مدارسِ دینیہ میں نصابی اِصلاحات: ایک عظیم تحفہ

عین الحق بغدادی

مدارسِ دینیہ کی ابتداء بھی اشاعتِ اسلام کے ساتھ ہی ہوگئی تھی۔ پہلا دینی مدرسہ مسجدِ نبوی ﷺ میں صفہ کے چبوترہ پر معلمِ کائنات خاتم النبیین ﷺ نے قائم فرمایا، اس عظیم درس گاہ سے فارغ التحصیل صحابہ کرامl رہتی دنیا کے لیے رہبر و رہنما بن گئے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا اپنے ان طلبہ پر اعتماد کا یہ عالم تھا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، ان میں سے جس کے پہلو سے منسلک ہوجاؤ گے ہدا یت پاؤ گے۔‘‘

انہی صحابہ کرام کے شاگرد تابعین اور تبع تابعینl تھے جنہوں نے درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس وقت کے مدا رسِ دینیہ کے فارغ التحصیل طلبہ کی دوراندیشی، ذہانت اور آنے والے حالا ت و واقعات پر ان کی نظرِ عمیق کا یہ عالم تھا کہ 13 سو سال بعد آج بھی فقہ حنفی قابل ِعمل ہے۔ وجہ یہ تھی کہ اس وقت کے مدا رسِ دینیہ میں چند مخصوص دینی علوم کے بجا ئے تمام عصری و شرعی علوم سکھائے جاتے تھے۔ حتیٰ کہ اجنبی زبانیں سیکھنے سکھانے کا خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا اور دیگر زبانوں میں موجود علوم کو عربی ترجمہ کے ذریعے مدارسِ دینیہ کا حصہ بنایا جاتا تھا۔ انہی مدارسِ دینیہ نے ایسے رجالِ کار پیدا کیے جو معاشرے کی دینی و دنیاوی امور میں راہنمائی کا فریضہ سر انجام دیتے رہے۔ انہی مدارس کے طلبہ سائنسی علوم پر نہ صرف دسترس رکھتے تھے بلکہ انہی کے نظریا ت موجودہ سائنسی ترقی کا پیش خیمہ ثابت ہوئے۔

مرورِ زمانہ سے دینی اور عصری تعلیم کے راستے جدا ہوتے گئے بالآخر دونوں کے درمیان بعد المشرقین پیدا ہوگیا اور یہ تفریق دو مختلف الذہن طبقات کے وجود کا سبب بنی۔ اسی بناء پر ہمارا معاشرہ تقسیم ہوتا چلاگیا حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آیا کہ مدارس میں انگریزی اور دیگر سائنسی و عصری علوم پڑھنا پڑھانا گناہ سمجھا جانے لگا۔ نتیجتاً مدارس کے طلبہ جدید عصری علوم اور تقاضوں سے نابلد ہوگئے۔ یہاں تک کہ اس طبقاتی تقسیم نے تکفیریت کو جنم دیا اور معاشرہ عدم استحکام و عدم برداشت کا شکار ہوگیا۔

شیخ الاسلام کی دور اندیشی اور دینی و عصری تعلیم

جب مدارسِ دینیہ میں مخصوص دینی علوم کی تعلیم دی جاتی تھی، مذہبی منافرت کو ہوا دی جارہی تھی، تفرقہ بازی کو فرض عین سمجھ کر پڑھا پڑھایا جارہا تھا، حصول ِعلم پر وقت صرف کرنے کی بجائے مدِمقابل کو نیچا دکھانا مقصود تھا، تعصب و تنگ نظری عروج پر تھی اور تنگ نظری و تفرقہ بازی کے اِس ماحول کی وجہ سے کو ئی صاحبِ حیثیت اپنے بچوں کو علمِ دین کی طرف راغب نہ ہونے دیتا تھا، ایسے مشکل وقت میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے عصری و شرعی علوم کو یکجا کیا اور جدید عصری تقاضوں کے مطابق ایک ایسے ادارے کا آغاز کیا جہاں طلبہ زکوٰۃ و صدقات کے پیسوں سے نہیں بلکہ اپنے والدین کی کمائی سے ماہانہ فیس ادا کر کے علمِ دین حاصل کرنے لگے۔ جہاں انگریزی اور عربی زبان پڑھائی بھی جا تی تھی اور بولی بھی جاتی تھی، جہاں سائنسی علوم کا مطالعہ بھی کروایا جاتا تھا، تقا بلِ ادیان جیسے مضامین شاملِ نصاب تھے، کمپیو ٹر ، میتھ، اکنامکس، سوکس، سیاسیات، فزیکل ایجو کیشن اور سپورٹس جیسے مضامین کو نصاب کا حصہ بنایاگیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس ادارے نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں اپنی انفرادیت کا لوہا منوایا۔ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے فارغ التحصیل طلبہ تمام علوم پر دسترس ہونے کی بنا پر حکومتی اداروں سمیت ہر شعبہ زندگی میں نمایاں خدمات سرانجام دینے لگے۔

نظام المدا رس اور مدرسہ اصلاحات

شعبہ تعلیم میں منہاج القرآن کی عرصہ تیس سال کی اِن بے مثل خدمات کے اعتراف میں اور شیخ الاسلام کی امن پسند فکری صلاحیتوں کے پیشِ نظر 2021ء میں حکومت پاکستان نے نظام المدارس پاکستان کی صورت میں دینی وفاقی تعلیمی بورڈ کا پلیٹ فارم مہیا کیا جس کے تحت پاکستان کے مدارسِ دینیہ میں عصری و شرعی تعلیم کا نظام جاری کر کے مدارس میں اصلاحات نافذ کی جاسکیں۔

اب نصابی جمود کو توڑنے کا وقت آپہنچا تھا، جس نصاب کو تبدیل کرنا نہ صرف محال بلکہ نا ممکن تھا۔ شیخ الاسلام نے برصغیر کی مدارسِ دینیہ کی تاریخ میں پہلی بار اس حصار کو توڑتے ہوئے درس نظامی کے نصاب میں تبدیلی کی اور پرائمری سے ایم اے تک مدارسِ دینیہ کے لیے عصریہ و شریعہ کا مکمل نصاب مہیافرمایا۔

نظام المدارس پاکستان کے قیام کے مقاصِد

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے نظام المدارس پاکستان کے قیام کو محض ایک عام بورڈ کے نقطہ نظر سے قائم نہیں فرمایا بلکہ آپ کے پیشِ نظراس کے اعلیٰ ترین مقاصد ہیں۔ ذیل میں ان مقاصد کا ایک اجمالی خاکہ نذرِ قارئین ہے:

  1. طلبہ کو قرآن و حدیث، فقہ و عقائد کی مضبوط تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری علوم سے اس طرح آراستہ کرنا، جس سے اسلام کی حقانیت، قرآن کی صداقت اور عقائد کی صلابت ثابت و قائم ہو۔
  2. دینی نظامِ تعلیم کی جدید خطوط پر استواری کے لیے اِصلاحات متعارف کروانا۔
  3. منسلک اور ملحقہ مدارِس، جامعات، اِدارہ جات کے ماحول کو ہر قسم کی اِنتہا پسندانہ، متشدّدانہ، فرقہ وارانہ سوچ، میلانات و رجحانات اور تعصبات سے کاملًا پاک رکھنا۔
  4. طلبہ و طالبات کی ایسے منہج پر اَخلاقی اور روحانی تربیت کا اِہتمام اولین ترجیح بنانا جس کے زیرِ اثر وہ تعمیرِ شخصیت، علّوِ ذہنی، تزئین و تہذیبِ کردار، تقویٰ و طہارت، اِحترامِ اِنسانیت، حب الوطنی اور خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار ہو کر اِسلام کی حقیقی فکر کے نہ صرف فروغ کا باعث بنیں بلکہ اس کے عملی پیکر بن سکیں۔
  5. نوجوان نسل کی ایسی فکری اور نظریاتی تربیت کا اہتمام کرنا جس کے نتیجے میں وہ ہر نوع کی تنگ نظری، تعصّب اور اِنتہا پسندی سے بالاتر اور مذہبی رواداری اورتحمل و برداشت کے اَوصاف سے متّصف ہو کر عالمی سطح پر کتاب و سنت کی حقیقی تعلیمات کی ترویج و اِشاعت اور اِتحاد و یگانگت کے لیے اپنا مؤثر اور مفید کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکیں۔
  6. اَمن و اِعتدال، بین المسالک اور بین المذاہب رواداری کو فروغ دینے والی تعلیمات پر مشتمل مضامین پڑھانا تاکہ اِن اِداروں کے اسکالرز متوازن سوچ، معتدل فکر اور کشادہ ذہن کے ساتھ بین المسالک و بین المذاہب رواداری کے پیامبر بن سکیں۔
  7. طلبہ و طالبات کی شخصیات کو اِسلامی علوم کے ساتھ عصری علوم و فنون سے آراستہ و پیراستہ کرنا تاکہ وہ جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر معاشرے میں باعزت، باوقار، مؤثر، مثبت، کار آمد اور افادہ رساں کردار ادا کر سکیں اور آئندہ نسلوں کوصحیح دینی رہنمائی فراہم کر سکیں۔
  8. طلبہ و طالبات کیلیے پیشہ ورانہ فنی تربیت (vocational training) کے حصول کے فراواں مواقع مہیا کرنا تاکہ جب وہ عملی زندگی میں قدم رکھیں تو عزّ و اِفتخار کے ساتھ کھڑے ہوں اور معاشرے کی تعمیر و ترقی میں مطلوبہ معیاری کردار ادا کرسکیں۔
  9. طلبہ و طالبات کو کمپیوٹر سائنس کی بنیادی تعلیم دینا تاکہ وہ دین کی اِشاعت و تبلیغ میں جدید ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کرسکیں۔
  10. عمرانی علوم (social sciences)، جنرل سائنس اور ریاضی کے مضامین پڑھانا تاکہ وہ جدید اَذہان تک اِسلامی تعلیمات کا مؤثر طریقے سے اِبلاغ کر سکیں۔
  11. عربی و انگریزی بول چال میں مہارت کے لیے اِقدامات کرنا تاکہ عالمی سطح پر اپنے ما فی الضمیر کا اظہار کرسکیں۔
  12. ضلعی سطح پر ماڈل مدارِس کا قیام عمل میں لانا تاکہ وہ معاصر مدارس کے ہجوم میں رول ماڈل کا درجہ اور مقام حاصل کر سکیں۔

نظام المدارِس پاکستان کے تعلیمی نظام کی خصوصیات

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی ہدایات اور براہِ راست نگرانی میں نظام المدارس پاکستان کا تعلیمی نظام جس نہج پر ترتیب دیا گیا ہے اس کو ثمر آور بنانے اور مطلوبہ مقاصد کے حصول کے لیے درج ذیل اقدامات بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ بلاشبہ یہ اقدامات اس تعلیمی نظام کی وہ خصوصیات ہیں جو معاصر مدارس میں سے کسی کو میسر نہیں:

  1. نظام المدارِس پاکستان نے درس و تدریس کے نظام کو ایسے جدید مثبت و مفید اِبلاغی خطوط پر اُستوار کیا ہے جو اساتذہ اور طلبہ و طالبات کی علمی و تحقیقی صلاحیتوں کو جلا بخشنے میں معاون و مددگار ثابت ہوگا۔
  2. نظام المدارِس پاکستان کے نظامِ تدریس میں قومی و بین الاقوامی سطح کے ماہرین کے آن لائن لیکچرز کا خصوصی اہتمام بھی شامل ہے۔
  3. درس و تدریس کا یہ نظام ویب ٹی وی اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر بھی دستیاب ہوگا۔
  4. نظام المدارِس پاکستان سے ملحقہ مدارِس؍جامعات؍اِدارہ جات کو بتدریج ڈیجیٹل لائبریریز اور جدید کمپیوٹر لیبز کے قیام کی جانب راغب اور آمادہ کیا جائے گا۔
  5. اساتذہ اور طلبہ و طالبات کی علمی، تخلیقی اور تحقیقی صلاحیتوں میں اِضافہ کرنے اور اِس ضمن میں مدارِس کی کارکردگی اور اَہداف میں پیشرفت کا جائزہ لینے کے لیے الگ شعبہ جات؍نظامتیں قائم کی جائیں گی۔

نظام المدارِس پاکستان کے نصاب کے اِمتیازات

نظام المدارِس پاکستان کا مقصدِ تاسیس رِجالِ کارکی ایسی جامع اور متوازِن کھیپ تیار کرنا ہے جو قومی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ملتِ اِسلامیہ کی رہنمائی اور قیادت کا فریضہ انجام دے سکے۔چنانچہ نظام المدارِس پاکستان کے بانی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے جب مدارس میں مروّجہ نصاب کا جائزہ لیا تو انہوں نے شدّت سے محسوس کیا کہ مدارس میں سالہا سال سے پڑھائے جانے والے نصاب کو عصری تقاضوں کے مطابق ایک مربوط اور جامع اسکیم کے تحت اَز سرِ نو تشکیل دینا ناگریز ہے۔

علومِ دینیہ کے نصاب کی تشکیلِ نَو کے اِس رفیع الشان مقصد کے لیے انہوں نے ایک وسیع الجہات شعبہ تحقیقِ نصاب قائم کیا، جس کے تحت علومِ شریعہ کے ماہر اسکالرز، تجربہ کار، فارن کوالیفائڈ اور پی ایچ ڈی اساتذہ پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس کمیٹی نے شیخ الاسلام کی فکری و نظریاتی رہنمائی میں عصرِ حاضر کے تقاضوں اور فرمانِ اِمروز کے مطابق نصاب مرتب کر کے شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمد طاہر القادری کی خدمت میں پیش کیا جس کی انہوں نے انتہائی عمیق نظری اور باریک بینی سے نظرِ ثانی فرمائی اور اسے ضروری ترمیمات و اِصطلاحات کے بعد حتمی شکل دی۔

یہ نصاب ایک طرف دین کے حقیقی فہم کے لیے اِسلام کے مصادرِ اصلیہ سے تعلق کو مضبوط بناتا ہے تو دوسری طرف بڑی حد تک عصری تعلیمی ضروریات اور مقاصد سے موافقت پیدا کرکے اسلام کے مصادرِ اصلیہ اور عصری تعلیمی مقتضیات کے مابین خلیج کو دور کرتا ہے۔ اس نصاب میں ایک طرف تو قرآن و علوم القرآن، حدیث و علوم الحدیث، سیرت و فضائلِ نبوی ﷺ ، فقہ و علوم الفقہ، عربی زبان و ادب، تصوف و آداب، افکار وعقائد کو اور دوسری طرف انگریزی، اُردو، مطالعہ پاکستان، کمپیوٹر سائنس، معاشیات، شہریت، ایجوکیشن، سیاسیات، تاریخ، اِسلام، سائنس، تقابلِ اَدیان، وسطیات اور دعوۃ والارشاد جیسے مضامین کو مختلف تعلیمی سطحوں کا لازمی حصہ بنایا گیا ہے۔

درسی مواد کی تشکیل وترتیب میں قرآن مجید کے تعلّم اور فہم پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔ تعلیمی اداروں کی نصابی تاریخ میں یہ اوّلین اعزاز بھی حاصل کیاگیا ہے کہ پورے قرآن مجید کو الشہادۃ الثانویہ سے الشہادۃ العالمیہ تک آٹھ سالوں میں ایک لازمی درسی کتاب کی حیثیت سے شامل کیاگیا ہے۔ کتبِ حدیث کو مستند شروح کے مطالعہ کے ساتھ اس نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔

قلوب و اَذہان میں جدّت و وسعت، اِعتدال اور تحمل و بردباری پیدا کرنے کے لیے اسلام اور سائنس، تقابلِ اَدیان، ادب التعلیم و التعلم، اسلامی افکار و نظریات اور وسطیات جیسے مضامین شامل کیے گئے ہیں، جب کہ عربی و انگریزی زبان میں بول چال کی مہارت پیدا کرنے کے لیے عربی و انگریزی تکلم کو بطور مضمون متعارف کرایا گیا ہے۔

نصاب سازی ایک مسلسل، تدریجی اور ارتقائی عمل ہے جو سالانہ بنیاد پر طلبہ، اساتذہ اور ماہرینِ تعلیم کے عملی مشوروں کی روشنی میں نظر ثانی کا محتاج ہے، اس لیے وقت اور حالات کے ساتھ اس مرتب کردہ نصاب میں بھی تغیر و تبدل کی گنجائش سے صرفِ نظر نہیں کیا جائے گا۔ اس نصاب کو حتی المقدور موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق، متوازن، جامع، مربوط، مبسوط اور مرتب شکل میں پیش کرنے کی کاوش کی گئی ہے بلکہ اسے مزید وقیع بنانے کے لیے اساتذہ کرام کی رہنمائی اور مفید اِصلاحی تجاویز و ترامیم کا کشادہ نظری اور وسیع القلبی سے خیر مقدم کیا جائے گا۔

اِس نصاب کی تدوین و تسوید میں حتی المقدور کوشش کی گئی ہے کہ ہر مضمون کے لیے قدیم و جدید میں سے بہترین کتب کا اِنتخاب کیا جائے، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر مضمون کی تمام اَہم کتب کی ایک ساتھ تدریس ایک اَدقّ اور مشکل کام ہے۔ لہٰذا پہلے مرحلہ میں وہ کتب جو مروّجہ ہیں اور بہ آسانی دستیاب ہوسکتی ہیں انہیں درسی کتب کے طور پر شامل کیا گیا ہے اور باقی کتب کو برائے معاونت و مطالعہ شامل کیا گیا ہے۔ وہ بقیہ کتب ہر جامعہ کو سافٹ کاپی (PDF) کی صورت میں مہیا کی جائیں گی۔ بعد ازاں بتدریج اِن کتب کو بھی درسی کتب میں شامل کر لیا جائے گا۔

نظام المدارِس پاکستان کے نصاب کو اِس انداز سے ترتیب دیا گیا ہے کہ فارغ التحصیل علماء اور اسکالرز عملی زندگی میں خدمتِ دین و اِنسانیت کے ساتھ ساتھ اَمن، رواداری اور اِعتدال کی اَہمیت اور اِفادیت کو بھی اُجاگر کر سکیں تاکہ معاشرے سے محو ہوتی اَخلاقی اَقدار کو حیاتِ نَو دی جاسکے۔ نیز ملکی قوانین و ضوابط کی پاس داری کو بھی مدِ نظر رکھا جائے۔

اللہ رب العزت کی بارگاہ میں قوی امید ہے کہ مدارس کے ایسے جامع اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نظامِ تعلیم اور نصاب سے اِجتماعی نظم، اِتحادِ اُمت اور قومی و ملی یک جہتی پیدا ہوگی۔ (اِن شاء اللہ العزیز)۔ اللہ تعالیٰ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی اِس کاوش کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت سے نوازے اور اسے آنے والی نسلوں کی فکری و ذہنی اور علمی آبیاری کے ساتھ ساتھ اُن کی اخلاقی اور روحانی تربیت کا بھی ذریعہ بنائے۔ (آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ)