حنا وحید

حضور نبی اکرم ﷺ  کا فرمان اَقدس ہے کہ ’’میں جامع کلمات کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہوں۔‘‘ مراد یہ ہے کہ آقائے کائنات ﷺ  کے فرامین فصاحت و بلاغت کا مجموعہ، گلدستہ اور مرقع ہیں۔ آپ ﷺ  طول طویل، وسیع و عریض اور پھیلے ہوئے مفہوم کو مختصر اور جامع الفاظ میں بیان فرما دیتے اور قلیل ترین الفاظ میں کثیر المعانی مطالب و مفاہیم کو پیش فرما دیتے، یعنی گفت گو میں حد درجہ طوالت سے پرہیز اور کفایتِ لفظی سے کام لیا جاتا تھا۔

حضور نبی اکرم ﷺ  کی اِس صفت جلیلہ کا فیض بھی اُمت میں تقسیم ہوتا ہے جسے غلامانِ مصطفی بتوفیقِ اِلٰہی اپنے اپنے دامن میں سمیٹ لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض ہستیوں کے فرامین بطور وظیفہ اپنا کر حرزِ جاں بنائے جانے کے قابل ہوتے ہیں۔ بایں سبب اِس مختصر مضمون میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ کے چنیدہ فرامین اور اَقوال درج کیے جارہے ہیں جن سے نہ صرف آپ کی فصاحت لسانی اور آپ کے قادر الکلام ہونے کا بخوبی اِظہار ہوتاہے، بلکہ ان فرامین کو ہمہ وقت مستحضر رکھنے اور ان پر عمل کرنے کی بھی ضرورت بخوبی واضح ہوجاتی ہے۔

آپ کے عمدہ اور دلنشیں انداز سے اَخذ کردہ یہ منتخب فرامین کسی خاص موضوع پر اِکٹھے نہیں کیے گئے، بلکہ ان کا اِنتخاب متفرق موضوعات سے کیا گیا ہے، جنھیں شیخ الاسلام کے یومِ پیدائش کے موقع پر شائع ہونے والے اس خصوصی نمبر میں شاملِ اِشاعت کیا جا رہا ہے:

1. اِسلام

  • اِسلام ہی حقیقت میں راہِ فلاح و نجات ہے۔
  • اِسلام درحقیقت دینِ محبت ہے۔
  • اِسلام دوسروں کو اَمن و سلامتی اور حفاظت و عافیت مہیا کرنے سے عبارت ہے۔
  • اِسلام محض فکر کا نام نہیں، عزم و اِرادے کا نام ہے۔
  • اِسلام محض علم کا نہیں، بلکہ علم اور عمل دونوں کا نام ہے۔
  • اِسلام محض تبلیغ کا نہیں، تعمیل کا نام ہے۔
  • اِسلام محض توجیہ کا نہیں، تخلیق کا نام ہے۔
  • اِسلام محض مقصودِ حیات کو جاننے کا نہیں، اس کو پانے کا نام ہے۔
  • اِسلام محض فلسفیانہ موشگافیوں کا نہیں بلکہ عملی جدوجہد کے ذریعے نتائج پیدا کرنے کا نام ہے۔

2. اِیمان

  • ایمان قلب و باطن کی یقینی حالت کا نام ہے جس میں قلب و باطن دنیا کی محبت سے خالی اور اللہ کی محبت سے معمور ہوں۔
  • تمام اِنسانوں کے لیے اُلوہی ہدایت کا ذریعہ فقط وحیِ الٰہی ہی ہے؛ جو انبیاء کرام  علیہم السلام  پر اپنے اپنے دور میں نازل ہوتی رہی اور اس کی تکمیل حضور نبی اکرم  ﷺ  کی ذاتِ اَقدس پر ہوئی۔
  • محبت ایمان کا جوہر اور اِسلام کی بنیاد ہے۔ بنا بریں محبت کے بغیر ایمان کا دعویٰ کرنا محض خیال خام اور علامتِ نفاق ہے اور حق یہ ہے کہ اَہلِ محبت ہی اَہلِ اِیمان کہلانے کے حق دار ہیں۔
  • تعظیم و تعزیر ایمان کا کمال ہے اور اِتباع نصرت کا کمال ہے۔
  • ہمارے اندر اُس وقت تک ایمان پختہ اور راسخ نہیں ہو سکتا جب تک ہماری خواہشات، ہماری آرزوئیں، ہمارے ارادے اور ہماری پوری کی پوری زندگی دین کے قالب میں نہ ڈھل جائے۔

3. توحید

  • شہادتِ توحید کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ دل کی گہرائیوں سے یہ شہادت دے کہ ایک ہستی ایسی ہے جس سے بڑھ کر عظمت و رفعت اور شانِ کبریائی کا تصور بھی محال ہے۔ اُس سے زیادہ کسی کو قدرت حاصل نہیں ہوسکتی۔ اُس سے بڑا علیم و خبیر کوئی متصوّر نہیں ہوسکتا۔ اُس کا ارادہ اتنا قوی اور غالب ہے کہ اسے تمام دنیا اور جملہ کائنات مل کر بھی مغلوب نہیں کرسکتے۔ اُس کی قدرت، حدود و قیود، حیطۂ شمار اور اِدراک سے ماوراء ہے۔
  • جس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کافی ہوجائے، اس کی زندگی میں کسی قسم کے نقصان کا اندیشہ باقی نہیں رہتا۔
  • اَصلاً خیر اللہ کے پاس ہے اور اس کے حکم سے بندوں کو اِس صفتِ خیر کا مظہر بنا دیا جاتا ہے۔

4۔ محبت و خشیتِ اِلٰہی

  • صوفیاء و عرفاء نے دلوں کی روحانی تسکین و اِطمینان کے لیے صرف ایک نسخہ تجویز فرمایا ہے اور وہ ہے: عشقِ حقیقی۔
  • محبوبِ حقیقی کی طلب سے بڑھ کر اور کوئی شے ہمارا مقصود نہیں ہونی چاہیے۔
  • محبت اور توقع اِکٹھے نہیں رہتے۔ توقع رکھنا محبت کے خلاف ہے۔ محبت میں توقع کرنا سوداگری ہے۔
  • عقل کا تو شیوہ ہی تنقید ہے، جب کہ عشق آنکھیں بند کر کے سرِ تسلیم خم کردیتا ہے۔
  • اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب مکرم  ﷺ  کی محبت تمام اَنواع و اَقسام کی محبت سے بلند ہے۔
  • اَہلِ محبت اور اَہلِ رضا پر جب تنگی، مصیبت اور تکلیف آتی ہے تو وہ اسے محبوب کی خاص عنایت و نوازش خیال کرتے ہیں۔
  • دیدارِ الٰہی کا نشہ سب سے بڑا ہے۔
  • ترکِ نواہی سے مقامِ محبوبیت حاصل ہوتا ہے۔
  • اللہ سے رونے کی خیرات طلب کرنا سب سے بڑی دعا ہے۔
  • تمام عباداتِ الٰہیہ کا مقصد حصولِ تقویٰ ہے۔
  • زبان دِل کی ترجمان ہے۔
  • اللہ تعالیٰ اپنے محبوبانِ بارگاہ کو ہر لمحہ خود اِحتسابی کی توفیق دیے رکھتا ہے۔

5. محبت و اِطاعتِ رسول  ﷺ

  • سیرتِ طیبہ کے مطالعہ کے ذریعے زندگیوں کو حضور نبی اکرم ﷺ  کے اُسوۂ حسنہ کے مطابق ڈھالنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔
  • آج ہم محبت و اِطاعتِ رسول  ﷺ  کے جوہر کو عملاً کھو بیٹھے ہیں۔ ہم قولاً عاشقِ رسول ہیں لیکن عملاً عاشقِ دنیا ہیں۔

6. نماز

  • سجدہ خدا سے براہِ راست تعلق کا ذریعہ ہے۔
  • سجدہ حقیقتِ اِنسانی کا مظہر ہے۔

7۔ معرفت و تصوف

  • اللہ کی پہچان معرفت کہلاتی ہے۔
  • دل کی بیداری اور حیاتِ قلبی کا نام معرفت ہے۔
  • دل کا رُخ اللہ کی طرف موڑ لو۔
  • تصوف ایک متحرک حقیقت اور فعال سلسلۂ اِسلام ہے۔
  • تصوف کردار کو بدلتا ہے۔
  • تصوف تزکیۂ نفس اور قلب و باطن کی صفا و جلا کا نام ہے۔
  • تصوف کو بدعت کہنا سراسر غلط، بے بنیاد، کم فہمی اور سطحی علم کا نتیجہ ہے۔
  • تصوف اوائلِ اِسلام ہی سے اِسلامی معاشرے کا لازمی جزو ہے۔ یہ اِسلام میں کوئی درآمد شدہ اضافہ یا بدعت نہیں ہے۔
  • جو تنظیم روحانی طرزِ فکر سے خالی ہو وہ مادی اور دنیوی طریقوں پر چل پڑتی ہے اور خیر و برکت کے چشمے اُس میں نہیں پھوٹتے۔

8. توبہ

  • توبہ تبدیلی کا نام ہے۔
  • نیک اعمال ہی دلوں کو حیاتِ جاوداں کی طرف لے کر جاتے ہیں۔

9. بندۂ مومن کا حقیقی نصب العین

  • اَخلاقی کمال کی اعلیٰ ترین صورت رضائے اِلٰہی کا حصول ہے۔
  • اہلِ حق کا ہر عمل محض رضائے الٰہی کی خاطر ہوتا ہے۔
  • رضاے الٰہی کی خاطر مباح بدعت بھی عند اللہ مقبول ہوتی ہے۔
  • اہلِ حق کی دوستی و عداوت کا معیار بھی صرف رضاے اِلٰہی ہوتا ہے۔
  • راستے کی تلاش ہمیشہ مقصدیت پر دلالت کرتی ہے۔
  • مقصد مَن میں اُتر جائے تو بندہ مقصودِ خلائق بن جاتا ہے۔

10. عدل اور اِحسان کے مابین فرق

  • عدل یہ ہے کہ بندہ خو د بھی لُطف اُٹھائے اور دوسروں کو بھی اُٹھانے دے؛ جب کہ اِحسان یہ ہے کہ اپنا لُطف قربان کرکے دوسروں کو آرام و سکون بہم پہنچائے۔
  • عدل یہ ہے کہ اپنے لیے بھی جیے اور دوسروں کے لیے بھی؛ جب کہ اِحسان یہ ہے کہ صرف دوسروں کے واسطے زندہ رہے۔
  • عدل یہ ہے کہ کسی کو دُکھ نہ پہنچایا جائے؛ جب کہ اِحسان یہ ہے کہ اپنے سُکھ بھی دوسروں میں بانٹ دیے جائیں۔
  • عدل شرطِ ایمان ہے؛ جب کہ اِحسان کمالِ ایمان۔
  • عدل مساوات ہے؛ جب کہ اِحسان سراسر ایثار ہے۔

11. علم و عمل کے مابین فرق

  • علم کی ابتداء شک سے ہوتی ہے، عمل کی یقین سے،
  • علم میں فکر کو بنیادی اَہمیت حاصل ہے، جبکہ عمل میں عزم و اِرادے کو۔
  • علم کا تعلق توجیہہ سے ہے اور عمل کا تخلیق سے۔

12. رِزقِ حلال کمانے کی فضیلت

  • اگر اِنسان رزقِ حلال کمانے کی نیت سے دیانت داری کے ساتھ محنت کرتا ہے تو اس کا ایک ایک لمحہ عبادت ہے اور اس کا درجہ نفلی عبادت سے بڑھ کر ہے۔

13. میانہ روی اور فرقہ پرستی

  • اسلام کی اصل تعلیم اعتدال اور میانہ روی ہے۔
  • شجرِ اسلام کے برگ و بار کو زمانے کی بلاخیزیوں سے محفوظ کرنے کے لیے قرآن حکیم کی تعلیمات اور حضور نبی اکرم ﷺ  کی سیرتِ طیبہ ہی مشعلِ راہ ہیں۔
  • ظہورِ اسلام کا بنیادی مقصد نسل و رنگ اور شعوب و قبائل پر مبنی عصبیت و تفاخر کے بتوں کو توڑ کر تمام نوعِ انسانی کو ایک مرکز پر لانا اور ایک دائمی وحدت کے رشتے میں منسلک کرنا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ  کی سیرت اور حیاتِ طیبہ بھی اسی مقصد کی غماز اور آئینہ دار ہے جو قرآن حکیم کا منشاء نزول ہے۔
  • جس طرح انسانی زندگی اجتماعیت اور قومیت کے بغیر اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتی اس طرح اِسلام بھی اجتماعیت اور قومیت کے بغیر اپنا مذہبی و ملی تشخص بحال نہیں رکھ سکتا۔
  • نیک گمان سے اُخوت اور اتحاد قائم ہوتا ہے جب کہ بدگمانی نفاق و اِفتراق کا باعث بنتی ہے۔

14. دعوت و تبلیغِ دین

  • دینِ متین کی تبلیغ اور دعوتِ حق میں زبردستی اور جبر کا عنصر منشائے خداوندی کے سراسر منافی ہے۔
  • اِسلام کی تبلیغ اس انداز سے کرنی چاہیے کہ دنیا کو اِسلام کی حقانیت اور عملیت (practicability) پر یقین حاصل ہو۔
  • بدی جس رفتار سے بڑھ رہی ہے، نیکی کو اُس سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ فروغ دینا وقت کا اَوّلین تقاضا ہے۔
  • وہ دعوت کبھی مؤثر نہیں ہو سکتی جب تک دعوت دینے والے خود تربیت کے مراحل سے نہ گزریں۔
  • حقیقی عزت وہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول  ﷺ  کی راہ پر چلنے سے ملے۔
  • اِسلام کی حقانیت ثابت کرنے کے لیے جدید سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی کا مطالعہ ناگزیر ہے۔
  • پیغمبرانہ سیرت و جد و جہد کی ساری تاریخ کامیابی و کامرانی کی تاریخ ہے اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے عبرت و نصیحت بھی۔
  • قرآنی فلسفہ انقلاب میں عملِ دعوت کو وہ بنیادی اور کلیدی اہمیت حاصل ہے جو تناور درخت میں بیج کو ہے۔

15. تجدید و احیائے دین کی جدوجہد

  • تجدید کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جس کام کی تجدید ہوجائے تو مخالف شے کا وجود ہی معدوم ہوجائے۔ اِس طرح تو اَنبیاء کرام  علیہم السلام  کے زمانوں میں بھی نہیں ہوا۔
  • قرآن مجید نے دین کے لفظ کو آخرت کے لیے بھی استعمال کیا ہے اور دنیوی نظام کے لیے بھی، جس کا مطلب یہ ہے کہ لفظ دین؛ دنیا اور آخرت دونوں نظاموں پر حاوی ہے۔
  • اِسلام ترقی پسند ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ دین ہے جس نے ہر دور میں ذہنِ جدید کی تہذیب کی اور سینوں میں ایمان کے چراغ روشن کیے۔
  • میں ماضی سے کٹی ہوئی تجدد پسندی کا قائل نہیں ہوں اور نہ ہی غیر متحرّک اور جامد قدامت پرستی کا قائل ہوں۔ دونوں اِنتہا پسندانہ رویے قوموں کو ڈبو دیتے ہیں۔
  • پُراَمن طریق سے اِسلامی اَقدار، روحانی اَقدار اور دینی اَقدار کو زندہ کرنے کا نام مصطفوی انقلاب ہے۔
  • حرکتِ مسلسل کے ذریعے ایک جماعت؛ تحریک بنتی ہے۔
  • جو قوم سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ جائے گی، وہ ختم ہو جائے گی۔
  • نصرتِ اِلٰہی اُنہی کا مقدر بنتی ہے جو سر بکف ہو کر اللہ کے دین کی تائید و حمایت کے لیے میدان میں اتر پڑتے ہیں۔

16. تحریک منہاج القرآن

  • تحریک منہاج القرآن تجدیدِ دین اور احیائِ اِسلام کی عظیم تحریک ہے۔ جو اِس مادیت زدہ زوال پذیر دور میں اِسلام کی روحانی، اخلاقی، علمی، فکری، دینی اور اعتقادی اَقدار کو زندہ کر رہی ہے۔ یہ ماضی کو حال سے اور حال کو مستقبل کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ تحریک لوگوں کے عقائد درست کرنے، ان کی فکرو نظرکو صحیح زوایہ دینے، ایمان اور نور کی طاقت کے ساتھ نسل نو کی زندگی کی تمام جہات میں اصلاح کر رہی ہے۔
  • اِنقلاب صرف اُس زمین پر آتا ہے جہاں کے لوگ اِستقامت کے ساتھ مسلسل جدّ و جہد کرتے ہیں۔ تسلسل کے ساتھ جد و جہد جاری رکھنا فرض ہے۔
  • کامیابی کے لیے اِستقامت شرطِ اَوّل ہے۔
  • دعوتِ منہاج القرآن دراَصل دعوتِ اِتحادِ اُمت ہے۔
  • تحریک منہاج القرآن کے دروازے ہر اُس شخص کے لیے کھلے ہیں جو آقائے نام دار  ﷺ  کا اُمتی ہونے کا دعوے دار ہے، جس کا دل فرقہ واریت اور گروہ بندی پر خون کے آنسو روتا ہے۔
  • منہاج القرآن کوئی فرقہ وارانہ تحریک نہیں، بلکہ یہ اَمنِ عالم اور اِتحادِ اُمت کی تحریک ہے۔
  • اِنقلابی کارکنوں کے لیے یادِ الٰہی اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق ہی ایسی دولت ہے جو انہیں باطل اور طاغوت کے سامنے پامردی اور استقامت عطا کرتا ہے۔
  • جس شے کے بارے میں شک و شبہ پیدا ہو جائے اُس کے ساتھ خود سپردگی و یکسوئی (commitment) ختم ہوجاتی ہے۔

17. تجدید و احیائے دین کی جدوجہد میں خواتین کا کردار

  • اے دخترانِ اِسلام! آج اِسلام کی بیٹیوں کو قرونِ اُولیٰ کے کمال کی طرف لوٹ آنے کی ضرورت ہے۔ آج سیدہ فاطمۃ الزہرہ سلام اللہ علیہا کے کردار کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ آج سیدہ عائشہ صدیقہ اور سیدہ خدیجۃ الکبریٰk کے کردار کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ اِسلام کی بیٹیاں اگر اس عظیم کردار کو حرزِ جاں بنا لیں تو دنیا کی کوئی طاقت اُمتِ مسلمہ کی نشاۃِ ثانیہ کو روک نہیں سکتی۔
  • نئی نسل کو دینِ اِسلام کی راہ پر گامزن کرنے اور خاندان اور معاشرے میں اِنقلاب بپا کرنے کے لیے خواتین کو ہر قدم پر عملی قربانیوں کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

18. میں کیسا پاکستان چاہتا ہوں؟

  • میں ایسا پاکستان چاہتا ہوں جو علامہ اقبالؒ کے خوابوں کی تعبیر اور قائد اعظمؒ کے تصورات کی تکمیل ہو اور جو حقیقی معنوں میں اِسلامی و فلاحی جمہوری ریاست ہو۔
  • میں ایسا پاکستان چاہتا ہوں جس میں نوجوان نسل اپنے مستقبل کو روشن دیکھے؛ جہاں علم، عمل، کردار، اَخلاق، ہنر کی قدر ہو؛ جہاں انسانیت کا بول بالا اور ظلم کا صفایا ہو۔
  • میں ایسا پاکستان چاہتا ہوں جہاں ہر نوجوان کو روزگار میسر ہو تاکہ نوجوان کو ملکی ترقی کے دھارے میں شامل کر کے کار آمد اور مؤثر فرد بنایا جاسکے۔
  • میں ایسا پاکستان چاہتا ہوں جہاں خواتین کو مساوی مواقع اور مکمل سماجی و معاشی تحفظ فراہم ہو اور ان کے خلاف تمام امتیازی قوانین ختم ہوں۔
  • میں ایسا پاکستان چاہتا ہوں جہاں سرکاری و غیر سرکاری اور بڑے چھوٹے ملازمین کی تنخواہوں میں پایا جانے والا غیر عادلانہ فرق کم سے کم ہو۔

محترم قارئین! فکر و تدبّر اور حکمت و دانش صرف اور صرف حضرتِ اِنسان کا خاصہ ہے۔ یہ صلاحیت، اِستعداد اور قابلیت صرف اِسے عطا کی گئی ہے۔ وہ اپنے جذبات و اِحساسات کا اِظہار کر سکتا ہے، اپنی کیفیات و واردات کو بیان کر سکتا ہے، وہ اپنے درد و کرب اور خوشی و مسرت کے لیے الفاظ کا چناؤ کر سکتا ہے، وہ اپنے خیالات و اَفکار کو لاشعور سے شعور میں لا کر قابلِ فہم اَنداز میں پیش بھی کر سکتا ہے۔

ماہرین اِس اَمر پر متفق ہیں کہ اِنسانی دماغ کی ساخت تمام دیگر مخلوقات کے مقابلے میں اِس لحاظ سے مختلف ہے کہ اس کا سب سے بڑا حصہ مرکزِ تکلم (speech centre) ہے۔ لیکن محض بولنا، بیان دینا، گفتگو کرنا، تقریر کرنا اور خطاب کرلینا ہی کافی نہیں ہوتا۔ اِنسانی زبان سے ادا ہونے والے ہر بول، گفتگو، بیان، تقریر اور خطاب کو اِنسانی معاشرے اَہمیت نہیں دیتے تا وقت یہ کہ اِظہار کے لیے عمدہ، دل نشین اور موزوں ترین الفاظ کا چناؤ نہ کیا گیا ہو۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری دامت برکاتہم العالیہ کو اللہ رب العزت نے یہ وصف بخوبی عطا فرمایا ہے کہ آپ کی زبان سے نکلنے والے کلمات دل کی اتھاہ گہرائیوں میں اترتے چلے جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں قائم منہاج القرآن کے مراکز اور لاکھوں رفقاء و کارکنان کا شیخ الاسلام کے ساتھ وابستہ ہونے میں آپ کی زبان کی تاثیر نے کلیدی کردار ادا کیا۔ آپ کے پُرمغز خطابات اور کتب و دروس میں سے ہر ایک خوبصورت کلمات کا ایک ایسا گلدستہ ہوتے ہیں جن سے مشامِ جاں معطر ہوجاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اصلاحِ قلب و باطن کے لیے ہم شیخ الاسلام کے ان کلمات کو نہ صرف اپنی سماعتوں میں جگہ دیں بلکہ ان کلمات میں موجود مقصد اور پیغام پر عمل پیرا ہوکر صحیح معنی میں اللہ تعالیٰ کی بندگی، حضور نبی اکرم ﷺ  کی غلامی اور دینِ اسلام کی نصرت کے لیے اس مصطفوی مشن میں اپنی تمام تر صلاحیتوں اور قابلیتوں کو بروئے کار لائیں۔