شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری: ایک فکر، ایک تاریخ، ایک تحریک

چیف ایڈیٹر: نوراللہ صدیقی

اللہ رب العزت کا کروڑ ہاشکر ہے کہ منہاج القرآن کے کارکنان، وابستگان و رفقائے کار شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ کا 71 واں یوم پیدائش اِن دعائوں کے ساتھ منارہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ شیخ الاسلام کو صحت و تندرستی کے ساتھ عمرِ خضر عطا فرمائے۔ ہر سال کی طرح امسال بھی شیخ الاسلام سے محبت و عقیدت رکھنے والی اہلِ علم شخصیات نے ان کے لیے اپنے خصوصی پیغامات کا تحفہ بھجوایا ہے جس پر ہم ان کے شکر گزار ہیں:

سربراہ مجلس وحدت المسلمین علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے اپنے خصوصی پیغام میں کہا کہ میں اس بات پر ہمیشہ راحت محسوس کرتاہوں کہ میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا دوست ہوں اور مجھے ان کی رہنمائی میسر رہتی ہے۔ منہاج القرآن نے پاکستان اور پاکستان سے باہر دین کی قابلِ رشک خدمت کی ہے۔ 4 دہائیوں کے قلیل عرصہ میں اتنا کام صرف شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہی کر سکتے ہیں۔ میں ان کی صحت اور درازی عمر کے لئے دعا گو ہوں۔

چیئرمین رویت ہلال کمیٹی مولانا محمد سید عبدالخبیر آزاد نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ علوم القرآنیہ ہوں یا علوم الحدیث، علم فقہ ہو یا تصوف شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے گراں قدر علمی خدمات انجام دیں۔ یقینا ایسی ہمہ جہت علمی شخصیت کی عالمِ اسلام اور پاکستان کو ضرورت ہے۔

سجادہ نشین آستانہ عالیہ حضرت میاں میرؒ پیر سید ہارون علی گیلانی نے پیغام تہنیت میں کہا ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہر دلعزیز علمی شخصیت ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی زندگی بذات خود اسلام کاایک انسائیکلوپیڈیا ہے۔ انہوں نے اسلام کی حقیقی تعلیمات کے فروغ میں کئی اچھوتے موضوعات پر منفرد تحقیقی کام کیا ہے۔ انہوں نے اُمت پر واجب بہت سارے قرض اتار دئیے ہیں۔

سجادہ نشین آستانہ عالیہ علی پور سیداں پیر سید منور حسین شاہ جماعتی نے خصوصی طور پر تہنیتی پیغام بھجواتے ہوئے کہا ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دین اسلام کی سربلندی کے لئے ساری دنیا میں کام کررہے ہیں۔ ان کی دینی، ملی و علمی خدمات گراں قدر ہیں۔ شیخ الاسلام نے قرآن و حدیث، اصولِ حدیث، سیرت النبی، عقائد،فضائل ومناقب، تصوف اور دیگر بے شمار موضوعات پر گراں قدر علمی،تحقیقی خدمات انجام دی ہیں۔ ہم ان کی صحت و تندرستی اور درازی عمر کیلئے دعا گو ہیں۔

صوبائی وزیر صاحبزادہ سید صمصام علی شاہ بخاری خانوادہ حضرت کرمانوالہ شریف نے اپنے پیغام میں کہا کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سے ہمارا عقیدت اور محبت کا رشتہ ہے۔ ان کے ہاں ہمیں ہمیشہ بے پناہ عزت اور پیار ملا۔ میں منہاج القرآن میں اس احساس کے ساتھ جاتا ہوں کہ یہ میرا گھر ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری فی زمانہ اہلسنت کے سرخیل اور محافظ ہیں۔ میں ان کی صحت و تندرستی اور درازی عمر کے لئے بصد عجز و نیاز دل و جان سے دعا گو ہوں۔

پیر قطب الدین فریدی، سجادہ نشین مرکزی دربار عالیہ موہڑہ شریف پیر اولیا بادشاہ فاروق، صوبائی وزیر سید سعید الحسن شاہ،سینیٹر کامل علی آغاز، صوبائی وزیر چودھری ظہیر الدین، صوبائی وزیر محسن لغاری، صوبائی وزیر راجہ یاسر سرفراز، سینیٹر اعجاز چودھری، حافظ علامہ محمد رفیق طاہر سابق خطیب پاکستان ایمبیسی لندن، پیر مجتبیٰ فاروق گل بادشاہ اور خلیل الرحمن قمر نے بھی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے لئے دعائوں کے ساتھ پیغامِ تہنیت پہنچایا ہے۔

جب بھی تحریک منہاج القرآن کا نام ذہن کے کینوس پر ابھرتا ہے تو اس کے ساتھ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ کا نام اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق ان کے کام کی ایک طویل فہرست نگاہوں میں گھومنے لگتی ہے۔ اداریہ کے تنگ دامن میں ان کی ہمہ جہتی خدمات کا احاطہ ممکن نہیں ہے تاہم تحریک منہاج القرآن کی صورت میں انہوں نے امت کو عقائدِ صحیحہ کے تحفظ اور علم و تحقیق کی سرپرستی کرنے والا جو انسٹی ٹیوشن عطا کیا ہے وہ رہتی دنیا تک مصطفوی تعلیمات کی روشنی کو پھیلاتا رہے گا اور لاکھوں، کروڑوں تشنگانِ علم اس سے سیراب ہوتے اور کسب فیض کرتے رہیں گے۔

برصغیر پاک و ہند میں بہت ساری شخصیات اور تحاریک نے اپنے اپنے ادوار میں اصلاحِ احوال، فروغِ علم اور حصولِ آزادی کی جدوجہد کے باب میں اپنااپنا کردار ادا کیا۔ اگر منہاج القرآن کا موازنہ ماضی کی اصلاحی دینی تحریکوں سے کیا جائے تو اس میں ایک ہمہ جہتی نظر آتی ہے۔ بیک وقت تجدیدِ دین، اصلاحِ احوال، اصلاحِ معاشرہ، فروغِ امن اورخدمتِ انسانیت نمایاں نظر آتی ہے۔ منہاج القرآن کی صورت میں شیخ الاسلام نے جو تحفہ امت کو دیا ہے، اس کی ٹھنڈی ہوائیں حبس زدہ ماحول کو ہمیشہ تازگی بخشتی رہیں گی۔ رواں صدی کا سب سے بڑا فتنہ اسلام پر انتہا پسندی اور عدمِ برداشت کا داغ لگانا اور پیغمبرِ امن و سلامتی کے پیروکاروں کو دہشت گرد ثابت کرنا تھا۔ اس ضمن میں غیروں کی سازش اوراپنوں کی نادانی نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور ایک ایسی فضا بنا دی گئی کہ جو شخص بھی انتہا پسندی کے خلاف بات کرتا تو اُسے خودکش بمباروں اور دھماکوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ دودہائیوں تک خوف و ہراس کی فضا نے چار سو ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ انسانیت تو تڑپ ہی رہی تھی مگر اسلام کی اساسی فکر کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایاجارہا تھا۔ ان حالات میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جان ہتھیلی پر رکھ کر سامنے آئے اور انہوں نے شرق تا غرب کے سفر کر کے انتہا پسندی کا داغ لگانے والوںکو اسلام اور پیغمبرِ اسلام کی درست تعلیمات کے بارے میں آگاہ کیا اور قرآن و سنت کے لاتعداد حوالہ جات کے ذریعے اپنوں اورپرایوں کو باور کروایا کہ اسلام انتہا پسندی کا نہیں بلکہ انسانیت سے محبت کرنے والا اور اس کی بقا کا محافظ دین ہے۔

انتہا پسندی کے اس فتنہ کے دوران پاکستان میں بے گناہ انسانیت کا تو خون بہہ ہی رہا تھا لیکن امریکہ، برطانیہ اور یورپ میں آباد لاکھوں کی تعداد میں مسلمان خاندانوں کا جینا دوبھر ہو گیا تھااور دیارِ غیر میں کئی دہائیوں سے آباد مسلمانوں کے لئے روزمرہ کے امور انجام دینے کے لئے گھروں سے نکلنا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ اس صورت حال کو موجودہ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے بیان کرتے ہوئے ایک موقع پر کہا تھا اگر ڈاکٹر طاہرالقادری انتہا پسندی کی تہمت کا رد کرنے کے لئے اپنا عالمگیر دینی و ملی کردار ادا نہ کرتے تو مسلمانوں کے لئے یورپ میں رہنا ناممکن ہو جاتا۔

امن کی مصطفوی تعلیمات کا پرچم تھامے قریہ قریہ دعوتی مساعی کو بروئے کار لانے کی پاداش میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری،تحریک منہاج القرآن اور ان کے کارکنان کو بہت سارے چیلنجز اور آزمائشوں میں سے گزرنا پڑااور اس کی بڑی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی( آزمائش کا یہ سلسلہ تاحال کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے)۔ اسلام کے تشخص کو دہشت گردی کے داغ سے مجروح کرنے کی ہر کوشش کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے توفیقِ ایزدی اور حضور نبی اکرم ﷺ کے نعلینِ پاک کے تصدق سے ناکام بنایا۔ نہ صرف اغیار کو مصطفوی تعلیمات کی روح سے روشناس کرایا بلکہ اسلام کے نام پر انسانی جانوں سے کھیلنے والے اپنوں کی کج فکری کی بھی اصلاح کی۔ آج سے ایک دہائی قبل خودکش دھماکوں کے بارے میں تنقیدی رائے دینے کا مطلب جان سے جانا ہوتا تھا اور ان کے ٹھیک یا غلط ہونے کے بارے میں فکری ابہام پیدا کیے جاتے تھے مگر شیخ الاسلام کی تحریری، تقریری ،تصنیفی و تالیفی خدمات کے نتیجے میں آج ہر زبان بلاجنبش دہشت گردی ،انتہا پسندی اور خودکش دھماکوں کو حرام اور اِسے انسانیت کے خلاف ایک جرم تسلیم کرتی ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی اسلام اور انسانیت کے حوالے سے یہ ایک ایسی خدمت ہے جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا اور کسی کو اسلام پر انتہا پسندی اور دہشت گردی کی تہمت لگانے کی جرأت نہیں ہو سکے گی۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے رواں صدی میں مسلمانوں کو آگے بڑھنے کے لئے وہی راستہ دکھایا جو حضرت محمد ﷺ نے چودہ سو سال قبل دکھایا تھا یعنی مومن کی شناخت علم، تقویٰ، اعتدال اور رواداری ہے۔ بلاشبہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری رواں صدی میں علم وامن کی عالمگیر امپاورمنٹ کی ایک مضبوط اور توانا آوازہیں۔