مظہر برلاس

برسوں بعد ایسی شخصیات جنم لیتی ہیں جن کی شخصیت کے کئی پہلو ہوتے ہیں، ان کا ہر پہلو دوسرے سے مختلف ہوتا ہے مگر بے مثال ہوتا ہے۔ ایسی ہی ایک ہمہ جہت شخصیت پروفیسر علامہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ہے۔  برسوں سے حق کے راستے پر رواں ہے، یاد رکھیے! حق کے راستے میں تکالیف بہت آتی ہیں، پھر جس دور سے ہم گزر رہے ہیں، اس عہد میں انصاف کے محلاّت سے بھی حق کی آوازوں کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حق مانگنے والوں کو حق نہیں ملتا ، دوا کی خواہش رکھنے والوں کو مسیحا دھکے دیتا ہے ، روز آرزئووں کا قتل ہوتا ہے۔ جھوٹ کی اس دھند میں سچ کے راستے تلاش کرنا خاصا دشوار ہے مگر ہمت ہے ڈاکٹر طاہرالقادری اور ان کے پورے قافلے کی کہ وہ اس عہدِ بے ثمر میں تاریک اور باطل راہوں پر مشکلات کی پرواہ کیے بغیر اپنی ہتھیلیوں پر حق کے چراغ سجائے چلے آرہے ہیں۔

میں نے ابتداء میں عرض کیا کہ برسوں بعد ایسے لوگ پیدا ہوتے ہیں جن پر ناز کیا جاسکتا ہے۔  ایسے لوگوں پر ناز بھی فخر کرتا ہے۔  سرزمینِ باہوؒکے پاس جھنگ جیسے تاریخی شہر میں ڈاکٹر فرید الدین قادری صاحب کے ہاں ایک ایسے بچے کی پیدائش ہوتی ہے جو آگے چل کر فخر کا باعث بنتا ہے۔  اس بچے کو لوگ پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے نام سے جانتے ہیں۔ ٹی وی پروگرام فہم القرآن کے ذریعے معاشرے کی بہتری کیلئے ساحری انداز میں خطابت کے جوہر دکھائے اور مقبولیت کے سفر کا آغاز کیا۔

آپ نے تدریس اور خطابت کے راستے سے معاشرے کی اصلاح کرنا چاہی۔ اسی نیک مقصد کے لیے انھوں نے تحریر کو بھی ایک ذریعہ بنایا پھر کئی کتابیں لکھیں۔ جب اس سفر نے وسعت اختیار کی تو پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے منہاج القرآن کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا، پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ ادارہ پورے ملک میں پھیل گیا۔ یہ ادارہ بیرون ملکوں میں بھی قائم ہوگیا۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایک مبلغ اور مقرر کے طور پر پوری دنیا میں جانے جانے لگے۔

دنیا آج بین المذاہب ہم آہنگی کی بات کررہی ہے۔ یہ کام ڈاکٹر صاحب نے برسوں پہلے شروع کردیا تھا۔ معاشروں میں نفرتوں کے خاتمے کے لیے پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کاوشیں برسوں پر محیط ہیں۔ میں جب بھی ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا جائزہ لیتا ہوں تو مجھے اس شخصیت کے کئی پہلو نظر آتے ہیں۔ مجھے ان پہلوؤں میں ان کی بے مثال کامیابی بھی نظر آتی ہے۔

شیخ الاسلام ایک خوبصورت انسان ہیں، عمومی تاثر ہے کہ جو لوگ مشہور ہوجائیں یا جن کے پیروکاروں کی تعداد بڑھ جائے وہ بہت موڈی بن جاتے ہیں مگر ڈاکٹر صاحب کی شخصیت معاشرے کے اس عمومی تاثر کے بالکل برعکس ہے۔ وہ اخلاقیات کے اعلیٰ نمونوں کے ساتھ بہت شائستگی سے پیش آتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا اخلاق حسن کی رعنائیوں کے ساتھ بولتا ہے۔ اس کے چند پہلو درج ذیل ہیں:

  1. بطور استاد وہ ایک بہت زبردست معلم ہیں۔ انہوں نے اپنے شاگردوں کی ایک ایسی فصل تیار کی ہے جو آج نہیں تو کل معاشرے میں بہار لے آئے گی۔
  2. بطور وکیل انہوں نے ہمیشہ قانون کی بالادستی کی بات کی۔ وہ تو اعلیٰ عدالت سے پکار کر کہتے رہے کہ آئین کے پہلے چالیس آرٹیکل تو دیکھ لیں جو عام آدمی کے شہری حقوق ہوں ، جو آئین دیتا ہے۔
  3. بطور مقرر ڈاکٹر صاحب نے خطابت کے اعلیٰ جوہر دکھائے۔ انہیں لفظوں کی ادائیگی اور ان کے ردھم پر عبور حاصل ہے۔  اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے فرقہ وارانہ نفرتوں کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ یہ بھی ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا کمال ہے کہ ان کی بات مسلمانوں کے تمام فرقے سنتے ہیں۔ ڈاکٹر قادری نے بطور مبلغ دنیا کو حیران کیا، دوسرے مذاہب کے عمائدین بھی ان کی تحقیقی و فکری خدمات کا برملا اعتراف کرتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری راہِ حسین ؑ کے ایک مسافر ہیں۔
  4. بطور مصنف ہزاروں کتابوں کو تخلیق کرنے والے طاہرالقادری نے بعض ایسے کام کردئیے کہ پچھلے چودہ سو سال میں کسی مسلمان کو فرصت نہ ملی کہ وہ یہ کام کر جاتا۔ آج فرقہ واریت کی آگ ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس آگ سے بے نیاز ہوکر کام کرتے ہیں۔ انھوں نے دورِ حاضر کی ضرورت اور تقاضوں کے مطابق ہزارہا احادیث کو ایک جگہ جمع کردیا ہے۔ اہلِ بیتِ اطہارؓ کے حوالے سے ان کا علمی و فکری کام حضور نبی اکرم ﷺ کے گھر کی وہ خدمت ہے جو کوئی دوسرا مسلمان نہ کرسکا۔ روز قیامت ایک یہی کام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا چہرہ روشن کردے گا۔

یہ تو ڈاکٹر طاہرالقادری کی شخصیت کے وہ پہلو تھے جو معاشرے کی بہتری کے لیے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کا ایک اور منفرد پہلو یہ ہے کہ وہ عرصہ دراز سے نظام بدلنے کے خواہش مند ہیں، انقلاب کی ایک آرزو ان کے سینے میں ہے، اس مقصد کے لیے انھوں نے ایک سیاسی پارٹی بھی قائم کی، وہ پاکستانی پارلیمان کے رکن بھی رہے، ان کی انقلابی تحریک کا سفر جاری تھا کہ ان سے خائف سیاسی مخالفین نے ان کے ادارے پر حملہ کروا دیا۔ سرکاری مشینری قتل عام کرتی رہی، حکمران طاقت کے نشے میں ایسے لوگوں کو شہید کرواتے رہے جن کی زبانیں اس وقت بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ذکر اور ذکرِ اہلِ بیت میں مصروف تھیں۔ یہ مقدمہ آج تک عدالتوں میں ہے اور انصاف کی راہ دیکھ رہا ہے۔ خراج تحسین پیش کرتا ہوں ان لوگوں کو جن کے افراد شہید ہوئے کہ انھوں نے بھی ایک کمال دکھا دیا، انھوں نے حکمرانوں کی بڑی بڑی پیش کشوں کو ٹھکرا دیا۔ یقینایہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی تربیت کا اثر تھا کہ وہ لوگ جھکے نہیں، بکے نہیں بلکہ ثابت قدم رہے۔ دوسری شاباش ڈاکٹر قادری کی ٹیم کے لیے کہ وہ تمام تر حربوں کے استعمال کیے جانے کے باوجود بڑے صبرو تحمل کے ساتھ مقدمہ کی پیروی کررہے ہیں۔

ڈاکٹر طاہرالقادری اس نظام کو بوسیدہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں لوگوں کو شعور ہی نہیں دیا گیا۔ لوگ ووٹ دیتے وقت خارجہ پالیسی، ملک کے اندر ترقی کی منصوبہ بندی کو نہیں دیکھتے بلکہ وقتی مفاد کو مدنظر رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے صوبائی تعصب کے خاتمے کے لیے پاکستان میں فیصلہ کن قوتوں کو بہت عمدہ منصوبہ پیش کیا کہ پاکستان کے تیس یا پینتیس صوبے بنا دیے جائیں اور یہ صوبائی تقسیم انتظامی بنیاد پر ہونی چاہیے نہ کہ لسانی بنیاد پر۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے نزدیک تعصبات برادری اور جاگیردارانہ پسِ منظر کے حامل پاکستانی معاشرے میں لوگ اہل لوگوں کو ووٹ نہیں دیتے، وہ وقتی اور ذاتی فائدوں کو مدنظر رکھتے ہیں۔ شعور سے محروم کردیے جانے والے لوگ تو فرعون کے ساتھ بھی خوش تھے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں لوگوں کو شعور دیا جائے تاکہ یہاں اعلیٰ اور اہل قیادت سامنے آسکے۔

ویسے پاکستان میں سیاسی پارٹیاں سیاستدان تو پیدا کررہی ہیں مگر لیڈر پیدا نہیں کررہیں کیونکہ سیاستدان صرف یہ سوچتا ہے کہ اس نے اگلا الیکشن کیسے جیتنا ہے، جبکہ لیڈر اگلی نسلوں کا سوچتا ہے۔ چونکہ یہاں مافیاز کا راج ہے اس لیے یہاں اگلے الیکشن کی سوچ رکھنے والے کامیاب ہوجاتے ہیں۔ کاش یہاں لیڈر جیت جاتے، کاش لوگوں کو شعور ہوتا، کاش لوگ انقلابی سوچ رکھتے۔ میں جب بھی ڈاکٹر طاہرا لقادری کو دیکھتا ہوں تو مجھے ڈاکٹر خورشید رضوی کا یہ شعر بے اختیار یاد آجاتا ہے کہ:

جس پھول کو دیکھوں یہی لگتا ہے کہ
اس میں اک رنج بھی رہتا ہے مسرت کے علاوہ