دنیا عالمِ اَسباب ہے۔ یہاں ہر مسئلہ اور مصیبت کا کوئی نہ کوئی سبب ہے اور اُس کا حل بھی اِسی عالمِ اَسباب سے میسر آتا ہے۔ آج دنیا کورونا وائرس جیسی مصیبت سے نبرد آزما ہے۔ فی الحال اس کے پھیلاؤ کا سبب تو معلوم ہے لیکن اس سے بچاؤ کے اَسباب میسر نہیں ہیں۔ لیکن قوی اُمید ہے کہ اِن شاء اﷲ جلد اس کا حل بھی نکل آئے گا۔ کورونا وائرس کے مضمرات میں سے ہے کہ یہ مسئلہ اپنے ساتھ کئی دیگر مسائل کو بھی جنم دے رہا ہے۔
کورونا وائرس (Covid–19) کے باعث کاروبارِ زندگی معطل اور نظامِ زندگی مفلوج ہو چکا ہے۔ عالمِ اِنسانیت کو اِس کی بنا پر جو اَہم مسائل درپیش ہیں اُن میں سب سے بڑا مسئلہ وقت کے صحیح اِستعمال اور اسے مفید بنانے سے متعلق تھا۔ سوال یہ تھا کہ فارغ وقت کیسے گزارا جائے؟ لوگ social distancing میں خود کو ایک دوسرے سے علیحدہ کیے ہوئے ہیں، کاروبارِ دنیا بھی بند ہے اور گھروں میں بیٹھنے کی وجہ سے وقت کی فراوانی بھی ہے۔ لیکن اس وقت کا بہترین مصرف کیا ہو؟ آج سے تین ماہ قبل جب پاکستان میں بھی اس وائرس نے اپنے پنجے گاڑنا شروع کیے تو پاکستانی قوم کو اِحساس ہوا کہ اِس نامراد مرض کی ویکسین تاحال ایجاد نہیں ہوئی۔ قبل ازاں مختلف ممالک میں کورونا وائرس اپنی تباہی پھیلا رہا تھا اور پاکستانی قوم اس کا تمسخر اُڑانے میں مصروف تھی۔ اِس صورت حال میں پاکستانی قوم کو بھی quarantine اور isolation جیسے الفاظ سے شناسائی ہوئی۔ وقت کے صحیح استعمال کا مذکورہ مسئلہ یہاں بھی درپیش تھا، لیکن اگر بادی النظر میں دیکھا جائے تو پاکستانی قوم کے لیے یہ کوئی مسئلہ نہیں تھا، کیوں کہ یہاں سب سے سستی شے وقت ہی تو ہے۔
لیکن اَہلِ علم ہر شے کو مختلف زاویہ نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کے عواقب و مضمرات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنا لائحہ عمل ترتیب دیتے اور دوسروں کو بھی راہ نُمائی فراہم کرتے ہیں۔ اِس آفت کے نزول کے وقت بھی ایسا ہوا کہ مجددِ رواں صدی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے وقت کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے ہمیشہ کی طرح سب سے پہلے ملک و قوم اور اِنسانیت کو قرآن و حدیث کی روشنی میں اِس وبا سے نبٹنے کے مفید اُصول فراہم کیے، جن کی تائید آج کی میڈیکل سائنس بھی کرتی ہے۔ شیخ الاسلام نے اِبتدائً ’’کورونا وائرس اور نبوی اِقدامات و اَحکامات‘‘ کے موضوع پر اُردو اور انگریزی میں دو لیکچرز دیے کہ جن میں واضح طور پر قرآن و حدیث سے اَخذِ فیض کرتے ہوئے راہ نُمائی فراہم کی کہ اس وبا سے نجات کا واحد حل social distancing ہے؛ یعنی اِحتیاط، اِحتیاط اور صرف اِحتیاط۔ پھر آپ نے کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے موضوع پر بھی گفت گو فرمائی اور اِنتہائی مفید اور قابل عمل تجاویز و ہدایات سے نوازا۔ اِجتماعی عبادات کی بجا آوری کے مسائل پیدا ہوئے تو آپ نے ’’دورانِ وبا باجماعت نماز اور جمعہ کی ادائیگی‘‘ کے اَحکامات پر قرآن و حدیث اور کبار اَئمہ کے اَقوال کی روشنی میں لیکچرز دیے اور بڑی صراحت کے ساتھ بغیر کسی ifs and buts کے واضح طریقہ کار سے قوم کو آگاہ کیا۔ حالاں کہ اُس وقت دیگر علماء کرام اِس حکمتِ عملی سے کلی طور پر ناآشنا تھے۔ بعد ازاں جب اُنہیں حالات کی سنگینی کا اِدراک ہوا تو انہوں نے بھی وہی موقف اپنا لیا جو شیخ الاسلام روزِ اَوّل سے دنیا کو بتا رہے تھے۔
لاک ڈاؤن کے معاملے نے طول پکڑا تو شیخ الاسلام نے ’’اَیامِ خلوت اور ہماری زندگی‘‘ کے عنوان سے 17 لیکچرز کی سیریز deliver کی۔ سیریز کے آغاز میں غرض و غایت بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:
’’وقت کی فراوانی اور فراغت کا نتیجہ کیا ہوگا؟ اِسے دیکھنے کے کئی زاویے ہیں۔ اِس کے ساتھ کئی داخلی اور خارجی مشکلات اور مسائل پیدا ہوں گے۔ اُن میں کچھ مسائل ایسے ہوں گے جنہیں حکومتوں نے address کرنا ہے اور وہ اپنے مالی وسائل اور دست یاب ذرائع کی روشنی میں کریں گی۔ وہ حصہ اس سیریز کا موضوع نہیں ہوں گے۔ اِسی طرح کچھ issues سوسائٹی کی ذمہ داری بن جاتے ہیں کہ وہ انہیں address کرے۔ یعنی مشکلات میں گھِرے اَفراد کی مدد کرنا معاشرے کے دیگر طبقات کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ جب کہ ان مسائل کے تیسرے حصے کا تعلق فرد سے ہے کہ جس میں نہ حکومتوں کا عمل دخل ہے اور نہ ہی اَفرادِ معاشرہ کا۔ فرد نے ان مسائل کو اَز خود حل کرنا ہوتا ہے اور انہیں حل کرنے کے لیے ایک خاص قسم کے mindset کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کا تعلق ذہنی و فکری ساخت کے ساتھ ہوتا ہے کیوں کہ یہ ایک اندازِ فکر اور زاویہ نگاہ ہوتا ہے جس کے ذریعے کسی مسئلے اور given situation کو آپ دیکھتے ہیں۔ ایک ہی situation اور مسئلہ ہے، اُس کو دو مختلف آدمی دیکھتے ہیں اور کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ دونوں کا زاویہ نگاہ مختلف ہو تو وہ situation دونوں پر الگ الگ اثرانداز ہوتی ہے۔ ممکن ہے ایک آدمی اُس situation میں نقصان اُٹھائے اور پریشان ہو اور ممکن ہے کہ دوسرے شخص کے لیے وہی situation نقصان دہ ثابت نہ ہو اور وہ بغیر نقصان اُٹھائے اُس میں سے گزر جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک تیسرا شخص اُسی situation میں نہ صرف یہ کہ اپنے آپ کو نقصان سے بچا لے بلکہ اُس سے نفع بھی اُٹھا لے۔ یعنی بہتری اخذ کرتے ہوئے اُس میں سے بھلائی کا راستہ نکال لے۔‘‘
لاک ڈاؤن کی پیش آمدہ اس situation میں فرد کے مسائل اور اُن کے حل کے تناظر میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے ’’اَیامِ خلوت اور ہماری زندگی‘‘ کے موضوع پر 17 لیکچرز دیے۔ اِبتدائی چند لیکچرز تمہیدی گفت گو پر مشتمل تھے جب کہ چار لیکچرز ’’وقت: اَہمیت اور قدر و قیمت‘‘ کے موضوع پر ہوئے جن میں آپ نے یہ باور کرایا کہ وقت سب سے قیمتی شے ہے۔ یہ ہماری زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے جسے ہم بے دریغ ضائع کردیتے ہیں۔ دنیا کی ہر شے کھونے کے بعد حاصل کی جاسکتی ہے، جیسے صحت نہ رہے تو علاج معالجے کے بعد بندہ دوبارہ صحت مند ہوجاتاہے، پیسہ نہ رہے تو محنت کرکے دوبارہ کمایا جاسکتا ہے؛ مگر وقت ایک ایسی نعمت ہے جسے کسی صورت بھی دوبارہ پلٹایا نہیں جاسکتا۔
دو لیکچرز میں آپ کا موضوع اِنفاق فی سبیل اللہ تھا کہ جس میں آپ نے یہ باور کرایا کہ تقویٰ اور نیکی صرف ظاہری عبادات کا ہی نام نہیں بلکہ دوسروں پر خرچ کرنا اور ضرورت مندوں کے کام آنا اصل تقویٰ اور نیکی ہے۔ اِس ضمن میں آپ نے سخاوت اور کنجوسی کے موضوع پر بھی سیر حاصل گفت گو فرمائی ہے۔
اِس سیریز کا اصل crux اور climax اُن لیکچرز میں سامنے آتا ہے جن میں آپ نے Anger Management کے موضوع پر تفصیلی گفت فرمائی اور ایسے ایسے نکات بیان فرمائے کہ جو Aid al-Qarni، Bernard Golden، Nick Luxmoore، Melvin L. Fein، Colette A. Frayne، Nick Hagiliassis، Hrepsime Gulbenkoglu اور Eva Selhub جیسے معروف لکھاریوں سے بدرجہا بہتر، بلیغ، قابلِ عمل اور واضح تھے۔ مغرب میں anger and stress management پر ہونے والی تحقیقات میں جو کچھ بھی بیان کیا گیا ہے، شیخ الاسلام نے قرآن و حدیث کی روشنی میں ایک ایک جزو پر جامع تفصیلات فراہم کر دی ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اِسلام نے انسانی زندگی کا کوئی گوشہ بھی تشنہ نہیں چھوڑا جس پر مکمل راہ نُمائی نہ دی گئی ہو۔ Anger Management پر ہونے والے لیکچرز کے موضوعات کے تنوع سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ گفت گو کتنی جاندار، محققہ اور حقیقی زندگی کے مسائل سے قریب تر ہوگی۔ ذیل میں موضوعات کا اِجمالی خاکہ پیش کیا جاتا ہے:
- غصہ کیا ہے؟
- غصہ: اَسباب اور علاج
- غصہ ضبط کرنے کے فوائد
- غصہ ضبط کرنے کے طریقے (اَحادیثِ نبوی کی روشنی میں)
- غصہ اور بدگمانی
- غصہ کے نقصانات
محترم قارئین! anger management کے حوالے سے مذکورہ موضوعات میں تمام تر تفصیلات اور جزئیات کا اِحاطہ کیا گیا ہے کہ جو جو پہلو انسانی زندگی کے اِس گوشے سے متعلق ہوسکتے ہیں، انہیں تفصیل سے بیان کر دیا گیا ہے۔ ان موضوعات کی جامعیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ غصے کے اَسباب اور علاج بیان کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے بطور medicine تقریباً 14 حل بتائے ہیں۔ اگرچہ یہ روحانی دوائی (spiritual medicine) ہے لیکن ساتھ ہی آپ نے یہ بھی واضح فرمایا کہ ’’ہمارے ہاں ایک روایتی approach ہے کہ بچہ غصّہ بہت کرتا ہے، لیکن نہ ہم اس کے اَسباب کا تجزیہ کرتے ہیں اور نہ اُن اسباب کو address کرنے کی فکر کرتے ہیں۔ نہ کسی سے جا کر سیکھتے ہیں کہ proper طریقے سے اُس کا کیا علاج ہو سکتا ہے؟ کیا تدابیر اِختیار کرنی چاہییں؟ ہماری behavioural changes کیا ہونی چاہییں؟ ہم اِن اُمور پر غور ہی نہیں کرتے۔ مسائل کو address کرنے کا میر ا اپنا طریقہ ہے کہ اللہ رب العزت اور اُس کے رسول مکرم a نے اِس مسئلے کا علاج کیا بتایا ہے اور ماڈرن سائنس اُس کو کس طرح treat کرتی ہے۔ پھر صوفیاء کرام اور اولیاء اور صالحین عظام آتے ہیں۔ وہ بھی اُسی زمرے میں آجاتے ہیں کہ اللہ اور رسول a کی تعلیمات سے اُنہوں نے اپنی کتبِ سلوک و تصوف میں کس طرح تلقین کی ہے۔‘‘
اِن لیکچرز کے موضوعات کا تعلق ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی کی اِصلاح سے ہے۔ فرد کی اِصلاحِ اَحوال پر زور دیتے ہوئے اِجتماعی اِصلاح کی راہ ہموار کی گئی ہے۔ کیونکہ اَفراد کا اِجتماع ہی ایک معاشرے کی تشکیل کا باعث ہوتا ہے۔ عمومی طور پر ہمارے معاشرے کی بیشتر خرابیوں کی جڑ فرد میں ضبطِ نفس کی کمی اور غصہ کی بہتات کا ہونا ہے۔ شیخ الاسلام نے وقت کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے اِس core issue کو address کیا اور انتہائی آسان و سہل انداز میں عملی مثالوں کے ذریعے سمجھا دیا کہ personality development کی راہ اُس وقت ہموار ہوگی جب فرد اپنے غصے کو قابو میں رکھے گا۔ غصہ اور شخصی اِرتقاء (personality development) ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ لہٰذا فرد کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ anger اور stress کو manage کیا جائے۔ فرد ترقی کرے گا تو معاشرے کی ترقی کی راہ ہموار ہوگی اور معاشرے کی ترقی سے ہی ملک ترقی کرتے ہوئے اَقوامِ عالم میں اپنا نام روشن کرسکے گا۔