ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
قُلْ اَؤُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرٍ مِّنْ ذٰلِکُمْ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰـرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا وَاَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَۃٌ وَّرِضْوَانٌ مِّنَ ﷲِ ط وَاللهُ بَصِیْرٌ م بِالْعِبَادِ.
(آل عمران، 3: 15)
’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں: کیا میں تمہیں ان سب سے بہترین چیز کی خبر دوں؟ (ہاں) پرہیزگاروں کے لیے ان کے رب کے پاس (ایسی) جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے (ان کے لیے) پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور (سب سے بڑی بات یہ کہ) اللہ کی طرف سے خوشنودی نصیب ہوگی، اور اللہ بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے‘‘۔
انسان کا نفس چند ایسی دبیز تہوں میں لپٹا ہوا ہے کہ جن کے نیچے اللہ کی قربت اور ولایت کا شعو ر و ادراک محو ہوجاتا ہے۔ یہ تہیں بندے کے لیے اللہ کی قربت میں رکاوٹ کا سبب بنتی ہیں۔ یہ تہیں کیا ہیں؟ اس حوالے سے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالَانْعَامِ وَالْحَرْثِ ط ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ج وَاللهُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ.
(آل عمران، 3: 14)
’’لوگوں کے لیے ان خواہشات کی محبت (خوب) آراستہ کر دی گئی ہے (جن میں) عورتیں اور اولاد اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشان کیے ہوئے خوبصورت گھوڑے اور مویشی اور کھیتی (شامل ہیں)، یہ (سب) دنیوی زندگی کا سامان ہے، اور اللہ کے پاس بہتر ٹھکانا ہے‘‘۔
درج بالا آیتِ کریمہ میں اللہ رب العزت نے ان محبتوں، شہوتوں اور زینتوں کا ذکر کیا ہے جو درحقیقت ملفوف رکاوٹیں ہیں۔ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا کہ اے میرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اب اِنہیں اِن سے زیادہ خوبصورت، زیادہ لبھانے والی، زیادہ پائیدار، زیادہ خوشگوار، زیادہ اعلیٰ اور ارفع محبتوں، رغبتوں، شہوتوں اور زینتوں کی خبر بھی دے دیں تاکہ یہ لوگ موازنہ کرسکیں کہ کون سی محبت کو حاصل کیا جائے۔ ارشاد فرمایا:
قُلْ اَؤُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرٍ مِّنْ ذٰلِکُمْ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰـرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا وَاَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَۃٌ وَّرِضْوَانٌ مِّنَ ﷲِ ط وَاللهُ بَصِیْرٌ م بِالْعِبَادِ.
(آل عمران، 3: 15)
’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں: کیا میں تمہیں ان سب سے بہترین چیز کی خبر دوں؟ (ہاں) پرہیزگاروں کے لیے ان کے رب کے پاس (ایسی) جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے (ان کے لیے) پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور (سب سے بڑی بات یہ کہ) اللہ کی طرف سے خوشنودی نصیب ہوگی، اور اللہ بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے‘‘۔ اس آیتِ کریمہ میں اللہ رب العزت نے دنیاوی لذتوں سے کئی گنا زیادہ بہتر چیز کی خبر دینے سے پہلے لِلَّذِینَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّہِمْ کے الفاظ سے ایک شرط لگائی ہے کہ ان خوبصورت اور اعلیٰ و ارفع حقیقتوں سے وہ لوگ لطف اندوز ہوں گے جو اللہ کے حضور تقویٰ اختیار کریں گے۔ یعنی ہمارے پاس موجود اس خزانے اور اعلیٰ چیزوں کے حقدار بننے کا معیار تقویٰ ہے۔ تقویٰ کی بدولت حاصل ہونے والی یہ چیزیں تمام متاعِ دنیا اور ان تمام شہوتوں،زینتوں، رغبتوں سے کئی گنا بڑھ کر ہیں جن میں انسان ہمہ وقت گھرا رہتا ہے۔ دنیا کا مال و متاع اُن اعلیٰ و ارفع اور حسین وجمیل اشیاء کے مقابلے میں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا۔ یہ چیزیں انہیں ملیں گی جو اپنے رب کے حضور تقویٰ اختیار کرتے ہوئے متقین کی صفت سے بہرہ مند ہوں گے۔
اخروی ابدی نعمتوں کے حصول کے لیے تقویٰ کی صورت میں اللہ رب العزت کی طرف سے لگائی جانے والی اس شرط سے اس سمت جانے کا دروازہ کھل رہا ہے جس سمت ہم میں سے ہر کوئی جانے کی خواہش رکھتا ہے۔ اس سمت جانے کی خواہش بہت سے ایمان والوں کو ہے مگر اس خواہش کو رکھنے کے باوجود ہم میں سے کتنے ہیں جو اس کے لیے کوشش بھی کرتے ہیں۔
یاد رکھیں! بات خواہش کرنے سے نہیں بلکہ کوشش کرنے سے بنتی ہے۔ محض خواہش کرنے والوں کو کبھی منزل نہیں ملتی بلکہ منزل اُنہیں ملتی ہے جو اپنی خواہش کو کوشش میں ڈھالتے ہیں اور پھر کوشش کا حق ادا کرتے ہیں۔ گویا قربِ الہٰی اور اس کی نعمتوں کے حصول کے لیے کوشش کرنا تقویٰ کہلاتا ہے۔ قرآن مجید میں ایک مقام پر اِس نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا:
یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا ﷲَ حَقَّ تُقٰتِہٖ .
(آل عمران، 3 : 102)
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرا کرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے ‘‘۔
تقویٰ کی جہات
تقویٰ کے لیے بہت سے الفاظ استعمال ہوتے ہیں:
- God Consciousness
- Self vigilance
اگر ان دو معانی کا موازانہ کیا جائے تو اِن دونوں الفاظ میں تقویٰ کی دو جہتیں ہیں:
- ایک جہت تقویٰ کو اللہ کی طرف سے دیکھنا ہے۔
- دوسری جہت تقویٰ کو بندے کی نگاہ سے دیکھنا ہے۔
1۔ پہلی صورت میں بندہ تقویٰ اختیار کرتا ہے اور تقویٰ کے حال کو اللہ کی طرف سے دیکھتا ہے۔ یعنی وہ اپنے شعور میں ہر وقت اللہ کے حضور حاضر رہنے کا تصور رکھتا ہے کہ اللہ میرا سمیع اور بصیر ہے، مجھے پوچھنے والا اور مجھے جزا ور سزا دینے والا ہے۔ اُس بندے کا شعور ہر وقت بیدار رہتا ہے اور وہ اللہ کا حاضر و موجود ہونا اپنی سماعت و بصارت میں اجر و سزا اور گرفت و مواخذہ کے اعتبار سے دیکھتا ہے کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ پس تقویٰ کو اِس زاویہ سے دیکھیں تو دھیان اللہ کی طرف جاتا ہے کہ وہ ہر وقت مجھے دیکھ رہا ہے، اس لیے میں اس کی حکم عدولی نہ کروں۔
2۔ تقویٰ کا دوسرا معنی Self vigilance ہے یعنی اپنے نفس کے اوپر محاسب، نگران اور پہرہ دینے والا بننا۔ اِس کا مطلب ہے کہ بندہ اپنے نفس کا محاسب بن کر بیٹھتا ہے کہ میرا نفس اللہ کی طرف جا تا ہے یا اللہ سے دور جاتا ہے۔۔۔؟ اللہ کا نافرمان ہوتا ہے یا اللہ کا فرمانبردار بنتا ہے۔۔۔؟ میرا نفس اللہ کی رضا اور ناراضگی میں سے کون سا حال اور عمل اپناتا ہے۔۔۔؟ اس اعتبار سے دیکھیں تو تقویٰ وہ مقام ہے جہاںSelf vigilance اور God Consciousness دونوں جمع ہو جاتے ہیں۔ یعنی اللہ دیکھ رہا ہے اور بندہ اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ خبردار! اللہ دیکھ رہا ہے۔ گویا بندہ ایک طرف نفس کا محاسبہ کرے اور دوسری طرف مولیٰ کے دیکھنے کا خیال کرے کہ میرے ہر عمل کو اللہ دیکھ اور سن رہا ہے۔ حتی کہ میرے خیال کو بھی جان رہا ہے۔ جب سوچ کی یہ دونوں جہتیں جمع ہوتی ہیں تو حَقَّ تُقَاتِہِ، تقویٰ کا حق ادا ہوتا ہے اور بندے میں کسی جہت سے بھی غفلت نہیں آتی۔
پس اللہ تعالیٰ کے پاس جو بڑا عالی شان ٹھکانہ، آرام دہ جگہ، راحت افزاء مقام اور بڑی خوشگوار چیزیں ہیں وہ تمام اُن لوگوں کو نصیب ہوں گی جو دنیا میں اِن دونوں جہتوں سے تقویٰ اختیار کریں گے۔
تقویٰ کی اقسام
امام غزالیؒ اپنی کتاب بدایۃ الہدایۃ میں تقویٰ کی ابتداء کے حوالے سے فرماتے ہیں:
فإن قلت: فما بدایۃ الهدایۃ لأجرب بها نفسی فاعلم أن بدایتها ظاهرۃ التقوی، ونهایتها باطنۃ التقوی.
اے طالب علم! اے قربتِ الہیہ ، ولایتِ الہیہ، معرفتِ الہیہ اور نعمت اُخرویہ کو پانے کی آرزو رکھنے والے! اگر تو مجھ سے پوچھے کہ ہدایت کی ابتداء کیا ہے؟ تاکہ میں اپنی جان میں اُس کا تجربہ کروں۔ تو جان لے کہ اِس ہدایت کی ابتداء ظاہر کا تقویٰ ہے اور اس ہدایت کی انتہاء باطن کا تقویٰ ہے۔
(الغزالی، بدایۃ الهدایۃ، 1: 27)
امام غزالی کے اِن الفاظ سے ظاہر ہوا کہ ہدایت تجربہ یعنی عمل کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ اگر عمل نہ کیا جائے تو باقی صرف جاننا رہ جاتا ہے۔جانتا تو انسان بہت کچھ ہے، اچھائی و بُرائی سب کچھ جانتا ہے مگر زندگی میں نہ وہ اچھائی کا تجربہ کرتا ہے اور نہ بُرائی سے گریز کرتا ہے۔
امام غزالی نے اپنے اس فرمان میں تقویٰ کی دو قسمیں بیان کی ہیں: 1۔ ظاہری تقوی 2۔باطنی تقوی
ظاہری زندگی میں انسان جو تقویٰ اپناتا ہے، امام غزالی نے اُس کو ہدایت کی ابتداء کہا ہے جبکہ دل، روح، نفس، عقل، سوچ ، فکر اور من کے تقویٰ کو باطنی تقویٰ سے تعبیر کیاہے۔ یعنی وہ تقویٰ جو اللہ کے سوا کسی کو نظر نہیں آتا، وہ ہدایت کی انتہا ہے۔ گویا ہمارے اندر کے خیالات، نیت، ارادہ اور کسی عمل کا محرک و مقصد جو باہر سے کوئی نہیں جانتا، یہ تقویٰ ہدایت کی انتہاء ہے۔
پس احکامِ الہٰیہ کے مطابق انسان کی ظاہری زندگی میں جو وارد ہوتا ہے، اُس ظاہری تقویٰ سے ہدایت کی ابتداء ہوتی ہے اور ہدایت کی انتہاء باطنی تقویٰ پر ہوتی ہے۔
ظاہری اعمال کی اہمیت سے انکاری کون ہے؟
اس موقع پر اِس تصور کو درست کرنے کی ضرورت ہے کہ کئی لوگ ایسے ہیں جو اِس طرح سوچتے ہیں کہ ظاہر سے کیا بنتا ہے، اصل چیز تو باطن ہے ۔ یاد رکھیں! یہ بات نہ صرف جہالت ہے بلکہ ضلالت و گمراہی ہے۔ دو طرح کے لوگ یہ بات کرتے ہیں:
- دین سے عملاً دور طبقہ
- بظاہر دیندار مگر صرف باطن کو سب کچھ سمجھنے والا طبقہ
1۔ دین سے عملاً دور طبقہ
ظاہری اعمال کی اہمیت کا انکاری پہلا طبقہ وہ ہے جو دین کو زندگی میں اصلاً اپنانا نہیں چاہتا۔۔۔ یہ لوگ دین کے احکامات پر عمل نہیں کرنا چاہتے۔۔۔ اپنے آپ کو دین کا پابند نہیں کرنا چاہتے۔۔۔ دین سے آزاد رہنا چاہتے ہیں۔۔۔ اپنی عملی زندگی کو دینی احکام، اللہ کے اوامر و نواہی سے دور رہ کر گزارنا چاہتے ہیں۔۔۔ گندگی، غلاظت، شیطنت میں رہنا چاہتے ہیں۔۔۔ شیطان اور نفس کی خواہشوں اور شہوتوں کے غلام رہنا چاہتے ہیں۔۔۔ چاہتے ہیں کہ کوئی اُن کی گرفت نہ کرے۔۔۔ جو اُن کا دل چاہے اور جس سے اُن کے نفس کو تسکین ہو، بس اُس کے مطابق زندگی گزاریں۔۔۔ جس کو وہ عزت سمجھیں، وہ عزت لیں۔۔۔ جسے وہ راحت سمجھیں، وہ راحت لیں۔۔۔ جسے وہ عیش سمجھیں، وہی عیش لیں۔۔۔ جس چیز کو وہ آرام سمجھیں، وہ اُن کو ملے۔۔۔ زندگی میں جس سے وہ سمجھیں کہ اس کو اپنانے سے بندہ معتبر ہوتا ہے، بس وہی کریں۔۔۔ گویا اُنہیں کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ لازمی بات ہے کہ پوچھنے والی صرف اللہ کی ذات ہے، پس وہ اللہ کے احکام کی نافرمانی بھی کرنا چاہتے ہیں۔
یہ لوگ قرآن، سنتِ نبوی، شریعتِ اسلامیہ اور دین کی تعلیمات سے دور ہیں۔ جو لوگ اِس طرح کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں، دراصل اُنہوں نے اس سوچ کا ڈھونگ رچایا ہوا ہے اور علی الاعلان کہتے ہیں کہ ظاہر میں کیا ہے؟ اصل چیز تو اندر یعنی باطن ہے۔ گویا اُنہوں نے ظاہر کو مسترد کر رکھا ہے۔
جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ نماز، روزہ کی ادائیگی، گناہ سے بچنا، صدقہ و خیرات کرنا یہ سب ظاہری اعمال ہیں۔ حلال کام کرنا ہے تو جسمانی طور پر کرنا ہے، حرام سے بچنا ہے تو جسمانی طور پر بچنا ہے، جھوٹ، گالی گلوچ، لغو گوئی سے بچنا ہے، تو زبان سے بچنا ہے، بری چیزوں کو دیکھنے سے رکنا ہے تو آنکھوں کے ذریعے بچنا ہے، گندی چیز کو سننے سے بچنا ہے تو کانوں کے ذریعے بچنا ہے۔ جسم کے یہی اعضاء (آنکھ، کان، زبان، ہاتھ، پائوں) تقوی کے امور انجام دینے کا راستہ ہیں۔ پس جو بندہ اعضاء کو آزاد چھوڑنا چاہتا ہے اور اللہ کے احکامات پر عمل نہیں کرنا چاہتا تو وہ کہتا ہے کہ ظاہر میں کیا رکھا ہے؟
دین کی ابتداء ظاہر ہی سے ہوتی ہے!
یاد رکھیں! دین کی ابتداء ہی ظاہر سے ہوتی ہے۔ ہم زبان سے اللہ کی وحدانیت اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت ورسالت کا اقرار کرتے ہیں اور شہادت کا کلمہ پڑھتے ہیں۔ اسی طرح جب نماز پڑھتے ہیں تو پھر اُس کے بعد اللہ دیکھتا ہے کہ پڑھنے والے کی نیت کیا ہے؟جب نیک عمل ہی نہ کیا تو اُس کی نیت سے کیا غرض؟ جب ایک نیک عمل کیا ہی نہیں تو اسے پرکھا کہاں جائے گا کہ اچھی نیت سے کیا یا بُری نیت سے کیا؟ پرکھا تو تب ہی جائے گا جب عمل کریں گے۔ پاس یا فیل تب ہی ہوں گے جب کوئی امتحان دیں گے اور امتحان میں تب بیٹھیں گے جب پہلے پڑھائی کریں گے۔ گویا ہر چیز کا ایک سلیقہ ہوتا ہے۔
بالفرض اگر ہر چیز باطن میں ہے، ظاہر کچھ نہیں تو پھر قتل بھی کرتے پھریں، گالی گلوچ، گناہ، بدکاری، حرام خوری اور حرام کاری بھی کریں تو اس پر سزا یا گناہ نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ظاہر کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ پس اگر سب چیزیں صرف باطن ہی باطن ہوں اور ظاہر کا کوئی معنی نہیں تو پھر ہم نے اپنے اوپر ہر چیز کا راستہ کھول لیا۔ پس جو لوگ شہوت پرست، شیطان اور نفس کے پیرو کار ہیں، اُنہوں نے یہ سوچ بنا رکھی ہے کہ ظاہر میں کیا رکھا ہے، اصل چیز تو من، باطن اور دل ہے۔ یاد رکھیں! اِس تصور کی دین میں کوئی حقیقت نہیں ہے بلکہ یہ سب گمراہی ہے۔ دل، باطن، روح ، قلب اور من یہ سب اس وقت relevant بنتا ہے جب ظاہر پاکیزہ ہو۔ جب ظاہر پاکیزہ ہو تو تب جا کر باطن بھی relevant بنتا ہے۔
یہ تصور سرے سے دل ودماغ سے نکال دیں کہ دین میں ظاہر کی کوئی اہمیت نہیں بلکہ باطن ہی سب کچھ ہے۔ ایسا تصور رکھنا بے دینی ہے۔ اس بے دینی نے ایک نیا عنوان ہماری زندگیوں میں بنا لیا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہماری سوسائٹی بے دینی کی طرف جا رہی ہے اور ہم بے دینی کے اس طرز عمل کو جواز دینے اور Justifyکرنے کے لیے ایسی سوچ کو اپناتے ہیں۔ برائی اور نافرمانی کی کثرت سے ہمارے من کے اندر ایک ہیجان آتا ہے، کانٹا چبھتا ہے کہ ہم غلط کر رہے ہیں، ضمیر پر ایک بوجھ آتا ہے، مثلاً: جب انسان گناہ کرتا ہے ، جھوٹ بولتا ہے، دھوکہ دیتا ہے، چوری کرتا ہے، خیانت کرتا ہے، کسی کو لوٹتا ہے، جو کچھ بھی غلط کام کرتا ہے تو لازماً ضمیر پر ایک بوجھ آتا ہے۔ لہٰذا بندہ اپنی کوشش سے اُس بوجھ کو دور کرنا چاہتاہے۔ اُس بوجھ کو ختم کرنے اور اپنے من کو مطمئن کرنے کے لیے از خود ایک justification گھڑتا ہے اور کہتا ہے کہ من ٹھیک ہونا چاہیے، ظاہر میں کیا رکھا ہے؟ اس سے وہ دین پر عمل کرنے والوں کو بھی ناپسند کرتا ہے اور دین کی اہمیت کو کم کرکے اپنے اندر کے بوجھ کو بھی ختم کرنا چاہتا ہے۔ یاد رکھیں! یہ شیطان کی بولی ہے۔
2۔ بظاہر دین دار طبقہ مگر ۔۔۔
ظاہری اعمال کی اہمیت سے انکاری دوسرا طبقہ وہ ہے جو دیکھنے میں بظاہر دین دار نظر آتا ہے اور پیر، فقیر، عارف اور لوگوں کا روحانی رہبر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ یہ طبقہ دین کا منکر نہیں لیکن دین کے ظاہر پر یہ عمل بھی نہیں کرتا۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ’’ظاہر کی نماز کیا ہے، نماز تو وہ ہے جو باطن کی ہے اور ہم ہروقت نماز میں ہیں۔۔۔ ہم ہر وقت روزے سے ہیں۔۔۔ ہم ہر وقت اللہ کے حضور ہیں۔۔۔ ہماری شریعت اندر کی ہے، باہر کی نہیں ہے۔۔۔ ہمارا اندر اللہ کا ذاکر ہے‘‘۔ یاد رکھیں! یہ بھی ایک شیطانی چکر اور جعل سازی ہے۔ اس لیے کہ بندہ اگر نماز پڑھے گا تو اُس کے بعد اگلا سوال ہوگا کہ اِس کا من بھی نماز میں ہے یا نہیں؟ جس کے تن نے نماز نہیں پڑھنی تو اُس کے من سے پوچھا ہی نہیں جائے گا۔۔۔ جس کی زبان ذاکر نہیں، اُس کا دل ذاکر نہیں ہے۔۔۔ جس کا تن اللہ کی اطاعت میں فرمانبردار اور تابعدار نہیں، اُس کے من میں اللہ کی کوئی فرمانبرداری اور تابعداری نہیں۔۔۔ جس کا تن اللہ کا وفا دار نہیں، اُس کے من کی کوئی شے اللہ کی وفادار نہیں۔۔۔
یہ ذہن میں رکھ لیں کہ اُس شخص کے من کی طرف دیکھا ہی نہیں جائے گا جس کے تن پر غلاظت اور آلودگی ہے۔ جس کا تن نافرمان ہے اُس کے من کو جانچا ہی نہیں جائے گا کہ اِس کے من میں فرمانبرداری تھی یا نافرمانی۔۔۔؟ اُس شخص کا باطن مکمل طور پر irrelevant ہے جس کا تن ہی نہیں ۔ اگر اس تصور کے مطابق رہنا چاہتے ہیں کہ سب کچھ باطن ہی ہے تو پھر کپڑے اتار دیں اور عریاں ہوجائیں اور کہیں کہ ہمارے من پر لباس ہے، ظاہری لباس کو کیا کرنا ہے۔
1963/1964 کی بات ہے کہ ہمارے علاقے سے ملحقہ کسی گھر میں ایک پیرصاحب آئے۔ اُس گھر کے ساتھ مسجد تھی۔ وہ پیر صاحب ایک مہینہ اُن مریدوں کے گھر میں رہے لیکن ایک دن بھی وہ نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں آئے اور نہ گھر میں نماز پڑھی۔ کسی نے اُن کے مریدوں سے اس حوالے سے پوچھا تو اُنہوں نے کہا کہ پیرصاحب روحانی نماز پڑھتے ہیں اور ہر نماز کے وقت مسجد نبوی میں یا کعبۃ اللہ میں ہوتے ہیں۔
اُ ن کے مریدوں میں سے کسی نے یہ بات مجھ سے کر دی کہ ہمارے پیر صاحب ہر نماز کے وقت کعبۃ اللہ یا مسجد نبوی میں ہوتے ہیں۔ میں نے اُن کے مریدوں کو سمجھایا اور کہا کہ شریعت میں ایسا کوئی تصور نہیں ہے۔ آج سے آپ پیر صاحب کو کھانا دینا بند کر دیں اور اُنہیں کہیں کہ آپ نمازیں مکہ و مدینہ پاک میں پڑھتے ہیں تو واپسی پر کھانا بھی وہیں کھا لیا کریں۔ وہاں کا کھانا بھی نوری کھانا ہے، ہم غریبوں ، گنہگاروں کا کھانا کیوں کھاتے ہیں؟ میں نے ان کے مریدوں کو کہا کہ آپ پیر صاحب کا کھانا بند کر دیں تو پھر دیکھیں کہ پیر صاحب رہتے ہیں یا تشریف لے جاتے ہیں؟ مریدوں کی سمجھ میں بات آگئی اور اُنہوں نے اصل میں ایسا ہی کر دیا۔ پیر صاحب کو یہی جملے کہے اور کھانا دینا بند کر دیا۔ اگلے دن پیر صاحب وہ علاقہ ہی چھوڑ کر بھاگ گئے۔
اس طرح کی تمام باتیں من گھڑت ہیں اور افسوس کہ دنیا میں چلتی بھی ہیں، اب تو ہماری زندگی زیادہ تر جھوٹ اور جعل سازی پر مبنی ہے۔ ہر چیز میں جعل سازی ہے۔ بات سمجھانے کا مقصد یہ ہے کہ یہ لوگ دین کا روپ اور پیری فقیری کا روپ دھارتے ہیں، انہوں نے دین کو ایک نیا بہروپ دے دیا ہے، خود بھی بے دین ہوتے ہیں اور مریدوں کو بھی بے دین کرتے ہیں۔ انہوں نے تصوف کو نیا رنگ اور نیا نام دے دیا ہے۔ پہلے زمانے میں بھی ایک فرقہ ہوا کرتا تھا جسے باطنیہ کہتے تھے۔ یہ قرآن مجید کی ہر آیت کا باطنی ترجمہ کرتے تھے۔ تمام احکامِ شریعت کی نفی کر دیتے اور آیات و احکام کا ایک باطنی معنی گھڑ لیتے۔اس طرح سارے احکام اور اوامر و نواہی سے جان چھڑوالیتے۔ اسی طرح آج بھی ایک ایسا طبقہ ہے جو دین، تصوف، فقیر ی اور روحانیت کے نام پر اسی طرح کے اعمال سرانجام دیتا ہے، یہ طبقہ خود بھی گمراہ ہے اور لوگوں کو بھی گمراہ کرتا ہے۔
تقویٰ کے بغیر کوئی منزل اور عاقبت نہیں
بعض اوقات ایسا بھی سننے میں آتا ہے کہ ’’ظاہری شریعت کی پیروی کرنا ابتدائی لوگوں کا کام ہے یعنی جو ابتداء میں رہتے ہیں، ہم تو انتہاء اور آخری مقام پر ہیں، اس لیے ہم پر پیروی ضروری نہیں‘‘۔ یاد رکھیں! جس کی ابتداء نہیں ہے، اُس کی انتہاء بھی نہیں ہے۔ جو بھی انتہاء پر پہنچتا ہے، وہ ابتداء کے بعد ہی پہنچتا ہے۔ جو آدمی منزل پر پہنچتا ہے، وہ راستے سے گزر کر پہنچتا ہے۔ اگر یہ چیزیں راستے کی ہیں تو منزل پر راستے سے گزرے بغیر کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ ابتداء یعنی شروع کیے بغیر انتہاء تک کوئی نہیں پہنچتا۔ سفر کی دو منزلیں ہیں:
- ابتداء کو departureکہتے ہیں۔
- انتہاء کو arrivalکہتے ہیں۔
مسافر منزل (arrival) پر تب ہی پہنچتے ہیں، جب پہلے departure ہوتا ہے۔ پہلے کسی کام کو چھوڑنا پڑتا ہے تب اگلی منزل نصیب ہوتی ہے۔ نواہی، گناہوں، اللہ کی نافرمانی اور ناراضگی کے طرزِ عمل کو چھوڑنا اور اپنی عادت کو بدلنا departure ہے، تب جا کر اُس مولیٰ کے مقام، اُس کے گھر اور اُس کی بارگاہ میں arrival ہوتا ہے۔ یہ ایک مرحلہ ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ چھلانگ لگا کر درمیان کے لوازمات ختم کردیں اور انتہا کو پہنچ جائیں مثلاً: دوائی نہ لیں، ڈاکٹر کے پاس نہ جائیں اور شفایابی ہوجائے۔ پڑھائی نہ کریں اور فرسٹ آجائیں اور گولڈ میڈل حاصل کرلیں، ایسا نہیں ہوتا۔ جیسے دنیا کی زندگی میں ہر چیز کا ایک طریقہ اور سلیقہ ہے، اسی طرح دینی و روحانی زندگی میں بھی طریقے و سلیقے سے گزریں گے تو منزل پر پہنچیں گے۔
دین میں روحانی زندگی کا یہ طریقہ اور سلیقہ تقویٰ کہلاتا ہے۔ اُس تقویٰ کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہے۔ ظاہری تقویٰ روحانی مسافر کی ابتداء ہے اور باطنی تقویٰ اُس کی انتہاء ہے۔ظاہری تقویٰ departure ہے اور باطنی تقویٰ اُس کا arrival ہے۔
ہدایت کی اقسام
- امام غزالی مزید فرماتے ہیں کہ
فلا عاقبۃ إلا بالتقوی، ولا ہدایۃ إلا للمتقین.
پس عاقبت بھی تقویٰ کے ساتھ ہے اور ہدایت صرف متقین ہی کا نصیب ہے۔
امام غزالی کے اِن الفاظ کی تعبیر یہ بنتی ہے کہ تقویٰ کے بغیر کسی کو منزل نہیں ملتی۔ قرآن مجید کا پہلا اعلان ہی یہ ہے :
ذٰلِکَ الْکِتٰـبُ لاَ رَیْبَ ج فِیْہِ ج ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ.
(البقرۃ، 2: 2)
’’(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے‘‘۔
یعنی اِس کتاب سے ہدایت اُنہی کو ملتی ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ گویا اللہ رب العزت نے ہدایت کو تقویٰ کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہدایت متقین کے لیے ہے تو پھر قرآن مجید کے اپنے بارے میں اس ارشاد سے کیا مراد ہے کہ یہ قرآن:
هُدًی لِلنَّاسِ.
(البقرۃ، 2: 2)
’’ لوگوں کے لیے ہدایت ہے‘‘۔
یعنی قرآن ہر انسان کے لیے ہدایت ہے۔
یاد رکھیں! یہ دونوں فرامین حق ہیں مگر ان دونوں کے درمیان ایک فرق ہے۔ درحقیقت اِن دونوں ارشادات میں ہدایت کی اقسام کا ذکر ہے۔ ہدایت کی تین اقسام ہیں:
- عرفان الغایہ
- اریٰ الطریق
- ایصال الی المطلوب
1۔ عرفان الغایہ (منزل کی پہچان) بھی ہدایت کی ایک قسم ہے۔ حق کی پہچان کروانا، حق اور نیکی کی دعوت دینا کہ اللہ کی طرف آجاؤ، یہ بھی ہدایت ہے۔ قرآن مجید کا عالمِ انسانیت کے لیے ہدایت ہونا، اس معنیٰ میں ہے کہ وہ اللہ کی طر ف دعوت دیتا ہے، اللہ کی پہچان کرواتا ہے، آخرت کی طرف جانا سکھاتا ہے، نیکی اور خیر کی طرف بلاتا ہے۔ لہذا یہ انسانیت کے لیے اِس معنیٰ میں ہدایت ہے کہ انسانیت کو منزل اور مقصد بتاتا ہے۔
2۔ اریٰ الطریق (راستہ دکھانا) بھی ہدایت کی ایک قسم ہے کہ ہم کسی کو صحیح راستہ دکھا دیتے ہیں کہ اس راستہ پر گامزن ہوکر منزل تک پہنچا جاسکتا ہے۔ اس معنی کی رو سے بھی قرآن عالمِ انسانیت کے لیے ہدایت ہے ۔
3۔ ایصال الی المطلوب (منزل تک پہنچانا) ہدایت کی اعلیٰ قسم ہے۔ قرآن کا متقین کے لیے ہدایت ہونے کا تعلق اِس اعلیٰ قسم کی ہدایت سے ہے یعنی متقین کو وہ صرف راستہ بتاتا یا دکھاتا نہیں بلکہ منزل پر پہنچا دیتاہے۔ اگر ہم کسی سے راستہ پوچھتے ہیں تو کچھ لوگ ایسے اچھے بھی مل جاتے ہیں کہ وہ اپنا سفر چھوڑ کر سائل کو منزل تک پہنچا کر آتے ہیں۔
یاد رہے کہ راستہ بتا دینے کے بعد کئی مقامات پر بھول جانے اور بھٹک جانے کے امکانات رہتے ہیں مگر جو ہدایت منزل پر پہنچا کر آئے، اِس میں راستے کے اندر بھٹک جانے کے امکانات نہیں رہتے۔ اس میں رہبر، طالب کو منزل تک پہنچا دیتا ہے۔ یہ ہدایت کا اعلیٰ درجہ ہے ۔ قرآن صرف متقین کو یہ ہدایت دیتا ہے کہ انہیں منزل تک پہنچا دیتا ہے۔
وہ ہدایت جس میں قرآن صرف بتا دے اور دعوت دے کہ اِدھر جائو، وہ ہدایت ’’ھدی للناس‘‘ کے مصداق سب انسانوں کے لیے ہے اور وہ ہدایت جو منزل تک پہنچا دے، وہ ہُدًی لِلْمُتَّقِینَ کے مصداق صرف متقین کا نصیب ہے۔
امام غزالیؒ مزید فرماتے ہیں :
والتقوی، عبارة عن امتثال أوامر اللہ تعالی، واجتناب نواهیہ.
تقویٰ کی ابتداء اللہ کے احکامات پر عمل کرنا اور جن امور سے اللہ نے منع کیا ہے، اُن سے رکنا ہے۔ اس کے اوامر کو بجا لانے اور اُس کے نواہی سے رکنے سے تقویٰ کی ابتداء ہوتی ہے اور پھر اِس تقویٰ کی انتہاء باطنی تقویٰ پر منتج ہوتی ہے۔
ایمان، علم، تزکیہ اور تقویٰ کا باہمی تعلق
ایمان، علم، تزکیہ اور تقویٰ ان چاروں چیزوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ چار مراحل ہیں جن سے گزر کر بندہ مقربِ الہٰی بنتا ہے۔ قرآن مجید نے اِن چاروں چیزوں کو مختلف مقامات پر بیان فرمایا ہے:
1۔ ایمان کے حوالے سے ارشاد فرمایا:
یَرْفَعِ اللهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ.
(المجادلہ، 85: 11)
’’تم میں سے جو لوگ ایمان لے آتے ہیں، اللہ تعالیٰ اُن کا درجہ بلند کر دیتا ہے‘‘۔
2۔ اِسی آیت میں علم کے حوالے سے ارشاد فرمایا:
وَالَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ.
(المجادلہ، 85: 11)
’’اور وہ لوگ جو علم والے ہیں ان کے درجات بلند کرتا ہے‘‘۔
اس آیت میں دو طبقات کا ذکر فرمایا۔ پہلا طبقہ وہ ہے کہ جو اہل ِ ایمان ہیں، اس ایمان کی برکت سے اللہ تعالیٰ اُن کا درجہ بلند کر دیتا ہے۔ واقعتاً اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جو شخص ایمان میں جتنا مضبوط ہوتا چلا جائے گا، اُس کا درجہ اُتنا اوپر ہوتا چلا جائے گا۔
دوسرے حصے میں فرمایاکہ دوسرا طبقہ وہ ہے کہ جنہیں علم عطا کیا گیا ہے اور اس علم کی وجہ سے ان کے درجات بلند کیے گئے۔ أوتو العلم کے ساتھ درجہ بلند کرنے کا ذکر مطلقاً نہیں کیا بلکہ درجات کہا کہ اللہ اُن کے ڈھیروں درجے بلند کر دیتا ہے۔ درجات کی یہ بلندی اس علم سے نصیب ہوتی ہے جس علم کا خمیر ایمان سے نکلا ہے یعنی جو علم ایمان کے بعد آیا ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ بغیر ایمان کے علم بلندیٔ درجات کی نعمت نہیں دیتا۔ درجات کی یہ بلندی پہلے ایمان کی وجہ سے ہے اور ایمان والوں میں جو لوگ صاحبانِ علم ہوگئے، ان کے ایمان کے ساتھ جب علم ملتا ہے تو علمِ نافع بنتا ہے۔ پس جب مومنین صاحبانِ علمِ نافع ہوگئے تو اُن کے بہت سے درجات بلند ہو جاتے ہیں۔
3۔ تزکیہ کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وَنَهَی النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰی. فَاِنَّ الْجَنَّۃَ هِیَ الْمَاْوٰی.
(النازعات، 79: 40-41)
’’اور اُس نے (اپنے) نفس کو (بری) خواہشات و شہوات سے باز رکھا۔ تو بے شک جنت ہی (اُس کا) ٹھکانا ہوگا‘‘۔
گویا پہلے ایمان سے درجہ بلند ہوا پھر ایمان والوں میں سے جن لوگوں نے کتاب ، سنت ، دین ، شریعت اور اللہ کی معرفت کاعلم حاصل کیا تو ایمان کی طاقت کے حامل اس علم نے بندے کے کئی درجات بلند کر دیئے اور پھر خالی علم سے بھی بات نہیں بنتی بلکہ شہوتوں اور خواہشوں کو بھی پامال کرنا پڑتا ہے۔
شہوتوں کے پیچھے خواہش کی قوت ہے۔ خواہش سے سفر شروع ہوتا ہے۔ جس خواہش کو وقت پر کنڑول نہیں کیا جاتا تو وہی خواہش بڑھتے بڑھتے شہوت بن جاتی ہے۔ پھر اُس شہوت کو محبت مزید طاقتور بناتی ہے اور وہ ناقابلِ تسخیر بننے لگتی ہے۔
اِس سارے مرحلہ کے پیچھے نفس کی خواہش کی قوت تھی، جہاں سے اِس سفر کا آغاز ہوا تھا۔ اگر اُس پر قابو نہیں پاتے اور اُس کو جڑ سے نہیں کاٹتے تو یہ انسان پر غلبہ پالیتی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ برائی کو جڑ سے اکھاڑ دو، اُسی وقت اُس بُرائی کو ختم کر دو، اُس کو پودا نہ بننے دو کہ وہ پھلے پھولے اور درخت بن جائے۔ جب ہم خواہش کو شہوت بننے دیں گے اور بعد میں اس کو ختم کرنے کی کوشش شروع کریں گے تو یہ مشکل ہوگا اور اسے ختم کرنے کے لیے بڑا مجاہدہ درکار ہو گا۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے بندے! تو اپنے آپ کو اِتنی مشکل آزمائش میں کیوں ڈالتا ہے۔ نفس کو خواہش، رجحان اور میلان کی سطح پر روک لے بلکہ اُس سے بھی پہلے جب وہ محض ایک خیال تھا، اس خیال کو خواہش بننے سے روک لے تو اے بندے! تیرے لیے آسان ہوگا، ورنہ بات بڑھتے بڑھتے اگر شہوت تو دور کی بات ہے،خالی عادت بھی بن جائے تو پھر اس سے نجات پانا مشکل ہوجاتا ہے۔ عادت انسان کی فطرت کی طرح مضبوط ہو جاتی ہے جسے بندہ ختم نہیں کر سکتا اور پھر اُس کے بعد اگلے درجے آجائیں تو پھر اس سے چھٹکارا پانا مزید مشکل ہو جاتا ہے۔
ایمان بھی نصیب ہو، علم بھی حاصل ہو مگر نفس کو خواہش سے نہیں روکاتو کوئی فائدہ نہیں۔ نفس کو خواہش سے روکنا چونکہ نہایت مشکل ہے، اسی لیے اس مشکل کام کو انجام دینے والے کے لیے انعام کے طور پر جنت کا اعلان فرمایا کہ
فَإِنَّ الْجَنَّۃَ هِیَ الْمَأْوَی.
(النازعات، 79: 14)
یعنی جنت اُسی کا ٹھکانہ ہوگا، جس نے نفس کو ابتدائی stage یعنی خواہش کی سطح پر ہی کنڑول کر لیا۔ بندہ جب اپنے من میں جھانکتا ہے، مراقبہ کرتا ہے، اپنا موازانہ کرتا ہے، اپنے اندر غور وخوض کرتا ہے تو وہ خیال، خواہش، شہوت، عادت کے مابین فرق کرتا ہے۔ یہ مراحل جس قدر عبور ہوتے چلے جائیں گے بندہ مشکل میں پڑتا جائے گا۔ اس لیے جو شخص نفس کو خیال و خواہش کی سطح پر روک لیتا ہے وہ اتنا ہی بڑا مجاہد ہے اور اسی کے لیے جنت کا انعام ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ محض خواہش کو روک لینے پر اتنا بڑا انعام کیوں؟ اس لیے کہ نفس کو خواہش کی سطح پر کنٹرول کرنے کے بعد بندے کی اگلی زندگی طاعت، تابعداری، فرمانبرداری، نیکی اور عبادت گزاری کے لیے آسان ہو جاتی ہے۔ جو نفس کو خواہش اور ہوائے نفس کی پیروی سے روک دیتا ہے، اُس کے لیے نیکی کی زندگی آسان ہو جاتی ہے۔
4۔ تقویٰ کے حوالے سے فرمایا: بندہ جب نفس کو ’’ہوا‘‘ سے روکتا ہے تو اُس کا دل اِس قابل ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے دل کو تقویٰ کے لیے چن لے۔ یہ ایمان، علم، تزکیہ اور تقویٰ کے درمیان تعلق ہے۔ ارشاد فرمایا:
اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰی.
(الحجرات ،49: 3)
’’یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے چُن کر خالص کر لیا ہے‘‘۔
ایمان اللہ کو مان لینے سے آ گیا لیکن خالی ماننے سے کام نہیں چلتا، اس لیے کہ جو کام آپ کرنا چاہتے ہیں، اُس کام کو جانتے بھی تو ہوں، اسی جاننے کو علم کہتے ہیں۔ ماننا ایمان ہے اور جاننا علم ہے۔ پھر خالی مان لینے اور جان لینے سے بھی کام نہیں چلتا بلکہ پھر روکنابھی ہے۔ یعنی بدی کی ’’ہوا‘‘ سے نفس کو روکنا۔ جب بندہ اپنے نفس کو بدی کی ’’ہوا‘‘ سے روکتا ہے تو تب اس کا دل اِس قابل بنتا ہے کہ اللہ کی نگاہ اُس پر پڑے اور اللہ اُسے چن لے۔
پس ایمان، علم، تزکیہ کے بعد ہی انسان کا دل تقویٰ کے لیے چنا جاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ تقویٰ کے لیے بھی background میں کچھ کام چاہیے۔ تقویٰ کے لیے ایمان، علم اور ہوائے نفس سے روکنے کے لیے کوشش چاہیے۔ جب یہ تین چیزوں کو جوڑیں گے تو دل تقویٰ کے لیے چن لیا جائے گا۔
یاد رکھیں! ابھی تقویٰ آیا نہیں ہے، اُونچے درجے کا تقویٰ نہیں ملامگر دل کو چن لیا گیا ہے کہ ہاں یہ دل تقویٰ کے لائق ہے۔ تقویٰ چونکہ اللہ کا خزانہ اور اس کی ولایت ہے، اس لیے وہ اس کے لیے ایسا برتن (دل) چنتا ہے جو ایمان کے نور سے منور، علمِ نافع سے معمور اور خواہشاتِ نفسانیہ سے پاک ہو۔