اصلاحِ قلوب کیونکر ممکن ہے؟

ڈاکٹر حسن محی الدین قادری

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

مَا جَعَلَ اَللهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِهٖ.

(الاحزاب، 33: 4)

’’ اللہ نے کسی آدمی کے لیے اس کے پہلو میں دو دِل نہیں بنائے۔‘‘

اللہ رب العزت نے قرآن مجید کی اس آیت میں ہماری توجہ اس امر کی طرف مبذول فرمائی کہ اس نے کسی آدمی کے پہلو میں دو دل نہیں رکھے بلکہ ایک ہی دل بنایا ہے مگر اس دل کی حفاظت کے لیے اس نے ایک نظام بنایا ہے۔ ارشاد فرمایا:

وَلِسَانًا وَّشَفَتَیْنِ وَهَدَیْنٰهُ النَّجْدَیْنِ.

(البلد، 90: 9۔ 10)

’’(کیااسے) ایک زبان اور دو ہونٹ (نہیں دیے)۔ اور ہم نے اسے (خیر و شر کے) دو نمایاں راستے (بھی) دکھا دیے۔‘‘

اللہ نے اس دل کی تعبیر و تشریح، ابلاغ اور اس کی دعوت کو آگے پہنچانے کے لیے زبان بھی ایک بنائی۔ یعنی دل کا ترجمان اور نمائندہ بھی ایک ہے۔ پھر دونوں راستوں یعنی خیر اور شر کی طرف رہنمائی بھی کر دی یعنی وہ راستہ جو رحمن کی طرف لے جائے اور وہ راستہ جو شیطان کی طرف لے جائے، دونوں دکھادیئے۔ پھر فرمایا:

فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰهَا. قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰهَا۔ وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰهَا.

(الشمس، 91: 8۔ 10)

’’ پھر اس نے اسے اس کی بدکاری اور پرہیزگاری (کی تمیز) سمجھا دی۔ بے شک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کو (رذائل سے) پاک کر لیا (اور اس میں نیکی کی نشو و نما کی)۔ اور بے شک وہ شخص نامراد ہوگیا جس نے اسے (گناہوں میں) ملوث کر لیا (اور نیکی کو دبا دیا)۔‘‘

گویا اللہ رب العزت نے انسان کو نیک کاموں کی طرف رغبت دلانے والی طاقت بھی عطا کر دی اور بدی و فسق و فجور کی طرف لے جانے والی صلاحیت بھی اس کے اندر رکھ دی۔ اس صلاحیت کو رکھنے کے بعد دنیا کی صورت میں موجود امتحان گاہ میں اسے بٹھادیا۔ گویا اس کی سرشت میں بُرے کاموں کی کشش اور نیکی، صالحیت، تقوی اور طہارت کی طرف کشش بھی رکھی۔ جب دونوں طرف کی کشش سے اللہ رب العزت نے انسان کے نفس کو مزین کر دیا تو اسے فسق و فجور کی طرف لے جانے کے لیے شیطان کو بھی اذنِ عام دے دیا اورتقوی و طہارت، صالحیت، معرفت، عبادت، ریاضت اور نیکی پر قائم و دائم رکھنے کے لیے اولیاء و صالحین کی سنگتیں اور صحبتیں بھی دے دیں۔ جب دونوں مواقع برابر بنیادوں پر دیے تو پھر فرمایا کہ:

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰهَا کہ جس نے اپنے نفس کی اصلاح کر لی، جس نے تزکیہ و تصفیہ کے ذریعے ہر طرح کی نجاست، غلاظت، ناپاکی، طمع، لالچ، حرص اور آلائشِ دنیا سے اپنے نفس کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہو گیا اور جس نے گناہوں، شہواتِ نفسانیہ، دنیا کی زیب و زینت اور لالچ و طمع میں خود کو ملوث کر لیا اور اس کی نیک خصلت پوشیدہ رہی تو وہ نامراد ہو گیا۔

اللہ رب العزت نے انسان کی حالت اور کیفیت کے مطابق قلب کی کئی اقسام بنائی ہیں۔ اپنے احوال کے مطابق انسان قلبِ سلیم، قلبِ منیب، قلبِ مطمئن، قلبِ متقی، قلبِ حیی، قلبِ صالح، قلبِ ورع، قلبِ خائف، قلبِ مریض، قلبِ سقیم، قلبِ غلیظ (سخی والا)، قلبِ غافل اور قلبِ میت کا حامل ہوتا ہے۔ قلب کی یہ کیفیات کس طرح حاصل ہوتی ہیں؟ اس کے لیے انسانی جسم میں جاری جنگ کو سمجھنا ہوگا۔ ایک جنگ وہ ہے جو ظاہری دنیا میں جاری ہے جس کے لیے شیطان نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آکر دعویٰ کیا تھا:

وَلَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَ. اِلَّا عِبَادَکَ مِنْھُمُ الْمُخْلَصِیْنَ.

(الحجر، 15: 39، 40)

’’ اور ان سب کو ضرور گمراہ کر کے رہوں گا۔ سوائے تیرے ان برگزیدہ بندوں کے جو (میرے اور نفس کے فریبوں سے) خلاصی پا چکے ہیں۔

یعنی مولا مجھے اتنی ڈھیل ضرور دے کہ میں اور میرے قبیلے والے قیامت تک تیرے بندوں کو ورغلاتے رہیں۔ شیطان کے قبیلے والے اور اس کے معاونین کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اِنَّهٗ یَرٰکُمْ ھُوَ وَقَبِیْلُهٗ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْنَھُمْ.

(الاعراف، 7: 27)

’’ بے شک وہ (خود) اور اس کا قبیلہ تمہیں (ایسی ایسی جگہوں سے) دیکھتا (رہتا) ہے جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔‘‘

یعنی وہ اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے مل کر تم پر حملہ آور ہوں گے۔۔۔ کبھی تمہیں دنیا کی شہوت سے اپنی طرف مائل کریں گے۔۔۔ کبھی تمہیں مال و اسباب کے لالچ میں مبتلا کر دیں گے۔۔۔ کبھی عورت کی وجہ سے تمہیں ورغلائیں گے۔۔۔ کبھی دنیا کی زیب و زینت، مراتب و مناصب، دنیا کی آسائش اور انواع و اقسام کی لذات سے تمھیں اپنی طرف رغبت دلائیں گے۔ جو ان کی طرف مائل ہوگیا، اس کا دل مریض اور بالآخر میت ہوجائے گا اور جو ان کی طرف مائل نہ ہوا تو سمجھ لیں یہ قلب مریض نہیں بلکہ قلبِ حیی ہے جو کسی بھی صورت اللہ تعالیٰ سے غافل نہیں ہے۔

اللہ رب العزت نے اس دل کے ساتھ دو اور وجود بھی ساتھ ہی آباد کردیئے ہیں۔ دل کے ایک طرف اس نے روح رکھ دی اور دوسری طرف نفس رکھ دیا۔ اب نفس اپنا کام کرے گا اور روح اپنا کام کرے گی۔ اللہ رب العزت کی نگاہ دیکھ رہی ہے کہ اس صورتِ حال میں دل کس کی طرف جھکاؤ کرتا ہے۔ اگر دل اللہ کی طرف مائل ہے تو روح کی حکومت اپنے اوپر قائم کرتا ہے اور روحانی وجدانی اور عرفانی ہو جاتا ہے۔ اگر دل نفس کی طرف مائل ہوجائے اور نفس کی حکومت اپنے اوپر قائم کرے تو نفسانی ہو جاتا ہے۔ جن دلوں پر نفس کا غلبہ ہو جاتا ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ پہلے یہ دل غافل ہوتے ہیں، پھر مریض ہوتے ہیں اور پھر بالآخر میت ہوجاتے ہیں اور وہ قلوب جن پر روح کا غلبہ ہوتا ہے، یہ دل ہمیشہ متقی، مطمئن، مزکیٰ اور مصفیٰ ہوتے ہیں اور کبھی اس کی یاد سے غافل نہیں ہوتے۔ ایسے دلوں کو اللہ حی بناتا ہے اور بالآخر یہ منیب اور سلیم ہوجاتے ہیں۔

اہل اللہ کے دل اللہ کے برتن ہیں

قلبِ سلیم کیسے متوجہ الی اللہ ہوجاتا ہے اور کیسے اللہ کی طرف مائل رہتا ہے کہ دنیا سج دھج کے بھی آجائے تب بھی کبھی نگاہ اٹھاکر اسے دیکھتا ہی نہیں؟ اس حوالے سے سیدنا ابوعنبہ خولانی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

إن الله آنية من أهل الأرض وآنية ربكم قلوب عباده الصالحين.

”بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے برتن ہیں، جن کا تعلق اہل زمین سے ہے۔ تمہارے پروردگار کے برتن نیک لوگوں کے دل ہیں۔‘‘

گویا مقربین، عاشقین، محبین اور واصلین الی اللہ کے قلوب کو اللہ اپنا برتن بنالیتا ہے۔ وہ لوگ جو دنیا سے کٹ کر خدا کے ہو جائیں اور اس کے دیدار کے طالب بن کر رہیں تو اللہ ان کے دلوں کو اپنے برتن بناتا ہے۔ پوچھا گیا کہ یارسول اللہ! ان میں سے کون سا برتن اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہے۔۔۔؟ یعنی مومنین، متقین، محسنین، راغبین، عارفین، عاشقین اور ابرار میں سے کون سے دل اسے زیادہ پسند ہیں اور کن کی طرف اس کی توجہ زیادہ رہتی ہے۔۔۔؟ یہ جاننا اس لیے ضروری ہے کہ ہم بھی ہر ایک کو ایک ہی طرح کے برتن میں کھانا نہیں کھلاتے بلکہ عامۃ الناس (Public) کے برتن الگ ہوتے ہیں، خواص (VIP) کے برتن الگ ہوتے ہیں، اخص الخواص (VVIP) کے برتن الگ ہوتے ہیں۔ ہر ایک کو ایک جیسے برتن میں کھانا نہیں کھلایا جاتا۔

آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کو تین طرح کے دل بہت زیادہ پسند ہیں:

فاحبھا الیہ ارقھا واصفاھا واصلبھا.

وہ دل جو زیادہ نرم ہو، وہ دل جو زیادہ پاک صاف ہو اور وہ دل جو زیادہ محکم و مضبوط ہو۔

ذیل میں ان تینوں قلوب کی وضاحت درج کی جاتی ہے:

1۔ جو دل شکستہ ہو جائیں، جو دنیا سے بے زار اور بے رغبت ہوجائیں اور کوشش کے باوجود بھی ان کے برتن میں دنیا کا کھانا آنہ سکے۔ ایسے دل اللہ تعالیٰ کو بڑے پسند ہیں۔ یہ لوگ بڑے نرم دل ہوتے ہیں۔

تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ
جو شکستہ ہو تو عزیز تر نگاہ آئینہ ساز میں

یہ دل قلبِ مصطفی کی پیروی میں چل رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ آپ ﷺ کا قلبِ اطہر انتہائی نرم تھا اور لطف و کرم اور عفو درگزر سے معمور تھا۔ لوگ ظلم و زیادتی کرتے تو آپ ﷺ عفو و درگزر اور معافی سے کام لیتے۔۔۔ کوئی کافر بھی آجاتا تو خود تو فاقہ کرلیتے مگر بھر بھر کے دودھ کے پیالے اسے پلاتے چلے جاتے۔۔۔ کوئی دشمن آجاتا تو گھر کے دروازے اس کے لیے کھول دیتے ہیں اور اپنے بستر مبارک پر سلا دیتے۔ آپ ﷺ کی اسی شانِ رحمت و رفق کو قرآن مجید نے اس طرح بیان کیا ہے:

فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ ﷲِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ.

(آل عمران:159)

’’ (اے حبیبِ والا صفات!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لیے نرم طبع ہیں اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے۔ ‘‘

صحابہ شہد کی مکھیوں کی طرح آپ کی محبت کے چھتے کے گرد طواف کرتے، اس کی وجہ یہ تھی کہ

یہ ہجوم کیوں ہے زیادہ میخانے میں
فقط اتنا سبب کہ پیرِ مغاں ہے مردِ خلیق

پس اللہ کو سب سے پہلے نرم دل پسند ہیں۔ اسی لیے آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:

إن الله رفيق يحب الرفق، ويعطي على الرفق ما لا يعطي على العنف، وما لا يعطي على ما سواه.

اللہ تعالیٰ نرمی کرنے والا اور نرمی کو پسند فرماتا ہے اور نرمی کی بنا پر وہ کچھ عطا فرماتا ہے جو درشت مزاجی کی بنا پر عطا نہیں فرماتا، وہ اس کے علاوہ کسی بھی اور بات پر اتنا عطا نہیں فرماتا۔

2۔ وہ دل بھی اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہیں جو سب سے زیادہ صاف، پاک اور طہارت والے ہیں۔

3۔ وہ دل بھی اللہ کو پسند ہے جو بڑا مضبوط و مستحکم ہے۔ غافل نہیں ہے بلکہ ثابت قدم رہنے والا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جنھوں نے کہا:

اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اَللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا.

(حم السجدہ، 41: 30)

’’ بے شک جِن لوگوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے، پھر وہ (اِس پر مضبوطی سے) قائم ہوگئے۔‘‘

یعنی وہ جب اللہ کا نام لے لے تو پھر اس پر جم جائے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری فرماتے ہیں کہ ایسے پیکر تقوی بن جاؤ کہ جب تقوی کی بات کرو تو دنیا کو معلوم ہوجائے کہ کہ تقوی والا ایسا ہوتا ہے۔۔۔ زہد کی بات کرو تو ایسا زہد اپناؤ کہ دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے مگر آپ کی بے رغبتی اور بے نیازی کو کوئی ختم نہ کر سکے۔۔۔ جب ورع کی بات کرو تو ایسے ہو جاؤ کہ دنیا روزانہ آئے مگر آپ کے دل کو کوئی خرید نہ سکے۔۔۔ کوئی پوچھے کہ بات کیا ہے؟ تو آپ کہیں کہ

جب تک بکے نہ تھے کوئی پوچھتا نہ تھا
تم نے خرید کر ہمیں انمول کر دیا

جب ایک سینے میں دو دل نہیں ہو سکتے تو سمجھ لیں کہ ایک دل میں دو محبتیں بھی نہیں ہو سکتیں اور اس دل کے دو سودے بھی نہیں ہو سکتے۔ اگر کسی ایک کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے نے خرید لیا تو شریعت کہتی ہے کہ جس سودے کی قیمت طے ہوچکی ہو، اس سودے پر سودا کرنا جائز نہیں۔ جب شریعت میں سودے پر سودا جائز نہیں تو جس دل کا سودا اللہ کے ساتھ ہو گیا، کیا اس کا کسی اور کے ساتھ سودا جائز ہے؟ اہل اللہ کہتے ہیں کہ جو دل ایک دفعہ محبوب کا ہو جائے تو اب اس میں دو محبوب نہیں ہو سکتے۔ محبوب بھی ایک۔۔۔ دل بھی ایک۔۔۔ محبت بھی ایک۔۔۔ سودا بھی ایک۔۔۔ نسبت بھی ایک۔۔۔ اور رجحان بھی ایک۔ ایسی شان کا حامل اب صرف یہی کہتا ہے کہ میں ایک ہی دفعہ بکا تھا، میں انہی کا ہوں، انہی کا رہوں گا، اب اگرچہ میری گردن بھی کٹ جائے مگر میرا عشق انہی سے ہے۔

اللہ کن قلوب کا انتخاب فرماتا ہے؟

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ والوں کے دل اللہ کے برتن ہیں تو کیا اللہ رب العزت کے پاس وہی خوراک ہے جو ہم کھاتے ہیں۔۔۔؟ کیا اس کی بارگاہ کا مشروب وہی ہے جو ہم پیتے ہیں۔۔۔؟ اس کا جواب ہے کہ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ جب ایسا نہیں ہے تو ذرا سوچیں کہ جس برتن میں خدا کی بارگاہ سے محبت کے پکوان اترنے ہوں۔۔۔ اس کی تجلیات کا نزول ہونا ہو۔۔۔ اس کے عرفان کا ورود ہونا ہو۔۔۔ اس کی معرفت و قربت کے سودے نے اترنا ہو۔۔۔ اس کے شراب طہور کے جام اترنے ہوں تو کیا اُن قلوب کو صاف اور پاک نہیں ہونا چاہیے۔ وہ کہتا ہے کہ میرے کھانے دل کے برتن میں اتارنے ہوں تو پہلے دل کی صورت میں موجود اپنے برتنوں کو صاف کرو۔

اس کو اس مثال سے سمجھیں کہ ہم روزانہ کھانا کھاتے ہیں مگر دوسری مرتبہ اسی برتن کو دھوئے اور صاف کیے بغیر کھانا نہیں ڈالتے، اس لیے کہ اُن میں جراثیم پیدا ہوگئے ہوتے ہیں اور بدبو آتی ہے۔ ایک بندہ جب اپنے کھائے ہوئے برتن میں دوسرے وقت کا کھانا نہیں کھاتا تو ہم کیسے تصور کر سکتے ہیں کہ وہ رب ان برتنوں میں اپنے پکوان کیسے ڈالے گا جو پہلے ہی سے دوسرے پکوانوں کی وجہ سے آلودہ ہیں۔ وہ اپنا پکوان دلوں کے برتن میں ڈالنے سے قبل یہ دیکھتا ہے کہ دل کا یہ برتن صاف ہے یا نہیں؟ وہ چاہتا ہے کہ مجھے ایسے برتن دو کہ جب نگاہ ڈالوں تو ان میں میری ہی محبت نظر آئے۔ یہ تب ممکن ہوگا جب کسی اور دنیاوی محبت کی تصویر اس میں نہ ہو۔ جب وہ دلوں پر نظر ڈالتا ہے اور وہاں اسے کسی اور کے نقش جمے ہوئے نظر آتے ہیں تو وہ اس دل سے اپنی نظر ہٹا لیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جہاں کسی اور کا نقش ہوگا، وہاں میرا نقش تجھے نہیں ملے گا۔ پہلے دوسرے نقوش کو مٹاؤ تب میرا نقشِ محبت، نقشِ عرفان، نقشِ وجدان اور نقشِ وصال تجھے نصیب ہوگا۔ امام ابن عطاء اللہ السکندری ’’الحکم العطائیۃ‘‘میں فرماتے ہیں کہ

كَيْفَ يُشْرِقُ قَلْبٌ صُوَرُ الأَكْوَانِ مُنْطَبِعَةٌ فِى مِرْآَتِهِ؟

اے بندے تو کیسے توقع کرتا ہے کہ تیرا دل روشن ہو جائے جب کہ تیرے دل میں تو دنیا کے نقوش جمع ہیں۔ تیرے دل میں دنیا کی محبت و زینت اور مال و منصب کی لالچ کے نقش ثبت ہیں۔ میں نے جب بھی نگاہ ڈالی تو تجھے دنیا کی محبت کے نقوش سے معمور پایا۔ ایسے دل میں جا کر میں نے کیا کرنا ہے جو میری طرف مائل ہی نہیں ہے۔

أَمْ كَيْفَ يَرْحَلُ إِلَى اللهِ وَهُوَ مُكَبَّلٌ بِشَهَوَاتِهِ؟

اے بندے تو اپنے رب کی طرف کیسے رجوع کر سکتا ہے اور اس کی طرف کیسےسفر کرسکتا ہے جب کہ تو اپنی نفسانی خواہشات کے جال کا اسیر ہے۔

أَمْ كَيْفَ يَطْمَعُ أَنْ يَدْخُلَ حَضْرَةَ اللهِ وَهُوَ لَمْ يَتَطَهَّرْ مِنْ جَنَابَةِ غَفَلاَتِهِ؟

اے بندے تو کیسے خواہش کرتا ہے کہ اللہ کی بارگاہ کی باریابی، وصال اور قرب تجھے نصیب ہو جائے۔ جبکہ تو اپنی غفلتوں کی ناپاکی سے پاک بھی نہ ہو سکا۔ تیرا دل غافل ہے اور تو سمجھتا ہے کہ تجھے اس حال میں رب مل جائے۔۔۔ تیرا دل گنہگار ہے اور تو چاہتا ہے کہ وہ یار مل جائے۔۔۔ تیرا دل دنیا کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے اور تو چاہتا ہے کہ محبتِ یار مل جائے۔۔۔ تو خدا کے قرب میں بیٹھنا چاہتا ہے جبکہ ابھی تیرا دل دنیا کی قربت سے جدا ہی نہیں ہوا۔

أَمْ كَيْفَ يَرْجُو أَنْ يَفْهَمَ دَقَائِقَ الأَسْرَارِ وَهُوَ لَمْ يَتُبْ مِنْ هَفَوَاتِهِ؟

اے بندے تو اسرارِ الہیہ کی باریکیوں سے باخبر ہونا چاہتا ہے کہ اللہ کے اسرار تیرے دل میں اتر جائیں، لیکن یہ کیسے ممکن ہے جبکہ تو ابھی تک اس دنیا کی بیہودہ باتوں اور غلاظت سے جدا ہی نہیں ہوا۔

دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہو جا
سراسر موم یا پھر سنگ ہو جا

ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم کس طرف ہیں۔ اگر ہم رحمن کی طرف ہو جائیں تو وہ جو کھلائے خوش رہیں۔۔۔ جو پلائے خوش رہیں۔۔۔ کچھ نہ دے، تب بھی خوش رہیں۔۔۔ کچھ دے دے، تب بھی خوش رہیں۔۔۔ ہمارا حال پوچھے، تب بھی خوش رہیں۔۔۔ نہ بھی پوچھے، تب بھی خوش رہے۔۔۔ محب وہ ہوتا ہے کہ محبوب بلائے تب بھی خوش رہے اور محبوب نہ بھی بلائے، تب بھی خوش رہے۔

جن دلوں کو وہ اپنا برتن بنالیتا ہے، پھر انھیں خالی نہیں چھوڑتا بلکہ انہیں اپنا محبوب بھی بناتا ہے اور ان برتنوں میں اپنی قربت، اپنی یاد اور اپنا انعام و اکرام بھی اتارتا ہے۔ رات کے اندھیرے میں بندہ جب اسے پکارتا ہے تو وہ بھی کہتا ہے کہ میرے بندے تو بتا کہ تو کیسا ہے؟ اس بندے کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ حدیث قدسی کے مطابق:

کُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِی یَسْمَعُ بِهِ، وَ بَصَرَهُ الَّذِی یُبْصِرُ بِهِ، وَ یَدَهُ الَّتِی یَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِی یَمْشِیْ بِهَا، وَإنْ سَأَلَنِی لَأُعْطِیَنَّهُ وَلَئِنْ اسْتَعَاذَنِی لَأُعِیْذَنَّهُ.

(بخاری، الصحیح، کتاب الرقاق، باب التواضع، 5: 2384، رقم:6137)

’’پس جب اس کو محبوب بنا لیتا ہوں تو میں اس کے کان ہو جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے۔ اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے دیکھتا ہے۔ اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے پکڑتا ہے۔ اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جن کے ساتھ چلتا ہے اور اگر وہ محبوب بندہ مجھ سے سوال کرے گا تو میں اسے ضرور بالضرور مطلوبہ چیز دوں گا اور اگر مجھ سے پناہ طلب کرے گا تو ضرور بالضرور اس کو پناہ اور تحفظ مہیا کروں گا۔‘‘

جب وہ قلب نورانی، روحانی اور وجدانی ہو جاتا ہے تو اس پر علم، عمل، فیضانِ الہٰیہ اور اللہ کے انعام و اکرام کا نور اترنا شروع ہو جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ وہ نور اس کے پورے دل کا احاطہ کرتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ لوح محفوظ پر جو کچھ لکھا ہوتا ہے، اس کا عکس اس ولی کے دل پر پڑنا شروع ہو جاتا ہے۔ اللہ رب العزت اسے علمِ لدنی سے نوازنا شروع کر دیتا ہے اور اپنے ارادے کے مطابق غیب کی خبریں دینا شروع کر دیتا ہے۔ پھر وہ بندہ وہاں سے لیتا ہے اور دنیا والوں کو دیتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ رب العزت اپنی معرفت کا جلوہ بھی اسے عطا کرتا چلا جاتا ہے۔ پھر وہ بندہ جب دیکھتا ہے تو معرفتِ الہی سے دیکھتا ہے اور جب تصرف کرتا ہے تو معرفتِ الہی سے کرتا ہے۔ اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا:

اتَّقُوا فِرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ فَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللهِ تَعَالَى.

(مسند الشهاب، حدیث نمبر: 663)

”مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔“

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے قلوب کی اصلاح کرنے اور اولیاء و صلحاء کی سنگتوں میں استقامت عطا فرمائے۔

آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ