آج اُمتِ مسلمہ اپنے زوال کی انتہاء پر ہے کیوں کہ اُس نے اصل سے اپنا تعلق اور ناطہ توڑ لیا ہے اور اپنے مقاصد بھلا کر اپنا مطمع نظر فراموش کردیا ہے۔ وہ اُمت جو شرق تا غرب علم کا اُجالا بکھیر رہی تھی، آج جہالت کی اتھاہ گہرائیوں میں سرگرداں ہیں۔ وہ اُمت جس نے بربنائے علم پوری دنیا پر حکمرانی کا تاج اپنے سر پر سجا رکھا تھا، آج جہالت کے سبب ذلّت آمیز محکومی و غلامی اِس کا مقدر بن چکی ہے۔ وہ اُمت جو ایک ایک گاؤں سے ہزار ہا محققین اِنسانیت کو دے رہی تھی، آج ایک اَن دیکھی وبا کے علاج کے لیے حسرت و یاس کی کیفیت میں پتھرائی آنکھوں کے ساتھ اَغیار کی طرف دیکھ رہی ہے۔ وہ اُمت کہ جس کے ایک فقیہ کو ہزار عبادت گذاروں پر فوقیت دی گئی تھی، آج بے مقصد علم اور بے حضور عبادات میں اپنا وقت کھپا رہی ہے۔ وہ اُمت جس کا اوڑھنا بچھونا علم ہوتا تھا، آج علم سے کوسوں دور بھاگتی ہے۔ وہ اُمت جو ہمہ وقت متحرک رہتی تھی، آج تحقیر آمیز سکون کی نشہ آور اَدویات کی رَسیا ہوچکی ہے۔ وہ اُمت جس نے کبھی اپنے خالق کی حکم عدولی نہیں کی تھی، آج خالق کی اِطاعت سے گریزاں ہے۔
لیکن۔۔۔ وہ خالق اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔ وہ ستر ماؤں سے بھی زیادہ اپنے بندوں سے پیار کرتا ہے۔ وہ بندوں کو اپنی طرف رجوع کرنے اور اُن کی اِصلاح کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ رُشد و ہدایت کا یہ فریضہ انبیاء کرام f سرانجام دیتے ہیں، مگر اب چوں کہ نبوت و رسالت کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا ہے، اس لیے اب وارثانِ اَنبیاء یعنی علماء کرام اور اللہ کے نیک اور مقرب بندے مخلوقِ خدا کو خالقِ کائنات کی طرف بلاتے ہیں اور مخلوق کا اپنے رب سے ٹوٹا ہوا تعلق جوڑنے کے اسباب مہیا کرتے ہیں۔
مجددِ رواں صدی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری تجدید و اِحیاے دین کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے وراثتِ اَنبیاء اِنسانیت کو منتقل کر رہے ہیں۔ علم کی یہ میراث تشنگانِ علم و حکمت تک منتقل کرنے کے لیے تحریک منہاج القرآن کے زیر اِہتمام ہر سال رمضان المبارک کے آخری عشرے میں حرمین شریفین کے بعد سب سے بڑے اجتماعی اِعتکاف کا اِہتمام کیا جاتا ہے۔ اس اِجتماعی اِعتکاف میں پوری دنیا سے ہزارہا کی تعداد میں لوگ حضرت شیخ الاسلام کی معیت میں عبادت، بندگی، روزہ، تلاوتِ قرآن، قیام اللیل، اَوراد و وظائف اور ماحصل اِعتکاف شیخ الاسلام کے روحانی خطابات سے مستفیض ہوتے ہیں۔
اِمسال کورونا وائرس کی وبا کے پیش نظر تمام تر اِجتماعی سرگرمیاں منسوخ کردی گئی تھیں۔ بایں وجہ اِجتماعی اِعتکاف بھی منسوخ ہوگیا۔ کورونا وائرس کی وجہ سے عالمی سطح پر ہونے والے لاک ڈاؤن کی بناء پر اس بات کا قوی امکان تھا کہ لوگ ذہنی تناؤ کی وجہ سے ڈپریشن اور مختلف قسم کے نفسیاتی مسائل کا شکار ہوں گے، لہٰذا لوگوں کو وقت کے ضیاع اور مذکورہ مسائل سے بچانے اور اُنہیں بہترین علمی سرگرمی مہیا کرنے کے لیے شیخ الاسلام نے روزانہ کی بنیاد پر لیکچرز کا آغاز کیا۔ پہلے ’’اَیامِ خلوت اور ہماری زندگی‘‘ کے عنوان سے لیکچرز ہوئے (جن کے حوالے سے تفصیلات الگ رپورٹ میں شامل کی گئی ہیں)۔ رمضان المبارک میں اِصلاحِ اَحوال اور آدابِ زندگی کی تعلیم کے لیے ’’صحیح البخاری‘‘ اور ’’اِحیاء علومِ الدین‘‘ سے حلقات التربیۃ کا آغاز کیا گیا ہے۔
بنیادی طور پر حلقات التربیہ میں ہونے والے دروس اور اسباق ’’صحیح البخاری‘‘ سے ہیں اور پھر ان منتخبہ موضوعات کی توضیح و تشریح کے لیے امام غزالی کی کتاب ’’اِحیاء علومِ الدین‘‘ کو بطور درس شامل کیا گیا ہے۔ اِن حلقات التربیۃ کا موضوع علمی و فنی اور اعتقادی و فقہی نوعیت کے دقیق مسائل نہیں ہیں، بلکہ ان دروس کا نکتۂ اِرتکاز اخلاقی و روحانی تربیت اور اِصلاحِ اَحوال ہے۔ آدابِ زندگی کے بیان کو ترجیح دی گئی ہے کہ جس سے ہماری روز مرہ کی زندگی ذہنی و فکری، ایمانی و روحانی، عملی و اخلاقی اور نظریاتی اعتبار سے سنور سکے۔ بنیادی طور پر حلقات التربیۃ کے ذریعے زندگی کے مختلف گوشوں کی اصلاح مقصود ہے تاکہ عامۃ الناس کی عملی زندگی میں یہ دروس اور حلقات براہِ راست تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوں۔ ان مقاصد کی تکمیل کے لیے ’’صحیح البخاری‘‘ کی مختلف کتب (main chapters) منتخب کی گئی ہیں جن میں کتاب بدء الوحي، کتاب الإیمان، کتاب العلم، کتاب فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، کتاب الأدب، کتاب الاستئذان اور کتاب التعبیر شامل ہیں، پھر ان کتب کے 410 ذیلی اَبواب (chapters) کو بھی شاملِ نصاب کیا گیا ہے۔ اِن اَبواب سے ایسی احادیث منتخب کی گئی ہیں جو براہِ راست حلقات التربیۃ کے موضوعات اور مقاصد کو address کرتی ہیں۔
حلقات التربیۃ کے پس منظر سے آگاہی کے بعد زیر نظر سطور میں ہم حلقات التربیۃ کے موضوعات اور ان میں بیان کردہ اہم نکات کا تعارف پیش کریں گے۔ اس ایک آرٹیکل میں چالیس حلقات کا اِحاطہ ممکن نہیں، لہٰذا طوالت کے خوف سے ہم اِس رپورٹ میں صرف پہلے تین لیکچرز کی کچھ تفصیل نظرِ قارئین کریں گے جو کہ ایک طرح سے حلقات التربیۃ کی اِس سیریز کا دیباچہ اور مقدمہ ہیں۔
1. صحیح البخاری سے قبل حفاظت و تدوین حدیث
29 اپریل 2020ء کو ہونے والا حلقات التربیۃ کا پہلا لیکچر درج بالا موضوع پر مشتمل تھا۔ گفت گو کا آغاز فرماتے ہوئے شیخ الاسلام نے لیکچر سیریز کی غرض و غایت بیان کرنے کے بعد علوم الحدیث پر اپنی درج ذیل عربی کتب کا تعارف کرایا:
- حکم السماع عن أہل البدع والأہواء (مطبوعہ)
- البیان الصریح فی الحدیث الصحیح (عنقریب طباعت)
- القول اللطیف فی الحدیث الضعیف (عنقریب طباعت)
- حسن النظر فی أقسام الخبر (عنقریب طباعت)
- الإکتمال فی نشأۃ علم الحدیث وطبقات الرجال
- القواعد المہمۃ فی التصحیح والتحسین والتضعیف عند الأئمۃ
- تاریخ وتدوین الحدیث (عنقریب طباعت)
کتب کے تعارف سے مقصود یہ تھا کہ تاریخ و تدوینِ حدیث سے متعلق علمی و فنی اَبحاث کے لیے ان کتب کی طرف رجوع کیا جائے۔ علاوہ ازیں برمنگھم (یوکے) میں ہونے والے شیخ الاسلام کے دورۂ صحیح البخاری، دورۂ صحیح مسلم، دورۂ صحیحین اور دیگر کئی دروس و خطبات میں امام بخاری اور ’’صحیح البخاری‘‘ سے متعلق فنی اَبحاث موجود ہیں جو محققین اور اساتذہ و مدرسین کی دلچسپی کا باعث ہوں گی۔ نیز 2017ء میں جامع المنہاج لاہور میں ہونے والا سہ روزہ دورۂ علوم الحدیث - جس میں پاکستان بھر سے علماء و اساتذہ اور محققین تین دن کے لیے تشریف لائے تھے- بھی علمی و فنی ابحاث کا احاطہ کرتے ہیں۔ لہٰذا ایسے موضوعات ان نشستوں کا حصہ نہیں بنائے گئے، ان علوم کا ذوق رکھنے والے احباب مذکورہ کتب اور دروس کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔
شیخ الاسلام نے اِس لیکچر کے مذکورہ موضوع کو زیر بحث لانے کے تین اسباب بیان فرمائے:
1۔ پہلا سبب عوام الناس سے تعلق رکھتا ہے جو کہ علم الحدیث سے بالکل بے بہرہ ہیں۔ ان میں ایک غلط تأثر پایا جاتا ہے کہ ’’صحیح البخاری‘‘ حدیث کی پہلی کتاب ہے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال اقدس کے کم و بیش اڑھائی سو سال بعد تالیف کی گئی۔ حدیث کی حجیت میں شک و شبہ پیدا کرنے والے یہ نکتہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ صحیح بخاری کی تدوین سے قبل اڑھائی صدیوں میں حدیث صرف سینہ بہ سینہ روایت ہوتی رہی ہیں، تحریری صورت میں موجود نہ تھیں، اس لیے اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ حدیث نبوی کا یہ ذخیرہ سو فیصد درست ہے؟ کہیں لوگوں نے اس میں غلط باتیں شامل کرکے انہیں حدیث کا عنوان تو نہیں دے دیا؟ اس طرح تدوین حدیث کے متعلق شکوک و شبہات پید اکیے جاتے ہیں۔ لہٰذا اس لیکچر میں مذکورہ اعتراض کا ردّ پیش کیا گیا ہے۔
2۔ انتخابِ موضوع کا دوسراسبب یہ ہے کہ تھوڑا بہت علم رکھنے والے ایسے افراد جنہوں نے گہرائی کے ساتھ کتب کا مطالعہ نہیں کیا، ان کا مغالطہ یہ ہے کہ صرف ’’صحیح البخاری‘‘ ہی ایک کتاب ہے جس میں احادیث صحیحہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جو ’’صحیح البخاری‘‘ میں ہے، اسے مانیں گے اور جو اس میں نہیں ہے، اسے نہیں مانیں گے۔ یا وہ اتنی نرمی پیدا کرتے ہیں کہ ’’صحیح البخاری‘‘ اور ’’صحیح مسلم‘‘ دو ایسی کتب ہیں جن میں صحیح احادیث دستیاب ہیں۔ اس لیے جو کچھ ان دو کتب میں ہے، اسے قبول کرتے ہیں اور جو ان دو کتب سے باہر ہے، وہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ حالاں کہ یہ ایک بہت بڑا مغالطہ ہے جس سے گمراہی پیدا ہوتی ہے اور یوں دینِ متین کا 90 یا 95 فیصد حصہ مسترد کیا جاتا ہے۔
3۔ اسی تناظر میں انتخابِ موضوع کا تیسرا سبب اہلِ علم اور ایسے افراد سے متعلق ہے جو مذکورہ بالا دو اعتراضات کے مرتکب نہیں ہوتے، لیکن وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اگر صحیح احادیث دیگر کتب میں بھی ہیں بلکہ صحیح البخاری سے قبل بھی احادیثِ صحیحہ کے مجموعے موجود تھے تو صحیح بخاری کو کتبِ حدیث میں کیا اہمیت، انفرادیت اور امتیاز (significance) حاصل ہے جو دیگر کتبِ حدیث کو نہیں ہے۔
اس تمہیدی گفت گو کے تناظر میں شیخ الاسلام نے بالترتیب تمام نکات پر سیر حاصل گفت گو فرمائی اور مذکورہ اِشکالات کو اِتنے اَحسن انداز سے رفع فرمایا کہ جیسے کوئی شکوک و شبہات تھے ہی نہیں۔
مختصراً یہ کہ اس لیکچر میں درج ذیل نکات بالتفصیل زیر بحث لائے گئے اور اس حوالے سے وارِد ہونے والے تمام سوالات کے شافی جوابات مہیا فرمائے گئے:
- صحیح البخاری سے پہلے حدیث کی 500 سے زائد کتب اور صحائف موجود تھے۔
- صحیح البخاری سے پہلے عہدِ صحابہ تک حفاظتِ حدیث میں کبھی خلا نہیں رہا۔
- عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر اِمام بخاری تک لاکھوں احادیث ہر دور میں محفوظ رہیں۔
- امام بخاری کی طرح دیگر سیکڑوں اَئمہ لاکھوں احادیث کے حافظ تھے۔
- اﷲ تعالیٰ نے اَحادیثِ نبوی کی بھی حفاظت اُسی طرح فرمائی جیسے قرآن مجید کی حفاظت فرمائی۔
2. ہر صحیح حدیث صحیح البخاری میں درج نہیں
30 اپریل 2020ء کو ہونے والا حلقات التربیۃ کا دوسرا لیکچر درج بالا موضوع پر مشتمل تھا۔ اس میں ’’صحیح البخاری‘‘ کے تعارف کے دوسرے پہلو پر تفصیلی گفت گو کی گئی کہ ’’صحیح البخاری‘‘ کی ہر حدیث صحیح ہے، مگر ہر صحیح حدیث اِس میں درج نہیں کیوں کہ یہ صحیح احادیث کا مختصر مجموعہ ہے۔ امام بخاری نے 1,000 سے زائد شیوخ سے احادیث حاصل کیں۔ اُنہوں نے اپنی ’’الصحیح‘‘ کو مرتب کرنے میں 16 سال لگائے۔ آپ کو 6 لاکھ احادیث حفظ تھیں اور ان 6 لاکھ محفوظ احادیث میں سے چناؤ کرکے آپ نے اِس ’’الصحیح‘‘ کو مرتب کیا ہے۔
’’صحیح البخاری‘‘ میں مذکور روایات کا کل عدد 7,397 ہے جو کہ تکرار کے ساتھ ہے۔ اس میں متعلقات اور متابعات شامل نہیں ہیں۔ اگر دلائل و شواہد کے طور پر آنے والے توابع (احادیث کے وہ چھوٹے چھوٹے حصے جو تراجم الابواب کے اندر لائے گئے ہیں) کو بھی شامل کر لیا جائے تو احادیث کا عدد 9,082 بن جاتا ہے۔ جب کہ وہ تمام احادیث جو موصولہ متون کے ساتھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہیں، ان کا کل عدد تکرار کے بغیر 2,761 ہے۔ اگر اس میں صحابہ کرام l کے آثار اور تابعین کے اقوال کو بھی شامل کرلیں تو احادیث نبویہ، آثارِ صحابہ اور اقوال تابعین کا کل عدد 4 ہزار بنتا ہے۔ گویا ’’صحیح البخاری‘‘ میں احادیث مبارکہ تین ہزار سے بھی کم ہیں۔ حالاں کہ امام بخاری خود فرماتے تھے کہ مجھے ایک لاکھ صحیح اور دو لاکھ غیر صحیح احادیث یاد ہیں۔ غیر صحیح سے مراد موضوع یا من گھڑت روایات نہیں ہیں، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ احادیث امام بخاری کی طے کردہ شرائطِ صحیح پر پورا نہیں اترتیں۔ لہٰذا اگر صرف ایک لاکھ صحیح احادیث کو ہی لے لیں تو بقیہ 97 ہزار احادیث کہاں گئیں کیوں کہ امام بخاری تو ’’صحیح البخاری‘‘ میں صرف 2,761 احادیث لائے ہیں۔
امام بخاری نے بڑی اہم بات فرمائی ہے کہ میں نے یہ اہتمام کیا ہے کہ میری کتاب الجامع الصحیح میں کوئی ایک حدیث بھی ایسی درج نہ ہو جو صحیح نہیں۔ یہ قول اتنی قطعیت کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ اِس پر اگر کوئی شخص حلف بھی اُٹھا لے تو اُس کا حلف درست ہوگا۔ مگر ساتھ ہی امام بخاری نے یہ بھی فرمایا کہ میں ایک مختصر کتاب تیار کر رہا تھا، لہٰذا خطرہ تھا کہ کہیں یہ طویل نہ ہوجائے، اس لیے طوالت سے بچنے کے لیے میں نے ہر صحیح حدیث کو اس میں درج نہیں کیا۔
المختصر! شیخ الاسلام نے ’’صحیح البخاری‘‘ میں وارد شدہ احادیث کے عدد اور درجہ سے متعلق تمام اشکالات کو رفع کیا۔ اِضافتاً اس حلقہ میں درج ذیل نکات بھی زیر بحث لائے گئے تھے:
- صحیح البخاری کے علاوہ بھی ہزار ہا احادیثِ صحیحہ ہیں۔
- امام بخاری سے پہلے سیکڑوں اَئمہ حدیث کے پاس اَحادیثِ صحیحہ کے ذخیرے تھے۔
- صحیح البخاری کی احادیث درجۂ صحت میں سب سے بلند ہیں۔
- امام بخاری کافرمان: میں نے احادیثِ صحیحہ میں مختصر تیار کی ہے۔
- امام بخاری کے سیکڑوں شیوخ اور اَئمہ حدیث اَحادیثِ صحیحہ کے حاملین تھے۔
- صحاح ستہ کے علاوہ درجنوں کتب میں اَحادیثِ صحیحہ کا ذخیرہ موجود ہے۔
- امام بخاری کے فرمان میں مذکور حدیثِ صحیح اور غیرِ صحیح سے کیا مراد ہے؟
- حدیثِ صحیح کسی ایک کتاب یا مصنف کے ساتھ مشروط نہیں ہے۔
- حدیثِ صحیح کا مدار کسی مصنف یا کتاب پر نہیں، اِسناد پر ہوتا ہے۔
3. صحیح البخاری کا اُسلوب اور خصوصیات
یکم مئی 2020ء کو ہونے والا حلقات التربیۃ کا تیسرا لیکچر درج بالا موضوع پر مشتمل تھا اور اس میں زیر بحث نکات کا اِجمال کچھ یوں ہے:
- امام بخاری نے اپنی کتاب کی توثیق کن اَئمہ کرام سے کرائی؟
امام بخاری نے 16 سال کی مدت کے بعد جب اپنی کتاب ’’صحیح البخاری‘‘ مرتب کی تو اپنے تین اساتذہ امام احمد بن حنبل، امام یحییٰ بن معین اور امام علی بن المدینی کو پیش کرکے ان سے توثیق کروائی۔ جب انہوں نے ایک ایک حدیث کو verify کر دیا تو پھر آپ نے اُنہیں اپنی کتاب میں درج کیا۔
- امام بخاری کی ’’الصحیح‘‘ کے علاوہ دیگر ضخیم کتبِ حدیث
امام بخاری کی معروف کتب 24 ہیں جن میں سے ایک ’’جامع الکبیر‘‘ ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ امام بخاری نے تقریباّ ایک لاکھ صحیح احادیث اس میں درج کی تھیں اور ان سے حسبِ ضرورت باقی کتب میں لیتے رہے۔ آپ کی ایک ضخیم کتاب ’’المسند الکبیر‘‘ میں بھی ہزارہا احادیث درج تھیں۔ ’’تفسیر الکبیر‘‘ بھی آپ کی کتاب ہے۔ علاوہ ازیں آپ کی ایک کتاب ’’المبسوط‘‘ بھی ہے۔ ان کتب میں امام بخاری سے مروی لاکھوں احادیث درج ہیں۔
- امام بخاری نے خود ’’الجامع الصحیح‘‘ کے ہزارہا نسخے تیار فرمائے۔
- امام بخاری نے تدوینِ حدیث میں کون سے نئے طریقے متعارف کروائے؟
- ’’صحیح البخاری‘‘ کی ندرت اور اِنفرادیت کیا ہے؟
- صحیح البخاری کے تراجم الابواب کی خصوصیات کیا ہیں؟
- صحیح البخاری اور فقہ البخاری
- صحیح البخاری کے اُسلوب میں جدّت اور جامعیت
الغرض! امام بخاری نے صحیح البخاری میں صرف احادیث کو جمع نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنی کتاب میں 100 کے قریب books بنائیں یعنی کئی subject کے مجموعے کو کتاب کا نام دیا اور پھر ہر کتاب کے اندر کئی chapters قائم کیے ہیں۔ اس میں 100 کے قریب کتب اور 4 ہزار تک ابواب (chapters) ہیں۔ جب کہ احادیث کی تعداد 3 ہزار سے بھی کم ہے۔ یوں ابواب کی تعداد احادیث سے بھی زیادہ ہے کیوں کہ ایک ایک حدیث repeat ہو کر اپنے موضوعات کے تناسب سے کئی کئی ابواب میں شامل ہوئی ہے۔ امام بخاری سے پہلے یہ طریقے کسی اور نے اختیار نہیں کیے۔
المختصر! امام بخاری نے احادیث سے مطالب اور فوائد، ان کے نمایاں مقاصد، ان میں وارد ہونے والے احکام اور ادب، اخلاق اور عقیدے کے ثابت ہونے والے مختلف پہلوؤں کو اخذ کر کے ان کے ابواب بنا دیے ہیں۔
امام بخاری نے اپنی کتاب میں حدیث سے متعلقہ آیاتِ قرآنیہ کو بھی جمع کیا ہے۔ یہ اُسلوب صحیح البخاری سے قبل مرتب شدہ کتب حدیث میں نہیں تھا۔ امام بخاری کے بعد آنے والے ائمہ نے اس اُسلوب کو امام بخاری کی تقلید کرتے ہوئے اختیار کیا ہے۔ شیخ الاسلام نے بھی اپنی کم و بیش چھوٹی بڑی 200 سو کتب حدیث میں یہی اُسلوب اپنایا ہے کہ ہر موضوع پر پہلے آیاتِ قرآنیہ اور پھر احادیث نبویہ درج کرتے ہیں۔
الغرض! شیخ الاسلام نے ’’صحیح البخاری‘‘ سے متعلق انتہائی نادر نکات بیان فرمائے جو اس سے قبل بیان نہیں ہوئے۔ یوں آپ نے امام بخاری کی عظمت و سطوت کو چار چاند لگا دیے۔ شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ امام بخاری کو حدیث کے باب میں بہت بلند رتبہ حاصل ہے۔ آپ کو امیر المؤمنین فی الحدیث بھی کہتے ہیں۔ آپ حدیث، جرح و تعدیل، اسماء الرجال، علم الحدیث اور رُوات کو پرکھنے کے حوالے سے امام مطلق تھے۔ امام بخاری جیسا ذہین قابل محقق تاریخ نے پیدا نہیں کیا۔ امام بخاری استاذ الاساتذہ تھے، امام الائمہ تھے، شیخ المحدثین تھے۔ یہی وجہ ہے کہ امام مسلم نے آپ کے ماتھے کو بوسہ دیکر یہ عرض کیا: اے سید المحدثین! اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ کے قدم چوم لوں۔ مگر امام بخاری نے تواضعاً اجازت نہیں دی۔
اللہ رب العزت نے ان کی اس کاوش کو یوں شرفِ قبولیت بخشا کہ آج پوری دنیا میں صحیح البخاری شریف حدیث پاک کی سب سے بڑی اونچی سند تصور کی جاتی ہے۔
حلقات التربیۃ کے پہلے تین لیکچرز کا خلاصہ ان صفحات میں مختصراً بیان کر دیا گیا ہے۔ تفصیلات کا احاطہ یہاں ممکن نہیں، لہٰذا ان علمی مجالس سے استفادہ کی بہترین صورت یہی ہے کہ حلقات التربیۃ کے زیرِ عنوان انعقاد پذیر ان لیکچرز کو بار بار سنا جائے اور انہیں اَزبر کر لیا جائے۔ صرف بایں صورت ہم اِن سے کما حقہ اِستفادہ کر سکتے ہیں۔
اِن شاء اﷲ! آئندہ شمارہ میں حلقات التربیۃ کی اگلی اَقساط کی رپورٹ شاملِ اِشاعت کی جائے گی۔