علوم القرآن کا فروغ اور شیخ الاسلام کی خدمات کا تجدیدی پہلو

علامہ غلام مرتضیٰ علوی

قرآن مجید جملہ علوم کی ایک ایسی جامع کتاب ہے جس سے انسانیت کو قیامت تک ہر قسم کی راہنمائی میسر آتی رہے گی۔ قرآنی علوم کی ابتداء تو اسی وقت ہوگئی تھی جب خالقِ کائنات نے قرآن مجید کو حضور نبی اکرم ﷺ کے قلبِ اقدس میں محفوظ اور آپ ﷺ کی زبانِ اقدس سے جاری کرواکر ارشاد فرمایا:

ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَهٗ.

(القیامة، 75: 19)

’’پھر بے شک اس (کے معانی) کا کھول کر بیان کرنا ہمارا ہی ذِمّہ ہے۔‘‘

زبانِ وحیِ ترجمان اس قرآن کی پہلی تفسیر بنی اور قرآنی علوم کے دروازے انسانیت کے لیے کھلنے لگے۔ سیکڑوں صحابہ، تابعین اور اتبع التابعین نے قرآنی علوم کو انسانیت میں فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کیا اور اللہ رب العزت جن جن پر قرآنی علوم کے دروازے کھولتا گیا، وہ اس کے علمی فیضان سے انسانیت کو راہنمائی فراہم کرتے گئے اور اس بات کا اقرار کرتے رہے:

هُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْهُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ ط فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَآءَ تَاْوِیْـلِهٖ ج وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَهٗٓ اِلاَّ اللهُ م وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا ج وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ.

(آل عمران، 3: 7)

’’وہی ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جس میں سے کچھ آیتیں محکم (یعنی ظاہراً بھی صاف اور واضح معنی رکھنے والی) ہیں وہی (احکام) کتاب کی بنیاد ہیں اور دوسری آیتیں متشابہ (یعنی معنی میں کئی احتمال اور اشتباہ رکھنے والی) ہیں، سو وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے اس میں سے صرف متشابہات کی پیروی کرتے ہیں (فقط) فتنہ پروری کی خواہش کے زیراثر اور اصل مراد کی بجائے من پسند معنی مراد لینے کی غرض سے، اور اس کی اصل مراد کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور علم میں کامل پختگی رکھنے والے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے، ساری (کتاب) ہمارے رب کی طرف سے اتری ہے، اور نصیحت صرف اہلِ دانش کو ہی نصیب ہوتی ہے۔‘‘

جب ہم آخری چند صدیوں پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں متعدد ہستیاں برصغیر پاک وہند میں قرآنی علوم تقسیم کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ ان میں چند نمایاں نام حسب ذیل ہیں: شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ، شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ، شاہ رفیع الدینؒ، شاہ عبدالقادرؒ، قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ، عبدالحکیم سیالکوٹیؒ، امام احمد رضا خانؒ، ضیاء الامت پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ، مولانا غلام رسول سعیدیؒ اور دیگر متعدد ہستیوں نے قرآن مجید کے مختلف زبانوں میں تراجم اور تفاسیر کے میدان میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔

پندرھویں صدی ہجری اور علومِ قرآنیہ کا طرز تدریس

جب ہم پندرھویں صدی ہجری کے آغاز کے زمانہ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں دکھائی دیتا ہے کہ بالعموم پوری امت اور خصوصاً مسلمانانِ برصغیر عصری اور دینی دونوں علوم کے لحاظ سے جہالت اور گمراہی کے اندھیروں میں تھے۔ پرانے روایتی طریقۂ تدریس سے مساجد میں ائمہ مساجد اور گھروں میں بزرگ خواتین ناظرہ قرآنی مجید اور حفظِ قرآن کی تدریس کا فریضہ سرانجام دے رہی تھیں۔ دعوت و تبلیغ میں تکفیریت کا عنصر غالب تھا۔ اہلِ علم دعوت و تبلیغ اور تحریر کے لیے قرآن و حدیث کا سہارا لینے کے بجائے قصوں، کہانیوں اور روایات کا سہارا لے رہے تھے۔

شومئی قسمت سکولوں و کالجوں میں ناظرہ قرآن کی کلاس بھی ختم کردی گئی اور دینی تعلیمی اداروں میں ترجمہ قرآن شامل نصاب ہی نہ تھا۔ یہ وہ اسباب تھے جن کے باعث قرآن مجید کی تعلیم، تدریس، تفہیم، تحقیق اور تبلیغ سے پورا معاشرہ محروم ہوچکا تھا۔ علماء تقلید کے نام سے تحقیق و اجتہاد کے دروازے سختی سے بند کرچکے تھے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ جدید عصری مسائل کے حل کے لیے جب کوئی قرآن و حدیث کی بات کرتا تو جمود کا شکار ذہن فتوئوں کی برسات کردیتے۔

عربی زبان اور گرائمر کو اس قدر مشکل بناکر پیش کیا جاتا رہا کہ عصری علوم کا حامل طبقہ بھی قرآن مجید کو پڑھنے اور اس سے فہم حاصل کرنے سے خوفزدہ رہا۔ الغرض قرآن مجید سے تعلق محض اجرو ثواب یا ایصال ثواب کا باقی رہ گیا تھا۔

علوم القرآن کے فروغ میں شیخ الاسلام کی تجدیدی خدمات

ایسے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں حضور نبی اکرم ﷺ کے فیضان اور حضور قدوۃ الاولیاء سیدنا طاہر علائوالدین القادری الگیلانی البغدادیؒ کی توجہات سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے قرآنی تعلیمات کے فروغ کی خاطر تحریک منہاج القرآن کی بنیاد رکھی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے امتِ مسلمہ کا قرآن سے ٹوٹا ہوا تعلق پھر سے بحال کرنے کے لیے ہر ہر سطح پر جدوجہد کا آغاز کیا۔ آپ کی اس جدوجہد سے الحمدللہ نہ صرف عوام الناس کا براہِ راست قرآن سے تعلق بحال ہورہا ہے بلکہ علماء اور مبلغین بھی تدریس و تبلیغ کے لیے قرآن مجید کی طرف پلٹ رہے ہیں۔

ذیل میں شیخ الاسلام کی فروغِ علوم القرآن میں خدمات کا بالعموم اجمالی خاکہ اور چند حوالوں سے تفصیلی جائزہ درج کیا جارہا ہے:

1۔ ’’قرآن‘‘ کو تحریک منہاج القرآن کی بنیادی اساس بنانا

2۔ قرآن مجید اور اس کے علوم پر 50 سے زائد کتب کی اشاعت

3۔ 20 جلدوں پر تفصیلی تفسیر جبکہ 8 جلدوں پر مختصر تفسیر کی تیاری

4۔ صرف قرآن و حدیث سے 40 سال مکمل دعوت و تبلیغ کرنا

5۔ اپنی جدوجہد کا تیسرا بڑا ہدف رجوع الی القرآن رکھا

6۔ نہ صرف ملک بھر بلکہ دنیا بھر میں قرآنی علوم کے فروغ کے لیے اداروں کا قیام

7۔ ملک بھر میں درسِ قرآن کلچر کو فروغ دینا

8۔ فہمِ قرآن کے نام سے پاکستان ٹیلی ویژن پر لیکچرز کے ذریعے قرآن فہمی کو عام کرنا

9۔ عوام الناس میں قرآن علوم کے فروغ کے مختصر دورانیے کے کورسز کے لیے شعبہ جات کا قیام اور ملک بھر میں قرآن کورسز کا فروغ

10۔ علماء کے لیے دراساتِ قرآن کا اہتمام کرنا

11۔ عوام الناس اور اہلِ علم طبقے کے لیے قرآن فہمی کو عام کرنے کے لیے 8 جلدوں پر قرآنی انسائیکلو پیڈیا کی اشاعت

12۔ مدارسِ دینیہ کے سلیبس میں الحمد سے والناس تک ترجمۂ قرآن کو لازمی شامل کرنا

13۔ دورِ حاضر کے مطابق جدید علم فکری اور سائنسی پہلوئوں پر مشتمل ترجمہ قرآن ’’عرفان القرآن‘‘ کی اشاعت

14۔ قرآن مجید سے دور حاضر سے تمام مسائل کا حل فراہم کرنا

15۔ قرآنی علوم کو دنیا بھر متعارف کروانے کے لیے ترجمہ قرآن کے تراجم کروانا اور متعدد ممالک سے اشاعت کا اہتمام کرنا

16۔ لاکھوں مسلمانوں میں روزانہ ترجمہ کے ساتھ مطالعہ قرآن کا ذوق پیدا کرنا

17۔ معاشرے کی راہنمائی کے لیے قرآن مجید سے نئے نئے علوم اخذ کرنا۔ اس کی ایک واضح مثال قرآنی فلسفہ انقلاب ہے۔

18۔ دیگر کتبِ سماوی کے مقابلے میں قرآن مجید کی صداقت واضح کرنا

19۔ قرآنی علوم کی جدید ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا کے ذریعے فروغ دینا

آیئے! ان خدمات میں سے چند اہم خدمات کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں:

1۔ قرآن مجید تحریک منہاج القرآن کی فکری اساس

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے عملی جدوجہد کے آغاز سے قبل سالہا سال کی تحقیق کے نتیجہ میں پاکستانی قوم اور امتِ مسلمہ کے مسائل کا واحد حل ’’قرآنی تعلیمات کو قرار دیا‘‘۔ آپ اپنی عملی جدوجہد سے 50 سال قبل 1971-72ء میں اپنی ڈائری میں اپنی فکر کا خلاصہ تحریر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

’’میں غریب، مظلوم، بیکس اور افلاس زدہ انسانیت کی فلاح و نجات اور عروج و ترقی صرف اور صرف اسلام کے ذریعے ممکن سمجھتا ہوں۔‘‘

یوں آپ نے احیاء اسلام کی اس عظیم عالمگیر جدوجہد کا نام منہاج القرآن رکھ کر واضح کردیا کہ ہماری جدوجہد کا مرکز و محور قرآن مجید ہے۔ آپ نے 40 سالہ علمی وعوامی جدوجہد میں قرآن کو ہی مشعلِ راہ بنایا ہے۔ سیکڑوں کتب کا ایک ایک صفحہ ہو یا ہزاروں خطابات کا مرکزی خیال، تحریک منہاج القرآن کے جھنڈے کے رنگ ہوں یا سیاسی و مذہبی جدوجہد کی پالیسی کی بنیاد اور جواز، ہر ہر قدم قرآنی فکر سے ہم آہنگ دکھائی دیتا ہے۔

2۔ قرآنی علوم پر بیسوں کتب کی اشاعت

جس صدی کے آغاز میں تقلید محض متفقہ سوچ ہو اور قرآن سے استدلال کرنے والے فتوئوں کی زد میں ہوں، ایسے دور میں آپ نے 600 سے زائد کتب قرآن و حدیث کی روشنی میں تحریر کیں اور ان کتب میں سے بیسیوں کتب براہِ راست قرآن مجید، ترجمہ قرآن، تفسیر، فہمِ قرآن، مضامینِ قرآن، قرآنی انسائیکلو پیڈیا، قرآنی فکرو فلسفہ، قرآن اور سائنس اور دیگر موضوعات اور علوم پر تحریر فرمائیں۔

3۔ قرآن مجید کی مختصر اور مفصل تفسیر

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قرآنی علوم میں تجدیدی خدمات میں سب سے اہم خدمت آپ کے 50 سالہ قرآنی علوم کے مطالعہ اور قرآنی فکر کا حقیقی شاہکار 20 جلدوں پر قرآن مجید کی تفسیر ہے۔ قرآن مجید کی یہ تفسیر قرآنی علوم کے فروغ میں بے مثال خدمت ہے۔ اس تفسیر کی متعدد خصوصیات ہیں۔ یہ تفسیر عربی میں ہے جس سے نہ صرف اہلِ عرب میں قرآنی فکر کو ترویج ملے گی بلکہ اس کے ترجمے کے ذریعے اہلِ عجم کو بھی قرآنی علم سے ایسی روشنی میسر آئے گی جو اسے کم و بیش اگلی صدی میں بھی قرآنی فکر سے آشنا کرتی رہے گی۔ یہ ایک ایسی جامع تفسیر ہے جس میں مفرداتِ قرآن، بلاغتِ قرآن، مضامینِ قرآن اور دیگر کئی جہات جمع کی گئی ہیں۔ اس کی ابتداء میں 2 جلدوں پر مشتمل ’’مقدمہ‘‘ بھی تکمیل کے مراحل میں ہے۔ یہ امر دین میں رہے کہ یہ اصول تفسیر کی دنیا میں اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ 8 جلدوں پر مختصر تفسیر؛ محض تفصیلی تفسیر کا خلاصہ نہیں ہے بلکہ خود ایک مکمل تفسیر ہے۔

4۔ بین الاقوامی سطح پر دروسِ قرآن کا فروغ

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 1980ء کی دہائی میں اسلام آباد اور چاروں صوبوں کے ہیڈ کوارٹرز پر ماہانہ دروس قرآن کا آغاز کرکے اہلِ علم اور عوام الناس کے لیے قرآن فہمی کے نئے باب کا آغاز کیا۔ اس سے قبل ملک بھر میں عوامی سطح پر دروسِ قرآن کا کوئی کلچر نہیں تھا۔ ان دروسِ قرآن سے جہاں عوام الناس کو قرآنی علوم پر راہنمائی میسر آئی وہاں مترنم خطابات کے کلچر کے خاتمے کا آغاز بھی ہوا۔ کم و بیش 10 سال سے زائد عرصہ عوامی سطح پر دروس کا سلسلہ جاری رہا۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے پروگرام فہم القرآن کو دنیا بھر میں پذیرائی ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے دروس سے میسر آئی۔ گذشتہ 15 سال سے ملک بھر کے طول و عرض میں آپ کے طلبہ کا 400 سے زائد مقامات پر ماہانہ دروس قرآن کے سلسلے کا جاری رہنا پاکستان کی دعوتی و تبلیغی تاریخ کا غیر معمولی کارنامہ ہے۔

5۔ 8 جلدوں پر مشتمل قرآنی انسائیکلو پیڈیا

عوام الناس اور اہلِ علم طبقے کی قرآن مجید تک رسائی آسان کرنے، قرآن مجید سے اپنے موضوع سے متعلق راہنمائی اور قرآن فہمی کو عام کرنے میں آپ کی سب سے بڑی خدمت 8جلدوں اور 5000 سے زائد موضوعات پر مشتمل انسائیکلو پیڈیا ہے۔ اس انسائیکلو پیڈیا نے قرآن مجید کے فہم پر کسی ایک طبقے کی اجارہ داری کو ختم کردیا ہے۔ عامۃ الناس سے لے کر ہر سطح کے ریسرچ اسکالرز کے لیے اپنے موضوع کے مطابق قرآن سے براہ راست راہنمائی انسائیکلو پیڈیا نے عام کردی ہے۔

6۔ مطالعہ قرآن مع ترجمہ کا ذوق پیدا کرنا

قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر لکھ دینا بلاشبہ غیر معمولی کام ہے لیکن دورِ حاضر میں لاکھوں مسلمانوں میں ایسا ذوق پیدا کرنا کہ وہ روزانہ کم از کم ایک رکوع کا مطالعہ کرنے کو اپنا معمول بنائیں، یہ ایک غیر معمولی خدمت ہے۔ شیخ الاسلام نے دنیا بھر میں محبت کرنے والوں کو انفرادی زندگی میں اصلاحِ احوال کا جو لائحہ عمل دیا ہے اس میں فرائض نمازوں کے بعد روزانہ ایک رکوع ترجمہ کے ساتھ قرآن کا مطالعہ کی نصیحت کی ہے۔ الحمدللہ تعالیٰ دنیا بھر میں وابستگان، رفقاء، عہدیداران اور محبت کرنے والے لاکھوں افراد ایسے ہیں جنھوں نے سالہا سال سے مطالعہ قرآن کو اپنا معمول بنا رکھا ہے۔

7۔ مدارسِ دینیہ میں ترجمہ قرآن کا آغاز

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ گذشتہ کئی صدیوں سے نہ صرف سکولوں اور کالجوں میں قرآن مجید ترجمہ سے نہیں پڑھایا جارہا بلکہ دینی مدارس میں جہاں علماء 8 سال سے زائد عرصہ محض دینی علوم پڑھتے تھے، وہاں بھی مکمل قرآن مجید ترجمہ کے ساتھ نہیں پڑھایا جارہاتھا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی طرف سے کئی صدیوں سے جاری دینی تعلیم کے نصاب کو بدل کر پہلے جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن میں اور پھر نظام المدارس کی صورت میں سیکڑوں تعلیمی اداروں میں مکمل قرآن مجید کے ترجمہ کی تدریس کو شامل نصاب کرنا، بلاشبہ ایک تجدیدی خدمت ہے۔

8۔ عوامی سطح پر حلقات قرآن کا فروغ

ایک طرف ملکی آبادی کا بہت بڑا طبقہ بنیادی دینی تعلیم سے محروم ہے اور دوسری طرف دینی مدارس کی طرف سے 2 سال، 4 سال اور 8 سال تعلیمی نصاب کے باعث جدید عصری تعلیم حاصل کرنے والے طبقات کو مختصر دورانیے میں دینی تعلیم کے حصول کی سہولت میسر نہیں تھی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دنیا بھر میں قرآنی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے تحریک کے مرکز پر شعبہ کورسز اور منہاج القرآن ویمن لیگ کے تحت الھدایہ پراجیکٹ کا آغاز کیا۔ شعبہ کورسز نے گزشتہ 17 سالوں میں ہزاروں معلمین و معلمات تیار کیے ہیں اور ان معلمین و معلمات کے ذریعے ملک بھر میں ہزاروں کلاسز اور کورسز کا انعقاد کیا جاچکا ہے۔ گزشتہ 17 سالوں میں ان شعبہ جات کے زیر اہتمام تیار کیے گئے معلمین و معلمات کے ذریعے منعقد ہونے والی کلاسز، حلقات اور کورسز کے ذریعے لاکھوں افراد کو قرآن مجید کا فہم دیا گیا اور یہ جدوجہد تسلسل سے جاری ہے۔

9۔ قرآنی علوم کا جدید ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا کے ذریعے فروغ

شیخ الاسلام نے دورِ حاضر کے جدید ترین ذریعۂ تدریس و تبلیغ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کو استعمال کرکے قرآنی تعلیمات کو دنیا بھر میں عام کرنے میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔ تحریک منہاج القرآن الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے قرآنی تعلیمات کے فروغ میں حسبِ ذیل خدمات سرانجام دے رہی ہے:

  1. انٹرنیٹ کے ذریعے ترجمہ عرفان القرآن سے سالہا سال سے کروڑوں افراد راہنمائی حاصل کررہے ہیں۔
  2. عرفان القرآن ایپ کے ذریعے اردو، انگلش اور دیگر کئی زبانوں میں ترجمہ قرآن کو لاکھوں لوگ اپنے موبائل کے ذریعے استعمال کررہے ہیں۔
  3. آن لائن کورسز: دنیا بھر میں قرآنی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے شعبہ کورسز اور خواتین کے شعبہ الھدایہ کے ذریعے گزشتہ دو سالوں سے دنیا بھر میں آن لائن کورسز کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ قرأت و تجوید، ترجمہ قرآن، فہمِ قرآن کے نام سے بیسیوں کورسز کا انعقاد ہوچکا ہے۔ ان کورسز میں دنیا بھر سے ہزاروں مردو خواتین شرکت کرتے ہیں۔
  4. آئندہ چند ماہ تک 8 جلدوں پر مشتمل انسائیکلو پیڈیا ایک ایپ کی صورت میں ہر فرد کے موبائل میں موجود ہوگا۔

10۔ سیاسی و معاشی مسائل کا حل بذریعہ قرآن مجید

معاشرے میں مروّجہ قرآنی علوم پر دسترس حاصل کرنا اور اس سے معاشرے میں راہنمائی کا فریضہ سرانجام دینا بلاشبہ بڑی خدمت ہے لیکن معاشرے میں پیدا ہونے والے ایسے مسائل جن کا حل دکھائی نہ دے رہا ہو، نہ صرف پوری قوم بلکہ امتِ مسلمہ زوال کا شکار ہوچکی ہو اور شرق تا غرب کسی کو اس کا حل میسر نہ آرہا ہو۔ نیز اس طرح کے سوالات ذہن میں جنم لے رہے ہوں کہ:

’’زوال کا شکار امتوں کو کیسے عروج سے ہمکنار کیا جاسکتا ہے؟ قوموں کے زوال کے اسباب کیا ہیں اور پھر امت کے احیاء کے لیے جدوجہد کے تقاضے کیا ہیں؟‘‘ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات گزشتہ دو صدیوں سے امتِ مسلمہ تلاش کررہی ہے۔ متعدد مفکرین اور قائدین نے امت کے ان مسائل کا حل سوچا مگر کسی حقیقی حل تک نہ پہنچ سکے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری لکھتے ہیں کہ

’’میں نے انقلاباتِ عالم کا جائزہ لیا۔ کارل مارکس، لینن، سٹالن اور دیگر غیر مسلم مفکرین کی انقلابی فکر کا مطالعہ کیا۔ پھر امام غزالی، شاہ ولی اللہ اور دیگر مسلم مفکرین کا مطالعہ کیا اور اس کے بعد قرآن مجید کا انقلابی پہلو سے مطالعہ کیا۔‘‘

سالہا سال کے مطالعے کے نتیجے میں شیخ الاسلام نے 2 جلدوں پر ضخیم کتاب قرآنی فلسفہ انقلاب تحریر کی۔ قرآنی فلسفہ انقلاب دورِ حاضر میں امتِ مسلمہ کے احیاء کا منظم لائحہ عمل ہے۔

اسلامی تاریخ میں قرآنی علوم میں فلسفہ انقلاب پر اس سے قبل اس طرح کی کسی بحث کا تذکرہ موجود نہیں ہے۔ شیخ الاسلام نے امتِ مسلمہ کے احیاء کے لیے جو لائحہ عمل تشکیل دیا وہ تحریک منہاج القرآن ہے اور منہاج القرآن کی جدوجہد کا طریق قرآن مجید کی روشنی میں قرآنی فلسفہ انقلاب ہے۔ قوموں کے عروج و زوال میں تیس یا چالیس سالوں کا عرصہ کچھ معنی نہیں رکھتا۔ جس دن یہ انقلابی جدوجہد اپنی منزل پر پہنچے گی۔ دنیا اس قرآنی فلسفہ انقلاب کی حقیقت کو سمجھے گی۔

11۔ دنیا بھر میں قرآنی علوم کی اشاعت کے مراکز

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے قرآنی علوم اور فکر کے فروغ کے لیے دنیا بھر میں ادارے اور مراکز قائم کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں لائبریریز اور سیل سینٹرز کے ذریعے قرآنی علوم پر مشتمل کتب کے ترسیل کا منظم نظام قائم کیا۔ قرآنی علوم کو دنیا بھر میں فروغ دینے کے لیے پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش، انگلینڈ، مصر اور ترکی سے قرآنی علوم پر مشتمل کتب کی اشاعت کا سلسلہ کئی سالوں سے جاری ہے۔ ان تمام ممالک سے نہ صرف 10 سے زائد زبانوں میں قرآن مجید کا ترجمہ کیا جاچکا ہے بلکہ علوم القرآن پر مشتمل دیگر کتب کے ترجمہ کا سلسلہ جاری ہے۔

الغرض دنیا بھر میں سیکڑوں تعلیمی اداروں میں قرآنی تعلیمات کا فروغ ہو یا پاکستان، برطانیہ، مصر، ترکی، انڈیا، بنگلہ دیش اور کئی ممالک سے قرآن مجید کے تراجم کی اشاعت، ڈنمارک میں اسلام اور عیسائیت کے مناظرے میں حقانیتِ قرآن کی صداقت واضح کرنا ہو یا دورِ حاضر کے تمام مسائل کا حل قرآن مجید سے فراہم کرنا؛ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 41 سالوں میں پوری دنیا میں ہر ذریعے اور وسیلے سے قرآنی علوم کو فروغ دیا ہے۔ اگر اس تمام جدوجہد کو جمع کیا جائے تو بلاشبہ یہ ایک ایسی تجدید خدمت ہے جس کی نظیر ہمیں نظر نہیں آتی۔