17 جون 2020ء کو شہدائے ماڈل ٹاؤن کی چھٹی برسی ہے۔ جہاں ہمارے دل غم سے نڈھال ہیں وہاں ہمارے دلوں کو ایک اطمینان بھی میسر ہے کہ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب کی حصولِ انصاف کی جدوجہد 6 سال بعد بھی پوری طاقت، عزم، استقامت کے ساتھ جاری ہے۔ حصولِ انصاف کی جدوجہد میں شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کا شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری پر غیر متزلزل یقین اور اعتماد کا اظہار قابل فخر اورقابل تقلید ہے۔
شیخ الاسلام نے گزشتہ گزرے ہوئے چھ سالوں کا ہر دن حصول انصاف کی جدوجہد میں گزارا۔ الحمدللہ اس جدوجہد میں نہ قیادت کے عزم میں کوئی شکن آئی اور نہ ہی شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کے عزم و ہمت اور حوصلے کو وقت کی نمرودی، فرعونی اور قارونی قوتیں متزلزل کر سکیں۔
17 جون 2014ء پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے، جس دن نواز، شہباز حکومت نے طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی رہائش گاہ اور ادارہ منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ پر جس طرح ریاستی دہشت گردی کی، پاکستان کی سیاسی اور سماجی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس سانحہ میں پاکستان عوامی تحریک اور ادارہ منہاج القرآن کے معصوم اور نہتے بے گناہ کارکنوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ دہشت گردی پر مبنی خونی مناظر پوری دنیا نے میڈیا چینلز کے ذریعے براہ راست دیکھے۔ اس المناک واقعہ میں 14 افراد شہید ہوئے جن میں دو خواتین بھی شامل تھیں اور سو سے زائد افراد کو سیدھی گولیاں ماری گئیں اور شدید زخمی کیا گیا جس میں سے کچھ افراد اپاہج بھی ہوچکے ہیں۔
سانحۂ ماڈل ٹاؤن ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے اس کا مقصد حکومت کے ماورائے آئین و قانون طرزِ حکمرانی کے خلاف شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی جدوجہد کو روکنا تھا۔ بیرئرز کو ہٹانا تو ایک بہانہ تھا اصل ایجنڈا ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور ان کی تحریک کو ختم کرنا تھا۔ اللہ تعالی نے بدنیت اور بددیانت عناصر کو ان کے ناپاک ارادوں سمیت نشانِ عبرت بنا دیا جبکہ دوسری طرف الحمدللہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی آواز اور تحریک منہاج القرآن کا پیغام پوری دنیا کے کونے کونے میں گونج رہا ہے۔
- 17جون سے قبل جب سانحۂ ماڈل ٹاؤن کے لئے منصوبہ بندی ہورہی تھی تو اس وقت کے IGپنجاب خان بیگ سے اس قتل وغارت گری کے لئے بات ہوئی تو اس نے انکار کردیا تو مورخہ 14 جون 2014ء کو IG پنجاب خان بیگ کو OSD بنا دیا گیا اور 14 جون 2014ء کو ہی مشتاق احمد سکھیرا کا بطور IGپنجاب نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔ اس وقت کے DCO احمد جاوید قاضی سے جب بات ہوئی تو انہوں نے بھی اس طرح کی قتل و غارت گری کرنے سے انکار کردیا تو فوری طور پر ان کی جگہ نیا DCO کیپٹن (ر) عثمان کو لگا دیا گیا اور 14 جون 2014ء کو ہی ان کا بطور DCOنوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ کیپٹن (ر) عثمان سانحہ ماڈل ٹاؤن کے دوران بھی موقع پر موجود تھا اور سارے وقوعہ کی خود نگرانی وہدایت دیتا رہا۔ یہاں پر یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ آئی جی خان بیگ کو سانحہ ماڈ ل ٹاؤن میں ساتھ نہ دینے کی پاداش میں اس کے عہدے پربحال نہ کیا گیا بلکہ ریٹائرمنٹ تک OSD ہی رکھا گیا ۔
- اگر سانحہ ماڈل ٹاؤن ایک حادثہ ہوتا تو سانحہ کے فوری بعد قتل و غارت گری میں ملوث افسران و اہلکاران کے خلاف سخت کارروائی ہوتی لیکن ایسا نہ ہوا بلکہ سانحہ میں حصہ لینے والے تمام افسران و اہلکاران کو پرکشش عہدوں سے نوازا گیا انہیں آؤٹ آف ٹرن ترقیاں دینے کے ساتھ ساتھ پسند کی تقرریاں بھی دی گئیں۔
اس سانحہ کا ایک اور درد ناک پہلو یہ ہے کہ ظلم و ریاستی دہشت گردی کی ایک نئی تاریخ رقم کرکے پولیس کی مدعیت میں جھوٹی FIR 510/14 درج کرکے زخمی کارکنان اور اور مقتولین کے لواحقین کو گرفتار کرکے دنیا کی تاریخ میں ظلم و ناانصافی کی ایک نئی مثال قائم کردی۔ مقدمہ نمبر FIR 510/14 (پولیسی مدعی) میں JIT تشکیل پائی جس میں دو ایجنسیوں) ISI,MI (کی نمائندگی بھی شامل تھی۔ ان دنوں ایجنسیوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں تحریر کیا کہ اس FIR کو Quash ہونا چاہیے۔ اس اختلافی نوٹ میں FIR کو Quash کرنے کی وجوہات بھی تحریر کی گئیں لیکن اس کے باوجود اس مقدمہ کاچالان انسداد دہشت گردی کورٹ لاہور میں پیش کردیا گیا حالانکہ اختلافی نوٹ کی موجودگی میں اس مقدمے کا چالان عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس طرح مقدمہ نمبر FIR 510/14 میں PAT اور ادارہ منہاج القرآن کے بے گناہ کارکنان جنوری 2015ء سے لے کر اب تک انسداددہشت گردی عدالت میں تقریباً 450تاریخ پیشیاں بھگت چکے ہیں۔
سانحۂ ماڈل ٹاؤن کے فوری بعد متاثرین کی ایف آئی آر کا اندراج نہ ہوا۔ جسٹس آف پیس کے حکم کے باوجود بھی مقدمہ درج نہ ہوا تو جسٹس آف پیس کے حکم کے خلاف حکومتی وزراء ( پرویز رشید،عابدشیرعلی، خواجہ سعد رفیق) نے لاہور ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کی جو لاہور ہائی کورٹ نے مورخہ 26 اگست 2014ء کو خارج کر دی لیکن اس کے باوجود FIRکا اندراج نہ ہوا کیونکہ اس سانحہ میں اس وقت کے وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب، وزیر قانون پنجاب، وزراء اور اعلیٰ پولیس افسران ملوث تھے۔
- دھرنا کے دوران چیف آف آرمی سٹاف کی مداخلت سے مورخہ 28 اگست 2014ء کو مقدمہ نمبر 696/14کا اندراج ہوا اور دھرنا کے دوران ہی یقین دہانی کروائی گئی کہ JIT غیرجانبدار اور اورمدعی فریق کے اتفاق رائے سے بنائی جائے گی مگر اس وقت کی حکومت (جو اس سانحہ میں ملوث تھی) نے وعدہ سے انحراف کرتے ہوئے اپنی مرضی سے اپنے من پسند اور زیرِ اثر افسران پر مشتمل JIT تشکیل دے دی۔
مقدمہ نمبر 696/14 کی JIT کا سربراہ عبدالرزاق چیمہ کو لگایا گیا جو انہیں ملزمان کے تحت گوجرانوالہ اور لاہور میں اپنے فرائض سر انجام دے چکا تھا۔ پاکستان عوامی تحریک کی طرف سے JIT کے سربراہ کے حوالے سے باضابطہ احتجاج ریکارڈ کرایا گیا اور حکومت کو غیرجانبدارجے آئی ٹی تشکیل دینے کا وعدہ یاد کرایا گیا مگر حکومت اپنی مرضی کی تفتیش رپورٹ حاصل کرنے کے لئے اس JITکو تبدیل کرنے پر رضا مند نہ ہوئی جس پر آئی جی پنجاب کو بذریعہ تحریری لیٹر زغیر جانبدار جی آئی ٹی بنانے کے لئے بارہا درخواستیں ارسال کی گئیں لیکن ان درخواستوں کو نظر انداز کر دیا گیا اور حکومت نے اس JIT سے اپنی مرضی کے مطابق غیر منصفانہ اور بے بنیاد رپورٹ تیار کروائی۔ اس مقدمہ میں سابق وزیراعظم نواز شریف، سابق وزیراعلی پنجاب میاں شہباز شریف، سابق وفاقی صوبائی وزراء اور پولیس افسران جو بطور ملزمان ایف آئی آر میں نامزد تھے، اس لیے بد دیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان نامزد ملزمان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی گئی اور ان تمام پولیس افسران اور گورنمنٹ کے بااثر افراد کو اس مقدمے سے نکال دیا گیا اور پاکستان عوامی تحریک کے 42کارکنان جن کو مورخہ 17 جون 2014ء کو ہی مقدمہ نمبر 510/14 میں گرفتار کیا گیاتھا، ان 42 کارکنان کو اپنے ہی مقدمہ نمبر 696/14 میں بھی ملزم قرار دے کر انسداددہشت گردی کورٹ میں چا لان پیش کردیا گیا۔ بعد ازاں ان 42 کارکنان کی اپنے ہی مقدمہ نمبر696/14 میں ضمانتیں کروائی گئیں۔
- عوامی تحریک کے کارکنان کا ناحق چالان کرنے سے حکمرانوں کی مکمل بددیانتی سامنے آگئی تو استغاثہ دائر کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا، لہذا فوری طور پر انسداددہشت گردی عدالت لاہور میں جو بھی اس وقت شہادتیں موجود تھیں منسلک کرکے استغاثہ دائرکردیاگیا۔ استغاثہ کیس میں 56 زخمی وچشم دید گواہان کے بیانات مکمل ہونے کے بعد مورخہ 7 فروری 2017ء کو انسداد دہشت گردی کورٹ لاہور نے سانحۂ ماڈل ٹاؤن کیس میں کانسٹیبل سے لیکر آئی جی پنجاب تک اور DCO کیپٹن (ر) عثمان، TMO نشتر ٹاؤن علی عباس، AC ماڈل ٹاؤن طارق منظور چانڈیو کو طلب کرلیا تھا۔ لیکن گورنمنٹ اور بیورو کریسی کے وہ بارہ افراد جنہوں نے اس وقوعہ کی منصوبہ بندی کی تھی، ان کو طلب نہ کیا گیا۔ اس پر PAT نے ان بارہ افراد کی حد تک لاہور ہائی کورٹ میں Criminal Revision دائر کی۔ اس Criminal Revision کو لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ نے مورخہ 26 ستمبر 2018ء کو خارج کردیا۔ لاہور ہائی کورٹ کے حکم مورخہ26 ستمبر2018ء کے خلاف سپریم کورٹ میں گئے ہوئے ہیں۔ گورنمنٹ اور بیوروکریسی کے 12افراد جن کو ATC نے طلب نہیں کیا تھا ان کا کیس ابھی تک سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ جس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔
- اسی طرح آئی جی پنجاب مشتاق احمد سکھیرا کی طلبی بھی انسداد دہشت گردی کورٹ لاہور میں ہوئی تھی لیکن مشتا ق احمد سکھیرا نے بھی لاہور ہائیکورٹ میں اپنی طلبی کو چیلنج کیا تھا۔ مورخہ 26 ستمبر2018ء کو اب کی بھی Criminal Revision خارج ہو گئی تھی۔ IG مشتاق احمدسکھیرا Criminal Revision خارج ہونے کے بعد انسداد دہشت گردی کورٹ لاہور میں پیش ہوگیا۔ جس کی وجہ سے استغاثہ کیس میں جتنا بھی ٹرائل ہوا تھا، اس نئے ملزم کے پیش ہونے پر ٹرائل DENOVO ہو گیا۔ اس طرح مشتاق احمد سکھیرااور دیگر تمام ملزمان پر مورخہ 15 اکتوبر 2018ء کو دوبارہ فردِ جرم عائد ہوئی اور ٹرائل DENOVO ہونے کی وجہ سے مستغیث کا بیان انسداددہشت گردی کورٹ میں دوبارہ قلمبند ہوا ہے اور ملزمان کے وکلاء نے اب دوبارہ مستغیث پر جرح بھی کرنی ہے لیکن جرح کرنے سے پہلے ملزمان کے وکیل نے سیکشن 23 انسداددہشت گردی ایکٹ 1997ء کے تحت درخواست گزاری ہے کہ ان مقدمات میں 7ATA کا اطلاق نہیں ہوتا ہے۔ اس لئے ان مقدمات میں 7ATAکو ختم کرکے مقدمات ordinary Court میں بھیج دیئے جائیں۔ ان درخواستوں پر فریقین کی طرف سے بحث مکمل ہو چکی ہے لیکن ملزمان کے وکلا نے مزید بحث کے لئے عدالت سے ٹائم مانگا ہے لیکن اب کروناوائرس کی وجہ سے ان مقدمات میں مزید کاروائی نہیں ہو رہی ہے۔
- جسٹس علی باقر نجفی کمیشن نے اپنی تحقیقات مکمل کر کے جو تحقیقاتی رپورٹ حکومت کو ارسال کی تھی، جس میں حکومت پنجاب اور پنجاب پولیس کو اس قتل وغارت گری کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا، اس رپورٹ کے حصول کے لئے سانحہ ماڈ ل ٹاؤن متاثرین کی طرف سے لاہور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی تھی۔ جس کی جسٹس مظاہر علی اکبرنقوی جج لاہور ہائی کورٹ نے سماعت کی اور سیکرٹری ہوم ڈیپارٹمنٹ، گورنمنٹ آف پنجاب کو حکم دیا کہ فوری طور پر سانحہ ماڈ ل ٹاؤن کے متاثرین کو رپورٹ مہیا کی جائے لیکن لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود گورنمنٹ آف پنجاب نے شہداء کے متاثرین کو رپورٹ فراہم نہ کی بلکہ اس آرڈر کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں انٹراکورٹ اپیل دائر کر دی جس کی لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ جسٹس عابد عزیز شیخ، جسٹس شہباز رضوی اور جسٹس قاضی محمد امین نے سماعت کی اور گورنمنٹ کی اپیل مورخہ 24 نومبر2017ء کو خارج کر دی۔ انٹراکورٹ اپیل کے خارج ہونے کے بعد گورنمنٹ نے مجبور ہو کر اس رپورٹ کو پبلک کر دیا اور سانحہ ماڈ ل ٹاؤن کے متاثرین کو بھی رپورٹ فراہم کر دی جس میں سانحہ ماڈ ل ٹاؤن میں تمام قتل وغارت گری کا ذمہ دا ر حکومت کو ٹھہرایا ہوا ہے۔ ا س رپورٹ کے ساتھ منسلک دستاویزات جس میں ملزمان کے بیان حلفی، ٹیلی فون ڈیٹا ریکارڈ، حساس اداروں کی رپورٹس وغیرہ شامل ہیں۔ یہ تمام دستاویزات جو جسٹس علی باقر نجفی کمیشن رپورٹ کے ساتھ منسلکہ تھیں، افسوس کہ وہ سانحہ کے متاثرین کو آج تک فراہم نہ کی گئیں۔
ان تمام منسلکہ دستاویزات کے حصول کے لئے لاہور ہائی کورٹ میں رٹ دائرکی ہوئی ہے جو کہ ابھی تک زیرسماعت ہے۔ جس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔
- انسداد دہشت گردی کورٹ لاہور میں استغاثہ کیس میں کانسٹیبل سے لے کر آئی جی تک، اسی طرح DCO کیپٹن ریٹائرڈ عثمان، TMO نشتر ٹاؤن علی عباس اور AC ماڈل ٹاؤن طارق منظور چانڈیوکا تو ٹرائل ہو رہا ہے لیکن گورنمنٹ اور بیوروکریسی کے 12 افراد نواز شریف، شہباز شریف، رانا ثناء اللہ اور دیگر ملزمان جنہوں نے اس سانحہ کی منصوبہ بندی کی تھی، جو اس سانحہ کے لیے مسلسل میٹنگ کر رہے تھے، منصوبہ بندی کر رہے تھے اور اس سازش کو پائے تکمیل تک پہنچانے کے لئے جنہوں نے آئی جی پنجاب کو تبدیل کیا اور اس طرح DCO کو تبدیل کیا اور اس سانحہ کے فوری بعد مورخہ 17 جون 2014ء کو وقوعہ کے دن ہی سید احتشام قادرشاہ کو بطور پراسیکیوٹرجنرل تقرری کی گئی تاکہ کیس کو کنٹرول کیا جا سکے، ان تمام کا ٹرائل نہیں ہورہا ہے۔ ٹرائل تو بڑی دور کی بات اس وقت کے حکمرانوں نے احتشام قادر شاہ کو خصوصی پیکج و مراعات بھی دی گئیں۔ جب پراسیکیوٹرجنرل سید احتشام قادرشاہ کی مدت ملازمت ختم ہو گئی تو خصوصی آرڈینینس کے ذریعہ مدت ملازمت کو بڑھایاگیا۔
- اس سانحہ کے منصوبہ سازوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے اور اصل حقائق کو منظر عام پر لانے کے لیے اور اصل ملزمان تک پہنچنے کے لیے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ازسرنو انویسٹی گیشن ضروری تھی کیونکہ اس سے قبل JIT نے جو انویسٹی گیشن کی تھی وہ حقائق کے برعکس، جانبدار اور یکطرفہ کی گئی تھی تاکہ اصل حقائق سامنے نہ آسکیں اور اصل ملزمان کو بچایا جاسکے۔
اس مقصد کے لئے تنزیلہ امجد شہید کی بیٹی بسمہ امجد نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کو اپنی والدہ، پھوپھو اور دیگر شہداء کے انصاف کے لیے نئی JIT کی تشکیل کے لئے درخواست دی۔ مورخہ 6 اکتوبر 2018ء کو چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے اس درخواست پر سماعت کی اور مورخہ 19 نومبر 2018ء کو اس درخواست پر ایک لارجر بینچ تشکیل دے دیا۔ جس کی سربراہی خود چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کے پاس تھی۔
مورخہ 5 دسمبر 2018ء کو سپریم کورٹ اسلام آباد میں چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں لارجر بینچ نے اس درخواست پر سماعت کی اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مقدمہ نمبر 696/14میں JIT کی تشکیل دینے کا فیصلہ ہو گیا۔
بعد ازاں گورنمنٹ آف پنجاب نے مورخہ 3 جنوری 2019ء کو نوٹیفکیشن جاری کر دیا اور نئی JIT نے مورخہ 14 جنوری 2019ء سے لے کر 20 مارچ 2019ء تک سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انویسٹی گیشن کی۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انویسٹی گیشن کے سلسلہ میں JITکے سامنے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کی طرف سے تمام ثبوت زبانی دستاویزی شہادتوں کی شکل میں پیش کردیئے گئے۔ JIT نے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں قتل وغارت گری کرنے والے تمام ملزمان بشمول میاں نوازشریف، میاں شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ سے بھی تفتیش کی۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے منصوبہ ساز میاں نواز شریف، شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ ودیگران سے جب JIT نے مختلف پہلوئوں پر تفتیش کی تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ وقوعہ کیوں ہوا؟ اس کے پیچھے کون کون سے سازشی عناصر موجود ہیں؟ کون کون اس سازش میں شریک تھے؟ یہ سازش کہاں سے چلی اور کس طرح اس سازش پر عملدرامدہوا؟ تو کچھ قوتیں متحرک ہوگئیں اور انہوں نے JIT کی تشکیل کے نوٹیفکیشن کو معطل کروا دیا اور JIT کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انوسٹی گیشن سے روک دیا۔ ان قوتوں کو یہ فکر تھی کہ کہیں جے آئی ٹی ان تمام افراد جنہوں نے اس سانحہ کی منصوبہ بندی کی تھی، ان کو گنہگار ٹھہرا کر انسداد دہشتگردی کورٹ میں چالان پیش نہ کر دے اور ان کے ٹرائل کا آغاز نہ ہوجائے۔ یہاں تک کہ ایڈووکیٹ جنرل آفس کو بھی اس کیس کی فیکیشن اور بینچ کی تشکیل کا معلوم نہ ہوسکا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو معلوم ہوا تو وہ فوری طور پر عدالت میں پہنچ گئے اور فل بینچ کے سامنے ساری صورتحال رکھی تو ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا گیا۔
- ہم نے اس فل بینچ کی تشکیل کو بھی لاہور ہائی کورٹ میں ایک رٹ کے ذریعے چیلنج کیا ہوا ہے۔ اس رٹ کی maintability کے حوالے سے رجسٹرار آفس لاہورہائیکورٹ نے اعتراض لگادیا تھا۔ اب یہ رٹ As a objection case چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے پاس زیر سماعت تھی لیکن جب بھی یہ کیس فکس ہوا تو چیف جسٹس، جسٹس سردار شمیم احمد خان کی طبیعت کی خرابی کی وجہ رخصت پر ہونے کی وجہ سے کیس کی سماعت نہ ہوسکی۔ اس کے بعد ابھی تک اس کیس میں کوئی تاریخ پیشی مقرر نہیں ہوئی ہے۔
- ہم نے JIT کے نوٹیفکیشن کی معطلی کے خلاف فل بنچ کے فیصلہ کے عبوری حکم 22مارچ 2019ء کے خلاف سپریم کورٹ اسلام آباد میں CPLAS دائر کی تھیں جس کی سماعت مورخہ 13 فروری 2020ء کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد خان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی جس میں سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ میں نیا بینچ تشکیل دے کر اور ترجیحاً تین ماہ کے اندر فیصلہ کرنے کی ڈائریکشن دی ہے۔ اس طرح JIT کی تشکیل کے خلاف جو رٹ دائر ہوئی تھیں، وہ لاہور ہائی کورٹ میں ابھی تک زیر سماعت ہیں، ان کا فیصلہ ہونا باقی ہے، لاہور ہائی کورٹ نے اب فیصلہ کرنا ہے کہ مورخہ 3 جنوری 2014ء کے نوٹیفکیشن کے مطابق گورنمنٹ آف پنجاب کی طرف سے نئی JIT کی تشکیل صحیح ہوئی ہے یا نہیں؟
- سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کے حصول کی جدوجہد کو چھ سال کا عرصہ گزر گیا ہے۔ شہدائے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے لواحقین چھ سال گزر جانے کے بعد بھی انصاف سے محروم ہیں۔ انسداددہشت گردی عدالت میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کا ٹرائل زیر سماعت ہے جبکہ سپریم کورٹ کے فلور پر تشکیل پانے والی جے آئی ٹی کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں کیسز ابھی تک زیر سماعت ہیں۔ اس طرح حصول انصاف کے لیے مسلسل قانونی چارہ جوئی کر رہے ہیں ہمیں قوی امید ہے کہ بے گناہوں کو قتل کرنے والے ایک نہ ایک دن اپنے عبرتناک انجام سے ضرور دوچار ہوں گے اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو انصاف ملے گا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ہمیشہ آئین و قانون کی بالادستی اور حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لئے جدوجہد کی ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 2014ء میں ایک سیاسی پروگرام دیا تھا، جسے 10 نکاتی ایجنڈے کانام دیا گیا تھا، ڈاکٹر محمدطاہرالقادری نے اس ایجنڈے کے تحت فقط یہ مطالبہ کیاتھا کہ آئین کے بنیادی 40 آرٹیکلز پر عملدر آمد کیا جائے۔ انہوں نے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن اور عوام کے حقوق کی بازیابی کے لیے ماہ جون 2014ء کو پاکستان میں آکر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا تو اُس وقت کی نواز، شہباز حکومت بوکھلا اُٹھی اور اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آئی اورمورخہ 17جون 2014ء کو سانحہ ماڈل ٹاؤن برپا کیا۔ اپنے مذموم و مکروہ ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کارکنوں کو گھروں سے اُٹھانا شروع کردیا۔ چادر اور چار دیواری کا تقدس بُری طرح پامال کیا گیا۔
- سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ظلم کے خلاف جن کارکنوں نے احتجاج بلند کیا تھا تو اُس وقت کی حکومت نے پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان پر پنجاب بھر میں 56 ایف آئی آر درج کی تھیں اور ان مقدمات میں پولیس نے دہشتگردی دفعات کے تحت جھوٹے مقدمات درج کیے اورپولیس نے ہزاروں کارکنوں کو گرفتار بھی کیا تھا۔ ان میں سے اکثر مقدمات میں پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان بری ہوچکے ہیں۔
- اسی طرح سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کی قرآن خوانی کی تقریب میں میانوالی، خوشاب اور بھکر سے آنے والے کارکنوں پر بھیرہ انٹرچینج پر پولیس نے تشدد کیا اور پھر ان کو گرفتار کرکے دہشتگردی دفعات کے تحت مقدمہ نمبر 244/14 تھانہ بھیرہ درج کیا تھااورمورخہ 18 اپریل 2019ء کو مقدمہ نمبر244/14 تھانہ بھیرہ میں ان کارکنان کو انسداد دہشت گردی عدالت سرگودھا نے 88 افراد کو پانچ سال سزا اور 19 افراد کو سات سال کی سزا سنائی اور عدالت میں ہی ان تمام افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔ ان 107 افراد کی اپیل فوری طور پر لاہور ہائیکورٹ میں دائر کی گئی اور 107 افراد میں سے کچھ نا بالغاں، بوڑھے اور بیمار بھی تھے، ان کی Suspension/Bails بھی لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی ہوئی ہیں لیکن لاہور ہائیکورٹ میں ابھی تک مسلسل کوششوں کے باوجود مختلف تاریخوں میں مختلف بینچز کے پاس کیسزفکس ہوتے رہے ہیں۔ لیکن ان 5 بنچیز جن کے پاس Bails/Suspension یا اپیلز فکس ہوتی رہی ہیں، اس پر ابھی تک لاہور ہائی کورٹ کے ڈویثرن بنچ نے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا۔ اب الحمداللہ مورخہ 19مئی 2020کو جسٹس شہباز علی رضوی، جسٹس اسجدجاوید گھرال کیڈویثرن بنچ نے 13 افراد کی ضمانتیں منظورکر لی ہیں۔ آجکل کرونا وائرس کی وجہ سے لاہور ہائی کورٹ میں اپیلوں پر سماعت نہیں ہو رہی ہے اس لئے 107افراد کی اپیلز پر سماعت نہیں ہوئی ۔ اس لئے اب دیگر تمام افراد کی بھی ضمانتیں Rule of Consistencyکی بنیاد پر کروالی جائیں گی۔