شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری: ایک عظیم رول ماڈل

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری

جب بھی ہم زندگی میں کوئی کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے دنیا کا دستور یہ ہے کہ ہم اس میدان کے کسی سب سے بڑے نام کو بطور رول ماڈل اپنی زندگی میں اپناتے ہیں۔ اگر کوئی شخص ایک اچھا سائنس دان بننا چاہتا ہے تو وہ تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف میں لکھے گئے بڑے سائنس دانوں کے ناموں اور خدمات کو غور سے دیکھے گا اور ان میں سے کسی ایسے شخص کا انتخاب کرکے اس کی بائیو گرافی اور لائف سٹوری کو پڑھ کر اپنی زندگی کو اس کے نقشِ قدم پر استوار کرنے کی کوشش کرے گا تاکہ اللہ تعالیٰ اسے بھی کامیابی دے دے۔ اسی طرح کوئی تاجر تاریخ کی بڑی کاروباری شخصیات جنھوں نے بڑی بڑی آرگنائزیشنز قائم کی ہیں اور دنیا میں ان کا ایک حوالہ ہے، انھیں پڑھے گا اور پھر جن چیزوں کو انھوں نے اپنی زندگی کا شعار بناکر ترقی کی، ان پر غور کرکے اپنی زندگی کا سفر بھی جاری رکھے گا۔

اسی طرح علومِ اسلامیہ اور دین سے تعلق رکھنے والے علماء اور طلبہ بھی تاریخ کے اوراق میں جھانکتے ہیں اور بڑے بڑے ناموں کا بغور جائزہ لیتے ہیں اور پھر ان میں سے کسی ایک کو اپنے لیے رول ماڈل چن کر اپنی زندگی اس کے طرزِ عمل پر استوار کرتے ہیں۔ اسی طرح کوئی صحافی ہو، سیاستدان ہو یا استاد ہو، الغرض ہر شعبے میں ہمیشہ رول ماڈلز کو اپنے سامنے رکھا جاتا ہے۔

یہ ایک ایسا اصول ہے کہ جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اور یہی طریقِ کار ہمیشہ رہا ہے۔ ہر نئے آنے والے نے کسی ایک کو جو اس سے پہلے کام کرچکا ہے، اپنے لیے رول ماڈل چنا ہے۔ یہی وہ طریقہ ہے جو اللہ رب العزت نے خود انسانیت کو سکھایا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ. صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ لا عَلَیْهِمْ.

(الفاتحه، 1: 5-6)

’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے اِنعام فرمایا۔‘‘

یعنی یہ طریقہ اللہ تعالیٰ خود عطا فرمارہا ہے کہ مجھ سے دعا مانگو کہ میں تمھیں ان لوگوں کا راستہ عطا کروں کہ جن لوگوں پر میں نے انعام کیا ہے۔ یعنی جس بھی شعبے میں وہ گئے ہیں، انھیں کامیابیوں اور کامرانیوں سے نوازا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ انسانوں کو اپنے لیے رول ماڈل قائم کرنے اور رول ماڈل چننے کا درس عطا فرمارہا ہے۔

جب انسان کسی رول ماڈل کا انتخاب کرتا ہے تو پھر اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دیکھے کہ اس آئیڈیل شخصیت کی وہ کیا خوبصورت اور نمایاں خوبیاں ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر اس نے زندگی میں یہ بلند مقام حاصل کیا ہے۔

شیخ الاسلام کی ہمہ جہتی خدمات

ہمارے لیے یہ نہایت خوش نصیبی کی بات ہے کہ ہمیں اپنی زندگیوں کے لیے رول ماڈل یا کسی کامیاب شخصیت کو تلاش کرنے کے لیے باہر نہیں جانا پڑتا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صورت میں ایسی ہی ایک عظیم شخصیت عطا کی ہے اور ان کی تحریک و ادارے سے وابستہ اور منسلک کیا ہے کہ جسے اللہ رب العزت نے کسی ایک شعبے میں نہیں بلکہ درجنوں شعبہ جات کے اندر نمایاں مقام عطا فرماکر لاکھوں لوگوں کے لیے رول ماڈل قائم فرمایا ہے۔ جب ہم شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی زندگی کو دیکھتے ہیں تو جس شعبے پر نگاہ ڈالیں، وہ ہر ایک میں کامیاب نظر آتے ہیں۔

اگر کوئی انہیں بطورِ مصنف دیکھنا چاہے تو وہ 612 سے زائد کتابوں کے مصنف ہوکر کسی بھی مصنف کے لیے ایک نہایت ہی عظیم رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح اگر بطورِ مقرر ان کو دیکھیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کو خطابت اور اِبلاغ کا وہ ملکہ عطا فرمایا ہے کہ جو بات وہ کہنا چاہتے ہیں، اسے آسانی کے ساتھ ہر ایک کے ذہن و دل میں اس طرح سرایت کردیتے ہیں کہ اسے بات سمجھ آجاتی ہے اور اس کی سوچ کو واضحیت اور دل کو اطمینان نصیب ہوجاتا ہے۔ اب اگر کسی کو مقرر بننا ہے تو اس میدان میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اس کے لیے عظیم رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔

اسی طرح اگر کسی کو کوئی تنظیم بنانی ہو، اس کے انتظام و انصرام کو سنبھالنا اور اس کو بین الاقوامی سطح پر لے جانا ہو تو اس سلسلہ میں شیخ الاسلام کی زندگی اسے راہ نمائی عطا کرتی نظر آتی ہے۔ شیخ الاسلام نے آج سے 41 سال قبل منہاج القرآن انٹرنیشنل کی بنیاد رکھی اور آج 90 سے زائد ممالک میں اس تحریک کے اسلامک سنٹرز اور تنظیمات موجود ہیں۔ یہ وہ کام ہے کہ پوری دنیا میں کوئی تنظیم کئی دہائیوں یا صدی سے زائد عرصے کے بعد شاید اس مقام پر پہنچ پاتی ہو۔ شیخ الاسلام نے منہاج القرآن انٹرنیشنل کے وجود کو محض چار دہائیوں سے کم عرصے میں تقریباً ایک سو ممالک تک پہنچادیا۔

علاوہ ازیں شیخ الاسلام کی دیگر خدمات اور نمایاں کامیابیوں کا جائزہ لیں تو ہمیں منہاج یونی ورسٹی، MES کے تحت چلنے والے سیکڑوں تعلیمی ادارہ جات، ویلفیئر کے پروجیکٹس اور خدمتِ خلق کے دیگر ادارے نظر آتے ہیں جو 41 سال کے مختصر تنظیمی دور کے اندر پوری دنیا میں قائم ہیں۔ آج اگر کوئی تنظیم کی بنیادیں رکھنا چاہے اور اس حوالے سے کسی بڑے organizational founder، leader، administrative head اور تنظیمی صلاحیتوں کی حامل شخصیت کو دیکھنا چاہے تو وہ شیخ الاسلام کو دیکھ سکتا ہے۔

اسی طرح اگر کوئی مصلح (reformer) بننا چاہے اور اپنی ذات یا اپنی تحریک و تنظیم کے ذریعے یہ چاہے کہ لوگوں کی اصلاحِ احوال ہو، اخلاقی و روحانی تربیت ہو، لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف دعوت دی جائے، اس کا مقصد لوگوں میں عاجزی اورانکساری پیدا کرنا ہو، لوگوں کے اندر مخلوقِ خدا کی محبت پیدا کرنا ہو، ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا کرنا ہو، الغرض اس طرح کی خصوصیات بھی اگر کوئی چاہے کہ ہمیں کسی رول ماڈل میں نظر آئیں یا کوئی اس طرح کا کام انجام دینا چاہتا ہو جس طرح پرانے ادوار کے بزرگانِ دین اور شخصیات کے تذکرے ہم سنتے اور پڑھتے ہیں تو وہ آج اپنے دور میں زندہ رول ماڈل شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صورت میں آسانی سے دیکھ سکتا ہے۔

کوئی علمِ دین کی خدمت کرنا چاہتا ہو، علمی و تحقیقی کام کرنا چاہتا ہو، علمِ حدیث کی خدمت کرنا چاہتا ہو، قرآن مجید کا درس دینا چاہتا ہو، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے پیغام کو عام کرنا چاہتا ہو تو اس کام کے لیے بھی اتنا نمایاں رول ماڈل شاید ہی کسی نے قریب زمانے کے اندر دیکھا ہو جو اللہ تعالیٰ نے شیخ الاسلام کی صورت میں بنادیا ہے۔

اسی طرح اگر کسی بڑے ماہرِ تعلیم کو دیکھنا ہو کہ جس نے نہ صرف خود بطور ماہرِ تعلیم (educationist)، دانش ور، پروفیسر اپنا ایک شاندار اور سنہرا تعلیمی زمانہ گزارا ہو، جو اپنی ذات میں بھی ایک اعلیٰ انداز اور معیار کا دانش ور ہو اور خود ایسا ماہرِ تعلیم ہو کہ قوم کو سیکڑوں کامیاب ادارہ جات دے چکا ہو تو اس کام کے لیے بھی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی شخصیت میں ہمیں ایک عظیم رول ماڈل نظر آتا ہے۔

اسی طرح اگر کوئی سیاستدان چاہے کہ میں شعور کی بیداری کی راہ پر، لوگوں میں انصاف کی فراہمی کی آواز بلند کرنے کے نام پر، مظلوموں کے لیے کھڑے ہونے، لوگوں کی داد رسی کرنے اور لوگوں کا مددگار بننے کے لیے کسی انقلابی رہنما کی صورت میں کوئی رول ماڈل تلاش کروں تو اسے بھی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی شکل میں عظیم الشان رول ماڈل نظر آتا ہے کہ جنھوں نے اس انداز میں اس ملک پاکستان کی 22کروڑ عوام کی نظریاتی و فکری تربیت کی کہ ایک زمانہ اس کا معترف ہے۔ آپ نے جس طرح عوام کے شعور کو بیداری کیا، ان کو غیور بنایا، باعزت قوم بنایا اور پاکستان سے محبت کرنے والا بنایا ہے، ان سے بہتر کوئی رول ماڈل ہمیں دیکھنے کو نہیں ملتا۔

اسی طرح کوئی چاہے کہ امن، بین المذاہب اور بین المسالک ہم آہنگی پر کام کے لیے مجھے اس دور میں کوئی رول ماڈل نظر آئے تو وہ بھی شیخ الاسلام کی صورت میں شاندار رول ماڈل دیکھ سکتا ہے۔ ایک ایسا رول ماڈل کہ پورے پاکستان کی اقلیتیں اور نان مسلم کمیونٹیز یک زباں ہوکر کہیں کہ ہاں! اہالیانِ اسلام میں سے کسی ایک ذات جس سے ہمیں پیار ہے، وہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہیں۔ الغرض شیخ الاسلام کی ہمہ جہتی خدمات کی ایک طویل فہرست ہے۔

میں کبھی شیخ الاسلام کی شخصیت پر غور کروں، اس لیے نہیں کہ وہ ہمارے لیڈر ہیں، اس لیے نہیں کہ ہمارا ان سے تعلق ہے، اس لیے بھی نہیں کہ ہمارا ان سے پیار ہے بلکہ ایک غیر جانبدار رائے رکھتے ہوئے میں ان کی شخصیت کا جائزہ لوں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ کئی پہلوئوں میں لوگ تھوڑا یا زیادہ جاننے والے ہوتے ہیں۔ مثلاً: اگر کوئی بڑا پروفیسر ہے تو انتظامی حوالے سے بڑا کمزور ہوتا ہے، کوئی انتظامی حوالے سے مضبوط ہو تو وہ علمی طور پر مضبوط نہیں ہوتالیکن ایسی ہمہ جہتی کہ جس پہلو کی طرف نگاہ ڈالی جائے، وہیں پر لوگوں کے لیے رول ماڈل بننے کی حیثیت اور صلاحیت رکھتے ہوں، ایسی مثال بہت کم ملتی ہے۔

اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان کی تحریک سے وابستہ کیا ہے، ہم ایسی شخصیت کے ساتھ منسلک ہیں کہ جن میں اتنے رول ماڈلز موجود ہیں کہ ہمیں اپنی زندگی کے لیے رول ماڈل کے انتخاب کے لیے کہیں باہر جھانکنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کی زندگی سے صحیح معنوں میں اخلاصِ نیت اورمحنت کے ساتھ استفادہ کرنے کی اہلیت پیدا کی جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس عظیم راہ پر گامزن کرکے ان بڑے لوگوں کے فیوضات سے مستفیض فرمائے۔

رول ماڈل سے استفادہ کیونکر ممکن ہے؟

ہم جب بھی کسی رول ماڈل کی زندگی کو دیکھتے ہیں تو اس کی شخصیت میں ہمیں ہمیشہ کچھ اہم خوبیاں نظر آتی ہیں۔ ان خوبیوں کو ہمیشہ نگاہ میں رکھنا چاہیے تاکہ ہم بھی ان خوبیوں اور رازوں سے واقف ہوکر اپنی زندگی کو اُس رول ماڈل کے مطابق ڈھال سکیں اور انسانیت کو فائدہ پہنچاسکیں۔

یہ امر ذہن نشین رہے کہ رول ماڈل کی زندگی کا عمیق مطالعہ کرتے ہوئے محض اُس کے لباس، دنیاوی مقام و مرتبہ، حلقہ احباب کی تعداد اور اس طرح کی چیزوں پر توجہ مرکوز نہیں کرتے۔ بلاشبہ کسی کے مطابق ڈھلنے کا یہ بھی ایک طریقہ ہے، اس سے ظاہر سنورتا اور نفاست پیدا ہوتی ہے لیکن یہ بالکل فروعی چیزیں ہیں۔ ذیل میں چند اُن خوبیوں کا تذکرہ کیا جارہا ہے جنھیں رول ماڈل تلاش کرتے ہوئے ہمیشہ نگاہ میں رکھنا ہوگا اور جب کسی رول ماڈل میں یہ خوبیاں مل جائیں تو ان کو اپنی زندگی کا شعار اور حصہ بنانا ہوگا:

1۔ یقینِ محکم

سب سے پہلی چیز جو ہمیں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی ذات میں نظر آتی ہے اور جسے ہمیں اختیار کرنے کی ضرورت ہے، وہ ان کا ’’یقین‘‘ ہے۔… کس بات پر یقین؟… اس بات پر یقین کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہوتا ہے، اس کی کوئی وجہ ہے اور وہ وجہ انسان خود ہے۔ انسان اپنا مستقبل خود روشن بھی کرسکتا ہے اور تاریک بھی کرسکتا ہے۔ یعنی وہ اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے۔ جو شے وہ آگے بھیجتا ہے، وہی شے لوٹ کر اس کو ملتی ہے۔ وہ جس شے کے لیے محنت کرتا ہے تو اس کے حصے میں بھی وہی کچھ آئے گا۔ دنیا میں جو کچھ ہے، وہ اس کے ہاتھ سے بویا ہوا ہے۔ پس جتنی محنت کرے گا، اس کے بدلہ میں اتنا کچھ حاصل کرلے گا۔ اگر سستی اور کاہلی اپنائے گا تو بے کار رہے گا۔ اس اہم راز سے ہمیں سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

شیخ الاسلام نے اپنی زندگی کا سفر جھنگ جیسے چھوٹے شہر سے کیا، اس وقت ذرائع دستیاب نہ تھے، کوئی مالی طور پر مدد کرنے والا نہیں اور نہ کوئی بڑے اور معروف لوگ ساتھ تھے۔ پسماندہ علاقے کے جذباتی نوجوانوں کے ایک سرکل میں آپ نمایاں حیثیت رکھتے تھے مگر اس وقت انھوں نے ایک خواب دیکھا اور اس خواب کو پانے کا وہ یقین رکھتے تھے اور صرف یقین نہیں رکھتے تھے بلکہ اس کے لیے ساری زندگی اتنی محنت کی کہ جس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ پس اگر ہم کسی کو رول ماڈل بنانا چاہیں تو اُس شخصیت میں ’’یقین‘‘ کا عمیق نظری سے مطالعہ کریں کہ وہ یقین کے حوالے سے کس مقام پر فائز ہے۔ اس پہلو سے اگر ہم شیخ الاسلام کو دیکھیں تو ہمیں منزل کا یقین اور پھر اس منزل کو پانے کے لیے محنت اپنے کمال پر نظر آتی ہے۔ پس ہم جو چاہتے ہیں، اس کے لیے محنت کریں اور اس بات پر یقین رکھیں کہ جس شے کے لیے محنت کی ہے، وہ ضرور مل کر رہے گی۔

2۔ محنت

دوسری اہم بات جو ہمیں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی زندگی سے سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ کامیابی اور ناکامی کچھ نہیں ہے۔ یہ دو چیزیں ہیں جو انسان کے اندر مایوسی یا خوش فہمی پیدا کرتی ہیں۔ حقیقی شے کا نام محنت (struggle) ہے۔ ناکامی یہ ہے کہ انسان محنت نہ کرے اور سستی و کاہلی کو اپنے اوپر غالب رکھے جبکہ کامیابی یہ ہے کہ آخری لمحے تک اپنے اصولوں پر کھڑا رہے، وہ کچھ حاصل کرنے کے لیے سمجھوتہ نہ کرتا پھرے، اپنے اصولوں کے ساتھ کھڑا رہے، جس شے کو صحیح سمجھا ہے، آخری لمحے تک اس پر ڈٹا رہے، چاہے نتیجہ ملے یا نہ ملے۔ اگر آخری لمحے تک زندگی میں کچھ بھی نہ ملے لیکن معلوم ہو کہ میں نے جن اصولوں اور ideas کا انتخاب کیا تھا، مرتے دم تک انہی پر ڈٹ کر کھڑا رہا ہوں، اپنا سر کسی کے آگے جھکنے نہیں دیا، کبھی اپنے افکار کو بکنے نہیں دیا اور اپنی محنت کو جاری رکھا، مایوسی کبھی اپنے قریب نہ آنے دی تو شیخ الاسلام کے نزدیک یہی فتح اور کامرانی ہے۔ شیخ الاسلام کے نزدیک محنت؛ کامیابی ہے، اس کے علاوہ کامیابی اور ناکامی کا کوئی تصور نہیں۔ہمیں اگر شیخ الاسلام کی زندگی میں کسی آئیڈیل کو ڈھونڈنا ہے تو اِسے تلاش کریں کہ یہ ہمارے آئیڈیل کے آئیڈیلز ہیں۔

3۔ کسی کو موردِ الزام نہ ٹھہرائیں

تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ انسان کبھی blame games میں نہ پڑے۔ یہ ہمارے ہاں سب سے معروف اور پسندیدہ شغل ہے۔ اس حوالے سے اگر ہم تاجدارِ کائنات ﷺ کی سیرت پر غور کریں کہ جن کی شخصیت ہمارے لیے سب سے بڑی رول ماڈل ہے۔ یاد رکھیں! تاجدارِ کائنات ﷺ نے کبھی کسی کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے کسی شے کے لیے کسی کو یہ نہیں کہا کہ یہ شے اس لیے ہوئی کہ فلاں نے یہ کردیا، یا فلاں کی وجہ سے یہ نہیں ہوا۔ نہیں، بلکہ آپ ﷺ نے ہمیشہ مثبت بات ارشاد فرمائی۔ آپ ﷺ صلح حدیبیہ سے لوٹ کر آرہے ہیں، آپ ﷺ نے اس حوالے سے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ کفار مکہ یہ کیا کرگئے؟ ان کی وجہ سے ہمارا عمرہ منسوخ ہوگیا، انھوںنے زیادتی کی۔ کسی کو موردِ الزام ٹھہرانے کا درس ہمیں آقا ﷺ کی بارگاہ سے نہیں ملتا کیونکہ کامیاب لوگ الزامات نہیں دیتے۔

اگر ہم اپنے رہنما شیخ الاسلام کی زندگی کو اس حوالے سے دیکھیں تو یہ امر سامنے آتا ہے کہ آپ نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کسی کو blame نہیں کیا۔ کبھی یہ نہیں کہا کہ فلاں نے ایسا کردیا، فلاں نے موقع پر میرا ساتھ نہیں دیا، فلاں میرے ساتھ کھڑا نہیں ہوا، فلاں نے میرے سوال اور میری جدوجہد کا جواب نہیں دیا۔

کامیاب آدمی ہمیشہ اپنی محنت کو ماپتا ہے اور جب اسے کامیابی ملتی ہے تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور جب کبھی ناکامی ملے تو اپنے اندر ہی جھانکتا ہے کہ میرے سے کہاں کمی رہ گئی جس کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، پھر وہ اس سمت میں محنت کرنے لگ جاتا ہے۔

اس تناظر میں اگر ہم اپنی طرف نگاہ ڈالیں تو ہمارا رجحان یہ ہوتا ہے کہ ہم ہر چیز کے لیے دوسرے کا کندھا ڈھونڈتے ہیں اور اس طرح کے جملے ہماری زبان پر عام ہوتے ہیں کہ: ’’فلاں مجھے مجبور کرتا ہے، فلاں مجھے بوجھل کرتا ہے، فلاں کا میرے ساتھ رویہ ٹھیک نہیں ہے، فلاں مجھے چلنے نہیں دیتا، فلاں میرے ساتھ یہ معاملہ کرتا ہے، دیکھیں اس نے میرے ساتھ کیا کیا؟، میں آج زندگی میں اس عمل کی وجہ سے ناکام ہوں، میرے گھر والے میرے ساتھ سپورٹ کرتے تو میں بھی کامیاب ہوجاتا، میرے ساتھ اگر کاروباری دھوکہ نہ کرتے تو میں بھی کامیاب ہوجاتا، فلاں نے مجھے آوارہ گردی میں لگایا، فلاں کی وجہ سے میں اپنے کام پر توجہ نہ دے سکا، میں یہ کام نہیں کرنا چاہتا تھا، دوسرا کرتا تو نتیجہ کچھ اور ہوتا، میں اس کام کی وجہ سے ناکام ہوں‘‘۔ الغرض ہم ہمیشہ Blame Game کے اندر رہتے ہیں۔

یہ چیز ہمیں اپنے قائد و رہنما شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری میں کبھی نظر نہیں آئے گی۔ انھوں نے ہمیشہ محنت کی ہے اور جب کہیں کمی آئی ہے تو اپنے اندر ہی جھانک کر دیکھا ہے کہ میری محنت میں کہاں کمی ہے۔ پھر وہ چیزوں پر نظر ثانی کرکے انھیں صحیح انداز میں آگے بڑھاتے رہتے ہیں۔ اگر اخلاقی تربیت کی طرف دھیان دیا جائے تو یہ بہت بڑا سبق ہے۔

کسی درویش کی ایک دکان تھی جس میں وہ ضروریاتِ زندگی کا سامان بیچتا تھا۔ ایک روز وہ گاہک کو بوتل میں تیل ڈال کر بیچ رہا تھا کہ اس کے ہاتھ سے تیل ڈالنے والی بوتل گر کر ٹوٹ گئی اور اس کا مال ضائع ہوگیا۔ اس نے اس گاہک کے ساتھ جھگڑا نہیں کیا بلکہ اسے دوسری بوتل میں تیل دے کر روانہ کردیا اور پھر اپنی دکان بند کردی۔ اس کے دوستوں نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ میں رزقِ حلال کمانے والا آدمی ہوں، میرا مال ضائع نہیں ہوسکتا تھا، میں فرصت سے سوچنا چاہتا ہوں کہ مجھ سے ایسا کیا عمل ہوا ہے کہ آج میرا رزقِ حلال سے کمایا ہوا مال ضائع ہوگیا ہے۔ وہ واپس گھر چلا گیا اور اپنے گردو نواح میں غور کرنے لگا۔ اپنی ایک سوتیلی بہن کے گھر گیا تو وہاں جاکر اس کے بارے میں خبر ملی کہ اس کے گھر پر کئی دن سے فاقہ تھا۔ وہ سمجھ گیا کہ اس کے نقصان کا سبب یہ تھا کہ وہ بے شک رزق حلال کماتا تھا لیکن میری بہن کئی دنوں سے فاقہ سے تھی جس کی مدد کرنا مجھ پر فرض تھا۔

پس ہر درویش، مومن، اللہ والا بندہ دنیا کو blame کے لیے اس کے کندھے نہیں ڈھونڈتا بلکہ اگر کہیں کچھ گڑ بڑ ہوجائے تو اپنی طرف نگاہ ڈالتا ہے کہ میرے میں کہاں کمی رہی ہے؟ مجھے اپنے آپ کو کیسے سدھارنا ہے؟ بزرگانِ دین اور صوفیاء کا بھی یہ طریقہ رہا ہے۔ اگر کبھی کسی علاقے یا کسی مجمع میں کوئی شخص اگر انھیں بے توقیر کرتا تو وہ واپس آکر blame game نہیں کرتے تھے کہ ’’فلاں کو تمیز نہیں ہے، اس نے مجھے بے عزت کیا‘‘ بلکہ وہ گھر آکر یہ سوچتے تھے کہ میں نے اپنی زندگی میں کب، کسی کو بے عزت کیا تھا کہ آج مجھے لوگوں نے بے عزت کیا۔ وہ اس عمل کے اسباب جاننے کے لیے خوب غورو فکر کرتے اور اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا کرتے کہ مولا! یہ ظاہری واقعہ تو سمجھ آتا ہے، اس کی کئی وجوہات ہوں گی، مگر میرے مولا! تو نشاندہی فرماکہ میں نے کہاں تیری کسی مخلوق کا دل دکھایا تھا جو آج میرا دل دکھا ہے۔

پس کامیاب لوگ ہمیشہ اپنی طرف دیکھتے ہیں۔ ان کا یہ طریقہ نہیں رہا کہ کوئی واقعہ ہوگیا، کسی کی عزت جاتی رہی تو وہ لوگوں کو گالی گلوچ کرے اور لوگوں کو برا بھلا کہے۔ Blame game اور لوگوں کے کندھے ڈھونڈنا کامیاب لوگوں کی کبھی علامت نہیں ہوا کرتی اور یہ ہمارے قائد کی بھی شناخت اور نشانی نہیں ہے۔ آپ کو اگر سارا جہان کھڑے ہوکر مخالفت اور گالی دیتا رہے، پھر بھی آپ اس پر تبصرہ تک نہیں فرماتے۔ تبصرہ تو دور کی بات ہے، کبھی نجی مجلس میں بھی ان کا تذکرہ نہیں کیا کہ میری شہرت متاثر ہوئی یا انھوں نے میری محنت کو نقصان پہنچایا ہے۔ آپ پرواہ بھی نہیں کرتے کیونکہ کامیاب لوگوں کی علامت یہی ہوتی ہے۔ اگر blame game رہے تو انسان ہر وقت depressed اور frustrated رہتا ہے کہ ’’فلاں میری بات نہیں سنتا، میں محنت کرتا ہوں مجھے سپورٹ نہیں کرتا، میرے ساتھ اس طرح شانہ بشانہ محنت نہیں کرتا۔‘‘ اس طرح کے خیالات ذہنی دبائو کا باعث بنتے ہیں، اگر اس سے نکل آئیں اور صرف اپنی محنت پر دھیان اور توجہ دیتے رہیں تو اللہ رب العزت کامیاب کردیتا ہے۔

4۔ اہلِ علم و فن کی قدر دانی

چوتھی اور اہم بات جو ہمیں اپنے قائد سے ملتی ہے اور جسے ہمیں سیکھنے کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ کسی استاد کو استاد مانے بغیر کوئی استاد نہیں بنتا۔ خاص طور پر ہمارے ہاں نوجوان نسل کے اندر بدقسمتی سے ایسے رجحانات پیدا ہوگئے ہیں کہ اساتذہ اور بڑے چھوٹوں کی تمیز اور ادب و احترام کا تصور ختم ہوتا جا رہا ہے۔ بیس بائیس سال عمر ہوتی ہے اور ہم اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے زندگی اور عمر کا کچھ تو حاصل رکھا ہے، یہاں تک کہ انبیاء کرام علیہم السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نبوت کے اعلان کا حکم 40 سال بعد کرنے کا فرماتا ہے۔ بے شک آج تیز ترین ترقی اور ٹیکنالوجی کا دور ہے، آج انسان بہت کچھ جلد اخذ کرلیتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو ہم سے بڑے ہیں اور ہم سے پہلے ہیں، ان کی زندگی کے تجربات کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ یقینا بڑوں کے تجربات وہ سنہری چیزیں ہیں کہ انسان جن سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے زندگی میں اپنے اساتذہ اور اپنے بڑوں کا ادب و احترام کیا ہے۔ 80ء کی دہائی میں جب آپ فہم القرآن کا پروگرام کرتے تھے اور پاکستان میں آپ کو شہرتِ تامہ حاصل تھی، ایک بڑا طبقہ آپ کو سنتا تھا، آپ سے محبت و احترام کرتا تھا، اس وقت بھی آپ اپنے اساتذہ اور بڑوں کے ادب و احترام کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑتے تھے۔ ایک روز آپ کے پرانے اساتذہ جنھوں نے آپ کو بچپن میں پڑھایا تھا، آپ سے لاہور ملنے آئے تو آپ کے ایک ساتھی کہنے لگے کہ سر! یہ تو آپ کے خلاف باتیں کرتے ہیں، جہاں پر اٹھتے بیٹھتے ہیں، لوگوں کا ذہن خراب کرتے ہیں۔ آپ نے اس شخص کو ڈانٹ دیا اور فرمایا کہ ’’یہ میرے استاد ہیں، ان کا حق ہے، جو بھی میرے بارے میں کہنا چاہیں، مگر تمہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ان کے بارے میں کچھ کہو۔‘‘ بعد ازاں جب وہ استاد ملنے آئے تو جتنی دیر وہ آپ کے گھر میں رہے، آپ نے اپنے استاد کے احترام میں جوتا تک نہیں پہنا اور نہایت محبت و عقیدت سے ان کی خدمت کرتے رہے۔ پس استاد کو استاد ماننا اور بڑے کو احترام دینا، یہ درس بھی ہمیں ہمارے قائد سے ملتا ہے۔

یاد رکھیں! کہ اگر کسی بڑے کو بڑا نہ مانیں تو اس سے کوئی بڑا نہیں بنتا۔ جس کو اللہ نے بڑا کیا ہے، اس کو دل سے بڑا مانیں۔ ہم کئی بار کبھی ملازمت کے خوف سے، کبھی کسی اور دنیوی سوشل سرکل کے خوف سے کسی کے منہ پر تو احترام بجالاتے ہیں لیکن جب اپنی مجلس میں بیٹھتے ہیں تو پھر تنقید کرتے ہیں اور عزت و احترام سے نام بھی نہیں لیتے۔ اگر اللہ پاک نے کسی کو بڑا بنایا ہے اور ہمارے اوپر مقرر کیا ہے تو بڑے کو بڑا ماننا، یہ خود زندگی میں بڑا بننے کے لیے ضروری ہے۔ اگرہم چہرے پر کچھ اور ہوں اور بعد ازاں اساتذہ یا انچارج کے ساتھ مختلف رویہ رکھیں تو یہ انسان بھی جب عملی زندگی میں قدم رکھے گا تو اس کے ساتھ بھی یہی ہوگا۔ اگر وہ اپنی زندگی میں اپنے بڑوں کا دل سے احترام کرنے والا ہوگا تو لوگ اس کا احترام کریں گے۔ یہ مکافاتِ عمل ہے اور ورثہ ہے۔ اپنے بچپن میں اولاد اگر والدین کا احترام نہ کرے تو جب اللہ تعالیٰ انھیں والدین بناتا ہے تو ان کی اولاد بھی ان کا احترام نہیں کرتی۔ اس طرح کے واقعات کا مشاہدہ ہمیں اپنی روزمرہ زندگی میں کثرت سے ہوتا ہے۔

5۔ عزم و استقامت

پانچویں چیز یہ ہے کہ کوئی بھی کامیابی زندگی میں خلوص اور عزم و استقامت کے بغیر نہیں ملتی۔ ہمارے ہاں عزم (commitment) کی عمر بڑی کم ہے۔ ہم بہت جلد تھک جاتے ہیں اور اُکتا جاتے ہیں۔ ہمارا عزم مہینوں پر یا صرف دو چار سال پر محیط ہوتا ہے۔ اس کے بعد ہم تدریجاً اکتاہٹ کا شکار ہونا شروع ہوتے ہیں اور level of commitment کھو بیٹھتے ہیں۔ یاد رکھیں! دنیا میں کوئی چیز پختہ عزم کے بغیر نہیں ملتی، چاہے تعلیم ہو، یا کاروباری کامیابی ہو۔ اگر اپنی تعلیم میں کامیاب ہونا ہے، زیادہ نمبر لینے ہیں لیکن پختہ عزم نہیں ہے تو تعلیمی کامیابی بھی نہیں ملے گی۔ کاروبار سے Commitment نہیں ہے تو کاروبار میں کامیابی نہیں ملے گی۔ اگر گھومتے پھرتے رہے، اپنے کام کو وقت نہ دیا اور ہر وقت دعا مانگتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ کامیابی دے تو ایسے طریقے سے کامیابی نہیں ملے گی۔

اسی طرح اگر شوق کسی اور کام کا ہو اور کامیابی مانگیں کسی اور راستے کی تو ایسا بھی نہیں ہوتا۔ جس میں محنت کرتے ہیں، کامیابی کی راہ بھی وہی ہے۔ اس level of commitment کا سبق بھی ہمیں اپنے قائد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سے ملتا ہے کہ زندگی میں انھوں نے جو کیا ہے commitment کی انتہا کے ساتھ کیا ہے۔ چاہے وہ commitment اس پاکستان کی قوم کے ساتھ ہو، ملک پاکستان کے ساتھ ہو، عالمِ اسلام کے ساتھ ہو یا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ ہو۔

الحمدللہ تعالیٰ! آج ان کی عمر 71 سال ہوگئی ہے مگر ان کی commitment پہاڑوں کی چٹانوں کی مانند ہے کہ ہلنے کا نام نہیں لیتی۔ وہ committed ہوکر اپنے مشن کو لے کر چل رہے ہیں۔ وہ ہر حال میں چاہے تکلیف ہو، علالت ہو، کچھ بھی ہو، ان کا level of commitment یہ ہے کہ اپنے کام کو کبھی نہیں بھولتے اور ہر لمحہ ان کا کام، ان کی منزل، ان کا مقصد ہی ان پر طاری رہتا ہے۔

مذکورہ پانچ اہم خوبیاں ہمیں اپنے قائد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سے بطور آئیڈیل اور بطور قائد و رہنما سیکھنے کی ضرورت ہے۔