دینِ متین کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے۔ قرآن مجید اور اس کی حقیقی تشریح یعنی سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قیامت تک باقی رکھنے کا سامان بھی اس نے پیدا کردیا۔ اسباب کی دنیا میں اللہ تعالیٰ نے جو سامان پیدا کیا ہے اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان الفاظ میں ارشاد فرمایا:
علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل۔
’’میری امت کے علماء بنی اسرائیل کا پرتو ہیں‘‘۔
بنی اسرائیل کے انبیاء شریعت کی وضاحت و تشریح کا فریضہ سرانجام دیتے تھے اور یہ ذمہ داری امتِ مسلمہ کے علماء پر ڈالی گئی ہے۔ چنانچہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری وصال مبارکہ کے بعد سے لے کر آج تک ہر دور کے علماء نے علمِ حدیث اور شریعتِ مطہرہ کی وضاحت اور حفاظت کے لیے قابلِ قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔
حدیث نبوی کا علم قرآنی علوم سے ہم آہنگی کے سبب دیگر تمام علوم سے قدر و منزلت میں افضل ہے اور ایسا کیوں نہ ہو کہ یہی تو قرآنی اجمال کی تفصیل ہے اور قرآنی احکام کی شرح ہے۔ یہ ایک مسلّمہ امر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر زمانہ میں اس علم کی ترویج کے لیے ایسے رجال کار پیدا کئے جنہوں نے مختلف ادوار میں اس علم کے نظم و ضبط کے حوالے سے شاندار کارنامے سرانجام دیئے۔ ان تمام ائمہ اسلام نے اپنے بعد آنے والے لوگوں کے لیے احادیث نبوی کی جمع و ترتیب کے لیے ایک صراطِ مستقیم وضع کیا اور اس طرح وہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس دعا کے مستحق ٹھہرے کہ
’’اللہ تعالیٰ اس شخص کو تر و تازہ رکھے کہ جس نے میرا فرمان سنا اور اسے اچھی طرح سمجھا اور پھر اسی طرح آگے پہنچایا جس طرح اس نے سنا‘‘۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری بھی انہی علماء میں سے ہیں جنہوں نے حدیث کی حفاظت و اشاعت کے سلسلہ میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ شیخ الاسلام علامہ زماں فرید دوراں، نابغہ عصر، رہنمائے اسرار حال و قال، شوکت سلسلہ قادریہ، صاحب تصانیف کثیرہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی علمِ حدیث میں رسائی اور اس کی پکڑ اور حدیث کو جانچنے پرکھنے کا انداز ایسا ہے کہ موجودہ دور میں جس کی نظیر نہیں ملتی۔ آپ نے علم حدیث میں بہت کارنامے انجام دیئے ہیں خصوصاً حدیث کو باب در باب فصل در فصل رکھنا بہت بڑا کام ہے۔ خاص طور سے آپ نے جو بھی باب باندھا تو اسی موضوع کے اعتبار سے کئی کئی حدیثیں لانا بڑی کامیابی کی دلیل ہے۔
سب سے بڑا آپ کا کارنامہ یہ ہے کہ جس وقت موجودہ دور میں سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گستاخ فرقہائے باطلہ حدیث پر قبضہ کرنے کی کوشش کررہے تھے اور ہر وہ حدیث جو بھی ان کے باطل عقیدے کے خلاف ہوتی اسے ضعیف یا موضوع قرار دے رہے تھے جیسا کہ شان و عظمتِ مصطفی کے متعلق احادیث وغیرہ تو ایسے وقت میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مورچہ سنبھالا اور ان احادیث کو جانچا پرکھا، اس کے بعد ان پر حکم لگایا اور ان فرقہائے باطلہ کے طلسم کو چور چور کردیا۔ آپ نے انہی احادیث کے ذریعہ ان باطل کے پجاریوں کو آئینہ دکھا دیا اور ثابت کردیا کہ ضعیف احادیث پر فضائلِ اعمال میں عمل کرنا جائز ہے۔
دعا ہے کہ اللہ رب العزت شیخ الاسلام کے علم حدیث میں محنت شاقہ کو قبول فرمائے اور اس علم سے ہمیں بھی نفع اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
آخر میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے حضور اپنی محبتوں کا نذرانہ پیش کررہا ہوں:
گُلوں کا تازہ چمن ہے طاہر
بہارِ کوہ و دمن ہے طاہر
چمکتا درِّ یمن ہے طاہر
بہارِ کوہِ دمن ہے طاہر
خدائے واحد کی مہربانی
وہ مصطفی (ص) کی ہے اک نشانی
دلوں پہ ہے جس کی حکمرانی
نہیں ہے جس کا کوئی بھی ثانی
وہ بادشاہِ زمن ہے طاہر
بہارِ کوہِ دمن ہے طاہر
کہ اس کے چلنے میں کیا پھبن ہے
چکور شیدا فِدا ہرن ہے
بڑا نرالا وہ گُل بدن ہے
جبیں کشادہ غضب ذقن ہے
کہ رشکِ سرو سَمن ہے طاہر
بہارِ کوہِ دمن ہے طاہر
خطاب کرتا ہے اس ادا سے
ملاتا بندوں کو ہے خدا سے
ملی ہے خیرات مصطفی (ص) سے
کہ اس کا رشتہ ہے کربلا سے
گُلِ حُسَین و حَسَن ہے طاہر
بہارِ کوہِ دمن ہے طاہر
وہ قصہ درد یوں سنائے
کہ روح و دل میں اتر جو جائے
وہ جامِ عشقِ نبی (ص) پلائے
تو بختِ خفتہ کو بھی جگائے
خطیبِ شہرِ سخن ہے طاہر
بہارِ کوہِ دمن ہے طاہر
جو آئے گردش میں جام اُس کا
سنیں کبوتر کلام اُس کا
ہے چار سو فیضِ عام اُس کا
تمام عالم میں گام اُس کا
مجاہدِ صف شکن ہے طاہر
بہارِ کوہِ دمن ہے طاہر
ہے میرے طاھر کی شان اعلیٰ
ہے میری آنکھوں کا وہ اجالا
وہ اھلِ دل کا امامِ برحق
ہے اس کا رتبہ بلند وبالا
حفیظیؔ کا جان وتن ہے طاھر
بہارِ کوہِ دمن ہے طاھر