ابتدائے آفرینش سے ہی دنیا میں تہذیب و تاریخِ انسانی کے اوراق میں فطرت کا ایک اٹل اور مستحکم قانون نظر آئے گا کہ جب کسی قوم کی سیاسی عظمت و جاہ و جلال کا چراغ گل ہو جا تا ہے تو وہ سب کچھ کھو بیٹھتی ہے۔ انارکیت، لا مرکزیت اور طوائف الملوکی کے اس نازک مقام پر بہت سی اقوام مِٹ جایا کرتی ہیں۔ مسلمانانِ ہند بھی لا مرکزیت کا شکار تھے۔ کسی قوم کی تاریخ ترقی و تنزل کے اہم تغیرات سے خالی نہیں۔ قوموں کا بن کر بگڑنا اوربگڑ کر بننا حادثات کے ایسے تراشے ہیں جو تاریخ عالم کے قرطاس پر آئے روزدکھائی دیتے رہتے ہیں۔ کسی قوم میں جب انارکیت ولا مرکزیت کا دور دورہ شروع ہو تا ہے تو اس کی جمعیت بکھر جانے کے بعد اس قوم کے افراد پر بڑی سے بڑی ذلت مسلط کرنے میں بھی اغیار کو کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی۔ ایسی قوم تضحیک واستہزا کی خوگر ہو جاتی ہے۔
تاریخ کے اوراق کا جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ قیام پاکستان سے قبل ارضِ ہند سے مسلمانوں کی تمدنی قوت کا شیرازہ بکھر چکا تھا۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی قومی وحدت پارہ پارہ ہو چکی تھی۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے تھے کہ پنڈت جواہر لال نہرو ان خیالات کا اظہار کرنے لگا کہ ہندوستان میں صرف دوہی سیاسی حقیقتیں ہیں۔ ہندواور انگریز۔ مسلم قوم کا کوئی وجود ہی نہیں۔ یہ محض ایک ڈھکو سلا ہے جو چند خود غرض لوگوں نے پیدا کر رکھا ہے۔ اگر اخبارات مسلمانوں کی وجود کی تشہیر نہ کرتے تو آج بہت کم لوگ اس نام سے آشنا ہوتے۔ ایک خاص قسم کے پاجامے کی وضع قطع اور ٹونٹی دار لوٹے کے سوا مسلم تہذیب کی اور کوئی نمایاں علامتیں نہیں۔
1932ء تک مسلمان ملی تنزلی کا شکار ہو چکے تھے اور وہ ایک ایسا منتشر گر وہ تھے جس کی بیسیوں جماعتیں تھیں۔ اس کے سامنے نہ کوئی نصب العین تھا اور نہ ہی وہ اپنی منزل کو پہچانتے تھے۔ وہ بنی اسرائیل کی بھیڑوں طرح ارض ہند میں سرگرداں پھر رہے تھے۔ ہندو اور انگریز مسلمانوں کو مٹانے کے درپے تھے مگر اللہ تعالیٰ کی رضا ارض ِہند میں رہنے والے ان دس کروڑ مسلمانوں کو زندہ رکھنا تھا۔ چنانچہ ا نھیں تباہی و بربادی سے بچانے کے لئے اس نے ایسے ذرائع پیدا کردیے کہ جو کسی کے وہم وگمان و احاطہ خیال میں بھی نہ تھے۔ ان صبر آزما ساعتوں میں جب مسلمانوں کے بڑے بڑے علمائے کرام بھی مسلمانوں کے مستقبل سے مایوس ہوکر ہندووں اور انگریزوں کے ہمنوا بن چکے تھے، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک ایسا قائد عطا فرمایا جس کا وجود روشنی اور رہنمائی کا ایک بلند مینار ثابت ہوا۔ ملت اسلامیہ کی تقدیر یں بدلنے والا یہ مرد مومن اور اسلامیان ہند کو پاکستان جیسی عظیم الشان مملکت بخشنے والا یہ رہبر فرزانہ محمد علی جناح تھا۔
بلا شبہ قائد اعظم محمد علی جناح کی صورت میں مسلمانانِ ہند کو ایک نابغہ روزگار قائد عطا کیا گیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح دس کروڑ مسلمانوں کی دستگیری کیلئے مردانہ وار آگے بڑھے اور انہیں ایک پرچم تلے جمع کیا اور پھر پورے عزم ویقین کے ساتھ انہیں سمجھایا کہ ہم اقلیت نہیں۔ ہم ایک قوم ہیں اور زندہ جاوید قوم کی حیثیت سے اس بر اعظم میں زندہ رہیں گے۔ ہمارے پاس مکمل ضابطہ حیات ہے۔ ہمارے پاس ایک ایسی الہامی روشنی ہے جو زمان و مکاں کے قیود سے بے نیاز ہے اور جو ہر قدم پر ہماری رہنمائی کر سکتی ہے۔ مسلمان کے نزدیک قومیت کا نظریہ صرف اسلام ہے۔ ہماری سیاست اور مذہب دو الگ الگ ادارے نہیں۔ ہندو جس قومیت کی دعوت دے رہے ہیں وہ ایک ہلاکت آفرین فریب ہے۔ ہماری تہذیب الگ اور ہمارا تمدن جدا ہے۔
قائد اعظم کی شبانہ روز کی کاوشوں نے مسلمانوں کے اندر ایک ولولہ زندہ کردیا۔ مسلمانوں کا یہ ملی عزم 23 مارچ 1940ء کو قرار داد لاہور کی شکل میں منصہ شہود پر آیا۔ جس نے دس کروڑ اسلامیان ہند کو آوارہ تصورات سے نکال کر ایک ایسا زندگی بخش تصور دیا جو ان کی آزادی و استقلال، تہذیب و تمدن کے ارتقاء اور اقتصادی و معاشرتی ترقیوں کے لئے ضروری تھا۔ دنیا کی کسی قوم کی تاریخ میں ایسی درخشندہ مثال نہیں ملتی کہ کسی رہنما نے مجبور و محکوم ہوتے ہوۓ بے سرو سامانیوں کے درمیان ایک مردہ قوم میں زندگی کی لہر دوڑائی ہو اور دس برس کی قلیل مدت میں ملک کو صف اول کی قوموں کے دوش بدوش کھڑا کر دیا ہو۔ یقینا یہ ایک حیرت انگیز کامیابی ہے لیکن بہ ایں ہمہ یہ مرد مسلمان ان کامیابیوں کو تعلیمات اسلام کا ایک زندہ معجزہ سمجھتا ہے۔ وہ پورے یقین کی ساتھ کہتا ہے کہ ”اسلامیانِ ہند کے اس حیرت انگیز انقلاب پر دنیا حیران ہے۔ کچھ لوگ اسے میری کوششوں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمانان ہند کا اس قدر جلد متحد ہو جانا خداوند کریم کے فضل و کرم کا نتیجہ اور قرآن مجید کی تعلیم اخوت کا زندہ معجزہ ہے۔ اگر ہمارے سامنے فرمان خداوندی نہ ہو تا کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں اورانہیں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہنا چاہئیے تو مسلم لیگ یا کوئی بھی جماعت مسلمانان ہند کو اتنی آسانی سے متحد نہ کر سکتی تھی۔ “
قائد اعظم کے اہم افکارو نظریات
اسلامی تعلیمات پر غیر متزلزل یقین ہی کے سبب قائد اعظم محمد علی جناح کو یہ عظیم کامیابی حاصل ہوئی۔ آئیے اس عظیم قائد کے افکار وخیالات سے استفادہ کرتے ہیں تا کہ ہم اپنے زوال کو کمال میں بدلنے کی کوئی حرارت پیدا کرسکیں۔
اسلام کا تصور حکومت و مملکت
’’میرا یہ ایمان ہے کہ ہماری نجات اس میں مضمر ہے کہ ہم ان بیش بہا اصولوں کی پیروی کریں، جو ہمارے عظیم المرتبت قانون دہندہ، پیغمبرِ اسلام حضرت محمّد ﷺ نے ہمارے لیے واضح کر دئیے ہیں۔ آئیے، ہم اپنی مملکت کی اساس سُچےاسلامی تصوّرات اور اصولوں پر قائم کریں۔ ‘‘
پاکستان کے قیام کا مقصد
’’ہمارے لیے بس ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ ہم اپنی قوم کو منظّم کریں۔ یہ اُسی وقت ہو سکتاہے کہ جب ہم طاقت وَر ہوں اور اپنی قوم کی مدد کریں۔ نہ صرف استقلال و آزادی کے لیے، بلکہ اس کو برقرار رکھنے اور اسلامی تصوّرات اور اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیےبھی۔ پاکستان کا مقصد صرف آزادی و خود مختاری ہی نہیں، اسلامی نظریہ ہے، جو ایک بیش قیمت عطیے اور خزانے کی حیثیت میں ہم تک پہنچا ہے۔ ‘‘
دستور پاکستان کا ماخذ
”مَیں ان لوگوں کو نہیں سمجھ سکا ہوں، جو جان بوجھ کر فتنہ پیدا کرنا چاہتے ہیں اور پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ پاکستان کا دستور شریعت کے مطابق نہیں بنایا جائے گا۔ اسلامی اصول بے مثال ہیں، یہ اصول آج بھی زندگی میں اسی طرح قابلِ عمل ہیں، جس طرح 14 سو سال پہلے تھے۔ ‘‘
سرمایہ داریت اور جاگیر داریت کا خاتمہ
”پاکستان میں عوام کی حکومت ہوگی۔ میں ان جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو متنبہ کرنا چاہوں گا جنہیں ایک فاسد اور ظالمانہ نظام نے اتنا بے حس اور خود غرض بنادیا ہے کہ کسی دلیل یا فہمائش کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ عوام کا استحصال ان کے خون میں سرایت کرچکا ہے اور وہ اسلام کی تعلیمات کو بُھلا بیٹھے ہیں۔ لالچ کے باعث یہ لوگ عوام کی بہتری کے بجائے اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہیں۔ ملک میں لاکھوں لوگ ایسے ہیں جن کو ایک وقت کی روٹی بھی مشکل سے ملتی ہے، کیا اسی کا نام تہذیب ہے؟ کیا پاکستان اسی لیے بنایا جارہا ہے کہ لاکھوں لوگوں کا استحصال جاری رہے؟ اگر یہی پاکستان کا تصور ہے تو مجھے ایسا پاکستان نہیں چاہیے۔ “
(مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس سے خطاب، 24 اپریل 1943ء)
اسلامی نظام معیشت کا نفاذ
”مغربی اقدار، نظریے اور طریقے خوش و خرم اور مطمئن قوم کی تشکیل کی منزل کے حصول میں ہماری مدد نہیں کرسکیں گے۔ ہمیں اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہوگا اور دنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگا جس کی اساس انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے سچے اسلامی تصور پر استوار ہو۔ “ (اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب سے خطاب، یکم جولائی 1948)
پاکستان کا طرز حکومت
”آپ ہندوؤں اور سکھوں کو بتادیں کہ یہ بات سراسر غلط ہے کہ پاکستان کوئی مذہبی ریاست ہوگی اور اس میں غیر مسلموں کو کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ “
(2 نومبر 1941 کو علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ سے خطاب)
اقلیتوں کی حیثیت
1947 ء کو انتقالِ اقتدار کے موقع پر جب حکومت برطانیہ کی نمائندگی کرتے ہوئے لارڈ ماونٹ بیٹن نے اپنی تقریر میں کہا کہ میں امید کرتا ہوں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہوگا اور ویسے ہی اصول پیش نظر رکھے جائیں گے جن کی مثالیں اکبر اعظم کے دور میں ملتی ہیں‘‘۔ تو اس پر قائد اعظم نے برجستہ فرمایا: ’’وہ رواداری اور خیر سگالی جو شہنشاہ اکبر نے غیر مسلموں کے حق میں برتی، کوئی نئی بات نہیں۔ یہ تو مسلمانوں کی تیرہ صدی قبل کی روایت ہے۔ جب پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ یہودیوں اور عیسائیوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد ان کے ساتھ نہ صرف انصاف بلکہ فیاضی کا برتاو کرتے تھے۔ مسلمانوں کی ساری تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ہم پاکستانی حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں ہی پاکستان کا نظام چلائیں گے‘‘۔
خلاصہ کلام
آج اگر پاکستان کے حالات حاضرہ پر نظر دوڑائی جائے تو ہر شعبہ زندگی مین مایوسی اور بے چینی کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ سیاسی، مذہبی، معاشی، معاشرتی، تعلیمی اور تربیتی الغرض ہر لحاظ سے ہم زوال کا شکار ہیں۔ قائداعظم کے ان فرامین کی روشنی میں اگر ہم آج اپنے حالات حاضرہ کا بنظر عمیق جائزہ لیں تویہ بات روز روشن کی طرح ہمارے اذہان میں عیاں ہوتی ہے کہ قائد اعظم نے جس تصور پر پاکستان بنایا تھا آج اس کا نام و نشان تک نظر نہیں آتا۔ اس پاک سر زمین کو معاشرتی، اخلاقی، معاشی اور سماجی برائیوں سے آلودہ کر دیا گیا ہے۔ قائد کے افکار کا پاکستان منظر ِعالم سے سرکتا ہوا محسوس ہورہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بانی پاکستان کے مزکورہ افکار و نظریات کی روشنی میں ہر شعبہ زندگی میں انقلاب و تبدیلی پیدا کریں۔ اس صورت میں ہم پاکستان کو قائد کے کواب کی حقیقی تعبیر بنا سکتے ہیں اور اقوام ِ عالم میں اپنا باعزت مقام حاصل کرسکتے ہیں۔