حضرت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ چمنستان مصطفوی کے ایک ایسے سرمدی پھول تھے جن کی زندگی کی شام ہوئے ایک عرصہ بیت گیا لیکن ان کے سیرت و کردار کی خوشبو اور ان کا جاری و ساری علمی و روحانی فیضان آج بھی مشام جاں کو معطر اور قلوب و اذہان کو منور کررہا ہے۔
ظاہری و باطنی علوم کا حصول
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے والد گرامی قدر حضرت فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ نے سلف صالحین کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے حصولِ علم و عرفان کے لیے جھنگ سے سیالکوٹ، لکھنو، حیدر آباد دکن اور بعد ازاں شرق اوسط کے طویل سفروں کی صعوبتیں اٹھائیں۔ گھر کے عیش و آرام کو چھوڑ کر ہر دیس کی مشکلات برداشت کیں، فقر و فاقہ اور بے آرامی کو خندہ پیشانی سے قبول کیا اور اپنے دور کے جید اور مشاہیر علماء اور مشائخ سے استفادہ کرتے ہوئے علومِ دینیہ اور فنِ طب میں مہارت پیدا کی اور باطنی فیوضات حاصل کیے۔
امتِ مسلمہ اپنے دورِ زوال کے آغاز میں تعلیمی انحطاط کا شکار ہوئی۔ حضرت فرید ملتؒ کو اس کا شدت سے احساس تھا، اس لیے آپ نے حصولِ تعلیم پر خصوصی توجہ دی۔ آپ تحقیق وتصنیف کے فن میں ماہر تھے۔ علم و مطالعہ میں پختگی اور علومِ دینیہ سے جدید مسائل کے استنباط و استخراج پر آپ ملکہ رکھتے تھے۔ درس و تدریس میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ آپؒ کے حافظہ کا یہ عالم تھا کہ چالیس برس پہلے کی پڑھی ہوئی کتاب کا حوالہ بھی من و عن دیتے اور دیکھنے پر ذرا برابر فرق نہ ہوتا۔
فرید ملتؒ کے اساتذہ اور مشائخ کی فہرست پر نظر ڈالی جائے تو ایک طرف برصغیر میں علامہ محمد یوسف سیالکوٹیؒ، مولانا عبدالحئی فرنگی محلی، مولانا بدر عالم میرٹھی، حضرت مولانا سردار احمد قادریؒ، حضرت ابوالبرکات سید احمد قادریؒ، جیسے متبحر علما کے اسمائے گرامی سامنے آتے ہیں تو دوسری طرف عرب دنیا کے حضرت مولانا عبدالشکور مہاجر مدنی، الشیخ علوی بن عباس المالکی اور شیخ محمد الکتانی الشامیؒ جیسے جید ماہرین علوم حدیث نظر آتے ہیں۔ علمِ طب میں آپ نے حکیم عبدالوہاب نابینا انصاریؒ، شفاء الملک حکیم عبدالحلیم لکھنوی، ڈاکٹر عبدالعزیز لکھنوی، حکیم محمد ہادی رضا اور حکیم محمد حسین رضا سے بھرپور استفادہ کیا۔
آپ نے اپنے معاصر علماء کے برعکس نئے دور کے تقاضوں کے مطابق جدید علوم کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان میں بھی کمال حاصل کیا۔ آپ نے طب یونانی میں شفاء الملک حکیم عبدالحلیم لکھنوی سے تلمذ حاصل کیا، انہوں نے آپ کو اپنا بیٹا (متبنیٰ) بنالیا اور پانچ سال اپنے پاس رکھ کر خصوصی تربیت دی۔ آپ نے حیدر آباد دکن میں حکیم عبدالوہاب نابینا انصاری سے نبض میں تخصص حاصل کیا۔
علومِ دینیہ اور طبی علوم کے حصول کے ساتھ ساتھ فرید ملت وادیٔ تصوف میں بھی گامزن رہے۔ وقت کے مشاہیر صوفیاء کی خدمت میں حاضر ہوکر روحانی استفادہ کرتے رہے ۔
عملی کاوشیں
حضرت فرید ملتؒ عملی جدوجہد پر یقین رکھتے تھے، آپ کی اِحیائے اسلام کے لیے کاوشیں صرف علمی و تحقیقی میدان تک ہی محدود نہ تھیں بلکہ آپ نے عملی میدان میں نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ آپ سیاسی و مذہبی ہر دو پلیٹ فارمز پر سرگرمی سے شریک ہوئے۔آپ دوران تعلیم دو مرتبہ لکھنو سے حکیم الامت علامہ اقبال سے ملاقات کے لیے لاہور آئے۔ زمانہ طالب علمی میں تحریک پاکستان میں کام کرتے رہے۔ کثیر علماء و مشائخ کے ساتھ رابطہ رہتا، دو مرتبہ پیر مہر علی شاہؒ کی خدمت میں بھی حاضری دی اور معاصر علمائے کرام کے ساتھ اکثر علمی مباحث ہوتی رہتیں۔ بڑے بڑے اہم مسائل پر حوالہ جات کے لیے اور اعتراضات کے رد کے لیے علمائے کرام ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔ جس مسئلہ پر وہ خطاب کرتے تھے اس مسئلے پر ان کا خطاب فیصلہ کن تسلیم کیا جاتا تھا۔
خطیبِ بے بدل
حضرت فرید ملتؒ صاحبِ طرز خطیب تھے، آپ فقہی، اصولی، منطقی اور معانی کی معلومات و مباحث کے بند قبا اس طرح کھول کر بیان کرتے کہ انسان دنگ رہ جاتا۔ یہ بھی آپ کے علمی مقام کا امتیاز تھا کہ جن جن مقامات و اجتماعات میں آپ کا جانا ہوتا ان میں آپ کا خطاب ہوتا اور اکثر آخری خطاب ہوتا۔ آپ اردو اور پنجابی میں انتہائی روانی کے ساتھ خطاب کرتے لیکن جب مثنوی شریف پڑھتے تو سُر اور طرز کے ساتھ لے میں پڑھتے تھے۔ آپ دینِ اسلام کی اصل روح کی ترویج اور شانِ رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بابت پائی جانے والی بدعقیدگی ختم کرنے کے لیے اکثر دینی و علمی مجالس میں شرکت کرتے اور لوگوں کے ذہنوں پر پڑی تشکیک کی گرد دور کرتے۔ جن احباب کو ان کا خطاب سننے، ان کی مجلس میں بیٹھنے، ان کے دلائل سننے اور استدلال جاننے کا موقع ملا ہے وہ گواہ ہیں کہ وہ جس مسئلہ پر خطاب کرتے ایسا لگتا کہ اب اس مسئلہ پر گفتگو کی ضرورت ہی نہیں، وہ فیصلہ کن اور حتمی خطاب ہوتا۔ شیخ الحدیث مولانا محمد اشرف سیالوی بیان کرتے ہیں:
’’حضرت علامہ ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کی خدمت میں حاضری اور استفادہ کا زیادہ موقع نہ مل سکا لیکن جو مختصر سا وقت ان کی صحبت میں بیٹھنے اور ان کے ارشاداتِ عالیہ اور خطابِ دل نواز سننے کا ملا اس نے ہمیشہ کے لیے ان کا گرویدہ بنادیا اور ان کی عظمت کے اَن مٹ نقوش دل و دماغ پر ثبت اور منقش ہوکر رہ گئے۔ آپ کا انداز عام خطباء اور مقررین کے اسلوب و انداز سے بالکل منفرد تھا کہ آپ صرف اپنے مفید مدعا دلائل و براہین کے بیان پر اکتفاء نہ فرماتے بلکہ اس پر وارد ہونے والے اشکالات و اعتراضات کا بھی خود ہی ذکر فرماتے اور پھر ایسا جواب دیتے جو موجب اطمینان اور مورثِ ایقان ہوتا‘‘۔
سفر ہائے فرید
حضرت فرید ملتؒ نے سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ کے حکمِ الہٰی کے تحت خطہ ارضی کے بیشتر حصوں کی سیر کی تاکہ قدیم و جدید علوم و رجحانات سے آگہی ہونے کے ساتھ ساتھ قومی و بین الاقوامی ویژن میسر آئے کیونکہ یہی خصوصیات آپ نے سائنس و ٹیکنالوجی کی موجودہ صدی کی عالم گیر تجدیدی و احیائی تحریک کی قیادت میں منتقل کرنا تھیں۔ آپ کے ان اَسفار کا مقصد کبھی شیخِ طریقت کی تلاش ہوتا۔۔۔ تو کبھی روحانی اسرار و معارف سے شناسائی۔۔۔ کبھی دینی علوم کا حصول ہوتا تو۔۔۔ کبھی دنیاوی علوم تک رسائی۔ آپ نے ایران کے مختلف شہروں کی سیر کی جن میں زاہدان، مشہد مقدس، نیشا پور، شہرود، بسطام، خرقان، سمنان، تہران، قم، اصفہان، شیراز قابل ذکر ہیں۔ وہاں آپ نے حافظ شیرازی، شیخ سعدی، شیخ ابو عبداللہ خفیف اور قرآن حکیم کی بے مثل روحانی و عرفانی تفسیر ’’عرائس البیان فی تفسیر القرآن‘‘ کے مصنف شیخ روز بہان بقلی شیرازی کے مزارات پر بھی حاضری دی۔ آپ بصرہ (عراق) میں سیدنا زبیر بن العوامؓ، سیدنا انس بن مالکؓ، سیدنا حضرت طلحہؓ اور امام حسن بصریؓ کے مزارات پر بھی حاضر ہوئے۔ بغداد شریف میں سیدنا غوث الاعظمؓ کی بارگاہ میں کئی بار حاضر ہوئے۔ اسی طرح کئی بار ترکی، شام میں اکابر کے مزارات کی زیارات بھی آپ کا معمول تھا۔
اوصافِ جمیلہ
فرید ملتؒ کا خمیر عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اٹھایا گیا تھا۔ عشق ہی اعلیٰ اوصاف اور اخلاق حمیدہ کا سرچشمہ ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری فرماتے ہیں کہ قبلہ والد گرامی کو رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اس قدر والہانہ عشق تھا کہ ہمہ وقت ماہی بے آب کی طرح تڑپتے۔ جونہی آپ سرکار مدینہ کا اسم گرامی سنتے ان کی آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگ جاتی۔ زبان اس محبوبِ خدا کے تذکار جلیلہ سے تر رہتی۔ کثرت کے ساتھ درود شریف پڑھنا آپ کا وظیفہ حیات تھا۔ روزانہ تہجد کے وقت مدینہ طیبہ کی طرف رخ کرکے قصیدہ بردہ شریف پڑھا کرتے۔ اس قصیدہ کے ۱۶۰ اشعار آپ کو از بر تھے۔ عشق و مستی میں بعض اشعار کئی کئی مرتبہ دہراتے اور اس قدر روتے کہ ہچکی بندھ جاتی۔
عشقِ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور نسبتِ مصطفوی کا اعجاز تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے شمار اخلاقی اوصاف جمیلہ سے مزین فرمادیا تھا۔ صدق و اخلاص، تسلیم و رضا، فقر و قناعت، زہد وورع ، صبر و استقامت اور عبادت و ریاضت میں آپ سلف صالحین کا کامل نمونہ تھے۔ آپ کے اخلاق حمیدہ کی تفصیل کے لیے کئی دفتر درکار ہیں۔
فرید ملت کی پوری زندگی درویشی اور فقرو استغنا کا مرقع تھی۔ ظاہر بینوں کو وہ سطح سمندر کی طرح پرسکون نظر آتے۔ گویا کار زارِ حیات کے ہنگاموں سے انہیں کوئی غرض نہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں غناء قلب کے ساتھ ساتھ درد مندی و دلسوزی کی دولت بھی عطا کررکھی تھی۔ ان کے شب و روز اقبال کے اس شعر کا مصداق تھے۔
اسی کشمکش میں گزریں میری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و ساز رومی کبھی پیچ و تاب رازی
دعائے فرید
یہ کیسا درد تھا جس نے اس مرد مومن کو بے چین کررکھا تھا۔۔۔ وہ کیا غم تھا جس نے ان کے باطنی سکون کو تہ و بالا کردیا تھا۔۔۔؟ یہ درد ملت اسلامیہ کا درد تھا اس کی درماندگی، پستی اور زبوں حالی کا درد۔ اس کی کم نظری اور کوتاہ ہمتی کا درد جو انہیں اندر ہی اندر کھائے جارہا تھا۔ عشق رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ بدیہی تقاضا بھی تھا کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیاری امت کا درد دل کی گہرائیوں میں محسوس کرتے اور اس کے مداوا کے لیے فکر مند ہوتے۔ چنانچہ ان کی زبان ذکر میں شاغل رہتی تو دل امت کی سرفرازی اور عظمت رفتہ کی بازیابی کے لئے فکر مند رہتا۔
رحمتِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے ساتھ محبت، دردمندی و دلسوزی اور اخلاص بارگاہ ربوبیت میں قبول ہوئی۔ ان کے باطن سے امید کی ایک کرن پھوٹی جس نے ایک زندہ تمنا عطا کرکے ان کے دل کو گرمادیا۔ اس روشنی نے ان کی دعائوں اور میدان عمل کو ایک نئی جہت عطا کردی اور پھر وہ عرضِ تمنا کے لئے 1948ء میں حرمِ کعبہ میں حاضر ہوئے اور مقامِ ملتزم پر غلاف کعبہ کو تھام کر بارگاہِ ربوبیت میں ایسے فرزند کی دعا کی جو امت مسلمہ کے حوالے سے ان کے خوابوں کی تعبیر بن سکے۔
مقامِ ملتزم پر غلافِ کعبہ کو تھامتے ہوئے آنسوئوں کی برسات میں دل کی تمنا زبان سے دعا بن کر نکلنے لگی:
’’باری تعالیٰ! ایسا بچہ عطا کر جو تیری اور تیرے دین کی معرفت کا حامل ہو۔۔۔ جو دنیا اور آخرت میں تیری بے پناہ عطا و رضا کا حق دار ٹھہرے۔۔۔ اور فیضانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہرہ ور ہوکر دنیائے اسلام میں ایسے علمی و فکری اور اخلاقی و روحانی انقلاب کا داعی ہو جس سے ایک عالم متمتع ہوسکے‘‘۔
تو اس بارگاہ بے کس پناہ سے کعبہ شریف میں کی گئی دعا کو نویدِ قبولیت عطا ہوئی اور اس نوید کا نام ’’محمد طاہر‘‘ تجویز ہوا۔
وہ محمد طاہر آج پورے عالم کے سامنے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے نام سے رحمتِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نوید کی زندہ تعبیر ہے اور قومی اور بین الاقوامی سطح پر پسی ہوئی ملت اسلامیہ کے درد کی آواز بن کر باطل، استحصالی اور اسلام دشمن قوتوں کے بالمقابل اپنی شبانہ روز جدوجہد میں مصروفِ عمل ہے۔
فرزند ارجمند کی تربیت کا خصوصی اہتمام
حضرت فرید ملت اپنے وقت کے صوفیاء کی جماعت کے فرد فرید تھے۔ بارگاہ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خوشخبری ملنے کے بعد تو انہوں نے زندگی کا ایک ایک لمحہ اپنے خوابوں کی تعبیر کے لئے وقف کردیا۔ حضرت فرید ملتؒ جس خزینہ معرفت سے اللہ تعالیٰ کے خصوصی لطف و کرم کے ذریعے فیض یاب ہوکر روحانیت کے اعلیٰ مقامات پر فائز ہوچکے تھے۔ آپ کی دلی خواہش تھی کہ یہ دولتِ عظمیٰ ان کے فرزندِ ارجمند کو بھی نصیب ہو، اس لیے انہوں نے محمد طاہر کو بچپن سے ہی اپنی نگرانی میں باقاعدہ اور مسلسل تربیتی مراحل سے گزارا۔ اپنی صحبت و تربیت کے زیر اثر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق و محبت، دینِ اسلام کی چاہت و رغبت، روحانی اعمال کے ساتھ قلبی لگائو، یہ تمام چیزیں بچپن ہی سے ان کے اندر راسخ کردی تھیں۔
انہوں نے امتِ مسلمہ کو ایک مسیحا اور جاندار قیادت مہیا کرنے کے لئے اپنے جذبِ دروں اور علم و دانش کی تمام تر صلاحیتوں کو صرف کر ڈالا۔ حکیم الامت علامہ محمد اقبال فرماتے ہیں کہ جب عشق اور دانش ایک دوسرے کے معاون بن جائیں توایک نئی دنیا عالم وجود میں لاسکتے ہیں۔
عشق چوں بازیر کی ہم برشود
نقشبندِ عالمِ دیگر شود
سو ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ نے ملتِ اسلامیہ کو ایسی قیادت مہیا کرنے کے لئے اپنی زندگی کے شب و روز جس طرح گزارے وہ ایک الگ ولولہ انگیز اور ایمان افروز داستان ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مستقبل کا مورخ یہ فیصلہ کرنے میں ذرا بھر تامل نہیں کرے گا کہ ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ تائید ایزدی اور رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر کرم سے اپنے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے اور اپنے عشق اور دانش سے ایک نیا عالم تخلیق کرنے میں کامیاب رہے۔
حضرت فرید ملتؒ کی شخصیت ہمارے لیے آج بھی ایک مینارۂ نور ہے۔ آپ کا کردار اور تعلیمات ہمارے جذبہ علم و عمل کے لیے مہمیز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ کو خراج تحسین پیش کرنے کا صحیح طریقہ یہی ہے کہ ہم اپنے آپ کو اس منزل کے حصول کے لیے کلیتاً وقف کردیں جس کا خواب حضرت فرید ملتؒ نے دیکھا تھا اور جس کے لیے ان کے شب و روز اور سوز و گداز وقف تھے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی زندگی کے احوال پر نظر کریں اور اُن ہستیوں کی طرف دیکھیں جو مر کر بھی زندہ ہوگئیں اور جنہیں بارگاہ الہٰی میں کامرانی نصیب ہوئی۔
ہمیں یہ عہد کرلینا چاہئے کہ ہم بھی اپنی زندگی میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو راضی کرنے کی کوشش کریں۔ یہ رضا اُس وقت تک میسر نہیں آسکتی جب تک ہم اپنے آپ کو گناہوں اور رذائل سے پاک کرتے ہوئے تقویٰ، صدق، اخلاص، محبت و طاعت الہٰی اور عشق و اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور سے منور نہیں کرلیتے۔ جب ایسا تعلق قائم ہوجاتا ہے تو ہر قدم پر آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود رہنمائی فرماتے ہیں۔ لہذا ہمیں اپنی اصل سے رابطہ قائم کرتے ہوئے حضرت فرید ملتؒ کی اصل آرزوئے انقلاب کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔
حضرت فرید ملتؒ کی خدمات کے اعتراف میں جھنگ میں آپ کی رہائش گاہ کو فریدیہ ٹرسٹ بنایا جاچکا ہے۔ انہیں خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ پر ’’فرید ملتؒ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘‘ قائم کیا گیا ہے جہاں محققین ہمہ وقت اسلام کے مختلف گوشوں پر تحقیق میں مصروف رہتے ہیں۔ شیخ الاسلام کی تمام کتب اسی انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام شائع ہوتی ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ میں ایک بے مثال لائبریری موجود ہے جہاں حضرت فرید ملتؒ کے زیر مطالعہ رہنے والی کتب کا الگ سیکشن بھی بنایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ اس گلشن فرید کو تاقیامت باثمر رکھے اور متلاشیانِ علم و حکمت کی سیرابی کا مرکز رہے۔