ماحولیاتی و موسمیاتی تغیرات کے اسباب و اثرات اور اسوۂ نبوی سے رشد و ہدایت

ڈاکٹر نعیم انور نعمانی

بنی نوعِ انسان اس وقت جہاں دیگر کئی مسائل سے برسرِپکار ہے وہیں اسے ماحولیاتی و موسمیاتی تغیر کا بھی سامنا ہے۔ جس کے سبب حیاتِ انسانی ایک بہت بڑے نقصان سے دوچار ہورہی ہے۔ کسی بھی علاقے کی آب و ہوا اس کے ماحول پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اگر آب و ہوا صاف ہے اور اس میں کسی قسم کی آلودگی و آلائش شامل نہیں ہے تو انسانوں اور اس کے اردگرد کے ماحول پر اس کے اچھے اثرات ظاہر ہوں گے اور اگر آب و ہوا میں نظافت کے بجائے کثافت اور آلودگی کا عنصر زیادہ ہے تو اس کے برے اثرات مرتب ہوں گے۔ ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلی سے مراد وہ دیرپا اور مسلسل تبدیلیاں ہیں جو فطری اور انسانی عوامل کی بناء پر موسمیاتی نظام اور قدرتی ماحول میں رونما ہوتی ہیں۔ ان تبدیلیوں میں درجہ حرارت میں اضافہ، سمندر کی سطح کا بڑھنا، موسموں کی شدت میں اضافہ اور قدرتی و ناگہانی آفات کا بڑھنا شامل ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی آب و ہوا کے قدرتی نظام کے بگاڑ کا نام ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ انسانی معمولات، استعمالات اور خواہشات میں بگاڑ ہے۔اگر ہم ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلی کے اسباب کا جائزہ لیں تو درج ذیل وجوہات سامنے آتی ہیں:

i۔ ہر آئے روز آب و ہوا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدارکا بڑھنا

ii۔ نامیاتی ایندھن (کوئلہ، تیل، گیس وغیرہ) کا ضرورت سے بڑھ کر استعمال۔

iii۔ مغربی ممالک کا صنعتی انقلاب

iv۔ آلودگی (سموگ)

v۔ گلوبل وارمنگ

vi۔ گرین ہاؤس ایفیکٹ

vii۔ جنگلات کا خاتمہ

viii۔ قدرتی عوامل (زلزلہ، سیلاب وغیرہ)

پاکستان اپنی جغرافیائی حدود میں ایسی جگہ پر واقع ہے جہاں درجہ حرارت دیگر ممالک کی نسبت زیادہ بڑھ رہا ہے۔ پاکستان کی معیشت کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات زراعت پر بھی بہت زیادہ ہورہے ہیں۔ فصلوں کی پیداوار، غذائیت اور مویشیوں کی پیداواری صلاحیت میں بھی واضح کمی آرہی ہے۔ ہم قدرتی وسائل پانی، خوراک لکڑی کا بے تحاشا اور بلا ضرورت استعمال کرتے ہیں اور ان کا بہت زیادہ ضیاع کرتے ہیں۔ ہم اپنی زمین کو پیداواری مقاصد کے بجائے غیر پیداواری مقاصدمیں استعمال کررہے ہیں۔

پاکستان دنیا میں اپنی آبادی کے لحاظ سے پانچواں بڑا ملک ہے۔ 25 کروڑ سے زائد نفوس کی حامل آبادی کی غذائی ضروریات کے لیے وسیع رقبے پر زراعت کی ضرورت ہے مگر یہ رقبہ بھی مسلسل اور بہت زیادہ ہاوسنگ سوسائٹیز کے جال در جال کی وجہ سے کم ہورہا ہے اور موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا اثر اس کی زراعت پر بھی پڑ رہا ہے۔ پاکستان میں سموگ اور سیلاب کی تباہ کاریاں اسی ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آئی ہیں۔ جس نے لوگوں کو کافی حد تک متاثر کیا ہے۔اس موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے املاک، جانوروں اور فصلوں کو بھی نقصان ہورہا ہے اور اس کے سبب بھوک و افلاس اور بیماریاں بھی بڑھ رہی ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلیوں کے تدارک کے لیے اقدامات

دنیا کو موسمیاتی اثرات اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے بچانے کے لیے عالمی سطح پر کئی تنظیمیں سرگرم عمل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے بچانے کے لیے انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی آلودگی نامیاتی ایندھن یعنی تیل، گیس اور کوئلے کا بڑے پیمانے پر استعمال روکنا ہوگا کیونکہ نامیاتی ایندھن بھی ماحولیاتی آلودگی کا ایک سبب بن رہا ہے۔ ترقی پذیرممالک کا مؤقف یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک نے چونکہ نامیاتی ایندھن کے بھرپور استعمال سے خوب فائدہ اٹھایا اور ان ہی کے سبب ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، اس لیے اس دنیا کو ماحولیاتی تبدیلی سے بچانے کے لیے یہ اپنے فنڈز کا استعمال کریں۔ جبکہ ترقی یافتہ ممالک کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں متاثرہ ممالک اپنا بوجھ خود اٹھائیں۔

ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانا دنیا بھر کے ممالک کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ اب اس مسئلے کا حل ساری دنیا کے لیے صرف یہی ہے کہ روایتی توانائی کے ذرائع کے برعکس متبادل توانائی کے ذرائع کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے تاکہ بڑی تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلی پر قابو پایا جائے۔ جس میں شمسی توانائی، پن بجلی کی توانائی اور دیگر ذرائع توانائی سرفہرست ہیں۔

اس سلسلے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر ملک توانائی کے متبادل ذرائع پر زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرے۔حکومتوں کو ماحولیاتی قوانین پر عملدرآمد کرانا ہوگا۔ زہریلی گیسز کا اخراج کم کرنا ہوگا، جنگلات کے کٹاؤ کو روکنا ہوگا اور بڑی تعداد میں درخت لگانے ہوں گے، گرین انرجی کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے اور نئے شہر بسانا ہوں گے۔فصلوں کی باقیات کو جلانا، دھواں چھوڑتی گاڑیاں، ہر گلی محلے میں موجود اوپن ایئر پکوان سنٹر، نکاسی آب کا ناقص نظام اور پلاسٹک لفافے (شاپنگ بیگ) بھی ماحولیاتی آلودگی میں بے پناہ اضافہ کرتے ہیں۔ لہذا ان تمام امور سے بچنا ہوگا، ان کا نعم البدل تلاش کرنا ہوگا اور ان کا استعمال بھی محدود کرنا ہوگا۔ اسی طرح پانی ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمتِ حیات ہے۔ اس کا غیر ضروری استعمال بند کرتے ہوئے اس کے بے تحاشا ضیاع کو ہر ممکن روکنا ہوگا۔ کوڑا کرکٹ کو صحیح طور پر ٹھکانے لگاتے ہوئے صفائی، ستھرائی کی طرف متوجہ ہونا ہوگا۔ یہ سارے اقدامات ہمارے معاشرے سے ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی کو روکنے کا سبب بنیں گے۔ علاوہ ازیں ہمیں اپنی انفرادی زندگی کی خواہشات کو بھی محدود اور منضبط کرنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ساری نعمتوں کی قدر کرنا ہوگی اور ضرورت کے تحت ان چیزوں کا بہتر استعمال کرنا ہوگا۔

ماحول کی سازگاری کے لیے نبوی ہدایات

ہمیں ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تغیر سے پیدا ہونے والی تبدیلیوں اورنقصانات سے بچنے کےلیے مختلف اقدامات کرنے ہوں گے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے اقوال و فرامین اس حوالے سے بھی ہمیں رہنمائی عطا کرتے ہیں۔ ذیل میں اس حوالے سے سیرتِ الرسول ﷺ کی روشنی میں چند نکات ذکر کیے جاتے ہیں:

(1) شجر کاری

ماحولیاتی آلودگی سے بچنے، موسم کو صحت افزا اور ماحول کو سازگار بنانے کے لیے درختوں کی حفاظت کرنی ہوگی۔ جنگلات کے کٹاؤ کے عمل سے رکنا ہوگا اور عام زرعی زمینوں میں درختوں کی پیداوار کو بڑھانا ہوگا اور بڑی تعداد میں ہر جگہ درختوں کو لگانا ہوگا۔ اس عمل سے ماحولیاتی صحت قائم ہوگی۔ درختوں کوبڑی تعداد میں لگانے کی ترغیب ہمیں احادیث رسول ﷺ سے ملتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مامن مسلم یغرس غرسا الا کان ما اکل منہ لہ صدقة.

(صحیح مسلم، کتاب المساقاة، 1552)

’’جو مسلمان درخت لگائے پھر اس میں سے کوئی کھائے تو درخت لگانے والے کو صدقے کا ثواب ملےگا۔‘‘

گویا درخت جہاں انسان کی دنیا کو نفع بخش بناتا ہے، وہاں اس کی آخرت کو بھی اجروثواب کا حامل بناتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ماحولیاتی آلودگی کو ختم کرنے اور صحتمند معاشرے کے قیام کے لیے درخت لگانے کو بے پناہ اہمیت دی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

ان قامت الساعة وبید احدکم فسیلة فاستطاع ان لا یقوم حتی یغرسھا فلیفعل.

(مسند احمد بن حنبل، 3: 191)

’’اگر قیامت کی ساعت و گھڑی آجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں پودا ہو اوروہ اس کو لگاسکتا ہے تو لگائے بغیر کھڑا نہ ہو۔‘‘

یہ حدیث مبارک اپنے ماحول کو ہر حوالے سے سازگار بنانے کے لیے ہمیں آمادہ کرتی ہے۔ ہمیں اپنی جدوجہد پر یقین رکھنا چاہیے اور اپنے عمل اور اپنی کاوش سے کبھی بھی دستبردار نہیں ہونا چاہیے۔ مسلسل جدوجہد ہی کامیابی کی علامت بنتی ہے۔ شجر کاری (plantation) کا ماحولیاتی اور موسمیاتی سازگاری میں بڑا ہی اہم کردار ہے۔ اس لیے حدیث مبارک میں تاکید کی جارہی ہے کہ تم اپنی کاوشوں کو کبھی ترک نہ کرو خواہ قیامت کا منظر ہی تمہارے سر پر سوار ہو۔

(2) زمین کا نفع بخش اور پیداواری استعمال

موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مختلف ممالک غذائی قلت کا سامنا کررہے ہیں۔ اس ضمن میں رسول اللہ ﷺ کی سیرت ہمیں یہ تعلیم دیتی ہے کہ زمین انسان کا مستقر اور ٹھکانہ ہے اور اس کی حیات کی کل متاع اسی زمین کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس زمین میں اس کے معاش کے ذرائع ہیں۔ ہر حکومت و ریاست کی ذمہ داری ہے وہ اپنے زیر کنٹرول زمین کو انسانیت کی بہتری اور خیر خواہی کے لیے استعمال کرے۔ اس زمین پر ایسی تمام سرگرمیوں پر پابندی عائد کرے جو اس زمین کی پیداواری صلاحیت کو متاثر کرتی اور اس کے ماحول کو مکدر کرتی ہیں۔ وہ عوامل جو اس زمین کے ذرائع پیداوار اور ذرائع معاش کو برباد کرتے ہیں، ان کا سختی سے سدباب کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ اس زمین پر تمام انسانوں کا برابر کا حق ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَقَدَّرَ فِیْھَآ اَقْوَاتَھَا فِیْٓ اَرْبَعَةِ اَیَّامٍ سَوَآءً لِّلسَّآئِلِیْنَ.

(حم السجدہ،41: 10)

’’ اور اس میں (جملہ مخلوق کے لیے) غذائیں (اور سامانِ معیشت) مقرر فرمائے (یہ سب کچھ اس نے) چار دنوں (یعنی چار ارتقائی زمانوں) میں مکمل کیا، (یہ سارا رِزق اصلًا) تمام طلب گاروں (اور حاجت مندوں) کے لیے برابر ہے۔‘‘

بعض لوگ زمین کے ذرائع اور وسائلِ رزق پر قابض ہوجاتے ہیں اور دوسرے لوگوں تک اس پیداوار اور رزق کو آسانی کے ساتھ نہیں پہنچنے دیتے۔ وہ معاشرے میں عدمِ مساوات پیدا کرکے قلتِ رزق کا سبب بنتے ہیں۔ اسلام رزق کی زیادت و کثرت کی نعمت پانے والوں کو اس رویے سے روکتا ہے۔ ارشاد فرمایا:

وَاللہُ فَضَّلَ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ فِی الرِّزْقِ فَمَا الَّذِیْنَ فُضِّلُوْا بِرَآدِّیْ رِزْقِھِمْ عَلٰی مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ فَھُمْ فِیْہِ سَوَآءٌ اَفَبِنِعْمَةِ اللہُ یَجْحَدُوْنَ.

(النحل،16 :71)

’’ اور اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق (کے درجات) میں فضیلت دی ہے (تاکہ وہ تمہیں حکمِ انفاق کے ذریعے آزمائے)، مگر جن لوگوں کو فضیلت دی گئی ہے وہ اپنی دولت (کے کچھ حصہ کو بھی) اپنے زیردست لوگوں پر نہیں لوٹاتے (یعنی خرچ نہیں کرتے) حالاں کہ وہ سب اس میں (بنیادی ضروریات کی حد تک) برابر ہیں، تو کیا وہ اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں۔‘‘

موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیاں زمین کی پیداوار میں بہت زیادہ قلت کا باعث بن رہی ہیں۔ کھڑی فصلیں سیلاب کی وجہ سے تباہ ہورہی ہیں۔ پھلوں کے باغات اور سبزیوں کے کھلیان سیلابی ریلوں کی وجہ سے بہہ رہے ہیں۔ ان حالات میں زمین کی محدود پیداوار کو تمام لوگوں تک پہنچانا حکومتوں کا انتظامی سطح کا بہت بڑا امتحان ہے۔ موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے لوگ بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم ہورہے ہیں۔ تمام تر حالات میں لوگوں کو بنیادی ضروریات فراہم کرنا حکومتوں کی اولین ذمہ داری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کے ہر فرد کو زندہ رہنے کا حق دیا جائے اور اس کی زندگی کے تمام بنیادی لوازمات اسے فراہم کیے جائیں۔

انسان اس زمین میں اللہ کا نائب ہے اور بالخصوص وہ انسان جو حاکمِ وقت ہے، اس پر اس نیابت کی بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی زمین میں زیادہ سے زیادہ رزق پیدا کرنے کا اہتمام کرے اور مختلف اجناس، پھلوں اور سبزیوں کی کاشت کو بڑھائے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں مساوی بنیادوں پر ان کی فراہمی میں کسی قسم کا تفاوت نہ آنے دے اور سب انسانوں کا یکساں وکیل و کفیل بنے۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

من احیا ارضا میتة لہ بھا اجر وما اکلت منہ العافیة فلہ بہ اجر.

(احمد بن حنبل فی المسند، 3: 313، رقم 14401)

’’جو شخص کسی مردہ (غیر آباد) زمین کو زندہ (قابل کاشت) بناتا ہے، اس کے لیے اس کا اجر ہوگا، اور رزق کی تلاش میں سرگرداں مخلوقِ خدا میں سے کسی نے بھی اس میں سے کچھ کھایا تو اس پر بھی اسے اجر (عظیم) سے نوازا جائے گا۔‘‘

ایک اور مقام پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

من کانت لہ ارض فلیزرعھا فان لم یزرعھا فلیزرعھا اخاہ.

(صحیح مسلم، کتاب البیوع، باب کراء الارض، الرقم 1536)

’’جس کے پاس کوئی زمین ہے، اسے چاہیے کہ اس میں کھیتی باڑی کرے اور اگر وہ خود کھیتی باڑی نہ کرسکے تو اپنے کسی (مسلمان) بھائی کو دے دے۔‘‘

(3) بنیادی ضروریات کی فراہمی اور ماحول کی سازگاری

ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیاں جو انسانوں کی مختلف سرگرمیوں کی وجہ سے رونما ہورہی ہیں، ان کا حل بھی ان کو مشترکہ کاوشوں اور اجتماعی قربانیوں کے ذریعے سے کرنا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ اقدس ہمیں یہ بھی تعلیم دیتی ہے کہ تمام انسان بعض بنیادی چیزوں میں مساوی حق رکھتے ہیں جیسا کہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:

لیس لابن آدم حق فی سوی ھذہ الخصال بیت یسکنہ وثوب یواری عورته وجلف الخبز والماء.

(الترمذی، کتاب الزهد، باب الزھاد فی الدنیا، 2341)

’’ہر انسان کے لیے ان اشیاء کے سوا کوئی حق نہیں ہے، رہنے کے لیے مکان، جسم ڈھانپنے کے لیے کپڑا، کھانے کے لیے روٹی اور پینے کے لیے پانی۔‘‘

یہ بنیادی ضروریاتِ حیات ہیں، ان کی مسلسل فراہمی کے لیے ہر دور کی حکومت ہر کسی کے لیے باعزت جینے کا حق اور بنیادی ضروریات کی فراہمی یقینی بنائے۔

(4) وسائل کے استعمال میں اعتدال و توازن

ماحولیاتی تبدیلیوں اور موسمیاتی تغیرات کے نقصانات سے بچنےکے لیے ضروری ہے کہ ہم قدرتی وسائل اور اللہ کی طرف سے ملنے والی نعمتوں کو اعتدال و توازن کے ساتھ استعمال کریں۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَّکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ.

(الاعراف: 31)

’’ اور کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بے شک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔‘‘

ó حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے جو وضو کرتے ہوئے (اچھے طریقے سے وضو کرنے کی کوشش میں) ضرورت سے زائد پانی بہا رہے تھے تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا:

ماھذا السرف فقال: افی الوضوء اسراف؟ قال: نعم وان کنت علی نھر جار.

(ابن ماجہ فی السنن، کتاب الطھارة وسننھا، باب ماجاء فی القصد فی الوضوء وکراھیة التعدی فیہ، 1: 147، رقم 425)

’’یہ کیسا اسراف ہے؟ انھوں نے عرض کیا: (یارسول اللہ!) کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں، چاہے تم بہتے دریا کے کنارے ہی کیوں نہ بیٹھے ہو (تب بھی پانی احتیاط سے بقدرِ ضرورت استعمال کیا کرو۔)‘‘

ó حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:

انہ ﷺ نھی ان یبال فی الماء الراکد.

(مسلم فی الصحیح، کتاب الطہارة، باب النھی عن البول فی الماء الراکد،1: 235، رقم 281)

’’رسول اللہ ﷺ نے ٹھہرے ہوئے پانی (جھیل، تالاب اور جوہڑ وغیرہ) میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘

ó ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہj بیان فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ گھر تشریف لائے تو روٹی کا ایک ٹکڑا گرا ہوا دیکھا، آپ ﷺ نے اسے اٹھالیا اور صاف کرکے تناول فرمالیا اور مجھ سے فرمایا:

یا عائشة اکرمی کریما فانھا مانفرت عن قوم قط فعادت الیهم.

(ابن ماجہ فی السنن، کتاب الاطعمة باب النھی عن القاء الطعام، 2: 1112، رقم 3353)

’’اے عائشہ! عزت و احترام کے قابل چیز (یعنی اللہ تعالیٰ کے رزق کی) قدر کیا کرو، اس لیے کہ یہ رزق جب کبھی کسی قوم سے الگ ہوگیا تو پھر ان کی طرف کبھی لوٹ کر نہیں آیا۔‘‘

آپ ﷺ کے ان ارشادات مبارکہ سے ہمیں وسائل اور نعمتوں کی کثرت کے باوجود ان کے استعمال میں اعتدال اور توازن پیدا کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔

(5) معاشرے میں صفائی کا اہتمام

ماحولیاتی و موسمیاتی تغیرات سے اپنے معاشرے کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسلام کے اصولِ طہارت اور ضابطۂ نفاست کو اپنی زندگیوں میں ایک لازمی عادت کے طور پر اپنائیں۔ ہم جس بھی ماحول میں اپنی زندگی گزار رہے ہوں، لازم ہے کہ وہاں دور دور تک گندگی کا نام و نشان نہ ہو۔ ہمارے محلے، علاقے، گلیاں و بازار نظافت و طہارت کا نمونہ ہوں۔ ہمارا قرب و جوار ہمارے لیے قابلِ رشک ہو اور تعفن و غلاظت کے آثار و علامات نہ ہوں۔ صفائی کے محکمے بھی اپنی ذمہ داریاں پوری دلجمعی اور یکسوئی کے ساتھ ادا کریں اور عوام بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوڑا کرکٹ ہر جگہ نہ پھینکیں۔ صفائی و طہارت کے اصول پر عملدرآمد ہی سے ہم ماحولیاتی آلودگی سے پاک معاشرے کو قائم کرسکتے ہیں۔ باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

فِیْهِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَهَّرُوْا وَاللہُ یُحِبُّ الْمُطَّهِّرِیْنَ.

(التوبة،9: 108)

’’ اس میں ایسے لوگ ہیں جو (ظاہراً و باطناً) پاک رہنے کو پسندکرتے ہیں، اور اللہُ طہارت شعار لوگوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘

رسول اللہ ﷺنے طہارت و نظافت کو نصف ایمان قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

الطهور نصف الایمان.

(ترمذی، کتاب الدعوات، 3519)

’’پاکیزگی نصف ایمان ہے۔‘‘

وہ معاشرہ جس میں ہر طرف گندگی اور غلاظت کے ڈھیر ہوں، وہ معاشرہ اپنی موت آپ مرجاتا ہے۔ اس معاشرے کو اس کی اپنی عاداتِ بد اور اپنی ہی غلاظت پسند خصلت مار دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے کو اس تباہی اور بربادی سے بچانے کے لیے اسلام نے سب سے زیادہ زور طہارت و نفاست پر دیا ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ان اللہ طیب یحب الطیب نظیف یحب النظافة کریم یحب الکرم جواد یحب الجود فنظفوا اراہ قال افنیتکم ولا تشبھوا بالیهود.

(الترمذی فی السنن، کتاب الادب، باب ماجاء فی النظافة، 5: 111، رقم 2799)

’یقیناً اللہ تعالیٰ طیب و پاکیزہ ہے اور پاکیزگی کو ہی پسند فرماتا ہے۔ نظافت والا ہے، سو نظافت کو پسند فرماتا ہے۔ لطف و کرم والا ہے اور لطف و کرم کو پسند فرماتا ہے۔ سخی و جواد ہے اور سخاوت کو (بے حد) پسند فرماتا ہے۔ لہذا تم بھی اپنے گھروں کے صحنوں اور حویلیوں کو صاف ستھرا رکھا کرو اور یہود کی مشابہت نہ اختیار کرو۔‘‘

حرفِ آخر!

ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ ہماری ماحولیاتی فضا آلودہ ہے، ہمارے اپنے اعمال کے باعث ہمارے ماحول کو تغیرات کا سامنا ہے اور وہ اقدار جو ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی نظری اور عملی پہچان ہیں اور ایک مسلمان کی سب سے بڑی شناخت ہیں، یہ آثار ہماری زندگی میں بہت ہی کم نظر آتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی کوتاہیاں اور ہمارے اداروں کی نااھلیاں ہماری زندگی پر بوجھ بن رہی ہیں اور ہماری قومی شناخت کو ختم کررہی ہیں۔ ہمارا انفرادی وجوداپنی کوتاہیوں کے باعث قومی وجود کو نیست و نابود کررہا ہے۔ ہمیں آج اپنے معاشرے کو ہر ہر لحاظ سے ایک مثالی معاشرہ بنانا ہے۔ ہمیں اپنے ماحول کو سازگار بنانے کے حوالے سے اپنے انفرادی اور اجتماعی کردار کو موثر کرنا ہے۔ اسی طرح حکومتی سطح پر بھی بڑے مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارا خطہ ہماری نسلوں کے لیے جنت نظیر ہو اور اقوامِ عالم کے لیے قابلِ رشک اور قابلِ مثال ہو۔ اس عظیم مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پوری قوم کو یک جان اور یک قالب ہونا ہوگا اور اس تصور اور عمل کے ساتھ ہی ہم اپنے ہر قومی مقصد کو حاصل کرسکتے ہیں کہ:

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ