اسلام توازن ، اعتدال اور عدل کا دین ہے، زندگی کا کوئی شعبہ بھی ایسا نہیں جس کے بارے میں قرآن و سنت میں بنی نوعِ انسانیت کو رہنمائی نہ دی گئی ہو۔ اسلام نے سیاست، معاشرت کے ساتھ ساتھ معیشت کے شعبہ پر بھی سیر حاصل رہنمائی مہیا کی ہے۔ اسلام اجتماعیت کا دین ہے جو افراد کی بجائے اجتماع کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے، اسلام نے جہاں عالم، استاد، طالب علم، سیاست دان، سپہ سالار ، قاضی، کسان کیلئے حقوق و فرائض کا تعین کیا ہے وہاں صاحبِ حیثیت افراد کے لئے بھی حقوق وفرائض متعین کیے ہیں۔ اسلام کا معاشی نظام فرد کی بہبود سے عبارت ہے۔ اسلام نے تصورِ مال، تصورِ ملکیت، معاشی عدل اور حلال و حرام کی تمیز کے بارے میں صراحت کے ساتھ احکامات دئیے ہیں۔
اسلام غریبوں کی بحالی، عزت اور ترغیبِ محنت کے رہنما اصولوں سے بھی مزین ہے۔ اسلام نے ہر شہری کو معاشرتی ضمانت، راحت و سکون اور معیشت کے تحفظ کی ضمانت دی ہے۔ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق ؓ ایک یہودی کے پاس سے گزرے جو کہ لوگوں سے بھیک مانگ رہا تھا انہوں نے اسے ڈانٹا اور اس سے پوچھا کہ کس چیز نے اسے بھیک مانگنے پر مجبور کیا ہے؟ جب یہ ثابت ہو گیا کہ وہ کسی مجبوری کی وجہ سے بھیک مانگ رہا ہے تو حضرت عمر فاروق ؓ اسے اپنے گھر لے گئے اور کچھ مال دیا اور اس سے جزیہ ختم کر دیا۔ یعنی اسلام فرد کے معاشی مسائل سے لاتعلق دین نہیں ہے، اسی لئے صدقہ و خیرات کی جگہ جگہ فضیلت بیان کی گئی ہے اور زکوۃ کی ادائیگی کو شرط قرار دیا گیا ہے، اس کا مقصد ارتکاز دولت کو ختم کرنا اور لوگوں کو صاحبِ حیثیت افراد کے مال میں حصہ دار بنانا ہے۔ اسلام انسانیت کی فلاح و بہبود کا مذہب ہے اور اس میں زکوٰۃ اور صدقے کے ذریعے غریبوں، ناداروں اور حاجت مندوں کی مدد کا باقاعدہ نظام وضع کیا گیا ہے۔
زکوٰۃ سال میں ایک مرتبہ دی جاتی ہے اور اس کا ایک باقاعدہ نصاب ہے جبکہ صدقہ سال کے تمام دن کسی بھی مقدار میں دیا جا سکتا ہے۔ قرآن حکیم میں صدقات و خیرات کا ذکر کئی مقامات پر آیا ہے اور جہاں بھی صدقات، خیرات کی آیات آئی ہیں وہاں اسلامی عقائد اور عبادات کا ذکر پہلے ہوا ہے۔ فرد کی معاشی بہبود کی ناگزیریت اللہ تعالیٰ کے اس حکم سے ثابت ہوتی ہے کہ اصل نیکی اس میں نہیں کہ تم اپنا منہ مشرق کی طرف کر لو یا مغرب کی طرف بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ لوگ اللہ پر ایمان لائیں اور قیامت کے دن پر، فرشتوں پر اور اللہ کی کتابوں پر اور تمام پیغمبروں پر اور اللہ کی محبت میں اپنے رشتہ داروں، یتیموں، غریبوں، مسافروں اور سوال کرنے والوں کو مال دیں۔
پاکستان سمیت اسلامی ممالک میں ہر سال سرکاری سطح پر اربوں، کھربوں روپے کی زکوۃ جمع ہوتی ہے۔ اگر ہم پاکستان کی مثال لیں تو ہر سال 7ارب روپے سے زائد سرکاری سیکٹر میں بنکوں کے ذریعے زکوۃ جمع کی جاتی ہے اور نجی سطح پر ایک ہزار ارب سے زائد زکوٰۃ کی تقسیم ہوتی ہے لیکن لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ اتنی بڑی رقم تقسیم ہونے کے باوجود پاکستان میں غربت اور بھیک مانگنا کم نہیں ہورہا، آخر اس کی وجہ کیا ہے۔۔۔؟ یہ ایک ایسا اہم سوال ہے جس پر منہاج یونیورسٹی لاہور نے اسلامی فنانس ورچوئل فورم 2020ء کے زیر اہتمام آن لائن بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا۔ اس کانفرنس میں منہاج یونیورسٹی لاہور کے ڈپٹی چیئرمین ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے انتہائی اہم خطاب کیا اور اعلامیہ پیش کیا جسے بے حد سراہا گیا۔ منہاج القرآن انٹرنیشنل کے صدر اور منہاج یونیورسٹی لاہور کے بورڈ آف گورنرز کے ڈپٹی چیئرمین ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے ’’کورونا وائرس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشی بحران اور اسلامک فنانس کے ذریعے اس کے حل‘‘ کے موضوع پر اسلامک فنانس ورچوئل فورم (آئی ایف وی ایف ) کے زیر اہتمام منعقدہ آن لائن بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے 22کروڑ آبادی والے ملک میں 12کروڑ افراد خط غربت کی لکیر کے نیچے جا سکتے ہیں۔ زکوٰۃ و عشر ڈیپارٹمنٹ ’’سمیڈا‘‘ سے ملکر بیروزگار افراد کو کاروباری اشیاء کی شکل میں مالی مدد دے کر موجودہ وسائل کے ذریعے 5سال میں ڈیڑھ کروڑ افراد کو برسرروزگار لا سکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا گورنمنٹ سیکٹر ہر سال 7 ارب سے زائد زکوٰۃ جمع اور تقسیم کرتا ہے اور ایک ہزار ارب روپے کی زکوۃ نجی سطح پر جمع اور تقسیم ہوتی ہے۔گورنمنٹ کے اداروں نے زکوٰۃ کے مصارف شادی بیاہ کے اخراجات اور بلائنڈ شہریوں کی مدد کے حوالے سے جو مصارف بیان کررکھے ہیں اول تو اس مد میں یہ رقم استعمال ہوتے ہوئے نظر نہیں آئی اور دوسرا ان غیر سنجیدہ مصارف کی وجہ سے صاحب نصاب حکومتی اداروں کو زکٰوۃ دینا پسند نہیں کرتے کیونکہ زکوٰۃ کی تقسیم کے نظام پر عام آدمی کااعتماد نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ نجی سطح پر ایک ہزار ارب روپے کی زکوۃ جمع اور تقسیم ہوتی ہے، نجی سطح پر بھی یہی ماڈل اختیار کرنا چاہیے۔ صاحب حیثیت افراد یادرکھیں کہ زکوٰۃ کی رقم کے حصے کر کے چار یا پانچ ہزار کسی کو دینے سے کسی کی غربت ختم نہیں ہوتی، اس لئے ایک خاندان کے افراد طے کر لیں کہ وہ زکوٰۃ کی مجموعی رقم سے کسی ایک شخص کو پاؤں پر کھڑا کریں گے تاکہ وہ آئندہ سال زکوٰۃ لینے والوں میں سے نہیں دینے والوں میں سے ہو۔ عشر و زکوۃ کی مد میں جمع ہونے والے وسائل غربت و بیروزگاری کے خاتمے کے لئے استعمال کیے جائیں۔ یہ بات بڑی اہم ہے کہ کسی کو نقد رقم نہ دی جائے، اہلیت اور تربیت کے مطابق کاروباری اشیاء خرید کر دی جائیں تاکہ وسائل کا غلط استعمال نہ ہو اور جو شخص کاروبار کرے گا وہ یقینی طور پر آسان اقساط کی صورت میں لیا گیا غیر سودی قرض واپس بھی کر سکے گا۔
انہوں نے کہا کہ پبلک پرائیویٹ سیکٹر کے ذریعے بھی یہ کامیاب تجربہ کیا جا سکتا ہے اور اس مقصد کیلئے المواخات اسلامک مائیکرو فنانس اور اخوت جیسے اداروں کی مددحاصل کی جاسکتی ہے۔ زکوۃ کی تقسیم کے موجودہ نظام کے ذریعے غربت کم ہوئی اور نہ زکوۃ لینے والوں میں کمی آئی اور زکوۃ کی تقسیم کے نظام پر سنجیدہ سوالات بھی موجود ہیں۔ اسلام کا معاشی تصور غربت کے خاتمے پر زور دیتا ہے۔
آن لائن کانفرنس میں جسٹس(ر) مفتی تقی عثمانی، بحرین سے شیخ ابراہیم بن خلیفہ، منہاج یونیورسٹی لاہور سے ڈاکٹر حسین محی الدین قادری، کیمبرج انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک فنانس یوکے سے مسٹر جلیل علوی، ڈاکٹر بیلولال، ڈاکٹر سامی السویلیم، خالد القائد، عمان سے شمزانی حسین، مسٹر مغیث شوکت و دیگر نے حصہ لیا ۔ آن لائن کانفرنس میں بینکنگ سیکٹر اوراسلامک مائیکرو فنانس کا تجربہ رکھنے والی نامور شخصیات بھی شریک تھیں۔ کانفرنس کا انعقاد اسلامک فنانس ورچوئل فورم 2020ء کی طرف سے ہوا۔ اس میں اکاؤنٹنگ اینڈ آڈیٹنگ آرگنائزیشن فار اسلامک فنانشل انسٹیٹیوشنز بحرین، منہاج یونیورسٹی لاہور، اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹیٹیوٹ جدہ، کالج آف بینکنگ اینڈ فنانشل سٹڈیز اومان شریک تھے۔