالیٰ نے حلال کردیں بلکہ فرمایا میں حلال کرتا ہوں۔ سورۃ الاعراف میں اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کے بارے میں یہی ارشاد فرمایا:
وَیُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰۤئِثَ.
(الاعراف،7: 157)
’’ اور ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں۔ ‘‘
اس طرح کا بیان قرآن مجید میں ہر رسول کی زبان سے کثرت کے ساتھ آیا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اُن کو دعوت دینے کے بعد فرمارہے ہیں: فَاتَّقُوا اللهَ وَاَطِیْعُوْنِ. اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ یہ نہیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو۔ یعنی پیروی کرنے، طرز زندگی اپنانے، حکم کی تعمیل کرنے اور فرامین کو حجت جان کر اُن پرعمل پیرا ہونے کے حوالے سے میری اطاعت کرو۔ پس اس آیت میں بھی فقط رسول کی اطاعت کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہے۔
5۔ یٰـقَوْمِ اِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِہٖ وَاِنَّ رَبَّکُمُ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُوْنِیْ وَاَطِیْعُوْٓا اَمْرِیْ.
(طہ،20: 90)
’’ اے قوم! تم اس (بچھڑے) کے ذریعہ تو بس فتنہ میں ہی مبتلا ہوگئے ہو، حالاں کہ بے شک تمہارا رب (یہ نہیں وہی) رحمن ہے پس تم میری پیروی کرو اور میرے حکم کی اطاعت کرو۔ ‘‘
اس آیت میں یہ نہیں فرمایا کہ وَاِنَّ رَبَّکُمُ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُوْہٗ وَأطِیْعُوْهُ کہ بے شک تمھارا رب رحمن ہے پس اس کی اتباع اور اس کی اطاعت کرو۔ بلکہ فرمایا: فَاتَّبِعُوْنِیْ وَاَطِیْعُوْۤا اَمْرِیْ میری اتباع کرو اور میرے حکم کی اطاعت کرو۔ گویا اطاعتِ رسول کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کو بھی اُس میں شامل کردیا گیا۔
6۔ اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَی اللهِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَهُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاُولٰٓـئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.
(النور،234: 51)
’’ ایمان والوں کی بات تو فقط یہ ہوتی ہے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ فرمائے تو وہ یہی کچھ کہیں کہ ہم نے سن لیا، اور ہم (سراپا) اطاعت پیرا ہوگئے، اور ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ ‘‘
آیت مبارکہ میں لِیَحْکُمَ (کہ وہ فیصلہ فرمائے) کا فاعل اللہ تعالیٰ نہیں ہے۔ یعنی اس فعل کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں بلکہ رسول اکرم ﷺ کی طرف ہے۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ رسول فیصلہ فرمانے والے ہیں، اپنا مقدمہ لے کر ان کی بارگاہ میں چلے جاؤ۔ اس لیے کہ فریقین آپس میں جھگڑا کا فیصلہ کروانے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف تو نہیں جائیں گے، اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں اپنی کوئی عدالت تو نہیں لگائی ہوئی کہ وہ فریقین کا براہ راست مقدمہ، ان کے دلائل اور شہادتیں سنے اور فیصلہ صادر فرمائے بلکہ کچہری، بارگاہ اور عدالت رسول اللہ ﷺ کی ہے۔ فریقین اپنا مقدمہ اور اپنی شہادتیں رسول اکرم ﷺ کے سامنے پیش کر رہے ہیں اور حضور نبی اکرم ﷺ ان کی سماعت فرما رہے ہیں اور سماعت کے بعد ان کا فیصلہ فرما رہے ہیں۔
اللہ رب العزت کا اسلوبِ کلام دیکھئے کہ وہ کہتا ہے انھیں صرف اور صرف حضور ﷺ کی کچہری اور عدالت میں بلایا جا رہا ہے کہ اپنا مسئلہ لے کر میرے محبوب ﷺ کی بارگاہ میں جاؤ، وہ سماعت کر کے فیصلہ دیں گے۔ رسول کی طرف بلانے کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ (فریقین) اللہ تعالیٰ کی طرف بلائے جاتے ہیں کیونکہ رسول کی کچہری ہی اللہ تعالیٰ کی کچہری ہے۔ جب رسول تمہارا مسئلہ سنیں گے اور فیصلہ فرمائیں گے تو سمجھو اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرما دیا۔۔۔ رسول کی بارگاہ میں تم اپنا مقدمہ لے کر جا رہے ہو تو سمجھو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جا رہے ہو۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے زمین پر کبھی اپنی کچہری نہیں لگائی بلکہ مصطفی کی کچہری اور عدالت کو ہی اللہ تعالیٰ کی کچہری اور عدالت کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمہاری شہادتوں اور گواہیوں کو نہیں سننا بلکہ حضور علیہ السلام نے سننا ہے، لہذا تم یہ عقیدہ رکھو کہ اللہ تعالیٰ سن رہا ہے اور فیصلہ صادر کرے گا۔۔۔ اس کو صرف رسول کا فیصلہ نہ سمجھو بلکہ یہی اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے۔ اس لئے رسول کے حکم کو ماننا ہی اللہ تعالیٰ کے حکم کو ماننا ہے اور رسول کی تنہا اطاعت میں خود اللہ تعالیٰ کی اطاعت شامل ہے۔
اب اس پورے منظر کو سمجھ کر قرآنی الفاظ پر غور کریں تو گویا اللہ تعالیٰ یہ فرمارہا ہے کہ کاش تمہیں ایمان کی لذت کا پتہ چلا ہوتا۔۔۔ ایمان کی حلاوت نصیب ہوئی ہوتی۔۔۔ ایمان کے راز کی خبر ہوتی۔۔۔ ایمان کی معرفت ہوتی کہ ایمان کیا ہے تو پھر تم یہ باتیں نہ کرتے کہ ہم صرف قرآن کو حجت مانتے ہیں اور رسول کی سنت کو حجت نہیں مانتے۔ ایمان والوں کا مقام تو فقط یہ ہوتا ہے کہ جب انہیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ فرمائے تو وہ رسول کے کیے گئے فیصلہ کو تسلیم کرتے اور اس کی اطاعت کرتے ہیں۔ اگر تم مومن ہوتے تو یہ راز جانتے کہ رسول کا فیصلہ ہی اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے اور رسول کی بات اور ان کے کلام کو حجت مانتے۔ تم قرآن مجید اور حدیث کی حجیت میں فرق نہ کرتے اور قرآن مجید کے اس حکم پر حقیقی معنی میں ایمان لاتے کہ جس نے رسول ﷺ کا حکم مانا بے شک اس نے اللہ ہی کا حکم مانا۔
7۔ قُلْ اَطِیْعُوا اللهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَیْکُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ وَاِنْ تُطِیْعُوْهُ تَهْتَدُوْا وَمَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ.
(النور،24: 54)
’’ فرما دیجیے: تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (ﷺ) کی اطاعت کرو، پھر اگر تم نے (اطاعت) سے رُوگردانی کی تو (جان لو) رسول (ﷺ) کے ذمہ وہی کچھ ہے جو ان پر لازم کیا گیا اور تمہارے ذمہ وہ ہے جو تم پر لازم کیا گیا ہے، اور اگر تم ان کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پا جاؤ گے، اور رسول (ﷺ) پر (احکام کو) صریحاً پہنچا دینے کے سوا (کچھ لازم) نہیں ہے۔ ‘‘
آیت کریمہ میں وَاِنْ تُطِیْعُوْهُ (اگر تم اس کے رسول کی اطاعت کرو) میں (ہ) ضمیر واحد کی ہے کہ فقط اُس رسول کی اطاعت کرو تو یقیناً ہدایت پاجاؤ گے۔ یہاں مراد اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہیں ہے۔ یہ بھی واضح ہوا کہ ہدایت فقط اطاعتِ رسول اور رسول کے حکم کو حجت ماننے پر موقوف ہے۔ مزید واضح فرمایا کہ اگر تم رسول کی اطاعت کو حجت نہ مانو گے تو تمہارا ہی نقصان ہو گا کہ تم ہدایت حاصل نہ کرسکو گے، اس میں رسول کا کوئی نقصان نہیں۔ رسول کی ذمہ داری تو اتنی تھی کہ جو احکام ہم نے انھیں دئیے وہ من و عن تم تک پہنچا دیں۔ پہنچا دینے کے بعد رسول کے ذمہ اور کچھ نہیں رہا۔ اب تمہاری ذمہ داری تھی کہ تم رسول کے فیصلے کو حجت مانتے، اس لیے کہ رسول کے فیصلے کو حجت ماننا ہی اللہ تعالیٰ کے حکم کو حجت ماننا ہے۔
خلاصۂ کلام یہ ہوا کہ قرآن مجید نے شرح و بسط اور صراحت و وضاحت کے ساتھ اس نکتے کو بیان کر دیا ہے کہ اگر تمہارے پاس ایمان کی حقیقی معرفت ہے اور تم صحیح معنوں میں ایمان والے ہو تو پھر ’’رسول کے حکم کو اللہ تعالیٰ کا حکم ماننے اور فقط رسول کی اطاعت کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت ماننے‘‘کے علاوہ کوئی اور قول اور عقیدہ رکھنا تمہیں زیب ہی نہیں دیتا۔
(جاری ہے)