پہلے ٹی بی، کینسر، ہیضہ، چیچک، بلڈپریشر ،ہارٹ اٹیک، پھر ڈینگی اور اب کرونا۔ معاذ اللہ، ایک سے ایک خطرناک بیماریاں، ہلاکتیں، مجبوریاں اور معذوریاں۔ ان عذابوں سے قوم بچی، نہ ملک، نہ غریب، نہ امیر، نہ مسلم، نہ غیر مسلم، نہ نیک، نہ بد۔
ہمارے حکمران، سیاستدان، علماء، صوفیا، ڈاکٹرز، حکما ء کی ایک آنکھ کھلی ہے، شاید اس لیے کہ ہم اس عالمگیر وباء کے اس ایک پہلو کو دنیا کے آگے پیش کر کے اپنا دکھ درد انہیں دکھا کر ان کی ہمدردیاں حاصل کر سکیں، نتیجہ میں ان کے دل ہماری حالتِ زار پر پسیج جائیں اور ہماری آنکھوں سے بہتے قطروں پر ترس کھا کر ان کے دستِ کرم سے ابرِ کرم کے چند قطرے ہمارے پھیلے کشکول میں بھی آگریں اور مصیبت کی یہ گھڑی ہمارے لیے ساعتِ ہمایوں ہو جائے اور ہماری جیبیں مانگے تانگے سے بھر جائیں۔ مصیبت زدوں کی حالت دیکھیں اور بڑوں کی سنگدلیوں کو بھی دیکھیں۔ سورہ نمل کو پڑھیے ۔ ارشاد فرمایا:
اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوْٓءَ وَیَجْعَلُکُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِ ط ءَاِلٰـہٌ مَّعَ اللهِ ط قَلِیْلاً مَّا تَذَکَّرُوْنَ.
(النمل، 27: 62)
’’بلکہ وہ کون ہے جو بے قرار شخص کی دعا قبول فرماتا ہے جب وہ اسے پکارے اور تکلیف دور فرماتا ہے اور تمہیں زمین میں(پہلے لوگوں کا) وارث و جانشین بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور بھی) معبود ہے؟ تم لوگ بہت ہی کم نصیحت قبول کرتے ہو‘‘۔
سورۃ یونس کو پڑھیے، وہاں بھی یہی مضمون ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَاِنْ یَّمْسَسْکَ اللهُ بِضُرٍّ فَلاَ کَاشِفَ لَـہٗٓ اِلاَّ ھُوَ ج وَاِنْ یُّرِدْکَ بِخَیْرٍ فَـلَا رَآدَّ لِفَضْلِہٖ ط یُصِیْبُ بِہٖ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ ط وَھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ.
(یونس، 10: 107)
’’اور اگر اللہ تمہیں کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اسے دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تمہارے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمائے تو کوئی اس کے فضل کو رد کرنے والا نہیں۔ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اپنا فضل پہنچاتا ہے، اور وہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے‘‘۔
سورہ البقرہ میں یہ مضمون یوں بیان فرمایا:
وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ط اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ.
(البقرہ، 2: 186)
’’اور (اے حبیب!) جب میرے بندے آپ سے میری نسبت سوال کریں تو (بتا دیا کریں کہ) میں نزدیک ہوں، میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے، پس انہیں چاہیے کہ میری فرمانبرداری اختیار کریں اور مجھ پر پختہ یقین رکھیں تاکہ وہ راہِ (مراد) پاجائیں‘‘۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر ہماری دعائیں ان بلاؤں اور وباؤں کو دور کرنے کے لیے کیوں قبول نہیں ہوتیں؟ اس کے لیے ہمیں اِدھر اُدھر سے پوچھنے کی ضرورت نہیں بلکہ اپنے دل سے پوچھنا ہوگا کہ ایسا کیونکر ہے؟
ہم مسلمان بھی ہیں، صدقہ و خیرات بھی دیتے ہیں، دعائیں اتنی کہ ماضی میں سلف صالحین کی مجالس میں کبھی نہیں ہوتی ہونگی، بے مثال عبادت گزار، بے حد دعائیں، مگر۔۔۔۔۔؟ اس معاملہ کو دوسری نگاہ سے دیکھیں تو سمجھ آجاتی ہے۔ آیئے احادیث مبارکہ کی روشنی میں اس مسئلہ کا حل جانتے ہیں:
1۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی: اے! اللہ میں نے آپ سے وعدہ لیا ہے، آپ مجھ سے اس کے خلاف ہر گز نہ کریں گے، میں تو صرف آدمی ہوں، سو میں جس مسلمان کو ناجائز طور پر تکلیف دوں، برا بھلا کہوں، لعنت کروں، کوڑا ماروں تو آپ اسے اس کیلئے، گناہوں کے میل سے صفائی ستھرائی اور قیامت کے دن اسے اپنی قربت کا وسیلہ بنا دینا۔ (متفق علیہ)
2۔ حضرت ابوہریرہؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ان اللہ طیب لا یقبل الا طیبا، وان الله امر المومنین بمآ امر به المرسلین فقال یایھا الرسل کلوا من طیبت واعملوا صالحا وقال تعالیٰ یایھا الذین امنوا کلوا من طیبت ما رزقنکم.
بیشک اللہ صاف ستھرا پاکیزہ ہے، وہ صرف صاف پاکیزہ مال سے دیا گیا صدقہ ہی قبول فرماتا ہے اور بیشک اللہ نے مسلمانوں کو اسی کا حکم دیا ہے جس کا رسولوں کو دیا ہے۔ فرمایا: اے رسولو! صاف ستھرا حلال کھاؤ، اور نیک کام کرو اور مسلمانوں کو حکم دیا:
اے ایمان والو! ستھرا، حلال رزق جو ہم نے تم کو دیا، اس میں سے (سارا نہیں) کچھ حسبِ ضرورت کھاؤ اور باقی ضرورت مندوں پر خرچ کرو۔ (متفق علیہ))
3۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
بیشک اللہ پاک صاف ہے، پاکیزہ مال سے دیا ہوا ہی قبول فرماتا ہے، اور بیشک اللہ نے مسلمانوں کو وہی حکم دیا جو رسولوں کو فرمایا: اے رسول!حلال صاف چیزوں سے کچھ حسبِ ضرورت کھاؤ اور نیک کام کرو، اور اللہ تعالیٰ کا مسلمانوں کو بھی یہی حکم ہے، فرمایا: اے ایمان والو کھاؤ ہمارے دئیے ہوئے ستھرے رزق سے ۔
4۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دفعہ ایک ایسے شخص کا ذکر فرمایا:
یطیل السفر اشعث واغبر یمد یدیه الی السمآء یارب یارب ومطعمه حرام و مشربه حرام وملبسه حرام غذی بالحرام فانی یستجاب لذلک.
جو لمبا سفر کرتا ہے (حج یا عمرہ، یا تبلیغ، یا طلبِ علم یا تجارت، یا سیر و سیاحت یا مزارات کی زیارت، یا جہاد یا طلب معاش وغیرہ کیلئے)بال بکھرے، جسم و لباس پسینے و میل، گردو غبار سے اٹے، آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر یا رب! یارب! کی صدائیں پکارتا ہے حالانکہ اس کا کھانا حرام ، اس کا پینا حرام، اس کا لباس حرام، اس کی غذا، حرام، تو اس حال میں اس کی دعا کیسے قبول ہو‘‘
(مسلم)
5۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
یاتی علی الناس زمان لا یبالی المرء ما اخذ منه، امن الحلال امن من الحرام.
لوگوں پر ایسا وقت آئے گا کہ آدمی پر واہ نہیں کرے گا کہ اس سے جو لیا گیا ہے آیا حلال سے یا حرام سے۔
(بخاری)
6۔ حضرت مقداد بن معدیکربؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ما اکل احد طعاما قط خیرا من ان یاکل من عمل یدیه وان نبی الله داؤد علیه کان یاکل من عمل یدیه.
کسی نے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کھانا نہیں کھایا، اور بیشک اللہ کے نبی داؤد ؑ اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔
(بخاری)
7۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
یستجاب للعبد مالم یدع باثم او قطیعۃ رحم مالم یستعجل، قیل یارسول اللہ: ما الا ستعجال؟ قال: یقول قد دعوت وقد دعوت فلم ار یستجاب لی فیستحسر عند ذلک ویدع الدعآء.
بندے کی دعا قبول ہوتی ہے، جب تک گناہ کی نہ ہو، یا قطع رحمی (رشتہ داروں) کے خلاف نہ ہو، جب تک جلد بازی نہ کرے۔ عرض کی گئی: یا رسول اللہ! جلد بازی کا کیا مطلب ہے؟ فرمایا: یہ کہے: میں نے دعا مانگی، میں نے دعا مانگی، میرا نہیں خیال کہ قبول ہو گی، اس وقت مایوس و درماندہ ہو جائے اور دعا مانگنا ہی چھوڑ دے۔
(مسلم)
اپنے جرائم کا اعتراف کرنا ہوگا
ان بلاؤں اور وباؤں سے بچنے اور اپنی دعاؤں کی قبولیت کے لیے مذکورہ بالا احادیث مبارکہ کی روشنی میں اپنے اقوال، اعمال اور احوال پر غور کرنا ہوگا کہ ہم کن کن اخلاقی، معاشی، معاشرتی، دینی، مذہبی اور ثقافتی خرابیوں کا شکار ہیں۔ ہمیں اپنی اِن جملہ کوتاہیوں، غلطیوں، ہٹ دھرمیوں کا اعتراف کرنا ہوگا اور پھر اِس کے بعد اِن تمام معاشرتی اور اخلاقی رذائل کو ترک کرنا ہوگا۔ اِن خرابیوں کو خیر باد کہنا ہوگا جن میں ہم ملوث ہیں۔
کلمہ طیبہ پر غور کریں کہ وہاں بھی اعتراف اور ترک کرنے کی تعلیم پہلے ہے۔ پہلے غلطی کا اعتراف، ’’لا الہ‘‘، پھر اس کا انکار و ترک۔ دنیا بھی پہلے اپنے جرائم کا اعتراف کرے، پھر اس سے کنارہ کش ہو اور پھر تقویٰ کی صورت میں بیماری کی صحیح تشخیص کرے، ان پابندیوں پر عمل کرے جن کو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عائد کیا ہے۔ پہلے صحیح توبہ یعنی توبۃ النصوح لازم ہے۔
یاد رکھیں! دنیا جن راہوں پر چل رہی ہے، وہ منزل فلاح کی طرف پہنچانے والی نہیں۔ آج دنیا میں عدل نہیں، ظلم ہے۔ حکمران اس ظالمانہ نظام کے محافظ ہیں۔ عدالتیں ظالموں کو تحفظ اور مظلوموں کو انصاف سے محروم کررہی ہیں۔ ہر بااثر اور طاقتور طبقہ کمزور طبقات کے حقوق پامال کررہا ہے اور اِن تمام مضبوط طبقات کو حکام بالا کی تائید بھی حاصل ہے۔ اندریں حالات اِن وباؤں اور بلاؤں سے نجات کے لیے کاوشیں اور دعائیں کیسے رنگ لاسکتی ہیں؟
ہمارے ہاں قتلِ ناحق، سود، زنا، رشوت، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ عام ہے۔۔۔ جاگیرداری، پٹواری اور نمبرداری کلچر نے لوگوں کو محکوم بنا رکھا ہے۔۔۔ ہر شعبہ حیات اور ہر ادارہ کرپشن میں ملوث ہے۔۔۔ جہالت، غربت، بیماری کے جابجا ڈیرے ہیں۔۔۔ مملکتِ خداداد کے رہنے والوں کا کوئی حال، کوئی ماضی، کوئی مستقبل نہیں۔۔۔ یہ تمام اصل میں غلام ہیں اور اس حقیقت کو کبھی نہ بھولیے کہ یہ بدترین غلامی ہے۔
- مذکورہ بالا تمام راہیں گناہ و ظلم کی راہیں ہیں جن پر ہم سرپٹ دوڑے جارہے ہیں اور زبان پر توبہ توبہ کا وظیفہ بھی زور و شور سے جاری ہے۔ یاد رکھیں کہ یہ توبہ نہیں مذاق ہے۔ مساجد و مقابر میں حاضر ہیں مگر ذہن میں جرائم و گناہوں سے باز آنے اور ان طریقوں کو چھوڑ کر راہ ہدایت پر چلنے کی نیت نہیں۔ ظاہر ہے کہ ظلم و گناہوں کے ترک کیے اور نیکی اپنائے بغیر نہ توبہ قبول ہے، نہ نیکی کا حصول ممکن۔
تَابَ یَتُوْبُ تَوْبَۃً کا مطلب ہے رَجَعَ یَرْجِعُ رَجُوْعًا لوٹنا، پلٹ کر آنا۔ یعنی گناہ سے نیکی کی طرف۔۔۔ ظلم سے عدل کی طرف۔۔۔ جھوٹ سے سچ کی طرف پلٹ کر آنا۔ جن لوگوں نے عوام کا پیسہ کھایا ہے، پہلے وہ لوٹا ہوا مال واپس کریں چاہے ذلت آمیز سزا سے پہلے یا بعد۔۔۔ جنہوں نے ناحق مرد، عورتیں، بچے، جوان، بزرگ، اندھا دھند قتل کیے، سینکڑوں زخمی اور عمر بھر کیلئے معذور کیے، بے گناہ حاملہ عورتوں کے منہ میں گولیاں ماریں، چادر اور چار دیواری کی دھجیاں اڑائیں، بے گناہ بزرگوں، سفید ریش چہروں اور اجلے صاف کپڑوں کو خونِ ناحق سے رنگین کیا، بچوں کو یتیم، عورتوں کو بیوہ بنایا، اُن کو کیفر کردار تک پہنچائے بغیر ظاہراً کیے گئے نیک اعمال کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔
آج ہم انفرادی و اجتماعی سطح پر جن بلاؤں اور وباؤں کا شکار ہیں اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ ارشاد فرمایا:
ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ.
’’بحر و بر میں فساد ان (گناہوں) کے باعث پھیل گیا ہے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کما رکھے ہیں‘‘۔
(الروم، 30: 41)
دعاؤں کی قبولیت کے لیے پہلے اس فساد کو دور کرنا ہوگا۔ اپنے طرزِ عمل پر غور کرنا ہوگا۔ نیک اعمال کی طرف راغب ہونے کے ساتھ ساتھ برائیوں کو بھی ترک کرنا ہوگا۔ ہر معاشرتی اور اخلاقی برائی کا سدِ باب کرکے ہی ہم اللہ کی رحمت و مغفرت کے حقدار بن سکتے ہیں۔