ڈاکٹر طاہر القادری: گلستانِ صد ہزار رنگ

حافظ شفیق الرحمن

ڈاکٹر طاہر القادری نے 70 کی نصف دہائی کے بعد جب لاہور کی سرزمین پر قدم رنجہ فرمایا تو اُن دنوں وہ عنفوانِ شباب کی شاہراہ پر قدم رکھ چکے تھے۔ اِکتسابِ علم، اَخذِ فیض اور روحانی تزکیہ و باطنی تصفیہ اُن کی تمام تر توجہات کا مرکز و محور تھا۔ ان کی اولین ترجیح داتا کی نگری میں مقیم بلا امتیاز مسالک و مذاہب کے اکابر علمی شخصیات اور متنوع علوم و فنون کے ماہرین کی محافل میں شریک ہونا رہا۔ اس دور میں آسمانِ علم و فضل کی ایک کہکشاں بلدۂ لاہور کے اطراف و اکناف کو اپنے علم وفضل، فکر و فلسفہ اور تدبر و تفکر، تفحص و تعمق کی ضیا باریوں سے بقعہ ہاے نور بنائے ہوئے تھی۔ یہ ہستیاں، یہ مشاہیر، یہ شخصیات لاہور کے جس بھی کونے اور گوشے میں مقیم تھے، وہ تشنگیِ علم بجھانے کے لیے اُن کے پاس طویل سفر طے کر کے پہنچتے رہے۔

ان اہلِ نظر و اربابِ خبر کی مجالس و محافل میں ایک مؤدب اور مہذب طالب العلم و متلاشی حق کی حیثیت سے نشست فرما ہوتے اور ان کے افکار و خیالات اور ابحاث و نظریات کے چشمہ ہاے زلال سے اِکتسابِ فیض کی تشنگی کو سیراب کرتے۔ وہ گھنٹوں ان مجالس کا حصہ بنے رہتے اور فکر کے در ہاے ناسفتہ اور گہر ہاے خوش آب کو اپنے دل و دماغ کی جھولیوں میں ایک بیش بہا نعمت کی طرح سمو لیتے۔ گویا طبعِ حسرت نے علم و فضل کے ہر اس آستانے پر دستک دی، جہاں فیض کے انوار تجلی پاش تھے۔ ان محافل میں ان کا شیوہ و شعار ضبطِ سخن ہوتا۔ اس معاملے میں علامہ اقبالؒ کے اس فرمودۂ حق نشان پر عمل پیرا رہے کہ ’حضورِ اَہلِ نظر ضبطِ سخن چاہیے‘۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ شیخ سرہند امام ربانی حضرت مجدد الف ثانیؒ نے اپنے کسی مکتوب میں یہ فرمایا تھا کہ شہرِ لاہور عالمِ اسلام کے تمام شہروں میں وہی حیثیت رکھتا ہے جو اولیا کے طائفۂ مقدسہ میں ایک قطب کو حاصل ہوتی ہے۔ جو تحریک یہاں سے اٹھتی ہے، اس کے فیوض و برکات اور انوار و آثار تمام بلادِ اسلامیہ کو اپنے نورانی حصار میں لے لیتے ہیں۔ کسے خبر تھی کہ قبلہ ڈاکٹر طاہر القادری بھی اسی شہر کو اپنے انقلابی، علمی، فکری و نظری، تصنیفی و تالیفی، رہنمائی و پیشوائی، جامع و مانع اور مربوط و مبسوط فرمودات و ملفوظات اور قلوب و اذہان کی آب یاری کرنے والی کراماتی و معجزاتی خطابت کے لیے اپنا مرکز و مسکن بنائیں گے۔ یہ شہر لاہور کی خوش قسمتی اور خوش بختی ہے کہ 19 فروری 1951ء کو شہر صد رنگ جھنگ میں فرید ملت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ کے ہاں جنم لینے والی اس شخصیت نے اپنے پیام و قیام سے اس شہر کی خفتہ شریانوں میں علم و عمل کے مصفٰی و مزکٰی خون کو اِذنِ گردش دیا۔ حکیم الامت داناے راز حضرت علامہ اقبالؒ کے بعد آپ دوسری شخصیت ہیں جن کی صداے دل کشا لاہور سے اٹھی اور اس کی بازگشت صرف عالمِ اسلام نہیں بلکہ ساتوں براعظموں میں آج بہ تمام و کمال اور پورے جمال کے ساتھ گونج رہی ہے اور اربابِ علم کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔

یہاں اس امر کا ذکر از بس ضروری ہے کہ جب ڈاکٹر صاحب کی عمر 24، 25 برس تھی تو انہوں نے شہر کے علم دوست احباب کو جمع کیا اور اپنے آبائی گھر القادریہ جھنگ میں ’’محاذِ حریت‘‘ کے نام سے نوجوانوں کی علمی، فکری، دینی اور اخلاقی و روحانی تربیت کے لیے ایک تحریک کی داغ بیل ڈالی۔ ان کی تحریکی و تنظیمی صلاحیتوں کے جوہر اسی دوران پروان چڑھے، بعد ازاں جنہوں نے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ اس موقع پر میرے حافظے میں معنوی مرشد علامہ اقبالؒ کا یہ شعر تازہ ہو رہا ہے:

مہر و مہ و انجم کا محاسب ہے قلندر
ایام کا مرکب نہیں، راکب ہے قلندر

اوائل عمری ہی سے شیخ الاسلام کے سنجیدہ انداز و اطوار، لائقِ رشک عادات و خصائل، جاذبِ نظر وضع قطع، دلکش رکھ رکھاؤ، رعنا و زیبا بھرم بھاؤ، حسین و جمیل اقدار و گفتار، عمدگی و طرفگی کی حامل دلچسپیوں، گوں ناگوں مصروفیات اور علمی ذوق و شوق انہیں اپنے ہم عمر بچوں سے یکسر مختلف، قد آوراور ممتاز بناتا تھا۔ شاید ایسے ہی کسی باصلاحیت و صالحیت کم سن لیکن ذکی و ذہین اور فہیم و فریس بچے کو دیکھتے ہوئے ایک انگریز نے کہا تھا:

He has an old head on his young shoulders.

اکابرین کی پیشین گوئیاں

ریکارڈ بتاتا ہے کہ بچپن میں انہوں نے جب سیال شریف میں شیخ الاسلام حضرت خواجہ قمر الدین سیالویؒ کے سامنے ایک تقریب میں تقریر کے دوران الفاظ کی ڈالیوں پر مطالب کے گلہاے رنگا رنگ کو اذنِ تکلم دیا تو آپ کی تقریر سن کر شیخ الاسلام حضرت خواجہ قمرالدین سیالویؒ نے فرمایا:

’’اس بچے پر ہمیں فخر ہے، وہ دن دور نہیں جب یہ بچہ آسمان علم و فن پر ایک نیّر تاباں بن کر رخشندہ و تابندہ ہو گا‘‘۔

اپنے لڑکپن میں جب انہوں نے غزالی زماں علامہ سید احمد سعید کاظمیؒ کے سامنے حسنِ خطابت کا چمن زار آراستہ کیا تو اس فاضل اجل، یگانۂ روزگار علمی شخصیت کو برجستہ و بے ساختہ فرمانا پڑا:

’’اس نوجوان سے ہماری امیدیں وابستہ ہیں، یہ ایک عالم کو فیض یاب کرے گا‘‘۔

ایک اور موقع پر بھیرہ شریف کی عظیم علمی و روحانی شخصیت پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ نے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سامعین کو مخاطب کیا اور انتہائی کشادہ ظرفی اور وسیع القلبی کا اظہار کرتے ہوئے یہ فرمایا:

’’ان کے وجود پر میرا دل خدا کے حضور احساسِ تشکر بجا لاتا ہے ہمارے دلوں سے ان کے لیے دعا نکلتی ہے اے خدا اس مرد مجاہد کو عمر خضر عطا فرما‘‘ ۔

یہ تو ڈاکٹر صاحب کی زندگی کے اوائل میں ان کی بارگاہِ فضیلت مآب میں پیش کیے جانے والے وہ گلہاے عقیدت ہیں جن کی خوشبو آج چاردانگ عالم کو مہکا رہی ہے۔

سوئیاں کلاک کے مطاف و کعبہ کا طواف کرتی رہیں … کیلنڈر کے ہندسے بدلتے رہے اور ڈاکٹر صاحب علمی وجاہت کی ان بلند ترین مسندوں پر رونق افروز ہوئے کہ وطنِ عزیز کی ہر بڑی شخصیت ہمیں ان کی ابدی و سرمدی اور بے مثال و لازوال علمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے نظر آتی ہے۔ اے۔ کے۔ بروہی مرحوم وطن عزیز کے استاذ الاساتذہ ماہرین قانون میں سے ایک تھے۔ قبلہ ڈاکٹر صاحب سے شرفِ ہم کلامی حاصل کرنے کے بعد انہیں اِظہارِ مسرت کرتے ہوئے یہ کہنا پڑا:

’’میں آپ کی گفت گو سے بے حد خوش اور بہت زیادہ متاثر ہوا ہوں‘‘۔

سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انوار الحق نے بھی آپ کی ان الفاظ میں تحسین و پذیرائی کی:

’’آپ گہرے علم اور منفرد حکمت کے مالک ہیں اور آپ نے اسلام کی شمع فروزاں کردی ہے‘‘۔

ایک اور سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس سجاد علی شاہ نے دو ٹوک الفاظ میں آپ کی علمی وجاہت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا:

’’آپ ایک عظیم اور ذہین انسان ہیں۔‘‘

عدالت عظمیٰ پاکستان کے ایک بلند قامت عزت مآب جج جناب جسٹس غلام مجدد مرزا کے توصیفی کلمات آنے والے دور میں حرف بہ حرف درست ثابت ہوئے:

ـ’’ان کی زندگی کا مشن اسلام کی خدمت ہے‘‘…

سابق چیف آف آرمی سٹاف جناب مرزا اسلم بیگ بھی گویا ہوئے:

’’ڈاکٹر طاہر القادری ایک معتبر عالمِ دین، ایک مفکر، ایک روحانی رہنما، ایک معاشرتی مصلح، ایک سیاسی مدبر بھی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ایک عظیم لیڈر بھی ہیں‘‘۔

پاکستان کی عسکری تاریخ کی ایک ناقابلِ فراموش ہستی سابق سربراہ آئی ایس آئی جنرل حمید گل آپ کی ہمہ جہتی خدمات کو ان الفاظ میں سراہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں:

’’آپ ایک God Gifted انسان ہیں اور آپ اسباب کو موافق بنانے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے ہیں‘‘۔

یہ قبلہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی علمی وجاہت اور فکری صباحت کے حضور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی پاکستان کی چند چنیدہ شخصیات کا خراج عقیدت ہے۔ طوالت کا خوف حائل نہ ہوتا تو بلا امتیاز مذاہب بڑی شخصیات کے تعریفی و توصیفی کلمات بھی نذرِ قارئین کرتا۔ دریں چہ شک کہ آپ عالمِ اسلام کے تمام جید علماء کے بھی ممدوح ہی نہیں بلکہ یہ کہنا موزوں ہو گا کہ آپ عصرِ حاضر میں مخدوم العلماء بھی ہیں۔ صرف سوڈان اور شام سے تعلق رکھنے والے دو کوہ قامت اور ہمالہ صفت علماء کے تحسینی کلمات پر اکتفا کروں گا۔ ڈاکٹر عبدالرحیم علی رکن مجلس شوریٰ سوڈان فرماتے ہیں:

’’ان کی ذات میں اتنی خوبیاں دیکھ کر میری عقل ورطۂ حیرت میں گم ہے‘‘۔

شیخ محمد ابو الخیر الشکری الشامی فرماتے ہیں: ’’ان کے وجود میں ایک عظیم لیڈر کی جھلک دیکھی ہے اور ایسے محقق کی صورت دیکھی جس کی مثال مسلم دنیا میں نہیں ملتی‘‘۔

سچ کہا تھا شاعر نے :

تفصیل سے کہوں تو کہے جاؤں تا بہ حشر
اجمال سے کہوں تو فقط ایک حرف ہے

یہ تحسینی کلمات تو محض مشتے از خروارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کن کن ہستیوں نے آپ کی تعلیمی، تنظیمی، تحریکی، علمی، نظریاتی، روحانی اور جد و جہد سے بھرپور مختلف شعبوں میں خدمات کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا ہے! اگر ان تمام کا تذکرہ کیا جائے تو اس کے لیے باقاعدہ ایک ضخیم ڈائریکٹری کی ضرورت ہوگی۔ یقین جانیے یہ تو محض اس تفصیل کے اجمال کا بھی اجمالی عکس ہے جو آپ نے اوپر ملاحظہ فرمایا:

سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے
فکرِ شیخ الاسلام؛ روحِ عصرِ حاضر

Victor Hugo کہا کرتا تھا کہ Voltaire اور اس کی روح کو سمجھنا 18ویں صدی کی روح کو سمجھنا ہے۔ اسی طرح آنے والے دور کا مورخ پاکستان اور عالم اسلام کے حوالے سے اکیسویں صدی کی تاریخ مرتب کرے گا تو یہ کہنے پر مجبور ہو گا کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے فلسفہ انقلاب کو سمجھ لینا اکیسویں صدی کی روح کو سمجھ لینا ہے۔ بسا اوقات محسوس ہوتا ہے کہ تحریک منہاج القرآن کا قیام علامہ اقبال کی خواہش کی عملی تعبیر تھا۔ قدرتِ حق سے اگر آج شاعرِ مشرق زندہ ہوجاتے اور تحریک منہاج القرآن کے زیر انتظام چلنے والے تعلیمی و تحقیقی، علمی و روحانی اور سماجی و فلاحی بہبود کے شعبوں میں کام کرنے والے وقیع اداروں کو بچشمِ خود دیکھتے توبے ساختہ پکار اٹھتے کہ میرے پیاسے خوابوں کو تعبیر کا دریا مل گیا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی ہمہ جہت شخصیت کا یہ پہلو کہ وہ انقلابی شخصیت ہیں انہیں اپنے معاصرین میں ایک ممتاز و منفرد مقام عطا کرتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی نگاہِ دور رس عصرِ حاضر کے ایجاد کردہ اور تخلیق کردہ تمام مسائل و مصائب کا کامل احاطہ کئے ہوئے ہے۔ ان کی ہر تحریر اور تقریر کے آئینے میں انقلاب کا انعکاس ہمہ وقت جلوہ گر رہتا ہے۔

جس طرح خواجہ حسین نظامی مرحوم نے مولانا ظفر علی خان کے بارے میں کہا تھا کہ وہ قیامت کے دن اپنی نعتوں کے باعث بخشے جائیں گے، بالکل اسی طرح آج کے دور میں ڈاکٹر طاہر القادری کے بارے میں یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ قیامت کے روز اپنی علمی و فکری خدمات کے باعث اعلیٰ درجات پر فائز ہوں گے۔ اپنی تقریر و تحریر میں وہ اپنے سامعین و قارئین کے دلوں میں تاجدار کائناتa کی یاد کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنانے کا پیغام اس دل نشینں انداز میں دیتے ہیں کہ ہر آنکھ نم ہو جاتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ پورے مجمع پر رحمت و سکینت کا نزول ہو رہا ہے۔

عظیم محقق و مفکر

حقیقت یہ ہے کہ عصر حاضر میں اردو، عربی اور انگریزی زبان میں ان کا ہم پلہ محقق و مفکر ہمیں کہیں بھی دکھائی نہیں دیتا۔ میرا ایک سرسری سا اندازہ ہے کہ کم از کم پاکستان ہی کے طول و عرض میں انہوں نے 10 ہزار کے قریب مختلف موضوعات پر اظہار خیال کیا ہو گا۔ اَغلب گمان ہے کہ یہ تعداد زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ جدید دنیا کے بہترین مواصلاتی نظام کی بدولت ان کی کتب و خطبات کی صورت میں ان کی فکر سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد آج کروڑوں سے متجاوز ہو چکی ہے۔ میں اگر یہ کہوں تو خدارا اسے مبالغے پر محمول نہ کیجیے گا کہ اگر آج یونان کا ڈیماستھینز، روما کا سسرو، عرب کا امراء القیس، سوڈان کا مہدی سوڈانی، برطانیہ کا گلیڈ سٹون، سر ونسٹن چرچل، امریکا کا اَبراہام لنکن، مارٹن لوتھر کنگ جونیئر، برصغیر پاک و ہند کے مولانا احمد سعید، نواب بہادر یار خان جنگ، سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور پاکستان کے آغا شورش کاشمیری حیات ہوتے اور انہیں قبلہ ڈاکٹر طاہر القادری کے پر مغز، فصاحت و بلاغت اور جوش بیاں اور حسن خطابت سے آراستہ فکرو فلسفہ سننے کا موقع ملتا تو میرا وجدان گواہی دیتا ہے کہ وہ بھی ان کے اسلوب کے مداح بننے میں کسی بخل سے کام نہ لیتے اور بے ساختہ پکار اٹھتے:

بات کرتا ہے کہ خوشبو کو بدن دیتا ہے
اس کا لہجہ تو گلابوں کو دہن دیتا ہے

میں اس امر کی نشان دہی کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ آج کے نام نہاد اسکالرز نے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود زندگی بھر اتنی کتابوں کا مطالعہ نہیں کیا ہو گا جتنی کتابیں ڈاکٹر طاہر القادری کی نوک قلم سے نکل کر زیورِ طباعت سے آراستہ ہو چکی ہیں اور قارئین کی علمی پیاس کے لیے سیرابی کا سامان فراہم کر رہی ہیں۔ یہ کتابیں صرف اردو ہی میں نہیں بلکہ عربی اور انگلش زبان میں بھی مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ ان کی اب تک 612 کتب اُردو، انگریزی اور عربی زبان میں طبع ہوکر مارکیٹ میں آچکی ہیں، جب کہ دنیا بھر کی دیگر زبانوں میں ان کے تراجم اس عدد کے علاوہ ہیں۔

یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا
ہمہ جہتی خدمات پر طائرانہ نظر

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دنیا کے وہ عظیم استاد ہیں جن کی شخصیت پر مختلف یونی ورسٹیوں میں پی ایچ۔ ڈی ہورہی ہے۔ آپ وہ واحد پاکستانی سیاست دان ہیں جو خودPh.D in Law ہیں اور آپ کی فیملی (یعنی دونوں بیٹے ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، ڈاکٹر حسین محی الدین قادری، ڈاکٹر غزالہ حسن قادری) بھی Ph.D ہیں۔ (ایں ہمہ خانہ آفتاب است)۔ آپ دنیا کے واحد عالم دین ہیں جو مصر، سعودی عرب، ایران، پاکستان سمیت دنیا کے 400 علماء کے شاگرد ہیں… آپ دنیا کے واحد عظیم استاد ہیں جن کے شاگرد دنیا کے پانچوں براعظموں میں علم کی شمع روشن کر رہے ہیں… آپ دنیا کے پہلے عظیم مسلم اسکالر ہیں جنہوں نے سود کا متبادل نظام دیا… آپ دنیا کے پہلے پاکستانی ہیں جن کے قائم کردہ ادارے تحریک منہاج القرآن کے دنیا بھر میں ایک سو سے زائد ممالک میں اسلامک سنٹرز ہیں… آپ دنیا کے واحد عظیم اسکالر ہیں جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف اپنا تاریخ ساز فتویٰ ’’دہشت گردی اور فتنہ خوارج‘‘ جاری کر کے دہشت گردوں کی نظریاتی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا اور دنیا بھر میں اسلام کو پرامن مذہب ثابت کیا!

کوئی بھی رتبۂ بلند یا اعزاز بلند و امتیاز کسی بھی ہستی کو بلا کد و کاوش و سعی ہاے جمیل نہیں ملا کرتا۔ان اعزازات کی تعداد اتنی ہے کہ ان کے احاطہ و ذکر کے لیے الگ سے ایک کتاب درکار ہو گی۔ اسلامیانِ عالم کی خوش قسمتی ہے کہ وہ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کے عصر میں زندہ ہیں۔