دنیا میں بڑھتی ہوئی عدمِ رواداری کے انسداد اور بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لئے تحریک منہاج القرآن اور اس کے مختلف شعبہ جات خصوصاً منہاج یونیورسٹی لاہور اور ڈائریکٹوریٹ آف انٹر فیتھ ریلیشنز منہاج القرآن انٹرنیشنل سال بھر مختلف پروگرامز اور کانفرنسز کا انعقاد گزشتہ کئی دہائیوں سے کر رہی ہیں۔ اسی سلسلہ کی ایک کڑی بین المذاہب رواداری و ہم آہنگی کانفرنس کا انعقاد بھی ہے۔ منہاج یونیورسٹی لاہور کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی دانشور، مذہبی شخصیات، مفکر اوراہلِ علم دنیا بھر کے مختلف معروف اداروں سے بطور خاص شرکت کرتے ہیں۔
حسب سابق رواں سال بھی 26 اور 27 اکتوبر 2024ء ساتویں عالمی بین المذاہب رواداری و ہم آہنگی کانفرنس منہاج یونیورسٹی لاہور میں ڈپٹی چئیرمین بورڈ آف گورنرز پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی نگرانی میں منعقد ہوئی۔ جس میں ملک پاکستان سمیت دنیا بھر سے مختلف مذاہب کی چنیدہ شخصیات نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کی اجمالی رپورٹ نذرِ قارئین ہے:
کانفرنس کا پہلا دن
کانفرنس کے پہلے دن کا آغاز قرآن مجید، بائبل مقدس، بھگوت گیتا اور گرو گرنتھ صاحب کے مقدس کلام سے ہوا۔ ڈاکٹر ساجد محمود شہزاد (وائس چانسلر منہاج یونیورسٹی، لاہور) نے استقبالیہ کلمات پیش کیے۔ بعد ازاں کانفرنس کے چیف آرگنائزر ڈاکٹر ہرمن روبرگ (ہیڈ، سکول آف ریلیجین اینڈ فلاسفی، منہاج یونیورسٹی لاہور) نے تمام مہمانانِ گرامی کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کانفرنس کے انعقاد کا پس منظر اورضرورت و اہمیت پر سیر حاصل گفتگو کی۔
اس کانفرنس میں ڈاکٹر محمد وحید حسن (سابق صدر مالدیپ) نے خصوصی شرکت کی اور مذہب کے نام پر سیاست اور تشدد، قیام امن اور بین المذاہب افہام و تفہیم پر قابل قدر نقطۂ نظر پیش کیا۔
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کا افتتاحی خطاب
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کانفرنس میں افتتاحی خطاب کرتے ہوئے تمام مذاہب کی مقدس نصوص کی درست تشریحات کی اہمیت پر زور دیا تاکہ مذہب کے بارے میں غلط فہمیوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بعض اوقات تشدد یا انتہا پسندی کا پرچار کرنے کے لیے مذہبی متون کی آیات کی غلط تشریح کی جاتی ہے۔ مذہبی متن کے کچھ حصوں کی غلط تشریح کرتے ہوئے غیر منصفانہ طور پر پورے عقیدے کو تشدد یا انتہا پسندی سے منسوب کردیا جاتا ہے اور معترضین اکثر وسیع تر سیاق و سباق پر غور کیے بغیر پورے مذہب کو موردِ الزام ٹھہرا دیتے ہیں۔
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے شدت پسند گروہوں کی طرف سے تشدد کو جواز فراہم کرنے کے لیے پیش کی جانے والی تشریحات کی بھی تردید کی کہ اسلام کی تاریخ میں نہ تو قرآن مجید کی کسی ایک آیت اور نہ ہی نبی کریم ﷺ کی کسی حدیث سے ایسے دلائل کی توثیق ہوتی ہے۔ اگر کوئی تشریح اسلام کی پرامن تعلیمات سے متصادم نظر آتی ہے تو اس حوالے سے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس متن کے ایک ترجمہ پر اکتفا کرنے کے بجائے دیگر تراجم بھی تلاش کریں، کیونکہ ترجمہ کی غلطیاں پیغام کو مسخ کر سکتی ہیں۔ تمام بڑے مذاہب، عیسائیت، ہندومت، بدھ مت اور سکھ مت امن کی تعلیم دیتے ہیں اور تشدد کی حمایت نہیں کرتے۔ لہذا ضروری ہے کہ تشکیک کا شکار ہونے اور مذہب پر الزامات لگانے کے بجائے مذہبی تعلیمات کی قابلِ اعتماد تشریحات تلاش کریں، کیونکہ تمام مذاہب کی تعلیمات فطری طور پر بنیادی انسانی حقوق، محبت اور ہم آہنگی کو بیان کرتی ہیں۔
پینلز ڈسکشن
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی گفتگو کے بعد کانفرنس میں پینلز ڈسکشن کے سلسلہ کا آغاز ہوا۔ پہلے پینل کا موضوع Violence In The Name Of Religion (مذہب کے نام پر تشدد/بربریت) تھا۔ اس پینل میں نظامت کے فرائض ڈاکٹر سید معظم علی ہاشمی (فیکلٹی ممبر قائد اعظم یونیورسٹی، اسلام آباد)نے سرانجام دیے۔ اس پینل میں پروفیسر ڈاکٹر افسر راٹھور (ویانا، آسٹریا)، پروفیسر ترون جیت سنگھ بٹالیہ (کولمبس، امریکہ)، ڈاکٹر پیٹر حیدر (آسٹریا)، بھوپیندر کمار بھانتے پریادرشی (سری لنکا)، محترمہ اسماء الزینی (قاہرہ، مصر) اور پروفیسر اشوک کمار کھتری (لاہور، پاکستان) نے اپنے اپنے خیالات و نظریات پیش کئے۔ اس مکالمے کا مقصد مذہبی تشدد کی بنیادی وجوہات کو تلاش کرنا اور مختلف مذاہب و مسالک کے مابین افہام و تفہیم کو فروغ دینا تھا۔
دوسری پینل ڈسکشن Difficult Verses In Holy Books & Their Interpretation (کتبِ مقدسہ میں موجود مشکل آیات اور ان کی تفسیر) کے عنوان سے منعقد ہوئی۔ اس پینل کی نظامت ڈاکٹر فلپ ڈنکن پیٹرز نے سنبھالی۔ ڈاکٹر محمد فاروق رانا (لاہور، پاکستان)، Dr. Heinz Leder Leitner (آسٹریا)، Rev. Ivar Flaten (Norway)، ڈاکٹر کلیان سنگھ کلیان (لاہور، پاکستان) اور ڈاکٹر نعیم مشتاق (اسلام آباد، پاکستان) نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
اس پینل میں مقدس کتب کی مشکل آیات یا پھر ایسی آیات جن کے مفاہیم سمجھنے میں دقت محسوس ہوتی ہے، انہیں سمجھنے کے لئے ان کی تفاسیر سے متعلق گفتگو کی گئی۔ اراکین نے مقدس آیات کے مفاہیم میں موجود پیچیدگیوں کا ذکر کیا اور ان کی مختلف تشریحات کرتے ہوئے معاشرے پر ان کے اثرات پر گفتگو کی۔
مقالہ جات سیشنز
بعد ازاں کانفرنس میں ریسرچ پیپر ز سے متعلق تین سیشن ہوئے۔ جن میں مختلف سکالرز نے اپنے تحقیقی مقالات پڑھے۔ ان سیشنز کے کلیدی موضوعات درج ذیل تھے:
1. Interpretation & Mis-Interpretation Of Verses From Holy Books.
2. Politics & Violence as it relates to Religion in Pakistan
3. Countering Terrorism & Building Peace
ان سیشنز میں ناظمین کے فرائض پروفیسر ڈاکٹر شہباز منج (یونیورسٹی آف ایجوکیشن، لاہور)، ڈاکٹر حافظ عبدالغنی (فارمین کرسچن کالج، یونیورسٹی، لاہور)، پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم رانا (ڈین، فیکلٹی اف اسلامک سٹڈیز، منہاج یونیورسٹی لاہور) نے سرانجام دیے۔ ریسرچ پیپر پیش کرنے والوں میں ملکی و غیر ملکی اہلِ علم شخصیات شامل تھیں جنہوں نے عصرِ حاضر میں مذاہب کو درپیش مسائل کے حوالے سے گفتگو کی۔
کانفرنس کا دوسرا دن
کانفرنس کے دوسرے دن کا آغاز بھی تلاوتِ قرآن مجید اور دیگر مذاہب کے کلام سے ہوا۔ اس دن بھی پہلے دن کی طرح علمی و فکری درج ذیل سرگرمیاں ہوئیں:
مقالہ جات سیشنز
کانفرنس کے دوسرے دن ریسرچ پیپرز سے متعلق دوسیشنز ہوئے۔ جن میں مختلف احباب نے تحقیقی مقالات پڑھے۔ ان سیشنز کے کلیدی موضوعات درج ذیل تھے:
1.Examples of Violence In The Name Of Religion From Different Regions.
2.Historical, Philosophical & Psychological Perspectives
ان سیشنز میں ناظمین کے فرائض پروفیسر ڈاکٹر فوزیہ عبدالغنی (چئیر پرسن ڈیپارٹمنٹ آف پولیٹیکل سائنس، جی سی یونیورسٹی، لاہور)، ڈاکٹر عدیل عرفان (اسسٹنٹ پروفیسر یونیورسٹی آف سرگودھا) شامل تھے۔ ریسرچ پیپرز پیش کرنے والوں میں ملکی و غیر ملکی اہل علم شخصیات شامل تھیں جنہوں نے موضوع کی مناسبت سے سیر حاصل علمی گفتگو کی۔
پینلز ڈسکشن
ان سیشنز کے بعد پینل ڈسکشن کا سیشن منعقد ہوا۔ اس سلسلے میں The Exploitation Of Religion By Political Powers. (سیاسی طاقتوں کا استحصال ِ مذہب) کے عنوان سے پہلی پینل ڈسکشن ہوئی۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر شانتی کمار ہیٹیارچی (پروفیسر، منہاج یونیورسٹی لاہور) نے سرانجام دیے۔ پینل میں پروفیسر ڈاکٹر روہن گنارتنا (سنگاپور)، پروفیسر ڈاکٹر محمد وحید حسن (سابقہ صدر، مالدیپ)، پروفیسر جے سنگبے (شیخوپورہ)، ڈاکٹر جے پرکاش کردم (انڈیا)، مسٹر مائیکل رامسڈن (امریکہ) شامل تھے۔
شرکاء نے مختلف نقطہ نظر اور خیالات و نظریات پیش کئے۔ اس مکالمے میں سیاسی طاقتوں کے ذریعہ مذہب کے استحصال پر گفتگو کی گئی۔ ماہرین نے اس بات کا جائزہ لیا کہ کس طرح سیاسی ادارے طاقت اور کنٹرول حاصل کرنے کے لیے مذہبی جذبات کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس مکالمے کا مقصد اس دھوکہ دہی کے مضمرات سے پردہ اٹھانا اور اخلاقی حکمرانی کے لیے حکمت عملیوں کو فروغ دینا تھا۔
دوسرے پینل کا موضوع The Influence of History, Culture & Tradition On Religion In Pakistan. (پاکستان میں مذہب پر تاریخ، ثقافت اور روایات کا اثر) تھا۔ اس ڈسکشن کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر راجہ عدنان رزاق (ایسوسی ایٹ پروفیسر، منہاج یونیورسٹی لاہور) نے سرانجام دیے۔ پینل میں بشپ سیموئیل رابرٹ آزریاہ (راولپنڈی)، برگیڈئیر اختر نواز جنجوعہ (لاہور)، ڈاکٹر علی وقار قادری (لاہور)، ڈاکٹر امیت رائے جین (انڈیا)، پروفیسر ڈاکٹر اختر سندھو (لاہور) اورڈاکٹر محمد حمید (لاہور) شامل تھے۔
اس پینل ڈسکشن میں پاکستان میں مذہب پر تاریخ، ثقافت اور روایت کے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔ اس ڈسکشن میں یہ بات زیرِ بحث آئی کہ یہ عناصر مذہبی عقائد اور طریقوں کو کس طرح تشکیل دیتے ہیں؟
ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کا خطاب
منہاج القرآن انٹرنیشنل کی سپریم کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے 7ویں بین الاقوامی کانفرنس برائے عالمی مذاہب (2024ء) میں "The Model of Inclusiveness in the Light of the Constitution of Medina." ( مدینہ کے آئین کی روشنی میں جامعیت) کے موضوع پر خطاب فرمایا۔ اپنے خطاب میں ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے مدینہ کے آئین کے بارے میں تفصیل سے بتایا، جو تقریباً 1,400 سال قبل رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کے کثیر الثقافتی معاشرے میں ہجرت کے بعد قائم کیا تھا۔ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے اس پہلے تحریری آئین کی منفرد خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ آئین 63 آرٹیکلز پر مشتمل ہے اس میں تکثیریت، مساوات اور جامعیت پر مبنی طرز حکمرانی کے ایک نئے دور کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس آئین نے ہر قبیلے کی الگ شناخت کو محفوظ رکھا، اقتدار کی منتقلی کے اصول کو فروغ دیا اور مدینہ کے متنوع شہریوں کے درمیان باہمی احترام اور تعاون پر زور دیا۔ مدینہ کا آئین اپنے پائیدار اصولوں کی وجہ سے عالمی سطح پر اہمیت کا حامل ہے، جو سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے ایک رہنما کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس آئین نے انصاف، مذہبی عقائد کے تحفظ اور اخلاقیات اور اقدار کے تحفظ کو اجاگر کیا ہے۔ اس دستاویز نے قبائل کو داخلی معاملات پر خود مختاری کی اجازت دی، احترام اور اعتبار کو فروغ دیا اور کسی بھی ایسے اقدام کی سختی سے مخالفت کی جس سے اختلاف اور تفرقہ پیدا ہو۔ اس تاریخی آئین نے پارلیمانی اور مشاورتی فیصلہ سازی کو بھی متعارف کرایا۔ دستور مدینہ کا یہ ماڈل پیغمبر اسلام کی طرف سے فراہم کردہ مساوات، رواداری اور جامعیت کا ایک نمونہ ہے۔ اگر ہم اس ماڈل کو صحیح معنوں میں سمجھیں اور لاگو کریں تو متنوع پس منظر، نسلوں، رنگوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ اس دنیا میں ہم آہنگی کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔
گورنر خیبر پختون خوا فیصل کریم کنڈی کا اظہارِ خیال
کانفرنس میں خیبر پختونخوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی نے خصوصی شرکت کی۔ انھوں نے اپنے خطاب میں منہاج یونیورسٹی کے فروغِ تعلیم اور بین المذاہب ہم آہنگی کے جذبے کو سراہا۔ انہوں نے مستقبل کی نسلوں کو بااختیار بنانے، معاشرے میں اتحاد اور افہام و تفہیم کو فروغ دینے کے لیے منہاج یونیورسٹی کے کردار کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا امن و استحکام اور فلاح عامہ کے لئے دہشت گردی کے خلاف طویل ترین جنگ لڑنے والے پاکستان اور اُس کے عوام کا ساتھ دے۔ اسلام دہشت گردی نہیں بلکہ امن کا دین ہے۔ منہاج یونیورسٹی لاہور نے اہم موضوع پر بین المذاہب مکالمہ کا اہتمام کر کے قابلِ تعریف قومی، دینی و ملی خدمت انجام دی ہے۔ میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی فروغِ علم و امن کی خدمات کا ہمیشہ سے معترف رہا ہوں۔ منہاج یونیورسٹی کا فروغِ علم و امن کے لئے کردار قابل تقلید ہے۔
تقریب کے اختتام پر گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے منہاج یونیورسٹی کی طرف سے Global Rehabilitation and Community Engagement Repository کا اجراء کیا جو فروغ امن کے حوالے سے دنیا بھر میں ہونے والی تحقیقات کا آرکائیو ہو گا جس سے پالیسی ساز ادارے استفادہ کر سکیں گے۔
کانفرنس میں شریک غیر ملکی سکالرز
کانفرنس میں امریکہ، سنگاپور، آسٹریلیا، ہندوستان، ناروے، آسٹریا، مصر، سری لنکا، یورپ اور برطانیہ سے سکالرز اور منہاج یونیورسٹی اور دیگر جامعات کے اساتذہ و طلبہ نے خصوصی شرکت کی۔ غیرملکی دانشوروں میں پروفیسر ڈاکٹر محمد وحید حسن (سابقہ صدر مالدیپ)، پروفیسر ڈاکٹر افسر راٹھور (ویانا آسٹریا)، پروفیسر ڈاکٹر ترون جیت سنگھ بٹالیہ (ایسوسی ا یٹ پروفیسر، اوہیو سٹیٹ یونیورسٹی، کولمبس، امریکہ)، ڈاکٹر پیٹر حیدر (صدر یونیورسل پیس فیڈریشن، آسٹریا)، بھوپیندر کمار بھانتے پریادرشی ( وزیٹنگ لیکچرر یونیورسٹی آف کیلانیا، سری لنکا)، محترمہ اسماء الزینی (لیکچررجامعۃ الازہر، قاہرہ مصر)، فلپ ڈنکن پیٹر (یونیورسٹی آف ایڈن برگ، انگلینڈ)، Dr. Heinz Leder Leitner (بشپ، قدیم کیتھولک چرچ، آسٹریا)، ڈاکٹر جے پرکاش کردم (سابقہ ڈائریکٹر سینٹرل ہندی ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ، انڈیا)، Rev. Ivar Flaten (Former Dialogue Officer, Norway)، پروفیسر ڈاکٹر عبداللہ سعید (ڈائریکٹر آف اسلامک سٹڈیز، یونیورسٹی آف میلبورون، آسٹریلیا)، ڈاکٹر آری ایم گورڈن (ڈائریکٹر مسلم جیوش ریلیشنز، امریکہ)، مسٹر مائیکل رامسڈن (محقق، اٹلانٹا امریکہ)، ڈاکٹر بھولے ناتھ یوگی (پرنسپل ودیاپیٹھ سکول ڈانگ، نیپال)، پروفیسر ڈاکٹر انُو مہرا (پروفیسر یونیورسٹی آف دہلی، انڈیا)، پروفیسر ڈاکٹر روہن گنارتنا (سنگاپور)، ڈاکٹر تھامس جی ولاش (صدر انٹرنیشنل سکول فار پیس اینڈ پبلک لیڈرشپ نیویارک امریکہ)، ڈاکٹر امیت رائے جین (ڈائریکٹر شہجاد درائے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، انڈیا) جیسی شخصیات شامل تھیں۔