سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا خطبہ خلافت اور ہمارے سیاسی و معاشرتی احوال

ڈاکٹر علی محمد الصلابی

جب ہم خیرالقرون کی تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں تو سب سے پہلے قبولِ اسلام کی سعادت حاصل کرنے والوں میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ درخشاں نظر آتے ہیں۔ وہ کبھی قریش کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے دکھائی دیتے ہیں، کہیں اسلام کی سرفرازی کے لیے اپنا سارا اثاثہ لُٹاتے نظر آتے ہیں، کبھی دعوت کے میدانوں میں ان کے مواعظ کی گونج سنائی دیتی ہے اورکبھی میدانِ جنگ میں بہادری اور وفا کی داستان رقم کرتے نظر آتے ہیں۔ آقا علیہ السلام کی حیاتِ مبارکہ میں بھی آپ رضی اللہ عنہ کا ہر عمل محبت اور استقامت کی تصویر ہے اور آپ ﷺ کے وصال کے بعد بھی آپ رضی اللہ عنہ فنائیت کے مقام پر نظر آتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے فیضِ رفاقت اور تربیت سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ایمان و عمل اور عزم و یقین بہت پختہ ہوچکا تھا اور آپ کی بہت سی خوبیاں نمایاں ہوکر سامنے آنے لگی تھیں۔

خلافت صدیقی میں مختلف فتنوں نے سر اٹھایا اور طرح طرح کے بحرانوں نے جبڑے کھولے۔ کہیں کذاب مدعیان نبوت کھڑے ہوئے تو کہیں مرتدین نے بغاوت کی، کہیں اندرونی خلفشار تھا تو کہیں بیرونی خطرات لاحق تھے اور کہیں منکرین زکوٰۃ تھے۔ ان ساری الجھی ہوئی لٹوں میں مختلف آراء کی گتھیاں سلجھانے کے لیے تنہا ابن ابی قحافہ رضی اللہ عنہما  کی ذات گرامی تھی۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حوصلے، ولولے اور بصیرت وعزیمت کی ایسی چٹان تھے کہ زمانے اور زندگی کی کوئی آندھی انھیں سرنگوں نہ کرسکی۔ ایک لمحہ بھی ایسا نہ آیا کہ کبھی ان کا ایمان متزلزل ہوا ہو۔ وہ عزم و ہمت کے تخت پر بیٹھ کر پوری جرأت و مہارت سے امتِ مسلمہ کی قیادت کرتے رہے۔ آپ نے نبی اکرم ﷺ کے مخلص، سچے اور پختہ ایمان خلیفہ ہونے کا عظیم کردار ادا کیا۔ آپ نے پُرآشوب حالات میں آنکھوں پر پڑنے والے گمراہی کے پردے ہٹائے اور خالص دین اور صحیح اسلامی عقیدے پر پڑنے والی گردو غبار کو صاف کیا۔

ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں اسلام کی گہری بصیرت اور دقیق فہمی کے لحاظ سے بھی سب سے ممتاز اور منفرد نظر آتے ہیں۔ زمانۂ جنگ ہو یا صلح، خوف و ہراس کی فضا ہو یا امن و امان کی، اجتماع کی حالت ہو یاخلوت و انفرادیت کی، تنگی کا زمانہ ہو یا خوشحالی کا دور، سب مواقع پر آپ گہری اسلامی بصیرت، دینی غیرت، اسلامی حمیت اور جرأت و دانائی کے ساتھ ممتاز نظر آتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے وصال مبارک کے بعد آپ ﷺ کی تمناؤں کی تکمیل ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نصب العین تھا اور وہ اس بارے میں بے حد حساس تھے اور آپ ﷺ کی خواہشات کی تکمیل میں بال برابر کمی یا تبدیلی بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔ اس سلسلے میں کسی سے سودے بازی ممکن تھی نہ انھیں کسی کی ملامت کا خوف دامن گیر تھا۔

ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دنیاوی مال و متاع کو اس قدر ہیچ اور ناقابلِ توجہ سمجھتے تھے کہ اس سے بڑھ کر اعلیٰ درجے کے زہد کی شان صرف انبیاء اور ان کے امام و پیشوا سیدالانبیاء ﷺ ہی کو حاصل تھی۔ اپنے خاندان اور ورثاء کے لیے ملک و حکومت کی تاسیس و توسیع کا انھیں کبھی خیال تک نہیں آیا جیسا کہ اس دور میں جزیرۂ عرب کے قرب میں رومی اور ایرانی حکمران خاندان اپنے اپنے علاقوں میں کررہے تھے۔

مذکورہ بالا تمام صفات اور شرائط سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ذات میں موجود تھیں۔ یہ صفات ان کی زندگی اور سیرت کا حصہ تھیں۔ آپ ﷺ کے وصال مبارک کے بعد مسلمانوں نے آپ کی بیعت کی اور آپ کو مسلمانوں کا پہلا خلیفہ راشد بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے اپنا جو پہلا خطبہ ارشاد فرمایا، اس خطبۂ خلافت سے ایک طرف آپ رضی اللہ عنہ کا مقام و مرتبہ نکھر کر سامنے آتا ہے تو دوسری طرف یہ خطبہ ہمارے حکمرانوں اور عامۃ المسلمین کے لیے بھی اپنے اندر غوروفکر کا ایک جہاں سموئے ہوئے ہے۔ ذیل میں اس خطبہ کے چندنکات درج کیے جاتے ہیں:

خطبۂ خلافت اور اس کے اہم نکات

بیعت کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی شانِ اقدس کے لائق حمدو ثنا بیان کی اور فرمایا:

اما بعد ایھا الناس فانی قد ولیت علیکم ولست بخیرکم، فان احسنت فاعینونی وان اسات فقومونی، الصدق امانۃوالکذب خیانۃ، والضعیف فیکم قوی عندی حتی اریح علیہ حقہ ان شاء اللہ، والقوی فیکم ضعیف عندی حتی اخذ الحق منہ ان شاء اللہ، لا یدع قوم الجہاد فی سبیل اللہ الا ضربھم اللہ بالذل، ولا تشیع الفاحشۃ فی قوم الا عمھم اللہ بالبلاء، اطیعونی مااطعت اللہ ورسولہ، فاذا عصیت اللہ ورسولہ فلا طاعۃ لی علیکم، قومو الی صلاتکم یرحمکم اللہ.

(البدایۃ والنھایۃ، 6: 305، 306)

’’اما بعد! سامعین کرام! مجھے تمھاراسربراہ بنایا گیا ہے۔ میں خود کو تم سے بہتر نہیں سمجھتا۔ اگر میں درست کام کروں تومیری مدد کرنا۔ اگر مجھ سے غلطی ہوجائے تو میری اصلاح کرنا۔ سچ امانت ہے اور جھوٹ خیانت ہے۔ تمھارا کمزور شخص میرے نزدیک طاقتور ہے حتی کہ میں اس کا حق اسے دلادوں، ان شاء اللہ۔ تمھارا طاقتور شخص میرے نزدیک کمزور ہے حتی کہ میں اس سے مظلوم کا حق وصول کرلوں، ان شاء اللہ۔ جب کوئی قوم جہاد فی سبیل اللہ سے منہ موڑ لیتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ذلیل کردیتا ہے۔ جس قوم میں بے حیائی عام ہوجائے، اللہ تعالیٰ ان پر عمومی عذاب نازل کردیتا ہے۔ میری اطاعت اس وقت تک کرنا جب تک میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا رہوں۔ جب میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنے لگوں تو تم پر میری اطاعت ضروری نہیں۔ اٹھو نماز ادا کرو، اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے۔‘‘

یہ خطبہ مختصر ہے اور اپنی عمدگی کے اعتبار سے شاندار اسلامی خطبات میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس خطبے میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حاکم اور رعایا کے تعلقات میں عدل و انصاف اور رحمدلی کی اہمیت بیان کی۔ انھوں نے واضح کردیا کہ سربراہ حکومت کی اطاعت اس وقت تک ضروری ہے جب تک وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر کاربند ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ کی صراحت اس لیے کی کہ امت اسلامیہ کی عزت و وقار اسی میں پنہاں ہے۔ فواحشات سے بچنے کی تلقین کی کیونکہ گناہوں سے لت پت معاشرے انحطاط اور تباہی سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ اس عظیم خطبے کے اہم اور چیدہ چیدہ نکات درج ذیل ہیں:

(1) عہد صدیقی میں قانون سازی کے مآخذ

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ میری اطاعت اس وقت تک کرنا جب تک میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرتا رہوں۔ اگر میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت واجب نہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اس فرمان سے معلوم ہوا کہ آپ کے نزدیک قانون سازی کے مآخذ قرآن مجید اور سنتِ مطہرہ ہیں۔ بلاشبہ خلافتِ صدیق شریعت کی مکمل پابند تھی اور اس میں اسلامی شرعی قوانین کو ہر قانون پر بالادستی حاصل تھی۔ شریعت کے سامنے حاکم اور محکوم سب سرتسلیم خم کیے ہوئے تھے۔ اسی لیے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے امت پر اپنی اطاعت اسی وقت تک واجب قرار دی تھی جب تک وہ خود اللہ اور اس کے رسول کے مطیع ہوں۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:

لا طاعۃ فی معصیۃ انما الطاعۃ فی المعروف.

(صحیح البخاری، حدیث 7275)

’’معصیت و نافرمانی میں (حکمران کی) اطاعت جائز نہیں۔ بلاشبہ اطاعت معروف کاموں میں ہے۔‘‘

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے شاندار دورِ خلافت نے ہمیشہ کے لیے بتلادیا کہ اسلامی حکومت شرعی حکومت ہوتی ہے۔ جس کا سارا نظام شریعت کے تابع ہوتا ہے اور حکمران بھی شرعی احکام کا پابند ہوتا ہے اور وہ ان احکام سے ذرہ برابر بھی آگے پیچھے نہیں ہوسکتا۔

(2) عوام کو حکمرانوں کے محاسبہ کا حق حاصل ہے

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا تھا:

فان احسنت فاعینونی وان اسات فقومونی.

(البدایہ والنہایۃ، 6: 305)

’’چنانچہ اگر میں درست کام کروں تو میری مددکرنا اور اگر میں غلطی کروں تو میری اصلاح کرنا۔‘‘

اس طرح ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عوام کو اپنے اعمال کی نگرانی اور محاسبے کاحق دیا بلکہ یہ حق بھی دیا کہ اگر وہ کوئی خلافِ شرع کام کرنے لگیں تو امت انہیں روک دے اور شرعی طریقہ کار پر گامزن کرے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے اولین خطاب ہی میں اقرار کرلیا تھا کہ حکمران سے غلطی سرزد ہونا ممکن ہے، لہذا اس کا محاسبہ بھی ہوسکتا ہے۔ حکمران کا اقتدار ایسا کوئی شخصی امتیاز نہیں رکھتا جو اسے دوسروں سے افضل اور بالاتر قرار دے کیونکہ رسالت اور انبیائے کرام علیہم السلام جوکہ معصوم عن الخطا ہوتے ہیں، ان کا دور ختم ہوچکا ہے اور خاتم الرسول ﷺ جو وحی الہٰی کے ذریعے نظام چلاتے تھے، جوارِ رحمت میں پہنچ چکے ہیں۔ ان کا اقتدار معصوم تھا کیونکہ وہ نبی اور رسول ہونے کے اعتبار سے آسمانی راہنمائی میں تمام کام انجام دیتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کے وصال سے یہ عصمت ختم ہوگئی۔ اب حکمرانی اور اقتدار بیعت ہی کے ذریعے حاصل ہوگا اور امت ہی اپنے منتخب حکمران کو حقِ حکمرانی تفویض کرے گی۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مطابق امتِ محمدیہ کو ایک زندہ اور بیدار نظام دیا گیا ہے جو باہمی تعاون، ہمدردی اور اتفاق کی بنیاد پر اصلاح کی قدرت رکھتا ہے۔ رعایا پر واجب ہے کہ شرعی قانون کے مطابق حکمرانی کرنے والے حاکم کی بھرپور مدد کرے اور امور دین کی تکمیل اور جہاد فی سبیل اللہ میں اس کا بھرپور ساتھ دے۔ اسی طرح رعایا کا یہ فرض بھی ہے کہ وہ خیر خواہی کے جذبے سے اپنے حکمرانوں کی غلطیوں کی اصلاح بھی کرے۔ کس قدر ملال انگیز بات ہے کہ بہت سے اسلامی ممالک اس عظیم نظام سے اعراض کیے ہوئے ہیں۔ اسی وجہ سے ان ممالک پر جابر اور ظالم حکمران مسلط ہیں۔ بہت سے اسلامی ممالک کے تنزل اور انحطاط کا سبب یہی قابلِ نفرت قابض حکمران یا آمر ہیں۔ انھوں نے امت میں شجاعت اور باہمی خیر خواہی کے جذبات فنا کرکے بزدلی، خوف اور لالچ کے بیج بودیئے ہیں۔ سوائے ان کے جن پر اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت ہے۔ جو قوم اپنے حکمران کی نگرانی اور خیر خواہی کرتی ہے، وہی دنیا میں طاقتور اور غالب ہوتی ہے اور وہی قوم دنیا کے کونے کونے میں دعوت الی اللہ کا فریضہ انجام دیتی ہے۔

(3) عدل وانصاف اور مساوات کا اصول

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے اولین خطاب میں فرمایا تھا کہ تمھارا کمزور آدمی میرے نزدیک طاقتور ہے حتی کہ میں اس کا حق اسے دلادوں، ان شاء اللہ۔ اور تمھارا طاقتور آدمی میرے نزدیک کمزور ہے حتی کہ میں اس سے مظلوم کا حق وصول کرلوں، ان شاء اللہ۔

شرعی نظامِ حکومت کا ایک بنیادی ہدف یہ ہوتا ہے کہ وہ اسلامی نظام کی بنیادوں کو مضبوط و قائم رکھتا ہے۔ مسلم معاشرے کی بقا کے لیے بنیادوں کو مضبوط کرنے کا یہ عمل نہایت ضروری ہے۔ ان اہم ترین بنیادوں میں سے چند یہ ہیں: شوریٰ اور عدل و انصاف، مساوات اور شخصی آزادی وغیرہ۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے خطاب میں ان اصولوں کو بیان کیا۔ شوریٰ کا اظہار خلیفہ کے انتخاب، ان کی بیعت اور مسجد نبوی میں ان کے خطاب کے دوران ہوا۔ اس وقت جمہور مسلمان موجود تھے۔ آپ کے عدل و انصاف کا اظہار آپ کے خطاب ہی میں موجود ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نزدیک عدل سے مقصود اسلامی عدل وانصاف ہے جو اسلامی معاشرے اور اسلامی حکومت کا مرکزی ستون ہے۔ کیونکہ جس معاشرے میں ظلم کا دور دورہ ہوا اور عدل و انصاف ناپید ہو وہاں اسلام کا وجود باقی نہیں رہتا۔

یقیناً انفرادی، اجتماعی اور ملکی سطح پر عدل و انصاف کا قیام کوئی نفلی کام نہیں جو حاکم کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے بلکہ دین اسلام میں لوگوں کے درمیان عدل وانصاف کرنا اسلامی حکومت کی سب سے اہم اور مقدس ذمہ داری ہے کیونکہ عدل وانصاف کے قیام کے وجوب پر امت کا اجماع ہے۔ امام فخرالرازیؒ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کا اجماع ہے کہ حکمران پر عدل و انصاف سے فیصلے کرنا واجب ہے۔

(تفسیر الرازی، 10: 141)

اس حکم کی تائید قرآن و سنت سے ہوتی ہے۔ اسلامی حکومت کے اہداف میں سے ہے کہ وہ ایسا اسلامی معاشرہ تشکیل دے جس میں عدل وانصاف اور مساوات کی بالادستی ہو اور ہر طرح کے ظلم و جور کے ہر حربے کی بیخ کنی کی گئی ہو۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ عدل و انصاف میں بہترین قد وہ ہیں۔ آپ کے عدل و انصاف نے دلوں کو گرویدہ اور عقلوں کو خیرہ کردیا۔ آپ کے نزدیک عدل وانصاف اسلام کی عملی دعوت ہے۔ اس سے لوگوں کے دل ایمان کے لیے کھلتے ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو دیے جانے والے عطیات میں عدل کیا اور لوگوں سے درخواست کی کہ وہ عدل کرنے میں ان کا ساتھ دیں۔ حتی کہ انھوں نے خود کو قصاص کے لیےپیش کردیا جو کہ ان کے بے لاگ عدل اور خوف الہٰی کی واضح دلیل ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جمعہ والے دن خطبے کے لیے کھڑے ہوئے تو انھوں نے فرمایا:

اذا کنا بالغداۃ فاحضروا صدقات الابل نقسمھا ولا یدخل علینا احد الا باذن.

’’کل صبح زکاۃ کے اونٹ پیش کرنا ہم انھیں تقسیم کریں گے۔ کوئی شخص بلا اجازت ہمارے پاس نہ آئے۔‘‘

چنانچہ ایک خاتون نے اپنے خاوند سے کہا کہ یہ رسی لو اور تم بھی جاؤ، ممکن ہے اللہ تعالیٰ ہمیں کوئی اونٹ عطا کردے۔ وہ شخص آیا تو اس نے دیکھا کہ حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما  اونٹوں کے باڑے میں داخل ہوئے ہیں، لہذا یہ شخص بلا اجازت اندر چلا گیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نظر اس پر پڑی تو فرمایا: تم کیسے اندر آگئے؟پھر اس سے رسی لے کر اسی سے اس کو مارا۔

جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اونٹوں کی تقسیم سے فارغ ہوئے تو اس شخص کو بلایا، اسے رسی دی اور کہا: اپنا بدلہ لے لو۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اللہ کی قسم! یہ ہرگز بدلہ نہیں لے گا۔ نہ آپ یہ طریقہ نکالیں (کہ ہر کوئی خلیفۃ المسلمین سے بدلہ لیتا پھرے۔) یہ سن کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کہنے لگے:

فمن لی من اللہ یوم القیامۃ.

’’قیامت والے دن اللہ کے دربار میں میرا سہارا کون ہوگا؟‘‘

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ (چونکہ غلطی اسی کی تھی، لہذا آپ) اسے کچھ دے دلاکر راضی کرلیں۔ اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام سے کہا کہ ایک اونٹنی، اس کا کجاوہ، ایک مخملی کمبل اور پانچ دینار لاؤ پھر یہ چیزیں اس شخص کو دے کر اسے راضی کرلیا۔

(تاریخ الدعوۃ الی الاسلام، للدکتور یسری محمد ہانی، ص411)

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے پہلے خطاب میں مساوات کا جو اصول بیان کیا تھا، وہ ان عمومی اصولوں میں سے ایک ہے جنھیں اسلام نے قائم کیا ہے اور یہ قانون اسلامی معاشرے کی تشکیل میں بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دور حاضر کے قوانین میں اسے اہم مقام حاصل ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں میں عدل وانصاف کے قیام اور مساوات کے لیے منہج ِ ربانی کی پیروی کی۔ انھوں نے ضعفاء کے حقوق کی پاسداری کی۔ بطور خلیفہ اپنا وزن کمزور و ناتواں لوگوں کے پلڑے میں ڈالا۔ وہ نہایت مہذب آواز، کھلی آنکھوں اور پرعزم ارادے کے ساتھ کمزوروں کے ہم نوا بن گئے اور ان کے اس عزم کو کسی قسم کا کوئی دباؤ کمزور نہیں کرسکا۔

آپ کے دورِ خلافت میں اسلام کا نظام عدل وانصاف پوری شان سے نافذ ہوا۔ آپ ہر دباؤ اور طاقت کو قدموں تلے روند کر آگے بڑھتے رہے اور عدل وانصاف سے ملتِ اسلامیہ کا سر فخر سے بلند کرتے رہے۔ اسی عمل سے ان کی خلافت مضبوط ہوئی اور ملت کی حفاظت ہوتی رہی۔

منصب خلافت سنبھالنے کے پہلے دن ہی سے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ان بلند اصولوں پر عمل درآمد شروع کردیا۔ انھیں یقین تھا کہ عدل و انصاف حاکم اور رعایا دونوں کے لیے باعث عزت و افتخار ہے، اسی لیے صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی سیاست میں عدل وانصاف کے فوری نفاذ کو یقینی بنایا۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دہراتے رہے:

اِنَّ اﷲَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآءِ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ.

(النحل، 16: 90)

’’بے شک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھو۔‘‘

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خواہش تھی کہ مسلمان اپنے دین سے مکمل طور پر مطمئن ہوں اور انہیں دعوتِ اسلام کی مکمل آزادی نصیب ہو۔ مسلمانوں کو مکمل طمانیت اسی وقت مل سکتی تھی جب حکمران ہر قسم کی خواہشات نفسانی سے بلند تر ہوکر عوام کو عدل و انصاف مہیا کرے۔ عدل وانصاف کا تقاضا یہ ہے کہ حکمران تمام شخصی عوامل سے بلند تر ہو اور عدل و رحم اس کی حکمرانی کی نمایاں خصوصیات ہوں۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نظریہ حکومت یہ تھا کہ حکمران اپنی ذات سے بے پروا ہوکر خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے فرائض انجام دے۔ اس طرح اسے کمزور کا احساس ہوگا اور معاشرے کی ضروریات کا علم رہے گا۔ اسی احساس کے زیرِ اثر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے امور مملکت کی نگہبانی قبول کی۔ عدل وانصاف کے ذریعے وہ ہر دشواری پر غالب آگئے، مسلمانوں کی خدمت کے لیے انھوں نے اپنی ذات، اولاد اور خاندان کو فراموش کردیا۔ یوں وہ عقل و بصیرت کے ساتھ امور مملکت کی انجام دہی میں دن رات مشغول رہے۔

گزشتہ سطور سے معلوم ہوا کہ جب حکمران عدل وانصاف کا پرچم لہراتا ہے تو کمزور اپنے حق کے بارے میں بے خوف ہوجاتا ہے کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ عدل وانصاف والی حکومت اس کا حق دلائے گی اور اس کی کوئی کمزوری اس کے حقوق میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔ کمزور عدل ہی کی وجہ سے طاقتور ہے، اس کا حق روکا جاسکتا ہے نہ چھینا جاسکتا ہے۔ عدل طاقتور کو ظلم کرنے سے روک دے گا اور مظلوم اس سے اپنا حق وصول کرلے گا۔ ظالم کسی منصب، حاکم یا کسی عہدے دار کی رشتہ داری کی بنا پر بچ نہیں سکے گا۔ یہی احساس؛ عزت و فخر کی بلندی اور زمین پر اصلی حکمرانی کی شان عطا کرتا ہے۔

(4)حکمران اور عوام میں تعامل کی بنیاد سچائی ہے

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

الصدق امانۃ والکذب خیانۃ.

(البدایۃ والنھایۃ، 3: 305)

حاکم اور رعایا کے درمیان تعامل کی بنیاد سچائی پر قائم ہے۔ یہ دانش مندانہ سیاسی اصول امت کی قوت مجتمع کرنے میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ کیونکہ سچ ہی سے حکمران اور رعایا میں اعتماد کے تعلقات فروغ پاتے ہیں۔ یہ ایک سیاسی ضابطہ ہے جو دعوت اسلامی سے لیا گیا ہے۔

’’سچ امانت ہے‘‘ ان الفاظ نے معانی کا لباس پہنا تو گویا ان میں ایسی روح بیدار ہوگئی جس کی بدولت یہ کلمات صبح و شام لوگوں کے دلوں میں غیرت و حمیت کو برانگیختہ اور امیدوں کے چراغ روشن کرتے رہے۔ ’’جھوٹ خیانت ہے‘‘ کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نزدیک جھوٹ کے بھی خاص معانی ہیں۔ آپ کے نزدیک جھوٹا حکمران وہ خائن وکیل ہے جو امت کا مال کھا کر اسے دھوکا دیتا ہے۔ وہ حاکم کتنا بدبخت ہے جو جھوٹ بولے اور اسے اندازِ سیاست قرار دے۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے جھوٹ کو صریح خیانت قرار دیا اور فرمایا کہ جھوٹ امت کا سب سے پہلا دشمن ہے۔ کیا خیانت سے بڑھ کر بھی کوئی دشمنی ہوسکتی ہے؟

یقیناً ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے اس شاندار موقف کی بنا پر آج بھی دنیا پر غالب ہیں۔ اسی موقف کی حامل اقوام کو آج بھی بلندی مل رہی ہے اور اس سے روگردانی کرنے والی قومیں پستی کا شکار ہیں۔ دور حاضر میں تمام ممالک حکمران اور عوام کے درمیان تعامل کے اسی منہجِ ربانی کے محتاج ہیں تاکہ انتخابی دھوکا بازیوں اور باہم ایک دوسرے پر جھوٹے الزامات لگانے سے محفوظ رہ سکیں۔ جو لوگ مخالفین کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کے لیے ذرائع ابلاغ کا استعمال کرتے ہیں انھیں بھی اس منہج کی اشد ضرورت ہے۔ عوام کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اُن اداروں کی مدد سے حکمرانوں کا محاسبہ کریں جو حکمرانوں کے محاسبے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں تاکہ حکمران سچ اور امانت داری پر قائم رہیں۔ اگر عوام یہ کام کر گزریں توحکمران عوام کے حق خود ارادیت، عزت و شرف، آزادی اور مال میں کبھی خیانت نہیں کرسکیں گے۔

(5) فواحشات کے خلاف اعلانِ جنگ

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ارشادفرمایا:

ولا تشیع الفاحشۃ فی قوم الا عمهم اللہ بالبلاء.

(البدایۃ والنھایۃ، 6: 305)

’’جس قسم میں بے حیائی عام ہوجائے اللہ اسے عمومی عذاب میں مبتلا کردیتا ہے۔‘‘

دراصل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے امت اسلامیہ کو رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان یاد دلایا ہے:

لم تظھر الفاحشۃ فی قوم قط حتی یعلنوا بھا، الا فشا فیھم الطاعون والاوجاع التی لم تکن مضت فی اسلافهم الذین مضوا.

(سنن ابن ماجہ، حدیث 4019)

’’جس قوم میں بے حیائی پھیل جائے حتی کہ لوگ علی الاعلان بے حیائی کے مرتکب ہونے لگیں تو ان میں طاعون اور ایسی ایسی بیماریاں جنم لیں گی جو پہلے لوگوں نے سنی تک نہ ہوں گی۔‘‘

بلاشبہ بے حیائی لاعلاج معاشرتی برائی ہے۔ یہ کسی بھی معاشرے کی کمزوری اور خاتمے کا سبب ہے۔ کیونکہ جہاں بے حیائی عام ہو وہاں کسی چیز کی حرمت باقی نہیں رہتی۔ بے حیا معاشرے کی غیرت و حمیت ختم ہوجاتی ہے اور وہ بے غیرتی پر راضی ہوجاتے ہیں۔ ایسا معاشرہ، شرم و حیا سے عاری اور وباؤں اور بیماریوں کی آماجگاہ بن کر زوال کا شکار ہوجاتا ہے۔ دورِ حاضر میں لوگوں کی موجودہ حالت اس کی سب سے بڑی دلیل ہے۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے امت کی اخلاقی اور دینی اقدار کی حفاظت کابیڑا اٹھایا۔ انھوں نے امت کو ہر قسم کی پوشیدہ اور ظاہری بے حیائی سے بچایا اور اسے پاک صاف بنانے کی بھرپور کوشش کی۔ اس طرح ان کا مقصد یہ تھا کہ امتِ اسلامیہ مضبوط ترین ملت بنے جسے دنیاوی لذتیں گھیر سکیں نہ شیطان اسے گمراہ کرسکے۔ یوں امتِ اسلامیہ انسانیت کے لیے خیرو برکت کا باعث بنے۔

یقیناً کسی بھی مملکت کے قیام اور اس کی تہذیب کے فروغ و ترقی کا دارومدار اخلاقی اقدار پر ہے۔ اگر اخلاقیات فاسد ہوجائیں، ذمہ داری کا فقدان ہو تو امت ضائع ہوجاتی ہے اور اس کا فساد اور ہلاکت عام ہوجاتی ہے۔ گزشتہ اقوام اور ان کی تہذیب کا بغور معائنہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان اقوام نے اخلاقی اقدار اور خالص دین پر کاربند رہنے کا کس قدر اہتمام کیا تھا، مثلاً: حضرت سلمان اور داؤد علیہما السلام کے دور کی تہذیب یا ذوالقرنین کے زمانے کی تہذیب یا ان جیسی دیگر قوموں کی تہذیب یعنی جب تک وہ اخلاقی اقدار کی حامل رہیں، مضبوط و قائم رہیں لیکن جب ان میں بے حیائی عام ہوگئی تو یہ تہذیبیں شیطان کے جال میں پھنس گئیں۔ انھوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی اور ہلاکت و بربادی کی خندق میں جاگریں، ان کی قوت نابود ہوگئی اور ان کی ثقافت کے نشان مٹ گئے۔

بلاشبہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اقوام کی تعمیرو تخریب کا جائزہ لیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے طریقوں کا بالاستیعاب مطالعہ کیا تھا۔ انھیں خوب علم تھا کہ جو اقوام عیش پرستی، فساد اور بے حیائی کی راہ اختیار کرلیتی ہیں وہ مٹ جاتی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ اِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّھْلِکَ قَرْیَۃً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْھَا فَفَسَقُوْا فِیْھَا فَحَقَّ عَلَیْھَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰـھَا تَدْمِیْرًا.

(بنی اسرائیل، 17:16)

’’ اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو ہم وہاں کے امراء اور خوشحال لوگوں کو (کوئی) حکم دیتے ہیں (تاکہ ان کے ذریعہ عوام اور غرباء بھی درست ہو جائیں) تو وہ اس (بستی) میں نافرمانی کرتے ہیں پس اس پر ہمارا فرمانِ (عذاب) واجب ہو جاتا ہے پھر ہم اس بستی کو بالکل ہی مسمار کر دیتے ہیں۔‘‘

یعنی ہم اس قوم کو اطاعت و فرمانبرداری کا حکم دیتے ہیں اور گناہوں سے روکتے ہیں مگر وہ نافرمانی اور فسق و فجور میں لگ جاتے ہیں جس کے نتیجے میں عذاب بھیج کر انھیں ہلاک کردیا جاتا ہے۔ اس آیت میں لفظ اَمَرْنَا کی ایک قرأت أَمَّرْنَا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر، 5: 58) یعنی ہم انھیں حکمرانی دے دیتے ہیں، پھر وہ نافرمانی اور فسق کی وجہ سے ہلاکت کے مستحق ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ ’’ترف‘‘ یعنی خوشحالی کے اسباب میں کثرتِ اموال اور حکمرانی بھی شامل ہے لیکن یہ ایک نفسیاتی حالت کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ کے راستے سے دور لے جاتی ہے۔ ہر آسودگی اور خوشحالی ’’ترف‘‘ نہیں ہوتی۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جس طرح بے حیائی کے خلاف کوششیں کی تھیں، وہی پالیسی ہر مسلم حکمران کو اپنانی چاہیے کیونکہ ایک متقی، ذہین اور عادل حکمران وہ ہوتا ہے جو اپنی قوم کی تربیت اخلاقیات پر کرتا ہے۔ اسی صورت میں اس کی قوم انسانیت کا احساس کرنے والی ہوگی اور اس کی رگوں میں انسانیت کا غم رکھنے والا خون دوڑے گا۔ اس کے برعکس اگر حکمران دانشمندی سے محروم ہو تو وہ اپنی قوم میں بے حیائی پھیلاتا ہے اور اسے قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے بلکہ اخلاقی اقدار اور عمدہ اوصاف کے خلاف برسرپیکار ہوجاتا ہے۔ یوں وہ اپنی قوم کو گندے اور بدبودار جوہڑوں میں چھوڑ دیتا ہے جو آوارہ جانوروں کی طرح زندگی گزارتے ہیں جن کا مقصدِ زندگی صرف سازو سامان اور دنیاوی زیب و زینت ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس کی قوم مردانگی اور جوانمردی کے اوصاف سے محروم ہوکر کمینی اور گھٹیا ترین قوم بن جاتی ہے۔ ایسی قوم کے بارے میں درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ بالکل سچ ثابت ہوتا ہے:

وَضَرَبَ اللہُ مَثَـلًا قَرْیَۃً کَانَتْ اٰمِنَۃً مُّطْمَئِنَّۃً یَّاْتِیْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللہِ فَاَذَاقَهَا اللہُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ.

(النحل، 16: 112)

’’ اور اللہ نے ایک ایسی بستی کی مثال بیان فرمائی ہے جو (بڑے) امن اور اطمینان سے (آباد) تھی اس کا رزق اس کے (مکینوں کے) پاس ہر طرف سے بڑی وسعت و فراغت کے ساتھ آتا تھا پھر اس بستی (والوں) نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے اسے بھوک اور خوف کے عذاب کا لباس پہنا دیا ان اعمال کے سبب سے جو وہ کرتے تھے۔‘‘

یہ وہ چند تعلیقات ہیں جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خطبے پر لگائی گئی ہیں۔ اس خطبے میں انھوں نے اپنی حکومت کی پالیسی کا اعلان کیا ہے۔ اس میں انھوں نے حکمران کے فرائض اور عوام کے ساتھ اس کے تعلقات کی نوعیت بیان کی ہے۔ یوں آپ نے اپنے خطبے میں وہ اہم ترین اصول جو عوام کی تربیت کے لیے ضروری تھے، اجاگر کیے۔ اس طرح خلافتِ اسلامی قائم ہوئی اور عملی طور پر حکومت کی حدود و قیود کا تعین کیا گیا۔

خلاصۂ کلام

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسلامی حکومت کی تعمیر و ترقی کے لیے زبردست محنت کی، انھوں نے داخلی محکموں کی تعمیر کا بڑھ چڑھ کر اہتمام کیا اور رسول اللہ ﷺ کی تعمیر کردہ عظیم اسلامی مملکت کی راہ میں حائل ہونے والی ہر رکاوٹ دور کردی۔ انھوں نے عوام کی فلاح و بہبود کے عظیم منصوبے شروع کیے۔ عدالتی نظام کو خوب مستحکم کردیا۔ اپنے گورنروں کے معاملات کی بڑی نگرانی اور خبر گیری کی اور تمام پالیسیوں میں رسول اللہ ﷺ کے منہج کی پیروی کی۔

بھلا دور حاضر کی انسانیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ان زریں قوانین سے کیا مناسبت رکھتی ہے؟ ان پاکباز ہستیوں کے بعد قومی خزانہ لوگوں کی ذاتی ملکیت کی حیثیت اختیار کرگیا ہے اور وہ جس طرح چاہتے ہیں اس میں تصرف کرتے ہیں۔ ان کے شاہانہ اخراجات کی کوئی حد نہیں، مزید ظلم یہ کہ بیرونی ممالک کے بینکوں میں ان کے خفیہ اکاؤنٹس ہیں۔ حتی کہ کافر ممالک بھی انہی اموال پر عیش کررہے ہیں، حالانکہ یہ مال غریب ممالک کے عوام کا ہے جو ان کے عیاش حکمرانوں نےلوٹ کھسوٹ کرکے ان بینکوں میں جمع کرا رکھا ہے۔ یہ لوگ جتنا جی چاہے مال و دولت جمع کرلیں، بیرون ملک ان کے وسیع محلات اور جاگیریں چاہے جتنی بڑھ جائیں مگر وقت آنے پر یہ سب کچھ ان ظالموں کے لیے کافی نہیں ہوگا۔

مسلمان حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اس جلیل القدر صحابی رسول کی اقتدا کریں جنھوں نے رسول اللہ ﷺ کے بعد اسلامی مملکت کی باگ دوڑ سنبھالی تھی۔ حضرت ابوبکر اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تاریخ کے صفحات پر اتنے جاندار اور شاندار کارنامے رقم کیے ہیں کہ آج انسانیت ترقی کے بامِ بلند پر پہنچ کر بھی یہی محسوس کرتی ہے کہ وہ ابھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے قدموں ہی میں پڑی ہے۔