(نشست: اَوّل، حصہ: 4)
ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
عام طور پر یہ منقول ہے کہ باضابطہ نظم کے ساتھ ’’صحیح، حسن اور ضعیف‘‘ تین قسموں کا بیان امام ابن الصلاح (ساتویں صدی ہجری) نے کیا ہے مگر یہ حقیقت نہیں ہے۔ ’’صحیح، حسن اور ضعیف‘‘ حدیث کی یہ تقسیم سب سے پہلے امام خطابی نے کی تھی۔ امام خطابی کا وصال 388 ہجری میں ہوا۔ انہوںنے معالم السنن (شرح سنن ابی داؤد) کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ
ان الحدیث عند أهله علی ثلاثۃ أقسام: حدیث صحیح وحدیث حسن وحدیث سقیمٌ.
(خطابي، معالم السنن، ص: 6)
میں نے حدیث ضعیف کو سمجھانے کے لئے اپنی گفتگو میں لفظ ’’مریض‘‘ استعمال کیا تھا۔ امام خطابی آج سے گیارہ سو سال پہلے حدیث ضعیف کو یہ title دے چکے ہیں اور انہوں نے ’’ضعیف‘‘ کو سقیم کہا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے ’’میت‘‘ یا ’’موضوع‘‘ کی اصطلاح استعمال نہیں کی۔ کیونکہ جو میت ہوجائے، اُس کو گھر سے نکال دیتے ہیں، دفنا دیتے ہیں۔ ’’موضوع‘‘ کو بیان نہیں کرتے، اس پر عمل نہیں کرتے بلکہ خارج کر دیتے ہیں۔ جبکہ ’’ضعیف‘‘ کو رکھتے ہیں، اس لیے کہ اُس کے فوائد ہوتے ہیں۔ ’’سقیم‘‘ کا مطلب ’’علیل‘‘ ہے۔ بیمار اور میت کا فرق اگر سمجھ میں آ جائے تو ’’ضعیف‘‘ اور ’’موضوع‘‘ کا فرق بڑی آسانی سے سمجھ میں آجائے گا۔ ’’موضوع‘‘ مثلِ میت ہے اور ’’ضعیف‘‘ مثلِ مریض اور سقیم ہے۔ ہم مریض کا آخر وقت تک علاج کرواتے ہیں، اُس کو قبر میں نہیں دفنا آتے کیونکہ اُس میں شفایابی کی امید ہوتی ہے اور %90 مریض شفایاب بھی ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح حدیث ضعیف کا علاج ہوتا ہے تا کہ وہ مقبول ہوجائے۔ جسے ردّ کرتے اور دفن کرتے ہیں، وہ موضوع، کذب اور جھوٹ ہوتا ہے۔
علامہ ابن تیمیہ حدیث کی اس تقسیم ’’صحیح، حسن اور ضعیف‘‘ کے حوالے سے اپنی کتاب ’’مجموع الفتاویٰ‘‘ میں لکھتے کہ صحیح، حسن اور ضعیف کی اصطلاحات میں سے حدیثِ حسن کی اصطلاح کو سب سے پہلے امام ترمذی نے متعارف کروایا ہے۔ ان کے مطابق ’’حدیث حسن‘‘ امام ترمذی سے پہلے کسی کو معلوم نہ تھی۔ امام ترمذی سے پہلے صرف حدیث کی دو قسمیں بیان کی جاتی تھیں: صحیح اور ضعیف۔ حسن کی اصطلاح مستعمل نہیں تھی۔
علامہ ابن تیمیہ کا یہ موقف اور رائے درست نہیں ہے۔ یہ الگ معاملہ ہے کہ امام ترمذی نے کثرت کے ساتھ ’’حسن‘‘ کی اصطلاح کو استعمال کیا، جس سے یہ ایک صنف کے طور پر زیادہ متعارف ہوگئی ہے۔ ’’حسن‘‘ کی اصطلاح امام شافعی نے بھی استعمال کی ہے جو امام ترمذی کے شیخ الشیوخ میں سے ہیں، اسی طرح امام بخاری اور کئی دیگر ائمہ حدیث نے بھی حسن کی اصطلاح بیان کی۔ بہت سارے ائمہ ’’حسن‘‘ کی اصطلاح کو امام ترمذی سے پہلے استعمال کر چکے اور امام ترمذی خود اس کا تذکرہ کرتے تھے۔ امام ترمذی نے کئی احادیث میں بیان کیا ہے کہ فلاں حدیث کے بارے میں امام بخاری سے میں نے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ ’’حسن‘‘ ہے۔ اسی طرح امام احمد بن حنبل، امام یحییٰ بن معین، امام علی المدینی کے ہاں بھی یہ اصطلاح ہمیں ملتی ہے۔ الغرض امام ترمذی سے بہت پہلے درجنوں ایسے ائمہ حدیث تھے جو ’’حسن‘‘ کی اصطلاح کو باقاعدہ اصطلاحی معنی میں استعمال کرتے تھے اور حدیث کی سند پر حکم لگاتے تھے۔ لہٰذا یہ ایک قدیم تقسیم ہے۔
اختلاف اور علمی مزاج
علامہ ابن تیمیہ سے عقائد کے بعض پہلوؤں پر ہمارا اختلاف ہے۔ وہ اختلاف اپنی جگہ۔ میری طبیعت ایسی نہیں کہ اختلاف کی وجہ سے کسی کو پنجابی والا مردود بنا دوں۔ یہ شیوئہ اہلِ علم نہیں ہے۔ ہمارے ہاں اختلاف ہو تو برداشت ہی ختم ہو جاتی ہے۔ جس سے اختلاف ہو تو ہم اسے پنجابی والا مردود بنادیتے ہیں، اُس پر کفر کے فتوے لگادیتے ہیں، اُس کو مسجد میں امامت سے بھی ہٹا دیا جاتا ہے حتی کہ اُسے توبہ تائب ہونے کا کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں برداشت کی بہت کمی اور تنگ نظری کی کثرت ہے۔ بارہ تیرہ سو سال کی علمی تاریخ پر اگر نظر دوڑائیں تو ایسا مزاج ہمیں کہیں نظر نہیں آتا۔ ائمہ کے مابین اختلاف بھی ہوتا تھا مگر وہ کسی کو کافر نہیں بناتے تھے اور نہ دائرۂ اسلام سے خارج کرتے تھے۔
علامہ ابن تیمیہ کے ساتھ کثیر علماء نے اختلاف کیا ہے، ان کے رد سے کتابیں بھری پڑی ہیں مگر میری نظر سے نہیں گزرا کہ کسی نے اُن سے اختلاف کرتے ہوئے حیا کا دامن ہاتھ سے چھوڑا ہو۔ رد کرنے والے بھی القاب کے ساتھ ان کا نام لکھتے ہیں۔ اختلاف بھی تھا مگر عزت، تعظیم اور و توقیر و حیا بھی تھا۔ یہ علم کا شیوہ تھا۔ افسوس! ہماری زندگی سے علم کا یہ شیوہ ختم ہو گیا ہے۔
مسالک کے اختلاف آج پیدا نہیں ہوئے مگر اس کے باوجود جب ہم مختلف کتب میں ان مصنفین کے دوسروں کے بارے میں مختلف اقوال اور فتاویٰ پڑھتے ہیں تو یہ واضح نظر آتا ہے کہ کسی نے اپنے سے مختلف رائے اور فتویٰ دینے والے کو کافر نہیں کہا، خارج از اسلام نہیں کیا، اس لیے کہ علم کے مزاج میں ایک وسعت، تحمل اور حلم ہوتا ہے۔ امام اعظم، امام بخاری، امام مالک اور کئی ائمہ سے دیگر ائمہ علم نے اختلاف کیا، فتوے دیے مگر کسی زمانے میں ایک عالم کے یا وقت کے امام کے فتویٰ کو باقی اہلِ علم دین اور مسلک نہیں بنا لیتے تھے بلکہ فتویٰ، فتویٰ رہتا تھا، مسلک، مسلک اور عقیدہ، عقیدہ رہتا تھا۔ یہ بتانا مقصود ہے کہ فتویٰ اپنے درجے میں قائم ہوتا تھا خواہ کوئی اُس کی پیروی کرے یا اُس سے اختلاف کرے۔ مگر فتویٰ تاریخِ علم میں کبھی مسلک اور مذہب نہیں بنا۔ فتویٰ اور مذہب و مسلک میں فرق رہتا تھا۔ مکاتبِ فکر بھی ہوتے تھے، اساتذہ و تلامذہ، مدارس، نسبتیں اور سلاسل بھی ہوتے تھے مگر ایک دوسرے کو اسلام سے خارج نہیں کرتے تھے۔
علامہ ابن تیمیہ کے علمی تبحر میں کوئی شک نہیں ہے۔ کئی امور پر ان سے اختلاف ہے، ان علمی امور کو ہم رد کرتے ہیں۔ علمی بات کا رد علم سے کیا جائے، فتویٰ کے ڈنڈے اور تلوار سے نہ کیا جائے۔ یہی مردانہ طریقہ اور شیوۂ اہلِ علم ہے۔ اگر یہ وطیرہ اپنا لیں تو تمام مسالک اور طبقات کے درمیان قربت پیدا ہو جائے۔ جہاں جہاں اختلاف ہے، وہاں الگ رہیں اور جہاں اتفاق ہے، وہاں اکٹھے ہو جائیں۔
اصح الاسانید
اس ضمنی وضاحت کے بعد اب علم الحدیث کی ایک اور اصطلاح ’’اصح الاسانید‘‘ کا مطالعہ کرتے ہیں۔ حدیث صحیح کے باب میں اصح الاسانید کی اصطلاح کثرت سے استعمال ہوتی ہے کہ یہ حدیث اصح الاسانید ہے یعنی یہ سب سے صحیح ترین سند ہے۔ مختلف اسناد کو اصح الاسانید کہا گیا ہے، مثلاً: امام بخاری نے کہا کہ یہ اصح الاسانید ہے:
محمد بن مسلم بن شہاب زهري عن سالم بن عبد اللہ بن عمر عن أبیه.
امام احمد بن حنبل نے کہا کہ یہ اصح الاسانید ہے:
مالک عن نافع عن ابن عمر.
کسی نے کہا کہ یہ سند اصح الاسانید ہے:
سفیان الثوري عن منصور عن إبراہیم النخعي عن علقمۃ عن عبد اللہ بن مسعود.
امام عبدالرزاق نے کہا کہ یہ اصح الاسانید ہے:
الزہري عن زین العابدین عن أبیہ الحسین عن جدہ علي ابن أبي طالب.
اصح الاسانید کے حوالے سے علماء کا ایک طبقہ یہ رائے رکھتا ہے کہ مذکورہ بالا اسانید اصح الاسانید ہیں، مگر جمہور علماء کا مذہب مختار یہ ہے کہ کسی ایک سند کو علی الاطلاق یعنی مطلقاً اصح الاسانید (سب سندوں سے صحیح ترین سند) قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہاں! نسبت کے اعتبار سے ہو سکتا ہے مثلاً: فلاں سند سیدنا صدیق اکبرؓ کی روایت کے لئے سب سے اعلیٰ ہے۔۔۔ فلاں سیدنا عمرؓ کی روایت کے لئے سب سے اعلیٰ ہے۔۔۔ فلاں سیدنا علی شیر خداؓ کی روایت کے لئے سب سے زیادہ اعلیٰ ہے۔۔۔ فلاں حضرت ابوھریرہؓ کی روایت کے لئے سب سے اعلیٰ ہے۔۔۔ فلاں حضرت ابن عمرؓ کی روایت کے لئے سب سے زیادہ اعلیٰ ہے۔۔۔ فلاں عبداللہ ابن مسعودؓ کی روایت کے لئے سب سے زیادہ اعلیٰ ہے۔۔۔ فلاں انس ابن مالکؓ کی روایت کے لئے سب سے زیادہ اعلیٰ ہے۔۔۔ فلاں اہل بیت کی روایت کے لئے سب سے اعلیٰ سند ہے۔۔۔ اس طرح اہلِ مکہ، مصریین، شامیین، یعنی ایک نسبت، ایک ملک اور شہر کو مقرر کر کے یا ایک صحابی کو مقرر کر کے اُن کی سند کو کہہ سکتے ہیں کہ سب اسناد سے یہ طریق صحیح ترین اور اعلیٰ ہے۔ مگر علی الاطلاق یہ کہنا کہ فلاں سند سب سے اصح ہے، یہ قول مذہب مختار نہیں ہے۔
حدیث صحیح کے مراتب
کیا حدیث صحیح کے کوئی مراتب بھی ہیں کہ جس سے ثابت ہو کہ فلاں کتاب یا فلاں سند اور طریق سے کوئی حدیث ثابت ہو تو اُسے سب سے اوپر درجہ کی صحیح سمجھیں گے؟
یعنی ساری احادیث پر حکم تو صحیح کا ہو مگر کیا اُن کے اندر کوئی مرتبہ اور درجہ بھی ہے کہ درجے میں اعلیٰ اور ادنیٰ حدیث صحیح کون سی ہے؟ یاد رکھ لیجئے کہ جیسے حدیث ضعیف میں بے شمار مراتب ہیں اور آخری اشر مرتبہ ’’موضوع‘‘ ہے اور بہت اوپر جا کر مرسل بھی حدیث ضعیف میں آ جاتی ہے، اسی طرح حدیث صحیح کے بھی کئی مراتب ہیں۔
حدیث صحیح کی تقسیم سبعی
مقدمہ ابن الصلاح میں حدیث صحیح کے مراتب کی معرفت کا عنوان قائم کیا گیا ہے کہ حدیث صحیح کے درج ذیل مراتب ہیں:
1۔ صحیح أخرجہ البخاري ومسلم جمیعاً
وہ حدیث صحیح جسے امام بخاری اور امام مسلم دونوں نے روایت کیا ہو، یعنی جو حدیث متفق علیہ ہو۔ حدیثِ صحیح کا سب سے اعلیٰ اور پہلا درجہ ہے۔
2۔ صحیح إنفرد بہ البخاري، أي عن مسلم
وہ حدیث صحیح جسے صرف امام بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہو اور امام مسلم نے روایت نہ کیا ہو۔ ایسی حدیث مفرادات بخاری میں سے ہے۔یہ حدیثِ صحیح کا دوسرا درجہ ہے۔
3۔ صحیح إنفرد بہ مسلم، عن البخاري
وہ حدیث صحیح جسے صرف امام مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہو مگر اُسے امام بخاری نے روایت نہ کیا ہو۔ ایسی حدیث مفرادات مسلم میں سے ہے۔یہ حدیث صحیح کا تیسرا درجہ ہے۔
4۔ صحیح علی شرطھما لم یُخرجاہ
وہ حدیث صحیح جسے امام بخاری اور امام مسلم دونوں نے چھوڑ دیا ہو، یعنی اس کی تخریج نہ کی ہو مگر اس حدیث کی سند امام بخاری اور امام مسلم دونوں کی شروط صحت پر پوری اترتی ہو۔ یہ حدیث صحیح کا چوتھا درجہ ہے۔
اس موقع پر یہ بھی وضاحت کردوں کہ امام بخاری نے لفظاً شروط مقرر نہیں کیں کہ میری یہ یہ شرائط صحت ہیں، اگر یہ شرائط ہوں تو حدیث صحیح ہوگی اور اسے میں اپنی الصحیح میں درج کروں گا، یعنی امام بخاری نے متعین کر کے نہیں فرمایا۔ امام بخاری کی شرائطِ صحت استقراءً معلوم ہوتی ہیں، صحیح بخاری کے نام سے معلوم ہوتی ہیں یا اُن کی جمع کردہ احادیث کی اسناد کو پڑھ کر معلوم ہوتی ہیں جبکہ امام مسلم نے اپنی صحیح مسلم کے مقدمہ میں اپنی شرائطِ صحیح کا ایک معیار مقرر کر کے اسے بیان کر دیا ہے۔
5۔ صحیح علی شرط البخاری لم یخرجہ
وہ حدیث صحیح جو صرف امام بخاری کی شرائط صحیح کے مطابق ہے، مگر امام بخاری نے اسے روایت نہ کیا ہو۔ یہ حدیث صحیح کا پانچواں درجہ ہے۔
6۔ صحیح علی شرط مسلم لم یخرجہ
وہ حدیث صحیح جو شرائط مسلم کے مطابق صحیح ہو، مگر امام مسلم نے روایت نہ کیا ہو۔ یہ حدیثِ صحیح کا چھٹا درجہ ہے۔
7۔ صحیح عند غیرھما ولیس علی شرط واحد منھما
وہ حدیث صحیح جو (امام بخاری و مسلم) دونوں میں سے کسی کی بھی شرائط صحت پر پوری نہیں اترتی۔یہ حدیث صحیح کا ساتواں درجہ ہے۔ گویا ساتواں درجہ صحیح وہ ہے جو بخاری و مسلم دونوں کی شرائط پر نہیں بلکہ کسی اور محدث، جارح و معدل امام کی شرائط کے مطابق صحیح ہے۔
(ابن الصلاح، المقدمۃ، ص: 908)
کیا کسی حدیث کے صحیح ہونے کے لیے اس کا صحیح بخاری میں ہونا ضروری ہے؟
حدیث صحیح کے ساتویں درجے کے حوالے سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی حدیث امام بخاری و مسلم کی شروطِ صحت پر بھی پوری نہیں اترتی تب بھی وہ حدیث صحیح کیوں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ حدیث اس لئے صحیح ہے کہ کسی حدیث کے صحیح ہونے کے لئے یہ شرط ہی نہیں ہے کہ اسے بخاری یا مسلم نے روایت کیا ہو۔ بارہ سو سال کی علوم الحدیث کی تاریخ میں کسی عالم اور امام نے یہ نہیں لکھا کہ حدیث صحیح کے لئے شرط ہے کہ اسے امام بخاری یا امام مسلم نے روایت کیا ہو۔
افسوس کہ آج وہ لوگ جنہوں نے متفنن و متبحر اساتذہ کے پاس علم حدیث نہیں پڑھا، جنہوں نے بخاری، مسلم، ابن الصلاح، عسقلانی، نووی، سیوطی، عراقی، سخاوی، قسطلانی، عینی رحمہم اللہ، الغرض کسی بھی امام حدیث کو نہیں پڑھا اور خود وہ صرف مسجد کے امام ہیں، یہ لوگ لاعلمی کے سبب کہتے ہیں کہ میں فلاں حدیث کو نہیں مانتا، اس لیے کہ اسے امام بخاری اور امام مسلم نے روایت نہیں کیا۔ کہتے ہیں کہ ’’دکھاؤ! اگر بخاری میں ہے تو مانتا ہوں، مسلم میں ہے تو مانتا ہوں، ورنہ نہیں مانتا‘‘۔
میں ایسا کہنے والے سے کہتا ہوں کہ تم تیرہ سو سال میں کسی ایک امام کو دکھا دو کہ جس نے کہا ہو کہ ’’جس حدیث کو بخاری روایت نہ کریں، اسے میں نہیں مانتا۔ جو بخاری میں نہ ہو وہ صحیح نہیں یاجو مسلم میں نہ ہو، وہ صحیح نہیں‘‘۔ ایسے لوگ نہ امام ہیں اور نہ عالم۔ ایسا کہنے والوں کا علمِ حدیث سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ افسوس کہ ایسے لوگ جہالت کو علم کا نام دے رہے ہیں۔
80ء کی دہائی کی بات ہے کہ جب میں سمن آباد میں رہتا تھا، ہمارے گھر کے قریب ایک مسجد تھی، اُس کے امام صاحب ہر جمعہ کی شام مجھے ملنے آتے تھے۔ میں ان سے پوچھتا تھا کہ آج خطبہ جمعہ میں کیا بیان فرمایا؟ تو وہ مجھے بتاتے کہ فلاں فلاں موضوع تھا۔ ایک دفعہ انہوں نے ایک جمعہ کے خطاب میں کوئی مسئلہ غلط بیان کر دیا۔ شام کو آئے مجھے بتایا کہ میں نے آج یہ بیان کیا ہے۔ میں نے کہا: یہ تو غلط ہے، اصل مسئلہ تو یہ ہے۔ انہوں نے کہا: اچھا، اگلے جمعہ پر میں اس کی تصحیح کر دوں گا۔ اگلے جمعہ پر انہوں نے خطاب کیا اور کہا: کہ ’’پچھلے جمعہ پر جو بات میں نے کہی تھی، وہ قول ائمہ کا نہیں ہے، صرف ایک امام کا ہے۔ وہ مذہب نہیں ہے، اُس کو مت مانیں، اصل مذہب یہ ہے‘‘۔ شام کو میرے پاس آئے تو میں نے پوچھا: لوگوں کو کیا بتایا؟ انہوں نے جو بیان کیا تھا، وہ بتادیا۔ میں نے کہا: مولانا! وہ ایک امام کون سے ہیں جن کا وہ قول ہے؟ انہوں نے جواب دیا: میں بھی تو ایک امام ہوں۔ میں نے کہا: آپ تو امام مسجد ہیں۔ انہوں نے کہا: میں نے مسجد کا لفظ تو استعمال نہیں کیا۔ ہر کوئی مجھے بھی امام صاحب ہی کہتا ہے۔
اس طرح کا کوئی امام ہے تو حدیثِ صحیح ہونے کے لیے بخاری و مسلم میں لازمی موجودگی کی شرط اُس کا جہالت پر مبنی قول تو ہو سکتا ہے مگر علم حدیث، علم تفسیر، علم فقہ اور علم عقیدہ کے کسی امام نے بارہ سو سال میں ایسی کوئی شرط بیان نہیں کی۔
حدیث صحیح کی مذکورہ تقسیم سبعی (سات مراتب) کو ہر امام نے قبول کیا اور لکھا ہے۔ حدیث صحیح کے یہ مراتب اور تقسیم ابن الصلاح نے کی اور امام نووی، حافظ عسقلانی، زین الدین عراقی، زرکشی اور امام سیوطی رحمہم اللہ سمیت تمام ائمہ اس تقسیم پر چلتے چلے آئے ہیں۔
میں حدیثِ صحیح کے مراتب اور تقسیم کو ایک اور زاویہ نظر سے دیکھتا ہوں۔ میں علی الاطلاق اس مذکورہ تقسیم کے حق میں نہیں ہوں۔ جو متفق علیہ ہے، یہ سب سے بلند درجہ ہے، یہاں تک کامل اتفاق ہے۔ باقی درجاتِ حدیثِ صحیح مسلّمہ نہیں ہیں، جملۃً ہیں، فرداً فرداً قابلِ قبول نہیں۔ اس پر آئندہ بات ہوگی۔