مجدّد ہر دور کی عبارت کا حرف ہوتا ہے

ڈاکٹر حسن محی الدین قادری

انسانی زبان سے ادا ہونے اور قلم سے لکھے جانے والے اکثر جملے تین اشیاء کا مجموعہ ہوتے ہیں:

  1. اسم
  2. فعل
  3. حرف

کوئی بھی اسم اپنے معنی و مفہوم اور نقطۂ نظر کے ابلاغ، اپنی واضحیت اور مقصدیت کے اعتبار سے اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک اس اسم کو کسی فعل کے ساتھ نہ جوڑا جائے۔ اسی طرح اسم اور فعل جب ایک عبارت میں اکٹھے ہوجائیں تو اس وقت تک وہ اپنا مفہوم اور مقصد واضح نہیں کرسکتے جب تک اس اسم اور فعل کو جوڑنے والا کوئی رابط درمیان میں نہ ہو۔

اسم اور فعل کے معنی و مفہوم کو واضح کرنے والی اور اس عبارت کو تکمیل کے مراحل سے گزار کر ایک جملہ بنانے والی شے کا نام حرف ہے۔ مثلاً: جب ہم کہتے ہیں: ’’زید نے حامد کو کہا۔‘‘ اگر اس جملے میں سے ’’نے‘‘ اور ’’کو‘‘ ختم کردیں تو اب جملہ ’’زید حامد کہا‘‘ غیر واضح عبارت ہے۔ یعنی کس نے کس کو کہا؟ اس کا مفہوم واضح نہیں ہورہا۔ الغرض عبارت میں حرف کی صورت میں موجود رابطہ نکل جانے سے ہم کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکتے۔

حرف کی طاقت بظاہر نظر نہیں آتی مگر تشکیلِ عبارت اور تکمیلِ جملہ اس کے بغیر ممکن نہیں۔ جملے اور عبارت کی composition کا دار و مدار حرف پر ہے۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ دو اسموں کو آپس میں جوڑ کر انہیں واضح کردینے والی طاقت حرف کہلاتی ہے… دو حقیقتوں کو جوڑ کر حقیقتِ کبریٰ میں بدل دینے کی طاقت کا نام حرف ہے… دو معرفتوں کو معرفتِ کبریٰ بنانے والی طاقت کا نام حرف ہے… بکھرے ہوئے وجود کو جوڑنے والی شے کا نام حرف ہے… بکھری ہوئی ہستیوں کو جوڑ کر قوم بنانے والی طاقت کا نام حرف ہے… اور بکھرے ہوئے افراد کو ایک امت کی شکل دینے والی شے کا نام حرف ہے۔

اسی طرح جب ہم غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی آیات الفاظ کے مجموعے پر مشتمل ہوتی ہیں اور ہر ایک لفظ ایک سے زائد حروف کا مجموعہ ہے۔ جیسا کہ حدیث مبارک ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لکل آیة منها ظهر وبطن.

(ابن حبان، 1: 276، رقم: 75)

’’قرآن مجید کے ہر لفظ اور ہر حرف کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہے۔‘‘

معلوم ہوا کہ قرآن مجید کا ہر ہر حرف اپنی ذات میں ایک حقیقت ہے۔ قرآن مجید کے کلمات حروف کا مجموعہ ہوتے ہیں لیکن ہر حرف تنہا اپنی ذات میں ایک کامل حقیقت بھی ہے۔ اللہ رب العزت نے کوئی ایک حرف بھی بغیر مقصد کے پیدا نہیں کیا بلکہ کسی شے کو مقصدیت و معنویت دینے کے لیے اسے حرف کا محتاج بنا دیا ہے۔

قرآن مجید میں ہمیں متعدد مقامات پر حروفِ مقطّعات نظر آتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک دیکھنے میں ایک حرف ہے مگر اپنے وجود میں اللہ کی معرفت، انوار و تجلیات، عرفان اور علمِ لدنی کا مرکز و محور بن کر بیٹھا ہے۔ گویا وہ شے جو اپنے اندر سمندروں کی وسعت جیسا معنی لے کر بیٹھی ہے، اس کا نام حرف ہے۔ قرآن مجید میں الٓمٓ، قٓ، صٓ، نٓ، کٓھٓیٓعٓصٓ کی صورت میں موجود یہ تمام حروف ہیں اور الگ الگ کر کے پڑھے جاتے ہیں۔ ان کے اصل معنی اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی جانتے ہیں یا جنھیں اس خزانہ سے جتنی معرفت نصیب ہوجائے، مگر اپنے وجود میں یہ حروف سمندر ہیں۔ اِن کی معرفت بنانے والے کے پاس ہے یا اِن کا علم حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس ہے جن پر یہ پیغام نازل ہوا، یا اِن کا علم اُن کے پاس ہے جن پر وہ کرم فرما دیں۔

اَہلِ معرفت سے ’’الٓمٓ‘‘ کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا: الفؔ سے مراد اللہ ہے، لامؔ سے مراد جبریل امین ہیں اور میمؔ سے مراد محمد مصطفی ﷺ ہیں۔ گویا الفؔ ایک الگ حقیقت ہے، لامؔ ایک الگ حقیقت ہے اور میمؔ بھی ایک الگ حقیقت ہے۔ اور ان تین حقیقتوں کے آپس میں جڑنے سے حقیقتِ کبریٰ بن گئی ہے۔ [حروفِ مقطعات کے معانی کی تفصیلات کے لیے شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کی کتاب ’’حروفِ مقطعات کا قرآنی فلسفہ‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔]

حرف کے معانی و مفاہیم (لغت کی روشنی میں)

لغت میں حرف کے کئی معانی اورمفاہیم بیان کیے جاتے ہیں۔ ذیل میں چند معانی حرف کی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے بیان کیے جارہے ہیں:

1۔ حرف: اسم کو اسم کے ساتھ جوڑنے والا

لغت کے اعتبار سے حرف کا پہلا معنی و مفہوم یہ ہے کہ: ’’تربط الاسم بالاسم‘‘ (تاج العروس، 23: 129) یعنی حرف؛ اسم کو اسم سے جوڑتا ہے۔ معلوم ہوا کہ ایک اسم اس وقت تک اپنے وجود میں نامکمل رہتا ہے جب تک کسی دوسرے اسم (نام) سے جڑ نہ جائے۔ وہ اسم جو اپنی ذات میں مکمل نہ تھا، حرف کے ذریعے سے دوسرے اسم سے جڑ گیا تو مکمل ہوگیا۔

2۔ حرف: فعل کو فعل کے ساتھ جوڑنے والا

حرف کا دوسرا معنی یہ ہے: ’’تربط الفعل بالفعل‘‘ یہ فعل کو فعل سے جوڑتا ہے۔

یعنی ایک فعل اپنے وجود میں اس وقت تک کامل نہیں ہے جب تک کسی دوسرے فعل سے اس کا تعلق پیدا نہ ہوجائے اور اس تعلق کو جو شے قائم کرتی ہے، وہ حرف ہے۔

معلوم ہوا کہ ہم جیسے ناکاروں کا فعل (کام) جسے کوئی پوچھتا نہ تھا، جب کسی صاحبِ عمل، صاحبِ کردار، صاحبِ اخلاق، صاحبِ ورع، صاحبِ تقویٰ، صاحبِ ارشاد اور صاحبِ نظر سے جڑ گیا تو وہ فعل (کام) بھی مکمل ہوگیا۔ جب تک ہمارا کردار، ہمارا عمل اپنی ذات میں تھا، اُس وقت تک ہم اور ہمارے افعال (کام) بھی نامکمل تھے، مگر جب ہم نے اپنے کام کو کسی کامل کے کام میں ضم کردیا تو ضم کرنے کی دیر تھی کہ انمول ہوگئے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے:

جب تک بِکے نہ تھے، کوئی پوچھتا نہ تھا
تو نے خرید کر مجھے اَنمول کر دیا

3۔ قرآن کے حروفِ سبعہ کے مفہوم سے ماخوذ معنی

حرف کا ایک معنی قرآن مجید کے حروفِ سبعہ کے مفہوم سے بھی مستنبط و مستفاد ہوتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ان هٰذا القرآن انزل علی سبعة احرف. (بخاری، الصحیح، 4: 1909، رقم: 4706) کہ قرآن مجید سات حروف میں نازل ہوا ہے۔

ان سات حروف سے کیا مراد لیا جاتا ہے؟ ایک مراد یہ ہے کہ قرآن مجید سات مختلف قرأتوں میں نازل ہوا ہے۔ جسے ’’سبعۃ قرأ ۃ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایک مراد یہ ہے کہ قرآن مجید سات مختلف لہجوںمیں نازل ہوا ہے جس میں قریش، یمن، ہوازن اور دیگر لغات شامل ہیں۔ سات حروف سے مراد سات قرأت ہوں یا سات لہجے ہوں، اصول یہ ہے کہ جب ہم کسی ایک قرأت یا لہجے میں قرآن مجید کی تلاوت کریں تو اصول اور قاعدے کے مطابق اس قرأت میں ہی ایک حد تک پڑھنا پڑتا ہے۔ یہ نہیں کرسکتے کہ ایک لفظ ایک قرأت میں پڑھا اور پھر دوسری قرأت کرنا شروع کردی اور پھر ساتھ ہی تیسری، چوتھی اور پانچویں قرأت میں پڑھتے چلے جائیں۔ نہیں! ایسا نہیں کرسکتے! اس کے کچھ قواعد و ضوابط ہیں۔ اسی اصولِ قرأت یا لہجے کے دائرے میں رہ کر اور اس کے تابع رہ کر قرأت کرنی پڑتی ہے۔ ایک قرأت سے دوسری یا تیسری قرأت کی طرف چھلانگ نہیں لگاسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ جب قراء حضرات تلاوت کرتے ہیں تو یہ واضح کردیتے ہیں کہ وہ فلاں قرأت میں تلاوت کرنے لگے ہیں۔

قرآن مجید کے ان سبعہ حروف کے اصول سے معلوم ہوا کہ حروف ایک نظام دے رہے ہیں، اگر ایک نظام کو اپنایا تو آخر تک اسی نظام پر چلنا پڑتا ہے۔ یہ حرف بھی ہماری تربیت کرتے ہیں کہ اگر کوئی ایک لہجہ یا قرأت کسی آیت کو مل جائے تو آیت اس کے تابع ہوجاتی ہے۔ اسی طرح اگر ہمیں اپنی زندگیوں میں ایسی شخصیات مل جائیں جو حروف کی مانند ہوں تو ان سے جڑ جائیں۔ فیض لینے کے لیے ٹوٹنا نہیں بلکہ جڑ کر رہنا پڑتا ہے۔ منزل تک پہنچنے کے لیے جب کسی ایک کا دامن پکڑ لیں، کسی کو شیخ مان لیں تو استقامت سے اس کے ساتھ رہنا پڑتا ہے، تب ہی اس کے در سے فیض ملتا ہے۔

سلاسلِ طریقت؛ قادریہ، چشتیہ، نقشبندیہ، سہروردیہ، رفاعیہ، شاذلیہ وغیرہ جس سے بھی جڑے ہیں تو آخر تک اسی طریق پر ہی منازل طے کرنا پڑیں گی۔ یہ نہیں کہ ایک قدم قادریت میں رکھا ہے، ایک چشتیت میں رکھا ہوا ہے، کبھی سہروردی ہوگئے، کبھی نقشبندی ہوگئے، کبھی رفاعی ہوگئے، کبھی شاذلی ہوگئے۔ اَہلِ معرفت کہتے ہیں کہ جب کسی کے در پر آجائو تو پھر سب کچھ وہیں سے ملتا ہے۔ یہ نظام بھی ہمیں حرف نے سکھا دیا۔

4۔ حرف: کنارہ کش ہونے والا

لسان العرب میں حرف کی یہ تعریف کی گئی ہے کہ:

فلان علی حرف من أمره ای ناحیة.

فلاں شخص جو اس دنیا سے کنارہ کش ہوگیا، یعنی جو شخص معاشرے سے الگ ہوکر دور جا بیٹھا ہو، اسے بھی حرف کہتے ہیں۔

اسی مفہوم کے مطابق قرآن مجید میں ایک مقام پر اللہ رب العزت نے فرمایاہے:

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللهَ عَلٰی حَرْفٍ.

(الحج، 22: 11)

’’اور لوگوں میں سے کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو (بالکل دین کے) کنارے پر (رہ کر) الله کی عبادت کرتا ہے۔‘‘

اس معنی کی رو سے حرف اس شخص کوکہتے ہیں جو رہتا تو اس دنیا میں ہو مگر دنیا و مافیہا سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو … وہ دنیا سے کنارہ کش ہوکر خدا کی معرفت، محبت اور تجلیات و انوارمیں گم رہتا ہو … دنیا میں ہو مگر دنیا کو اپنے اندر نہ آنے دیتا ہو … دنیا اس سے استفادہ کررہی ہو مگر وہ دنیا کی راحت، لذت، کشش اور مادیت سے دور ہوکر صرف اُس اللہ سے لَو لگائے ہوئے ہو۔

حرف کے اسی معنی سے یہ مفہوم بھی واضح ہوتا ہے کہ حرف وہ شخص ہے جو دنیا میں ہو مگر ایک طرف جہاں دنیا اس کے اندر نہ ہو، وہاں دوسری طرف دنیا اس کے وجود کے بغیر مکمل بھی نہ ہوسکے۔ وہ خود دنیا سے کنارہ کش ہو مگر دنیا کو اس کی ضرورت ہو۔ پس جب زندگی کا فلسفہ مکمل نہ ہو … جب زمانے کے عقیدے کا باب، سطور اور عبارات مکمل نہ ہوں اور ان کے مفہوم کا کامل ابلاغ نہ ہورہا ہو … جہاں فلسفہ، عقیدہ، عبارات، تعلیمات اور زندگی کی مقصدیت اور معنویت نظر نہ آئے … جہاں نتیجے تک پہنچنا نصیب نہ ہو … جہاں استدلال اور استخراج سمجھ نہ آرہا ہو… جہاں توضیحات اور تشریحات میسر نہ ہوں… تو ان مواقع پر الجھی ہوئی عبارات، غیر حل شدہ مسائل اور فلسفہ، عقیدہ اور تعلیمات کو مفہوم آشنا بنانے اور انھیں مقصدیت و واضحیت عطا کرنے کے لیے حرف کی ضرورت ہوتی ہے۔ عبارت کو معنویت اورمقصدیت کا نور عطا کرنے اور بکھرے ہوئے حروف کو کتاب کی صورت دینے کے لیے حرف کی ضرورت پڑتی ہے۔

قرآن موجود ہو مگر اس میں موجود علم و حکمت کے موتی نکالنے والا کوئی نہ ہو تو موتیوں کو منظرِ عام پر لانے والے کو حرفِ دور، حرفِ عبارت، حرفِ کتاب، حرفِ زمانہ، حرفِ امت اور حرفِ قوم کہتے ہیں… قوم موجود ہو مگر اس بکھری ہوئی قوم کو ایک وجود دے کر چلانے والا کوئی نہ ہو تو اس بکھری ہوئی قوم کو ایک وجود میں یکجا کرنے والے کو حرف کہتے ہیں… جسم موجود ہو مگر روح نکل چکی ہو تو اس مردہ جسم میں دوبارہ روح ڈالنے والے کا نام حرف ہے… وجود موجود ہو مگر فلسفہ غائب ہوچکا ہو… وجود موجود ہو، مگر عقیدہ غائب ہوچکا ہو… وجود موجود ہو، مگر نسبت غائب ہوچکی ہو… وجود موجود ہو، مگر مقصدیت نکل چکی ہو… تو اس وجود میں فلسفہ، عقیدہ، نسبت اور مقصدیت کی زندگی ڈال دینے والے کا نام حرف ہے۔ پس ہر دور کی عبارت کو مکمل کرنے کے لیے جس حرفِ زمانہ کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اس دور کا عارف باللہ ہوتا ہے۔ گویا حرف اَہلِ معرفت میں سے ہے جو نامکمل کو مکمل، ناقص کو کامل، بے مقصد کو مقصدیت اور غیر واضح کو واضحیت عطا کرتا ہے۔ معاشرے کو مقصدیت دینے والی، عبارت کو نور دینے والی اور کائنات کو روح دینے والی شے کا نام حرف ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری: جملہ حروفِ زمانہ کی صفات کے جامع

ہر صدی کی ایک کتاب ہوتی ہے۔ آغاز اِسلام کے بعد 14 صدیوں میں سے ہر ایک صدی میں ایک کتاب لکھی گئی۔ ہر صدی کی کتاب اس وقت تک نامکمل رہتی ہے جب تک اس زمانے کا کوئی حرف پیدا نہ ہو جو اس کتاب کو مکمل کردے۔ اگر پہلی صدی میں حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ اس زمانے کا حرف بن کر پیدا نہ ہوتے تو اس صدی کی کتاب نامکمل رہتی۔ دوسری صدی کی کتاب میں فلسفے، روایات، درایات، نقلِ حدیث کی کثرت نظر آتی ہے، اگر سیدنا محمد بن اسماعیل الشافعی مجدد صدیِ ثانی اس دور کا حرف بن کر نہ آتے تو دوسری صدی کی کتاب مکمل ہی نہ ہوپاتی۔ اسی طرح پانچویں صدی میں امام فخرالدین رازی اس زمانے کا حرف اس وقت بن کر آئے، جب سب کچھ بکھر چکا تھا، پس اس صدی میں اس زمانے کی کتاب کو تکمیل دینے والا حرف آپ تھے۔ اسی طرح اپنے اپنے زمانے میں اُن ادوار کی کتابِ حیات کو مکمل کرنے کے لیے امام ابو الحسن اشعری، امام غزالی، امام باقلانی، امام سیوطی، حضرت مجدّد الف ثانی، اعلیٰ حضرت اور امام نبھانی رحمہم اللہ تعالیٰ جیسے تمام ائمہ کرام اپنے اپنے زمانے کے حرف بن کر کتابِ زندگی کے ٹائٹل پر جلوہ گر ہوتے رہے اور اپنا کردار ادا کرتے ہوئے معاشرے کو مقصدیت عطا کرتے چلے گئے۔

اسی طرح اگر آج کے زمانے کو دیکھیں تو چودھویں صدی کی اِس کتابِ زندگی میں تو سب کچھ بکھر چکا تھا۔ ظاہراً تو ہر پہلو سے چودہ سو سال کا علمی و فکری کام نظر آرہا تھا۔ فلسفہ، نظریہ، اعتقاد، سیرت نگاری، تاریخ، استدلال و استنباط، لغت، صرف، نحو، فصاحت و بلاغت الغرض ہر فن میں کام ہوا مگر معاشرہ تھا کہ بھیڑوں کی طرح بکھرا ہوا تھا … ریاست تھی کہ سنبھالنے والا کوئی نہ تھا… سیاست سنتے تھے مگرسمجھانے والا کوئی نہ تھا … عقیدہ زبان پر تو تھا مگر دلوں میں اتارنے والا کوئی نہ تھا … گنبد خضریٰ تو موجود ہے مگر ہاتھ پکڑ کر اس سمت لے جانے والا کوئی نہ تھا… اہل بیت اطہار f کا نام تو لیتے تھے مگر ان کی ناموس کی حفاظت کے لیے کھڑے ہونے والا کوئی نہ تھا… بولتے تو سب تھے مگر ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر علم اور فکر کا مرکز بن کر کھڑا کرنے والاکوئی نہ تھا… باتیں تو کرتے تھے مگر اس دین مصطفوی کو اداراتی (institutionalize) بنانے والا کوئی نہ تھا۔ الغرض ہم تو بکھرے ہوئے تھے اور ہر روز مزید بکھرتے جارہے تھے، حتی کہ اس کتابِ زندگی کے انتظار میں جس نے ہمارے وجود کو یکجا کرکے ایک وجود دینا تھا، ہماری عمر گزری جارہی تھی۔

پھر اللہ رب العزت نے اِس دور کی کتاب کو مکمل کرنے کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صورت میں ایک ایسا حرفِ زمانہ ہمیں عطا فرمایا کہ جس میں گزشتہ صدیوں کے تمام حروفِ زمانہ (مجددین و شیوخ الاسلام) کے فیوضات کو جمع فرمادیا۔

حرفِ زمانہ کے فیض کی تقسیم

جب ہم کسی کے در پر آگئے اور پتہ چل گیا کہ یہی حرفِ زمانہ ہیں اور دنیا سے کنارہ کش اور اللہ سے ملانے والے ہیں اور اسی حرف نے ہماری عبارتوں کو جان دینی ہے تو اس زمانے میں رہنے والے کیا کریں؟

اس بات کو سمجھنے کے لیے حرف کی بحث کو اب ایک دوسرے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ حروف کی کئی اقسام ہیں، مثلاً: حروفِ جارہ، حروفِ نواصب، حروفِ جوازم وغیرہ۔

1۔ حروفِ جارہ

عربی زبان میں حروفِ جارہ؛ ب، فِي، مِن، عَلٰی، اِلٰی، عَنْ وغیرہ ہیں۔ یہ اپنے مابعد کو جَر (زیر) دیتے ہیں۔ جو ان حروف کے پاس آئے تو اسے مجرور کردیتے ہیں۔ گویا اگر کوئی اپنے زمانہ کے حرف کے پاس آئے تو وہ حرف ان کے اندر منکسر المزاجی، عاجزی، فروتنی اور درگذر کی کیفیت پیدا کردیتا ہے۔ آج کے حرفِ زمانہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی بات کی جائے تو جب کوئی شیخ الاسلام کے پاس آتا ہے تو وہ ’’ب‘‘ کے ذریعے اسے نسبت عطا کرتے ہیں، … مِنْ کے ذریعے سے ابتداء کردیتے ہیں یعنی یہاں سے سلوک، طریقت، علم، معرفت کی ابتداء ہوتی ہے، جس میں بندہ جُڑ کر چلتا ہے… اِلٰی سے منزل دکھا دیتے ہیں یعنی یہاں نہ صرف شعورِ مقصدیت دیا جاتا اور منزلِ مقصود کا راستہ دکھایا جاتا ہے بلکہ ایصال الی المطلوب اور ایصال الی المنزل بھی ہوتا ہے۔ گویا اِلیٰ سے گنبدِ خضریٰ ملتا ہے… عَلٰی سے رفعت دیتے ہیں … اور فِیْ سے نفس کی کائنات بدل دیتے ہیں۔ دل کے آئینے میں فِيْ ہے:

دل کے آئینے میں ہے تصویرِ یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی

اللہ رب العزت کا فرمان عالی شان ہے:

سَنُرِیْهِمْ اٰیٰـتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِهِمْ.

(فصلت، 41: 53)

’’ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں اطرافِ عالم میں اور خود اُن کی ذاتوں میں دِکھا دیں گے۔‘‘

پس فِيْ کے ذریعے تو کائنات بدلتی ہے، معرفت کے سمندر عبور ہوتے ہیں، نفس کی نفی ہوتی ہے اور بندہ نفسِ امارہ سے سفر شروع کرکے مطمئنہ اور پھر راضیہ اور مرضیہ تک جاتا ہے۔ گویا فِيْ توبہ کا راستہ ہے۔

2۔ حروفِ نواصب

حروف کی ایک قسم حروفِ نواصب ہیں۔ یہ حروف نصب (زبر) دیتے ہیں۔ حرف پہلے جَر کے ذریعے ذات کی نفی کرتاہے، نفس کو ستھرا اور اجلا کرتا ہے اور پھر جب وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ اسے اگلا کام عطا کیا جائے تو پھر حرف اُسے نصب لگادیتا ہے۔ نصب؛ فتحہ یعنی زبر کو کہتے ہیں۔

معلوم ہوا کہ جب بندہ کسی حرفِ زمانہ کی صحبت میں آتا ہے تو وہ اسے پہلے مجرور کرتا ہے، انکساری و عاجزی دیتا ہے اور پھر نصب (فتحہ) دے کر فتح و نصرت عطا کرتا ہے۔ اب اس پر فتوحات کے دروازے کھلنے شروع ہوجاتے ہیں، اللہ کے انوار و تجلیات کی فتوحات نصیب ہوتی ہیں، معرفتِ الہٰیہ اور معرفتِ بارگاهِ مصطفی ﷺ نصیب ہوتی ہے، فتوحاتِ علمیہ نصیب ہوتی ہیں اور علمِ لدنی کا فیض ملتا ہے۔ حتی کہ یہاں بیٹھ کر وہاں کا منظر دکھایا جاتا ہے۔

3۔ حروفِ جوازم

حروف کی اقسام میں سے ایک قسم حروفِ جوازم کی ہے۔ یہ اپنے مابعد کو جزم دیتے ہیں۔ جزم کا مطلب ہے کہ اسے ثابت قدمی دیتے ہیں اور جمادیتے ہیں۔ جس کو جر دے کر مجرور اورمنکسرالمزاج کردیا، نصب سے اس کو فتوحات مل گئیں اور اب اس کو دوام، استقامت اور مداومت چاہیے تو اس پر جزم لگادیتے ہیں۔ جس طرح کسی فعل پر حروفِ جوازم لگا دیئے جائیں تو انھیں کوئی ہٹا نہیں سکتا۔ اسی طرح جس پر حرفِ زمانہ یعنی وقت کا کامل شیخ جزم لگادے تو پھر کوئی شخص اس کی حرکت کو ہٹا نہیں سکتا۔ یاد رکھیں! جزم اسم پر نہیں لگتی، یہ صرف فعل اور کردار پر لگتی ہے جب کہ اسم پر جر (انکساری) لگ سکتی ہے۔ یعنی جر ذات پہ لگتی ہے اور جزم (استقامت) فعل پر لگتی ہے۔

عصرِ حاضر کے حرفِ زمانہ

آج کے حرفِ زمانہ مجددِ رواں صدی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کسی کو جر لگا کر انکساری و عاجزی دے رہے ہیں، کسی کو نصب لگا کر فتوحات کے دروازے کھلوا رہے ہیں، کسی کو ثابت قدم رہنے کے لیے جزم لگارہے ہیں اور اس کے اندر مداومت کا فعل منتقل کررہے ہیں۔ یہ سب عارف باللہ کی نگاہ کا کمال ہے۔

آج سے تیس چالیس سال قبل امتِ مسلمہ من حیث المجموع زوال کا شکار تھی۔ وعظ، تبلیغ، خطاب، ارشاد، ابلاغ سب جاری و ساری تھا، مگر عبارتیں سمجھ نہیں آرہی تھیں۔ بکھری ہوئی عبارتیں اور بکھرے ہوئے کلمات تھے، کسی کا کوئی مفہوم واضح نہیں ہورہا تھا۔ ان حالات میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایسے حرفِ زمانہ بن کر آئے کہ ہر قسم کے حروف کا فیض ان کی ذات میں جمع تھا۔ اِن کے آنے سے فلسفہ، عقائد، تعلیماتِ اسلام، معاشرت، علم، فکر، تربیت، الغرض ہر طرح کی عبارتیں بامقصد ہوگئیں، زندگی، سوچ، علم، فلسفہ، طریق اور منہاج بامقصد ہوگیا۔ آج شیخ الاسلام نے اس زمانے اور اس صدی کو مقصدیت کا فیض عطا کردیا۔ یہ وہ حرف ہیں جنھوں نے سب کو شان عطا کردی۔

دوسری طرف وہ اپنی ذات میں ’’فلان علی حرف من امرہ‘‘ کے مصداق کنارہ کش ہیں۔ انہیں اس دنیا سے خود کچھ نہیں چاہیے بلکہ ہر ایک کو معنویت و مقصدیت کا لباس پہنا دیتے ہیں۔ یہ سب کچھ دے کر پھر اپنے مولا کی بارگاہ کی طرف محو ہوجاتے ہیں۔

آج اگر نظام المدارس پاکستان، جامعات، یونیورسٹیز، کالجز اور پوری دنیا میں پھیلے ہوئے نوے سے زائد ممالک میں ادارہ جات اور تنظیمات کی بات کریں تو ہر جگہ اس حرفِ زمانہ کا فیض عام نظر آتا ہے۔ شیخ الاسلام کی شخصیت ہمہ جہت اوصاف کی حامل ہے۔ وہ بطورِ مفسر، محدث، فقیہ، متکلم، مربی، منتظم، عارف، سیاست دان؛ الغرض ہر حوالے سے اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔

شیخ الاسلام کی شخصیت کا ایک اور حیران کن پہلو ہے، اس پہلو کو سمجھنے کے لیے اگر ہم اپنے اردگرد موجود مختلف طبقات کی نمائندہ شخصیات کا جائزہ لیں تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی فلسفی ہے تو اس کی بول چال سے پتہ چلے گا کہ یہ فلسفی ہے اور فلسفے میں گم ہے، شاعر اپنی شاعری میں گم ہے، منتظم ڈکٹیٹر نظر آئے گا، خطیب کا اندازِ بیان خطیبانہ ہوگا، مقرر کا انداز مقررانہ ہوگا، کسی سیاستدان کا تکبر واضح نظر آئے گا، کسی مؤلف کو کسی شے کی فکر نہیں ہوگی، وہ تو کتابوں میں ڈوبا ہوگا۔ جس نے دن رات کتابیں لکھنی ہوں، اس کو دنیا و مافیھا کی کوئی خبر نہ ہوگی۔ کسی نے خطابات کی تیاری کرنی ہو تو اسے دنیا کی خبر نہ ہوگی کہ کدھر جارہی ہے۔ جو شب زندہ دار ہوگا، خدا سے لو لگائی ہوگی، عارف باللہ، تہجد گزار ہوگا تو وہ دن کو مدہوش، مجنون، مجذوب نظر آئے گا، وہ تو ریاست و سیاست کے بارے میں صحیح بات نہ کر سکے گا۔ اسی طرح جو دنیا کو مشورے بھی دے رہا ہو، دنیا داری کی بات بھی کررہا ہو، معیشت کے معاملات بھی ڈیل کررہا ہو، مینجمنٹ بھی کرہا ہو، تو پھر اس کا کتابوں میں کیا دل لگے گا؟ جو دنیا داری اور کاروبار میں چلا جائے وہ کتابوں میں نہیں اور جو کتابوں میں چلا جائے وہ یہاں نہیں۔

ان مثالوں کو سامنے رکھنے کے بعد اب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ذات کو دیکھ لیں تو ہمارے سامنے یہ حقیقت آتی ہے کہ آپ رات کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی بارگاہ میں ہوتے ہیں، دن کو ہم میں ہوتے ہیں۔ جب لکھتے ہیں تو لکھتے چلے جاتے ہیں۔۔۔ بیان کرتے ہیں تو بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔۔۔ دشمن کے سامنے کھڑے ہوں تو للکارتے چلے جاتے ہیں۔۔۔ عاجزانہ انداز دیکھیں تو عاجزی کا پیکر نظر آتے ہیں۔۔۔ دشمن سامنے آجائے تو ان کی ذات میں ’’اشدآء علی الکفار‘‘ کا عکس نظر آنا شروع ہوجاتا ہے۔۔۔ جب اپنوں کے پاس ہوں تو ’’رحماء بینہم‘‘ کا عکس نظر آتے ہیں۔۔۔ اپنے جیسے آجائیں تو ان جیسے ہوکر ان کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں۔۔۔ اور اگر وقت کے ایوان کا کوئی لیڈر آجائے تو اس کے مطابق وقار سے گفت و شنید کرتے چلے جاتے ہیں۔

شیخ الاسلام کے صرف اسفار کو ہی دیکھ لیا جائے تو واضح نظر آتا ہے کہ اتنا سفر کرکے کوئی بندہ عام زندگی نہیں گزار سکتا۔ آپ نے سفر اتنے کیے کہ کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا لیکن جب واپس آتے ہیں تو چہرہ ایسے چمک رہا ہوتا ہے جیسے آرام کرکے آئے ہوں۔ کتابیں لکھتے جارہے ہیں مگر ساتھ دنیا کی بات کریں تو پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں رچے بسے ہیں۔ الغرض ادارے بھی بن رہے ہیں، خطابات بھی ہورہے ہیں، علوم و فنون پر کتب بھی مدون ہو رہی ہیں، صحت اور طبیعت کے معاملات میں بھی اتار چڑھائو جاری ہے، گھریلو اور عائلی زندگی بھی ہے، معاشرت کے تقاضوں کو بھی بخوبی نبھارہے ہیں، الغرض کوئی ایسا پہلو نظر نہیں آتا جسے انھوں نے نظر انداز کیا ہو مگر جب نگاہ اٹھا کر دیکھیں تو اللہ کی بندگی اور غلامیِ مصطفی ﷺ میں بھی اپنی مثال آپ نظر آتے ہیں۔

یاد رکھیں! وہ ہستی جو کائنات کی عبارات، کتبِ کائنات اور تالیفاتِ کائنات کی عبارت کاحرف بن کر آئی ہو، وہ کسی ایک شعبہ کے لیے مخصوص نہیں ہوتی بلکہ ہر فن کی ہر کتاب کا حرف بنتی ہے۔ ہر فن کی ہر کتاب جن کے وجود کے بغیر مکمل نہ ہو اسے مجدد کہتے ہیں اور مجدّد رواں صدی، حرفِ عصر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہیں۔ وہ اللہ رب العزت کی طرف سے ہمارے لیے ایک خاصہ تحفہ ہیں۔ کوئی ایک کتاب پر توجہ دیتا ہے، کوئی ایک خطاب پر دیتا ہے مگر یہ وہ حرف ہے جس نے ہر کتاب کو رونق دے دی اور ہر خطاب کو نور، زندگی اور روح دے دی۔

اللہ رب العزت ہمیں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ کی فکر، ارشادات اور تعلیمات کو سمجھنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ ہر کارکن، ہر رفیق اور ہر دردِ دل رکھنے والا مسلمان ان کے منہاج کو نہ صرف سمجھے بلکہ اس کا حصہ بنے اور یہ فیصلہ کرے کہ کاش ہمارا نام بھی ان عبارات میں کہیں آجائے جو عبارات اِس حرف کی وجہ سے معتبر ٹھہرتی ہیں تاکہ کل جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی بارگاہ میں وہ کتاب پیش کی جائے تو اس میں ہمارا نام بھی کہیں لکھا ہوا ہو۔