شیخ الاسلام کی علومِ عربیہ پر دسترس: ایک جائزہ

ڈاکٹر فیض اللہ بغدادی

علم وتحقیق کی دنیا میں یہ بات محتاجِ بیان نہیں ہے کہ کسی اِسلامی محقق کے لیے عربی علوم و فنون کا گہرا اِدراک کس قدر ضروری ہے۔ کتاب وسنت، علم الکلام، فقہ، تاریخ و سیرت اور دیگر اِسلامی علوم میں اَساسی مصادر اور بنیادی مآخذ کا درجہ رکھنے والی تمام کتب عربی میں ہیں۔ عربی زبان میں مہارتِ تامّہ کے بغیر قرآنی آیات اور احادیثِ نبویہ کے صحیح مفاہیم تک رسائی ممکن نہیں ہوسکتی۔ دینِ اسلام اور عربی زبان کا آپس میں بہت گہرا ربط و تعلق ہے۔ مذکورہ بالا موضوع پر کچھ تحریر کرنے سے قبل یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ عربی اور اسلام کا باہم کیا تعلق ہے؟

بعض لوگ اس تصور کو فروغ دینے کے لیے کوشاں رہتے ہیں کہ عربی زبان کا فہمِ اسلام کے ساتھ ایسا کوئی ناگزیر تعلق نہیں ہے کہ عربی اور اسلام لازم و ملزوم ہوں بلکہ عربی ایک مخصوص خطے کی زبان ہے۔ جب کہ تحقیقی اور غیر جانب دارانہ بنیادوں پر ثابت شدہ حقیقت یہ ہے کہ اِسلام کی آمد اور عربی میں قرآن کے نزول سے قبل عرب قبائل کے ہاں مختلف لہجات (Arabic dialects) رائج تھے، صرف قریش کا ایک ایسا لہجہ تھا جسے تمام عرب قبائل کے شعراء اپنی شاعری اور نثر کی مختلف اصناف (خطابت، ضرب الامثال، حکمت پر مشتمل اقوال، وصایا، قصص اور کاہنوں کی سجع وغیرہ) کے لیے استعمال میں لاتے تھے۔ اِسی وجہ سے تمام لہجات میں قریش کا لہجہ سب سے معتبر گردانا جاتا تھا اور بایں وجہ اِس لہجے کو قرآن کی زبان بننے کا شرفِ عظیم بھی حاصل ہوا۔اِسی بنا پر عربی کے باقی لہجات تو ختم ہوگئے مگر قریش کا فصیح ترین لہجہ صبحِ قیامت تک کے لیے محفوظ ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اِس کتابِ لاریب کے حوالے سے فرمایا ہے:

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ.

(الحجر، 15: 9)

ــ’’بیشک یہ ذکرِ عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقینا ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔‘‘

اِس طرح قرآن مجید کے عربی زبان میں نازل ہونے کے سبب عربی زبان و ادب کو بھی تحفظ حاصل ہوگیا۔ اب کوئی صاحبِ عقل عربی کو اسلام سے الگ نہیں کر سکتا۔ اِس لیے عباسی دورِ حکومت میں عربی اور عجمی مسلم علماء اور محققین نے عربی علوم کی تدوین نسلی بنیادوں پر نہیں کی تھی بلکہ قرآن فہمی کی بنیاد پر کی تھی۔ عربی اگر قرآن کی زبان نہ ہوتی تو مرورِ زمانہ سابقہ سماوی کتب کی اصل زبانوں کی طرح مٹ کر نسیاً منسیا ہوچکی ہوتی۔

عربی زبان اور اِسلام کا باہمی ربط و اِتصال بیان کرنے کے بعد راقم یہ بات واضح کرنا چاہتا ہے کہ بہت سے لوگوں کی نظر میں پنجاب یونی ورسٹی کے لاء کالج سے ایل۔ ایل۔ بی کرنے اور پھر اِسی کالج (یعنی شعبہ) میں 1978ء سے 1983ء تک تدریسی خدمات سر انجام دینے کے باعث عصرِ حاضر کے عظیم اسکالر، مفکر، مصلح اور ماہر تعلیم شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا تشخص محض قانون کے ایک پروفیسر کا ہے، لیکن اُن کے علمی خطابات اور وقیع تحقیقی کتب اُن کی علمی ثقاہت اور عربی زبان میں مہارت کا بین ثبوت ہیں۔ درجِ ذیل سطور میں شیخ الاسلام کی اِسی عربی زبان میں مہارت کو کسی حد تک واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

1۔ پاکستان اورعالمِ عرب کے علماء و مشائخ سے اِکتسابِ علم

اللہ تعالیٰ نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری دامت برکاتہم العالیہ کے والد گرامی ڈاکٹر فرید الدینؒ کو اَعلیٰ علمی ذوق عطا فرمایا تھا، اُنہوں نے اپنے عہد کے علماء و شیوخ سے بھرپور علمی اِستفادہ کیا۔ وہ اسلامی اور عربی علوم و فنون کا گہرا اِدراک رکھتے تھے۔ اُنہوں نے اپنے فرزندِ اَرجمند کو انگلش میڈیم اسکول میں داخل کروا کے نہ صرف معاصر علوم سے آراستہ کیا بلکہ عربی اور علومِ اِسلامیہ کی اِبتدائی تعلیم خود بھی دی اور دیگر اساتذہ سے بھی دلوائی۔ ایک طرف جدید سائنسی و عصری علوم تھے تو دوسری طرف اُس عہد کے جید علماء سے عربی زبان اور دینی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ یہ سلسلہ اسکول کے بعد ایف۔ ایس۔ سی (پری میڈیکل) کے دور میں بھی جاری رہا۔ اِس طرح اُن کا فرزند ارجمند اُن کی دعاؤں اور خصوصی تربیت کی بدولت دینی اور عصری علوم کا حسین امتزاج بن گیا۔

شیخ الاسلام نے جامعہ قطبیہ رضویہ، جھنگ میں مولانا عبد الرشید رضوی سے 1963ء تا 1970ء کے دوران درسِ نظامی کی تکمیل کی۔ مولانا رضوی صاحب علی الصبح تہجد کے بعد سے لے کر رات گیارہ بجے تک مختلف وقفوں کے ساتھ مسلسل آپ کو پڑھاتے تھے۔ آپ نے علم الحدیث، علم التفسیر، علم الفقہ، علم التصوف و المعرفۃ، علم اللغۃ و الادب، علم النحو و البلاغۃ اور دیگر کئی اِسلامی علوم و فنون اور منقولات و معقولات کا درس اپنے والد گرامی اور دیگر اساتذہ سے لیا۔ آپ نے دورۂ حدیث بھی اپنے والدِ گرامیؒ سے 7 سال کے عرصہ میں مکمل کیا تھا۔ ایک مرتبہ ڈاکٹر فرید الدینؒ نے اپنے ہونہار اور سراپا سعادت بیٹے سے فرمایا: ’’ہم نے جو علوم و معار ف ہندوستان، مصر اور حرمین شریفین کے طویل اسفار کے بعد حاصل کیے تھے، وہ آپ کو اِس چارپائی پر بیٹھ کر منتقل کر دیے ہیں۔‘‘

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری دامت برکاتہم العالیہ کے اساتذہ میں الشیخ المعمّر حضرت ضیاء الدین احمد القادری المدنی، محدثِ اَعظم علامہ سردار احمد قادری، مفتی اعظم پاکستان علامہ سید ابو البرکات احمد قادری، غزالیِ زماں علامہ سید احمد سعید کاظمی امروہی جیسے عظیم المرتبت علماء شامل ہیں۔ علاوہ ازیں عرب شیوخ میں سے محدّث الحرم الامام علوی بن عباس المالکی المکی، سید عبد المعبود الجیلانی المدنی، الشیخ السید محمد الفاتح بن محمد المکی الکتانی اور امام یوسف بن اسماعیل النبہانی کے شاگرد شیخ حسین بن احمد عسیران سے بھی اِکتسابِ علم و فیض کیا۔ علاوہ ازیں آپ نے بے شمار شیوخِ حرمین، بغداد، شام، لبنان، طرابلس، مغرب، شنقیط (موریطانیہ)، یمن اور پاک و ہند سے اِجازات حاصل کی ہیں۔ آپ نے اپنے سلسلہء سند کی درج ذیل دو کتبِ اَسانید (الاثبات) میں اپنے 500 سے زائد علمی طُرق کا ذکر کیا ہے:

  1. اَلْجَوَاهرُ الْبَاهِرَة فِي الْاَسَانِیْدِ الطَّاهِرَة
  2. اَلسُّبُلُ الْوَهبِیَّة فِي الْاَسَانِیْدِ الذَّهَبِیَّة

اِس موضوع پر مکمل تفصیلات کے لیے ماہ نامہ ’’منہاج القرآن‘‘ کے فروری 2021ء کے شمارہ میں محترم محمد ضیاء الحق رازی کا مضمون ’’شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی علمی اور فکری پختگی کا پس منظر‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔

2۔ عربی کتب سے لگاؤ

شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے عہدِ طفولیت سے ہی عربی، اردو اور انگریزی کتب کا وسیع مطالعہ شروع کر دیا تھا جو تاحال اُسی ذوق و شوق سے جاری ہے لیکن اب آپ گزشتہ کئی سالوں سے اشد ضرورت کے بغیر اردو، فارسی یا انگریزی کتب مطالعہ میں نہیں لاتے، صرف عربی کتب ہی زیرِ مطالعہ رہتی ہیں۔ ہمیں یہ خوبی - یعنی عربی زبان پر اِس قدر مہارت و ضبط - بہت کم اَہلِ علم کے ہاں ملتی ہے۔ دورانِ سفر بھی آپ کی خریداری (shopping) زیادہ تر عربی کتب پر مشتمل ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ جب آپ فاس تشریف لے گئے تو وہاں سے تقریباً ایک ہزار کلو گرام کے لگ بھگ وزن پر مشتمل صرف عربی کتب خریدیں۔ اِسی طرح جب بھی آپ حرمین شریفین، بغداد، مصر اور خلیجی ممالک کے دورہ پر تشریف لے جاتے ہیں تو سیکڑوں کی تعداد میں عربی کتب کی خریداری فرماتے ہیں۔

3۔ عربی عبارات پڑھنے میں روانی

راقم الحروف کو جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن، لاہور میں 1993ء سے 2000ء تک تعلیم حاصل کرنے اور بعد ازاں فرید ملت ریسرچ اِنسٹی ٹیوٹ (FMRi) میں شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کے زیر سایہ کام کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ اِس دوران شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کی متعدد علمی و تحقیقی مجالس میں حاضر ہونے کا موقع ملا۔ میں نے بارہا مشاہدہ کیا کہ آپ عربی عبارات نہایت روانی و سلاست اور بے ساختگی و برجستگی سے پڑھتے چلے جاتے تھے۔ یہ بات آپ کے دروس اور خطابات میں بھی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ آپ نہ صرف عربی نصوص کا انتہائی گہرا اور عمیق فہم رکھتے ہیں بلکہ ان نصوص سے ایسا استدلال و استنباط فرماتے ہیں کہ جسے سن کر اہلِ علم بھی جھوم اُٹھتے ہیں۔ علومِ عربیہ کے حاملین بخوبی جانتے ہیں کہ صرف اور نحو میں مہارتِ تامّہ کے بغیر روانی سے عربی عبارت پڑھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

4۔ عربی میں خطابات

شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کے اردو اور انگریزی خطابات تو پوری دنیا میں ہوتے رہتے ہیں مگر عرب دنیا (خلیجی ممالک، حرمین شریفین اور مصر وغیرہ) میں مختلف جامعات اور شیوخ کے ہاں آپ ہمیشہ عربی زبان میں خطابات فرماتے ہیں۔ آپ کی عربی لغت میں فصاحت، مہارت اور روانی پر عرب شیوخ بے پناہ خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر آپ نے جامعہ الازہر میں مَکَانَةُ الرِّسَالَة وَحُجِّیَّةُ السُّنَّة اور اَلْمَذْهَبُ الْمُخْتَار فِی الْحَدِیْث الضَّعِیْف جیسے دقیق اور فنی موضوعات پر کئی کئی گھنٹے طویل خطابات عربی زبان میں فرمائے ہیں۔ علاوہ ازیں 2019ء میں اُردن میں ہونے والی عالمی سرکاری کانفرنس میں اَلتَّسْوِیَۃ بَیْنَ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃ فِی الْاِفْتِرَاضِ وَالْحُجِّیَّۃ کے موضوع پر کلیدی خطاب عربی زبان میں فرمایا۔ اِن سحر انگیز خطابات کو سننے کے بعد وہاں موجود عالمِ عرب کے جید شیوخ اور محققین بھرپور دادِ تحسین دیتے نظر آئے۔

5۔ عرب شیوخ سے ملاقاتوں میں مترجم کے بغیر گفتگو

یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کو عرب شیوخ سے ملاقات کے وقت کبھی ترجمان کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی اور آپ اُن کے ساتھ براهِ راست خود گفت گو فرماتے ہیں۔ حالاں کہ آپ نے کسی عربی ملک میں قیام کیا اور نہ ہی عرب دنیا کی کسی یونی ورسٹی سے باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہے۔ یہ محض رب تعالیٰ کی عطا اور عربی علوم و فنون میں آپ کی اَن تھک محنت کا نتیجہ ہے کہ آپ روانی کے ساتھ عربی بول، لکھ اور سمجھ سکتے ہیں۔ راقم تحریک منہاج القرآن کے مرکز پر تشریف لانے والے عرب شیوخ کے ساتھ بطورِ مترجم فرائض سرانجام دیتا رہتا ہے۔ متعدد بار ایسا ہوا کہ عرب شیوخ کے ساتھ بطورِ مترجم کام کرنے والوں کی شیخ الاسلام نے اِصلاح فرمائی۔

جب راقم حصولِ علم کے لیے بغداد شریف میں حاضر تھا تو وہاں شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ دورہ پر تشریف لائے تھے۔ یہ میرا مشاہدہ ہے کہ آپ بغداد شریف کے اسکالرز، شیوخ، سرکاری عہدے داران اور صحافیوں کے ساتھ بغیر کسی دقت کے انتہائی رواں اور شستہ عربی زبان میں گفت گو فرماتے کہ اَہلِ زباں بھی حیراں رہ جاتے تھے۔

یہ صرف ایک مثال ہے۔ اس طرح کے اَن گنت واقعات اور مثالیں دی جاسکتی ہیں، مگر یہ مضمون متحمل نہیں ہوسکتا۔

6۔ عربی زبان میں شاعری

اللہ رب العزت نے شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کو عربی نثر کے علاوہ عربی شاعری میں بھی مہارتِ تامہ عطا فرما رکھی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ آپ نثری کتب کی تصنیف و تالیف میں ہمہ وقت مشغولیت اور عدیم الفرصتی کے باعث اس پر بہت زیادہ توجہ نہیں دے پاتے، تاہم آپ نے کچھ عربی اشعار اور قصائد عربی قارئین کے ذوق کے لیے پیش کیے ہیں جو چھوٹے کتابچوں میں چھپ کر منظر عام پر آچکے ہیں۔ عربی شاعری کا ذوق رکھنے والے افراد یقینا ان اشعار کے لفظی و معنوی حسن، ان کی موزونیت اور ان میں پنہاں فصاحت و بلاغت کے موتیوں کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ بطور نمونہ اَلْقَصِیْدَةُ اللَّیْلِیَّة کے چند اَشعار ملاحظہ ہوں:

یَا لَیْلُ أَشْبَهَ لَیلٰی فِيْ ذَوَائِبِهَا
مِنْکَ اثْنَتَانِ سَوَادُ اللَّوْنِ وَالطُّوْلُ

مَا بَالُ لَیْلِيَ لَا تَسْرِي کَوَاکِبُهٗ
کَأَنَّ مَسْلَکَهَا فِي الْجَوِّ مَجْهُوْلُ

رَأَیْتُ لَیْلِيَ زَادَ طُوْلًا کَمَحْشَرٍ
حَتیَّ تَوَهَمْتُ أَنَّ الصُّبْحَ مَقْتُوْلُ

وَطَالَ لَیْلِيَ حَتّٰی لَا انْقِضَاءَ لَهٗ
وَلَا یُحِیْطُ بِهٖ عَرْضٌ وَلَا طُوْلُ

قُوْلُوْا لِلَیْلٰی بِأَنَّهَا حَیْثُ زُیِّنَتْ
فَإِنِّي بِحُسْنِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ مَشْغُوْلُ

هُوَ النَّبِيُّ ﷺ فَمَنْ وَالَاهُ مُنْتَصِرٌ
عَلٰی عِدَاهُ وَمَنْ عَادَاهُ مَخْذُوْلُ

هُوَ النَّبِيُّ ﷺ الَّذِي لَوْلَا شَفَاعَتُهٗ
مَا فُکَّ مِنْ رِبْقَۃِ الْعِصْیَانِ مَغْلُوْلُ

اِسی طرح حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاهِ اَقدس میں آپ کے پیش کردہ ہدیۂ سلام کے چند اَشعار کچھ یوں ہیں:

یَا رَبِّ صَلِّ عَلَی النَّبِيِّ الْمُصْطَفٰی
مَا دَامَ وَجْهُکَ بَاقِیًا یَا ذَا الْعُلَا

یَا رَبِّ صَلِّ عَلَی النَّبِيِّ وَآلِہٖ
مَا دَامَتِ الْأَفْـلَاکُ تَجْرِي فِي السَّمَا

یَا رَبِّ صَلِّ عَلَی النَّبِيِّ وَآلِہٖ
مَا کَوْکَبٌ فِي الْجَوِّ قَابَلَ کَوْکَبًا

یَا رَبِّ صَلِّ عَلَی النَّبِيِّ وَآلِہٖ
مَا اهْتَزَّتِ الْأَشْجَارُ مِنْ رِیْحِ الصَّبَا

یَا رَبِّ صَلِّ عَلَی النَّبِيِّ وَآلِہٖ
مَا أَمْسَتِ الزُّوَّارُ طَیْبَۃَ أَبْطَحَا

یَا رَبِّ صَلِّ عَلَی النَّبِيِّ وَآلِہٖ
بِقَدْرِ أَیَّامِ الدُّهُوْرِ وَمَرِّهَا

شیخ الاسلام کے تحریر کردہ عربی شاعری کے منتخب نمونے پڑھنے کے بعد قاری بے ساختہ پکار اُٹھتا ہے:

ہوگیا رنگِ سخن سے ظاہر
شعر میں خونِ جگر بولتا ہے

7۔ عربی میں تصنیف و تالیف

شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ ایک عرصہ تک تو اردو اور انگریزی میں تصنیف و تالیف فرماتے رہے ہیں مگر جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے آپ نے کئی سالوں سے براهِ راست عربی میں ہی لکھنا شروع کر دیا ہے۔ آپ کی متعدد عربی تصنیفات عرب ممالک سے شائع ہوکر مقبولیت حاصل کرچکی ہیں جنہیں عرب علما نے بھرپور خراج تحسین پیش کیا ہے اور ان پر اپنی تقریظات بھی ثبت فرمائی ہیں۔

مثال کے طور پر حال ہی میں شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کی متعدد کتب پاکستان میں طبع ہوئی ہیں، جن میں سے زیادہ تر عربی زبان میں ہیں، اور یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ یہ کتب اُردو یا انگلش سے ترجمہ شدہ نہیں ہیں بلکہ یہ لکھی ہی عربی زبان میں گئی ہیں جو کہ اِن شاء اللہ جلد ہی عرب دنیا سے بھی زیورِ طبع سے آراستہ ہوں گی۔ ان میں درج ذیل بطور خاص قابلِ ذکر ہیں:

1. اَلدُّرَر مِنْ مَعَارِفِ السُّوَر

مَوْسُوْعَةُ عُلُوْمِ الْحَدِیْث کے سلسلے کی درج ذیل کتب نئی طبع ہوئی ہیں جو کہ علوم الحدیث میں اپنی مثال آپ ہیں۔

2. حُسْنُ النَّظَر فِی أَقْسَامِ الْخَبَر

(مَوْسُوْعَةُ عُلُوْمِ الْحَدِیْث: 7)

3. اَلْبَیَانُ الصَّرِیْح فِی الْحَدِیْثِ الصَّحِیْحِ

(مَوْسُوْعَةُ عُلُوْمِ الْحَدِیْث: 8)

4. اَلْقَوْلُ اللَّطِیْف فِی الْحَدِیْثِ الضَّعِیْف

(مَوْسُوْعَةُ عُلُوْمِ الْحَدِیْث: 9)

یہ کتب شیخ الاسلام نے براهِ راست عربی زبان میں تصنیف فرمائی ہیں۔ (ان کتب کے تفصیلی تعارف کے لیے مجلہ ہٰذا میں محترم محمد فاروق رانا کا تحریر کردہ مضمون ملاحظہ فرمائیں۔)

مذکورہ بالا کے علاوہ آپ کی براهِ راست عربی زبان میں تحریر کردہ درجنوں کتب مطبوعہ ہیں۔ مثال کے طور پر:

1. کَشْفُ الْغِطَا عَنْ مَعْرِفَةِ الْأَقْسَامِ لِلْمُصْطَفٰی ﷺ: روح میں اُتر جانے والے نہایت ایمان افروز پیرائے میں قران مجید سے اُن قَسموں کو اِکٹھا کیا گیا ہے جن سے حضور نبی اکرم ﷺ کی شانِ اَقدس کا اِظہار ہوتا ہے۔

2. أَحْسَنُ الْمَوْرِدِ فِي صَلٰوةِ الْمَوْلِدِ: حضور نبی اکرم ﷺ کے فضائل و شمائل کے بیان پر مشتمل 23 درود پاک اور 25 اَشعار کا خوبصورت مجموعہ ہے۔

3. صَلَوَاتُ سُوَرِ الْقُرْآنِ عَلٰی سَیِّدِ وَلَدِ عَدْنَانَ ﷺ: تاجدارِ کائنات ﷺ کے خصائص و فضائل کے بیان پر مشتمل 63 اَشعار میں 114 قرآنی سورتوں کے نام ایک دِلکش لڑی میں پرو دیے گئے ہیں۔

4. أَسْمَاءُ حَامِلِ اللِّوَائِ مُرَتَّبَةٌ عَلٰی حُرُوْفِ الْهِجَاءِ: تاجدارِ کائنات ﷺ کے 800 اَسماء مبارکہ حروفِ تہجی کی ترتیب کے مطابق نہایت دل کش اور جاذبِ روح پیرائے میں اَشعار کی صورت میں بیان کیے گئے ہیں۔

5. اَلْخُطْبَةُ السَّدِیْدَة فِي أُصُوْلِ الْحَدِیْث وَفُرُوْعِ الْعَقِیْدَة: یہ اپنی نوعیت کی منفرد اور فقید المثال کتاب ہے۔ اس کتاب میں مصطلحات الحدیث اور عقیدے کی فروعات کو براهِ راست عربی زبان میں قرآن مجید اور احادیثِ نبویہ سے ثابت کیا گیا ہے۔

6. دَلَائِلُ الْبَرَکَات فِی التَّحِیَّاتِ وَالصَّلَوَات: یہ کتاب بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں عقیدت و محبت سے لبریز، روح پرور اور کیف آور 2,500 درود و سلام پر مشتمل نادر اور گراں قدر ہدیہ ہے۔ نہایت خوب صورت الفاظ کا چناؤ کرکے عربی زبان میں درود و سلام کے اَڑھائی ہزار صیغے درج کیے گئے ہیں جو موضوع سے ہم آہنگی رکھنے کے ساتھ ساتھ عظمت و شانِ رسالت ﷺ کے مختلف اور منفرد پہلو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔

یہ کتاب ساڑھے چھ سو صفحات پر مشتمل اور چالیس منزلوں پر محیط ہے، جسے سہولت کے مطابق دس روز یا چالیس روز میں ختم کیا جاسکتا ہے۔ اپنی جامعیت کے اعتبار سے اس قابل ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا ہر غلام اس درود و سلام کا وظیفہ اپنے روز مرہ کا معمول بنائے تاکہ وہ اس کی برکات و فیوضات سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہو سکے اور یہ اس کے لیے توشۂ آخرت کا کام دے۔ کتاب کے آخر میں السلام کے عنوان کے تحت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا تریسٹھ اشعار پر مشتمل بارگاهِ رسالت مآب ﷺ میں منظوم ہدیۂ سلام درج کیا گیا ہے جو سلاست اور اثر آفرینی کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے۔ اور پڑھنے والا بے ساختہ پکار اُٹھتا ہے:

جیسے دریا میں گہر بولتا ہے
سات پردوں میں ہنر بولتا ہے

یہ اَمر ملحوظ رہے کہ شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کی متعدد عربی کتب زیرِ ترتیب اور زیرِ طبع ہیں جو بالترتیب چھپ کر منظرِ عام پر آتی رہیں گی۔

8۔ عربی تفسیرِ قرآن

شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے قرآن مجید کی مکمل تفسیر عربی زبان میں لکھی ہے۔ اس کی تکمیل کا اِعلان آپ نے 38ویں سالانہ عالمی میلاد کانفرنس 2021ء کے تاریخی اور مبارک موقع پر فرمایا تھا۔

اِس تفسیر کا صرف مقدمہ ہی دو جلدوں پر مشتمل ہوگا جو علم التفسیر میں ایک بے نظیر کاوش ہے۔ یہ مقدمہ علوم القرآن اور تفسیر کی اُصولی مباحث کا ہر جہت سے اِحاطہ کیے ہوئے ہے۔ اِسی طرح آپ کی لکھی ہوئی تفسیر کی ایک پوری جلد سورۃ الفاتحہ کی تفسیر پر مشتمل ہوگی۔ شیخ الاسلام کی عربی تفسیر کا منہج ’’الاتجاه الجامعی‘‘ پر مشتمل ہے۔ یہ تفسیر بالماثور بھی ہے اور تفسیر بالرائے بھی ہے۔ یہ تفسیر عقلی اور نقلی، دونوں پہلوئوں پر محیط ہے۔ ہر سورت کے آغاز میں سورت کا مکمل تعارف اور فضائل دیے گئے ہیں، جب کہ سورت کے آخر میں اس کے موضوعات کا اِجمالی جائزہ درج کیا گیا ہے۔

اس تفسیر میں تَوضِیْحُ الآیات، التَّفْسِیرُ الجُمْلِي، رِسَالَةُ الآیَات اور مَعَانِی المُفْرَدَات کے ساتھ ساتھ حسبِ ضرورت التَّفْسِیرُ الأثَرِي، التَّفْسِیرُ النَّظَرِي، التَّفْسِیرُ العَقَدِي، التَّفْسِیرُ الفِقْهِي، التَّفْسِیرُ التَّرْبَوِي، التَّفْسِیرُ الإِشَارِي، التفسیرُ العِلْمِي اور التَّفْسِیرُ الفِکْرِي جیسے مختلف پہلو درج کیے گئے ہیں۔ اِس لحاظ سے اِس تفسیر میں ہمہ جہت تفسیری پہلو موجود ہیں۔

ایک غیر عربی شخص کا عربی زبان میں قرآن مجید کی کم و بیش بیس جلدوں پر مشتمل اِس قدر مبسوط تفسیر کرنا اپنی مثال آپ ہے۔ اور اَہلِ علم یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ ایک مفسر کے لیے تفسیر کرنے سے قبل کم و بیش بیس پچیس علوم پر مہارت ہونا اَز بس ضروری ہے، جن میں سے عربی زبان کے قواعد اور زمانۂ جاہلیت کی شاعری کا کامل فہم بھی شامل ہے۔

9۔ ترجمہ قرآن حکیم: ’’عرفان القرآن‘‘

اردو میں قرآنِ مجید کے کثیر تراجم دستیاب ہیں، بعض مترجمین اَپنے ترجمۂ قرآن میں منشاء و مرادِ الٰہی کی کاملاً ترجمانی نہیں کرپاتے بلکہ بسا اوقات یہ ترجمہ انہیں قرآنی نص سے دور لے جاتا ہے۔ کہیں قرآنی ترجمہ میں بارگاهِ اُلوہیت یا شانِ رسالت میں تنقیص ہوجاتی ہے یا کہیں ترجمہ میں غموض آجاتا ہے مگر ’’عرفان القرآن‘‘ کے نام سے شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کا ترجمہ قرآن اپنی سلاست، واضحیت اور احتیاط کے باعث تمام اردو تراجم میں منفرد مقام کا حامل ہے۔ بین القوسین وضاحتوں کے ذریعے بعض فکری مغالطوں کو بہت عمدگی سے زائل کر دیا گیا ہے۔ بعض مقامات پر سائنسی اصطلاحات کے ذریعے قرآنی مفاہیم کو بھی واضح کیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ قرآنی علوم و فنون میں مہارت کے ساتھ ساتھ عربی زبان و ادب کے دقیق و عمیق قواعد سے آشنائی کا منطقی نتیجہ ہے۔

شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ عام لوگوں کے تاثر کے برعکس عربی میں اس قدر مہارت رکھتے ہیں کہ دیکھنے والوں کو رشک آتا ہے۔ ایسا کیوں نہ ہوتا کہ آپ نے زمانۂ طالب علمی میں صرف عصری تعلیم پر انحصار نہیں کیا بلکہ عربی اور اسلامی علوم کو سخت محنت و جاں فشانی کے ساتھ پڑھا۔ آپ نے فقط مروّجہ درسِ نظامی کی کتب ہی نہیں پڑھیں بلکہ مختلف عربی اور اسلامی علوم کی وہ کتب بھی گیرائی اور گہرائی کے ساتھ پڑھیں جو عرب ممالک میں تو پڑھائی جاتی ہیں مگر برصغیر پاک و ہند میں وہ کتب متداول و مروّج نہیں تھیں۔یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ عربی علوم و فنون کا ذوق و شوق آپ نے اپنی ذات تک محدود نہیں رکھا بلکہ یہ ذوق و شوق اپنے ہزارہا طلبہ اور لاکھوں کی تعداد میں اپنے متوسلین و عقیدت مندوں کو کتاب و خطاب کے ذریعے منتقل کیا ہے۔

دعا ہے اللہ تعالیٰ آپ کے ذوق و شوق میں مزید وسعت عطا فرمائے اور آپ کا ستارہ آسمانِ علم پر یونہی جگمگاتا رہے۔ (ذٰلِکَ فَضْلُ اللهِ)