کتبِ حدیث کے تراجم الابواب، ایک عظیم اجتہادی کاوش

ڈاکٹر نعیم انور نعمانی

اسلامی تعلیمات کا دوسرا بڑا ماخذ احادیث و سنن رسول ﷺ ہیں۔ قرآن حکیم کی متعدد آیات؛ حدیث و سنت کی اہمیت اور حجیت کو بیان کرتی ہیں۔ عام آدمی کے فہم اور آسانی کے لیے حضور نبی اکرم ﷺ کے فرامین و ارشادات کو محدثین نے مختلف کتابوں اور ابواب میں تقسیم کرکے منظم کیا ہے تاکہ کوئی بھی شخص کتاب اور باب کے عنوان کے ذریعے بآسانی متعلقہ حدیث تک پہنچ سکے۔ حدیث کی اصطلاح میں کتبِ حدیث کے ابواب کو ’’ترجمۃ الباب‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔

صحیح بخاری کے تراجم الابواب

قرآن مجید کے بعد صحیح ترین کتاب کا درجہ صحیح بخاری کو حاصل ہے۔ امام بخاری احادیث کے مدون ہی نہیں تھے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ احادیث کے مستخرج، مستدل اور مستنبط بھی تھے۔

آپ نے اپنی کتاب الجامع الصحیح میں نہ صرف احادیثِ رسول ﷺ کو بیان کیا ہے بلکہ ان احادیث سے اپنے استنباط و استدلال کے ذریعے عنوانات بھی اخذ کیے ہیں۔ امام بخاری اپنی فقاہت و بصیرت اور بصارت و فراست کے مطابق ابواب کے جو عنوانات قائم کرتے ہیں، ان ہی کو فقہ البخاری سے تعبیر کرتے ہیں اور ان ہی کو تراجمِ بخاری کا نام دیا جاتا جاتا ہے۔ امام بخاری نے تراجم الابواب کے اخذ و استنباط کا سلسلہ روضہ رسول ﷺ کے سامنے بیٹھ کر مکمل کیا۔ آپ ہر ترجمہ لکھنے کے لیے دو رکعت اللہ کی بارگاہ سے اپنی قلم کی استعانت اور ثقاہت کے لیے پڑھتے تھے۔

(هدی الساری، مقدمه فتح الباری، 1: 489)

امام بخاری کی عظمتِ تالیف اور بلندیِ استدلال کا اعتراف کرتے ہوئے امام نووی بیان کرتے ہیں:

لیس مقصود البخاری الاقتصاد علی الاحادیث فقط بل مراده الاستنباط منها والاستدلال لابواب ارادها.

(هدی الساری، مقدمه فتح الباری، 1: 489)

امام بخاری کا مقصد صرف احادیث کو اکٹھا کرنے کا ہی نہیں تھا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے ابواب کے تراجم کے لیے احادیث سے استنباط اور استدلال بھی کیا ہے۔

جب ہم امام بخاری کے تراجم الابواب کو پڑھتے ہیں تو ان میں ہمیں امام بخاری کی دقتِ فہم اور نکتہ رسی کا علم بھی ہوتا ہے۔ امام بخاری کے اکثر دقیق استدلال اور عمدہ ترین استنباطات کی وجہ سے شارحینِ احادیث یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ:

فقه البخاری فی تراجمه.

(هدی الساری، مقدمه فتح الباری، 1: 13)

’’امام بخاری کی فقاہت ان کے تراجم ابواب میں ہے۔‘‘

برصغیر پاک و ہند میں مولانا انور شاہ کشمیری نے جب امام بخاری کے تراجم الابواب میں یہ بے مثال خوبی دیکھی تو یہ کہتے ہوئے نظر آئے:

واعلم ان المصنف سیاق غایات وصاحب آیات فی وضع التراجم لم یسبقه احد من المتقدمین ولم یستطع ان یحاکیه احد من المتاخرین فکان هو الفاتح لذلک الباب وصار هوالخاتم.

(مقدمه فیض الباری، 1: 4)

بے شک تراجم الابواب کو وضع کرنے کے حوالے سے امام بخاری سب پر فائق ہوئے ہیں اور سب کے مابین صاحبِ کمال ہوئے ہیں۔ نہ متقدمین میں سے کوئی آپ کے آگے بڑھا ہے اور نہ ہی متاخرین میں سے کوئی ان کی نقل کماحقہ کرسکا ہے۔ وہی علمِ حدیث کی اس صنف کے دروازے کھولنے اور وہی بند کرنے والے ہیں۔

تراجمِ بخاری کی جامعیت

امام بخاری نے اپنے تراجم الابواب میں جامعیت کو اختیار کیا ہے جس طرح ان کی کتاب علمِ حدیث میں جامع ہے کہ ایمانیات، الہیات، اعمال، عبادات، معاملات، تفسیر اور تاریخ کے علم کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اور اس کے ساتھ ساتھ فرقہ باطلہ کی تردید بھی کرتی ہے، اسی طرح امام بخاری نے اپنے تراجم الابواب میں بھی جامعیت کے اسلوب کو اختیار کیا ہے۔ امام بخاری احادیث سے دلالت کی مختلف انواع کے تحت احادیث سے اخذ و استنباط کرتے ہیں۔ اس بناء پر ان تراجم کے اخذ میں طریقِ استدلال کی بڑی جامعیت اور ہمہ گیریت پائی جاتی ہے۔

تراجم بخاری کے لیے کلمات کے انتخاب کا پیمانہ

امام بخاری جب کسی باب کا عنوان قائم کرتے ہیں تو اس ترجمۃ الباب کے لیے استعمال کیے گئے الفاظ کا انتخاب خالی از حکمت نہیں ہوتا بلکہ اس کا ایک واضح مقصد اُن کے پیشِ نظر ہوتا ہے۔ ذیل میں صحیح بخاری کے تراجم الابواب کے لیے امام بخاری کے الفاظ کے چنائو کے طریقہ کار کو بیان کیا جارہا ہے:

1۔ امام بخاری جب ترجمۃ الباب قائم کرتے ہیں تو کبھی ترجمۃ الباب میں بھی وہی الفاظ ہوتے ہیں جو حدیث مبارک کے متن میں ہوتے ہیں۔

2۔ کبھی یوں ہوتا ہے کہ ترجمۃ الباب میں جو الفاظ آتے ہیں وہ امام بخاری کے ہاں سنداً موصول نہیں ہوتے بلکہ کسی اور امامِ حدیث سے سنداً موصول ہوتے ہیں۔

3۔ امام بخاری تراجم الابواب میں ان الفاظ کو بھی لے کر آئے ہیں جو ان کے نزدیک موصول تو ہیں مگر ان کے کلماتِ حدیث ہونے کی صراحت نہیں کرتے۔

4۔ کبھی تراجم الابواب میں امام بخاری وہ الفاظ لے کر آتے ہیں جو ان کے علاوہ دیگر محدثین کے ہاں الفاظِ احادیث کے طورپر مسلّم ہوتے ہیں لیکن خود امام بخاری ان کے حدیث ہونے کا اظہار نہیں کرتے۔ ایسے متعدد اور بے شمار تراجم ہیں۔ امام بخاری یہ اسلوب، حدیث مشہور کے باب میں اختیار کرتے ہیں۔

5۔ تراجم الابواب کے ضمن میں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ امام بخاری کبھی حدیث کے الفاظ میں تصرف کرکے ترجمہ کرتے ہیں، اسی طرح تراجم الابواب میں یہ اسلوب بھی امام بخاری کے ہاں کثرت سے پایا جاتا ہے کہ آپ ترجمۃ الباب کو اپنے الفاظ میں قائم کرتے ہیں مثلاً: باب الفهم فی العلم. (صحیح بخاری، کتاب العلم، 1: 16)

6۔ کبھی ترجمۃ الباب سے کسی چیز میں مزید توسیع کو ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے۔ مثلاً: باب مایقول بعد التکبیر

امام بخاری اس عنوان کو قائم کرنے کے بعد ثناء کہنے کے متعلق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث لے کر آئے ہیں اور اسی تکبیر کے بعد الحمدللہ رب العالمین سے نماز شروع کرنے سے متعلق حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث لے کر آئے ہیں۔ (صحیح بخاری، کتاب الاذان، 1: 103)

7۔ کبھی کسی مسئلہ میں اختلاف ہوتا ہے تو اس کو یوں ظاہر کرتے ہیں: باب ابوال الابل. (صحیح بخاری کتاب الوضو، 1: 36)

8۔ کبھی کسی دلیل میں احتمال کی بنا پر باب یوں قائم کرتے ہیں: باب اذا اسلمت المشرکة والنصرانیة تحت الذی الحربی. (صحیح بخاری، کتاب الطلاق، 2: 796)

9۔ کبھی مسئلہ اختلافی ہونے مگر دلیل کے قوی ہونے کی وجہ سے پورے جزم کے ساتھ باب کا عنوان قائم کرتے ہیں۔ مثلاً: باب وجوب الصلاة والجماعة.

10۔ کبھی باب میں استفہامیہ انداز اپناتے ہیں۔ مثلاً: باب هل ینفع فیهما. (صحیح بخاری، کتاب التیمم، 1: 48)

11۔ کبھی کسی مسئلے کی تفصیل کو بیان کرنے کے لیے یہ اسلوب اپناتے ہیں: باب هل تصلی المراة فی ثوب حاضت فیه؟ (صحیح بخاری، کتاب الحیض، 1: 45)

12۔ کبھی روایات میں اختلاف کی بنا پر یوں باب قائم کرتے ہیں: باب هل یستخرج السحر؟

13۔ کبھی امام بخاری اپنے نزدیک قول مختار کی طرف اشارہ کرنے کے لیے یوں ترجمۃ الباب قائم کرتے ہیں: باب من لم یتوضا الا من المخرجین. (صحیح بخاری، کتاب الوضو، 1: 29)

14۔ کبھی حکمِ تعمیم کی طرف اشارہ کرنے کے لے ایسا ترجمۃ الباب لے کر آتے ہیں: باب من رفع صوته بالعلم. (صحیح بخاری، کتاب العلم، 1: 31)

15۔ کبھی تراجم الابواب میں تاریخی واقعہ کی طرف اشارہ کرنے کے لیے اس طرح ذکر کرتے ہیں: ’’باب قصۃ زمزم‘‘ (صحیح بخاری، کتاب المناقب، 1: 498)

16۔ کبھی کسی مسئلہ پر ترجمۃ الباب قائم کرتے ہیں اور پھر اس میں فائدے کی طرف اشارہ کرنے کے لیے مزید عبارت لاتے ہیں جو باب در باب کی صورت اختیارکرجاتی ہے۔ اس کی مثالیں کتاب بدء الخلق اور اس کے ابواب میں دیکھی جاسکتی ہیں۔

17۔ کبھی کسی مشکل پر ردّ کے لیے باب قائم کرتے ہیں۔ جیسے: باب ترک الحائض الصوم. (صحیح بخاری، کتاب الحیض، 1: 44)

18۔ کبھی مختلف روایات میں تطبیق کے لیے باب لے کر آتے ہیں۔ مثلاً: باب لا تستقبل القبلة بغائط او بول الا عند البنا الجدار وغوه. (صحیح بخاری، کتاب الوضو، 1: 26). اس ترجمۃ الباب میں دو احادیث کو بیان کیا ہے۔ ایک حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے جس میں بول و براز کے وقت قبلہ رُخ ہونے کی ممانعت ہے اور دوسری روایت حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس سے اباحت ظاہر ہے۔ پہلی روایت کو صحرا و بیابان پر محمول کیا ہے اور دوسری روایت کو کسی حائل پر محمول کیا ہے۔

19۔ کبھی شرط اور مشروط کے ساتھ ترجمۃ الباب قائم کرتے ہیں۔ جیسے: اذا کان کذا. اور پھر اس جیسے الفاظ کے ساتھ اس شرط کے ساتھ مشروط کا بھی ذکر کرتے ہیں۔

20۔ کبھی آثار صحابہ سے ترجمۃ الباب میں کسی سوال کا جواب لے کر آتے ہیں: باب اذا اقرضه الی اجل مسمی.

اب اس سوال کا جواب یوں لکھتے ہیں: وقال ابن عمر فی القرض الی اجل لاباس به. (صحیح بخاری، کتاب الاستقراض، 1: 323)

21۔ کبھی ترجمۃ الباب میں سوال اور جواب کو صراحتاً لاتے ہیں۔ مثلاً: باب اذا وقف ارضا ولم یبین الحدود فھو جائز

تراجم الابواب کے ذریعے فہمِ حدیث میں کاملیت

اس تمام تمھید اور ترجمۃ الباب کی اقسام درج کرنے سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ امام بخاری نے الجامع الصحیح میں جہاں احادیث صحیحہ کو روایت کرنے کا التزام و اہتمام کیا ہے، وہاں ان احادیث سے استفادہ کرنے کا طریقہ بھی امت کو سکھایا ہے کہ جب امت کو اپنے اپنے زمانے میں مسائل پیش آئیں تو وہ ان مسائل کو قرآن اور احادیث پر پیش کریں۔ قرآن پر ان مسائل کو پیش کرنے کا طریقہ مفسرین ہمیں بتاتے ہیں جبکہ محدثین نے پیش آمدہ مسائل کو احادیث پر پیش کرنے کا طریقہ بتایا ہے۔ یہ طریقہ امام بخاری نے اپنے زمانے میں امت کو سکھایا ہے اور اپنے اس عمل ’’ترجمۃ الباب‘‘ کے ذریعے امت کو ترغیب دی ہے کہ اپنے اپنے زمانے میں علمِ رسول ﷺ سے صحیح معنوں میں استفادہ کے لیے ترجمۃ الباب کی نہج پر اپنے مسائل کو احادیث و سنن پر پیش کریں اور ان میں گہرا تفکر و تدبر کریں۔ اپنے مسائل کا حل بطریقِ استدلال و استنباط اور بطریقِ استخراج احادیث سے تلاش کریں اور عوام و خواص کو اپنے علم سے مستنیر کرنے کے لیے ترجمۃ الباب کا اسلوب اختیار کریں تاکہ وہ اس ندرت کے حامل اسلوب کے ذریعے تھوڑے وقت میں زیادہ مصدقہ، ثقہ اور قابلِ اعتماد بات کا علم حاصل کرسکیں۔

تراجم الابواب میں اجتہادی ارتقاء کی ضرورت

انسانی زندگی، تحرک، تبدل اور تغیرات کے مسائل لے کر مسلسل آگے بڑھتی رہتی ہے، اس بناء پر ارتقاء و تسلسل کی ضرورت ہر زمانے میں محسوس ہوتی رہتی ہے۔ اگر ارتقاء کا یہ سلسلہ دھیرے دھیرے اپنی منزل کی طرف جاری و ساری رہے تو علمی و اجتہادی ضرورتیں پوری ہوتی رہتی ہیں۔ اگر یہ عمل کسی جدت کی بنا پر یا کسی رکاوٹ کے باعث رک جائے تو مسائل کا کماحقہ حل سامنے نہ آسکے گا۔ جیسے: کوئی نئی عمارت اس کے مکینوں کے لیے چالیس سے پچاس سال تک کی ضروریات پوری کردیتی ہے مگر اس کے بعد اس عمارت کی تعمیرِ نو کی حاجت پیش آتی ہے۔ اسی طرح کسی عصری اور علمی کام کے بعد نیا کام رکا رہے تو 40 سے 50 سالوں کے بعد اس میں جدت اور ارتقاء کی بڑی شدید ضرورت پیش آتی ہے اور اگر اس پر زمانے اور صدیاں بیت جائیں تو اس کی احتیاج کی شدت کا اندازہ بآسانی نہیں لگایا جاسکتا۔ اگرچہ صاحبانِ حال اور مجتہدین ہر زمانے میں ہوئے ہیں اور ان کا اجتہادی کام بھی جاری رہتا ہے مگر وہ کام کبھی کبھار روایتی اور غیر روایتی رکاوٹوں کا شکار ہوکر پسِ پردہ چلاجاتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ افادیت کے باوجود نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔

علم الحدیث میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی خدمات کا تفرد

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی فکر کی اساس قرآن مجید اور سنتِ رسول اللہ ﷺ پر قائم ہے۔ تمسک بالقرآن کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دروسِ قرآن کا منظم نیٹ ورک نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں خوب پھیلا دیا ہے بلکہ اس مقصد کے حصول اور تکمیل کے لیے اس امت کو عرفان القرآن، تفسیر منہاج القرآن اور علوم القرآن پر متعدد کتب کا عظیم تحفہ دیا ہے جبکہ دوسرے امر یعنی تمسک بالسنہ کے لیے آپ نے احادیث کی تعلیم کو نہ صرف اہلِ علم کی سطح پر بلکہ عوامی سطح پر بھی بہت زیادہ ترویج دی ہے۔ شیخ الاسلام نے علمِ حدیث کو لوگوں میں عام کرنے کے لیے بے شمار موضوعات پر بیسیوں اربعینات کی تدوین اور اشاعت کی ہے۔

وراثت میں علم و قلم لے کے آئے
رموزِ شریعت سے پردے اٹھائے

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اسلام کے فکری، اعتقادی، عملی اور معاشرتی مسائل اور ان کے حل کے لیے متعد د مجموعہ ہائے احادیث تیار کیے ہیں۔ ان سب کتب کی ایک طویل فہرست ہے۔ مضمون کی طوالت کے پیش نظر اس کو ترک کررہے ہیں۔ البتہ ان سب کتبِ احادیث میں شیخ الاسلام نے درج ذیل تین چیزوں کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے:

  1. احادیثِ صحیحہ کا انتخاب
  2. تراجم الابواب کے ذریعے امت کے ہمہ جہتی مسائل کا حل
  3. تحقیق و تخریجِ احادیث کا مستند اور معتبر اسلوب

ان کی تمام کتبِ احادیث اس منہجِ ثلاثہ سے آراستہ و پیراستہ ہیں اور اسی منہج و اسلوب کی عصرِ حاضر میں ایک طالبِ حدیث کو بہت زیادہ ضرورت تھی اور اس ضرورت کی کافی و شافی اور بہت ہی کثرت اور تنوع کے ساتھ تکمیل شیخ الاسلام کی مرتب کردہ کتبِ احادیث سے میسر آتی ہے۔

شیخ الاسلام کی کتبِ حدیث کے تراجم الابواب کی خصوصیات

امام بخاری کے احادیث رسول ﷺ سے استدلال و استنباط کے منہج و اسلوب کو بڑی قوت اور مضبوط دلیل کے ساتھ عصرِ حاضر میں شیخ الاسلام نے زندہ کیا ہے۔ آپ نے امام بخاری کے تراجم الابواب کے جامع ترین اسلوب کو اختیارکیا ہے اور اس سے اخذ کرتے ہوئے تراجم الابواب کو دورِ حاضر کی ضروریات کے ساتھ جوڑا ہے اور احادیث کے اطلاقی اور عملی پہلوئوں کو اپنے اعلیٰ ترین طریقِ استنباط و استدلال کے ذریعے خوب نمایاں کیا ہے۔

کتب احادیث میں شیخ الاسلام کے قائم کردہ تراجم الابواب ہمیں عصرِ حاضر میں بڑی مضبوطی اور پختگی کے ساتھ علمِ حدیث کے ساتھ جوڑتے ہیں اور شریعت اسلامی کے عقائد و اعمال بڑی عمدگی اور بڑی واضحیت کے ساتھ نکھر کر ہمارے سامنے آجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عصرِ حاضر کے محققین اور محدثین اس امر کا برملا اعتراف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

اس حوالے سے اس موقع پر ہم شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی متعدد کتب میں سے صرف المنہاج السوی کے مقام و مرتبہ کو بیان کرتے ہوئے اس میں قائم کیے گئے تراجم الابواب کو درج ذیل سطور میں زیرِ بحث لارہے ہیں:

المنہاج السوی کے تراجم الابواب

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تالیفات میں سے ایک نمایاں نام المنہاج السوی کا ہے اس کتاب کا تعلق کتب منتخبات الحدیث سے ہے۔ چوتھی اور پانچویں صدی ہجری میں جب تحقیقِ سند کا کام اپنے عروج و کمال کو پہنچ گیا تو اب اس کے بعد ائمہ حدیث نے مختلف موضوعات پر مجموعہ ہائے حدیث مرتب کرنا شروع کردیئے، جن میں احادیث کی ترتیب اور تبویب کو مرکزی حیثیت دی گئی۔ مثلاً: صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی احادیث پر مشتمل مجموعہ ہائے احادیث مرتب ہوئے جن کو مرتب کرنے والوں میں بڑے بڑے ائمہ کرام؛ ابونصر فتوح بن حمید الحمیدی 488 ہجری، ابوالحسن زرین 532ھ، عبدالحق اشبیلی 582ھ، محمد بن حسین انصاری 582ھ، امام ابن اثیر606ھ، رضی الدین حسن محمد الصنعانی 650ھ اور ابن کثیر 774ھ کے نام قابل ذکر ہیں۔

صحیح بخاری و صحیح مسلم کے علاوہ صحاح ستہ اور دیگرکتب احادیث سے مجموعہ ہائے احادیث منتخب کیے گئے۔ ان مجموعہ ہائے احادیث میں سے امام منذری کی الترغیب والترہیب اور امام یحیی بن شرف النووی کی ریا ض الصالحین نے بہت شہرت حاصل کی۔ المنہاج السوی بھی منتخبات الحدیث کے سلسلے کا ایک منفرد اسلوب، ایک جامع منہج اور ایک مصدقہ تخریج کے قالب میں اپنی نوعیت کا ایک بے مثال، معتبر اور مستند کام ہے۔

شیخ الاسلام کے مرتب کردہ اس مجموعہ حدیث کے بعض تراجم الابواب کا اجمالی جائزہ نذرِ قارئین ہے:

1۔ تراجم الابواب کے ذریعے دہشت گردی کے فتنے کا انسداد

اس دور میں جب دہشت گردی کی عالمی جنگ نے بری طرح مسلمانوں اور مسلمان ممالک کو نقصان پہنچایا اور ساری دنیا میں کردار دیکھے بغیر صرف اسلام سے وابستگی کی بنا پر مسلم و مومن کا تعارف دہشت گرد کا ہوگیا تھا اور ساری دنیا نے اسلام اور مسلمانوں کو حقارت اور عداوت سے دیکھنا شروع کردیا تھا تو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے احادیث کے تراجم الابواب کے ذریعے مضبوط استدلال اور ثقہ استنباط کے ذریعے ثابت کیا کہ اسلام تو امنِ عالم کا داعی اور محافظ ہے۔ مسلمان اور مومن تو اپنے کردار میں سراپا خیر ہی خیر ہے۔

شیخ الاسلام نے احادیث کے یہ تراجم الابواب قائم کرکے ساری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کا بہت بڑا دفاع کیا۔ انھوں نے دین کو تین چیزوں میں منحصر قرار دیا اور اس کے لیے یہ ترجمۃ الباب قائم کیا:

الایمان والاسلام والاحسان

پھر ایمان کو مختلف فصلوں کے ذریعے واضح کیا ہے:

  1. فصل فی الایمان
  2. فصل فی حقیقۃ الایمان
  3. آج کے معاشرے میں ایک حقیقی مومن اور اس کی پہچان کی علامات کو فصل فی علامات المومن و اوصافہ کے ترجمۃ الباب کے ذریعے بیان کیا۔

ان تراجم الابواب نے ایک مومن سے دہشت گردی کا تصور سرے سے ختم کرکے رکھ دیا ہے۔

  • اسی طرح اسلام کے چہرے کو جس دہشت گردی کے تصور کے ساتھ داغدار کیا گیا تھا، اس کا بھی دفاع کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے اسلام کی حقیقت کو فصل فی الاسلام کے عنوان سے ترجمۃ الباب قائم کرکے واضح کیا۔

آج کے دور میں ایک مسلمان کون ہے اور اس کی نشانیاں کیا ہیں؟ اس امر کو اس ترجمۃ الباب فصل فی علامات المسلم و اوصافہ کے ذریعے اجاگر کیا۔

جب ایک مسلمان نے دوسرے مسلمان کے خون کو بہانے کی ذمہ داری کسی غلط فکر و سوچ کی بنا پر اپنے ذمے لے لی تو شیخ الاسلام نے ہر مسلمان کو بتایا کہ اس کے وجود پر دوسرے مسلمان کے کیا کیا حقوق ہیں؟ آپ نے فصل فی حق المسلم علی المسلم کے عنوان سے قائم ترجمۃ الباب کے ذریعے اس امر کو بخوبی واضح کردیا۔

  • دہشت گردی کے تصور کو اسلام کی مجموعی تعلیمات کے منافی قرار دیتے ہوئے مومن اور مسلم کے لیے کہا کہ وہ صرف اور صرف محسن ہوتا ہے۔ وہ تو اللہ کی ساری مخلوق اور سب انسانوںکے لیے محسن ہے، اس لیے محسن سے دہشت گردی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس تصور کو واضح کرنے کے لیے فصل فی الاحسانکے الفاظ کے ساتھ ترجمۃ الباب قائم کیا اور محسن کی صفات و علامات کو فصل فی علامات المحسن و اوصافہ کے ترجمۃ الباب میں عیاں کیا۔

2۔ تراجم الابواب کے ذریعے فتنۂ خوارج کا رد

اس دور کا ایک بہت بڑا مسئلہ اور بہت بڑا فتنہ خوارج کا دوبارہ ظہور تھا جنھوں نے معصوم مسلمانوں کو خودکش بم دھماکوں کے ذریعے قتل کرنا شروع کردیا تھا اور اپنے تصورِ مذہب کے مطابق صرف خود کا جنتی ہونا ثابت کرنا شروع کردیا تھا۔ اس فکری اور اعتقادی بے راہ روی کا مقابلہ کرنا اور اس فتنے کے سامنے کھڑا ہونا اتنا آسان نہ تھا۔ ہر کوئی اپنی جان کی امان میں راہِ رخصت پر چل پڑا مگر عالمِ اسلام کو پھر اس فتنے سے پاک کرنے اور اس کا کلی انسداد کرنے کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری محافظِ اسلام بن کر دنیا کے سامنے آئے اور ایک تاریخی فتویٰ بعنوان: ’’دہشت گردی اور فتنۂ خوارج: مبسوط تاریخی فتویٰ‘‘ جاری کیا اور احادیث رسول ﷺ کے ذریعے اس فتنے کی ساری حقیقت کو بے نقاب کیا اور باب حکم الخوارج کے عنوان سے ترجمۃ الباب قائم کرکے اس کے تحت بے شمار احادیث کو روایت کرکے امت کے اہلِ علم کو خوارج کے دہشت گرد ہونے پر قائل کیا، جس کے نتیجے میں یہ فتنہ بہت جلد اپنی موت آپ مرگیا۔

3۔ تراجم الابواب کے ذریعے صحیح عقیدہ رسالت کی توضیح و توثیق

اس دور کا ایک بہت بڑا مسئلہ عقیدۂ رسالت ﷺ کو ذیلی ابحاث کے ذریعے متنازع بنانے کا تھا۔ انگریز استعمار و سامراج نے اپنے دو سو سالہ اقتدار کو طوالت دینے اور مسلمانوں کو عملی بنیادوں پر کمزور کرنے کے لیے عقیدہ رسالت ﷺ کو تشکیک کے تیروں سے چھلنی کرنا شروع کردیا۔ رسول اللہ ﷺ کی ذات کے حوالے سے طرح طرح کی ابحاث کو امت کے درمیان فروغ دیا گیا اور ان متنازع ابحاث کو خوب چھیڑا گیا۔ وہ ابحاث جن پر امت نے 12 سو سال تک کبھی جھگڑے و فساد، مذاکرے اور مناظر نہ کیے تھے، انگریز کی گہری سازش کے تحت یہ تمام کچھ مسجدوں، مدرسوں، عالموں اور واعظوں کے اہم موضوعاتِ دین بن گئے اور سارے دین کی تعلیمات کو عقیدہ رسالت کے ان ہی اعتقادی اور فکری مسائل میں بری طرح الجھا دیا گیا۔

عقیدہ رسالت کی من پسند اور فرقہ وارانہ تشریحات نے امت کے درمیان فرقہ واریت اور انتشار کو خوب فروغ دیا۔ باہمی محبتوں کی جگہ نفرتوں اور کدورتوں نے لے لی۔ ہر طرف مسلمان ہی کے لیے کفر اور شرک کے فتوے لگنے لگے۔ چنانچہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس فتنے کے تمام سوالات کے جوابات مستند اور معتبر احادیث کے متون اور ان کے تراجم الابواب کے ذریعے دے کر امت کو راہِ اعتدال اور راہِ صواب دکھائی ہے۔

  • شیخ الاسلام نے ترجمۃ الباب: ان الانبیاء احیاء فی قبورهم باجسادهم ۔ کے ذریعے امت پر واضح کیا ہے کہ انبیاءf اپنی قبور میں برزخی حیات کے مطابق زندہ ہوتے ہیں۔
  • باری تعالیٰ اپنے نبیوں اور رسولوں کو خاص علم عطا کرتا ہے، اس اہم عقیدہ کو ترجمۃ الباب فصل فی منزلۃ علم النبی و معرفتہ کے ذریعے بیان فرمایا۔
  • امت اپنی قبور میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت کرے گی اور صاحبِ قبر سے رسول اللہ ﷺ کی ذات کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ اس عقیدہ کو ان الامة تسئل عن مکانة النبی فی القبور کے ترجمۃ الباب کے ذریعے واضح فرمایا۔
  • رسول اللہ ﷺ آخرت میں اپنی امت کے گناہگاروں کی شفاعت کریں گے۔ اس عقیدہ کو فصل فی الشفاعة یوم القیامة کے ترجمۃ الباب کے ذریعے اجاگر کیا گیا۔
  • رسول اللہ ﷺ کی محبت باعثِ اجر عظیم ہے: فصل فی اجر حب النبی کے عنوان سے قائم ترجمۃ الباب نے اس امر پر تمام شکوک و شبہات کو زائل کردیا۔
  • رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس اور آپ ﷺ کے آثار سے تبرک حاصل کرنا جائز ہے۔ اس مسئلہ کو فصل فی التبرک بالنبی وآثاره کے ترجمۃ الباب کے ذریعے بیان کیا۔
  • رسول اللہ ﷺ کی ذات کو اللہ کی بارگاہ میں بطورِ توسل پیش کیا جاسکتا ہے۔ اس پر فصل فی التوسل بالنبی کے ترجمۃ الباب کے تحت روشنی ڈالی۔
  • امتِ مسلمہ کو رسول اللہ ﷺ کی نسبت کیا شرف و عظمت حاصل ہے۔ اسے
  • فصل فی شرف النبوۃ المحمدیہ کے ترجمۃ الباب کے تحت واضح کیا۔
  • اس جہاں میں اور کل کائناتِ انسانیت میں رسول اللہ ﷺ کی مثل کوئی بھی فرد بشر نہیں ہے۔ اس پر فصل فی عدم نظیر النبی فی الکون کے ترجمۃ الباب کے ذریعے متعدد احادیث بیان کرکے امتِ مسلمہ پر حضور نبی اکرم ﷺ کے حوالے سے صحیح عقیدہ واضح کیا۔
  • رسول اللہ ﷺ کی ذات ہر مکتبۂ فکر کے مسلمان کے لیے اور ہر طبقۂ انسان کے لیے تعظیمِ واجبہ اور تکریمِ لازمہ کی حامل ہے۔ فصل فی تعظیم النبی کے عنوان سے ترجمۃ الباب قائم کرکے اس کے تحت آپ ﷺ کی ہر شان میں تعظیم، احترام، تکریم بجا لانے کے عمل کو ایک مسلمان اور مومن کے ایمان کا حصہ قرار دیا۔

علمِ حدیث کے سب سے بڑے مبلغ شیخ الاسلام

المختصر اگر صرف اور صرف المنہاج السوی کے تراجم الابواب کے اوصاف و خصائص پر ہی لکھتے رہیں تو ایک پوری کتاب ان تراجم الابواب کی خصوصیات پر تیار ہوسکتی ہے۔ یقینا نہ صرف زمانے کا محقق اور علمِ حدیث سے شناسائی رکھنے والا بلکہ ہر خاص و عام کو پیش آمدہ مسائل کا حل اِن تراجم الابواب کے ذریعے میسر آئے گا اور وہ شیخ الاسلام کی ان خدماتِ جلیلہ کا کھلے دل کے ساتھ ایک حقیقتِ مسلمہ کی صورت میں اعتراف کرے گا کہ جب برصغیر پاک و ہند میں 20 صدی میں بڑے بڑے نامور اہلِ علم نے خود کو صرف اور صرف تفسیر قرآن تک وقف کردیا اور انھوں نے اس باب میں بڑی ہی نادر و نایاب تفاسیر لکھیں جو زمانے سے خود منوا چکی ہیں تو اسی وقت میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تفسیر منہاج القرآن اور عرفان القرآن کے ساتھ ساتھ بہت بڑا تفرداتی کام علمِ حدیث کے حوالے سے یہ کیا کہ عوامی سطح پر بہت بڑے پیمانے پر علمِ حدیث کا ابلاغ اور فروغ کیا۔ آپ نے علم حدیث کو دورۂ حدیث کے محدود دائرے سے اٹھا کر عامۃ الناس کو بھی اس علم کا بہت بڑی تعداد میں حامل بنادیا ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے آج امت مسلمہ کے لیے احادیث رسول ﷺ کا ایک انسائیکلو پیڈیا تیار کردیا ہے جو ہر طالبِ حدیث کو علمِ حدیث کے ہر موضوع پر وافر مواد فراہم کرتا ہے اور ہر شخص براہِ راست ان کی مرتب کردہ احادیث اور ان کے تراجم الابواب سے مستفید ہوسکتاہے۔ شیخ الاسلام کی یہ ساری خدماتِ حدیث ان کو عصرِ حاضر میں اس حدیث مبارک کا مصداقِ کامل اور مصداقِ اتم ثابت کرتی ہیں، جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

نضر الله امراء سمع منا مقالتی فوعاها وادها.

باری تعالیٰ ہمارے اس امتی کو خوش و خرم رکھے جس نے ہماری احادیث کو سنا، پھر ان کو محفوظ رکھا اور پھر ان کا آگے لوگوں میں ابلاغ کیا۔

یقینا یہ بہت بڑا شرف، عزت اور عظمت ہے۔ یہ اس شخصیت کو بے پایاں ملی ہے جسے دنیا آج شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ کہتی ہے۔ جو میرے اور آپ سب کے ممدوح ہیں۔ ان کے لیے ہمارے احساسات اور جذبات بصورتِ کلام سید الطاف حسین گیلانی یہ ہیں:

عصرِ حاضر کو مربُوطِ قرآں کیا
جامِ نو میں رحیقِ قدامت رہے

سُنّتِ مصطفی ﷺ تیرا ملبُوس ہے
زیرِپا منزلِ استقامت رہے