القرآن: حجیتِ حدیث و سنت کا انکاردرحقیقت قرآن مجید کا انکار ہے (حصہ: 4)

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ.

(بنی اسرائیل، 17: 9)

’’بے شک یہ قرآن اس (منزل) کی طرف رہنمائی کرتا ہےجو سب سے درست ہے۔‘‘

اسلام کی جملہ تعلیمات کا پہلا بنیادی ماخذ قرآن مجید ہے۔ عبادات، اخلاق، آداب، معاملات، عقائد الغرض ہر چیزکا سب سے پہلا ماخذ قرآن مجید ہے۔ زیرِ نظر سلسلہ و ار موضوع میں چونکہ ہمارا ارتکاز عقائد پر ہے اس لیے ہم عقائد کے حوالے سے ہی بات کریں گے۔ عقائدکے باب میں اختلاف یہاں سے شروع ہوا کہ بعض لوگوں نے عقائد کی صحیح تعبیر و تشریح کے تعیّن اور کسی چیز کو ماننے یا رَد کرنے میں قرآن مجید کو صرف پہلا ماخذ اور ذریعہ نہیں مانا بلکہ یہ کہہ دیا کہ ’’صرف قرآن ہی کافی ہے۔ ‘‘ یہ جملہ بظاہر طاقتور اور پرکشش نظر آتا ہے مگر اس کے پس منظر میں ایک خاص سوچ کارفرما ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ جملہ بول کر انھوں نے حجیتِ سنت کا ہی انکار کردیا۔ اس لیے کہ جب یہ کہہ دیا کہ ’’ہم تمام دینی، دنیوی اور شرعی معاملات میں صرف قرآن کو حجت مانتے ہیں، جو کچھ قرآن مجید سے ثابت ہے، اسی کومانیں گے اور جو قرآن مجید میں نہیں، اس کو نہیں مانتے‘‘ تو ایسا کہنے والوں کا اشارہ سنت نبوی ﷺ اور احادیث نبویہ کی طرف ہوتاہے، کہ ہم حدیث اور سنت نبوی ﷺ کو شرعی اعتبار سے اسلام کے احکام، عقائد اور قواعد میں حجت اور اتھارٹی نہیں مانتے۔ گویا انھوں نے حدیث و سنتِ نبوی کے حجت ہونے کا انکار کردیا۔ یاد رکھیں! ایسا عقیدہ رکھنا خود قرآن مجید کی نفی اور قرآن مجید کا انکار ہے۔

قرآن مجید کے انکار کے دو طریقے ہیں:

1۔ انکارِ قرآن کی پہلی صورت یہ ہے کہ کوئی صراحت کے ساتھ قرآن کے کتاب الٰہی ہونے کا انکار کردے۔ مثلاً کوئی یہ کہے کہ میں اسے اللہ کی کتاب ہی نہیں مانتا، (معاذ اللہ) یا قرآن مجید کی بعض آیات کا انکار کردے کہ یہ آیات قرآن مجید کی نہیں ہیں یا اس سے زائد آیات کا اقرار کرے کہ موجودہ آیات تھوڑی ہیں، قرآن مجید کی اور آیات بھی ہیں یا یہ کہے کہ فلاں فلاں بھی قرآن ہے۔ یا قرآن کے احکام کا انکار کردے۔ پس جب کوئی قرآن مجید کی اطاعت، پیروی اور اس کی اتھارٹی کو واجب نہیں مانتا تو یہ عمل اور رویہ قرآن مجید کا صریحاً انکار ہوگیا۔ گویا اُس نے قرآن مجید کی تکذیب کی اور اس کی تصدیق ہی نہیں کی۔

2۔ انکارِ قرآن کی دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص قرآن مجید کو اللہ کی کتاب بھی مانے، قرآنی آیات کا انکار بھی نہ کرے، اس کے کتابِ الٰہی ہونے کی تصدیق بھی کرے اور اس پر ایمان لانے کا دعویٰ بھی کرے مگر احکام، عقائد اور معاملات کے بارے میں جو کچھ اس قرآن میں آیا ہے اس کی تعبیر و تشریح خود اپنی مرضی سے کرے۔

جب قرآن مجید کسی چیز کے بارے حکم دیتا ہے تو اس کے اس حکم کی کوئی مراد بھی ہوتی ہے۔ اللہ کا کلام ایسا نہیں ہے کہ وہ بے مراد بات کردے۔ جب قرآن مجید حضور نبی اکرم ﷺ پر نازل ہوا تو آپ ﷺ کو حکم دیا گیا کہ امت کو پہنچائیں۔ کیا اس ابلاغ سے مراد صرف الفاظ ہیں اور اُن الفاظ کا کوئی خاص معنی و مفہوم اور مراد متعین نہیں؟ ایسا نہیں ہو سکتا۔ جس کلام کا کوئی متعین معنی اور مراد ہی نہ ہو، وہ کلام لغو اور باطل ہو جاتاہے۔ آیات پیغام دینے اور حکم پہنچانے کے لیے اتاری جاتی ہیں اور ایسا تبھی ہوتا ہے جب ہر لفظ اور ہرآیت کا ایک حکم ہو اور وہ کسی مفہوم، معنی اور مراد پر دلالت کرے۔ اگر ہر کوئی قرآن کے اس معنی اور مراد کا انکار کرے اور چاہے کہ میں اپنی مرضی سے معنی کروں گا، تو پھر ہم قرآن مجید کے حقیقی مقصد کو نہ پاسکیں گے۔

دینی، دنیوی اور شرعی معاملات میں صرف قرآن ہی کو حجت ماننے والے دراصل اسلام کے احکام و عقائد کے باب میں حدیث و سنت کے حجت اور اتھارٹی ہونے کا انکار کرتے ہیں۔

قرآن مجید کے انکار کی اس دوسری صورت کو دینِ اسلام کے چند احکامات کی مثالوں سے سمجھتے ہیں:

1۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَاَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃَ.

(البقرۃ، 2: 43)

’’اور نماز قائم رکھو۔ ‘‘

اللہ تعالیٰ نے نماز قائم کرنے کا حکم تو دیا ہے مگر الحمد سے والناس تک قرآن مجید میں ایک آیت بھی ایسی نہیں ہے جہاں کسی بھی لحاظ سے لفظ الصلوٰۃ (نماز) کی تعریف کی گئی ہو کہ نمازکو کب اور کیسے ادا کرنا ہے۔۔۔؟ اس کی شرائط اور تقاضے کیا ہیں۔۔۔؟ اس کا وقت اور ہیئت کیا ہے۔۔۔؟ الغرض پورے قرآن مجید میں لفظ الصلوٰۃ کی اس طرح کی تعریف نہیں ملے گی۔ اب وہ شخص جس نے کہا کہ میرے لیے صرف قرآن کافی ہے، میں قرآن کے سوا کسی شے کو حجت نہیں مانتا، تو دراصل یہ کہہ کر اُس نے بالواسطہ نمازکا انکار کردیا ہے۔ جب اُس نے قرآن کے سوا حضور ﷺ کی حدیث کو حجت ہی نہیں ماننا تو نماز کی تعریف، ادائیگی کا طریقہ اور اس کے بارے رہنمائی کہاں سے لے گا۔۔۔؟ نماز پڑھتے ہوئے کیاکیا شکل (قیام، رکوع، تشہد، قومہ، سجدہ) اختیار کرنی ہے، یہ کہاں سے اخذ کرے گا۔۔۔؟ الغرض حدیث کو حجت نہ ماننے کی وجہ سے اس کے سامنے تو نماز کی صورت ہی نہیں آئے گی۔

اگر قرآن ہی کافی ہے کی رٹ لگائے رکھے اور حدیث و سنت کو حجت ہی نہ مانے توپھر نماز کا تعین کیسے کرے گا؟ لامحالہ وہ صلٰوۃکے لغوی معانی دیکھے گا۔ لغت میں لفظ صلوٰۃ کے متعدد معانی ہیں، اب وہ کس معنی کو اختیار کرے گا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ قرآن مجید میں ’’الصلوٰۃ‘‘ کی تعریف بیان نہیں کی گئی مگر اسلام میں ایک خاص ہیت کے ساتھ مخصوص اوقات میں اللہ کی عبادت کرنا اور مختلف حالتوں میں مختلف آیات و تسبیحات کو پڑھنا، اس مکمل پیکج کو صلٰوۃ (نماز) قرار دیا گیا ہے اور اس کا اعلان حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے اس فرمان کے ذریعے کیا کہ جب صحابہ کرامl نے پوچھا کہ یارسول اللہ ﷺ ! نماز کس طرح پڑھیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:

صَلُّوا کَمَا رَأَیْتُمُونِي أُصَلِّيْ.

(بخاری، الصحیح، 1: 226، رقم: 605)

’’نماز پڑھو جیسے تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔ ‘‘

گویا یہ عقیدہ رکھنا کہ صرف قرآن ہی کافی ہے، یہ صحابہ کرام اور اسلام کے خلاف بغاوت ہوگی۔ حضور ﷺ نے یہ تعلیم صحابہ کو دی ہی نہیں تھی کہ قرآن میں آگیا أقِیْمُوْالصَّلْوۃَ تواب ہر صحابی اپنی سمجھ سے اس کا معنی نکالے۔ اس طرح تو جس کو جو سمجھ آتی، وہ، وہی عمل کرتا۔ کوئی کہتا مراقبے میں بیٹھنا صلٰوۃ ہے۔۔۔ کوئی کہتا اللہ اللہ کرتے رہنا صلٰوۃ ہے۔۔۔ کوئی کہتا دل کو اللہ کی یاد میں رکھنا صلٰوۃ ہے۔۔۔ کوئی کہتا دعا یعنی اللہ سے مانگنا صلٰوۃ ہے۔۔۔ الغرض جتنے معانی بنتے ہیں، حسبِ ذوق ہر بندہ اس کو نماز کہہ دیتا۔ پس خاص عبادت کی وہ خاص ہیت جسے حضور ﷺ نے متعین کیا ہے، سمجھایا ہے، پڑھ کر دکھایا ہے اور اس کی تفصیل سے آگاہ کیاہے، وہی الصلوٰۃ ہے۔

پس سنت کے ذریعے ہی لفظ صلٰوۃ کا معنی متعین ہوسکتا ہے۔ جس نے کہا کہ ’’صرف قرآن کافی ہے اور میں قرآن کے سوا کسی چیز کو حجت نہیں مانتا‘‘، وہ دراصل یہ کہہ کر نماز کی فرضیت کا انکاری ہورہا ہے۔ اس نے تاویل باطل کی ہےاور یہ بھی کفر کی ایک صورت ہوگی۔ اس باطل تاویل میں اگرچہ قرآن کا انکار نہ ہوا بلکہ اس کی آیات کو مانا، اس کے کلامِ الٰہی ہونے کو مانا، مگر چونکہ احکام اور آیات کی رہنمائی حضور ﷺ سے نہ لی اور آپ ﷺ کو حجت نہ مانا اور جو اپنے دماغ میں آیا، اس کے مطابق تاویل (رائے) کی تو یہ تاویل باطل ہوئی۔ کفر کی اس شکل کو الحاد کہتے ہیں۔ پس یہ کہنا کہ صرف قرآن کافی ہے اور کوئی شے حجت نہیں، یہ کفر اور الحاد کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہ انکار قرآن ہے۔

2۔ اسی طرح الصوم (روزہ) کا حکم تو قرآن میں موجود ہے مگر اس کی واضح تعریف قرآن میں نہیں ملے گی کہ اس کا طریقہ کیا ہے۔۔۔؟ کن کن چیزوں سے روزہ ٹوٹتا ہےاور کن کن چیزوں سے نہیں ٹوٹتا۔۔۔؟ قرآن ایسی کتاب نہیں ہے کہ ہر ہر شے کی تفصیل بیان کردے۔ اگر ہر شے کے بارے میں یہ کہہ دیں کہ صرف قرآن کافی ہے تو گویا نماز کی طرح روزے سے بھی جان چھوٹ گئی۔ اب ہر کوئی لغت کے مطابق اس کا اپنا اپنا معنی مراد لے گا۔ صوم کا معنی امساک یعنی روکنا ہے۔ کوئی یہ کہہ دے گا کہ قرآن نے بندے کو کہا ہے کہ اپنے آپ کو گالی گلوچ سے روکو۔۔۔ کوئی کہہ دے گا غصے سے روکو۔۔۔ کوئی کہہ دے گا کہ لوگوں کے ساتھ جھگڑے سے روکو۔۔۔ اپنے آپ کو برے خیالات سے روکو۔۔۔ نفسانی خواہشات سے روکو۔۔۔ پس جس کے من میں جو آئے گا، تاویل کرتا رہے گا۔ پس یہ بھی کفر و الحاد ہے۔

3۔ اسی طرح قرآن مجید میں زکوٰۃ کا حکم تو ہے کہ زکٰوۃ دو مگر قرآن مجید میں زکٰوۃ کی تعریف نہیں ملے گی کہ اس کا نصاب کیا ہے؟ مدت کیا ہے؟ کس پر واجب ہے؟ کس شے کی زکوٰۃ ہے اور کس کی نہیں؟ الغرض زکوٰۃ کی تفصیل اور شرائط کا قرآن میں ذکر نہیں ہے۔ پس اگر صرف قرآن ہی کافی ہے تو نماز اور روزہ کے بعد زکوٰۃ سے بھی فارغ ہوگئے۔

4۔ اسی طرح قرآن مجید میں حج کرنے کا حکم تو ہے کہ اللہ کے گھر کا حج کرو مگر حج کرنا کس طرح ہے۔۔۔؟ مناسک حج کیا ہیں۔۔۔؟ ان کی ترتیب کیا ہے۔۔۔؟ یہ تمام تفصیلات ہمیں قرآن مجید میں نہیں ملتیں، وہ لوگ جو صرف قرآن ہی کو کافی قرار کردیتے ہیں، اس سوچ کے ساتھ تو وہ کعبہ کو بھی نہیں مان سکتے۔ اس لیے کہ قرآن نے کعبہ کا ذکر ضرور کیا مگر ہاتھ لگا کر نہیں بتایا کہ اس گھر کا نام کعبہ ہے جس پر کالے رنگ کا غلاف ہے۔ اسی طرح بقیہ مقامات عرفات، منیٰ، مزدلفہ، صفا و مروہ ہیں، ان کا ذکر تو قرآن میں آیا ہے مگر قرآن نے ان کے جغرافیہ کی نشاندہی نہیں کی کہ یہ فلاں فلاں مقام ہے۔ پس صرف قرآن ہی کافی ہے، اس کی رٹ لگانے والے اس سوچ کے ساتھ کعبہ، عرفات، منیٰ ، مزدلفہ، حرم، احرام، میقات الغرض کسی شے کو نہیں مان سکتے۔ یہ جگہیں جو قرآن نے بیان کی تھیں، ان سب کا تعین آقا ﷺ نے کیا ہے۔ یہ تعیناتِ محمدی a ہیں، ان کو آقا ﷺ نے مقرر فرمایا ہے۔

قرآن مجید پر ایمان لانا، اس کے کتابِ الہٰی ہونے کی تصدیق کرنا اور اس کی کسی بھی آیت کا انکار نہ کرنا مگر عبادات، عقائد اور معاملات کے بارے میں قرآن کے احکامات کی تعبیر وتشریح اپنی مرضی سے کرنا، یہ بھی انکارِ قرآن ہی کی صورت ہے

قرآن مجید نے تو مذکورہ عبادات میں سے کسی کو اس طرح تفصیل سے بیان نہیں کیا ہے۔ ان کی تفصیل سنت اور حدیث نبوی ﷺ سے متعین ہوگی۔ اگر سنت و حدیث نبوی ﷺ کا انکار کردیا گیا تو سارا دین، عبادات، عقائد، معاملات ختم ہوجاتے ہیں، اس لیے کہ قرآن مجید ان کی تشریحات اور تعبیرات بیان نہیں کرتا۔ وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ صرف قرآن کافی ہے اورہم کسی شے کو نہیں مانتے وہ غالباً نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ میں سے کوئی عمل ہی نہیں کرتے۔ وہ نام کے مسلمان ہیں، ان کا اصل نام اور عنوان جھوٹ ہے۔

جو لوگ عقیدے کا فیصلہ صرف قرآن کو حجت جان کر محض قرآن سے کرنا چاہتے ہیں، وہ دراصل قرآن کا انکار کررہے ہیں اور انکارِ قرآن پورے دین کاانکار ہے۔ اسی طرح وہ دراصل پورے دین سے گریز اور چھٹکارا چاہتے ہیں۔ دین سے چھٹکارا کے لیے انھوں نے ایک آسان طریقہ اختیار کرلیا کہ نام بھی رہے اور کام سے بھی جان چھوٹ جائے اور یہ کہہ دیا کہ ’’صرف قرآن کافی ہے۔ ‘‘ اس طریقہ سے ان کے اندر دین کی کوئی عملی شکل ہی پیدا نہیں ہوتی، لہٰذا یہ کفر و الحاد ہے۔

یاد رکھیں! جب تک رسول کی اطاعت نہ کی جائے، اُس وقت تک اللہ کی اطاعت کی کوئی شکل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نماز پڑھ کرنہیں دکھائی، روزہ رکھ کر نہیں دکھایا، یہاں آ کرحج کر کے نہیں دکھایا، مال پر زکوۃ دے کر نہیں دکھایا، عقائد کے معاملات ہمیں خود کر کے نہیں دکھائے بلکہ ان چیزوں کے لیے تو اللہ رب العزت نے رسول بھیجے۔ اللہ رب العزت نے احکامات ارشاد فرمائے، ان کی عملی شکل رسول اللہ ﷺ امت کے سامنے پیش کرتے ہیں اور تب دین کی سمجھ آتی ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ کے فرمان، عمل اور حدیث و سنت کو الگ کردیا اور حدیث و سنت کی اتھارٹی کو مسترد کردیا تو مجرد کلام رہ گیا تو اس صورت میں پھر ہر کوئی اپنی مرضی سے معنی نکالتا رہے گا۔ ایسے لوگوں نے پھر اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت سے مرکزی حکومت مراد لے لی۔ یعنی ان کے نزدیک حکومت کے فرامین کو ماننا اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت ہے۔ مرکزی حکومت تو پھر یزید کی بھی تھی، ہر ملک میں مرکزی حکومت ہوتی ہے۔ بتانا مقصود یہ ہے کہ اگر ہر کوئی قرآنی آیات کے معنی اپنی مرضی سے اخذ کرے گا تو اس طرح تو دین بکھر جائے گا۔

شریعت؛ دین اور اسلام کا ایک جسد ہے جو آقا ﷺ کی وضاحت، تفصیل، تعیین، تعبیر اور تشکیل سے مکمل ہوا۔ صحابہ کرامl قدم قدم پر سوال کرتے کہ یارسول اللہ ﷺ ! جو حکم آیا ہے، اس کا کیا معنی ہے۔۔۔؟ یہ کیسے سرانجام دیں۔۔۔؟ پھر آقا ﷺ ان احکامات کی وضاحت و تفصیل عنایت فرماتے اور اس طرح اسلام کا عملی جسد بن گیا اور ایک عملی نمونہ اور نظام معرض وجود میں آگیا، جس پر صحابہ کرامl عمل کرتے تھے۔

دین سے عملاً فرار کی کوششش

’’صر ف قرآن کافی ہے‘‘، اس روش پر گامزن لوگ دین پر عملاً کاربند نہیں ہونا چاہتے۔ وہ حرام کھانا پینا چھوڑنا نہیں چاہتے، حرام کاری چھوڑنا نہیں چاہتے، راتوں کو مخصوص طریقے سے گزارنا چاہتے ہیں، ہر طرح کی محفل سجانا چاہتے ہیں، آداب اور حیاو شرم کی اقدار سے ٹکرانا چاہتے ہیں اور مادر پدر آزاد زندگی چاہتے ہیں۔ اُنہوں نے چونکہ اس سلسلے کو اپنا رکھا ہے اور اپناتے چلے جارہے ہیں، لہذا ’’صرف قرآن کافی ہے‘‘ کا نعرہ بلند کررکھا ہے۔ حدیث و سنت اور احکامِ رسالت کو ترک کرکے دین پر عمل نہ کرنے کی انھیں آسانی سے چُھوٹ مل جاتی ہے، لہذا وہ اپنے مؤقف کو طرح طرح سے پیش کرکے فتنہ پیدا کرتے رہتے ہیں۔

یہ لوگ جب قرآن مجید میں بیان کیے گئے احکام کی تعبیر و تشریح اپنی مرضی سے کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ’’جو شریعت حضور ﷺ نے دی تھی، وہ صرف اسی زمانے کے لیے تھی، وہ دور آج سے چودہ صدیاں پہلے کادور تھا، اُن کا ایک مخصوص کلچر، معاشی، سیاسی اور معاشرتی حالات اور رسوم و رواج تھے اور ان کے مطابق حضور ﷺ نے عمل کر کے دکھایا۔ سو وہ شریعت صرف اُس زمانے کے لیے تھی، اس کے بعد ہمارے لیے نہیں ہے۔ لہذا اب اسلام پر عمل کرنے کی شکل کا تعین پارلیمنٹ کرے گی۔ ‘‘ انہوں نے تصور بنا لیا ہے کہ مجلسِ شوریٰ متعین کرے گی کہ اسلام کے کسی حکم پر عمل کیسے کرنا ہے۔ گویا وہ دین اور عقائد میں بھی جمہوریت لے آئے۔ کہ جس کو چاہیں نماز کہہ دیں، جس کو چاہیں روزہ کہہ دیں، جس حکم کو چاہیں لاگو کردیں اور جس کو چاہیں معطل کردیں۔ اس طرح انھوں نے پارلیمنٹ کو شریعت بنانے والا مقرر کردیا۔ ایسا سوچنے سے دین کی مکمل نفی ہو جاتی ہے۔ آج کے دور میں یہ فتنہ بہت تیزی کے ساتھ پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ لہذا اس پر فکری واضحیت کا ہونا ازحد ضروری ہے۔

محض قرآن کو حجت ماننا از خود قرآنی احکام کا انکار ہے

یہ کہنا کہ ’’صرف قرآن کافی ہے، صرف قرآن کو حجت مانتے ہیں، اس کے علاوہ کسی شے کو حجت نہیں مانتے‘‘، یہ کہنا از خود قرآنی احکام کا انکار ہے۔ قرآن مجید میں تقریباً ڈیڑھ سو آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مختلف الفاظ کے ساتھ اطاعت رسولa، فرمان رسول a، حکم رسول a ، آپ a کے فیصلوں، احکامات، اسوہ، سیرت، اعمال، تشریحات، توضیحات الغرض آپ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے ہر لمحہ کو ایمان، حجت اور واجب العمل قرار دیا ہے۔ گویا یہ کہنا کہ صرف قرآن حجت ہے اور قرآن کے سواکوئی حجت نہیں، یہ کم از کم ڈیڑھ سو آیاتِ قرآنی کا انکار کرناہے۔ ایک آیتِ قرآنی کا انکار بھی کفر ہے، تو ڈیڑھ سو آیات جو صرف اس مضمون پر وارد ہوئی ہیں، اُن کا انکار کرنا پورے دین کا انکار ہے، کیونکہ اس صورت میں حدیث و سنت کی حجت کا انکار ہوتا ہے اور دین کی کوئی عملی شکل ہی وجود میں نہیں آسکتی۔

حجیتِ حدیث و سنت کی اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ اللہ رب العزت خود ارشاد فرمارہا ہے کہ:

یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ.

(النساء، 4: 59)

’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول(ﷺ) کی اطاعت کرو۔‘‘

جوں جوں زندگی اور سوسائٹی میں سیکولرازم اور جدیدیت آ رہی ہے، طرح طرح کے فتنے جنم لے رہے ہیں پہلے ایک الگ اعتقادی فتنہ تھا، لوگ اپنے آپ کو اہلِ قرآن کہتے تھے، منکرینِ حدیث یا منکرینِ حجیتِ حدیث کہلاتے تھے۔ یہ ایک فرقہ، طبقہ اور مکتبہ فکر تھا لیکن اب یہ فتنہ ایک اور رنگ اختیارکر گیاہے۔ اب اس سوچ کے حاملین لادینیت چاہتے ہیں اوردین کو عملاً اپنی زندگی سے خارج کرنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ عملاًا پنی انفرادی، اجتماعی، خاندانی اور معاشرتی زندگی کو دین سے خالی رکھنا چاہتے ہیں لیکن اپنے اوپر مسلمان ہونے کا ٹائٹل بھی برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ ’’اسلام کا کوئی ٹھیکیدار نہیں ہے، ہمارا بھی اسلام پر اتنا ہی حق ہے جتنا دوسرے اہلِ علم کا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو سمجھ دی ہے، دین ہرایک کے لیے ہے، قرآن ہر ایک کے لیے ہے، میں کوئی فاطر العقل تو نہیں ہوں کہ قرآن کو خود پڑھ کر سمجھ نہ سکوں، سب کچھ قرآن میں ہے، لہٰذا اسی پر عمل کرتے ہیں۔ ‘‘اس طرح کے جملے نوجوان نسل کے لیے بڑی کشش رکھتے ہیں۔ اس طرح کے جملوں میں وہ ایک سادہ مسلمان کو کفر، بے ایمانی، لادینیت، گمراہی، حرام خوری، حرام نوشی اور حرام کاری تک پورا سودا فروخت کردیتے ہیں۔ یہ عملاً دین سے بغاوت ہے اور یہ لوگ اپنی عملی زندگی کو دین سے بالکل خالی کرکے چلانا چاہتے ہیں۔

اس پس منظر میں احادیث اور سنت کا انکار کرنے والے لوگ یہ دلیل بھی بیان کرتے ہیں کہ ’’احادیث تو آپ ﷺ کے وصال مبارک کے دو سو سال کے بعد جا کر لکھی گئی ہیں۔ ‘‘ یاد رکھیں کہ یہ جھوٹ ہے۔ جو کہتا ہے کہ احادیث دو سوسال بعدلکھی گئیں، وہ جاہل ہیں، اُنھیں تدوینِ حدیث کی تاریخ کا علم ہی نہیں ہے۔ حدیث حضور ﷺ کے زمانہ اقدس کے اندر آپ ﷺ کی موجودگی میں، آپ ﷺ کی مجلس میں، آپ کے سامنے، آپ ﷺ کی اجازت اور حکم سے صحابہ کرامl نے لکھیں۔ جس طرح قرآن مجید لکھا جاتا تھا، اسی طرح حدیث بھی لکھی جاتی تھی۔

دین پر اتھارٹی کون؟

بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری سوسائٹی میں ہرشخص سائنسدان بھی ہے، سیاست دان بھی ہے، عالم بھی ہے، مفتی بھی ہے، ڈاکٹربھی ہے۔ پاکستا ن میں ہر شخص سب کچھ ہے اور یہاں سب سے بڑا مظلوم دینِ اسلام ہے۔ یہاں ہر شخص مسلمان ہے، مسلمان کے گھر پیدا ہوا ہے، کبھی کبھار نماز جمعہ اور نماز عید پڑھ لیتاہے، اس لیے وہ سمجھتا ہے کہ میرا برابر حق ہے کہ میں دین اسلام پر بھی گفتگو کروں۔ چنانچہ وہ اپنے آپ کو حقدار سمجھ کر اسلام کی تعلیم پر حملہ آور ہوتا ہے۔

اگرکوئی ڈاکٹر ہے تو وہ اپنے فن میں دوسروں کو مداخلت سے روکے گا کہ تم نے ایم بی بی ایس نہیں کیا ہے۔ وہ مداخلت نہیں کرنے دے گا اور یہ بالکل جائز بات ہے۔ جس طرح دوسرے علم والے اپنے مضمون میں مداخلت نہیں کرنے دے رہے تو انھیں بھی دین کے معاملات میں اس طرح کی مداخلت کا حق نہیں ہے۔ ان لوگوں نے دین کہاں سے پڑھا ہے اور قرآن کی تفسیر، حدیث، اصول حدیث، تاریخ حدیث، تاریخ تفسیر، اصول فقہ، قواعد، اصول اعتقاد، صرف و نحو اور عربی ادب سمجھنے کے لیے کتنے سال لگائے ہیں؟

جن لوگوں نے دنیاوی تعلیم کے لیے سولہ، اٹھارہ، بیس، چوبیس سال پی ایچ ڈی کرنے تک پڑھا ان کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے میدانِ علم میں کسی غیر کو مداخلت نہ کرنے دیں مگر پھر یہی حق دین کی تعلیم کے لیے سالہا سال لگانے والوں کو بھی دیں اور دین کے معاملات میں یہ کہہ کر مداخلت نہ کریں کہ ’’دین کا کوئی ٹھیکیدار نہیں ہے، یہ دین ہم سب کے لیے ہے۔ ‘‘ دین کی تعلیم پر تو ان لوگوں نے پچیس سال تو دور کی بات باقاعدہ ایک مہینہ بھی نہیں لگایا۔ صرف انگریزی اور اردو میں دین پر مختلف لوگوں کی لکھی ہوئی کتب پڑھنے سے وہ اس میدان کے ماہر نہیں بن گئے۔ دین بھی ایک علم اور سائنس ہے۔ اس کے اصول اور قواعد ہیں، اس پر ہزار ہا کتابیں لکھی گئی ہیں۔ جیسے عام آدمی کسی ایسے مضمون پر گفتگو نہیں کرسکتا، جس پر اسے تخصص حاصل نہیں، اس طرح دین پر بھی بات کرنا ہر ایک کے بس میں نہیں ہے۔ کسی بھی خاص علم پر مہارت حاصل کرنے کے لیے اساتذہ ، کتابیں اور ایک عمر درکار ہوتی ہے۔ اُن اصولوں کو پڑھتے پڑھتے آدمی ایک مقام پر پہنچتا ہے۔ بالکل یہی معاملہ دین کے اعتبار سے بھی ہے۔ کیا صرف دینِ اسلام ایک ایسا رہ گیاہے کہ ہرشخص قرآن کا اپنا ایک معنی کردیتا ہے اور کہتا ہے کہ ایسا کرنا میرا حق ہے۔

یاد رکھیں کہ یہ جملے بولنا کہ ’’اسلام پر کسی کی اجارہ داری نہیں‘‘، ’’اسلام کا کوئی ٹھیکیدار نہیں‘‘، ان کامطلب یہ ہے کہ اسلام میں ہندو ازم کی طرح کا کوئی تصور نہیں ہے کہ جیسے ان کی مذہبی تعلیمات کا حصول صرف برہمن کا حق ہے۔ اسلام میں ایسا نہیں ہے کہ اسلام پر فلاں قبیلے، فلاں برادری اور فلاں طبقات کا قبضہ ہے بلکہ یہاں اونچ نیچ کا فرق نہیں ہے اور قرآن کا علم ہر کوئی بغیر کسی علاقہ، نسل، برادری کی تفریق کے حاصل کرسکتا ہے۔ غریب بھی اس کی تعلیم حاصل کر سکتا ہے اور امیر بھی حاصل کرسکتا ہے۔ ہر شخص کو حق ہے کہ قرآن کی تعلیم حاصل کرے۔ جیسے ہرشخص سکول ٹیچر بن سکتا ہے، انجینئر بن سکتاہے، ڈاکٹر بن سکتا ہے، جج بن سکتاہے، جو جس فیلڈ میں جتنی محنت کرے گا، وہ بن سکتاہے، اسی طرح جو محنت کرے گا وہ عالم، مفتی، مفسر اور محدث بھی بن سکتاہے۔ یہ معنی ہے اس جملے کا کہ ’’علمِ دین پر کسی طبقے کا ٹھیکہ نہیں ہے۔ ‘‘ اس جملے کا یہ معنی نہیں ہے کہ کوئی قرآن، حدیث، تفسیر پڑھنے پر دو دن بھی نہ لگائے اور پھر محدث بھی کہلائے، مفسر بھی بنے، فتویٰ بھی دے، رائے بھی قائم کرے اور قرآن کی آیات کی شرح بھی بیان کرے۔ یہ سراسر ظلم، بدیانتی اور خیانت ہے۔ دین کسی خاص خاندان قبیلے کی میراث نہیں ہے، یہ پوری امت کے ہر انسان کے لیے عام ہے۔ جو چاہے اس کا علم حاصل کرے، اس پر عمل کرے اورجتنے درجے اوپر چاہے بڑھتا چلا جائے۔ صحابہ کرامl کے بعد تابعین کے زمانے میں بے شمار ائمہ ایسے تھے جو اصلاً مختلف قبائل کے آزاد کردہ غلام تھے مگر علم حدیث، علم تفسیر اور علم فقہ میں امام بنے اور بڑے بڑے مقام تک پہنچے۔ آزاد قبائل کے بڑے بڑے رہنما، رہبر اور سردار اُن کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرتے اور ادب سے جھکتے تھے۔ اسلام پر کسی کاٹھیکہ نہیں ہے، اس کا معنی یہ ہے کہ خواہ کسی غلام کا بچہ ہو یا کسی آزاد کا، غریب کا بچہ ہو یا امیر کا، عام آدمی ہو یا خاص، جو شخص بھی علم دین میں جس قدر محنت کرے گا، وہ علم اور عمل میں اونچے سے اونچے مقام تک جا سکتا ہے۔

ایسا نہیں ہوسکتا کہ چونکہ کلمہ پڑھ لیا ہے، اسلام پر احسان کردیا ہے، لہذا اب وہ بھی دین کا ٹھیکیدار بن گیا ہے۔ علومِ دینیہ کو حاصل کیے بغیر اور اس میں محنت کیے بغیر دین پر بات کرنے والے اور اس کی تعبیر و تشریح کرنے والے اصل میں ’’ٹھیکیدار‘‘ تو یہ بن رہے ہیں کہ بغیر پڑھے لکھے سمجھتے ہیں کہ ہم قرآن کی شرح کریں گے، فتویٰ دیں گے اور اپنی رائے دیں گے۔ یہ زیادتی ہے اور ناقابلِ قبول عمل ہے۔

(جاری ہے)